ایس ایم نور

دین اسلام کے ارکان میں سے نماز ایک اہم رکن ہے۔ نماز کو بطور عبادت قائم کرنا اور اس کے اخلاقی و روحانی مقام ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ان تمام امور کے علاوہ نماز کے اندر ایک امر ایسا بھی ہے جس کا تعلق ہماری جسمانی صحت کے ساتھ ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے نماز کی صورت میں ہماری روحانی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کا بھی اہتمام فرمایا ہے۔

نماز ایک بہترین ورزش ہے۔ سستی، کاہلی اور بے عملی کے اس دور میں صرف نماز ہی ایک ایسی ورزش ہے کہ اگر اس کو صحیح طریقے سے پڑھا جائے تو دنیا کے تمام دکھوں کا مداوا بن سکتی ہے۔نماز ایک ایسی ورزش ہے جو جسمانی اعتبار سے نہ صرف بیرونی اعضاء کی خوشنمائی و خوبصورتی کا ذریعہ ہے بلکہ طبی نقطہ نظر سے اندرونی اعضاء، مثلاً دل، گردے، جگر، پھیپھڑے، دماغ، آنتیں، معدہ، ریڑھ کی ہڈی، گردن، سینہ اور تمام قسم کے Glands (غدود) کی نشوونما بھی کرتی ہے اور جسم کو سڈول اور خوبصورت بھی بناتی ہے۔ روحانی طور پر ہماری روح کو بالیدگی عطا کرکے روح کو قوت بخشتی ہے۔ ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کا بہترین علاج ہے۔ نیز ظاہری اعتبار سے قیام میں عاجزی و انکساری پائی جاتی ہے مگر رکوع میں قیام کی نسبت زیادہ عاجزی کا اظہار ہوتا ہے اور سجدہ میں رکوع سے بھی زیادہ عجز و انکسار پایا جاتا ہے کیونکہ اب انسان اپنی جبین نیاز کو بارگاہِ خداوندی میں پیش کرتے ہوئے خاک آلود کرتا ہے۔ اسی طرح آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ قیام کی طبی و روحانی فوائد اپنی جگہ مگر رکوع میں قیام کی نسبت زیادہ حکمتیں محسوس ہوتی ہیں اور سجدہ، رکوع سے بھی زیادہ روحانی وجسمانی فوائد کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

1۔ نماز اور فزیو تھراپی

ایک پاکستانی ڈاکٹر یورپ میں فزیو تھراپی میں اعلیٰ ڈگری کے لئے گئے، جب وہاں ان کو بالکل نماز کی طرح کی ورزش پڑھائی اور سمجھائی گئی تو وہ اس ورزش کو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ہم نے تو آج تک نماز کو ایک دینی فریضہ سمجھا اور پڑھ لیا لیکن یہاں تو عجیب و غریب انکشافات ہیں کہ اس قسم کی ورزش کے ذریعے تو بڑے بڑے امراض ختم ہوجاتے ہیں۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے اس ورزش سے ختم ہونے والی بیماریوں کی لسٹ دی:

1۔ دماغی امراض

2۔ اعصابی امراض

3۔ نفسیاتی امراض

4۔ بے سکونی، ڈپریشن اور بے چینی جیسے امراض

5۔ دل کے امراض

6۔ جوڑوں کے امراض

7۔ یورک ایسڈ سے پیدا ہونے والے امراض

8۔ معدے اور السر کی شکایات

9۔ شوگر اور اس کے مابعد اثرات

10۔ آنکھوں اور گلے کے امراض

2۔ نماز اور یوگا

مسلمان 24 گھنٹوں میں پانچ نمازوں کی ادائیگی میں فرض، سنت اور نفل ملاکر کل 48 رکعت ادا کرتے ہیں جب کہ ایک رکعت میں کل 7، شکلیں اختیار کی جاتی ہیں۔ اس طرح ہر مسلمان مرد، عورت، بچہ، بوڑھا اور جوان ایک دن کی پانچ نمازوں میں سات مختلف شکلوں کو (7x48=336) بار دہراتا ہے جبکہ ایک نماز کی ادائیگی میں اوسطاً 10 سے 15 منٹ درکار ہوتے ہیں اور اگر صرف فرض ہوں تو پانچ نمازوں میں کل سترہ فرض ہوتے ہیں، اس طرح کم از کم (7x17 = 119) شکلیں ایک دن میں اختیارکی جاتی ہیں۔

جب ایک رکعت میں اختیار کی جانے والی ان سات شکلوں کو چند یوگا چاریوں سے بیان کیا گیا تو انہوں نے انتہائی حیرت انگیز حقائق کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ شکلیں 84 یوگا آسنوں کا مختصر ترین، آسان ترین اور بہترین مجموعہ ہیں۔ یوگا انسان کی تمام روح پر حاوی ہے اور ایک رکعت میں اختیار کی جانے والی یہ سات شکلیں انتہائی تخلیقی اور قدرتی ہیں۔ اگر یہ حرکات ٹھیک ٹھیک پورے شعور و ذہانت کے ساتھ اور ایک وضع سے دوسری وضع میں تبدیلی آہستہ آہستہ اصولِ شریعت کے عین مطابق ہو تو نہ صرف یہ ہر عضو کو تازگی بخشتی ہے بلکہ ہماری روح کو بالیدگی اور قوت عطا کرتی ہے۔ المختصر نماز میں جو فائدہ مضمر ہے ان سے بے خبر ہوکر بھی اگر نماز کا عمل جاری رہے تب بھی وہ مجموعی طور پر انسانی زندگی کے بہتر بنانے کی طرف اپنا عمل جاری رکھتی ہے۔

مزید یہ کہ یوگی ماہرین نے نماز کو سانس کی مشق کا بالکل آسان طریقہ قرار دیا ہے۔ اس میں تین مقام خاص طور پر بیان کرتے ہیں:

1۔ قیام اور اس میں سجدہ کی جگہ نگاہ کا ارتکاز

2۔ رکوع میں پاؤں کی جگہ نگاہ کا ارتکاز

3۔ سجدہ میں سانس کا ارتکاز

صلوٰۃ محض جسمانی اعضاء کی حرکت اور مخصوص الفاظ دہرانے کا نام نہیں ہے۔ نماز میں قیام، رکوع و سجود اور تلاوت جسمانی وظیفہ ہے اور رجوع الی اللہ روحانی وظیفہ ہے۔ صلوٰۃ اپنی ہیئت ترکیبی میں جسمانی اور فکری دونوں حرکات پر مشتمل ہے

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ نماز اصولِ شریعت کے عین مطابق پڑھی جانی چاہئے۔ شریعت میں نماز کی ادائیگی کے لئے خشوع و خضوع پر بہت زور دیا گیا ہے اور خشوع و خضوع اخلاص اور یقین کی قوت حاصل کرنے کے لئے بار بار مشق کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ خشوع اندر کے سکون، دھیان اور توجہ کا نام ہے جبکہ خضوع باہر کی ترتیب اور توجہ کا نام ہے۔ یہی دو چیزیں ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم میں اور یوگا میں مطلوب ہیں اوریوں یہ سب مل کر علاجِ انسانی بن جاتا ہے۔

3۔ نماز سے نفسیاتی علاج

انسان کو غم اور قلق سے نجات دینے میں نماز بہت مؤثر ہے، جب انسان زندگی کے مشاغل اور مشکلات سے کنارہ کش ہوکر پورے خشوع اور شانِ بندگی کے ساتھ نماز میں اپنے رب کے حضور کھڑا ہوتا ہے تو اس کے دل میں سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ زندگی کی بھاری ذمہ داریوں اور مشکلات کا پیدا کردہ اعصابی تناؤ اور اضطراب ختم ہوجاتا ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  کو جب بھی کوئی غم یا مشکل پیش آتی آپ ﷺ  نماز کی پناہ لیتے۔ جب نمازوں کے اوقات شروع ہوتے تو رسول اکرم ﷺ  حضرت بلال رضی اللہ عنہ  سے فرماتے:

یا بلال ارحنا باالصلوٰة.

’’اے بلال رضی اللہ عنہ ! نماز کے ذریعہ ہمیں راحت پہنچاؤ‘‘۔

ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دل میں سکون و اطمینان پیدا کرنے میں نماز کی کس قدر اہمیت ہے اور قلق و اضطراب سے شفایاب ہونے کے لئے نماز بڑا اہم اور موثر علاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جب مشکلات گھیر لیں اور غموں کا بوجھ بڑھ جائے تو نماز سے مدد لو۔ ارشاد ربانی ہے۔

وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ.

(البقرة، 2: 45)

’’اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو۔‘‘

دوران نماز انسان کا اپنے رب سے جو رابطہ قائم ہوتا ہے، وہ اس میں غیر معمولی روحانی قوت پیدا کردیتا ہے اور یہ قوت انسان کے بدن اور اس کی ذات میں اہم تبدیلیاں پیدا کرنے میں بڑی موثر ہوتی ہے۔ بسا اوقات یہ روحانی طاقت جسمِ انسانی پر اثر انداز ہوکر اعصابی تناؤ دور کردیتی ہے اور اس کے ضعف اور امراض کا ازالہ کردیتی ہے۔ بعض اطباء نے ذکر کیا ہے کہ بعض مریضوں کو حج اور عبادات کی بناء پر بہت تیزی سے شفا ہوئی۔

نماز انسان کے اندر جو روحانی طاقت پیدا کرتی ہے، وہ اس پر اثر انداز ہوکر اسے پر امید بنادیتی ہے، عزم کو قوی کرتی ہے، ہمت بلند کرتی ہے اور اس میں ایسی بے پناہ صلاحیتیں پیدا کرتی ہے کہ اس انسان میں علم و حکمت اور معرفت قبول کرنے کی بہت اہلیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ انسان عظیم الشان شجاعانہ کارنامے انجام دینے کے لائق ہوجاتا ہے۔

نماز اس احساسِ گناہ کا بھی بہترین علاج ہے جس کی وجہ سے انسان میں قلق و اضطراب پیدا ہوتا ہے جو بہت سے نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے کیونکہ نماز گناہوں کو دھو دیتی ہے، خطاؤں کے میل کچیل سے نفس کو پاک کردیتی ہے اور دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور رضا کی امید پیدا کردیتی ہے۔

رسول اکرم ﷺ صحابہ کرام کو تعلیم دیتے تھے کہ ضرورت پوری ہونے کے لئے اور مشکلات کو حل کرنے کے لئے نماز سے مدد لیں جیسے صلوٰۃ الحاجۃ، نماز استسقاء وغیرہ۔ اسی طرح مختلف حیران کن امور میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے لئے نماز استخارہ پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔

حافظ ابن قیم ’’الطب النبوی‘‘ میں نماز کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نماز دل کو فرحت اور قوت پہنچاتی ہے۔۔۔ دل میں بہجت و لذت پیدا کرتی ہے۔۔۔ نماز میں دل اور روح کا رابطہ اللہ جل شانہ سے قائم ہوجاتا ہے۔۔۔ اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔۔۔ اللہ کے ذکر کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرنے کا لطف حاصل ہوتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری ہوتی ہے۔۔۔ پورا بدن، بدن کی تمام قوتیں اور اعضاء اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں اور ہر عضو عبادت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ انسان تمام مخلوقات سے کنارہ کش ہوکر اللہ کی یاد میں مشغول ہوتا ہے اور اس کے دل کی تمام قوتیں اپنے رب اور اپنے خالق کی طرف کھنچ جاتی ہیں۔ نماز کی حالت میں اسے اللہ کے دشمن (شیطان) سے راحت مل جاتی ہے۔ اس لئے نماز سب سے زیادہ شفا بخش دوا اور بہترین مقویات میں سے ہے اور ان غذاؤں میں سے ہے جو تندرست دلوں ہی کو راس آتی ہیں۔ جہاں تک بیمار دلوں کا تعلق ہے وہ بیمار جسموں کی طرح ہیں، اچھی غذائیں انہیں راس نہیں آتیں۔

نماز دنیا اور آخرت کے مصالح حاصل کرنے اور دنیا وآخرت کے مفاسد دور کرنے میں سب سے زیادہ معاون ہے۔ نماز گناہوں کو روکتی ہے۔۔۔ دل کے روگوں کو دور کرتی ہے۔۔۔ جسم سے امراض کا ازالہ کرتی ہے۔۔۔ دل کو روشن اور چہرے کو چمکدار بناتی ہے۔۔۔ دل اور اعضاءِ جسم میں نشاط پیدا کرتی ہے۔۔۔ رزق کو بڑھاتی ہے۔۔۔ ظلم دفع کرتی ہے اور مظلوم کی مدد کا جذبہ بیدار کرتی ہے۔۔۔ شہواتِ نفس کا قلع قمع کرتی ہے۔۔۔ نعمت کی حفاظت کرتی ہے۔۔۔ بلاؤں کو دور کرتی ہے۔۔۔ رحمت نازل کرتی ہے اور رنج و الم دور کرتی ہے۔ غرض رسول اللہ ﷺ  کے مقرر کردہ، فرمودہ اور خود کردہ طریقہ سے ادا کی گئی صلوٰۃ انسان کے اندر بہت سی نفیساتی اور تعمیری قوتیں پیدا کرتی ہے اور اعصابی تناؤ ذہنی کشمکش اور تکلیف دہ واہموں سے شفا دیتی ہے۔

تجربہ ثابت کرتا ہے کہ احساسِ خود شکستگی، احساسِ محرومی اور احساسِ تنہائی جیسی تمام مہلک بیماریوں کا تیر بہدف علاج اپنے وقتِ مقررہ یعنی اول وقت، اپنی پوری شرائط مسنونہ کے ساتھ صلوٰۃ کی پابندی ہے۔

4۔ نماز اور ’’رے کی‘‘

’’رے کی‘‘ ایک جاپانی طریقۂ علاج ہے جس میں کائناتی توانائی کوقوتِ حیات میں تبدیل کرکے جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ماہرین نفسیات کے مطابق انسانی دماغ کی چار (Stages) حالتیں ہوتی ہیں:

1۔ پہلی حالت ’’ایلفا سٹیج‘‘ (Alfa Stage) کہلاتی ہے۔ اس حالت میں انسان سوچنے، سمجھنے اور سوال و جواب کے قابل ہوتا ہے جبکہ اس سٹیج کی (Frequency) (20CPS)، 20 Circule Per Secondبتائی جاتی ہے۔

2۔ دوسری سٹیج ’’بیٹا سٹیج‘‘ (Beta Stage) کہلاتی ہے۔ اس سٹیج میں انسان جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ ماہرین نفسیات اس سٹیج کو انتہائی اہم اور باکمال سٹیج قرار دیتے ہیں جبکہ اس سٹیج کی فریکونسی تقریباً 14CPS بتائی جاتی ہے۔

3۔ دماغ کی تیسری حالت کو ’’ڈیلٹا سٹیج‘‘(Delta Stage) کہتے ہیں۔ اس حالت میں انسان نیند کی سرحد میں داخل ہوجاتا ہے اور خواب کی وادی کا سیاح بنتا ہے۔ یہ سکون کی سٹیج بھی کہلاتی ہے۔

4۔ دماغ کی چوتھی حالت کو ’’تھیٹا سٹیج‘‘ (Theta Stage) کہا جاتا ہے۔ اس حالت میں انسان سو تو رہا ہوتا ہے مگر خواب نہیں دیکھ پاتا، یہ انتہائی سٹیج کہلاتی ہے۔ اس کی فریکونسی لامحدود (Infenty) بتائی جاتی ہے۔

المختصر چاروں دماغی سٹیجوں میں انتہائی اہم اور بام ِکمال کو پہنچنے والی سٹیج دوسری سٹیج یعنی Beta ہے کیونکہ تمام تر تخلیقی اور تعمیری قوتیں اسی سٹیج پر آکر متحرک ہوتی ہیں۔

یہاں ہم ایک حیران کن حقیقت کا انکشاف کرتے چلیں کہ امریکہ میں بیسویں صدی کے آخری عشروں میں انسانی دماغ کی فریکونسی چیک کرنے والی سیلفلوگرافک مشین Celeflographic Machine کے ذریعے نماز پڑھنے والے شخص کی دماغ کی فریکونسی کو جب چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ نماز شروع کرنے سے قبل فریکونسی 20CPS تھی مگر جب اس شخص نے نماز کا آغاز کردیا تو اس کی دماغی فریکونسی میں کمی ہونا شروع ہوگئی جو چند سیکنڈز میں کم ہوتے ہوئے بالآخر 14CPS یعنی بیٹا سٹیج پر آکر رک گئی اور پھر یہ ہی سٹیج نماز کے اختتام تک برقرار رہی۔ مزید تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کم و بیش یہی کیفیت درود پاک اور دوسرے ذکر اذکار کرنے والے احباب کی بھی ہوتی ہے۔

خشوع اندر کے سکون، دھیان اور توجہ کا نام ہے جبکہ خضوع باہر کی ترتیب اور توجہ کا نام ہے۔ یہی دو چیزیں ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم میں اور یوگا میں مطلوب ہیں اوریوں یہ سب مل کر علاجِ انسانی بن جاتا ہے

محترم قارئین کرام! یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر نماز میں دماغی سطح بیٹا سٹیج یعنی انتہائی اہم سٹیج پر رہتی ہے اور انسان کائناتی توانائی کے قریب ترین ہوتا ہے تو اس سے بڑا معجزاتی عمل اور کیا ہوگا کیونکہ ’’رے کی‘‘ طریقہ علاج میں بھی انسانی ذہن و دماغ پرسکون حالت میں کائناتی توانائی کو جذب کرکے قابل استعمال توانائی میں تبدیل کرتا ہے اور یہی عمل دوران نماز لاشعوری طور پر عمل پذیر ہوتا ہے۔ اس طرح ہم نماز کے دوسرے تمام فیوض و برکات اور انوار و تجلیات کے ساتھ ساتھ بیماریوں سے بھی صحت یاب ہوتے ہیں۔

5۔ نماز اور مراقبہ

نماز دین کا ایک اہم ترین رکن ہے۔ لفظ صلوٰۃ ایک جامع اصطلاح ہے، اس کا ایک لغوی معنیٰ ’’ربط قائم کرنا‘‘ ہے۔ ربط قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ ذہنی تفکر کے ساتھ بندہ کا تعلق قائم ہوجائے۔ ذہنی تفکر (Concentration) ہی مراقبہ کہلاتا ہے۔

مراقبہ کو کسی نشست یا طریقہ کار سے مخصوص نہیں کیا جاسکتا کیونکہ مراقبہ ایک ذہنی کیفیت یا ذہنی فعل ہے۔ دین نے اعمال و ارکان کا جو نظام ترتیب دیا ہے،ا س میں ظاہری اور باطنی دونوں واردات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ہر رکن اور ہر عمل کی ایک ظاہری شکل و صورت ہے اور دوسری باطنی یا معنوی کیفیت ہے۔ ان دونوں اجزاء کا ایک ساتھ موجود ہونا ضروری ہے۔

دینی ارکان و فرائض کے ذریعے جس باطنی کیفیت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کی انتہا مرتبۂ احسان ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ  نے باطنی کیفیت کی یاددہانی ان الفاظ میں کرائی ہے:

ان تعبدالله کانک تراه وان لم تکن تراه فانه یراک.

’’جب تم عبادت (صلوٰۃ وغیرہ) میں مشغول ہو تو یہ تصور کرو کہ اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہ دیکھ پاؤ تو یہ محسوس کرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘

یعنی صلوٰۃ کسی شخص کے اندر اللہ کے سامنے موجود ہونے کا تصور بیدار کرتی اور بار بار یہ عمل دہرانے سے اللہ کی طرف متوجہ رہنے کی عادت پیدا کرتی ہے۔ صلوٰۃ میں زندگی کی تمام حرکات سمودی گئی ہیں تاکہ آدمی زندگی کا کوئی بھی عمل کررہا ہو تو اللہ تعالیٰ کا تصو اس سے جدا نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ نماز کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل ذہنی رجوع ہے۔مراقبہ کی کیفیت ہمیں گہرے سکون اور ٹھہراؤ میں لے جاتی ہے۔ یہ کیفیت ہمارے اوپر عام طور پر طاری نہیں ہوتی کیونکہ ذہن زیادہ دیر تک ایک جگہ نہیں ٹھہرتا۔ مراقبہ سے نہ صرف قوتِ ارادی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے بھی کثیر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ تجربات اور مشاہدات نے ثابت کردیا ہے کہ مراقبہ سے مندرجہ ذیل جسمانی اور نفسیاتی فوائد حاصل ہوتے ہیں:

1۔ خون کے دباؤ پر کنٹرول

2۔ قوتِ حیات میں اضافہ

3۔ بصارت میں تیزی

4۔ خون کی چکنائی میں کمی

5۔ تخلیقی قوتوں میں اضافہ

6۔ چڑچڑے پن میں کمی

7۔ دل کی کارکردگی میں بہتری

8۔ قوتِ سماعت میں اضافہ

9۔ بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت

10۔ ڈپریشن اور جذباتی ہیجان کا خاتمہ

11۔ پریشانی اور مشکلات میں آنے والے دباؤ میں کمی

12۔ خون کے سرخ ذرات میں اضافہ

13۔ قوت یاد داشت میں تیزی

14۔ بےخوابی سے نجات اورگہری نیند

15۔ بہتر قوت فیصلہ

16۔ ڈر اور خوف کے خلاف ہمت اور بہادری کا پیدا ہونا

17۔ عدم تحفظ کے احساس اور مستقبل کے اندیشوں سے نجات

18۔ زیادہ وسوسوں سے نجات

دوران نماز انسان کا اپنے رب سے رابطہ اس میں غیر معمولی روحانی قوت پیدا کردیتا ہے اور یہ روحانی طاقت جسمِ انسانی پر اثر انداز ہوکر اعصابی تناؤ دور کردیتی ہے اور اس کے ضعف اور امراض کا ازالہ کردیتی ہے

صلوٰۃ محض جسمانی اعضاء کی حرکت اور مخصوص الفاظ دہرانے کا نام نہیں ہے۔ نماز میں قیام، رکوع و سجود اور تلاوت جسمانی وظیفہ ہے اور رجوع الی اللہ روحانی وظیفہ ہے۔ صلوٰۃ اپنی ہیئت ترکیبی میں جسمانی اور فکری دونوں حرکات پر مشتمل ہے۔ جس طرح جسمانی اعمال ضروری ہیں، اسی طرح تصور و توجہ کا موجود ہونا بھی لازمہ صلوٰۃ ہے۔ ان دونوں اجزاء کو تمام تر توجہ سے پورا کرنا اور انکی حفاظت کرنا قیامِ صلوٰۃ ہے۔ لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ نماز وہ مراقبہ ہے جس میں جسمانی اعمال و حرکات کے ساتھ اللہ کی موجودگی کا تصور کیا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص مندرجہ بالا آداب و قواعد کے ساتھ مسلسل نماز ادا کرتا ہے تو اس کے اندر انوارِ الہٰی ذخیرہ ہونے لگتے ہیں اور انوار کا یہ ذخیرہ اس کی روحانی پرواز کا سبب بنتا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نماز کے بہت زیادہ اور بڑے عظیم فوائد ہیں۔ نماز دل میں سکون و اطمینان پیدا کرتی ہے، انسان کو احساسِ گناہ سے رہائی دلاتی ہے، خوف و اضطراب ختم کرتی ہے اور بے پناہ روحانی قوت پیدا کرتی ہے جس سے جسمانی اورنفسیاتی امراض سے شفا یاب ہونے میں مدد ملتی ہے۔ نماز انسان میں زندگی اور سرگرمی پیدا کرتی ہے اور عظیم قدرت و صلاحیت سے ہمکنار کرتی ہے، جس کی بناء پر انسان بڑے بڑے کام سرانجام دے سکتا ہے۔ نماز دل کو منور کرکے اسے اس قابل بناتی ہے کہ فیضانِ ربانی قبول کرسکے۔