تشکیلِ معاشرہ کا ضابطۂ اخلاق

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

ہر شعبہ زندگی کے کچھ ضابطۂ اخلاق، اقدار اور خوبیاں ہوتی ہیں، جن سے وہ شعبہ خوبصورت اور باوقار ہوتا ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ انسان اپنے نام سے نہیں جانا جاتا بلکہ اس کا نام اس کے کردار سے جانا جاتا ہے اور یہ کردار اُسے کسی نسبت کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ حقوق العباد سے تعلق رکھنے والا ہر شعبہ خدمتِ دین کے باب میں ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس خدمت سے انسان اللہ تعالیٰ کے قریب بھی ہوسکتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ سرانجام نہ دینے کے سبب اللہ تعالیٰ سے دور بھی ہوسکتا ہے۔۔۔ ہر بندہ اپنے اپنے شعبہ میں خدمتِ انسانیت کے سبب قربت و معیتِ الہٰی سے بھی ہمکنار ہو سکتا ہے اور جہنم کا بھی حقدار بن سکتا ہے۔ اس کا دارومدار انسان کی اُن اخلاقیات اور طرزِ عمل سے ہے جس کی رہنمائی وہ قرآن اور حدیث سے لمحہ بہ لمحہ لے رہا ہوتا ہے۔

دنیا میں سبقت لےجانے کا چیلنج ہر شخص کو درپیش ہے لیکن کبھی دنیا کو دیکھ کر اپنے کردار کی تشکیل نہ کریں۔ جو دنیاکو دیکھ کر اپنا کردار تشکیل دیتے ہیں، وہ بے کردار ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو مولا کے عطا کردہ راستوں پر چلتے ہوئے اپنی کردار سازی کرتے ہیں تو پوری دنیا ان کے کردار کی معترف ہوجاتی ہے۔

یاد رکھیں! زمانہ شخصیات پیدا نہیں کرتا بلکہ شخصیات زمانہ بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت کی ان محبوب ہستیوں کے نام سے زمانے یاد کیے جاتے ہیں جن کے وجود سے زمانے منور اور مہک رہے ہیں۔ ان ہستیوں کے زمانوں کو ان کی وجہ سے عزت و فضیلت نصیب ہوئی۔ مثلاً: یہ کہا جاتا ہے کہ آقا علیہ السلام کا زمانہ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا زمانہ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا زمانہ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا زمانہ، امام حسن و حسینd کا زمانہ، امام اعظم ابو حنیفہ کا زمانہ، امام شافعی کا زمانہ، امام احمد بن حنبل کا زمانہ، امام بخاری ومسلم کا زمانہ، حضور داتا علی ہجویریؒ کا زمانہ وغیرہ۔

صرف اتنا ہے کہ ان شخصیات کے وجود ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں مگر ان کی مہک صدیوں تک ماحول اور زمانے کو معطر کرتی رہتی ہے۔ ایسی شخصیات کا وجود تو نظر نہیں آتا مگر ان کی روح ہر زمانے میں زندہ رہتی ہے اور ان کی مہک زمانے کو ترو تازہ رکھتی ہے۔ یہ روحانی مہک دراصل ان شخصیات کے اخلاق، اعلیٰ اقدار، طرزِ عمل اور طرزِ زندگی ہے۔

ایک اعلیٰ معاشرہ کی تشکیل میں ہر شعبۂ زندگی کے لیے ایک ایسا ہی ضابطۂ اخلاق ناگزیر ہے جو قرآن و حدیث کی تعلیمات میں موجود ہے اور جس پر عمل پیرا ہوکر ہمارے اسلاف نے نہ صرف اپنے زمانے کی اصلاح فرمائی بلکہ اُن کے کردار کی روشنی سے آج بھی زمانہ منور ہے۔ اس ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد میں ہی اس معاشرہ کی بقا کا راز مضمر ہے۔ ذیل میں ایک اعلیٰ معاشرہ کی تشکیل کے لیے درکار ضابطۂ اخلاق کے کچھ نکات درج کیے جاتے ہیں:

1۔ زبان کی حفاظت

تشکیل معاشرہ کا پہلا ضابطہ زبان کی حفاظت ہے۔ یعنی زبان کا اچھا یا برا استعمال افراد اور معاشرے کے کردار کی خبر دیتا ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنے اندر 9 خوبیاں رکھتا ہے لیکن ایک ایسی خامی ہے جو ان 9خوبیوں پر حاوی ہوجائے تو ان 9 خوبیوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس ایک خامی کی وجہ سے سب کچھ ضائع ہوجاتا ہے۔ یعنی 9 خوبیاں تو ہم اپنی شخصیت میں رکھتے ہیں، اچھے امور بھی سرانجام دیتے ہیں مگر یہ ایک ایسی خامی ہے جو 9 پر غالب آجاتی ہے۔ پوچھا گیا کہ وہ کون سی خامی ہے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

فاتقو اثرات اللسان.

آفاتِ زبان سے بچا کرو۔

یہ زبان ہے جو بچاتی بھی ہے اور مرواتی بھی ہے۔۔۔ جنت میں بھی لے جاتی ہے اور دوزخ میں بھی گراتی ہے۔ ہم زندگی میں اچھے کام کرتے کرتے زبان سے کوئی ایسا غلط کلام کر بیٹھتے ہیں کہ پچھلے تمام اچھے کاموں پر پانی پھیردیتے ہیں۔زبان کا غلط استعمال اور بدکلامی ایسی بداخلاقی ہے جس نے اس معاشرے کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ مثلاً: کسی غریب کی مدد کرتے کرتے آخر میں ایسی طنز کی بات کر دیتے ہیں جس سے اس غریب کی عزت جاتی رہتی ہے اور وہ خود کو حقیر محسوس کرنے لگتا ہے۔ یا نیک اعمال کرتے کرتے یہ کلمات بول دیتے ہیں کہ ’’تمہیں پتہ ہے کہ یہ سب کچھ میں نے کیا ہے اور میری کاوشوں کا نتیجہ ہے‘‘ بس یہ کہنے کی دیر ہوتی ہے کہ ہم فوراً اللہ کی نگاہ میں گر جاتے ہیں۔

ہمارا کسی دوسرے کو کسی تعاون یا کام کے سلسلہ میں اقرار یا انکار کرنے کا عمل بھی نہایت تلخی پر مبنی ہوتا ہے۔ ہم انکار بھی ترش اور تلخ انداز میں کرتے ہیں اور اگر بالفرض اس کے ساتھ تعاون کرنا بھی ہو تو ایسے طریقے سے جواب دیتے ہیں کہ دوسرا بندہ شرمندہ ہوجاتا ہے۔ گویا اس بندے کو شرمندگی کے عمل سے گزارکر پھر اس کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا کام بھی کردیتے ہیں۔ ایسی نیکی اور بھلائی کس کام کی جب زبان پر تلخی اور دل میں تنگی موجود ہو۔ یاد رکھیں کہ کبھی کسی کے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں، ایسا کرنا انسان کو دنیا و آخرت میں رسوا کردیتا ہے۔

2۔ امانت داری

اعلیٰ معاشرہ کی تشکیل کا دوسرا ضابطہ امانت داری ہے۔ امانت داری انسان کے ماتھے کا جھومر ہے۔ہم جس بھی شعبہ سے وابستہ ہیں، اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیشہ امانت کا دامن تھامے رکھیں کیونکہ اسی امانت ودیانت پر عدل و انصاف کی عمارت استوار ہوتی ہے اور عدل و انصاف پر ہی کامیاب معاشرے کی عمارت کا ڈھانچہ قائم کیا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللهَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰـنٰـتِ اِلٰٓی اَهْلِهَا.

(النساء، 4: 58)

’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُنہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اَہل ہیں۔‘‘

اس آیت کا مطلب صرف یہاں تک محدود نہیں کہ کسی نے امانتاً کوئی چیز یا مال و دولت دیا اور ہم نے اس تک پہنچادیا جس کے لیے دیا گیا تھا، نہیں بلکہ ہر میدان اور شعبہ میں امانت کا ایک پہلو موجود ہے۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:

لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ.

(مسند احمد بن حنبل، 3: 135، الرقم: 12406)

اس کا ایمان ہی نہیں جس میں امانت نہ ہو۔

گویا امانت میں خیانت کرنا بے ایمان ہونے کی علامت ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم دن رات کیا کرتے ہیں۔ اگر مال و دولت اور عہدہ و منصب کی خاطر اپناایمان بیچ دیں تو دنیا تو گزر جائے گی لیکن سوال یہ ہے کہ قبر اورآخرت کے معاملات کا کیا بنے گا۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلَى مَنْ ائْتَمَنَكَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ.

(سنن ابوداؤد، کتاب الاجارہ، 3: 290، الرقم: 3535)

جس کسی نے تیرے پاس امانت رکھی ہو تم اسے امانت واپس کر دو اور جس نے تیرے ساتھ خیانت کی تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔

امانت کی ادائیگی کے حوالے سے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے قبر کی فکر کرنی ہے یا دنیا کی فکر کرنی ہے؟ یاد رکھیں! دنیا کی کوئی وقعت اور قدرو قیمت نہیں ہے۔ لہذا امانت کے حوالے سے ہمیشہ اللہ کی رضا اور اس کے احکامات مقدم رہنے چاہئیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھجور وغیرہ کے پتوں سے بنی ہوئی چٹائی پر لیٹے، اس سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے، جب آپ بیدار ہوئے تو میں نے آپ کے پہلو پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیے اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ ﷺ نے ہمیں کیوں نہیں بتلایا، ہم آپ ﷺ کے لیے چٹائی پر (کوئی گدا وغیرہ) بچھا دیتے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَا لِي وَلِلدُّنْيَا مَا مَثَلِي وَمَثَلُ الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ سَارَ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ فَاسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا.

(مسند احمد بن حنبل، 6: 140، الرقم: 2608)

”میرا دنیا سے کیا تعلق ہے؟ میری دنیا سے کیا نسبت ہے؟ میری اور دنیا کی مثال اس سوار کی طرح ہے جو سستانے کے لیے کسی درخت کے سائے میں چند لمحوں کے لیے بیٹھا اور پھر اسے ترک کر کے چل دیا۔‘‘

گویا یہ دنیا ایسے ہی ہے کہ جیسے سفر کے دوران کسی درخت کے سائے تلے سستانا۔ اس کے بعد دوبارہ سفر شروع ہوجاتا ہے جو تھوڑی دیر کا سایہ ملا ہے، یہ دنیا ہے لیکن سفر تو جاری ہے۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا كَمِثْلِ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هَذِهِ فِي الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَا يَرْجِعُ.

(احمد بن حنبل المسند، 4: 228، الرقم: 18037)

آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنی ایک انگلی سمندر میں ڈالے، پھر دیکھے وہ انگلی اس میں سے کیا نکال کر لاتی ہے۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:

لاَ تَنْظُرُوا إِلَى صَلاَةِ أَحَدٍ وَلاَ إِلَى صِيَامِهِ وَلَكِنِ انْظُرُوا إِلَى مَنْ إِذَا حَدَّثَ صَدَقَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ أَدَّى.

(سنن الکبری، البیہقی، ج: 6، ص: 288، الرقم: 12473)

کسی شخص کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنی ہو کہ یہ کیسا ہے؟ ساتھ نبھانے والا ہے، وفادار ہے یا راستے میں ہی چھوڑ دینے والا ہے؟ تو صرف یہ دیکھ کر فیصلہ نہ کیا کرو کہ وہ نماز و روزہ کی پابندی کرنے والا ہے بلکہ یہ دیکھا کرو کہ جب بولے سچ بولے، جب امانت سونپ دی جائے تو ادا کرنے والا بن جائے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مطہرہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ’’امانت‘‘ نبوی اوصاف میں سے ایک اہم وصف ہے۔ پس ہم جس بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں ہمارے لیے حضور علیہ السلام کے اس وصف کو اپنے اندر پیدا کرنا ناگزیر ہے، افراد کے اسی کردار سے ایک اعلیٰ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

3۔ صداقت

تشکیل معاشرہ میں تیسرا اہم ترین ضابطۂ اخلاق صداقت اور سچائی ہے۔ کبھی سچائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ معاشرے کے تمام میادین سچ پر قائم ہوجائیں تو وہ معاشرہ خیر پر استوار ہوجاتا ہے۔ جو لوگ اپنی ان بداخلاقیوں اور اسلامی اقدار و تعلیمات پر عمل نہ کرنے کے سبب ضعفِ ایمان کا شکار ہوجاتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس میں خیر ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک ذلت بھری زندگی ہے۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑجاتے ہیں۔ دوسری طرف سچ کا بولنا انسان کو کئی مصائب اور شرمندگی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ.

(التوبۃ، 9: 119)

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لیے نجات کا راستہ دو امور میں پنہاں رکھا ہے: اللہ سے ڈرتے رہنا اور سچے لوگوں کی صحبت و معیت کو اختیار کرنا۔ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يَكُونَ صِدِّيقًا وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا.

(بخاری الصحیح، ج: 5، ص: 2261، الرقم: 5743)

’’تم صدق پر قائم رہو کیونکہ صدق نیکی کے راستے پر چلاتا ہے اور نیکی جنت کے راستے پر چلاتی ہے۔ انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے اور کوشش سے سچ پر قائم رہتا ہے، حتی کہ وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ سے دور رہو کیونکہ جھوٹ کج روی کے راستے پر چلاتا ہے اور کج روی آگ کی طرف لے جاتی ہے، انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے کذاب لکھ لیا جاتا ہے۔‘‘

حضرت اسماعیل بن عبید بن رفاعہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میرے دادا آقا علیہ السلام کے ساتھ باہر تشریف لے گئے اور عید گاہ کی طرف جارہے تھے کہ آپ ﷺ نے دیکھا کہ لوگ لین دین میں مصروف ہیں، خریدوفروخت ہورہی ہے اور منڈی لگی ہوئی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ رک گئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:

يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ فَاسْتَجَابُوا لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَرَفَعُوا أَعْنَاقَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ إِلَيْهِ فَقَالَ إِنَّ التُّجَّارَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا إِلَّا مَنْ اتَّقَى اللَّهَ وَبَرَّ وَصَدَقَ.

(سنن الترمذی، کتاب البیون، 3: 515، الرقم: 1210)

اے تاجرو میری بات سنو۔ تمام تاجر حضور ﷺ کی طرف متوجہ ہوگئے تو آپ نے فرمایا: قیامت کے روز سوائے تین کے تمام تاجر لوگ نافرمانوں میں شمار ہوں گے۔ جس نے خدا کا تقویٰ اختیار کیا اور اس سے ڈرتا رہا، جو نیکی کا دامن تھامے رہا اور جو سچ بولتا رہا۔

معلوم ہوا جوہر قدم پر خدا سے ڈرتا رہے، نیکی کے امور سرانجام دیتا رہے اور سچائی پر کاربند رہے تو صرف وہی نافرمانوں کی فہرست سے نکلے گا۔

4۔ قناعت

قناعت اور عدمِ طمع معاشرہ کی تشکیل کے لیے درکار ضابطۂ اخلاق میں سے ایک اہم ترین ضابطہ ہے۔بلا حدود و قیود دنیا کی طلب میں مارا مارا پھرنا لالچ، حرص اور ہوس ہے اور جہاں مادیت کے حصول کی اس دوڑ پر حد لگادیں، وہ قناعت ہے۔ قیامت والے دن دوزخ پکارے گی: ھل من مزید ھل من مزید کوئی ہے جو میرے لپیٹ میں مزید آجائے، میں ابھی بھری نہیں۔ افسوس کہ ہم بھی اس دنیا میں ھل من مزید کا ورد کررہے ہیں اور ہماری حرص و ہوس اور لالچ ہر لمحہ بڑھتی جارہی ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ.

(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، 2: 726، الرقم: 1051)

غناء کثرت مال کا نام نہیں ہے بلکہ دل کی بے نیازی کا نام ہے۔

امیری یہ ہے کہ دل دنیا سے بے نیاز ہوجائے۔ دل ہر حال میں مطمئن رہے اور کہے کہ دینے والا بھی وہی ہے اور لینے والا بھی وہی ہے۔ سائیکل پر بٹھایا تھا تو تب بھی اسی نے دیا تھا، آج لینڈ کروزر پر ہوں تو اسی نے دیا۔ جب دل ہر حال میں اللہ سے خوش ہو تو یہ بے نیازی ہے۔جب دل ہر حال میں اللہ سے خوش اور مطمئن ہوجائے تو اسی کو امارت کہتے ہیں۔

ہم دن رات دنیا کمانے میں مصروف رہتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ اس طریق پر بالآخر ہمارا دل مطمئن ہوجائے گا۔ حالانکہ صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے اور جتنا مال بڑھتا جاتا ہے، دل مطمئن ہونے کے بجائے گھبراتا چلا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جتنا مال بڑھے گا، اس کو بچانے کی فکر بھی اتنی ہی زیادہ لاحق ہوگی اور اس فکر کے نتیجے میں دل کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوگا۔ جس نے ناجائز ذرائع سے مال لیا ہوگا اسے یہ گھبراہٹ رہے گی کہ کہیں میرا مال کم نہ ہوجائے۔ پس مال کا بڑھنا امارت نہ بنا، اس لیے کہ امارت تو دل کے سکون کا نام تھا اور ایسا دل کا سکون آقا علیہ السلام کی نسبت سے ملتا ہے۔ حضور ﷺ کی نسبت یہ ہے کہ کئی کئی دن ازواجِ مطہرات اور اہلِ بیت اطہار کے ہاں چولہا تک نہ جلتا تھا اور محض کھجور اور پانی پر گزر بسر ہوتا تھا اور اس حال میں بھی حضور نبی اکرم ﷺ کا چہرہ اقدس اطمینان کی روشنی سے کائنات کو چمکا رہا ہوتا۔

پس قناعت ایک نعمتِ عظمیٰ ہے، اس پر کاربند ہوکر ہم اپنے معاشرہ کو جنت نظیر معاشرہ بناسکتے ہیں۔ اس وقت ہمارا بحران ھل من مزید ہے۔ انسان ناشکرا ہے، ناقانع اور نامطمئن ہے۔ وہ رکتا نہیں، بس بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ یاد رکھیں جو مال بڑھ رہا ہوتا ہے، اس کا حساب بھی دینا ہوتا ہے۔ اس دولت کا کیا کرنا جو دوزخ کے عذاب کا ذریعہ بن جائے۔ اس سے بہتر تھا کہ بندہ ایک جھونپڑی میں رہتا، اللہ کا ذکر کرتا، اس کی مخلوق کی خدمت کرتا اور جو مالک عزت سے دے دیتا اس پر راضی رہتا، قانع اور شاکر رہتا، دل کاامیر ہوتا اور مطمئن رہتا۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ.

(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، 2: 730، رقم: 1054)

”کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا اور بقدر ضرورت اسے روزی حاصل ہوئی اور اللہ نے اسے اپنے دئیے ہوئے پر قناعت کرنے والا بنا دیا“

یعنی جسے آج کے دور میں جو بھی نعمتیں مل جائیں اسی پر مطمئن ہوجائے کہ اسے اور کچھ نہیں چاہیے۔ یاد رکھیں کہ دنیا میں ہر کسی کو اس کے حصے کا رزق ضرور ملے گا لیکن اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اسے ذلیل ہوکر پانا چاہتا ہے یا عزت کے ساتھ؟ دونوں صورتوں میں رزق اسے ملے گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

طُوبَى لِمَنْ هُدِيَ إِلَى الْإِسْلَامِ وَكَانَ عَيْشُهُ كَفَافًا وَقَنَعَ.

(سنن الترمذی، کتاب الزهد، 4: 576، رقم: 2349)

’’خوشخبری ہے اس کے لیے جسے اسلام کی طرف سے ہدایت مل گئی اور بقدرِ ضرورت روزی مل گئی اور وہ قناعت کرنےو الا بن گیا۔‘‘

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

الْقَنَاعَة وَهِيَ كَنْز لَا يَفْنَى.

(الزھد الکبیر، البیہقی، ص: 88، رقم: 104)

قناعت وہ خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔

قناعت ’’بس‘‘ کا نام ہے کہ گھر کے اخراجات اور بچوں کی روزی روٹی عزت کے ساتھ پوری ہوجائے تو انسان کہے بس بہت ہے۔

امام شافعی فرماتے ہیں:

القناعۃ تورث الراحۃ.

(الطبقات الکبریٰ، ص: 79)

قناعت راحت کا دروازہ کھولتی ہے۔

5۔ رزقِ حلال

تشکیلِ معاشرہ کے ضابطۂ اخلاق کا پانچواں نکتہ ’’رزقِ حلال‘‘ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّهٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ.

(البقرة، 2: 168)

’’اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘

شیطان کے راستے پر نہ چلنے کا حکم اس لیے دیا کہ شیطان ھل من مزید کی طرف لے جاتا ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی:

اے بیٹے! کسب حلال کے ذریعے غربت سے بچو۔ اس لیے کہ جس شخص کو غربت لاحق ہوتی ہے، اسے تین باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے:

1۔ اس کے دین میں کمزوری آجاتی ہے۔

2۔ اس کے اندر سے خود داری چلی جاتی ہے۔

3۔ اس کی عقل پر بھی پردہ پڑ جاتا ہے۔

پس اس غربت سے بچیں کہ جس سے خودداری بھی چلی جائے اور دین کی غیرت و حمیت میں بھی کمی آجائے۔ حلال کمائیں تاکہ دین کی غیرت و حمیت میں اضافہ ہوتا چلا جائے اور خودداری بڑھتی جائے۔کبھی رزقِ حرام کے سبب اپنی غیرت کا سودا نہ کریں۔ اگر حلال کمائی کو اپنی زندگی میں رائج کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی کے آگے آنکھیں اور سر نہیں جھکے گا۔ حلال کمائیں گے تو عقل بھی سلامت رہے گی۔اس لیے کہ حلال کی کمائی عقل کو مضبوط کرتی ہے، خودداری میں اضافہ کرتی ہے اور دین میں مضبوطی و استحکام دیتی ہے۔ جس کی کمائی حلال ہوگی، دنیا میں اس کا سر کوئی جھکا نہیں سکتا۔

6۔ رحمت و محبت اور صلح جوئی

تشکیل معاشرہ کے ضابطہ اخلاق کا چھٹا اہم نکتہ رحمت ومحبت اور صلح جوئی کا فروغ ہے۔ آج معاشرے میں ہمارا طرزِ عمل اور رویہ یہ ہے کہ ہم کسی کی معاشرتی حیثیت دیکھ کر اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے یا نہ کرنے کا قدم اٹھاتے ہیں۔ انسان خواہ کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہو، وہ ہر ایک کے ساتھ بلاتفریقِ مذہب، نسل، مالی حیثیت پیارو محبت سے پیش آئے۔حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ بندے کی حیثیت دیکھ کر اس کے ساتھ رویہ اختیار کریں۔ آپ ﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.

(آل عمران، 3: 159)

’’(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔‘‘

گویا آپ ﷺ کے اردگرد معاشرے کے مقہور اور غریب وکمزور طبقہ کے اکٹھا ہوجانے کا سبب یہ تھا کہ آپ ﷺ بڑے نرم دل تھے۔ آپ ﷺ سے لوگ کچھ لینے آتے تو آپ ﷺ ان کی جھولی بھی بھرتے اور خیر کی دعائیں بھی دیتے۔ پس ہر ایک کے لیے چاہے وہ امیر ہو یا غریب، رحمت اور اخلاق کا پیکر بن جائیں۔ دوسروں کو عزت و احترام دیں، معاشرے کے بے آسرا اور بے سہارا لوگوں کی ہر قسم کی خدمت کریں اور ان کے ساتھ کسی قسم کے تعاون سے دریغ نہ کریں۔ ہمیشہ تالیف قلبی کا کام کریں یعنی جوڑنے والے بن جائیں۔ خاندان کو بچانے والے بن جائیں اور انسانیت کوبچانے والے بن جائیں۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:

لَا يَرْحَمُ اللهُ مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ.

(بخاري الصحيح، 22: 368، الرقم: 6828)

جو انسانیت پر رحم نہیں کرتا، خدا س پر رحم نہیں کرتا۔

  • معاشرے کے باطنی حسن کو برقرار رکھنے کے لے محبت کے ساتھ ساتھ صلح جوئی بھی ایک نہایت اہم عنصر ہے۔ اس لیے ہمیشہ لوگوں کے درمیان صلح کروایاکریں۔ ارشاد فرمایا:

وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا.

(الحجرات، 49: 9)

’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرادیا کرو۔‘‘

صلح کروانا اور اختلافات ختم کروانا بھی رحمت و محبت ہی کا ایک اظہار ہے۔ اسی سے معاشرے میں اخلاقیات و روحانیت فروغ پاتی ہے۔

7۔ عیب پوشی اور حاجت روائی

اعلیٰ معاشرے کی تشکیل میں ’’عیب پوشی اور حاجت روائی‘‘ کو ایک اہم ضابطۂ اخلاق کی حیثیت حاصل ہے۔ انسان کسی بھی شعبہ زندگی سے وابستہ ہو، اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کی عیب پوشی اور رازداری کرنے والا بن جائے۔ ہمیشہ پردہ پوشی کو اپنا زیور بنائیں اور لوگوں کو معاشرے میں ذلیل ہونے سے بچائیں۔ جو لوگوں کی عیب پوشی کرتا ہے، اللہ اس کی عیب پوشی کرتا ہے۔سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

(بخاري الصحيح، 8: 309، الرقم: 2262)

مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے(ظالموں کے) سپرد کرتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے۔ جو کسی مسلمان سے اس کی ایک تکلیف دور کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کی تکلیفوں میں سے تکلیف دور کرتا ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس (کے عیبوں) کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘

ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا يَزَالُ اللهُ فِي حَاجَةِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ.

(المعجم الکبیر، 5: 118، رقم: 4801)

جب تک بندہ دوسرے کی حاجت روائی میں ہے، اللہ رب العزت اس کا مددگار رہتا ہے۔

8۔ عدل و انصافف

اعلیٰ معاشرہ کی تشکیل عدل و انصاف کے قیام کے بغیر ناممکن ہے۔ اس لیے ہمیشہ عدل و انصاف کا دامن تھامے رکھیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ.

(المائدۃ، 5: 42)

’’اور اگر آپ فیصلہ فرمائیں تو ان کے درمیان (بھی)عدل سے (ہی) فیصلہ فرمائیں (یعنی ان کی دشمنی عادلانہ فیصلے میں رکاوٹ نہ بنے)۔‘‘

اگر فیصلہ کرنے لگو یا فیصلہ کروانے میں مدد گار ہو تو پھر عدل و انصاف کا دامن کبھی نہ چھوڑا جائے۔ دو چار پیسوں کے عوض ظالم کے ساتھ کھڑے نہ ہوں، کم از کم یہ گرفت تو نہیں ہوگی کہ ظالم کی مدد کرتا تھا بلکہ ہمیشہ مظلوم کے ساتھ رہیں۔ مظلوم کی مدد کے عوض اللہ تعالیٰ کئی مشکلات حل فرمادیتا ہے۔ عدل و انصاف کا انحصار گواہی پر ہوتا ہے۔ اس لیے لازمی ہے کہ کبھی جھوٹی گواہی نہ دیں۔

سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ یا خلیفۃ المسلمین میں ایک بہت اہم معاملے میں آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا وہ کیا ہے؟اس نے کہا:

شَهَادَاتُ الزُّورِ ظَهَرَتْ بِأَرْضِنَا فَقَالَ عُمَرُ أَوَ قَدْ كَانَ ذَلِكَ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ لَا يُؤْسَرُ رَجُلٌ فِي الْإِسْلَامِ بِغَيْرِ الْعُدُولِ.

(موطأ مالك، 4: 1043، الرقم: 2666)

جھوٹی گواہیاں ہمارے ملک میں بہت پھیل گئی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: سچ؟ اس نے کہا: ہاں۔ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اب کوئی شخص مسلمان قید نہ کیا جائے گا بغیر معتبر گواہوں کے۔

یاد رکھیں! عدل و انصاف کرتے وقت کسی کی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو نہ دیکھیں بلکہ اس پر بھی صبر کرنے والے بن جائیں اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ دوسروں کی زیادتیوں کو بھلاکر اس سے خیر کرنا ہی احسان ہے۔ خیر کے بدلے خیر کرنا احسان نہیں بلکہ وہ تو ادلے کا بدلہ ہوگیا۔ احسان یہ ہے کہ وہ زیادتی کرے اور ہم بھلائی کرتے رہیں۔

معاشرے میں مذکورہ ضابطہ ہائے اخلاق کو پروان چڑھانے سے ہی ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے گا جو اعلیٰ روحانی و اخلاقی اقدار پر استوار ہوگا۔ ان خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے کردار سے معاشرے کو مثبت سمت دے سکیں۔