فقہی مسائل: اسلام آسانیاں پیدا کرنے والا دین ہے

دارالافتاء منہاج القرآن

سوال: کسی بھی کام کے نہ کرنے پر شرعی دلیل مانگی جاتی ہے۔ اس کی وضاحت فرما دیں؟

جواب: اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دینی و دنیوی لحاظ سے زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اسلام نے رہنمائی نہ کی ہو۔ اشیاء کی تحلیل و تحریم (حلال و حرام قرار دینا) کے حوالے سے اسلام نے جو اصول تشریع مقرر کئے ہیں ان میں پہلا اصول یہ مقرر کیا ہے کہ اللہ تعالی کی پیداکردہ تمام چیزیں مباح ہیں۔ حرام اور واجب صرف وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت یا وجوب کے بارے میں صحیح اور صریح نص وارد ہو چکی ہو، اگر کسی شئے کی حرمت و وجوب کے حوالے سے صحیح اور صریح نص نہ پائی جاتی ہو تو وہ چیز مباح تصور کی جائے گی۔ یہ اصول صرف اسلام کے نظام قانون کا ہی اصول نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام نظام قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ اشیاء و افعال اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز ہیں، پھر ان اشیاء میں سے جو لازمی طورپر مطلوب یا ممنوع ہوتی ہیں خود ان کویا ان کی علت کو نصوص میں بیان کر دیا جاتا ہے ان کے علاوہ باقی اشیاء کو مباح کے طورپر مطلق چھوڑدیا جاتا ہے ۔ایسی مباح اشیاء کے کرنے یا نہ کرنے بارے میں لوگوں کو آزادی اوراختیار ہوتا ہے، اور ان کے کرنے یا نہ کرنے پر قانونی لحاظ سے کوئی مواخذہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین کی تشکیل میں کہیں بھی مباح امور کا احاطہ نہیں کیا جاتا بلکہ صرف لازمی وحرام امور کا احاطہ کیاجاتا ہے۔

اسلام آسان دین ہے، قدم قدم پربنی نوع انسان کو آسانیاں اور سہولتیں عطا کرتا ہے اس کے قانون سازی کے اصولوں میں قلتِ تکلیف ایک بنیادی اصول ہے۔ یہی وجہ ہے اس میں محرمات و واجبات کا دائرہ مباح اور جائز امور کے مقابلے میں تنگ اور محدود ہے، کیونکہ محرمات اور واجبات وہ امور ہوتے ہیں جن کا انسان لازمی طور پر پابند ہوتا ہے۔ فطری طور پر انسان چونکہ آزاد منش پیدا ہوا ہے، زیادہ پابندیوں سے کتراتا ہے اور آسانیوں کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، اس لئے اسلام نے واجبات و ممنوعات کے احکام کا غیر ضروری بوجھ انسان پر نہیں ڈالا بلکہ چند محدود اشیاء و امور جن کا کرنا یا نہ کرنا انسان کی دینی و دنیوی فلاح کے لئے نہایت ضروری تھا کا پابند ٹھہرایا اور باقی اشیاء کو انسانی اختیار پر چھوڑتے ہوئے مباح قرار دے دیا ہے ۔ یعنی اسلام کے مطابق زمین و آسمان کی تمام اشیاء بنی نوع انسان کے انتفاع کے لئے تخلیق کی گئی ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام اشیاء مباح الاصل ہوں سوائے ان اشیاء کے جن کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو پابند ٹھہرایا گیا ہے۔ اس تصور کو نظریہ اباحت اصلیہ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

نظریہ اباحت اصلیہ کو اصول فقہ اور قواعدفقہ کی کتابوں میں درج ذیل الفاظ سے بیان کیا گیا ہے:

الأصل في الأشياء الإباحة.

(ابن عبد البر، التمهيد، 4: 67، 143)

’’اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے۔‘‘

اگر ہم روز مرہ زندگی میں بھی دیکھیں تو یہی قاعدہ قابل عمل ہے ورنہ تو انسان کے لئے زندگی کا ہر ہر قدم مشکل بن کر رہ جائے۔ مثلاً ہم گھر سے نکلیں تو گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر یہ لکھا ہوا تلاش کرنا شروع کر دیں کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ ہم یہاں سے گزر سکتے ہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہاں کہیں کہیں یہ لکھا ہوا ضرور مل جائے گا کہ یہ راستہ فلاں مقام کی طرف جا رہا ہے یا پھریہ الفاظ اور علامات ملیں گی کہ یہ شارع عام نہیں ہے، No entry، یہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند ہے، بغیر اجازت اندر آنا منع ہے وغیرہ وغیرہ یا پھر گیٹ یا کسی بھی رکاوٹ سے راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔ یعنی ہر اس راستے سے گزرنے کی اجازت ہوتی ہے جہاں ممانعت کا کوئی نشان نہ پایا جائے۔ لہٰذا شریعت میں بھی کسی کام کے نہ کرنے کے لئے ممانعت کی دلیل ہونا ضروری ہے۔

سوال: اگر کسی شے کو حرام قرار دینا ہو تو اس کے لیے کن شرائط کا ہونا ضروری ہے؟

جواب: حرام کا لغوی معنی ممنوع، ناجائز اور روک دیا جانا ہے، ایسا فعل جس سے روکنا مقصود ہوتا ہے اس کو حرام کہا جاتا ہے۔(إبراهیم مصطفیٰ، المعجم الوسیط، 1: 16۹)

امام غزالی نے حرام کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

اَلْحَرَامُ هُوَ الْمَقُوْلُ فِيْهِ: أُتْرُكُوْهُ وَلَا تَفْعَلُوْهُ.

(غزالی، المستصفی، 1: 45)

حرام وہ شے یا فعل ہے جس کے بارے میں ترک کر دینے اور نہ کرنے کا صریح حکم آیا ہو۔

شیخ وہبہ زحیلی نے حرام کی تعریف اس طرح کی ہے:

اَلْحَرَامُ مَا طَلَبَ الشَّارِعُ تَرْكَهُ عَلَی وَجْهِ الْحَتْمِ وَالْإِلْزَامِ.

(وهبة الزحیلی، أصول الفقه، 1: 80)

حرام وہ فعل ہے جس کو شارع نے حتمی اور لازمی طور پر ترک کرنے کا مطالبہ کیا ہو۔

شریعت میں حرام اشیاء کو صرف ان کے مَفاسد اور خرابیوں کی وجہ سے حرام کیا گیا ہے، یہ فساد یا تو فعل کی ذات میں ہوتا ہے یا کسی خارجی امر کے ملنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر حرام کی دو اقسام ہیں:

  1. حرام لذاتہ
  2. حرام لغیرہ

حرام لذاتہٖ وہ حرام ہے، جسے شارع نے اس کے ذاتی ضرر اور مفاسد کی وجہ سے حرام کیا ہے۔ ایسے ضرر اور مفاسد جو کسی حال میں بھی اس سے جدا نہ ہوتے ہوں۔ مثلاً زنا، چوری، قتل، شراب نوشی اور ایسے ہی دوسرے اُمور جو ذاتی طور پر حرام ہیں کیونکہ ان کے مفاسد ہمیشہ برقرار رہتے ہیں، کبھی مرتفع، معطل یا معدوم نہیں ہوتے۔

حرام لغیرہ وہ حرام ہے، جو اپنی اصل ذات کے اعتبار سے مشروع ہو، کیونکہ اس میں کوئی ضرر اور فساد نہیں ہوتا ہے، یا اس کی منفعت غالب ہوتی ہے، مگر اس کے ساتھ کوئی ایسی چیز مل گئی ہو، جو اس کے حرام ہونے کا تقاضا کرے۔

مثلاً غصب شدہ زمین پر نماز پڑھنا، جمعہ کی آذان کے بعد بیع کرنا، عیدین کے دن روزے رکھنا، حرام ہیں، مگر اپنی اصل کے اعتبار سے حرام نہیں، بلکہ نماز، بیع اور روزہ اپنی اصل کے اعتبار سے مشروع اعمال ہیں، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، مگر بالترتیب مغصوبہ زمین، آذان ہو جانے اور عیدین کے ایام کی وجہ سے حرام ہو گئے ہیں۔ اس لیے اس حرمت کو ’حرمت لغیرہ‘ اور عمل کو ’حرام لغیرہ‘ کہا جائے گا کیونکہ کسی اور خارجی سبب نے فی نفسہ کسی جائز عمل کو حرام بنا دیا۔ لہٰذا یہ ’حرمت مؤقت اور عارضی‘ ہوتی ہے۔

حرام کے ثبوت کے ذرائع

حرام کے ثبوت کے درج ذیل پانچ ذرائع ہیں:

(1) لفظِ حرام اور اس کے مشتقات

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ وَبَنٰتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَخٰلٰتُکُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَاُمَّھٰتُ نِسَآئِکُمْ وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِھِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دخَلْتُمْ بِھِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلَآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّ اللهَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا.

(النساء، 4: 23)

’’تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں) پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

حُرِّمَتْ (حرام کر دی گئی ہیں) کا لفظ آیت میں مذکورہ عورتوں کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے پر دلالت کر رہا ہے۔

(2) نفی حلت

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد ہے:

فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهٗ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ.

(البقرہ، 2: 230)

’’پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرے۔‘‘

اسی طرح حدیثِ مبارک میں ہے:

لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِیءٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِطِيْبِ نَفْسٍ مِنْهُ.

(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 72، رقم: 20714)

ایک مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے دلی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے۔

مندرجہ بالا نصوص میں فَلَاتَحِلُّ اور لَایَحِلُّ کے الفاظ حلال ہونے کی نفی کر رہے ہیں۔ اس لیے تیسری طلاق کے بعد بغیر حلالہ کے بیوی حرام ہے اور کسی مسلمان کی مرضی کے بغیر اس کا مال کھانا بھی حرام ہے۔

(3) صیغہ نہی

ایسا صیغۂ نہی جو ایسے قرینہ سے خالی ہو، جو اس کو حرمت سے پھیر دے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ.

(الاسراء، 17: 31)

اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو۔

یہاں لَاتَقْتَلُوْا (قتل مت کرو) صیغۂ نہی ہے، جس سے فعل کا حرام ہونا ثابت ہو رہا ہے۔

(4) لفظِ اجتناب

ارشادِ فرمایا:

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ.

(الحج، 22: 30)

سو تم بتوں کی پلیدی سے بچا کرو اور جھوٹی بات سے پرہیز کیا کرو۔

اس آیت میں فَاجْتَنِبُوْا (پس تم پرہیز کرو) کے لفظ سے بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کا حرام ہونا ثابت ہو رہا ہے۔

(5) عقوبت کا تعین

وہ کام جس پر دنیوی یا اخروی سزا کا بیان ہو، وہ حرام ہے۔ مثلاً:

وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً.

(النور، 24: 4)

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں، تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اَسّی (80) کوڑے لگاؤ۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا.

(النساء، 4: 10)

بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں (صرف) آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے۔

مذکورہ بالا آیات میں چونکہ جھوٹی تہمت لگانے پر اَسی (80) کوڑے مارنے کا حکم ہے، جو کہ دنیوی سزا ہے اور یتیموں کے مال کھانے والوں کے لیے جہنم کی آگ کی وعید ہے، جو کہ اُخروی سزا ہے۔ چونکہ ان دونوں اَفعال پر سزا کا بیان ہے، اس لیے یہ اور اس قسم کے باقی اَفعال حرام ہوں گے۔