انسانوں کے وضع کردہ نظریات وقت کے ساتھ تبدیل اور رد ہوتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ سائنسی انکشافات میں بھی ردو بدل کا عمل جاری ہے۔ ایک وقت تھا کہ زمین کو ساکن قبول کر لیا گیا تھا پھر زمین کے تحرک کا نظریہ آیا تو اسے قبولِ عام حاصل ہوا۔ مادی زندگی کے اندر ہم تسلسل کے ساتھ ردوبدل کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔ جو نظریہ ایک زمانے میں حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے مگر چند سال یا صدی دو صدی کے بعد وہی نظریہ باطل ٹھہرتا ہے۔ ردوبدل کی یہ فلاسفی فقط سائنس تک محدود نہیں ہے بلکہ سیاسیات، معاشیات سمیت انسانی زندگی کا ہر شعبہ اور علم کی ہر شاخ اس تغیر و تبدل کی زد پر ہے۔ اس تمام جدوجہد کے بعد انسان کے سامنے وہ حقیقت آجاتی ہے جس کا نام مذہب یا خدائی قانون ہے۔ یہی وہ قانون ہے جو انسانی تخلیات سے بلند ہے اور جسے خالق ارض و سماوات نے عالمِ انسانیت کے لئے قول فیصل کے طور پر تجویز فرمایا ہے۔
مذہب انسانی زندگی کو مضبوط، منظم، مربوط اور مستحکم بناتا ہے۔ مذہب اگر ایک طرف اخلاق و عادات درست کرتا ہے تو دوسری جانب ترقی کے وہ تمام پوشیدہ خزانے سامنے لاتا ہے جہاں ظاہری آنکھ نہیں پہنچ سکتی۔ مذہب انسان کو جوہر کامل بناناچاہتا ہے۔ مذہب کے لئے ضروری ہے کہ دنیا کے سامنے مکمل نظامِ عمل پیش کرے تاکہ انسان اس وسیع اور جامع دستور پر چل کر کامیاب ہو اور مقصودِ حیات تک پہنچ سکے۔ یہ عزت و شرف فقط قرآن کریم اور سیرتِ نبویہ ﷺ کو حاصل ہے کہ اس نے دنیا کے سامنے جامع ہدایات اور نظامِ معاشرت پیش کیا۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر انسانیت کے سامنے رکھا اور اصحاب کی ایک ایسی جماعت تیار کی جس نے الوہی احکامات اور نبوی سیرت پر عمل پیرا ہو کر زمین پر ایک ایسی مضبوط و مستحکم سلطنت قائم کی جس کا نظامِ زندگی کسی اور نظام سے مستعار نہیں لیا گیا تھا بلکہ اس کا ایک ایک عمل براہ راست سیرتِ طیبہ اور قرآن مجید سے حاصل کیا گیا تھا اور جب عرب کے سیدھے سادھے لوگوں نے پیغمبرِاسلام ﷺ کے شجرِ سایہ دار میں پناہ لی تو یہی فقر و فاقہ میں زندگیاں بسر کرنے والے رسالت مآب ﷺ کے فیض و صحبت و معیت کی برکات سے ترقی یافتہ اقوام کے امام بن گئے۔ اصحاب رسول ﷺ کی اس تربیت یافتہ جماعت نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ اسلام ہی ترقی کا مرکز و مخزن ہے۔ اسلام نے دینی و دنیوی ترقی، خوشحالی کی منزل کی پہلی سیڑھی علم اور تقویٰ کو قرار دیا ہے اور قرآن مجید کو علوم و فنون اور ہدایت و راہ نمائی کا مصدر و منبع قرار دیا ہے اور یہ شرط رکھی ہے کہ قرآن مجید پر غور فکر کرو، عقل و تدبر سے کام لو اور کائنات میں جابجا پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیوں کو سمجھو اور ان سے کسبِ علم و فیض کرو۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دینِ حمید کے اس پیغام کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لئے تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر کے ذریعے اپنا باوقار اسلامی کردار ادا کررہے ہیں۔ شیخ الاسلام کی توجہ کا مرکز اُمہ کے نوجوان ہیں۔ بالخصوص عالمِ مغرب میں نسل در نسل آباد نئی نسل کی اسلامی نہج پر تعلیم و تربیت کے لئے وہ دن رات کوشاں ہیں اور خدمتِ دین کے اس مشن کو جاری رکھتے ہوئے وہ اپنی صحت و آرام کو بھی خاطر میں نہیں لارہے۔
ایمان بالغیب ایمانیات کے باب میں ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس پر عمل پیرا ہوئے بغیر انسان ایمان کی حلاوت کو نہیں پا سکتا۔ ایمان بالغیب کے ضمن میں شک کو کاٹ پھینکنا شرط اول ہے
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری گزشتہ دو ماہ سے مغربی ممالک کے تنظیمی و تبلیغی دورہ پر ہیں۔ جون 2024ء انہوں نے برطانیہ اور یورپ میں اسلامک سکالرز، سول سوسائٹی، طلبہ و طالبات اور مختلف مکاتبِ فکر کے افراد کے ساتھ فکری نشستیں منعقد کیں اور انہیں یہ پیغام دیا کہ اسلام انسانیت کی بقا اور امن عالم کی دائمی حفاظت کا ضابطۂ حیات ہے۔
جولائی 24ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے آسٹریلیا میں 3 روزہ الھدایہ تربیتی کیمپ سے فکر انگیز خطابات کیے۔ اس کیمپ میں خواتین، بچے، جوانوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور مختلف مکتب فکر کے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ الہدایہ کیمپ (آسٹریلیا) میں امریکہ، یورپ اور برطانیہ سے بھی تشنگانِ علم شریک ہوئے۔ بلاشبہ آسٹریلیا کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا تربیتی، اخلاقی و اصلاحی کیمپ تھا۔ اس تربیتی و اصلاحی دورہ کے موقع پر منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ڈاکٹر غزالہ قادری، فضہ حسین قادری، شیخ حماد مصطفی المدنی القادری نے بھی خصوصی شرکت کی اور مختلف مواقع پر اپنے فکر انگیز خطابات سے سامعین کو مستفید کیا۔
الہدایہ کیمپ کے پہلے روز برن ہال میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایمان اور غیب کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیاوی امور میں کوئی چیز خریدتے وقت پہلے ہم تسلی کرتے ہیں کہ اس میں کوئی خرابی نہ ہو، وہ ایکسپائر نہ ہو، اس میں کوئی نقص نہ ہو۔ ہم اپنے حواسِ خمسہ کے ذریعے اس چیز کے بہترین حالت میں ہونے کی تسلی کر لیتے ہیں پھر اُسے خریدتے ہیں اگرچہ تسلی کر لینے کے بعد بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ وہ چیز درست حالت میں ہے یا نہیں۔ بہرحال ایمان کا وہ حصہ جس کا تعلق غیب سے ہے اُسے من و عن تسلیم کرنا ہی ایمان ہے۔ ہم سوال و جواب کئے بغیر اللہ کے وجود کو تسلیم کریں گے۔ ہمیں آسمانی کتب کو سوال و جواب کے بغیر حق تسلیم کرنا ہے۔ پیغمبرانِ خدا پر سوال و جواب کے بغیر ایمان لانا ہے۔ سوال و جواب کے بغیر جنت ، دوزخ، یوم آخرت پر ایمان لانا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھ پر ایمان لانے کے سودے میں شک کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آغاز میں ہی فرمایا دیا ’’لاریب ‘‘ خبردار اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے اور قرآن مجید کو غلطیوں سے پاک سمجھتے ہوئے اس پر یقین کامل رکھنا، اس کے اندر بیان کئے گئے واقعات اور احکامات کو انسانیت کے لئے نفع بخش سمجھتے ہوئے شک و شبہ سے بالاتر ہو کر اس پر عمل پیرا ہونا ایمان ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے ایمان کے بنیادی فلسفہ پر سادہ اور دل نشیں انداز میں گفتگو فرمائی۔ ایمان بالغیب ایمانیات کے باب میں ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس پر عمل پیرا ہوئے بغیر انسان ایمان کی حلاوت کو نہیں پا سکتا۔ ایمان بالغیب کے ضمن میں شک کو کاٹ پھینکنا شرط اول ہے۔ ہر ایمان والے کو اس بات کا راسخ یقین ہونا چاہیے کہ ہدایت کی دولت اللہ کی طرف سے نصیب ہوتی ہے۔ زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے۔ رزق دینے والا اللہ ہے۔ رزق میں تنگی اور کشادگی عطا کرنے والا اللہ ہے۔ جب اللہ پر یقینِ محکم اور یقینِ کامل کی دولت حاصل ہو جاتی ہے تو بندہ بندگی کی معراج پا لیتا ہے۔
شیخ الاسلام نے شرکائے الہدایہ کیمپ کو نصیحت کی کہ ایمان بالغیب اور اللہ کی ذات پر کامل یقین رکھنے کی دولت حاصل کرنے کے بعد تزکیہ نفس پر توجہ دی جائے۔ مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ ہر وقت خدائے پاک کے احکام کا خیال کرتا رہے۔ اعمالِ صالح کا پابند ہو، اپنے دل میں اللہ کی عظمت کو قائم کرے، ہر عمل میں ڈرتا رہے۔ خدا سے ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ بندہ اس کی مرضی کے تابع ہو۔ کوئی کام اس کے خلاف نہ ہو۔ ایمان کی دولت حاصل کرنے کے بعد وہ خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرے اور احکامِ الٰہیہ پر ہر حال میں عمل پیرا رہے۔
شیخ الاسلام کی توجہ کا مرکز اُمہ کے نوجوان ہیں۔ بالخصوص عالمِ مغرب میں نسل در نسل آباد نئی نسل کی اسلامی نہج پر تعلیم و تربیت کے لئے وہ دن رات کوشاں ہیں۔
شیخ الاسلام نے ایمان کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب تک مکہ معظمہ میں تشریف فرما رہے تو وہ خانہ کعبہ کی طرف رخ انور کر کے نماز پڑھتے۔ ہجرت مدینہ کے بعد ظاہری طور پر خانہ کعبہ سامنے نہیں تھا تو مدینہ میں تشریف لانے کے بعد آپ ﷺ بیت المقدس کی طرف رخ انور کر کے نماز ادا فرماتے۔ مدینہ میں یہود بھی آباد تھے ۔ یہودیوں کا کعبہ یروشلم بیت القدس تھا ۔ ہجرت مدینہ کے بعد انصار مدینہ میں سے جو یہودی مسلمان ہوگئے تھے اور وہ آپ ﷺ کی معیت میں القدس کی طرف منہ کر کے عبادت کرتے تھے، وہ تو بہت خوش تھے چونکہ ان کی القدس کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی تھی۔ ہجرت مدینہ کے ڈیڑھ سال تک القدس کی طرف رخِ انور کر کے عبادات کا سلسلہ جاری رہا پھر ایک روز دوران نماز حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا چہرہ مبارک القدس سے ہٹا کر خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا۔ نماز کی حالت میں وحی نازل ہوئی کہ آپ پہلے جس قبلہ پر تھے، ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم پرکھ کر ظاہر کر دیں کہ جب آپ قبلہ کا رخ بدلیں تو کون لوگ ہمارے اس محبوب رسول ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اپنا رخ پھیر لیتے ہیں اور کون نہیں پھیرتے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس آیت کریمہ کا پس منظر بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ہجرت مدینہ کے بعد دو طرح کے اصحاب رسول ﷺ تھے ایک وہ جو مکہ میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے اور ہجرت کر کے مدینہ آگئے اور دوسرے وہ مسلمان جو مدینہ میں تھے اور القدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے یعنی کچھ اصحاب رسول ﷺ خانہ کعبہ سے مانوس تھے اور کچھ اصحاب رسول ﷺ بیت المقدس سے مانوس تھے۔ یہاں اللہ نے ایمان کا امتحان لیا کہ کون شک و شبہ سے بالاتر ہو کر سوال و جواب کئے بغیر میرے نبی برحق پر ایمان لاتے ہوئے اپنا رخ تبدیل کرتے ہیں اور کون شک و شبہ اور سوال و جواب میں پڑتے ہیں؟ قرآن نے کہا شک و شبہ کے بغیر اطاعتِ رسول کے تحت رخ بدل لینا بڑی بھاری بات تھی اور اللہ کو بن دیکھے ماننے والوں کو ہدایت اور ایمان کی دولت عطا کرتا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے الہدایہ تربیتی کیمپ میں توبہ کے موضوع پر انتہائی شاندار اصلاحی خطاب کیا اور کہا کہ انسانی زندگی میں توبہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سارے مقامات پر بندوں کو توبہ کی تلقین فرمائی ہے۔ گناہ گاروں کو مایوسی سے بچانے کے لئے خود اعلان فرمایا ہے کہ میری رحمت ہر شے پر غالب ہے۔ انہوں نے شرکائے کیمپ کو نصیحت فرمائی کہ کبھی اپنے صالح اعمال پر تکبر نہ کریں اور عجز و انکساری کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے رہیں۔ عاجزی، انکساری اور توبہ اللہ کو بے حد پسند ہے۔ (جاری ہے)