آج وطن عزیز پاکستان کو آزاد ہوئے 77 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ پوری قوم ہر سال جشن آزادی جوش و خروش سے مناتی ہے۔ اس پر مسرت موقع پر پورے ملک میں چراغاں کیا جاتا ہے۔ سرکاری عمارات کو بالخصوس برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے۔ پرچمائی کشائی کی جاتی ہے۔ سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں لیکن ہماری یہ تمام خوشیاں اس وقت بے رنگ اور بے معنی دکھائی دینے لگتی ہیں جب ہم اپنے وطن کا حال دیکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بطورِ قوم آزادی کے رنگوں میں وطن کی تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے رنگ بھی شامل کریں اور قیام پاکستان کے اساسی فکر ونظریہ کو نوجوانوں کے قلب و ذہن میں جاگزیں کریں۔ اس حوالے سے چند معروضات نذر ِقارئین ہیں۔
قیام پاکستان کی اساس
پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی اساس دو قومی نظریہ ہے۔ یہ وہی دو قومی نظریہ ہے جو ریاست مدینہ کے قیام کی بنیاد بنا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1944ء میں اسی دو قومی نظریہ کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا:
’’پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔‘‘
قائداعظم کی دور بین نگاہ ہندوستان میں ہندو اور مسلم کی تفریق کا بغور جائزہ لے چکی تھی۔ چونکہ آپ مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل سیاسی طور پر کانگریس میں رہ چکے تھے، اس لیے آپ جان چکے تھے کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلم الگ الگ نظریات کی حامل دو قومیں ہیں۔ ان کی بود و باش،طرزِ معاشرت، معیشت اور مذہبی اقدار و روایات بالکل مختلف ہیں۔ مسلمانوں کی اپنی تاریخ ہے جس کی بنیاد ریاستِ مدینہ سے ملتی ہے اور ہندوؤں کی الگ تاریخ ہے جو اگر چہ قدیم ہے مگر اس کی مسلمانوں کی تاریخ سے کوئی ہم آہنگی نہیں۔ قائد اعظم کانگریس کے دورِ حکومت میں ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ برا سلوک بھی دیکھ چکے تھے۔ سو انہیں شرح صدر تھا کہ ہندو کسی بھی طور مسلمانوں کو آزادی سے زندگی گزارنے نہیں دیں گے۔ یہی فکر وفلسفہ قیامِ پاکستان کی بنیاد تھا اور اس کا تصور شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے 1930ء میں الہٰ آباد کے خطبہ میں پیش کیا۔ علامہ محمد اقبالؒ کے نزدیک برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ان کے لیے الگ مملکت قائم کر دی جائے کیونکہ دونوں اقوام کا یکجا رہنا ناممکن ہے۔ یہ دونوں قومیں اکٹھے رہنے کے باوجود الگ الگ ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا الگ ملک ہونا چاہیے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی کتاب ’’اقبال کا خواب اور آج کا پاکستان‘‘ میں کہتے ہیں کہ علامہ اقبال کا خواب درحقیقت اس عظیم خواب کا تسلسل تھا جس کی ابتدا عہدِ نبوی ﷺ میں ہو چکی تھی۔ اس زمانے میں کچھ لوگ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے بغیر کسی تعارف کے فرمایا کہ تم لوگ سندھ سے آئے ہو؟ جس کا مطلب تھا کہ آپ کی اس سرزمین کی طرف توجہ تھی۔ آپ نے چند صحابہ کو ان کے ہمراہ تبلیغ اسلام کے لیے روانہ فرمایا۔ پھر ۱۵/۱۶ہجری میں عہد فاروقی میں اس خطے کی سرحدیں اسلامی ریاست کے ساتھ ملا دی گئی تھیں۔ حضرت امیر معاویہg کے عہد میں 42ھ میں اسلامی افواج لاہور تک پہنچ چکی تھیں۔ بلوچستان، قندھار، مکران اور گرد و نواح کے علاقے فتح ہو کر اسلامی ریاست کا حصہ بن چکے تھے۔ 92 ہجری میں جب محمد بن قاسم آئے تو انہوں نے ان بنیادوں کو مزید مستحکم کیا اور اشاعت اسلام کے سلسلے مزید آگے بڑھایا۔ علامہ اقبال اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ٹوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
امیر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
قیام پاکستان کی جدو جہد
تاریخ کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھا جائے تو قیام پاکستان کے لیے ہمارے آباؤ اجداد کی انتھک محنت،طویل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کی داستان نظر آتی ہے۔ سر سید احمدخان نے علی گڑھ کالج قائم کر کے مسلمانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔ انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کے ملی تشخص کی اہمیت پر زور دیا اور ان کی معاشی، معاشرتی اور تعلیمی حالت کو بہتر کرنے کی جدو جہد کی ۔ علامہ اقبال نے بیداریٔ شعور پر توجہ دی ۔ آپ نے نہ صرف اپنے اشعار کے ذریعے اسلامیان ہند میں بیداری کی لہر پیدا کی بلکہ ہندوستان کے طول و عرض میں پہنچ کر خطبات دیئے اور اکابر کو خطوط لکھے۔ علامہ اقبال شروع میں قائد اعظم کی طرح متحدہ جدو جہد کے قائل تھے مگر حالات و واقعات نے بہت جلد ان پر حقیقت آشکار کردی اور ان پر ہندو ذہنیت واضح کردی۔
ہندوستان میں مسلمانوں کو دوہر ی جنگ لڑنا پڑی۔ ایک فرنگی سے آزادی کی جنگ جسے تحریک آزادی کہا گیا جس میں ہندوستان کی تمام قومیں شامل تھیں اور دوسری مسلمانوں کے لیے الگ وطن پاکستان کے قیام کی جنگ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مسلمان قیادت کو دونوں محاذوں پر سرخرو کیا اور وہ انگریز سے آزادی حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے اور14 اگست 1947ء کو ایک الگ اسلامی ریاست کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ آج ہم آزاد وطن کی فضا میں سانس لے رہے ہیں مگر افسوس کہ ہم آزادی کی قدر و قیمت سے بے بہرہ ہیں۔ ہم نے نعمتِ آزادی کی قدر نہ کی اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو فراموش کر دیا۔
جمہوریت اور آمریت کا کھیل
بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے جس طرح اس وطن کی آزادی کے لیے بے مثال سعی کی تھی، اسی طرح اس کی تعمیر و ترقی اور بحالی کے لئے بھی اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کر دیں۔ شومئی قسمت داعی اجل نے انہیں زیادہ مہلت نہ دی اور وہ قیام پاکستان کے تھوڑا عرصہ بعد ہی 11 ستمبر 1948ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات کے بعد پاکستان سیاسی طور پر عدمِ استحکام کا شکار رہا۔ ان کی وفات کے فوراً بعد پاکستان کی باگ ڈور جاگیر داروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ ان بدخواہوں اور مفاد پرستوں نے پاکستان کا وہ حشر کر دیاکہ آج ہمیں قائد اعظم کے پاکستان کا محض عکس نظر آتا ہے اورحقیقی پاکستان کہیں کھو چکا ہے۔ پاکستانی عوام کے ساتھ جمہوریت اور آمریت کا کھیل کھیلا جاتا رہا۔ نام نہاد جمہوریت کے نام پر جاگیر دارے، وڈیرے اور سرمایہ دار اس ملک کی زمام اقتدار پر قابض رہے۔ کبھی عوام کو اقتدار میں شریک ہی نہیں کیا گیا۔ سیاست کے پجاری ریاست کو سیاست کی بھینٹ چڑھاتے رہے۔ بعض سیاستدانوں کی عاقبت نااندیشی کے نتیجے میں اس ملک کو آمریت کے بدترین دور سے بھی گزرنا پڑا۔
ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ آج سے77 سال قبل پاکستان انگریز کے تسلط سے تو آزاد ہوا مگر اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی غلامانہ ذہنیت سے آزاد نہیں ہوسکا۔ پاکستان کے 95 فیصد وسائل پر 5 فیصد جاگیر دار، وڈیرے اور سرمایہ دار قابض ہیں۔ ایک طرف عوام بھوک افلاس بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور دوسری طرف امراء کا یہ طبقہ ملکی وسائل کا مالک بنا پر تعیش زندگی گزار رہا ہے۔ غریب روٹی کے لقمے کو ترس رہا ہے اور ملک کے مقتدر طبقہ کے دستر خوان انواع و اقسام کے کھانوں سے آراستہ ہیں۔ غریب کے لئے سر چھپانے کو کٹیا بھی میسر نہیں اور امراء نے اپنے اوراپنی آنے والی نسلوں کے لئے بھی محلات کھڑے کر رکھے ہیں۔ الغرض پاکستان میں غریب روٹی، کپڑے اور مکان جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہونے کے باعث مر رہا ہے اور امیر کثرتِ مال وزر کے باعث ھل من مزید کی طلب میں مرا جا رہا ہے۔ پاکستان کی اس صورتحال کا ذمہ دار صرف ایک طبقہ یا جماعت نہیں بلکہ اس میں تمام طبقے اور جماعتیں حصہ دار ہیں ۔ ہرطبقہ کہیں نہ کہیں اس نظام کی خرابی کا ذمہ دار ہے۔
سیاستدان اس لئے ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے سیاست کو کھیل تماشا بنائے رکھا اور حقیقی قیادت فراہم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ انہوں نے قومی سیاست کو فروغ دینے کی بجائے گروہی، مسلکی، علاقائی، اور لسانی سیاست کو فروغ دیا۔ اسی طرح باقی شعبہ ہائے زندگی کی طرف سے بھی بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ۔ کسی نے ملک و قوم کا سرمایہ لوٹ کو بیرون ملک منتقل کرنے والوں کا راستہ نہیں روکا۔ عوام کے پیسوں پر عیاشی کرنے والوں کا احتساب نہیں کیا۔ ملک میں غربت ،بے روزگاری اور جہالت کا خاتمہ نہ کرنے والے حکمرانوں سے سوال نہیں کیا۔ کسی نے ملک سے دہشت گردی کے خلاف پالیسی وضع نہ کرنے پر نام نہاد جمہوری حکومت کو بے نقاب نہیں کیا۔ علمائے سوء نے پیٹ بھرنے کی خاطر فرقہ وارایت کو فروغ دیا۔ ہرشخص مہنگائی کی چکی میں پستا رہا ، نا انصافی، ظلم و ستم، خوف و ہراس اور بدامنی کے سائے میں جیتا رہا مگر کسی نے اس نظامِ جبر کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے ظالم کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی۔ نام نہاد مصلح باہمی رواداری کی پالیسی اختیار کر کے عوام کے حقوق کی پامالی کا تماشہ دیکھتے رہے اور ان کے زخم پر مرہم رکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ سیاسی جماعتوں کی کوشش یہی رہی کہ لوٹ مار پر مبنی اس جمہوریت کو چلنے دیا جائے کہ حالات خود بخود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ کچھ ضرورت سے زیادہ محتاط جمہوریت کے نام پر ہر سیا ہ و سفید کو صرف اس لئے برداشت کرتے رہے کہ مبادا ان کے کسی احتجاجی جلسے جلوس یا ریلی سے جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتر جائے۔
عدمِ توازن اور عدمِ مساوات
ہمارے ملک میں تقسیم دولت میں عدمِ توازن اور عدمِ مساوات کے باعث امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جار ہا ہے۔ اس تفاوت کو دورکرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک امیر لوگوں کے رہنے کے لیے بہت شاندار ہے، یہاں ان کی خدمت کے لیے غریبوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ان کے کھانے بنانے کے لیے باورچی، بچوں کی دیکھ بھال کے لیے آیائیں، ان کو گھمانے کے لیے ڈرائیور، فرش صاف کرنے کے لیے خاکروب اور ان کے گلاب کو کھلانے کے لیے مالی موجود ہیں۔ پھر، ان کے لیے خصوصی کلب، لوگوں کے رہنے کے لیے مخصوص علاقے، اعلیٰ سکول اور کالجز اور ہر قسم کی تکلیف دور کرنے کے لیے ہسپتال موجود ہیں۔ یہ خوشحالی کے جزیرے غربت کے گرداب میں مینار کی طرح چمکتے ہیں۔
امیر ہونا کوئی جرم نہیں ہے اور موقع ملے تو ہر کوئی امیر بننا چاہے گا لیکن مسئلہ عدمِ توازن کا ہے۔ اس ریاست میں اکثریت کا ایک بڑا حصہ غربت کی زندگی گزارتا ہے۔ پاکستان میں عدم مساوات کا یہ حال ہے کہ اوپر کے 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 42 فیصد کماتے ہیں اور نیچے کے 50 فیصد صرف 13 فیصد کماتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے حالیہ اندازے کے مطابق، 2024 میں پاکستان کی آبادی کا 40 فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے چلا گیا ہے۔
بچوں کے بارے میں کچھ اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں۔ یہ بات اکثر دہرائی جاتی ہے کہ 24 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں جو باعث شرمندگی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں سے 44 فیصد کی نشوونما وہ نہیں ہے جو ہونی چاہئے اور یہ بڑی حد تک نامناسب خوراک کی وجہ سے ہے۔
استحکامِ پاکستان کیونکر ممکن ہے؟
پاکستان کے پاس صلاحیت اور وسائل کی کمی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر موسم کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ اس کی جغرافیائی حدود بھی ہر حوالے سے مثالی ہیں۔ سمندر، خشکی، پہاڑ، جنگلات، میدانی علاقے الغرض ہر چیز اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح یہ ملک عظیم دفاعی جوہری توانائی کا بھی حامل ہے مگر اس کے باوجود ہم طرح طر ح کے مسائل کا شکار ہیں۔ پاکستان کا نظام مجموعی طور پر خرابی کا شکار ہے۔ اس نظام کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک یہ نظام درست نہیں ہوتا، پاکستان میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آسکتی۔ نظام انتخابات،نظام عدل،نظام تعلیم میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں تمام انتظامی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ کرپشن کا بازار گرم کرنے والے عناصر کا قلع قمع ہو سکے۔
ہرحکومت ایف بی آر اور دیگر اداروں کو ایک ہدف فراہم کرتی ہے۔ اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے وہ سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ہر بجٹ میں کوئی نہ کوئی نئے ٹیکس نافذ کر دیئے جاتے ہیں ۔ ان ٹیکسوں نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کی اہل ثروت کو ٹیکس کے دھارے میں لایا جائے اور ان سے ٹیکس وصولی کاشفاف نظام ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ٹیکس خزانے تک پہنچنے سے پہلے ہی خرد برد کا شکار ہو جائے۔ اس حوالے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کرایا جائے۔ عام آدمی جو بمشکل گھر چلاتا ہے اس پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنا سرے سے ناانصافی ہے۔
ہمارا ملک اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا جب تک یہاں لوٹ کھسوٹ کا بازار ختم نہیں ہوتا ۔ یہاں ایک کڑے احتساب کی ضرورت ہے۔ ہر آنے والی حکومت احتساب کا نعرہ لگاتی ہے مگر وہ نعرہ سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتا ہےاور احتساب کے ادارے حکومت کے آلہ کار بن کر ان کی خدمت پر مامور ہو جاتے ہیں۔
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
میں سمجھتا ہوں ایک مسلمان کے لیے مایوسی گناہ ہے ،وہ ماضی سے سبق سیکھتا ہے اور حال کے ذریعے اپنے مستقبل کی تعمیر کرتا ہے۔ الحمد للہ ہم مسلمان ہیں ۔ ہم قطعی طور پر مایوس نہیں۔ ہم اپنی نوجوان نسل سے پر امید ہیں ۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے ہمیشہ نوجوانوں کو قوم کا ہراول دستہ قرار دیا۔ آج کا نوجوان بیدار ہو چکا ہے۔ ہماری قوم کا نوجوان تعلیم یافتہ، ہنر مند اور باصلاحیت ہے۔ یہ نوجوان اگر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے تو یہ علامہ اقبال کے اس شعر کا مصداق کہلائے گا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
رہنمایان قوم اور ارباب اقتدار کا فرض بنتا ہے کہ نوجوانوں کی تربیت کریں۔ ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ملکی و غیر ملکی سطح پر مواقع فراہم کریں ۔ ان کی علمی و فنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں سہولیات فراہم کریں۔ ہمارے نوجوانوں میں وہ ہمت اور جذبہ ہے کہ یہ فضاؤں میں اڑ سکتا ہے،سمندر کا سینہ چاک کر سکتا ہے،فلک بوس پہاڑوں کو سر کر سکتا ہے۔ یہی نوجوان بہترین افراد بن کر ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کر کے قوم کے مقدر کو بدل سکتے ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو آگے لائیں، انہیں جدید علوم سے آراستہ کریں۔ اس کے دل میں اپنی مٹی کی محبت کا فلسفہ جاگزیں کریں تاکہ اس ملک کا ڈاکٹر انجنیئر، سائنسدان اور معیشت دان اپنی صلاحیتوں سے اغیار کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اپنے وطن کی خدمت کو ترجیح دے ۔ قلندر لاہوری نے کہا تھا:
اگر جواں ہوں میری قوم کے جسور و غیور
قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں!
علامہ اقبال ارمغان حجاز میں اپنی نظم بعنوان ’’ بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ میں نوجوانوں کو اپنی سرزمین کی قدر و قیمت اور اہمیت سے آشنا کرتے ہوئے اس سے جڑے رہنے کی نصیحت کرتے ہیں:
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر نہ دلی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا
وہ نوجوانوں کو قومی و ملی غیر ت و حمیت کا سبق دیتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں:
غیرت ہے بڑی چیز جہاں تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سرِدارا
کسی بھی قوم کا نوجوان اس قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ پاکستانی نوجوان پاکستان کا اثاثہ اور مستقبل ہیں۔ علامہ اقبال ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے اور اپنے اشعار میں ان سے مخاطب ہو کر ان کی ہمت اور ولولے کو جواں رکھتے۔ وہ نوجوانوں کو فکری طور پر آزاد دیکھنا چاہتے تھے:
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
میرا عشق میری نظر بخش دے
تجدیدِ عہدِوفا
14 اگست ہمارا یوم آزادی ہے۔ یہ دن تجدیدِ عہد و وفا کا دن ہے۔ اس دن ہم میں سے ہر ایک نے ایک پاکستانی کی حیثیت سے عہد کرنا ہے کہ میں وطن عزیز کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا ۔۔۔ ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دوں گا۔۔۔ میں علم و ہنر کی شمع لے کر وطن عزیز میں موجود تاریکیوں کو اجالوں میں بدلوں گا۔۔۔ میں اس دھرتی کے ساتھ وفادار رہوں گا اوراپنے بزرگوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دوں گا۔ انہوں نے اپنے خون سے اس وطن کی بنیاد رکھی تھی میں اپنے خون سے اس وطن کی آبیاری کروں گا۔ یہ ہے وہ عزم و ہمت جو ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہونی چاہیے۔ کیونکہ پاکستان ہمارے دل کی دھڑکن ہے، پاکستان ہماری جان ہے پاکستان ہماری آن بان اور شان ہے۔ اس موقع پر ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جنا حؒ کے احسان مند ہیں اور ابصار عبدالعلی کے منظوم کلام کی صورت میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
تو باب قیادت ہے معیار سیاست ہے
توقیر فراست ہے تو حسن صداقت ہے
تو قوم کا سرمایہ تو قوم کی عظمت ہے
تو کتنا بڑا انسان اے بانیئ پاکستان
تو قائد اعظم ہے تو جہد مجسم ہے
شعلوں پہ مسائل کے تدبیر کی شبنم ہے
آزادیٔ پاک وطن تیری کاوشِ پیہم ہے
وطن کے لیے دعا
اہل حکومت و سیاست کی مکاریوں اور فریب کاریوں کی وجہ سے میرے وطن کا یہ حال ہے میں رب قادر سے احمد ندیم قاسمی کی اس دعائیہ نظم کے ذریعے اس کی خوشحالی کی دعا کرتا ہوں:
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سروقاروطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوج کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو