القرآن: حجیتِ حدیث و سنت قرآن مجید کی روشنی میں (حصہ پنجم)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

مضمون کے گذشتہ حصص کے مطالعہ کے مطلوبہ حصے پر کلک 🖱️ کریں:

حصہ اوّل

حصہ دوم

حصہ سوم

حصہ چہارم

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

یٰۤاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوْا اللہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ.

(النساء، 4: 59)

’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو۔‘‘

زیرِ نظر مضمون میں ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں عقائدِ صحیحہ کے باب میں عقائد کی پرکھ، جانچ پڑتال، صحیح عقائد کو غلط عقائد سے ممتاز کرنےاور عقائد کی صحیح اور غلط تعبیر و تشریح میں فرق کرنے کے اصول و ضوابط کامطالعہ کررہے ہیں۔ اس مضمون کے حصہ: 4 (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن ماہ جولائی24ء) میں ہم نے اس methodology (طریقہ کار) پر باقاعدہ بات کا آغاز کیا تھا اور اس ضمن میں پہلا نکتہ یہ زیرِ غور آیا کہ آج لا دینیت چاہنے والے، اپنی زندگی کو دین سے عملاً خالی رکھنے والے اور دین کی حدود و قیود اور احکام سے گریز کرنے والے لوگ اس بات کا پرچارکررہے ہیں کہ ہم صرف وہ مانیں گے جو قرآن مجید میں آیا ہے اور اس کے سوا کوئی اور چیز یعنی سنت اور حدیث کو حجت نہیں مانتے۔ اس حوالے سے وہ مختلف اسباب کو بطورِ بہانہ بیان کرتے ہیں۔ اگر یہ عقیدہ بنا لیا جائے کہ صرف قرآن کافی ہے اور قرآن کے سوا اور کوئی شے یعنی سنت اور حدیث نبوی حجت نہیں تو اس سے نہ صرف قرآن مجید کاانکارلازم آتاہے بلکہ پورے دین کا انکار ہوجاتا ہے۔ اس سوچ اور عمل سے دین ایک کھلونا بن جاتاہے اور آیاتِ کریمہ کی تاویلاتِ باطلہ کا راستہ کھل جاتا ہے۔

قرآن مجید میں تقریباً ڈیڑھ سو آیات ایسی ہیں جن سے حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت، سنت، اسوۂ حسنہ، فرامین و ارشادات، آپ ﷺ کے فیصلے اور آپ ﷺ کے حکم کا فرض اور واجب ہونالازم آتاہے۔ پس ’’صرف قرآن ہی کافی ہے‘‘، اس ایک جملے کے کہنے سے قرآن مجیدکی ان ڈیڑھ سو آیات کا انکار ہوجاتا ہے۔ نہ صرف ان ڈیڑھ سو آیات کریمہ بلکہ ان آیات کے علاوہ بھی احکام و عقائد کے باب میں قرآن مجید کی سیکڑوں تعلیمات کا کوئی مفہوم اور مراد متعین ہی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ ہر شخص ان آیات کی من مانی تاویل کرکے ان کی تضحیک کرے گا، انھیں تختِ مشق بنا لے گا اور اس طرح دین اسلام کا کُلی طور پر انکار ہو جائے گا۔

بطور نمونہ چند آیات ملاحظہ ہوں جن سے واضح ہوگا کہ محض قرآن مجید ہی کو حجت ماننے سے کس طرح کی آیا ت کا انکار لازم آتا ہے:

اطاعتِ رسول ﷺ کا الگ وجود اور اتھارٹی

اللہ رب العزت نے فرمایا:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوْا اللہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ.

(النساء، 4: 59)

’’ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اَہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے محبوب ﷺ کی اطاعت کا حکم دیتے ہوئے اس آیت کریمہ کے درمیان’’واؤ عاطفہ‘‘ لگائی ہے۔ واؤ عاطفہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دو الگ الگ چیزوں کو بیان کیا جارہا ہے۔ مثلاً: اگر کوئی یہ کہے کہ اپنے والدین کا ادب کرو اور اپنے اساتذہ کا ادب کرو۔ تو اس کا مطلب واضح ہے کہ والدین اور استاد الگ الگ رشتے ہیں اور دونوں کے ادب و احترام کا حکم دیا جارہا ہے۔ اس کا معنی یہ نہیں لے سکتے کہ کہنے والا تو والدین کا ادب کرنے اور اساتذہ کا ادب کرنے کا کہہ رہا ہے اور سننے والا کہے کہ ’’والدین کا ہی ادب کرو، وہی اساتذہ ہوتے ہیں اور پھر اساتذہ کے احکامات ماننے سے انکار کردے کہ ان کے ادب کا حکم نہیں دیا، اساتذہ سے مراد والدین ہی ہیں۔‘‘ تو یہ طرزِ عمل درست نہ ہوگا بلکہ اس کی سینہ زوری اور مذاق کہلائے گا۔اسی طرح اگر کوئی کہے کہ عمر اور ابوبکر مجھے ملنے آئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوآدمی آئے، ایک کا نام عمر ہے اور ایک کا نام ابو بکر ہے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو ایک آدمی آیا، وہی عمر ہے اور وہی ابوبکر ہے۔

اسی طرح مذکورہ آیت کریمہ میں واؤ عاطفہ استعمال کرکے واضح فرمادیا کہ اللہ کی اطاعت کا اپنا الگ وجود ہے اور رسول کی اطاعت کا بھی اپنا الگ وجود ہے۔ یہاں واؤ بیانیہ نہیں ہے جو پہلے بیان کردہ کی تفصیل اور تبیین کے لیے آتی ہے بلکہ واؤ عاطفہ ہےجس سے دو چیزوں کا فرق واضح ہوتا ہے۔

پھر ارشاد فرمایا: وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ یعنی اُن کی بھی اطاعت کرو جو تمہارے امراء ، ائمہ اور پیشوا ہیں۔ ان کے لیے لفظ أطِیْعُوْا کو نہیں دوہرایا۔ اس لیے کہ اُن کی اطاعت مشروط ہے۔ پس اس آیتِ کریمہ میں واؤ عاطفہ کے ساتھ تین الگ الگ طاعات کے حکم دیے:

1۔ اللہ کی اطاعت

2۔ رسول کی اطاعت

3۔ اولی الامر کی اطاعت

جب واؤ عاطفہ لگتا چلا گیا تو اب three in one نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا کیا تو یہ اس آیت کا کھلا انکار ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک قرآن مجید میں موجود اس کے احکام کے سوا کوئی شے حجت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اَطِیْعُوا اللہَ اور اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کو الگ الگ بیان نہ فرماتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تو وہ ہو گیا جو قرآن مجید میں ہے تو پھر رسول کا حکم کون سا ہے۔۔۔؟ اگر رسول کا حکم بھی وہی ہے جو قرآن مجید میں ہے تو دوبارہ أطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ کہنے کی ضرورت کیوں ہے۔۔۔؟ اگر اطاعتِ رسول کا حکم بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت آگیا تو اطیعوا الرسول نہ کہا جاتا اور اَطِیْعُوا اللہَ کہنا ہی کافی ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کی شکل میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہمارے سامنے رکھ دیا ہے اور اَطِیْعُوا اللہَ کہنے سے بات پوری ہوگئی ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم اور قرآن مجید کی حجت واضح ہوگئی ہے تو اب ’’اطیعوا الرسول‘‘کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں تھی۔

قرآن مجید کے اس اسلوب سے معلوم ہوا کہ اگررسول کے حکم کا الگ سے کوئی وجود اور اتھارٹی نہ ہوتی تو اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کو الگ سے کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ پس اطاعتِ رسول بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرح اپنا ایک الگ وجود اور اتھارٹی رکھتی ہے۔ اطاعتِ الہٰی کاالگ ذکر اور اطاعتِ رسول کا الگ ذکرکرنا، معاذاللہ بے معنی نہیں ہے۔ قرآن مجید کے ایک ایک لفظ کا ایک معنی، مراد اور ضرورت ہے۔ پس یہ کہنا کہ قرآن مجید کے سوا کوئی شے حجت اور ضروری نہیں ہے، یہ اس آیت مبارکہ کا کھلا انکار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ میرے حکم کی بھی ضرورت ہے اور میرے رسول کے حکم کی بھی ضرورت ہے اور ہم کہہ رہے ہیں کہ رسول کے حکم اور اطاعت کی ضرورت نہیں ہے۔پس ایسا کہنا کفر ہے۔

  • ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا.

(الحشر، 59: 7)

’’اور جو کچھ رسول (ﷺ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو۔‘‘

اللہ رب العزت نے اس آیت میں بھی واضح طور پر حضور علیہ السلام کے حکم، سنت اور حدیث کی حجیت کو بیان کردیا۔ یہ کہنا کہ قرآن مجید کے سوا ہم کسی شے کو نہیں مانتے، کوئی حجت نہیں ہے‘‘، ایسا کہنا اس آیت کا بھی انکار ہے اور صریح کفر ہے۔

اطاعتِ رسول ﷺ کے بغیر اطاعتِ الہٰی ممکن نہیں

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ.

(النساء، 4: 80)

’’جس نے رسول (ﷺ) کا حکم مانا، بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے ایک بنیادی فلسفہ عطافرمایا ہے کہ اُس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننا ممکن ہی نہیں ہے جو پہلے رسول کے حکم کو نہیں مانتا۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ’’آج رسول اللہ ﷺ کے زمانے کو چودہ سو سال گزر گئے، لہذا صرف اللہ کا فرمان حجت ہے اور رسول کی حدیث و سنت، فرمان، آپ ﷺ کا اسوۂ و سیر ت اور آپ ﷺ کے فیصلے میرے لیے حجت نہیں‘‘، تو ایسا کہنے والا اللہ تعالیٰ کے مذکورہ فرمان کا انکار کرنے والا ہے۔ اس لیے کہ وہ تو فرماتا ہے کہ میرے فرما ن اور حکم کو وہی شخص مانتاہے جو میرے رسول کا فرمان اور حکم مانے۔۔۔ میری اطاعت وہی شخص بجا لاتا ہے جو پہلے میرے رسول کی اطاعت بجالائے۔۔۔ میرے رسول کی اطاعت بجا لائے بغیر میری اطاعت ہی نہیں ہے۔۔۔ اور رسول کا حکم مانےکے بغیرمیرے حکم کا ماننا ممکن ہی نہیں۔

پس اللہ رب العزت نے ایک فارمولا اور اصول دے دیا کہ میرے حکم کو ماننے کا معنی ہی یہ ہے کہ پہلے رسول کے حکم کو مانا جائے۔ حدیث و سنت کو پہلے حجت مانیں گے تب قرآن مجید کا حجت ماننا قبول ہوگا۔ پس ایسا کہنا کہ ’’قرآن کے سوا کوئی شے حجت نہیں‘‘، یہ اس آیت کریمہ کا بھی انکار ہے۔

انبیاء و رسل کی بعثت کا مقصد ان کی اطاعت بجا لانا ہے

اللہ رب العزت نے فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ.

(النساء، 4: 64)

’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ ہم رسولوں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ اللہ کے اذن سے لوگ اُن کے حکم کو مانیں۔۔۔ اُن کی اطاعت کریں۔۔۔ اُن کے اسوہ کی پیروی کریں۔۔۔ اُن کے ہر ارشاد پر عمل پیرا ہوں۔۔۔ اُن کے حکم ، فرمان ، عمل اور تعلیمات کو حجت اور واجب سمجھیں اور اپنی زندگی میں اپنائیں۔

اگر یہ کہا کہ ’’قرآن کے سوا کوئی شے حجت نہیں ہے‘‘ تو ایسا کہنا اس آیت کا بھی کھلا انکار ہوگیا۔ اس لیے کہ کیسی عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ نبی علیہ السلام کے اقوال و افعال حجت ہیں اور ہم کہہ رہے ہیں کہ نہیں، صرف اللہ کا کلام حجت ہے۔ اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے کلام اور قرآن مجید کو واقعتاً حجت مانتے تو جو قرآن مجید نے کہا ہے، اُس کو حجت سمجھتے۔ یہ قرآن مجید ہی تو کہہ رہا ہے کہ رسولوں کو اس لیے بھیجا جاتا ہے کہ اُن کو حجت سمجھاجائے اور اُن کے فرمان اور سنت و حدیث کوواجب سمجھا جائے۔ قرآن مجید کو حجت سمجھنے والے قرآن مجید کے اس فرمان کو بھی تو مانیں کہ قرآن مجید کہہ رہا ہے کہ جس نے رسول کے حکم کوحجت مانا اور واجب جانا، اُسی نے اللہ تعالیٰ کے حکم کوحجت مانا۔

اسوۂ حسنہ پر عمل آپ ﷺ کو حجت مانے بغیر ممکن نہیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ.

(الاحزاب ، 33: 21)

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہئِ (حیات) ہے۔‘‘

اللہ رب العزت کا یہ خطاب غیر مسلموں کے لیے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے لیے ہے۔ قرآن مجید ان سے مخاطب ہے جو لَکُمْ میں آتے ہیں کہ قرآن مجید پر ایمان لانے والے سن لیں کہ قیامت تک آقا علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ، ارشادات و فرمودات اورجو کچھ آپ ﷺ نے عمل کیا، یہ تمام تمہارے لیے خوبصورت طرزِ زندگی ہے۔ قرآن مجید نے جسے قیامت تک امتِ مسلمہ کے لیے ماڈل قرار دیا، اسی کو ہم کہیں کہ وہ حجت ہی نہیں تو اس طرح کی سوچ رکھنے والوں نے رسول اللہ ﷺ کا انکار نہیں کیا بلکہ اس آیت کا بھی انکار کردیا اور قرآن مجید کا بھی انکار کردیا۔

حبِ الہٰی کا حصول بھی رسول اللہ ﷺ کو حجت ماننے سے ہی ممکن ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ۔

(آل عمران، 3: 31)

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘

اس آیت کریمہ میں قرآن مجید نے ایک شرط لگا دی کہ اگرتم حضور علیہ السلام کی اتباع نہیں کرو گے، آپ ﷺ کے ہر حکم اور ہر عمل کو اپنے لیے واجب نہ جانو گے اور اسے اپنی زندگی میں نافذ نہ کرو گے تونہ تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے ہو اور نہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے والا ہے۔

یہ کہنا کہ ’’قرآن مجید کے سوا کوئی شے حجت نہیں، ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں‘‘ایسا کہنے والے اس آیت کریمہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہے کہ اس کی محبت کے حصول کا راز ہی رسول اللہ ﷺ کی سنت و حدیث کو حجت ماننے اور آپ ﷺ کی اتباع و اطاعت کرنے میں ہے۔

رسول اللہ ﷺ کو حجت ماننے میں تکمیلِ ایمان ہے

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.

(النساء، 4: 65)

’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔‘‘

اس آیت کریمہ میں بھی دل و جان اور شرحِ صدر کے ساتھ آقا علیہ السلام کے حکم اور حاکمیت کو واجب جاننے، اتھارٹی اور حجت ماننےاور آپ ﷺ کے ہر حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے کا واضح حکم موجود ہے کہ حکمِ مصطفی ﷺ پر ایسے جھک جاؤ کہ انکا ر کی مجال نہ رہے۔

یہ چند آیات ہیں جو ایمان اور عقا ئد کے درست اور غلط ہونے کی پرکھ کے لیے پیمانہ ہیں۔ اسی طرح کے ڈیڑھ سو مقامات پر قرآن مجید یہی بات اسلوب بدل بدل کر کہہ رہاہے اور پھر بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم صرف قرآن مجید کو حجت مانتے ہیں۔ اگر یہ لوگ قرآن مجید کے احکام کو حجت مانتے تو قرآن مجید جس سنت و حدیث اور اسوۂ و طرزِ حیات کو واجب قرار دے رہا ہے اور اپنی محبت کا ذریعہ بنا رہا ہے، اسے بھی اسوہ اور حجت مانتے۔ قرآن مجید کے ان صریح ارشادات کے بعد حجتِ سنت و حدیث کے انکار پر مبنی فتنے کی جڑ کٹ گئی۔ معلوم ہوا کہ محض یہ کہنا کہ ’’صرف قرآن کافی ہے‘‘، یہ گمراہی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ ’’قرآن و سنت کافی ہے اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم کافی ہے۔‘‘ قرآن مجید کو سنت سے جدا کرنا کفرہے۔ یہ دونوں لازم وملزو م ہیں۔ قرآن مجید کو سنت سے جدا نہیں کیا جاسکتا ا ور سنت کو قرآن مجید سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

حضور علیہ السلام کی اطاعت، آپ ﷺ کے حکم کی حجیت اور آپ ﷺ کے حکم کا وجوب ہمارے اوپر اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا واجب ہے۔ صرف قرآ ن مجید کو حجت ماننا اور رسول کی حدیث و سنت کو حجت نہ ماننا، اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ ’’میں لَا إلٰہَ إلَّا اللہُ پڑھتا ہوں اور اسے حجت مانتا ہوں مگر مَحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کو حجت نہیں مانتا، اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں لَا إلٰہَ إلَّا اللہُ تک پہنچاناتھا، اللہ کی معرفت دینی تھی، توحید سے آشنا کروانا تھا اور شرک سے نکالنا تھا۔ ان کے ایسا کرنے کے بعد اب آپ ﷺ کی ضرورت نہیں رہی۔َلا إلٰہَ إلَّا اللہُ کا جو پیغام ہمیں انھوں نے دینا تھا، وہ دے گئے، یہی کافی ہے، اب ہمیں آپ ﷺ کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ یاد رکھیں! ایسا کہنے والا کافر ہوگا۔ اس کو لَا إلٰہَ إلَّا اللہُ کبھی نفع نہیں دے گا، چونکہ دین اسلام کا کلمہ محض لَا إلٰہَ إلَّا اللہُ نہیں ہے بلکہ کامل کلمہ لَا إلٰہَ إلَّا اللہُ مَحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ہے۔ جس طرح مَحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کو لَا إلٰہَ إلَّا اللہ سے جدا نہیں کرسکتے اور اس کے وجوب کا انکار نہیں کرسکتے اور فقط لَا إلٰہَ إلَّا اللہ پر اتفاق کر کے مومن و مسلمان نہیں ہو سکتے، اسی طرح حدیث و سنت اور سیرتِ رسول ﷺ کی حجیت و اطاعت کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ کے فرمان اور قرآن مجید کی حجیت کو نہیں مان سکتے۔ ایساکرنا کفر ہوجائے گا اور ایسا کرنا دین کو ٹکڑے کر دینا ہوگا۔توحید پر عقیدہ رکھا مگر رسالت کا انکار کردیا تو اس رویہ سے ایمان مکمل نہیں ہوا۔ توحید اور رسالت کو الگ نہیں کیا جا سکتا، ان کو جوڑیں گے تو عقیدہ بنے گا۔ اطاعتِ الٰہی اور اطاعت رسول۔۔۔ حجیتِ قرآن اور حجیتِ سنت۔ ۔۔وجوبِ احکامِ قرآن اور وجوبِ احکامِ حدیث کوجوڑ کر اکٹھا مانیں گے تو صاحبِ ایمان ہوں گے۔

ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کا ایک ساتھ ذکر حجیتِ حدیث و سنت کی دلیل ہے

یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن مجید نے تنہا ایمان باللہ کا ذکر نہیں کیا بلکہ ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کو اکٹھا رکھا ہے۔ یہیں سے اطاعت و حکمِ الٰہی اور اطاعت و حکمِ رسول ﷺ کے وجوب اور ان دونوں کو اکٹھا کرنے کا تصور نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ.

(النساء، 4: 136)

’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (ﷺ) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (ﷺ) پر نازل فرمائی ہے۔‘‘

اس آیت میں مخاطب مومن ہیں، کفار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ایک خطاب کفار کو ہوتاہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ یہ خطاب انہیں کفر سے نکالنے کے لیے ہوتا ہے کہ اللہ اوراس کے رسول دونوں پر ایمان لاؤ گئے تو کفر اور شرک سے نکلوگے لیکن مذکورہ آیت میں خطاب مومنین سے کیا جارہا ہے کہ یٰۤـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰ مِنُوْا، اے ایمان والو! ایمان لاؤ۔ سوال یہ ہے کہ جو پہلے ہی اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لا چکے، توحید و رسالت کی شہادت دے چکے، کفرو شرک سے نکل چکے اور مومن ہوچکے ہیں، انھیں ایمان لانے کا کہنا، کیا معنی رکھتا ہے؟ جو پہلی ہی ایمان لاچکے، اب اُن کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے اتنا کہہ دینا ہی کافی تھا کہ اے ایمان والو! کامل توکل اختیار کرو، تقویٰ کے پیکر بنو، اللہ کی بندگی اختیار کرو، مگر اللہ رب العزت نے یہ نہیں فرمایا بلکہ انھیں مومن بنا کر بھی ایمان باللہ اور ایمان بالرسول دونوں پر ایمان لانے کا کہا جارہا ہے اور فرمایا جارہا ہے کہ اے ایمان والو! تم ایمان والے نہیں رہو گے، اگراللہ اور اُس کے رسول پر کامل ایمان نہیں لاؤ گے۔ پہلے ’’ایمان والا بننے کے لیے‘‘ کفرو شرک سے نکلنا ہوگا اور اللہ اور اُس کے رسول پر کامل ایمان لانا ہوگا اور پھر ’’ایمان والا رہنے کے لیے‘‘ ایمان لانے کے بعد اللہ اور اُس کے رسول کو کسی بھی مرحلہ پر جدا نہیں کرنا ہوگا۔

پھر فرمایا کہ: وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ یعنی اُس کتاب پر بھی ایمان لاؤ جو اللہ نے اپنے رسول پر اتاری۔ یہ نہیں کہا کہ جو اللہ نے اتاری بلکہ فرمایا کہ عَلٰی رَسُوْلِہٖ جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے۔ یعنی اس کتاب کے قرآن ہونے کی شناخت بھی رسو ل نے دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید پر ایمان لانے سے پہلے رسول پر ایمان لانے کو مقدم رکھا۔

اسی بات کو ایک اور انداز میں سورۃ الفتح میں یوں ارشاد فرمایا:

اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاھِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا. لِّتُؤْمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ.

(الفتح، 48: 8-9)

’’بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ (اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور آپ(ﷺ کے دین) کی مدد کرو۔‘‘

ان آیات سے واضح ہورہا ہے کہ پورا ایمان حضور علیہ السلام کی ذات کے اردگرد گھومتا ہے۔ جس ذات کے فرمان کی حجیت کا انکار کیا جارہا ہے اور فتنے بپاکیے جارہے ہیں، اللہ نے ایمان کو ان ہی کی ذات اور شان و مقام پر منحصرکردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شاہد، مبشر اور نذیر بناکر بھیجا اور ساتھ ہی اس امر کی تصریح بھی فرمادی کہ یہ شانیں کیوں عطا فرمائیں؟ تاکہ تم اللہ پر ایمان لاؤ اور اللہ کے رسول پر ایمان لاؤ اور اُس رسول کی مدد کرو، اُس کے ہر حکم کو مانو، اُس کے دین کو سر بلند کرو اور اس کی حد سے بڑھ کر عزت و احترام اور توقیر بجا لاؤ۔ اُن کے کسی فرمان، شان، اطاعت، حکم، ادب اور اُن کے دین کی مدد کو کم نہ جانو۔

ایمان اور ہدایت اتباع رسول ﷺ کے ساتھ مشروط ہے

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

فَاٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَکَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ.

(الاعراف، 7: 158)

’’سو تم اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لاؤ جو شانِ اُمیّت کا حامل نبی ہے جو اللہ پر اور اس کے (سارے نازل کردہ) کلاموں پر ایمان رکھتا ہے اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاسکو۔‘‘

اس آیت سے بھی واضح ہورہا ہے کہ قرآن مجید نے صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا کبھی کافی نہیں سمجھا۔ جب تک بندہ رسول پر ایمان نہ لائے، رسول پر ایمان لانے کے تقاضے پورے نہ ہوں تو اس کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے قرآن مجید اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اس کے رسول پر بھی ایمان لانے کا حکم دے رہا ہے۔

پھر واضح فرمادیا کہ کون سے نبی؟ فرمایا: النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وہ نبی جو دنیا کے کسی استاد سے پڑھ کرنہیں آئے بلکہ سب کچھ اللہ سے پڑھ کر آئے ہیں۔ اُن کا معلّم فقط اللہ ہے۔ وہ پوری دنیا میں ہر صاحبِ علم سے بلند ہیں۔ وہ سب کے معلّم اور رہبر ہیں۔ اُس نبی امی پر ایمان لاؤ جو اللہ کے تمام کلاموں کو مانتا اور اُن پر ایمان رکھتا ہے۔

پھر فرمایا: وَاتَّبِعُوْہ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ۔ اور ان کی اتّباع اور کامل پیروی کرو، اُن کی سنت طیبہ اور فرامین کے ہر ہر پہلو کو اپناؤ اور اُن کی زندگی کے ہرگوشے کو اسی طرح واجب جانو، جیسے اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن مجید ہے۔ ایسا کرنے سے ہی تمہیں ہدایت نصیب ہوگی۔

اتباع کیا ہے؟ آقا علیہ السلام کے ہر حکم ، ہر عمل، اسوۂ حسنہ اور حیات طیبہ کے جملہ اعمال و احوال اور اخلاق و فرامین کو واجب جاننے اور اپنانے کو اتباع کہتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے یہاں ہدایت کو حضور علیہ السلام کی اتباع، حدیث و سنت نبوی اور اسوۂ رسول کے واجب ہونے سے مشروط کردیا کہ تم ہدایت نہیں پا سکتے اگر رسول کی اتباع نہیں کرو گے۔ پس ہدایت اتباعِ رسول ﷺ کے ساتھ مشروط ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ اتباع رسول ﷺ کے بغیر ہدایت ممکن ہی نہیں ہے۔ جو اتباعِ رسول کو حجت اور واجب نہ جانے وہ ہدایت یافتہ نہیں بلکہ گمراہ ہے۔ ان تمام آیاتِ کریمہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہرجگہ ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کو یکجا کیا اور ایمان بالرسول میں اتباعِ رسول کو اس کا حصہ بنایا۔ اتباعِ رسول کے بغیر اگرچہ ایمان باللہ کا نعرہ بلند کرتے رہیں اور کلمہ پڑھتے رہیں مگر ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتے۔ جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع نہیں کریں گے، ہدایت مقدر نہیں بن سکتی۔

ایمان اور ذاتِ مصطفی ﷺ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنا احسان قرار دیا

قرآن مجید کا مطالعہ اس امر پر شاہد ہے کہ اللہ رب العزت نے دو چیزوں کا نام لے کر انھیں اپنی خاص نعمت قرار دیا ہے کہ یہ میرا احسان ہے۔ نعمتیں تو بے شمار ہیں، ہر عنایت اور ہر نعمت اللہ کی رحمت ہے، زندگی اللہ کی نعمت ہے، راحت اللہ کی نعمت ہے مگر اللہ رب العزت نے کسی بھی نعمت پر اپنا احسان نہیں جتلایا صرف دو نعمتوں کا نام لے کرفرمایا کہ یہ تم پر میر ا احسان ہے:

1۔ ایک چیز حضور علیہ السلام کی ولادت اور بعثت ہے، جس کے بارے میں فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً.

(آل عمران، 3: 164)

’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (ﷺ) بھیجا۔‘‘

2۔ دوسرے مقام پر 'ایمان' کو اللہ نے اپنا احسان قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْ بَلِ اللہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ.

(الحجرات، 49: 17)

’’یہ لوگ آپ پر احسان جتلاتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ہیں۔ فرما دیجیے: تم اپنے اسلام کا مجھ پر احسان نہ جتلاؤ بلکہ اللہ تم پر احسان فرماتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا ہے، بشرطیکہ تم (ایمان میں) سچے ہو۔‘‘

گویا حضور علیہ السلام کے وجودِ مسعود، آپ کی ولادت مبارکہ، آپ کی بعثت طیبہ، آپ کے بطورِ نبی دنیا میں تشریف لانے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا احسانِ عظیم کہا ہے۔اللہ تعالیٰ جس ہستی کو دنیا میں مبعوث کرنا اپنا احسان قرار دے، اگر اس ہستی کو حجت نہ مانا جائے تو پھر ایمان کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

(جاری ہے)