عصرِ حاضرمیں ہمہ گیر نوعیت کا اخلاقی انحطاط جو ہر سمت میں دکھائی دے رہا ہے اُس کے کئی اسباب ہیں اُن میں سے چند نمایاں ترین اسباب کو سطورِ ذیل میں اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے۔
1۔ جہالت
قرآنِ مجید میں ہے :
وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهِیْمَ الِاَّ مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ.
(البقرة: 2: 130)
’’اور کون ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو۔‘‘
یہاں ملتِ ابراھیمی جو کہ فطرتِ سلیمہ کا تقاضا ہے، اُس سے اعراض کی وجہ جہالت کو قرار دیا گیا ہے۔ یہ جہالت ہی ہے جو حقیقت کے چہرے پر پردہ ڈال دیتی ہے اور انسان کو گمراہی اور بے راہ روی کی وادیوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔ جس طرح رات کی تاریکی میں انسان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا اور وہ ادھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرتا ہے، ایسے ہی جاہل آدمی فکری انتشار میں مبتلا ہوتا ہے اور ظن و تخمین اور ھوائے نفس کا شکار ہو کر راست روی سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے۔
اسلام کے نزدیک علم سے مراد کسی مخصوص شعبے کا علم نہیں ہے جس سے انسان کا روزگار وابستہ ہو بلکہ وہ علم جو کائنات کے حقائق کو اُس پر آشکار کردے اور زندگی کے قوانین سے آگاہ کردے۔ اس میں قرآن و حدیث تو بدرجہ اولیٰ شامل ہیں تا ہم جدید علوم کی بھی نفی نہیں ہے بلکہ اُن میں مہارت حاصل کرنا بھی مطلوب اور مستحسن ہے۔ قرآ ن و حدیث اور اسلامی لٹریچر میں اس حوالے سے دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ایک تعلیم اور دوسرا تربیت۔ یہ دونوں الفاظ اگرچہ ایک دوسرے کے مترادف ہیں اور ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں تاہم پھر بھی ان دونوں میں فرق ہے۔ تربیت کے مقابلے میں تعلیم کا دائرہ کار محدود ہے۔ تعلیم کے ذریعہ صرف عقلی قوتوں کو اُجاگر کیا جاتا ہے جب کہ تربیت کے ذریعہ انسان کی جملہ فطری قوتوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر تربیت سے مراد انسان کی جسمانی، عقلی، روحانی اور فکری قوتوں کو اُجا گر کرنا ہے اور پرورش کے ذریعے اُن کی مخفی صلاحیتوں کو کمال تک پہنچانا ہے۔
جب ایک بچہ دُنیا میں آتا ہے تو اُس کا پاک دل ایک صاف شفاف عمدہ جو ہر کی مانند ہوتا ہے، جو ہر طرح کے نقش و نگار سے خالی ہوتاہے۔ اس پر جس طرح کا نقش جمانا چاہیں جم جائے گا۔ اگر اچھی عادتوں کا خوگر بنایا گیا اور تعلیم و تربیت کا عمدہ بندوبست کیا گیا تو وہ دنیا و آخرت میں سعادت مند ہو گا اور اُس کے والدین، مربی اُس کے اجرو ثواب میں برابر کے شریک ہوں گے اور اگر اُس کی تعلیم وتربیت میں غفلت برتی گئی اور اُسے بُری عادتوں کا خوگر بنایا گیا تو وہ ہلاک و برباد ہو گا اور اُس کی ذمہ داری اُس کے سرپرستوں پر ہو گی۔ جیسا کہ ارشادِ الہٰی ہے:
یٰٓـاَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا.
(التحریم، 66: 6)
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ۔‘‘
المیہ یہ ہے کہ آج تعلیم سے تربیت کو جدا کر دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں انسان سازی کا کام رُک گیا ہے۔ پھر تعلیم کا تصور بھی محض کسی خاص شعبے میں پیشہ وارانہ مہارت تک محدو ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے انسان پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، بزنس مین وغیرہ میں سے کوئی ایک بن جاتا ہے لیکن صحیح معنوں میں انسان نہیں بن پاتااور اخلاقی اعتبار سے بہت سارے نقائص کا شکار ہوجاتاہے اور اس کی زندگی کے اندر توازن نہیں رہتا۔ آج معاشرہ میں بہت ساری خرابیوں کی وجہ جہالت ہے۔ توہم پرستی، فرقہ واریت، رسوم و رواج کی اندھا دھند پیروی اور مختلف قسم کے تعصبات وغیرہ جیسے کتنے ہی معاشرتی امراض ہیں جو جہالت کی آغوش مین پروان چڑھتے ہیں اور معاشرے کے فطری ارتقاء اور ترقی میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔
تعلیم و تربیت پر مندرجہ ذیل چار عوامل اثرانداز اہوتے ہیں:
- گھر
- مدرسہ یا سکول
- معاشرہ
- مملکت یا حکومت
یہی وہ چار ادارے ہیں جن کے سانچے میں ڈھل کر کسی فرد کی شخصیت نشوونما کے مراحل طے کرتی ہے۔ بد قسمتی سے آج ان چاروں میں ہی بگاڑ آچکا ہے اور کسی بھی جگہ وہ مثالی ماحول نہیں ہے جس میں پروان چڑھ کر اعلیٰ اخلاقی صفات کی حامل شخصیات معرضِ وجو د میں آئیں۔ چنانچہ ہر آنے والے دن میں بگاڑ اور زوال کی رفتار بڑھتی جارہی ہےاور اسے روکنے کی کوئی بھی کوشش کار گر نہیں ہو رہی۔
2۔ غربت
اخلاقی بگاڑ کا دوسرا ایک اہم سبب غربت ہے جس کی وجہ سے انسان بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی کئی قسم کی اخلاقی قباحتوں کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے۔ حضور علیہ السلام نے غربت کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
كاد الفقر أن يكون كفرا.
(كنز العمال،الباب الثالث، الفصل الأول في فضل الفقر والفقراء،الفقر الاضطراري، 6: 210، رقم: 16682)
مطلب یہ ہے کہ فقرو فاقہ اور تنگدستی کی حالت انسان کو اس حد تک مجبور کر سکتی ہے کہ وہ کُفر کی طرف جانے پر آمادہ ہو جائے جو کہ بد اخلاقی کا آخری درجہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کے کچھ بنیادی تقاضے مثلاً کھانا پینا وغیرہ ایسے ہیں جن کے بغیر اُس کا گزارا ہی نہیں ہے۔ اگر کچھ وقت کے لیے ان تقاضوں کی تکمیل نہ ہونے پائے تو انسان کے دل و دماغ میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت جنم لینے لگتی ہے جو ایک حد سے بڑھ جائے تو ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اور انسان ایسے اعمال کا ارتکاب بھی کر گزرتا ہے جن کے متعلق معمول کے حالات میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کا قول ہے:
’’اخلاق، حالات سے پیدا ہوتے ہیں، محض علوم سے نہیں۔‘‘
(شاہ ولی اللہ، البدور البازغہ، ص: 50)
اس بلیغ جملے میں شاہ ولی اللہؒ نے انسانی زندگی کی اس اہم حقیقت کو بیان کیا ہے کہ اخلاق اور معیشت کا گہرا تعلق ہے۔ جب تک کسی شخص کی کم از کم معاشی ضروریات کو پورا نہ کیا جائے اُس سے اخلاقِ فاضلہ کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ جب اخلاق اور معیشت کا ربط ٹوٹ جاتاہے تو معاشیات اور اخلاقیات دونوں کا شدید بحران سامنے آتا ہے جس کا اثر مذہب و اخلاق، پرسکون زندگی، انسانوں کے باہمی روابط اور تہذیب و تمدن سبھی پر پڑتا ہے۔ انسانوں کے اجتماعی اخلاق اُس وقت بالکل برباد ہو جاتے ہیں جب کسی کو اقتصادی تنگی پر مجبور کر دیا جائے۔
انسانی معاشروں میں دیگر خصوصیات اور صلاحیتوں کے علاوہ درجاتِ معیشت کا تفاوت بھی صورتِ واقعہ اور حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا.
(الزخرف، 43: 32)
’’ ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں (کیا ہم یہ اس لیے کرتے ہیں) کہ ان میں سے بعض (جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں (یہ غربت کا تمسخر ہے کہ تم اس وجہ سے کسی کو رحمتِ نبوت کا حقدار ہی نہ سمجھو)۔‘‘
قرآنِ مجید نے اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ انسانوں کی ضروریات اسی طرح پوری ہو سکتی ہیں اور باہمی تعاون کا مقصد بھی اسی سے حاصل ہو سکتا ہے لیکن اس فرق کو فطری حدود کے اندر رہنا چاہئے۔ یہی تفاوت جب حدسے بڑھنے لگے اور معاشرے کے دو طبقات کے درمیان ناقابلِ عبور خلیج کی صورت اختیار کر نے لگے تو پھر ایک محدود طبقہ لا محدود وسائل پر قابض ہو جاتا ہے جب کہ بہت بڑی اکثریت کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول اور جسم و جان کا رشتہ بر قرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ صورتِ حال کسی بھی معاشرے کے لیے ایک المیہ ہوتی ہے جو محروم اور پسماندہ طبقات کے ذہنوں میں منفی رجحانات پیدا کرتی ہے اور جن کا نتیجہ اخلاقی بگاڑ کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظامِ ریاست میں حکومت کے لیے لوگوں کے بنیادی لوازماتِ حیات کی فراہمی کو اہم ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔
دنیا کے خالق نے یہاں وسائل فراوانی سے مہیا کیے ہیں لیکن اُن وسائل کی تقسیم میں ناانصافی، حکمران طبقے کی لوٹ مار، اقربا پروری، بددیانتی اور اسراف نیز جاگیر داری اور سرمایہ داری پر مشتمل استحصالی نظام ہے جو وسائل کو چند ہاتھوں میں مرتکز کر دیتا ہے اور لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہوتی ہے۔
3۔ عیش و عشرت
جس طرح بہت زیادہ غربت اخلاقی مسائل کا باعث بنتی ہے اسی طرح حد سے زیادہ امارت بھی انسان کو اخلاقی اعتبار سے ناکارہ کر دیتی ہے۔ مال و دولت اور وسائلِ حیات کی فراوانی سے انسان میں بے فکری پیدا ہوتی ہے اور وہ انواع و ا قسام کی لذتوں، راحتوں، آسائشوں، تن آسانیوں اور عیش و عشرت کا دلدادہ بنتا چلا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں اخلاقی زوال اور انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔ تاریخ کے دامن میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جہاں عیش و عشرت میں مبتلا اقوام اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہو کر تبا ہ و برباد ہوگئیں۔ ماضی بعید میں رومی اور ایرانی اقوام جبکہ ماضی قریب میں مغلیہ حکمرانوں کی عیاشی اور مسرفانہ زندگی اور اُس کے عبرتناک انجام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اسلام میں بہت زیادہ عیش و عشرت کو اسی لیے ناپسند کیا گیا ہے۔ حضور علیہ السلام کا فرمان ہے:
ایاک والتنعم فان عباداللہ لیسوا بالمتنعمین۔
(هیثمی، مجمع الزوائد، 10: 250)
’’اپنے آپ کو لذت طلبی سے بچانا۔ اللہ کے بندے لذتوں کے عادی نہیں ہوتے۔‘‘
حضور علیہ السلام کی دعاؤں میں سے ایک دُعا ہے جس میں غربت اور امارت دونوں کے فتنہ سے پناہ مانگی گئی ہے:
ومن شر فتنة الغنى وأعوذ بك من فتنة الفقر.
(بخاری، كتاب الدعوات وقول الله تعالى ادعوني أستجب لكم، 5: 2341، رقم: 6007)
’’اور میں امارت اور غربت کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
چنانچہ حد سے بڑھا ہوا فقر ہو یا اسراف و تبذیر دونوں ہی انسان کو اُمورِ سعادت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے بارے میں غور و فکر کی صلاحیت سے عار ی کر دیتے ہیں اور انسان کی توجہ اخلاقِ عالیہ سے ہٹ جاتی ہے۔ پسندیدہ طرزِ زندگی یہ ہے کہ انسان مناسب حد تک اپنی ضروریات پوری کرتا ہو۔ مال و دولت سے کنارہ کشی مناسب نہیں کہ یہ ایک نعمت ہے اور ضروریاتِ زندگی کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہے لیکن انسان کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ کچھ وقت فرصت کا نکالے اور سعادتِ اُخروی کے حصول پر توجہ دے۔ یہ مقصد اُسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب اُس کی معیشت تنعّم پسندی اور فقرومسکنت دونوں کے درمیان اعتدال اور توازن پر مبنی ہو۔
4۔ سماجی عدل کا فقدان
اسلام نے جن اخلاقی اور معاشرتی اُمور پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اُن میں سے ایک عدل ہے۔ عدل کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کو برابر دو حصوں میں تقسیم کرنا۔ اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ جو بات ہم کہیں یا جو کام کریں اُس میں سچائی کی میزان کسی طرف جھکنے نہ پائے اور وہی بات کہی جائے اور وہی کام کیا جائے جو سچائی کی کسوٹی پر پورا اُترے۔ اس کے معنی کسی چیز کو اُس کے صحیح موقع محل میں رکھنے کے بھی ہیں۔ اور اس کی ضد ظلم کا لفظ ہے جس کے معنی کسی چیز کو کسی غلط جگہ رکھنا ہے جو ا س کے لیے مناسب نہ ہو۔ پس اسلامی اخلاق کی رو سے عدل و انصاف کا معنی یہ ہے کہ ہر شخص کے ساتھ بلا رو و رعایت وہ معاملہ کرنا جس کا وہ حق دار ہے۔ ابنیاءf کی بعثت کا اہم ترین مقصد عدل و انصاف پر مبنی انسانی معاشرہ کا قیام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ.
(الحدید، 57: 25)
’’بےشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں۔‘‘
نبی کریمﷺ کے اُسوہ حسنہ اور آپﷺ کے خلفائے راشدین کے طرزِ حکومت پر نگا ہ ڈالیں تو بے لاگ عدل ہی ان حکومتوں کا بنیادی رکن نظر آتا ہے۔ ایسا عدل جو اپنے و بیگانے، مسلم وغیرمسلم، عربی و عجمی اور امیر و غریب سب کے لیے یکساں اور بلا امتیاز ہو۔ عدل و انصاف وہ صفت ہے جس پر دنیا کا نظام قائم ہے۔ جس قوم اور جس معاشرے میں عدل و انصاف نہ ہو وہ رحمتِ خدا وندی سے محروم رہتا ہے اور دنیا میں بھی ذلت و رسوائی اُس کا مقدر بنتی ہے۔ عدل کسی بھی معاشرہ کو چلانے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ عدل انفرادی ہو یا اجتماعی، جو معاشرہ اس سے صرفِ نظر کرتا ہے اُس کی شکست و ریخت نوشتہ دیوار بن جاتی ہے۔
چنانچہ کسی معاشرہ میں عدلِ اجتماعی کا ماحول نہ ہونا اُس میں کئی طرح کی خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ نہ مظلوم کی داد رسی ہوتی ہے اور نہ ظالموں کو اُن کے کیے کی سزا ملتی ہے۔ ظلم و بربریت اور جبر و تشدد کا ماحول ہوتا ہے کسی کی جان، مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں ہوتی جس کے نتیجے میں حرص، لالچ، طمع،خود غرضی، بے حسی اور سنگدلی جیسے اخلاقی امراض جنم لیتے ہیں جو معاشرے کو انسانیت کے بلند مقام سے گرا کر حیوانیت کی چراگاہ بنا دیتے ہیں۔
اخلاقی انحطاط کے اثرات ونتائج
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے اور یہاں امتحان کی غرض سے ہر انسان کو ایک مخصوص مدت کے لیے رکھا جاتا ہے۔ انسان عمل کرنے میں تو آزاد ہے لیکن اُس کے انجام سے بچنے میں آزاد نہیں ہے۔ پھر قانونِ قدرت یہ بھی ہے کہ انسان اچھا یا بُرا جو عمل بھی کرتا ہے اُس کا اصلی اور حقیقی بدلہ تو آخرت میں ہی ملے گا ليکن ایک ابتدائی بدلہ دنیا میں بھی ملتا ہے۔ اس بات کی وضاحت قرآنِ مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے کی جاسکتی ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ج وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.
(النحل، 16: 97)
’’ جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جب کہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰی.
(طٰہٰ، 20: 124)
’’ اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لیے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا اور ہم اسے قیامت کے دن (بھی) اندھا اٹھائیں گے۔‘‘
پہلی آیت میں بتایا گیا کہ نیک اعمال کرنے والے کو آخرت میں تو بہترین بدلہ ملے گا ہی لیکن دنیا میں بھی اُسے پاکیزہ اور باوقار زندگی میسر آئے گی جب کہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور اُس کی اطاعت سے منہ موڑنے کا نتیجہ اُخروی سزا کے ساتھ ساتھ دنیوی زندگی میں رزق کی تنگی (رزق سے برکت کا اُٹھ جانا، رزق کے حوالے سے فقرو فاقہ اورتنگدستی کے اندیشوں میں مبتلا ہونا وغیرہ) بتایا گیا ہے۔ چنانچہ اخلاقِ حسنہ کو اپنانے کی صورت میں انسان دنیا و آخرت کی سعادتوں کا مستحق بنتا چلاجاتا ہے جب کہ اخلاقی زوال اور انحطاط کا نتیجہ دونوں جگہوں پر بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ قانون فرد کے لیے بھی ہے اور یہی اقوام کے لیے بھی۔ اللہ کے قانون میں کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے:
سُنَّۃَ اللهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِیْلًا.
(الاحزاب، 33: 62)
’’اللہ کی (یہی) سنّت اُن لوگوں میں (بھی جاری رہی) ہے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔‘‘
اقوامِ عالم کی پوری تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو ہر جگہ اس قانون کی کار فرمائی دکھائی دیتی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں جب اور جہاں بھی کسی فرد یا قوم نے اخلاقی اُصولوں کی پاسداری کی، اللہ نے اُسے عزت و آبرو اور امن و عافیت والی زندگی عطا کی اور جہاں ان اُصولوں سے روگردانی کی گئی وہاں بالا خر قانونِ مکافاتِ عمل حرکت میں آیا اور خلاف ورزی کرنے والے فرد یا قوم کو دوسروں کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ عصرِ حاضر کا انسان اخلاقی اُصولوں کو پامال کرنے کی سزا انفردی اور اجتماعی سطح پر کس طر ح بھگت رہا ہے، اس کی ایک ہلکی سی جھلک ذیل کی سطور میں دکھائی جارہی ہے:
1۔ سکون و اطمینان سے محرومی
انسان دو چیزوں سے عبارت ہے۔ ایک جسم اور دوسری روح۔ جسم انسانی شخصیت کا دکھائی دینے والا حصہ ہے جو مادی اجزاء سے بنا ہوا ہے چنانچہ اُس کے تقاضے بھی اسی مادی دنیا سے متعلق ہیں۔ جسم کی بقاء اور ارتقاء کے لیے جو لوازمات درکا رہیں، وہ ہمارے ارد گرد بکھر ہوئے ہیں لیکن روح ایک ایسی لطیف چیز ہے جس کا تعلق اس مادی دنیا سے نہیں ہے بلکہ خالق کائنات سے ہے۔ چنانچہ روح کو ان مادی سامانوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اُس کی صحت مندی اور تروتازگی کا دارومدار اللہ کی محبت، تعلق، یاد اور اُس کی اطاعت و بندگی پر ہے۔ اس دور کے انسان کا المیہ یہ ہے کہ اس کی توجہ کامرکز و محور جسم کے تقاضے بن چکے ہیں جب کہ روح مسلسل نظر انداز ہو رہی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جسم تو پھل پھول رہا ہے لیکن روح کی غذا مطلوبہ مقدار میں نہ ملنے کی وجہ سے وہ ایک قسم کے فاقہ میں مبتلا ہے اور مضطرب اور بے چین ہے۔ انسان اپنی شخصیت کے اِس خلا کو مادی سازو سامان سے پورا کرنا چاہتا ہے اور اپنے قلبی سکون و اطمینان کو محض مادی لذتوں اور آسائشوں کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا ہے جو کہ ناممکن ہے کیونکہ بقول قرآنِ مجید :
اَ لَا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ.
(الرعد، 13: 28)
’’جان لو کہ الله ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔‘‘
اس نکتہ کو ایک مادی مثال کے ذریعے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر ایک آدمی کسی دستر خوان پر موجود ہو جہاں رنگ برنگی اور اعلیٰ درجے کی لذیذ نعمتیں وافر مقدار میں موجود ہوں لیکن پانی یا کوئی اور مشروب نہ ہو۔ کھانے کے دوران جب اُسے پیاس لگے گی تو وہاں موجود دوسری کوئی بھی چیز اُ س پیاس کی تسکین نہیں کر سکے گی اور نتیجتاً طبعیت میں ایک بے چینی اور اضطراب جنم لے گا جو کسی طرح ختم نہیں ہو گا۔ یہی حال آج کے انسان کا ہے۔ تمام تر مادی سہولتوں، لذتوں، راحتوںاور آسائشوں کے باوجود اُس کا اندرونی اضطراب اور خلفشار ختم ہونے میں نہیں آرہا اور اس سے دوسری بہت ساری قباحتیں جنم لے رہی ہیں۔
2۔ احساسات كا ضعف
اخلاقی انحطاط کا دوسرا اثر اور نتیجہ احساسات کے ضعف کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ انسان کوئی مشینی وجود نہیں ہے نہ ہی محض گوشت پوست کا بنا ہو ا ہے ظاہری ڈھانچہ ہے بلکہ اس کے اندر ایک دھڑکتا ہو ا دل اور ہمہ وقت متحرک رہنے والا دماغ بھی ہے جس میں نازک جذبات اور لطیف احساسات رکھے گئے ہیں جن میں سوزو گداز، محبت و مروت، ہمدردی و خیر خواہی اور ایثار و قربانی وغیرہ خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔ عصرِ حاضر کی مشینی زندگی نے انسان کو بھی مشینی انداز میں ڈھال دیا ہے اور اُس کا یہ قیمتی سرمایہ اُس سے چھین لیا ہے۔ بقول اقبال:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
احساسِ مروت سے مراد دل میں سوز و گداز اور تڑپ کا ہونا ہے۔ یہ احساس اقبال کے نزدیک اتنا اہم ہے کہ وہ اسے کسی بھی قیمت پر بیچنے کے لیے تیار نہیں ہے ؎
متاعِ بے بہاہے درد و سوزو آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
چنانچہ مہرو وفا، خلوص، اپنائیت اور چاہت وغیرہ کے جذبات جو کبھی انسان کا طرّۃ امتیازہو ا کرتے تھے، آج کا انسان ان سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی بجائے خود غرضی، لالچ، طمع، لاپرواہی اور بے حسی و سنگدلی جیسی منفی اقدار سکّہ رائج الوقت بنتی چلی جارہی ہیں۔ ہرکوئی اپنی ذات کے خول میں بند ہے۔ یہ بے التفاتی و لاپرواہی صرف عام انسانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ قریبی رشتوں میں بھی واضح طور پر محسوس ہو رہی ہے۔ مشینی آلات او ر جدید ایجادات کی بھرمار نے انسان کو دوسرے لوگوں سے بیگانہ کر دیا ہے۔ اس صورتِ حال نے انسانوں کی بستی کو حیوانوں کی بستی میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے جہاں کسی کو دوسرے کے حال سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور ہر کوئی اپنے لیے جی رہا ہوتا ہے۔
3۔ نفسیاتی امراض اور سماجی جرائم میں اضافہ
روحانی افلاس اور اخلاقی انحطاط کا ہی ایک شاخسانہ نفسیاتی مسائل اور سماجی جرائم میں اضافہ کی صورت میں بھی نمودار ہوتا ہے۔ یوں تو تاریخ کے ہر دور میں جسمانی امراض کی طرح نفسیاتی امراض بھی موجود رہے ہیں لیکن عصرِ حاضر کی غیر فطری اور تکلفات و تعّیشات سے لبریز طرزِ زندگی نے انسان کو اخلاقی انحطاط کی جس پستی میں دھکیل دیا ہے اُس کے لازمی نتیجہ کے طور پر ذہنی و نفسیاتی مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ انسان کے اندر ضمیر (conscience)کی صورت میں ایک محاسب (auditer) رکھا گیا ہے جو اُسے ہر غلط کا م پر ٹوکتا ہے۔ جب انسان ضمیر کی آواز کو نظر اندا ز کرتے ہوئے اخلاقی اُصولوں کو پامال کرتا ہے اور راست روی کے خلاف چلتا ہے تو اُس کے اندر ایک کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ جسے کبھی شعوری طور پر بھی محسوس کر لیا جاتا ہے اور کبھی یہ لا شعور کی سطح تک رہ جاتی ہے۔ یہی کشمکش جب بڑھتی ہے تو قلق اور اضطراب کی صورت اختیار کر لیتی ہے جس سے بہت سارے نفسیاتی امراض جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ ڈر، خوف، وہم، وسوسے، بے بنیاد خدشے، اندیشے، اینگزائٹی اور ڈپریشن وغیرہ جیسے کتنے ہی امراض ہیں جن میں آج کے دور میں انسانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت مبتلا ہے۔ پھر یہی امراض بہت ساری جسمانی بیماریوں کا بھی باعث بنتے ہیں۔ ماہر ینِ نفسیات کے ذریعے دواؤں اور مختلف نفسیاتی تراکیب سے وقتی طورپر تو کچھ افاقہ ہو جاتا ہے لیکن جب تک کسی مسئلہ کی جڑ کو نہ پکڑا جائے تو محض شاخوں اور پتوں کی تراش خراش سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ آج لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نفسیاتی امراض کی آگ میں جل رہی ہے لیکن کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔
- اخلاقی انحطاط کا ایک نتیجہ منشیات کے استعمال کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔ انسان اپنے اندر کے قلق، اضطراب، بے چینی اور پریشانی کو ختم کرے کے لیے کسی نہ کسی سہارے کی تلاش میں ہوتاہے اور نشہ کا استعمال وقتی طور پر اس ضرورت کو پورا کر دیتا ہے۔ رفتہ رفتہ انسان اس کا عادی ہو تا چلا جاتا ہے۔ انسان کا اندرونی اضطراب اور قلق کبھی تو اُسے منشیا ت کی طرف لے جاتا ہے اور کبھی جرائم کی راہ پر ڈا ل دیتا ہے اور کبھی انسان کا اخلاقی اور معنوی وجود زوال اور انحطاط کا شکار ہوکر اس حد تک کھوکھلا ہو جاتا ہے کہ اُس کے اندر وہ جرأت، ہمت اور استقامت نہیں ہوتی جو زندگی کے نشیب و فراز کا مقابلہ کر سکے تو حالات کا جبر انسان کو مایوسی اور پست ہمتی کی اُس سطح پر لے جاتا ہے جہاں اُسے اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی اور زندگی ایک بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے اور وہ خودکشی کا مرتکب ہوجاتا ہے۔
بڑھتے ہوئے ان سماجی جرائم کے سامنے بند باندھنے کی تمام کاوشیں بے سود ثابت ہو رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک اصل سبب کو تلاش کر کے اُس کا تدارک نہیں کیا جائے گاتب تک ان تمام سطحی اور نمائشی اقدامات سے تھوڑا بہت افاقہ تو ہو جائے گا لیکن اُس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوگی۔ ان تمام امور کے تدارک میں اکیلا قانون کسی بھی لحاظ سے کافی نہیں ہے بلکہ اُس کے ساتھ لوگوں کی اخلاقی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کوشش کرنا بہت ضروری ہے۔
4۔ جمود اور بے عملی
اخلاقی انحطاط نے انسان کو جامد اور بے عمل بھی بنادیا ہے۔ مشینی زندگی نے لوگوں سے عزم و ہمت اور جہد مسلسل کا شعار چھین لیا ہے اور اُس کی جگہ اُنہیں بے عملی و جمود اور سستی و کاہلی میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج کا انسان محنت و مشقت اور جفا کشی کے کاموں سے دور بھاگتا ہے۔ اُس کی بجائے وقتی تفریح، پست جذبات، سفلی خواہشات اور عارضی وفانی لذتوں میں تسکین ڈھونڈتا ہے۔ جس کے نتیجے میں زندگی حقیقی خوشیوں اور دائمی لذتوں سے محروم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اب اس طرح کی زندگی میں وہ کیف اور سرورکیسے آسکتا ہے جس کے متعلق علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
دینِ اسلام میں سستی و کاہلی، جمود و تعطل او ر فضول اور بے کا ر کاموں میں مشغولیت کو اسی لیے ناپسند کیا گیا ہے کہ یہ انسان سے اعلیٰ اخلاقی اوصاف چھین لیتی ہے اور اُسے دین و دنیا دونوں کے اعتبار سے ناکار ہ بنا دیتی ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا:
من حسن اسلام المرء ترکه مالا یعنیه.
(هندی، حسام الدین، کنز العمال، 3: 255، رقم: 8291)
’’آدمی کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ لایعنی کو ترک کر دے۔‘‘
اس کی بجائے اسلام انسان کو محنت و مشقت اور جہد مسلسل کے کاموں کی تر غیب دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ.
(البلد، 90: 4)
’’بےشک ہم نے انسان کو مشقت میں (مبتلا رہنے والا) پیدا کیا ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰـقِیْہِ.
(الانشقاق، 84: 6)
’’اے انسان! تو اپنے رب تک پہنچنے میں سخت مشقتیں برداشت کرتا ہے بالآخر تجھے اسی سے جا ملنا ہے۔‘‘
حضور علیہ السلام نے فرمایا:
ان اللہ عزوجل یحب معالی الامور.
(طبرانی، المعجم الاوسط، 3: 210، رقم: 2940)
’’اللہ تعالیٰ اعلیٰ امور کو پسند کرتے ہیں۔‘‘
خلاصۂ کلام
اخلاقی انحطاط اور زوال کے اثرات و نتائج کی مندرجہ بالا فہرست کوئی حتمی اور قطعی نہیں ہے اس میں بڑی آسانی کے ساتھ کئی اور چیزوں کا اضافہ ہو سکتا ہے مگر اس مختصر سی فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتاہے کہ آج کا انسان فطری طرزِ زندگی سے منہ موڑ کر اور خلاقی اُصول و اقدار کی خلاف ورزی کے نتیجے میں کس دلدل میں پھنس چکا ہے جہاں سے نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسانیت ثریا کی بلندیوں سے تحت الثریٰ کی پستیوں میں آ گئی ہے۔ یہ صورتِ حال خود انسانیت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے کہ اگر زوال اور انحطاط کی رفتار یہی رہی اور ماحول کے انتشار اور پرا گندگی میں یو نہی اضافہ ہوتا رہا تو خدانخواستہ وہ وقت نہ آجائے جہاں انسانیت کے لیے اپنے وجود کو بر قرار رکھنا ناممکن ہو جائے۔ عصرِ حاضرکے انسان کے سامنے اس سوال کا حل تلاش کیا جانا بہت ضروری ہے، اس لیے کہ اسی پر انسان کی بقاء کا انحصار ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اپنے ساتھ لذت و راحت اور آسائش و زیبائش کے جو سامان لے کر آئی ہے بلا شبہ اُنہوں نے زندگی کے حسن اور خوبصورتی میں اضافہ کر دیا ہے اور اسی بنا پر آج کا انسان ماضی کی نسبت کہیں بہتر معیارِ زندگی کو اپنائے ہوئے ہے اور وہ ایسی سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے جن کے متعلق ماضی کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا تھا مگر یہ تصویر کا ایک پہلو ہے۔ اسی معاملے کی دوسری جہت یہ ہے کہ یہ مادی ترقی اپنے ساتھ بہت سارے مسائل بھی لے کر آئی ہے جنہوں نے زندگی کا فطری حسن چھین لیا ہےاور اندرونی سکون و اطمینان سےآج کے انسان کو محروم کر دیا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انسان دنیوی لذتوں میں گم ہو کر اعلیٰ اخلاقی اقدار سے محروم ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں زندگی مصنوعی، کھوکھلی، سطحی اور بناوٹی بن گئی ہے۔ یہ صورتِ حال کسی طرح بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ یہ انسان کی آخرت کے لیے تو تباہ کن ہے ہی مگر اس نے دنیوی زندگی کو بھی جہنم کدہ بنا دیا ہے۔ یاد رکھیں! تاریخ کا پہیہ اُلٹا نہیں گھما یا جا سکتا، جو ترقیاں ہو چکی ہیں، اُنہیں ختم نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا کوئی راہِ اعتدال تلاش کرنا ہوگی اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو مسلمہ اخلاقی اقدار ہیں، اُنہیں مضبوطی سے تھام لیا جائے اور کسی بھی قیمت پر اُن سے محرومی کو گوارانہ کیا جائے اور زندگی کی تمام سہولتوں سے اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔