ان شاء اللہ تعالیٰ ماہِ جنوری 2024ء کے آخری ہفتہ میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی شہرۂ آفاق تصنیف کی تقریبِ رُونمائی لاہور میں منعقد ہو گی۔ ملکی و بین الاقوامی، علمی، قانونی حلقے اس تصنیف کے شدت سے منتظر ہیں۔ الحمدللہ یہ تصنیف بیک وقت عربی، انگریزی اور اُردو زبان میں شائع ہونے کا اعزاز حاصل کررہی ہے۔ وطنِ عزیز میں پچھلے چند سالوں میں ریاستِ مدینہ کے موضوع پر سیاسی، سماجی اور معاشرتی فورمز پر بہت گفتگو ہوئی مگر گہرائی کے ساتھ دستورِ مدینہ اور ریاستِ مدینہ کے موضوع پر بحث کی پیاس کو شدت سے برابر محسوس کیا جاتا رہا ہے۔ یہ پیاس بھی بالآخر تحریک منہاج القرآن نے بجھائی اور چیئرمین سپریم کونسل نے دستورِ مدینہ اور فلاحی ریاست کے موضوع پر کتاب رقم کر کے صدیوں سے اُمت کے ذمہ واجب الادا قرض ادا کر دیا۔
جب حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے انتظامی معاملات کو سدھارنے اور مستقبل کی ریاست کے انتظامی ڈھانچے کے خدوخال اُبھارنے اور سنوارنے کے لئے ابتدائی امور کی طرف توجہ فرمائی۔ مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے کوئی دستور یا انتظامی ڈھانچہ موجود نہ تھا۔ باہمی تنازعات کی وجہ سے لوگ باہم دست و گریبان تھے۔ آپ ﷺ نے سب سے پہلے انصار و مہاجرین میں مواخات کا رشتہ قائم کیا۔ اس سے نہ صرف مہاجرین کے معاشی مسائل حل ہوئے بلکہ مقامی سطح پر ایک ایسی مثبت تعمیری اور صحت مندانہ فضا پیدا ہوئی جس نے مستقبل کے انتظامی اور ریاستی ڈھانچے کے روبہ عمل ہونے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو منہدم کر دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد اس بات کے واضح امکانات پیدا ہو گئے کہ اب مدینہ طیبہ انتشار و افتراق اور لاقانونیت کی کیفیت سے نکل کر ایک لائقِ رشک منظم معاشرے میں ڈھل جائے گا۔
آپ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں ورودِ مسعود فرمانے کے بعد آئینی ریاست کی تشکیل اور اس کے متفقہ دستور کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے اسے اپنی اولین ترجیح بنایا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی سیاسی و معاہداتی اور آئینی و دستوری جدوجہد میں میثاقِ مدینہ ایک نمایاں اور اساسی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ دستور مدینہ کے آرٹیکلز ریاست کی حاکمیت اعلیٰ کے تعین کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی پیغمبرانہ بصیرت اور کمال دستوری مہارت کے شاہد بھی ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی پیغمبرانہ بصیرت و فراست کی بنا پر شروع ہی سے ایسے اقدامات کئے جن کی بنا پر ایک متفقہ دستور کی منظوری کی راہ ہموار ہوئی جس سے دنیا میثاق مدینہ کے نام سے متعارف ہے۔ میثاق مدینہ دنیا کا پہلا تحریری دستور ہونے کے ناطے نہ صرف امتیازی حیثیت کا حامل ہے بلکہ اپنے نفس مضمون کے اعتبار سے بھی اعلیٰ ترین دستوری اور آئینی خصوصیات کا مظہر ہے۔ اگر جدید آئینی و دستوری معیارات اور ضوابط کی روشنی میں میثاق مدینہ کا تجزیہ کیا جائے تو وہ تمام بنیادی خصوصیات جو ایک مثالی آئین میں ہونی چاہئیں میثاق مدینہ میں بہ تمام و کمال نظر آتی ہیں۔
دستورِ مدینہ کے موضوع پر محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی یہ کتاب 2 جلدوں اور 1200سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے کل 7 ابواب ہیں۔ اس کتاب میں دستور مدینہ کا جدید دساتیر کے ساتھ تقابل کر کے واضح کیا گیا ہے کہ دستور مدینہ؛ ریاست کی نوعیت و حیثیت، افراد ریاست کی آئینی حیثیت، ریاست کے فرائض ، ریاست کے باشندوں کے حقوق اور دیگر ریاستی اُمور سمیت تمام تفصیلات کا جامع احاطہ کرتا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں اس موضوع پر امتیازی شان کی حامل یہ اپنی نوعیت کی منفرد تصنیف ہے۔ اس کتاب کے امتیازات و تفردات اور بعض خصوصیات کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے تاکہ اس مختصر تحریر کے ذریعے اس عظیم علمی شاہ کار سے متعارف ہوا جا سکے:
1۔ یہ کتاب میثاقِ مدینہ پر پہلی کثیر الجہات تجزیاتی تحقیق ہے۔
2۔ اس کتاب میں عالم اسلام کی ممتاز یونیورسٹی جامع الازھر کے شیوخ کی تقاریظ شامل ہیں۔
3۔ اس تحقیقی کتاب میں امریکی، برطانوی و یورپی دساتیر سے بھرپور تقابلی موازنہ پیش کیا گیا ہے۔
4۔ اس تحقیق سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ ریاست مدینہ تاریخ عالم کی پہلی ویلفیئر سٹیٹ تھی۔ جمہوریت کے بانی برطانیہ میں 1215ء میں ’’میگنا کارٹا‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ وجود میں آیا جبکہ دستورِ مدینہ کی تسوید و تحریر اس معاہدہ سے 593سال قبل کی گئی۔’’میگنا کارٹا‘‘ کا معاہدہ یکطرفہ طور پر تحریر کیا گیا جبکہ میثاقِ مدینہ ایک سے زائد اقوام اور مذاہب کے نمائندوں نے اتفاق رائے سے تحریر کیا۔ دیگر قدیم معاہدوں میں ایک خاندان، گروہ یا قبیلہ کے انفرادی اقدار کو دائمی بنانے کی کوشش کی گئی جبکہ دستور مدینہ میں اجتماعیت کے مفاد کو مدنظر رکھا گیا۔
5۔ اس کتاب میں یونان، روم سمیت قبل مسیح کی قدیم تہذیبوں میں آئین سازی کی مختصر تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ریاست مدینہ کے ماڈل کو سمجھنے کے لئے مفید مواد ہے۔
6۔ اس تحقیق دقیق میں قاری کو قبل مسیح کی تاریخ بھی پڑھنے کا موقع ملے گا جس سے وہ اندازہ لگا لیں گے کہ ریاست مدینہ کا انتظامی، معاشی، فلاحی ماڈل سب سے بہترین ہے جو ماضی کی کسی تہذیب سے مستعار نہیں لیا گیا۔
7۔ اس کتاب کے مطالعہ سے عرب معاشرہ کے خدوخال اور معروضی حالات سے بھی آگاہی میسر آتی ہے۔
8۔ اس میں انتہائی خوبصورتی کے ساتھ قبل مسیح کی تہذیبوں کا عہدِ رسالت مآب ﷺ سے موازنہ کیا گیا ہے اور ایک تاریخی تقابلی جائزہ قاری کے سامنے شرح و بسط سے رکھا گیا ہے۔
9۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ منفرد اور یگانہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ قدیم تہذیبیں حکمرانوں کے مظالم کی وجہ سے ہونے والی بڑی پیمانے پر ہجرت کی بنا پر برباد ہوئیں اور مہاجر بھی ذلیل و رسوا ہوئے جبکہ ریاست مدینہ ہجرت کی برکت سے آباد ہوئی اور ریاست مدینہ میں ہجرت کرنے والوں کو عزت و تحفظ اور وقار و افتخار ملا۔ معلوم شدہ اور معروف قدیم تہذیبوں میں آمریت کا غلبہ تھا اس کے علی الرغم ریاست مدینہ شورائی نظام سے پھلی پھولی۔ اس نظام کی روح با مقصد مشاورت تھی۔
اس کتاب میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے دستور مدینہ کا امریکی، برطانوی، یورپی دساتیر سے موزانہ کیا ہے۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کا آئین 1776ء میں بنا۔۔۔ برطانیہ کا غیر تحریر آئین 1911ء میں پاس ہوا۔۔۔ جبکہ دستور مدینہ 622ھ میں کئی صدیاں قبل حضور نبی اکرمﷺ کی جلیل المرتبت اور رفیع الشان نگرانی میں ضبط تحریر میں لایا جا چکا تھا۔ دستور مدینہ دنیا کا قدیم ترین اور اولین تحریری دستور ہے جو ریاست کی تشکیل، قومیت، مساوات، عدل ،شوریٰ ، آزادی، امن اور بہبود انسانی جیسے دستوری ضوابط پر مشتمل ہے۔