پاکستان کا معاشی بحران اور ٹیکس سسٹم

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

ملک و قوم کے دفاع، انتظامی امور کی تکمیل اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے دنیا کی ساری حکومتوں کو مختلف قسم کے محاصل (ٹیکس) کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ٹیکس ملکی معیشت کے لیے ناگزیر ہیں۔ ٹیکس کسی بھی مہذب معاشرے کے طرزِ حیات کی قیمت ہوتی ہے۔ شہریوں کو قابلِ عمل منصوبہ بندی اور معاشی و معاشرتی ترقی کے لیے ٹیکس ادا کرنا ہوتے ہیں۔ حکومتِ وقت مختلف طبقات، افراد، اشیائے خوردونوش، کاروباری فرموں اور صنعتوں پر ٹیکس عائد کرتی ہے۔

اس حوالے سے یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ جبری اور ناروا نوعیت کے ٹیکس ریاستی معیشت کو کمزور کرتے ہیں۔ کیونکہ لوگ جبری ٹیکس اور ناجائز محصولات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ اس کے برعکس اگر حکومتِ وقت ٹیکس کی وصولی میں کمزور ہو تو امور مملکت کو رواں دواں رکھنا مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔

ریاستی وسائل کی دستیابی کے لیے عہدِ نبوی ﷺ، خلفاء راشدین اور ان کے مابعد اسلامی حکومتوں میں بیت المال کا ادارہ قائم تھا جو ایک مربوط و منظم مالیاتی ادارے کا کام کرتا تھا۔ اس میں مختلف الانواع کے اموال مثلاً خمس غنائم، مالِ فئی، خمس معاون، خمس رکاز، خراج، جزیہ، ضواع (لاوارث مال)، زکوٰۃ اور صدقات وغیرہ جمع کیے جاتے تھے۔ لیکن فی زمانہ زکوٰۃ، عشر اور صدقہ و خیرات کے علاوہ باقی وسائل اور اسباب ختم ہوگئے ہیں۔ اسی لیے حکومتی اخراجات اور دفاعی ضروریات کے پیشِ نظر ٹیکس کا نظام وضع کیا گیا ہے۔

ریاستی معیشت کے استحکام میں ٹیکس کی اہمیت

ٹیکس مختلف وجوہ کی اساس پر ملکی معیشت میں کلیدی کردار کے حامل ہوتے ہیں اور ملک کےشہریوں کی کاروباری سرگرمیوں پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ ریاستی مشینری اور ان کے روزمرہ معمولات بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کسی بھی ملک یا ریاست کے معاملات کو چلانے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سرحدوں کی حفاظت، ملکی افواج کے اخراجات، انتظامی مشینری کو مراعات اور وظائف، زراعت و آبپاشی کے لیے نہروں کی تعمیر، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا قیام، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر و مرمت، معاشرے کے پسماندہ اور معذور افراد کی بحالی اور اعانت وغیرہ شامل ہیں۔

دورِ حاضر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا سماجی و معاشی ترقی کو صرف اور صرف قابل عمل ٹیکس پالیسی ہی سے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اسی لیے حکومتیں ان کے متعلق مالیات کا ہدف پورا کرنے کےلیے عوام اور کاروباری سرگرمیوں پر ٹیکس عائد کرتی ہیں۔ اسی بنا پر ٹیکس کو کسی ملک یا ریاست کے سماجی منصوبہ جات کے لیے بہت ہی اہم خیال کیا جاتا ہے۔

اگر ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہو تو یہ ملکی امور، بچت، سرمایہ کاری، کاروبار کے نئے مواقع اور کئی دیگر چیزوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ معاشی نظریات یہ عندیہ دیتے ہیں کہ ٹیکس پالیسی کی تبدیلی سے معیشت میں بھی تبدیلی جنم لیتی ہے۔ ٹیکس کی عدم وصولی یا اخراجات کی نسبت کم حاصل ہونے کی صورت میں ملکی معیشت عدمِ استحکام کا شکار ہوسکتی ہے۔

معیشت کو دیرپا اور مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ٹیکس کے علاوہ دیگر اقدامات بھی اٹھانے ضروری ہیں۔ حکومتِ وقت کا فرض ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے، جس سے معیشت میں ترقی ہو اور ایسی اصلاحات کا نفاذ عمل میں لائے جس سے معیشت ومعاشرت کا پہیہ مستقل اور پائیدار بنیادوں پر استوار ہوکر رواں دواں ہوجائے۔علاوہ ازیں ملکی معیشت کے استحکام کے لیے بنیادی حقوق کے نفاذکو یقینی بنانا بھی وقت کا تقاضا ہے۔ کیونکہ بنیادی حقوق کے تحفظ سے ہی معاشی مضبوطی اور پایئداری جنم لیتی ہے۔ ہجرت مدینہ کے بعد آپ ﷺ نے اولین اسلامی ریاست میں بنیادی حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کی۔ دولت کی منصفانہ تقسیم اور معاشی انصاف کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیے۔ معاشی اونچ نیچ اور ظلم و جبر کی بیخ کنی کے لیے سود خوری، ذخیرہ اندوزی، قمار بازی، غصب اور دیگر ناجائز ذرائع کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے آزاد معیشت کا ماحول پیدا کردیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ پابندیاں عائد کرکے حلال و حرام کا تعین بھی کیا گیا۔ سودی معاملات کی سختی سے ممانعت کردی گئی اور اسے قابل سزاجرم قرار دیا گیا۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.

(آل عمران، 3: 130)

’’اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

اسلام کے اقتصادی نظام نے مالی ترقی اور اخلاقیات میں توازن پیدا کیا ہے۔ اس میں نہ تو خالص مادہ پرستی کا رجحان ہے اور نہ کلی رہبانیت ہے۔ بیروزگاری اور افلاس ایسے مسائل ہیں جو معاشرے کی ترقی میں حائل ہونے کے علاوہ عوام کی اخلاقیات پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے محتاجی سے پناہ مانگتے ہوئے دعا فرمائی:

اللهم انی اعوذبک من الکفر والفقر وعذاب القبر.

(نسائی، السنن الکبریٰ، کتاب السھو، باب تعوذ فی دبر الصلوۃ، رقم الحدیث: 1347)

اے اللہ! میں کفر اور محتاجی اور عذابِ قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرامl کو یہ نصیحت فرمائی کہ وہ مختلف پیشوں اور صنعتی سرگرمیوں میں مصروف ہوں تاکہ معیشت کو فروغ حاصل ہو۔

ٹیکس کے نفاذ کے مقاصد

محصولات لگانے سے قبل حکومتِ وقت کو چاہیے کہ عوام الناس کو آگاہ کرے کہ فلاں ٹیکس کس مقصد کے لیے لگایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماءِ اسلام نئے ٹیکس کے اجراء کے لیے شریعت کے متعین کردہ مقاصد کو واضح کرنا حکومت کی ذمہ داری میں شمار کرتے ہیں۔ فقہاء اسلام کے اجماع کی روشنی میں حکومت کو زکوٰۃ، عشر اور خمس کے علاوہ بھی ٹیکس لگانے کا حق حاصل ہے مگر اس کے لیے مقاصد کا تعین ضروری ہے۔ حکومت جو بھی ٹیکس لگانا چاہے اس کے مقاصد عوام پر واضح کرے۔ اگر مقاصد عوام کی فلاح و خیر خواہی پر مبنی ہوں گے تو وہ کسی قسم کا ٹیکس ادا کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے اور اگر انہیں ٹیکس کے مقاصد کا ہی علم نہ ہو یا ان کےمقاصد غیر اسلامی اور عوام کے خلاف ہوں تو وہ نہ صرف ان ٹیکسوں کی چوری کریں گے بلکہ حکومت کے خلاف ان کے جذبات بھی بھڑک اٹھیں گے۔

اکثر مسلم ماہرینِ معیشت کہتے ہیں کہ چونکہ اسلامی ریاست ایک فلاحی ریاست ہے۔ لہذا وہ ٹیکس عائد کرنے کی مجاز ہے۔ لیکن ٹیکس کی وصولی کے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ ناگزیر حالات میں اس کی ضرورت ہو اور اس کے اطلاق کی مدت یکساں ہوں۔ٹیکس صرف اسی صورت میں وصول کیا جائے جب حکومتِ اسلامیہ کے مقاصد کی اس سے تکمیل ہوتی ہے۔ ٹیکس شہریوں کی ا ستطاعت کے مطابق اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ اس سلسلے میں عوام کو سہولت دی جائے اور ان پر کسی قسم کا جبر نہ کیا جائے۔ اس کے خرچ کرنے میں اصولِ کفایت یا اصولِ اقتصاد کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ اسی لیے صاحبانِ اقتدار اور ملکی باگ ڈور پر مسلط افراد کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ ٹیکس کا نفاذ کرتے وقت عدل و انصاف اور عوام الناس کی معاشی حالت کو مدِ نظر رکھیں۔ اس سلسلے میں ٹیکس کا تعین کرتے وقت اسلامی تاریخ کی نظائر اور امثال کو مدِ نظر رکھنا آسانی کا راستہ مہیا کرسکتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ رعایا کو اعتماد میں لیتے ہوئے ٹیکس کی آمدنی کو صحیح اور متعین جگہ پر صرف کریں۔

کسی بھی ملک یا ریاست میں ٹیکس لگانے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب ریاستی معاملات کی انجام دہی کے لیے مالی وسائل درکار ہوں۔ لیکن اسلامی تعلیمات کی رو سے شہریوں پر ٹیکس عائد کرنے سے قبل ان مقاصد کا تعین کرنا نہایت ضروری ہے، جس مقصد کے لیے محصولات وصول کیے جانے ہیں۔ اس کا مثبت نتیجہ یہ نکلے گا کہ عوام خوشدلی اور رضا و رغبت سے ٹیکس ادا کریں گے۔ایک اسلامی ریاست کے مالیاتی نظام میں ٹیکس کے نفاذ لیے درج ذیل مقاصد کو متعین کیا جاتا ہے:

1۔ ملک کےشہریوں کے لیے روحانی اور مادی ترقی کا حصول یکساں طریق پر ہو۔ وہ اپنی معاشی جدوجہد اور وسائلِ رزق کے ذریعے نہ صرف دنیوی زندگی میں بہرہ ور ہوسکیں بلکہ سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے اخروی فلاح کی تیاری بھی کرسکیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰـکَ اللهُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا.

(القصص، 28: 77)

’’اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول۔‘‘

اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ جب وہ ٹیکس کا تعین کرے تو عوام الناس کی زندگی کے ان دونوں پہلوؤں کا خیال رکھے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ محصولات (ٹیکس) کی بھرمار سے ان کے ذہنی سکون کو برباد کرے اور معاشرتی زندگی میں اضطراب پیدا ہوجائے۔

2۔ ٹیکس کے نفاذ کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ دولت کی تقسیم منصفانہ طریقے سے ہو۔ اگرچہ اسبابِ معیشت سب انسانوں کو برابر میسر نہیں ہوتے لیکن اسلامی ریاست ایسے اقدامات کرے کہ جس سے امراء کی دولت کا کچھ حصہ غرباء تک پہنچ جائے۔ جیسا کہ اسلام نے زکوٰۃ اور صدقات کا مستحسن نظام قائم کیا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ.

(الحشر، 59: 7)

’’(یہ نظامِ تقسیم اس لیے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔‘‘

3۔ ٹیکس کے نفاذ کا تیسرا بڑا مقصد قیمتوں کو عادلانہ سطح پر رکھنا ہے۔ مہنگائی اور گرانی کے انسداد کے لیے حکومتِ وقت اپنی پوری سعی کرے تاکہ اشیاءخوردو نوش کی قیمتیں ایک قابلِ قبول سطح پر برقرار رہیں۔

4۔ تجارتی چکروں (Trade cycle) کا انسداد بھی ٹیکس کے نفاذ کا ایک اہم مقصد ہے۔بیسویں صدی کے تیسرے عشرے تک اقتصادی ماہرین تجارتی چکروں کے حق میں تھے۔ تجارتی چکروں کا مطلب ہے کہ پوری دنیا میں عام طور کسی ملک یا علاقے میں بالخصوص ہر آٹھ یا دس برس کے بعد معاشی لحاظ سے خوشحالی دور دورہ ہوتا ہے اور سرمایہ کاری اور تجارت کافی عروج پر چلی جاتی ہے۔ بعد ازاں بے روزگاری، تجارتی خسارہ اور سرمایہ کاری میں زبوں حالی عود آتی ہیں۔ ایک اسلامی ریاست کا یہ فرض ہے کہ وہ تجارتی چکروں کا انسداد اور پیشگی تدارک کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرے تاکہ معاشی بدحالی اور کساد بازاری سے بچا جاسکے۔ اگر ایسے حالات کبھی پیدا ہوجائیں تو اسلامی حکومت غریبوں اور محتاجوں کی کفالت کا بندوبست کرے۔

اسلام میں ٹیکس لگانے کی شرائط

ایک اسلامی ریاست میں ٹیکس کن حالات میں لگایا جاسکتا ہے۔ اس کی چار شرائط ہیں:

1۔ دفاعی، ترقیاتی اور سماجی لحاظ سے حقیقی عوامی ضرورت درپیش ہو اور اس ضرورت کو اس متعلقہ شعبے کے ماہرین کی سند اور تائید حاصل ہو۔

2۔ جب دوسری تمام معاشی ذمہ داریاں اس ضرورت کو پورا کرنے میں ناکام ہوجائیں۔ ایسا کرنے کے لیے زکوٰۃ اور خراج وصول کیا جائے اور بعد ازاں اس ضرورت کے لیے ٹیکس لگایا جائے۔

3۔ ٹیکس کو اس ضرورت کی حد تک رکھا جائے، جونہی یہ اس ضرورت سے بڑھ جائے تو اسے ممنوع قرار دیا جائے۔

4۔ اولاً متمول اور صاحبِ ثروت لوگوں پر ٹیکس عائد کیا جائے اور اس سلسلے میں عدل و انصاف سے کام لیا جائے، کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھا جائے۔ ٹیکس نقدی یا پیداواری شکل یا زمین کی صورت میں وصول کیا جاسکتا ہے۔

ان شرائط سے واضح ہوتا ہے کہ زکوٰۃ اور خراج کے علاوہ ٹیکس لگانے کی نوبت آجائے تو اولاً ماہرین سے مشاورت کی جائے اور جس مقصد کا تعین کیا گیا تھا، صرف اسی مقصد کی حدود میں رہ کر ان محصولات کو صرف کیا جائے۔پہلی صدی ہجری میں جب اسلام ایک بڑی سیاسی قوت بن کر عالمِ شہود میں آیا تو مفتوحہ علاقوں میں ظالمانہ ٹیکسز کو فوری طور پر ختم کردیا گیا بلکہ اس کی بجائے اسلام نے عدل وانصاف پر مبنی ٹیکس کا نفاذکیا۔ اس نظام میں ٹیکس دہندگان سے حسنِ سلوک کرنے، کسی قسم کے جبر سے اجتناب کرنے، ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے اور کسی قسم کا تشدد کرنےسے منع کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں عہدِ نبوی ﷺ، خلافتِ راشدہ، اموی اور عباسی دور کی نظائر تاریخ کی کتب میں مرقوم ہیں۔

پاکستان میں ٹیکس کی عدم ادائیگی کے اسباب

ٹیکس پاکستانی معیشت کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ یہ معاشی ترقی اور سماجی فلاح کے پروگرامز کے لیے معاون ہوتے ہیں۔ مختلف چیلنجز اور مشکلات کے باوجود پاکستان کے ٹیکس کے نظام کے لیے بڑے مواقع ہیں۔ ان میں ٹیکس اصلاحات، ڈیجیٹل ورک اور بین الاقوامی تعاون وغیرہ شامل ہیں۔ اس وقت پاکستان کو ٹیکس چوری، بلند شرح ٹیکس اور ٹیکس کے نظام کی پیچیدگی جیسے مسائل درپیش ہیں۔ سیاسی و معاشی افراتفری کے موجب پاکستان کی معیشت نے ایک Drip Economy کی حیثیت اختیارکرلی ہے۔ سیاسی کشمکش اور بلند ترین مہنگائی کی شرح نے ملک کو نازک موڑ پر لاکھڑاکردیا ہے۔

پاکستان میں معیشت کے عدمِ استحکام کا بڑا سبب ٹیکس ادائیگیوں کی وصولی میں ناکامی اور ملک کی بڑی آبادی کا براہِ راست ٹیکس ادا نہ کرنا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) جو ملکی ٹیکس جمع کرنے کا بڑا اور اہم ادارہ ہے۔ سیاسی مداخلت اور بدعنوانی کے سبب اپنے متعینہ ہدف میں ناکام ہوچکا ہے۔ پاکستان کا ٹیکس سسٹم اتنا پیچیدہ ہے کہ وہ عام آدمی کی عقل اور سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس وقت تقریباً بلاواسطہ اور بالواسطہ کئی ٹیکس ملک کے شہریوں پر عائد کیے گئے ہیں۔ ٹیکس کی اتنی بہتات اور بھرمار نے انہیں پیچیدہ اور مشکل بنادیا ہے۔

معیشت کے استحکام کے لیے ٹیکس کا نظام وسعت کا حامل اور ہمہ گیر ہونا چاہیے۔ لیکن پاکستان میں ٹیکس گریز رجحانات، غیر دستاویزی معیشت کا پھیلاؤ اور بنیادی اصلاحات سے اعراض کی وجہ سے پچیس کروڑ کی آبادی میں ٹیکس دہندگان کا تناسب بہت کم ہے۔ گزشتہ سال آئی ایم ایف نے دیگر شرائط کے ساتھ ٹیکس کی وصولی میں اضافے کی شرط عائدکردی تاکہ تجارتی خسارے کا مداوا کیا جاسکے۔ لیکن بدقسمتی سے ٹیکس کی وصولی میں بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار سے غریب اور متوسط طبقے پر اس کا بہت زیادہ بوجھ پڑا ہے۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ عصر حاضر میں مختلف ٹیکس اور ان کی شرح بعض اوقات ظالمانہ حد تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر مزید اس پر ظلم یہ کہ ٹیکس کی وصولی کے بعد اس میں بے جا تصرف اور ناموزوں جگہ پر خرچ کیا جانا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں عالمی مالیاتی اداروں کی ایما پر مختلف مدات میں بہت زیادہ شرح ٹیکس عائد کی جاتی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس کو روایتی طور پر منفعت بخش کام کی بجائے ایک بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ جزوی طور پر یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کا نظام پیچیدہ اور مشکل ہے جسے عام شہری سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں ٹیکس کی ادائیگی کا بوجھ غریب اور متوسط طبقے پر ڈالا جاتا ہے۔ محصولات کے عدمِ توازن اور مناسب منصوبہ بندی کے فقدان نے ملک کو گھمبیر مسائل سے دوچار کردیا ہے۔

اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ اس وقت پاکستان بہت بڑے معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ دو عوامل یعنی ٹیکسوں کی مد میں موصول ہونے والی رقم اور ملکی برآمدات معیشت میں خون کی روانی کا کام کرتی ہیں۔ جس طرح انسانی جسم میں خون کا دباؤ مناسب ہو تو وہ صحت مند شمار ہوتا ہے، ایسے ہی یہ دو ذرائع معاشی زندگی کے لیے روحِ رواں ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستانی معیشت میں درآمدات بھی عدمِ تحفظ کا شکار ہیں۔ کیونکہ مستحکم اور دیرپا معیشت کے لیے برآمدات کی شرح درآمدات سے تین گنا زیادہ ہونی چاہئیں۔ گزشتہ سال سٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر چار اشاریہ پانچ ملین ڈالر تھے جو بمشکل ایک مہینے کی درآمدات کا احاطہ کرسکتے تھے۔ نتیجتاً روپے کی قدر اکیاسی فیصد سے کم ہوگئی۔ بیرونی قرضوں کی حد ایک سو اٹھائیس بلین ڈالر تک جاپہنچی ہے جو کہ ہماری مجموعی ترقیاتی پیداوار (جی ڈی پی) کا تینتالیس فیصد ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں میں بیرونی قرضوں کا حجم دوگنا ہوچکا ہے۔ فی الوقت مہنگائی کی شرح گزشتہ تین ماہ سے اٹھائیس فیصد زیادہ ہے۔

پاکستان کی موجودہ حکومت گزشتہ نو دس مہینوں سے روزانہ تیرہ ارب روپے کے نئے قرضے حاصل کررہی ہے۔ جس سے آمدنی اور اخراجات کا توازن بگڑ گیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو فی الحال اپنے ٹیکس کے ہدف کی تکمیل کے لیے قریباً تین سو ارب کے خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس میں ایک تخمینے کی رو سے آئندہ آنے والے مہینوں میں اضافہ متوقع ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹیکس کے نظام کا مؤثر نہ ہونا اور ٹیکس چوری ان چند اساسی نوعیت کے اسباب اور بڑی وجوہات میں سے ہیں، جن کی وجہ سے وطن عزیز پاکستان ترقی یافتہ اور خوشحال مملکت نہیں بن سکا۔ پاکستان میں ٹیکس کی وساطت سے اکٹھی ہونے والی رقم عوامی فلاح و بہبود، ترقیات اور تعلیم پر سب سے کم ہے جو کہ ایک المیہ سے کم نہیں۔ پاکستان میں مالیات کا نصف یعنی پچاس فیصد بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ بیس فیصد سرکاری ملازمین کی مراعات، تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن پر صرف ہوتا ہے۔ بیس فیصد دفاعی اخراجات پر خرچ ہوتا ہے جبکہ عام آدمی کے لیے دس فیصد رقم بچتی ہے۔

معاشی بحران کا ایک سبب ٹیکس کی عدم ادائیگی ہے

پاکستان میں اقتصادی بحران کی وجوہات میں حکومتی و انتظامی مشینری کی نااہلی و بدعنوانی، سماجی شعبہ جات کی مجرمانہ غفلت، ٹیکسیشن کا مناسب بندوبست نہ ہونا اور اندرونی و بیرونی قرضوں کی گھمبیر صورتحال ہے۔ پاکستان میں معاشی انتظام انصرام اس قدر دگرگوں ہے کہ معیشت ایک مالیاتی بحران سے دوسرے مالیاتی بحران کی طرف چلی جاتی ہے۔ اس گھمبیر مسئلہ کا بنیادی سبب حکمرانوں کا قومی خزانے کو غیر ذمہ دارانہ طریقے سے استعمال کرنا اور ریاست کے اقتصادی معاملات میں کچھ انتظامی مسائل کا سامنے آنا ہے۔ جس کے موجب ملک پاکستان میں معاشی عدمِ استحکام، مہنگائی، آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں، ناقص عوامی خدمات، وسیع پیمانے پر بدعنوانی، غربت، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور سماجی شعبہ جات کی مجرمانہ لاپرواہی اور بڑھتے ہوئے ملکی قرضے تصویری خاکہ پیش کرتے ہیں۔

پاکستان میں عوام الناس کا ٹیکس سے اعراض اور بے اعتنائی کا رویہ، ان کا سرکاری محکمہ جات پر اعتماد کا فقدان، کمزور اور غافل انتظامیہ، محکمہ ٹیکس کی بدعنوانی، غیر رسمی سیکٹرز، نقد معیشت کا نمایاں ہونا، محصولات کے نفاذ کا ناقابلِ عمل اور کمزور طریقِ کار، ٹیکس چھپانے کا رجحان، اعداد و شمار کی کمی، ٹیکس آڈٹ کا مسئلہ وغیرہ ریونیو کے اہم ترین مسائل ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس پالیسی اور ٹیکس انتظامیہ کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس کی شرح کو مناسب حد میں رکھ کر اور ٹیکس کی ناجائز رعایت کوختم کرکے ٹیکس کی مد میں اضافہ کرنے کی شدید اور ناگزیر ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے بدعنوان اور تساہل پسند انتظامیہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ یہ چیلنجز ملک پاکستان کو طویل عرصے سے درپیش ہیں اور ٹیکس اصلاحات میں بھی یہی عوامل رخنہ ڈالے ہوئے ہیں۔

دنیا میں ٹیکس کا نفاذ قانونی و اخلاقی اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ہر شہری سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ قانون کا احترام کرتے ہوئے ان کی پوری اور بروقت ادائیگی کرے۔ تاہم یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کے ایسے ممالک کے زمرے میں آتا ہے جہاں پر معیشت کے اعتبار سے محصولات کی وصولی کم ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات اور ذمہ داریاں ٹیکس کی وصولی کے مقابل کہیں زیادہ ہے۔ایک عام آدمی حکومت پر عدمِ اعتماد کرتے ہوئے ٹیکس کو ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتا ہے اور اس کے متعلق دیئے گئے حکومتی احکامات سے انحراف کرتا نظر آتا ہے۔ ایک مثالی ریاست میں حکومت سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ اس کے ٹیکس کے ادارے دیانتدار اور فرض شناس ہوں لیکن ہمارے ہاں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔

اسلامی مالیاتی نظام میں محصولات (ٹیکس) کے اصول

اسلامی مالیاتی نظام میں زکوٰۃ و صدقات اور ہنگامی محصولات (ٹیکس) کے سلسلہ میں درج ذیل چار اصول نمایاں اہمیت کے حامل ہیں:

1۔ ایمان اور عقیدہ کا تحفظ

اسلامی ریاست میں ایک مسلمان زکوٰۃ، عشر وغیرہ کی ادائیگی ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر خوشنودی باری تعالیٰ کے لیے کرتا ہے۔ وہ بعض ٹیکس محض اس لیے ادا کرتا ہے تاکہ اس کے ایمان اور عقیدہ کی حفاظت ہو۔ بعینہ اسلامی ریاست میں موجود غیر مسلم رعایا بھی جزیہ اور خراج محض اس لیے ادا کرتے ہیں تاکہ انہیں اپنے عقیدے پر عمل کرنے کے لیے ریاستی تحفط حاصل ہو۔

2۔ اقتصادی اور سماجی ضروریات

اسلام کے نظامِ اقتصاد میں ٹیکس کے نفاذ کا مقصد وحید معاشی اور معاشرتی ضروریات کو کماحقہ پورا کرنا ہوتا ہے۔ اسلام اس چیز کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ جائے۔ اسلام ان کی وساطت سے معاشرے میں موجود معاشی اور معاشرتی فرق کا خاتمہ کرتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے زکوٰۃ کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:

ان اللہ افترض علیهم صدقۃ فی اموالهم توخذ من اغنیائهم وترد علی فقرائهم.

(صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ، رقم الحدیث: 1395)

بے شک اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں صدقہ (زکوٰۃ) فرض کیا ہے جو کہ ان کے مالداروں سے لے کر ان کے غریبوں میں لوٹایا جائے۔

3۔ اصولِ مساوات

اسلام کے معاشی نظام میں اصولِ مساوات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ملک کے تمام شہریوں پر بلا لحاظ مذہب و نسل ٹیکس کا اجرا کیا جاتا ہے۔ تجارت کے فروغ اور معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عشر میں مساوات کے اصول کو مدنظر رکھتے تھے تاکہ آسانی بھی پیدا ہو اور محصول بھی وافر مقدار میں جمع ہوجائے۔ ابوعبید القاسمؒ لکھتے ہیں:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبطیوں سے تیل اور گندم پر نصف عشر یعنی بیسواں حصہ وصول کرتے تھے تاکہ مدینہ منورہ میں زیادہ مقدار میں عشر پہنچے اور دوسری اجناس پر عشر (دسواں حصہ)لیتے تھے۔

(ابوعبید القاسم، کتاب الاموال، ص: 533)

ٹیکس کے نفاز میں رعایا کی رضا مندی کو پیشِ نظر رکھنا لازمی ہے۔ جیسا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں فرمایا:

وان لایوخذ منهم الا فضلهم عن رضاهم.

(صحیح بخاری، کتاب اصحاب النبی ﷺ، باب قصہ البیعہ والاتفاق علی عثمان بن عفان، رقم حدیث: 3700)

ان کی رضا مندی سے ان کے مال سے اتنا ہی لیا جائے جو ان کی ضروریات سے زائد ہو۔

4۔ اصول تیقن

ٹیکس کی وصولی میں تیقن کے اصول کو اختیار کیا جائے۔ جو ٹیکس عائد کیے جائیں ان کی قانونی حیثیت، وقتِ ادائیگی اور مقدار کا ٹیکس گزاروں کو علم ہونا چاہیے۔ زکوٰۃ، خراج، جزیہ اور عشور میں یہ اصول بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔

5۔ ٹیکس کی وصولی میں نرمی اور سہولت

ٹیکس کی وصولی میں سہولت کو مدنظر رکھا جائے۔ اس سلسلے میں عادلانہ تشخیص اور وصولی کا بندوبست کیا جائے۔ جیسا کہ حکم ربانی ہے:

لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ.

(البقرة، 2: 279)

’’(اِس صورت میں) نہ تم خود ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘

زکوٰۃ اور خراج کی وصولی میں انصاف اور نرمی کرنے والے کو فی سبیل اللہ جہاد کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ حدیث نبوی ﷺ ہے:

العامل اذا استعمل فاخذ الحق واعطی الحق لم یزل کالمجاهد فی سبیل الله حتی یرجع الی بیته.

(المنذری، جلد اول، ص: 315، رقم حدیث: 1159)

جب ایک شخص کو عامل (Collector) مقرر کیا جاتا ہے۔ پس وہ حق کے ساتھ وصول کرتا ہے اور حق کے ساتھ ہی دیتا ہے تو وہ راِہ خدا میں مجاہد کی مانند ہے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر واپس لوٹ آئے۔

محصول کی ادائیگی میں سہولت مہیا کی جائے۔ اسلام آسانی اور سہولت کا دین ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

یسروا ولا تعسروا وسکنوا ولاتنفروا.

(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب قول النبی ﷺ یسرو ولاتعسرو، رقم حدیث: 6125)

آسانی کرو، سختی نہ کرو، لوگوں کو تسلی اور تشفی دو اور نفرت پیدا نہ کرو۔

عوام الناس سے ایسا محصول ہرگز نہ لیا جائے جو ان پر واجب الادا نہ ہو چنانچہ امام ابویوسف کتاب الخراج میں رقمطراز ہیں:

لایظلموا ولا یوذوا ولا یکلفوا فوق طاقتهم ولا یوخذ شیء من اموالهم الا بحق یجب علیهم.

(ابویوسف، کتاب الخراج، ص: 138)

ان پر ظلم نہ کیا جائے، نہ انہیں تکلیف دی جائے، نہ ان کی طاقت سے بڑھ کر بار ڈالا جائے، ان کے اموال سے کوئی چیز نہ لی جائے، جو ان پر واجب نہ ہو۔

6۔ زائد از ضرورت مال پر ٹیکس

ضرورت سے زائد مال و دولت پر محصول عائد کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ.

(البقرة، 2: 219)

’’اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)۔‘‘

7۔ اصولِ کفایت

ٹیکس کا نفاذ اور وصولی اس انداز سے کی جائے کہ حاصل شدہ رقم حکومتی اخراجات کی کفایت کرسکے۔ جس مقصد کی خاطر ٹیکس وصول کیا جائے، اسی مقصد کے لیے اسے استعمال کیا جائے۔ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں:

الجبایہ بالحمایہ.

(شامی، ابن عابدین، حاشیہ ردالمختار، ج: 2، ص: 39)

محصول حفاظت کرنے پر ہیں۔

معاشرتی و معاشی حالات کے پیشِ نظر ریاست محصول عائد کرسکتی ہے تاکہ معیشت کو استحکام حاصل ہو اور ملکی نظم و نسق کو کماحقہ اور احسن طریقے سے چلایا جاسکے۔ ایسے حالات میں محصولات لگائے جاسکتے ہیں جب متمول افراد اپنی دولت کو محض عیش و عشرت اور فضول خرچیوں پر اڑا رہے ہوں۔ امراء کی وہ دولت جو اگرچہ انہوں نے جائز ذرائع سے حاصل کرلی ہے لیکن اس دولت کو وہ فضول اور شاہ خرچیوں میں اڑا رہے ہیں جو کہ اسلام کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے۔ حکومتِ وقت چاہے تو ان کی اس دولت پر ٹیکس عائد کرکے ان کے اسراف کا تدارک کرسکتی ہے۔

عدل وا نصاف پر مبنی حکومت کا نصب العین ہی اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور خدمت ہوتا ہے۔ اسی لیے عادل حکمران ملکی خزانہ فلاحی کاموں اور مفلسوں اور ضرورت مندوں کی داد رسی اور خدمات کے لیے صرف کرتے ہیں۔ وہ بے جا اور ناجائز ٹیکس سے عوام الناس کو پریشان نہیں کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جبرو ستم کی حکومت کا مقصد صرف اور صرف حکمرانوں کے اقتدار اور عیش و عشرت کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ انہی پالیسیوں کی بدولت اس ملک کی عوام ہمیشہ ٹیکس کے انبار تلے دب کر رہ جاتی ہے اور اکثریت کو مفلس و غریبی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔