ضرورتِ مذہب اور وجودِ باری تعالیٰ

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

لامذہبیت (agnosticism) اور دھریت (atheism) ان چند اہم مسائل میں سے ایک ہے جس نے آج پوری دنیا میں بسنے والی مسلمان نوجوان نسل کے اعتقادات کو گھیر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے یہ مسئلہ ہر روز پہلے سے زیادہ سنگین اور شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پہلے یہ مسئلہ دیگر مذاہب کے ماننے والے نوجوانوں کے اذہان کو پیش آیا تھا اور اس نے ان کے اعتقادات کو نقصان پہنچایا مگر آج یہ فتنہ امت مسلمہ کے گھروں میں بھی داخل ہو گیا ہے۔ اگر اس کا کما حقہ سد باب نہ کیا گیا تو یہ آئندہ آنے ادوار میں مسلمانوں کو درپیش اہم ترین چیلنج ہو گا ۔

لا مذہب (agnostic) کہتے ہیں کہ مجھے پتا نہیں ہے کہ خدا ہے یا نہیں ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں بہتر زندگی گزارنے کے لیے مذہب کی کوئی ضرورت بھی ہے۔ یہ طبقہ جب حد سے بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے بیان میں مزید اعتماد اور یقین داخل کرتا ہے تو یہ طبقہ دھریہ (atheist) کہلاتا ہے۔ یہ طبقہ کہتا ہے کہ اللہ رب العزت کا کوئی وجود (معاذاللہ) نہیں ہے، مذہب کی ضرورت نہیں ہے، مذہب صرف انسانوں کا بنایا ہوا ایک نظام ہے جو دوسرے انسانوں کو باندھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ان طبقات کی طرف سے دیئے گئے دلائل اور زبان سے وہ آزاد منش نوجوان متاثر ہوجاتے ہیں جن کو دین کی تعلیم نہیں دی گئی۔ ان کو اس طرح کے بیانات بڑے مضبوط لگتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ہاں، یہ بات صحیح ہے۔

اگر حقیقت کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ دین اور مذہب کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ اپنی تفہیم (understanding) کے ساتھ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے دین کو پڑھا کب ہے کہ جو انھیں پتہ ہو کہ یہ دین ہمیں آزاد کرنے کے لیے آیا ہے یا یہ دین ہمیں باندھنے کے لیے آیا ہے ۔

لامذہبیت اور دہریت کے مسئلے کا تعلق صرف پاکستان سے باہر بسنے والے مسلمانوں میں نہیں ہے بلکہ پاکستان کے اندر کالجز اور یونیورسٹیز سطح کے کثیر طلبہ بھی اس فتنے کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کو بے خبری کہیں یا معصومیت ، والدین کو اس کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ نوجوان نسل کے اذہان ماڈرن ازم، ماڈرن ایجوکیشن، نئے دور، نئی روایات، کلچر اور سیکولر ازم کے نام پر دین، دین کی بنیادی تعلیمات، مذہب، مذہب کی معاشرے میں ضرورت اور یہاں تک کہ اللہ رب العزت کے وجود کے حوالے سے بھی اشکال کا شکار ہو رہے ہیں۔

اندرون و بیرون ملک سے اس طرح کے کثیر نوجوان وقتاً فوقتاً مجھے ملتے رہتے ہیں اور اپنے رجحانات، خیالات اور میلانات کا تذکرہ کرتےہیں، اس سے مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ کس طریقے سے ان کے ذہن میں مذہب اور مذہب کی ضرورت پر سوالات پیدا ہو چکے ہیں؟ یہاں تک کہ اُن کے اذہان میں یہ بات بھی راسخ ہوچکی ہے کہ اللہ رب العزت کا ہماری روز مرہ زندگی میں عمل دخل کیا ہے۔۔۔؟ اللہ رب العزت کے وجود کی ضرورت کیا ہے۔۔۔؟ سائنس اور مذہب کی بحث کے درمیان انھوں نے اپنے آپ کو یوں confuse کرلیا ہے کہ وہ اپنی تمام روایات پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ پھر المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے والدین اور بڑوں سے بآسانی ان چیزوں کا تذکرہ بھی نہیں کر پاتے کہ ممکن ہے کہ ایسے سوالات پر ڈانٹ پڑ جائے۔ یہ لوگ عام مجالس میں تو اپنے افکار کا اظہار نہیں کرتے لیکن جب ان کے ساتھ بات کی جائے تو پھر وہ اپنے افکار کا اظہار کرتے ہوئے دین کی ضرورت، مذہبی اقدار، تعلیماتِ دین پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت اور اللہ رب العزت کے وجود پر سوال اٹھاتے ہیں۔

ہم عموماً ایسے پورے طبقے کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہ ماڈرن لوگ ہیں اور انہیں دین کی سمجھ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے، حقیقت میں یہ دو الگ طبقات ہیں:

1۔ ایک طبقہ وہ ہے جو ماڈرن ہے یا ممکنہ طور پر بے راہ روی کا شکار ہے، دین، دینی اقدار اور دینی تعلیمات سے زیادہ آشنا نہیں ہے۔ یہ طبقہ بنیادی طور پر دین اور مذہب کی ضرورت پر اعتراض نہیں کرتا اور اللہ رب العزت اللہ رب العزت کی ذات اور وجود کا انکار نہیں کرتا۔

2۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جن کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ معلوم نہیں ہم مذہب کو کیوں مانتے ہیں۔۔۔؟ شاید یہ پرانے دور کی روایات ہیں، جن میں ہم بندھے ہوئے۔۔۔ آج سائنسی دور ہے اور اس دنیا میں ہم نے جینا ہے، ترقی کرنی ہے، پیسہ کمانا ہے، گھر بار بسانا ہے، ہمیں اب دین اور مذہب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

نوجوان نسل کے اذہان ماڈرن ازم، ماڈرن ایجوکیشن، نئے دور، نئی روایات، کلچر اور سیکولر ازم کے نام پر دین کی بنیادی تعلیمات،مذہب کی معاشرے میں ضرورت اور اللہ تعالیٰ کے وجود کے حوالے سے بھی اشکال کا شکار ہو رہے ہیں

یہ دو الگ طبقات ہیں۔ میں جس کی طرف توجہ کروانا چاہتا ہوں، وہ یہ دوسرا طبقہ ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو، اپنے ایمان کو اور اپنے بچوں کو اس طبقہ اور ان کے افکار سے بچانا از حد ضروری ہے۔

کیا مذہب اور دین ترقی میں رکاوٹ ہے؟

لامذہبیت اور دھریت کی فکر کے حامل طبقہ میں مذہب کی ضرورت اور اللہ کے وجود کے حوالے سے سوالات پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان نوجوانوں نے ایک نظر سے دیگر اقوام کی معاشی، سائنسی، علمی ترقی اور مختلف علوم و فنون میں ان کی مہارت دیکھی اور دوسری نظر سے انھوں نے یہ دیکھا کہ یہ لوگ بھی مختلف مذاہب کے ماننے والے تھے مگر انہوں نے اپنی مذہبی روایات پر سوال اٹھائے۔ کسی کو اپنی مذہبی کتابوں پر شک ہوا، روایات کے اندر جوڑ توڑ کا مسئلہ نظر آیا، کہانیوں میں صداقت نظر نہ آئی تو انہوں نے اپنے مذہب پر سوال اٹھائے اورمذہب کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی سے نکال دیا اور اس کی ضرورت و اہمیت سے انکار کردیا۔ مسلمان نوجوانوں نے بدقسمتی سے یہ سمجھا کہ شاید ان کی ترقی کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے مذہب کی روایات کی پیروی نہیں کی جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ان اقوام کی ترقی کی وجہ ان کی حکومتی پالیسیز تھیں، جس بناء پر وہ ممالک ترقی کرتے گئے۔

مسلمان نوجوان نے ترقی کی وجہ لامذہبیت کو قرار دیا اور کہا ہمارا ترقی نہ کرسکنے کا سبب مذہب ہے، یہ مذہب پاؤں کی زنجیر ہے اور اس نے ہمیں ترقی سے روک رکھا ہے۔پس ہم نے ان کے دیکھا دیکھی بھیڑ چال میں اپنے نہایت ہی قابل اعتماد دین اور اُس قرآن مجید پر شک کیا جس کی حفاظت اللہ رب العزت نے خود اپنے ذمہ لی ہے اور جس میں سے کوئی ناقد سے ناقد ترین شخص بھی کوئی ایک غلطی نہیں نکال سکتا۔ ہم نے اس دین پر شک کر لیا اور سمجھا کہ شاید ترقی کی راہ میں مذہب رکاوٹ ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا، ترقی کی راہ میں سیاست، ممالک کی پالیسیز، کرپشن اور دیگر معاشرتی عوامل کار فرما ہوتے ہیں، ترقی نہ کرنے پر مذہب کو مورد الزام ٹھہرانا درست بات نہیں ہے۔ نوجوان اذہان نے مذہب کو اپنی پاؤں کی زنجیر سمجھ کر دیگر اقوام کی دیکھا دیکھی اپنے مذہب سے بیزاری کا اعلان کر دیا۔

نوجوان نسل میں یہ سوچ اور فکر در آنے کے بعد المیہ یہ ہوا کہ کسی نے نوجوان نسل کے ان سوالوں کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ اس جلتی آگ کے اندر social میڈیا نے ایندھن اور تیل کا سا کام کیا کہ پوری دنیا کے ایسے مفکرین، intellectual، speakers، trainers کے ساتھ رابطہ کروادیا کہ جنہوں نے طرح طرح کی روایات، professional باتوں، مختلف افکار، قصوں اور کہانیوں سے اپنے بیانیے کو مزین کر کے اس طرح بیان کیا کہ یہ نوجوان اپنی روایات سے منقطع ہوتے چلے گئے اور ایک غیر محسوس انداز میں ان کے اذہان کے اندر مذہب کے حوالے سے مذاق اور اللہ رب العزت کے وجود کی ضرورت نہ ہونے کے حوالے سے باتیں داخل کی گئیں۔ مذہب کی ضرورت اور اہمیت کو اتنا عام اور سطحی بنا کر مختلف طریقوں سے پیش کیا جانے لگا کہ ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوا کہ اس پورے معاملے کی اہمیت ہمارے افکار اور ذہن سے کس طرح نظر انداز ہونا شروع ہو گئی۔

ماڈرن ہونے کی دوڑ میں، ایلیٹ طبقے کا حصہ بننے کی دوڑ میں اور اپنے آپ کو ان جیسے بنانے اور پہچانے جانے کی دوڑ میں نوجوان نسل نے ان افکار کو اپنایا۔ غیر محسوس انداز میں اللہ رب العزت کے وجود اور ضرورتِ مذہب کے حوالے سے مختلف باتیں ڈراماز، موویز، گانوں، لٹریچر، ناولز اور کہانیوں کے ذریعے ہماری روز مرہ زندگی میں داخل کی گئیں۔ نتیجتاً ہماری نوجوان نسل اس فتنہ کا بآسانی شکار ہوتی چلی گئی اور ہمیں اس کی خبر بھی نہ ہوئی اور اگر خبر ہوئی بھی تو ہم نے اسے نظر انداز کردیا۔

لامذہبیت اور دھریت کی طرف رغبت کی وجوہات

لامذہبیت اور دھریت کی طرف نوجوانوں کے مائل ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سے چند وجوہات کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:

(1) علماء کرام کا مناظرانہ رویہ

لامذہبیت اور دھریت کے رجحانات میں اضافہ کی ایک وجہ میرے نزدیک علمائے کرام کا افسوسناک رویہ بھی ہے۔ آج محافل و مجالس کے اندر بھی اور سوشل میڈیا پر بھی علماء کے مناظرانہ رویے اور روش پر غور کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلک دوسرے مسلک کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے اور اس کی روایات، کتب، لٹریچر اور اس کے بزرگوں کی تعلیمات میں سے اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق نقص نکالتا ہے پھر عوام الناس میں اس کی تشہیر کی جاتی ہے اور پھر دوسرے مسالک کو بے نقاب کرنے کی خوشی میں فتح کا جشن مناتا ہے کہ میں نے فلاں مسلک کو لوگوں کے سامنے عیاں کردیا ہے۔ اسی طرح دوسرے نے اس کے مسلک کے بارے میں اور اس کی کتابوں میں سے خامیاں نکال کر عوام کو بتائیں، تیسرے نے ان دونوں کے مسلک اور مذہب کے بارے میں خامیاں نکال کے عوام الناس کو بتائیں۔ نتیجتاً وہ عام لوگ جو ان کی مجلس میں جا کر بیٹھتے ہیں، وہ ان ہی علماء کی طرف سے ایک دوسرے کے مسالک کے نقائص اور خامیاں سن کر دین سے ہی بے زارہوجاتے ہیں۔ ان نام نہاد علماء کو اس کی خبر ہی نہیں ہوتی کہ ہمارے اس مناظرانہ رویے کے باعث نوجوان نسل کے ذہن میں مذہب پر سوال پیدا ہو گئے ہیں اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ دین میں سے بھی خامیاں نکل آئیں۔ ایک طبقے نے دوسرے کی اور دوسرے طبقے نے پہلے کی خامیاں بتا دیں، اس کا مطلب ہے کہ سبھی کچھ غلط ہے۔

اس سے اندازہ لگائیں کہ کتنا بڑا ظلم اورمذاق صرف اپنی مسلکی پہچان کو پختہ کرنے کے لیے ہم پورے دین کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان مناظروں میں علماء، فقہاء اور ان کے لٹریچر پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور ان کی شخصیات اور کتب کو عوام کی نگاہ میں ہلکا کیا جاتا ہے۔ یاد رکھیں! جب کسی شے کا ادب، اہمیت، ناگزیریت کو ہلکا بنا کر دکھانا شروع کر دیا جائے تو یہ اس کو ختم کرنے کا پہلا اقدام ہوا کرتا ہے۔ اس مرحلہ میں آج کثرت سے مسلمان داخل ہو چکے ہیں۔

علماء کرام کو اپنے اس کردار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور سوچنا ہوگا کہ جب علماء اُن بزرگان دین اور ان کی کتب اور تعلیمات پر اعتراض کرتے ہیں جو چودہ سو سال میں اسلام کی اقدار، تعلیمات اور عقائد کے محافظ رہے ہیں تو اس کامطلب یہ ہے کہ یہ حملہ دین کی جڑوں پر حملہ ہے۔ آج ان پر سوال اٹھاتے ہیں تو نتیجتاً لوگ آج ان کا انکار کریں گے اور پھر کل انہی میں سے طبقہ پیدا ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ ہم حدیث کو بھی نہیں مانتے، ہمیں صرف قرآن کافی ہے۔ پھر انہی میں سے طبقہ پیدا ہوتا ہےجو کہتا ہے ہم قرآن کو بھی نہیں مانتے، ہمیں صرف اللہ کافی ہے اور پھر اسی میں سے وہ طبقہ پیدا ہو جاتا ہے،جو کہتے ہیں کہ ہمیں تو سائنس کافی ہے، ہم اس دنیا میں زندگی گزارنے آئے ہیں، ہم اللہ کی ذات کو بھی نہیں مانتے۔

مناظروں کے وقت اور دوسرے مسالک کے خلاف باتیں کرتے وقت ان نام نہاد علماء کو شاباش دی جا رہی ہوتی ہے، کیونکہ ان کے ذریعے کسی ایک خاص مسلک کو تائید میسر آ رہی ہوتی ہے لیکن جب وہ فتنہ پھیلتے پھیلتے بنیادی تعلیمات اور دین اور مذہبی حدود کو بھی پار کرنے لگتا ہے تو اس وقت وہ بات اتنے آگے نکل چکی ہوتی ہے کہ اختیار اور کنٹرول میں نہیں آتی اور یہی کچھ آج مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے

(2) والدین کی اولاد کے دین و ایمان کی طرف عدمِ توجہی

معاشرے میں لامذہبیت اور دھریت کے فروغ کی دوسری بڑی وجہ میرے نزدیک والدین کا کردار ہے۔ آج معاشی مسائل ہیں، ہر کوئی ایک طرح کے معاشی حالات کے اندر پیدا نہیں ہوا بلکہ وہ مختلف حالات سے گزرتا ہے۔ اپنے معاشی حالات کو تبدیل کرنے کے لیے دوسروں کے کلچر اور روایات ہمیں رغبت دلاتے ہیں اور پھر ہم ان کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ ایسے معاشی حالات کو بہتر بنانے کی غرض سے جب ہم معاشرے کی اشرافیہ کی تقلید کرتے ہیں تو اسی تناظر میں ہمارا بنیادی مقصد بھی یہ ہوجاتا ہے کہ ہمارا بچہ انگریزی بولے، مہنگے سکولز میں جائے، ایلیٹس جیسا لباس پہنے، انہی میں اٹھے بیٹھے، وہی اس کے friends circle ہوں اور اسی طرح کی degrees حاصل کرے۔

مسلمان نوجوان نے دیگر اقوام کی ترقی کی وجہ لامذہبیت کو قرار دیا اور کہا ہمارا ترقی نہ کرسکنے کا سبب مذہب ہے، یہ مذہب پاؤں کی زنجیر ہے اور اس نے ہمیں ترقی سے روک رکھا ہےجبکہ حقیقت یہ تھی کہ ان اقوام کی ترقی کی وجہ ان کی حکومتی پالیسیز تھیں، جس بناء پر وہ ممالک ترقی کرتے گئے۔

یہ طرزِ عمل اور طرزِ زندگی اپنانے کے بعد اب اس کے ایمان، بنیادی عقائد، دین اور تاجدار کائناتﷺ کی ذات بابرکات کے ساتھ اس کی نسبت کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔۔۔ کیا اللہ رب العزت کے وجود پر ایمان، مذہب کی اہمیت اور اس کے عقائد باقی بچتے ہیں یا نہیں بچتے۔۔۔؟ اس سے ہمارا سروکار نہیں ہے۔ بہت عرصہ بعد اس چیز کا احساس اور شعور ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے لیکن اس وقت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

ایک صاحب مجھے ملے اور رو کر کہنے لگے کہ دعا کریں کہ میرے بچے بچ جائیں۔ میں نے کہا کہ آپ نے ان کو بچانے کے لیے خود کیا کیا ہے؟ اب وہ عمر کے جس حصے میں داخل ہو گئے ہیں، یہاں اب اللہ تعالیٰ کوئی کرم فرما دے تو خیر ہو جائے مگر جب آپ کی ذمہ د اری تھی، اس وقت تو آپ نے سرپرستی نہیں کی، اس وقت تو مال کمانے کی دوڑ تھی، کتنے سال اپنے بچوں کے سر پر نہیں رہے اور ان کو چھوڑ دیا، کیوں؟ کیونکہ ایک اچھا بڑا گھر بنانا تھا، بڑی سواری لینی تھی، زیادہ پیسے کمانے تھے اور آج جب آپ لوٹ کر واپس ان کے سروں پر آئے ہیں تو اس وقت وہ تربیت کی عمر سے نکل چکے ہیں۔ اب وہ اپنے عقائد اور فکر پختہ کر چکے ہیں۔ اب اتنی آسانی سے یہ تبدیلی نہیں ہوگی۔

سمجھانا یہ مقصود ہے کہ آج والدین ایک طرف اس امر کی طرف توجہ نہیں دیتے کہ سکول سے بچے کیا سیکھ کر آتے ہیں اور دوسری طرف خود بھی گھر میں دین اور عقائد کے حوالے سے ان کی رہنمائی نہیں کرتے۔ انھیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ دین اور عقائد کے حوالے سے کیا نئی بات سکول سے لے کر آئے ہیں۔ کیونکہ وہ بات ہماری توجہ اور دلچسپی کا مرکز نہیں ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ امتحانات میں اچھے نمبرز آنے چاہئیں۔۔۔ degree اچھے طریقے سے کی ہے یا نہیں کی ہے۔۔۔؟ تمہاری جاب کیسی ہے۔۔۔؟ کتنا اچھا career ہے۔۔۔؟ کتنے بڑے ادارے میں ملازمت ہو گئی ہے۔۔۔؟ بس یہ چیزیں ہمارے لیے فخر کا باعث ہیں۔ ہمیں اس چیز سے سروکار ہی نہیں رہا کہ ہمارے بچوں میں ایمان اور عقیدے کی پختگی کتنی ہے اور وہ اپنی اصل اور جڑوں سے آج کتنا جڑے ہوئے ہیں۔

یہ زمانہ عیسائیت، ہندوازم اور دیگر مذاہب نے بھی دیکھا ہے اور اب یہ فتنہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا ہے اور تاریخ دہرای جا رہی ہے۔ اگر اس فتنے کا سد باب آج نہ کیا گیا تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ باقی اقوام کے ساتھ جو ہو گیا ہے، وہ عمل یہاں پر بھی رونما ہوگا۔ اگر ہم نے اس مسئلے پر توجہ نہ دی اور والدین نے اپنے بچوں کے ایمان اور عقائد کے حوالے سے کردار ادانہ کیا تو اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہو سکتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے چھوٹی عمروں میں اپنے سے جدا کر دیتے ہیں اوراس وقت ان میں دین کے حوالے سے پختگی بھی نہیں ہوتی۔انھیں اعلی تعلیم کے لیے دوسرے ملکوں میں بھیجتے ہیں جو کہ اچھی بات ہے لیکن ٹھونک بجا کر پہلے اپنے بچوں کے عقائد چیک کر لیں کہ دین میں کتنا پختہ ہے۔۔۔؟ یہ وہاں جا کر ڈٹا رہے گا یا ان مغربی افکار، عقائد اور نئے fashion کی رومیں بہہ کر لا مذہب اور دہریہ ہو جائے گا۔۔۔؟

کسی بھی فکر مند والدین کے اندر سب سے زیادہ بنیادی فکر یہ ہوتی ہے کہ بچے گناہ کی زندگی میں داخل نہ ہو جائیں، یاد رکھیں! مذہبیت اور دھریت کا فتنہ اس گناہ والی زندگی سے بھی زیادہ بڑا ہو گیا ہے، اس لیے کہ یہ عقائد پر حملہ ہے اور دین ہاتھ سے جا رہا ہے۔ ہر کوئی آج علامہ اقبال جیسے پختہ اعتقاد والا نہیں بچا کہ جنہوں نے کہا تھا :

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

پہلے بچوں کی آنکھوں میں خاکِ مدینہ اور نجف کا سرمہ ڈالیں اورپھر ان کو بے فکری سے جہاں مرضی روانہ کر دیں۔ اگر یہاں پر بھی رہتے ہوئے ان کی آنکھوں کو خاکِ مدینہ و نجف کا سرمہ نصیب نہ ہو، یعنی ان کے عقائد پختہ نہ ہوں، آقا علیہ السلام  کی غلامی میں پختگی کے ساتھ داخل نہ ہوں، ڈٹ کر اپنے عقائد کے ساتھ کھڑے نہ ہوں تو بیرون ملک ان کے عقائد و ایمان کی حفاظت کیسے ممکن ہوگی؟ جب والدین کی سرپرستی میں نہ بچ سکے تو وہاں ان کے اعتقادات کو کون بچائے گا؟ اس لیے اگر اعلی تعلیم دلوانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ضروری ہے کہ بچپن سے خاکِ مدینہ و نجف کا سرمہ ان کی آنکھوں میں ڈالیں۔ مراد یہ کہ ان کو عقیدہ و ایمان میں یوں پختہ کر دیں، گوندھ دیں کہ ان کی خمیر میں دین و ایمان کی حقانیت رچ بس جائے اور پھر وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں جائیں، ان کے اعتقادات پر جہاں مرضی سے ہوا چلے، جو مرضی حملہ ہو جائے مگر وہ اصل عقیدہ و ایمان سے ہل نہ سکیں گے۔ یہ تب ممکن ہوگا کہ جب ہم اپنے بچوں کی اس نہج پر تربیت کریں گے۔

(3) تعلیمی اداروں کا سیکولر نصاب

لامذہبیت اور دھریت کے فروغ کی تیسری بڑی وجہ تعلیمی ادارہ جات اور ان کا سیکولر نصاب ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ او لیول اور اے لیول کر رہا ہے، اس کے اتنےA، اتنے A+، اتنے B+ ہیں۔ بس یہی دوڑ ہے۔ کیا کبھی ہم نے دیکھا ہے کہ وہ وہاں نصاب کیا پڑھ رہا ہے؟ کیا ہم نے گھر آکر اس کے لیے اہتمام کیا ہے کہ ہم اس سے سوالات کریں، اس کو چیک کریں کہ اس تعلیمی ادارہ کے نصاب نے میرے بچے کے اعتقاد اور ایمان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نقصان کا سدباب کریں اور ان سکولز کے علاوہ انھیں ایسی جگہوں اور مجالس میں بھی لے کر جائیں جہاں سے وہ خیر حاصل کریں۔ ہم خود تو آ جاتے ہیں مگر اپنے بچوں کو ان کے امتحانات اور تعلیمی سرگرمیوں کے سبب نہیں لاتے نتیجتاً وہ ان اعتقادات سے قدرتی طور پر دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔

میں نے خود ایسی کتابیں دیکھی ہیں جو پاکستان کے سکولز میں پڑھائی جاتی ہیں اور اُن کے ذریعے ہمارے بچوں کے اصل عقیدہ اور ایمان پر غیر محسوس انداز سے حملہ کیا جارہا ہے۔ ایک کتاب میری نظر سے گزری جہاں حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ پر موجود ایک باب کا نام صرف ’’life of Muhammad‘‘ ہے۔ لفظِ Muhammad کے بعد نہ ﷺ لکھا گیا، نہ پہلے ’’حضرت‘‘ لکھا اور نہ ’’سیدنا‘‘ لکھا ہے یعنی کوئی احترام اور ادب کے القابات نہیں ہیں۔ یعنی ایک چھوٹی عمر کے بچے کے اندر یہ چیز داخل کر دی کہ جیسے دیگر انبیاء کرام علیہم السلام  ہیں بس ایسے ہی تاجدار کائناتﷺ کی ذات بھی نبی ہے۔ جتنا احترام کا تقاضا دیگر انبیاء کرام علیہم السلام  کی ذات کرتی ہے، بس اسی طرح کا تعلق ایک مسلمان کا آقا علیہ السلام کی ذات کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ جب ادب کو اس سطح پر لے آئیں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جب مغرب سے کسی اور مذہب کا ماننے والا نوجوان اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ادب کے حوالے سے کمی بیشی کرے گا تو اس مسلمان بچے کے ذہن میں چونکہ بچپن سے ہی دیگر انبیاء کرام علیہم السلام اور آقا علیہ السلام  کی ذات برابر ہو چکی ہے تو وہ بھی اپنے نبی کو ویسے ہی treat کرے گا اور اس کے لیے یہ معیوب بات نہیں ہوگی۔

اس کے اس رویے کی بنیاد تعلیمی اداروں میں قائم ہوئی مگر کسی نے نہ روکا؟ جب وہ پرورش کے مرحلہ میں تھا، ترقی کر رہا تھا، تعلیم کے مراحل سے گزر رہا تھا تو اس نہج سے اس وقت اس کی تربیت کسی نے نہ کی اور دین کی بنیادی تعلیمات پر کسی نے اسے پختگی نہ دی۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ جب دینی، اخلاقی اور روحانی مجالس میں اور بزرگوں کی خدمت میں بچوں کو لے جایا جاتا ہے تو پھر خاندان اور معاشرے کے لوگ ان کو نشانہ بناتے ہیں اور کہا جاتا ہےکہ ’’اس کو مذہبی بنا رہے ہو۔۔۔ اس کو صوفی بنا رہے ہو۔۔۔ اس طرح یہ modern دنیا کے قابل نہیں رہے گا۔‘‘ افسوس کہ اس دنیا کی خاطر ہم نے دین و ایمان کو فروخت کر ڈالا۔ ایسی دنیا؛ جس سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے وجو د کی پہچان اور ان کا ادب جاتا رہے، تاجدار کائناتﷺ کی ذات بابرکات کے ساتھ نسبت جاتی رہے، دین اور آخرت جاتی رہے، ایسا ماڈرن ازم، دنیا اور ترقی چولہے میں جائے، جس کا نتیجہ یہ ہو۔ یاد رکھیں! ترقی، سائنس، ٹیکنالوجی اور اعلی تعلیم قبول ہے، اچھی ہے، حاصل کرنی چاہیے لیکن اپنی اقدار کے تحفظ کے ساتھ اسے جاری رکھی جائے۔ اقدار کو اگر مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا جائے اور ان کا دامن نہ چھوڑا جائے تو پھر انسان جتنی مرضی ترقی کرتا چلا جائے تو وہ نقصان دہ نہیں ہوتی۔

(4) بےراہ روی

لامذہبیت اور دھریت کی چوتھی بڑی وجہ میرے نزدیک بے راہ روی ہے ۔معاشرے کے اندر نئے رجحانات اور میلانات جنم لے رہے ہیں، جن کے سبب نوجوان گناہ اور بے راہ روی کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ نوجوان کچے ذہن کے حامل ہوتے ہیں، جب بچے عمر کے چھوٹے حصے میں ہوتے ہیں تو آزادی مانگتے ہیں، والدین کی لگائی ہوئی پابندی بھی انھیں بوجھ لگتی ہے تو چہ جائیکہ ان کے اوپر اس سے بڑے درجے کی مذہبی پابندیاں لگادی جائیں۔ یہ گھریلو اور مذہبی پابندیاں انھیں بڑا بوجھ محسوس ہوتی ہیں۔ نوجوان جب بے راہ روی، گناہ اور اس دنیا کی رنگینی کی طرف مائل ہوتے ہیں تو ایسے حالات میں اگر کوئی ان کو کہہ دے کہ یہ مذہب تمہارے پاؤں کی زنجیر ہے،تمہیں مشکل میں ڈالتا ہے، تمہارے لیے پابندیاں پیدا کرتا ہے تو ان کو اس قسم کے بیانات بڑے اچھے لگتے ہیں۔ پس اس طرح یہ بے راہ روی بذاتِ خود لامذہبیت اور دھریت کی طرف مسلم نوجوانوں کو لے جانے کاایک بڑا ذریعہ بن رہی ہے۔

لامذہبیت اور دھریت کے بڑھتے ہوئے اس طوفان کو روکنے اور ایمان و اسلام کے لیے اسکے مضر ترین نقصانات کا تدارک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مذکورہ چار وجوہات کی طرف متوجہ ہوں اور علماء، والدین، اساتذہ اور معاشرہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ (جاری ہے)