کم خوری اور فقر و فاقہ کی زندگی بسر کرنا سرورِ دو جہاں حضور نبی اکرم ﷺ کا زندگی بھر کا معمول رہا اور جملہ اولیاء و صوفیائے کرام آپ ﷺ کی سنتِ مبارکہ کی اتباع میں اسی روش پر گامزن رہے۔کھانے کا مقصد زندگی کی بقاء، عبادتِ الٰہی میں تسلسل اور غور و فکر کے لئے قوت حاصل کرنا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کھانا نہ تو اتنا زیادہ کھایا جائے کہ معدہ بوجھل ہو جائے اور نہ ہی اتنا کم کہ بھوک کی تکلیف کااحساس باعث آزار ٹھہرے۔ اس لئے کھانے پینے میں میانہ روی اور اعتدال کی راہ اختیار کی جائے۔ اسلام نے جہاں دیگر امورِ حیات میں اسراف سے منع کیا ہے وہاں کھانے پینے میں بھی حدِ اسراف تک پہنچنے سے روکا ہے۔
فاقہ اور کم خوری کی اَہمیت و ضرورت
بھرا ہوا پیٹ طرح طرح کی نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں کی آماجِگاہ ہے۔ جاہ و مال اور مرتبہ کی محبت، ریاکاری، باہمی فخر و غرور، حسد، عداوت، بغض اور سرکشی وغیرہ یہ تمام خرابیاں ضرورت سے زیادہ کھانے اور خوب پیٹ بھرنے کا نتیجہ ہیں۔ جو شخص تزکیہ نفس کی ودلت اور معرفتِ الٰہی کی منزل تک رسائی حاصل کرنا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کو کم خوری اور فاقہ کا عادی بنائے۔
اگر انسان اپنے نفس پر بھوک کے ذریعے قابو پا لے اور شیطان کے حملوں کے تدارک میں کامیاب ہو جائے تو وہ اللہ کی اطاعت کی طرف راغب ہو جاتا ہے، پھر وہ سرکشی اور تکبر کے راستوں پر چلنے کی بجائے آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شیطان سے چھٹکارا پانا اور خواہشاتِ نفسانی پر قابو پانا بھوک کی اذیت سہنے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حضرت علی ہجویریؒ فرماتے ہیں: ’’بھوک صدیقین کا طعام، مریدین کا راستہ اور شیاطین کو قید کرنے کا ذریعہ ہے۔‘‘
شیطان کس طرح انسان کو اس کی خواہشات کے جال میں پھنساتا ہے؟ اس حوالے سے شیخ شہاب الدین سہروردیؒ ایک روایت نقل کرتے ہیں:
’’ایک بار ابلیس لعین حضرت یحییٰ علیہ السلام کے سامنے آیا۔ اس کے پاس بہت سے پھندے اور کانٹے تھے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہیں؟ اس نے جواب دیا یہ خواہشاتِ دنیا ہیں جن کے ذریعے میں ابن آدم کو پھنساتا ہوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے دریافت کیا کہ کیا تو نے مجھے بھی کبھی کسی خواہش میں مبتلا پایا؟ اس نے کہا: بس ایک رات جب آپ نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا تھا تو میں نے آپ کو نماز اور ذکر سے غافل کر دیا تھا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا: اب میں کبھی شکم سیر ہو کر نہیں کھاؤں گا۔ یہ سن کر ابلیس نے جواب دیا کہ آئندہ میں بھی کسی سے خیر خواہانہ بات نہیں کروں گا اور نہ کسی کو نصیحت کروں گا۔‘‘
حضرت کنانیؒ فرماتے ہیں:
’’مرید کے لئے تین حکم ماننے ضروری ہیں۔ وہ نیند کے غلبہ کے وقت سوئے، ضرورت سے زیادہ کلام نہ کرے اور کھانا فاقہ کے بغیر نہ کھائے۔‘‘
طبی حوالے سے بھی کم خوری انسان کی صحت و تندرستی کے لئے ضروری ہے۔ بسیار خوری جہاں روحانی بیماریوں کا باعث ہے وہاں بے شمار جسمانی بیمارکوں کو بھی جنم دیتی ہے۔ تمام اطباء و حکماء بیماری سے بچنے کے لئے کم خوری کی تلقین کرتے ہیں۔
کم خوری کی فضیلت
کم خوری یعنی فاقہ سے رہنے کا مقام بہت بلند ہے۔ یہ عمل تمام انبیا کرامf کی امتوں میں پسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ انعاماتِ الٰہیہ کا ذریعہ اور مجاہدہ کے ارکان میں سے ایک رکن بھی ہے۔ بعض صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ بھوک زہد کی کنجی، آخرت کا دروازہ اور نفسانی خواہشات کو کمزور کرنے والی ہے۔ قرآن حکیم میں بھوک برداشت کرنے اور آزمائش میں ثابت قدم رہنے والوں کو یہ خوشخبری سنائی گئی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے کم خوری کو پسند فرمایا اور اسے مومن کی نشانی قرار دیا جبکہ بسیار خوری کو ناپسند جانا اور اسے کفار کی عادت قرار دیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’ایک شخص بہت زیادہ کھانا کھایا کرتا تھا پھر وہ مسلمان ہو گیا تو کم کھانے لگا۔ اس بات کا تذکرہ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بیشک مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔‘‘
اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہوا کہ کافر مومن سے سات گنا زیادہ کھاتا ہے گویا اس کی نفسانیت مومن کی خواہش سے سات گنا زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ حدیثِ مبارک سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ جس دل میں ایمان کی دولت ہو گی وہ پیٹ کی خواہشات پر قابو پا لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کم کھانے والے آخرت میں کھانے پینے کی بے شمار نعمتوں سے نوازے جائیں گے اور زیادہ کھانے والے ان سے محروم کئے جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو لوگ دنیا میں سیر ہو کر کھانے والے ہیں وہ آخرت میں بھوکے ہوں گے۔‘‘
اس حدیث مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ دنیا میں بھوک پیاس برداشت کریں گے ان کے لئے آخرت میں طرح طرح کی نعمتیں اور رب رحیم کی طرف سے دعوتیں ہوں گی۔ فاقہ کش کا دل و دماغ روشن اور طبیعت صحت مند رہتی ہے۔ بھوک نفس کو انکساری اور عجز سکھاتی اور نفس کی اشتہا کو ختم کرتی ہے جس سے بھوکے آدمی کے جسم میں منکسر مزاجی اور دل میں عاجزی پیدا ہو جاتی ہے. یہی وجہ ہے کہ صلحائے امت نے ہر دور میں کم خوری اور فاقہ کشی کو بطور عادت اپنائے رکھا اور نفلی روزوں کا اہتمام کر کے فاقہ اور کم خوری میں زندگی بسر کی۔
حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ متعدد احادیث ِ مبارکہ میں ایامِ بیض کے روزے (قمری مہینے کی ۱۳، ۱۴، ۱۵ تاریخ) سوموار اور جمعرات کا روزہ، یوم عرفہ کا روزہ، ماہِ شوال کے چھ روزےاور پندرہ شعبان کا روزہ کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
خلاصۂ کلام
حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ امت کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے امت کو جس بات کی تعلیم دی پہلے خود اس پر عمل کیا۔ اگر امت کو فقر و فاقہ اور سادگی کی تلقین کی تو سب سے پہلے اس کی مثال خود قائم کی۔ کم خوری میں آپ ﷺ سے زیادہ کوئی نہ تھا۔ آپ ﷺ بے تحاشا بھوک برداشت کرتے۔ اسی طرح آپ ﷺ کے اہل بیت اطہار اور ازواج مطہرات نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ وہ بلند پایہ مقدس ہستیاں صبر و رضا کی پیکر تھیں۔ فاقہ و کم خوری ان کا معمول تھا، کئی کئی دن گھر میں چولہا نہ جلتا، اس کے باوجود ان کی زبان پر کبھی حرفِ شکوہ نہ آیا بلکہ ہمیشہ شکر کے کلمات جاری رہتے۔
آج کا انسان بسیار خوری کی وجہ سے بے جا موٹاپا کا شکار ہے اور اس موٹاپا کی وجہ سے لاتعداد بیماریاں دامن گیر رہتی ہیں۔ موٹاپا بذاتِ خود ایک بہت بڑی بیماری ہے جو بسیاری خوری سے جنم لیتی ہے۔ جب ہم اسلام کو دینِ فطرت کہتے ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ انسان کو پیش آنے والے عوارض کا حل سیرتِ طیبہ کے ذریعے نہ دیا جائے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ وہ موٹاپے کی بیماری سے نجات حاصل کر لیں اور ایک صحت مند زندگی گزارنے لگ جائیں تو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی کم خوری کی مبارک سُنت کو اختیار کر لیں تو وہ موٹاپے کے مرض سے نجات پا جائیں گے۔
شیخ الاسلام کی شہرۂ آفاق کتاب ’’حُسنِ اعمال‘‘ سے اقتباس - (مکمل کتاب کے مطالعہ کیلئے [حُسنِ اعمال] پر کلک کریں۔)