بارگاہ مصطفی ﷺ سے تربیتِ اولاد کا جو لائحہ عمل میسر آتا ہے، کائنات کی کوئی شخصیت اس سے بہترین لائحہ عمل عطا نہیں کرسکتی۔ تربیتِ اولاد کے تناظر میں شاید ہی کوئی پہلو ایسا ہو جس کی طرف آقا علیہ السلام نے خود رہنمائی نہ فرمادی ہو۔ آپ ﷺ نے اس سلسلہ میں اپنا اسوۂ حسنہ عطا فرمایا کہ بچوں کے ساتھ جو رویہ اور سلوک مجھے اپناتا ہوا دیکھو، اس کی پیروی کرو۔ جس طرح حضور علیہ السلام کو اپنے دور کے بچوں کی فکر تھی، اسی طرح قیامت تک آنے والی نسلوں اور اولادوں کی فکر بھی آپ ﷺ کو دامن گیر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے متعدد فرامین کے ذریعے والدین اور معاشرے کو بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ فرمایا۔ ذیل میں اس سلسلہ میں آپ ﷺ کے چند فرامین درج کیے جاتے ہیں:
1۔ اولاد کو محبتِ رسول، محبتِ اہلِ بیتِ اطہار اور قرأت القرآن سکھانے کی نصیحت
آقا علیہ السلام نے فرمایا:
أدبوا أولادكم على ثلاث خصال حب نبيكم و حب أهل بيته و قراءة القرآن.
(هندي، کنزالعمال، 16: 189، الرقم: 45409)
اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ: اپنے حبیب مکرم ﷺ کی محبت، اہل بیت اطہار کی محبت اور قرأت القرآن۔
اِس کا مطلب ہے کہ محبت ایک ایسی چیز ہےجو پڑھنے سےنہیں آتی بلکہ عمل کرکے سکھائی جاتی ہے۔ آج یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے ہمیں نبرد آزما ہونا ہوگا اور اپنی اولاد اور نئی نسل کو محبتِ مصطفی ﷺ اور محبتِ اہلِ بیتِ اطہار کے جام پلانے ہوں گے اور قرآن مجید سے محبت اور اس کی تعلیمات پر عمل کی ترغیب دینا ہوگی۔
2۔ اولاد کی تکریم کا حکم
آقا علیہ السلام نے فرمایا:
أكرموا أولادكم وأحسنوا أدبهم.
’’اپنی اولاد کی تکریم کرو اور انھیں اچھے آداب سکھاؤ۔‘‘
( ابن ماجه، السنن، کتاب الأدب، 2: 1211، الرقم: 3671)
آق علیہ السلام حکم دے رہے ہیں کہ اپنی اولاد کی عزت کرو جبکہ ہم آج تک صرف یہی سیکھتے آئے ہیں کہ بڑوں کا اکرام کرو۔ آقا علیہ السلام نے بڑوں کے علاوہ بچوں کی بھی عزت کرنے کی طرف رہنمائی فرمائی۔ اس فرمان سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ جو اپنی اولادوں کی عزت نہیں کرتا، کل اُن کی اولاد بھی کسی کی عزت نہیں کرے گی۔ آقا علیہ السلام نے تصور ہی تبدیل فرمادیا اور واضح کردیا کہ اگر اولاد کو عزت کرنے والا بنانا ہے تو پہلےاولاد کو عزت دو۔ یعنی پہلے اولاد کو عزت کے ساتھ بٹھاؤ، اُن کو اچھے الفاظ اور القاب کے ساتھ بلاؤ۔ اُنہیں صاحب اور بھائی کہہ کر بلانے سے ہماری عزت بڑھے گی، کم نہیں ہوگی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنے صاحبزادوں، پوتوں اور نواسوں کو بھائی جبکہ اپنی صاحبزادیوں، نواسیوں اور پوتیوں کو باجی کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ حکمت ہے، اس لیے کہ آج انھیں عزت دی جائے گی تو کل وہ عزت دینے والے بنیں گے اور انھیں احساس ہو گا کہ ہمیں بھی اِتنے ہی عزت بھرے القاب سے بلایا جاتا تھا، لہذا ہم بھی ایسا ہی کریں۔
3۔ تربیت کرنے میں جھجک اور شرم محسوس نہ کرنے کی ہدایت
آقا علیہ السلام نے فرمایا:
إنما أنا لكم مثل الوالد أعلمكم.
(أحمد بن حنبل، المسند، 2: 250، الرقم: 7403)
’’میں تمہارے لیے ایسے ہوں جیسے والد اپنی اولاد کے لیے ہوتا ہے، میں تمھیں سکھاتا ہوں۔‘‘
یعنی جس طرح والد اپنی اولاد کو سکھاتا ہے، میں بھی تمھیں اسی طرح سکھاتا اور تعلیم دیتا ہوں۔ اسی روایت میں ہے کہ آقا علیہ السلام نے روزمرہ معمول کے حوالے سے چھوٹی سی چھوٹی چیز کے متعلق تعلیم و تربیت فرمائی حتی کہ قضائے حاجت کے لیے واش روم جانے اور اٹھنے بیٹھنے کے حوالے سے بھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ گویا جیسے والدین کو اپنی اولاد کو سکھاتے ہوئے حیاء نہیں آتی، اسی طرح یہ آداب سکھاتے ہوئے حضور علیہ السلام بھی کسی قسم کی شرم محسوس نہیں فرمارہے۔ آقا علیہ السلام کا اس فرمان سے یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ نہ جاننے والوں کو سکھانے اور شریعت و پاکیزگی کے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے امت کا کوئی فرد شرم محسوس نہ کرے۔
4۔ تعلق باللہ کی مضبوطی و استحکام کی تلقین
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں آقا علیہ السلام کے ساتھ سواری پر پیچھے موجود تھا، آپ ﷺ نے فرمایا:
يا غلام إني أعلمك كلمات احفظ الله يحفظك.
اے بچے! میں تمہیں کچھ کلمات سکھاتا ہوں۔ تم اللہ کے احکامات کی حفاظت کرنے والے بن جاؤ تو اللہ تعالیٰ تیری بھی حفاظت کرے گا۔
حضور علیہ السلام نے پہلے احکاماتِ الہیہ کا پابند بنایا اور سمجھانے کا طریقہ کار یہ اپنایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تمہاری اور تمہارے معاملات کی حفاظت کرے تو پھر تم پہلے اللہ رب العزت کے احکامات کی حفاظت کرنے والے بن جاؤ۔ پھر فرمایا:
احفظ الله تجده تجاهك.
اللہ رب العزت کے حقوق اور اس کے احکامات کی حفاظت کرو۔ اگر تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو گے تو جہاں تم جاؤ گے، وہیں خدا کو پاؤ گے۔
یعنی جب تم اللہ تعالیٰ کی راہ پر چلنے والے بنو گے تو جس طرح رخ کرو گے، اللہ تعالیٰ کو وہیں پاؤ گے اور اُس کی رحمت، مدد، کرم اور اُس کی نصرت کے حقدار قرار پاؤ گے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کوئی نہیں۔ ہمارا کوئی دوست نہیں، کوئی مددگار نہیں۔ اللہ فرما رہا ہے کہ اے میرے بندے! گھبراتے کیوں ہو؟ تم میرے راستے پر چل کر تو دیکھو، تمہیں کسی اور کو دوست بنانے کی ضرورت ہی نہ رہے گی بلکہ میں ہی تمہارا دوست بن جاؤں گا۔ پھر فرمایا:
إذا سألت فاسأل الله.
جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر۔
یعنی اگر سائل بننا ہے، مانگنا ہے تو کسی اور سے کیوں مانگتے ہو، اللہ سے مانگو۔ اللہ سے جب مانگو گے تو خالی واپس نہیں آؤ گے بلکہ وہ ہمیشہ تمھاری مدد کر ے گا۔ اللہ رب العزت کی ذات پر عقیدہ اور یقین کو مضبوط کرنے کے لیے حضور علیہ السلام نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مزید فرمایا:
وإذا استعنت فاستعن بالله.
کسی گرداب اور مصیبت میں پھنس جاؤ اور مدد مانگنے کا وقت آجائے تو صرف اللہ سے مدد مانگو۔
پھر فرمایا:
واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك ولو اجتمعوا علی ان یضروک بشئی لم یضروک الا بشئی قد کتبہ اللہ لک.
(سنن الترمذی، کتاب صفة القیامة والرقائق والورع، 4: 667، الرقم: 2516)
یاد رکھ!اگر پوری دنیا بھی اکٹھی ہو جائے کہ تمہیں کوئی نفع پہنچا دے تو وہ ساری دنیا جمع ہو کر بھی تجھے وہی فائدہ پہنچا سکتی ہے جوخدا نے تیرے لیے لکھا ہوا ہے، وہ اُس سے زیادہ تجھے نہیں دے سکتے اور اگر ساری دنیا اکٹھی ہو کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو اُس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تیری تقدیر میں لکھ دیا ہے۔
پس تو زندگی میں ڈرے بغیر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر کاربند ہوجا۔ جو تیرے مقدر میں ہے، وہ تجھے ہر صورت مل کر رہے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو اس مذکورہ نصیحت کے ساتھ آقا علیہ السلام نے امت کو بچوں اور اولاد کے اعتقاد اور ایمان کی حفاظت کرنے کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔
5۔ عبادات کا عادی بنانے کا حکم
آقا علیہ السلام نے بچوں کو نماز کا عادی بنانے کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی۔ ارشاد فرمایا:
مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم أبناء عشر وفرقوا بينهم في المضاجع.
(سنن أبی داؤد، کتاب الصلاۃ، 1: 133، الرقم: 495)
اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو، جب وہ سات سال کی عمر میں پہنچ جائیں یعنی اس عمر تک ترغیب دلاؤ، توجہ دلاؤ، مائل کرو۔ اگر وہ دس سال کے ہو جائیں تو پھر اُن کی سرزنش بھی کرو، حکمت کے ساتھ تأدیب بھی کرو اور جب بڑے ہوجائیں تو بچوں کے بستر بھی الگ کر دو۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی حکمت اور بصیرت ملاحظہ کریں کہ اگر بچے کو دس سال کی عمر تک بھی نماز کی عادت نہیں پڑی تو سرزنش کرو، اس لیے کہ دس سال میں جو شخصیت بن جاتی ہے، اب وہ کوئی بدل نہیں سکتا۔ سات سال کی عمر میں تو عادت بنانی ہے اور دس سال کی عمر میں پچھلی عادت کو توڑنا ہے۔ جب دس سال گزر گئے توپھر اُسے نمازی بنانے میں زیادہ مشکل ہوجاتی ہے۔
6۔ معاشرتی آداب سکھانے کی ہدایت
آقا علیہ السلام نےاولادکو کھانے کے آداب بھی سکھائے کہ کھانا اور پینا کس طرح ہے۔ سید نا عمر بن سلمہ فرماتے ہیں کہ میں چھوٹا بچہ تھا اورآقا علیہ السلام کی بارگاہ میں بیٹھتا تھا۔ جب کوئی کھانے کا برتن آتا تھا تومیں اپنا ہاتھ اُس میں ڈالتا اور اسے چار وں سمت گھماتا رہتا تھا کہ اپنی مرضی کی چیز آجائے۔ آقا علیہ السلام نے بڑے پیار اور شفقت بھرے انداز میں فرمایاکہ بیٹے جب کھانا آجائےتو:
یا غلام سم الله وكل بيمينك. وكل مما يليك.
(صحیح البخاری، کتاب الأطمعة، 5: 2056، الرقم:5061)
اے بچے! پہلے بسم اللہ پڑھا کرو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنے سامنے سے کھایا کرو۔
یعنی آقا علیہ السلام کھانے کے دوران نامناسب معاملات سے بھی نہایت پیارے طریقے سے منع فرمادیا کرتے تھے۔ ایک روز آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں کھجوروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ چھوٹے تھے۔ آپ تیزی سے آئے اور ایک کھجور اُٹھاکر اپنے منہ مبارک میں ڈال لی۔ آقا علیہ السلام نے جب یہ معاملہ دیکھا تو فرمایا:
كخ كخ ليطرحها ثم قال أما شعرت أنا لا نأكل الصدقة.
(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، 2: 542، الرقم: 1420)
اِسے ابھی نکال دو، اُنہوں نے نکال دی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں پتہ نہیں کہ ہم اہل بیت نبوی صدقہ نہیں کھاتے۔
دوسری طرف ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم ممنوعہ چیزوں کے ارتکاب پر بھی بچوں کو منع نہیں کرتے۔ کو ئی بچہ ڈانس کر رہا ہو تو اس کے والدین خوش ہوتے ہیں کہ واہ واہ کیا بات ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اُنہیں منع کیا جائے۔ آج نہیں روکیں گے تو کل نہیں روک سکیں گے۔ والدین کہتے ہیں کہ بچے کو انجوائے کرنے دیں، انجوائے کرنے کی عمر ہے۔ اگر یہی امر ہوتا تو آقا علیہ السلام بھی اُن بچوں كو انجوائے کرنے دیتے۔ فرماتے کہ چھوٹا بچہ ہے، ابھی اِس پر شریعت کا حکم لاگو نہیں ہوتا، کل اسے یہ چیزیں سکھا دیں گے۔ نہیں، بلکہ فرمایا کہ جو بچپن میں روک دیاجائےوہ مرتے دم تک رکا رہتا ہے۔
میں اس موقع پر اپنی مثال دینا چاہوں گا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہماری تربیت کا اہتمام اس طرح فرماتے کہ بچپن سے ہمارے ذہن میں یہ بات ڈال دی تھی بلکہ اپنے عمل سے سکھا دی تھی کہ منہاج القرآن کے پیسوں کا کوئی کھانا اور کوئی بھی چیز جو ڈارئنگ روم میں مہمانوں کے لیے موجود ہوگی، وہ ہمارے لیے حرام ہے۔ یہ شیخ الاسلام کا پیمانۂ تقویٰ اور طہارت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں منہا ج القرآن کے پیسوں سے نہ کبھی خود کوئی لقمہ کھاؤں گا اور نہ میری اولاد مرتے دم تک کھائے گی۔ پس جب ڈارئنگ روم میں مہمانوں کی ضیافت کے لیے آفیشل فنڈ میں سے کھانا آتا یا چائے، بسکٹ آتے تو ہم بہن بھائیوں میں سے کوئی لاعلمی میں اسے لینے لگتا تو دوسرا خود ہی کہہ دیتا کہ اسے نہ لیں، یہ آفیشل ہے۔ ہمیں لفظ آفیشل کا پتہ تھا اور یہ بھی پتہ تھا کہ یہ ہمارے لیے حلال نہیں۔ شیخ الاسلام نے چونکہ ہمیں بھی اس سے منع کیا تھا، اِس لیے آج ہماری اولاد بھی ان کو نہیں لیتی اور ان شاء اللہ اُن کی اولاد بھی ان اشیاء پر ہاتھ رکھنے سے پہلے سوچے گی کہ یہ کہاں سےآیا ہے۔ اس طرح کی تربیت گھر سےآتی ہے اور یہ سب آقا علیہ السلام کی حسنین کریمین علیہما السلام کی تربیت فرمانے کا ایک فیض ہے۔
7۔ اپنائیت اور شفقت کے ساتھ تربیت کرنے کا حکم
آپ ﷺ بچوں پر انتہا درجہ کی شفقت فرماتے۔ اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں چھوٹا سا تھا اور آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں جاتا تھا:
يأخذني فيقعدني على فخذه.
آقا علیہ السلام شفقت فرما کر مجھے اپنی ران مبارک کی ایک سمت بٹھا لیا کرتے تھے اور دوسری طرف سیدنا حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیتے۔ پھر ہم دونوں کو جوڑ لیتے، پیارے کرتے اور پھر فرماتے:
اللهم ارحمهما فإني أرحمهما.
(صحیح البخاری، کتاب الأدب، 5: 2236، الرقم: 5657)
اے اللہ تو بھی اِن پر اِس طرح رحم فرما جیسے میں اِن پر رحم کرتا ہے۔
آج ہمیں اس چیز کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ حضور علیہ السلام نے اولاد کی تربیت سختی، ڈانٹنے اور سرزنش سے نہیں فرمائی بلکہ انھیں اپنائیت دے کر تربیت کا اہتمام فرمایا ہے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ کے اہل بیت اطہار میں سے نہیں ہے مگر آقا علیہ السلام اُن کے ساتھ بھی شفقت اور محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اولاد اور بچوں کی عزت کرنی پڑتی ہے، اُن کو پیار، حکمت، لطف اور کرم سکھانا پڑتا ہے۔ جب اولاد سیکھ جائے تو پھر وہ ایسا درخت بن جاتی ہے کہ ساری زندگی اُس کا پھل لوگ کھاتے ہیں اور دعائیں بھی دیتے ہیں۔
ایک روز سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آقا علیہ السلام نے اُن کا بوسہ لیا۔ اس وقت وہاں اقرع بن حابس التمیمی کھڑے تھے، وہ حیران ہو گئے کہ حضور علیہ السلام اپنے نواسے کو کس طرح چوم رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ یارسول اللہ! میرے تو دس بچے ہیں، میں نے تو آج تک کسی ایک کو بھی نہیں چوما اور آپ اپنے نواسے کو اس طرح چوم رہے ہیں۔ آپ ﷺ نےفرمایا:
من لا يرحم لا يرحم
(صحیح البخاری، کتاب الأدب، 5: 2235، الرقم:5651)
جو رحم نہیں کرتا اُس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔
اسی طرح سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہ اور حسنین کریمین علیہما السلام سے آپ ﷺ کی محبت و شفقت اور اُن کی تربیت کے متعدد واقعات ہیں جو ہمیں اولاد کے ساتھ تعلق اور ان کی تعلیم و تربیت کے بارے میں رہنمائی عطا کرتے ہیں۔
8۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی تلقین
أم خالد بنت سعید فرماتی ہیں کہ مجھے بچپن میں ایک دفعہ میرے والد آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں لے گئے۔ اس وقت میں نے زرد رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔ آقا علیہ السلام نے جب مجھے اپنی بارگاہ میں دیکھا تو مسکراتے ہوئے میرا لباس دیکھ کر فرمایا:
سنا والسنا.
بڑا خوبصورت اور عمدہ لباس پہنا ہوا ہے۔
چھوٹی سی بچی ہیں اور اُنہوں نے عمدہ لباس پہنا مگر غورکریں کہ آپ ﷺ اس کی بھی تعریف فرمارہے ہیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں خوش ہو گئی اور پھر میری نظر آقا علیہ السلام کی انگوٹھی مبارک پر پڑی جو آپ ﷺ نے دست اقدس میں پہنی ہوئی تھی۔ میں نے اُس سے کھیلنا شروع کر دیا۔ میرے والد نے مجھے روکا کہ ایسے نہ کرو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، کرنے دو، کوئی بات نہیں اور پھر آپ ﷺ نے مجھ سے مزید شفقت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
أبلي واخلقي.
ہمیشہ یہی لباس پہنا کرو۔
آپ ﷺ نے یہ دو دفعہ فرمایا۔
(صحیح البخاری، کتاب اللباس، 5: 2198، الرقم: 5507)
معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کی اس شفقت کا تعلق اپنے اہل خانہ اور اہل بیت تک محدود نہیں بلکہ حضور ﷺ معاشرے کے بچوں سے بھی شفقت فرماتے ہوئے انھیں اخلاق اور تربیت سے مزین فرما رہے ہیں۔
9۔ بچوں سے خوش طبعی سے پیش آنے کی تاکید
آقا علیہ السلام بچوں سے ظرافت آمیز گفتگو بھی فرمایا کرتے تاکہ بچوں کی طبیعت کے اندر بھی خوش طبعی پیدا ہو۔ آپ ﷺ اس پہلو کو کبھی اپنی بارگاہ میں اوجھل نہ ہونے دیتے تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے بھائی کا نام عمیر تھا۔ وہ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں آیا۔ آپ نے پوچھا کہ اِس کا نام کیا ہے؟بتایا گیا کہ اس کا نام عمیر ہے۔ ان کے پاس ایک پرندہ تھا جو مرگیا۔ جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا تو جب بھی عمیر آپ ﷺ کی بارگاہ میں آتے تو آپ ﷺ فرماتے:
يا أبا عمير ما فعل النغير؟
(صحیح البخاری، کتاب الأدب، 5: 2291-2270، الرقم: 5778-5850)
اے ابو عمیر نغیر کا کیا بنا؟
نغیر پرندے کوکہتے ہیں۔ آپ ﷺ اسے بار بار یہی کہتے اور لطف اندوز ہوتے اور مسکراتے۔ جب کسی کے ساتھ اس حد تک اپنائیت، محبت اور احساسات کا تعلق ہوگا تو وہ کیسے تقویٰ، پرہیزگاری اور نیکی و بھلائی کے راستے سے ہٹ کر چلنے کا سوچ بھی سکتا ہوگا، اس کی نظر میں تو ہمیشہ حضور علیہ السلام کی یہی مسکراہٹ، شفقت، محبت، ظرافت غالب رہتی ہوگی۔
10۔ علم، ادب اور اخلاق سکھانے کی نصیحت
حضور علیہ السلام نے فرمایا:
علموهم و أدبوهم.
(البيهقي، شعب الإیمان، 6: 397، الرقم: 8648)
اپنی اولاد کو علم بھی سکھاؤ اور اُن کو ادب بھی سکھاؤ۔
ایک اور مقام پر آپ ﷺ فرمایا:
ما نحل والد ولدا أفضل من أدب حسن
(أحمد بن حنبل، المسند، 4: 78، الرقم: 16763)
کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھے اخلاق سے بہتر کوئی دولت نہیں دی۔ یعنی اگر تم اپنی اولاد کو دولت دینے چاہتے ہو، امیر کرنا چاہتے ہو، اچھا دیکھنا چاہتے ہو تو انھیں اچھے آداب کی دولت سے مالا مال اور سرشار کر دو۔ اگر ادب نہ دے سکے تو پھر بظاہر مالداری ہونے کے باوجود غربت ہی ہے۔
خلاصۂ کلام
آقا علیہ السلام نے فرمایا:
إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة إلا من صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعو له.
(صحیح مسلم، کتاب الوصية، 3: 1255، الرقم: 1631)
جب بندہ فوت ہو جاتا ہےتو ہر عمل اُس سے منقطع کر دیا جاتا ہے۔ صرف اس کے تین اعمال ایسے ہیں جو قائم رہتے ہیں:
1۔ صدقۂ جاریہ: اگر اس نے کوئی مسجد بنادی، آغوش بنادیا، انسانیت کی خدمت کا کوئی مرکز بنادیا، کوئی تعلیمی و فلاحی ادارہ بنادیا تو جب تک وہ ادارہ قائم رہے گا، اُس کا فیض اور اُس کا اجر اُس انسان کو ملتا رہے گا۔
2۔ علمِ نافع: اگر کسی نے علم کا ایسا چراغ روشن کردیا کہ اس سے انسانیت کو نفع پہنچ رہا ہے تو اس بندے کا یہ عمل بھی منقطع نہیں ہوتا۔
3۔ صالح اولاد: اگر کسی بندے کی ایسی اولاد ہے جو نیک اور صالح ہے تو یہ نیک اولاد بھی انسان کو برزخ اور آخرت کی منازل میں کامیابی عطا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔
ہم اپنی اولاد کی تربیت اگر اِس زاویہ سے بھی کر لیں کہ کل جب ہم اپنی قبروں میں چلے جائیں گے تو کوئی ہماری بخشش و مغفرت کے لیے دعا کرنے والا تو ہوگا۔ یہ زاویہ بھی تربیتِ اولاد کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں متحرک رکھے گا۔ اولاد نیکی اور خیرات کا عمل کرتی رہے تو اس کے اعمال بھی اس کے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتے ہیں۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنی اولاد اور نئی نسلوں کو اسلامی تعلیمات سے بہرہ یاب کرنے، اُن کی علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی تربیت کرنے اور انھیں دین و دنیا کی ہر جہت سے باادب بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ