القرآن: حضور نبی اکرم ﷺ کی جسمانی اور روحانی معراج

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰی. مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی. وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی.

(النجم، 53: 1 تا 4)

’’قسم ہے روشن ستارے (محمد ﷺ) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔ تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (رسول ﷺ جنہوں نے تمہیں اپنا صحابی بنایا) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے۔ اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘

حضورنبی اکرم ﷺ کی معراج کے بیان کے تناظر میں اللہ تعالیٰ کو سورج، چاند، ستاروں کی قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ معراج النبی ﷺ سے ان اشیاء کی کوئی مناسبت اور جوڑ نہیں بنتا۔ لہذا یہاں ’’النجم‘‘ سے مراد وہ ستارہ نہیں جو آسمان پر چمکتا ہے بلکہ اس سے مراد ذاتِ مصطفی ﷺ ہے۔ امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

النجم ھو محمد ﷺ.

(تفسیر المظهری، 9: 103)

’’ستارے سے مراد محمد مصطفی ﷺ ہیں۔‘‘

سورج ستارہ ہے جبکہ چاند (قمر) سیارہ ہے۔ سیارے کی اپنی روشنی نہیں ہوتی، وہ چمکتا ہوا نظر ضرور آتا ہے مگر اس کے اپنے اندر نورنہیں ہوتا۔ چاند اور زمین ایک سیارہ ہیں، جس طرح ہم اہل زمین کو چاند چمکتا ہوا نظر آتا ہے، اسی طرح اگر ہم چاند پر چلے جائیں تو ہمیں زمین چمکتی ہوئی نظر آئے گی۔ گویا نور چاند اور زمین کا اپنا نہیں ہے بلکہ نور سورج کا ہے، اسکی روشنی جب نظام شمسی کے سیاروں پر پڑتی ہے تو وہ روشن ہوجاتے ہیں جبکہ دوسری طرف ستاروں کی اپنی روشنی اور حرارت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر مختلف گیسیں اور مادہ رکھا ہے جن کے جلنے سے نور اور روشنی پیدا ہوتی ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو کسی بھی جگہ چاند (قمر) نہیں کہا۔اس لیے کہ حضور نبی اکرم ﷺ دنیا میں کسی کے نور سے نہیں چمکتے بلکہ آپ ﷺ کو اللہ کا عطا کردہ نور حاصل ہے۔ باقی ہر نبی اور ولی چاند اور سیاروں کی مثل ہیں اور وہ نورِ مصطفی ﷺ کی روشنی سے منور ہیں۔ آپ ﷺ تو ایسا سورج ہیں کہ خود تو چمکتے ہی ہیں مگر جس پر توجہ فرمادیں، اسے بھی چمکا دیتے ہیں۔۔۔ جس پر اپنے فیض کی کرنیں ڈال دیں، اسے بھی نور کردیتے ہیں۔۔۔ خود تو نور ہیں مگر جدھر توجہ کردیں، اسے بھی نور کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو سورج اور ستارے سے تشبیہ دی مگر کسی بھی جگہ چاند سے تشبیہ نہیں دی۔ اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے سفر معراج کو بیان کرنے سے قبل آپ ﷺ کو ’’النجم‘‘ فرمایا۔

معراج مصطفی ﷺ کے اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو درج ذیل روحانی اسفار بھی کروائے:

1۔ جسم مبارک کی معراج

2۔ عقل کی معراج

3۔ نفس مبارک کی معراج

4۔ قلب اطہر کی معراج

5۔ روح مبارک کی معراج

6۔ سر کی معراج

7۔ سر السر کی معراج

گویا یہ سفر معراج حضور نبی اکرم ﷺ کے ظاہر کا بھی معراج تھا اور آپ ﷺ کے باطن کا بھی معراج تھا۔ یہ معراج آپ ﷺ کی جسمانیت اور روحانیت دونوں کی معراج ہونے کے سبب ایک کامل معراج تھا۔ ذیل میں اس سفرِ معراج کے دوران آپ کے چند روحانی اسفار اور معراج کا ذکر کیا جارہا ہے:

1۔ ارادہ سے محبت تک کا سفر

سفرِ معراج میں آپ ﷺ کی روحانی معراج کا پہلا سفر ’’ارادہ سے محبت تک کا سفر‘‘ ہے۔آپ ﷺ نے اپنا ارادہ ترک کیا اور اس ارادہ کو اپنی محبت کی طرف لے گئے۔ اس حقیقت کا علم ہمیں اللہ رب العزت کے اس فرمان سے ہوتا ہے:

سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ.

(الاسراء، 17: 1)

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو لے گئی۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے معراج کے بیان میں حضور نبی اکرم ﷺ کے فعل کی بھی نفی کردی اور ارادۂ فعل کی بھی نفی فرمادی کہ معراج پر جانے میں نہ حضور نبی اکرم ﷺ کا فعل تھا اور نہ اس فعل میں ان کا ارادہ کارفرما تھا۔ یادرکھیں! فعل؛ ارادے سے وجود میں آتا ہے۔ اگر انسان کا فعل اپنا ہو تو ارادہ بھی اس کا اپنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرا برگزیدہ بندہ معراج پر گیا بلکہ آپ ﷺ کا جانا بیان ہی نہیں کیا اور جانے کی نفی کردی اور جب جانے کے فعل کی نفی کردی تو ارادہ بھی نہ رہا۔

اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ میرے محبوب کے اس شان سے عالمِ بیداری میں معراج پر جانے پر اعتراض کیوں ہے حالانکہ میرے محبوب نے تو یہ دعویٰ ہی نہیں کیا کہ میں گیا ہوں۔ دعویٰ تو میں نے کیا ہے کہ میں انھیں لے گیا۔ لہذا تمھارا یہ اعتراض میرے محبوب پر نہیں بلکہ مجھ پر ہے اور مجھ پر تم یہ اعتراض کر ہی نہیں سکتے، اس لیے کہ میں ہر شے پر قادرہوں۔ گویا اللہ رب العزت نے واضح فرمادیا کہ بات ان کے جانے کی نہیں ہے بلکہ میرے لے جانے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے محبوب کے ساتھ محبت کا عالم یہ ہے کہ جس مقام پر وہ دیکھتا ہے کہ میرے محبوب پر کوئی اعتراض کرے گا، وہاں وہ حضور علیہ السلام کے دفاع میں خود سامنے آجاتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ میں نے کیا ہے، اب کسی نے اعتراض کرنا ہے تو کرکے دکھاؤ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے خلاف بولی جانے والی سب کی زبانیں خاموش کروا دیں۔

اسریٰ بعبدہ کے الفاظ واضح کررہے ہیں کہ اللہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف فعل اور ارادہ کی نسبت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سفر کے آغاز سے ہی حضور ﷺ کا ارادہ، محبت میں فنا ہوگیا تھا۔ یاد رکھیں کہ جب تک بندے کا اپنا ارادہ رہے، وہ محب نہیں ہوتا۔ جب تک بندہ اپنا ارادہ رکھے تو سمجھیں کہ اسے کسی سے محبت نہیں ہے۔ اس لیے کہ جب کسی سے محبت ہوجائے تومحبت کی علامت یہ ہے کہ وہ بندے کے اپنے ارادے ختم کردیتی ہے۔ ارادہ جوں جوں محبت میں گم اور ضم ہوتا چلا جاتا ہے توں توں محبت کامل ہوتی چلی جاتی ہے اورجب محبت کمال پر پہنچتی ہے تو کسی بھی سطح پر بندے کا اپنا کوئی ارادہ نہیں رہتا۔ اس امر کی وضاحت اس حدیث قدسی سے ہوتی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا.

(صحیح بخاری، 5: 2384، الرقم: 6137)

’’میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔‘‘

گویا قریب تو بندہ ہوتا چلا جاتا ہے مگر محبت وہ کرتا چلا جاتاہے۔ پس جو بندہ اللہ کا قرب تلاش کرتا ہے، اللہ اس سے محبت کرنا شروع کردیتا ہے۔ گویا اب بندے کا اپنا ارادہ فنا ہوگیا اور محبت کی علامت ہی یہ ہے کہ اپنا ارادہ ختم اور محبوب کا ارادہ غالب ہوجاتا ہے۔ اس سفر معراج میں اسریٰ بعبدہ کے الفاظ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا ارادہ فنا کردیا تھا اور معراج پر آپ ﷺ اپنے ارادے سے نہیں گئے بلکہ اللہ کے ارادے سے گئے ہیں۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے سفرِ معراج پر جانے کی انفرادیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اللہ سے ہم کلام ہونے کے لیے کوہِ طور پر جانے سے واضح ہوجاتی ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ سے ہم کلام ہونے کے لیے تشریف لے گئے تو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَمَّا جَآءَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا.

(الاعراف، 7: 143)

’’اور جب موسیٰ ( علیہ السلام ) ہمارے (مقرر کردہ) وقت پر حاضر ہوا۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمارہا ہے کہ وہ ہمارے مقرر کیے گئے وقت پر مقررہ جگہ پر آئے۔ اُس کی طرف موسیٰ علیہ السلام بھی گئے اور حضور نبی اکرم ﷺ بھی گئے مگر موسیٰ علیہ السلام کے جانے کو اللہ نے فرمایا کہ جآء موسیٰ، موسیٰ علیہ السلام آئے مگر جب حضور نبی اکرم ﷺ کے جانے کا ذکر کیا تو فرمایا: اسریٰ بعبدہ، اللہ اپنے خاص بندے کو لے گیا۔ پس جب تک اپنا ارادہ چھوڑتے نہیں ہیں، تب تک محبت نصیب نہیں ہوتی۔ اگر ہم اللہ کا محب بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ارادے کو اللہ کے ارادے میں فنا کرنا ہوگااور اگر اللہ کا محبوب بننا چاہتے ہیں تو اپنے ارادے کا نام و نشان بھی مٹانا ہوگا۔

ھَوٰی کا ایک معنی خواہش ہے۔یہ خواہش جب شدید ہوجائے تو محبت کہلاتی ہے۔ والنجم اذا ھوی میں حضور علیہ السلام کی طرف ’’ھوی‘‘ کو منسوب کیا گیا ہے جبکہ اسی سورت کی ایک آیت میں وما ینطق عن الھوی میں حضور علیہ السلام سے ’’ھوی‘‘ کی نفی کی گئی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنی ’’ھوی‘‘ سے کلام نہیں کرتے۔ معلوم ہوا کہ ھوی کے دومعنی ہیں:

1۔ اگر ھوی (محبت، خواہش) غیر کی ہو، اپنے نفس، جان، ارادے، پسند اور اپنے ہونے کی خواہش ہو تو اس ’’ھوی‘‘ کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ میرامحبوب اس ’’ھوی‘‘ کو چھوڑ چکا ہے۔

2۔ اگر ھوی (خواہش، محبت) اس اللہ کی ہو تو فرمایا کہ میرا محبوب اس ’’ھوی‘‘ کو اپناچکا ہے۔

اذا ھوی کا معنی ائمہ لغت نے بیان کیا ہے:

اِذَا حَبَّ وَاشتَھَاه.

’’جب انھیں محبت ہوگئی اور محبت شدید ہوگئی۔‘‘

پس والنجم اذا ھوی تو مراد یہ ہے کہ قسم ہے ستارے محمد ﷺ کی کہ جب ہماری محبت تیرے دل میں بھڑک اٹھی، ہماری محبت شدید ہوگئی اور اشتھاء کے ساتھ عشق میں بدل گئی۔ گویا اللہ فرمارہا ہے کہ جب حضور علیہ السلام کو شدید محبت ہوگئی تو انھوں نے نہ صرف اپنا ارادہ ترک کردیا بلکہ میری محبت میں اپنے ارادے کو فنا کردیا۔ یہ حضور علیہ السلام کی معراج کے سفر کا پہلا مرحلہ تھا کہ آپ ﷺ ارادے سے سفر کرکے محبت تک پہنچے۔

2۔ محبت سے معرفت تک کا سفر

سفر معراج میں آپ ﷺ کی روحانی معراج کا دوسرامرحلہ ’’محبت سے معرفت تک کا سفر‘‘ ہے۔ یہ سفر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے واضح ہورہا ہے۔ ارشادفرمایا:

مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی.

(النجم، 53: 2)

’’تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (رسول ﷺ جنہوں نے تمہیں اپنا صحابی بنایا) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے۔‘‘

لفظ ضَلَّ بھی دومعنی کا حامل ہے:

1۔ اس آیت میں ’’ضال‘‘ کی نفی کی اور فرمایا: ’’ما ضل‘‘ یعنی حضور علیہ السلام ضال نہیں ہیں۔

2۔ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ضال کی نسبت حضور علیہ السلام کی طرف کی ہے۔ فرمایا:

وَوَجَدَکَ ضَالاً.

(الضحیٰ: 7)

ہم نے آپ کو ضال پایا۔

محبت کی علامت یہ ہے کہ وہ بندے کے اپنے ارادے ختم کردیتی ہے۔ ارادہ جوں جوں محبت میں گم اور ضم ہوتا چلا جاتا ہے توں توں محبت کامل ہوتی چلی جاتی ہے اورجب محبت کمال پر پہنچتی ہے تو کسی بھی سطح پر بندے کا اپنا کوئی ارادہ نہیں رہتا۔

قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر کا ایک قا عدہ یہ ہے کہ جب ایک لفظ کے کئی معانی ہوں تو اس لفظ کو اللہ کے لیے استعمال کرتے ہوئے اس معنی کو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہوں اور جب وہ لفظ حضور علیہ السلام کے لیے استعمال کرنا ہو تو بہت سے معانی میں سے اس معنی کا انتخاب کریں جو حضور علیہ السلام کی شان کے لیے اعلیٰ و ارفع ہو۔ پس وہ معنی جو ہلکا اورکمزور ہو اور حضور نبی اکرم ﷺ کی شان کے لائق نہ ہو اور اس سے حضور نبی اکرم ﷺ کے مقام و مرتبہ میں کسی بھی جہت اور سطح سے کمی یا تنقیص کا اشارہ بھی پایا جائے تو اس معنیٰ کو ترک کردیا جائے گا۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ مَکَرُوْا وَمَکَرَاللہُ.

(آل عمران، 3: 54)

’’پھر (یہودی) کافروں نے (عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لیے) خفیہ سازش کی اور اللہ نے (عیسیٰ علیہ السلام کو بچانے کے لیے) مخفی تدبیر فرمائی۔‘‘

اس آیت میں لفظ ’’مکر‘‘ کفار کے لیے بھی استعمال ہوا اور اللہ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ مکر ایک دھوکہ دہی والا منفی عمل ہے۔ کفار نے تو دھوکہ کیا، لہذا اُن کے لیے مکر اور دھوکہ کا معنی ہوگا مگر اللہ تعالیٰ کے لیے اس لفظ کا ترجمہ وہ نہیں کریں گے جو کافروں کے لیے کیا ہے حالانکہ ایک ہی آیت میں وہی لفظ اللہ اور کفارکے لیے الگ الگ استعمال ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ اللہ کی شان کے لائق وہ مکر نہیں، پس اس لفظ کا ترجمہ اللہ کی شان کے مطابق’’خفیہ تدبیر‘‘ کا کریں گے۔

اسی طرح ضال اگر کافروں اور گمراہوں کے لیےا ٓئے تو معنی اور ہے مگر جب حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے یہی لفظ آئے گا تو معنی اور ہوگا۔ماضل صاحبکم وما غوی کے ذریعے درحقیقت اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرمارہا ہے کہ تمھیں اپنی صحبت سے نوازنے والے محمد مصطفی ﷺ کو تم مکی، مدنی، عربی اور اس دنیا کا رہنے والا سمجھتے رہے اور یہ سمجھتے رہے کہ یہ صرف علاقائی راستوں کو جاننے والے ہیں اور صرف اسی دنیا کو جاننے والے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ یہاں کے راستے تو جانتے ہی ہیں مگر جب وہ شبِ معراج سفر پر روانہ ہوئے تو مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک اور بیت المقدس سے آسمانوں تک اور آسمانوں سے سدرۃ المنتہٰی تک وہ براق پر تھے اور جبرائیل امین اُن کے ہمراہ تھے مگر جب سدرۃ المنتہیٰ پر جبرائیل امین اور براق بھی رک گئے اور اس سے آگے جانے کی ان میں سکت نہ تھی، جہاں عالمِ مکاں ختم ہوگیا تھا اور عالمِ لامکان شروع ہورہا تھا، وہاں انوار و تجلیات الہٰیہ اس حد تک طاقتور تھیں کہ جبرائیل کا نور بھی ان تجلیات و انوار کو برداشت نہ کرسکتا تھا۔ اس عالمِ لامکان کی بات اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرمارہا ہے کہ عالمِ مکاں تک تو جبرائیل اور براق ساتھ تھے مگر اب مصطفی تنہا تھے اور وہ سدرۃ المنتہیٰ سے قاب قوسین او ادنیٰ تک گئے۔ یہ عالمِ لامکاں کا سارا سفر تمھارے خیال میں حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے پردیس تھا مگر ماضل صاحبکم وما غوی جب مصطفی عالمِ لامکاں میں بھی سفر کرتے ہوئے مجھ تک پہنچے تو نہ راستے بھٹکے اور نہ بھولے۔

بات لامکاں کی فرمائی ہے مگر صاحبکم (تمھارے صاحب) فرماکر ٹائٹل مکانی دیا ہے۔ یہ اسلوب اختیار فرماکر بعض لوگوں کے ذہن میں آنے والے خیالات کی اصلاح فرمائی ہے کہ تم انھیں صرف اپنا ہی صاحب سمجھتے ہو، اسی جہاں کا سمجھتے ہو حالانکہ ان کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ اُس جہاں میں آئے جہاں ’’جہاں‘‘ ہی نہیں اور اس مکاں میں آئے جو لامکاں ہے تو وہ وہاں نہ راستے بھولے اور نہ ایک لمحہ کے لیے بھی بھٹکے۔ پس جو اس عالمِ لامکاں میں بھی نہ بھولے، وہ اس عالمِ مکاں میں کس طرح بھول اور بھٹک سکتا ہے۔ وہ تمھارے درمیان بے شک ہیں اور تمھیں اپنی صحبت سے بھی نوازتے ہیں مگر حقیقت میں ان کا وطن وہ ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جب کوئی بندہ مدتوں کے بعد بھی وطن کو جائے تو وہ نہ بھولتا ہے اور نہ بھٹکتا ہے بلکہ سیدھا گھر کو جاتا ہے۔

(1) ’’ضال‘‘ کا معنی محبت بھی ہے

سورہ النجم میں حضور نبی اکرم ﷺ کے بھولنے کی نفی کی اور فرمایا: ما ضل صاحبکم (تمھارے صاحب نہ بھولے) جبکہ دوسری جگہ حضور علیہ السلام کے بھولنے کا اثبات کیا اور فرمایا:

وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا.

(الضحیٰ: 7)

’’ہم نے آپ کو بھولا ہوا پایا۔‘‘

سوال یہ ہے کہ آپ ﷺ کو کس چیز سے بھولا ہوا پایا؟ اس بھولنے سے مراد یہ ہے کہ ہم نے آپ ﷺ کو اپنی محبت میں خود اپنے آپ ہی کو بھولا ہوا پایا۔ یعنی بھولنے کے معنی کی نفی نہیں ہے مگر کس کو بھولنا؟ اس کا تعین حضور نبی اکرم ﷺ کے شان و مرتبہ کے مطابق کرنا ہوگا۔ سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ اس کا معنی بیان فرماتے ہیں کہ:

اَی یا محمد وَ وَجَدَکْ مُحِبًّا.

’’اے محمد ﷺ ہم نے آپ کو محب پایا۔‘‘

’’ضال‘‘ کا لفظ شدید محبت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور قرآن مجید سے اس معنی کی تائید بھی ہوتی ہے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی آپ کا قمیص لے کر آئے تاکہ اس کے ذریعے حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں بینا ہوجائیں تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے ان بیٹوں کو دیکھ کر فرمایا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ انھوں نے جواب دیا:

اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰـلِکَ الْقَدِیْمِ.

(یوسف، 12: 95)

’’یقیناً آپ اپنی پرانی ضلال میں ہیں۔‘‘

ائمہ تفسیر نے بالاتفاق واضح کیا ہے کہ اگریہاں یہ معنی مرادلے لیے جائیں کہ بیٹوں نے یہ کہا ہے کہ آپ اپنی پرانی گمراہی میں ہیں تو اس جملے سے تمام بیٹے کافر ہوجائیں گے۔ اس لیے کہ پیغمبر کو نعوذ باللہ گمراہ کہا۔ چند گمراہ لوگوں نے یہاں معنی ’’گمراہی‘‘ کردیا جبکہ ہدایت یافتہ لوگوں نے ہدایت پر مبنی معنی کیا۔ اس لیے یہاں معنی یہ ہوگاکہ آپ ابھی تک اپنی اسی پرانی محبت میں گرفتار ہیں۔

پس جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ووجدک ضالا تو اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے آپ ﷺ کو اپنی محبت میں شدید گرفتار پایا اور ہم نے آپ کو اپنا محب پایا اور جب اللہ نے حضور علیہ السلام کو اپنی محبت میں شدید گرفتار پایا تو فرمایا: فھدی، پس ہم نے پردہ اٹھادیا۔

عربی لغت سے واضح ہے کہ عرب کے صحراؤں اور ریگستانوں میں جہاں مسافروں کو کسی سمت اور جہت کا اندازہ نہ ہوسکے کہ کس طرف جانا ہے اور مشرق ومغرب کس طرف ہے تو وہ وہاں موجود کھجور کے جس لمبے درخت کو دیکھ کر وہ راستے کو پالیتے، اس کو ضال کہتے تھے۔ اس لیے کہ اسے دیکھ کر بھولے ہوئے مسافر لوگ راستہ پالیتے کہ اب یہاں سے ہم نے کس طرف جانا ہے چونکہ کھجور کا درخت گم کردہ راہوں اور بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھاتا تھا اور ہدایت دیتا تھا، اس لیے سبب بول کر مسبب مراد لیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے استعارہ کی زبان میں فرمایا کہ و وجدک ضالا فھدی؛ میرے مصطفی ﷺ ! آپ انسانی زندگی کے صحرائے حیات میں کھجور کے اس درخت کی طرح پیکر ہدایت بن کر کھڑے ہیں اور جو دنیا راستہ بھول گئی تھی، آپ کے سبب سے انھیں راستہ مل گیا۔

بہت سے لوگوں پر جب محبت غالب آجاتی ہے تو وہ بھول جاتے ہیں اور بہت سی باتیں ان سے صادر ہوتی ہیں، نتیجتاً ان پر فتوے لگ جاتے ہیں، حتی کہ اس سبب وہ حلاج کی طرح پھانسی چڑھ جاتے ہیں، مگر آپ ﷺ کی اللہ سے محبت کا کمال یہ ہے کہ محبت شدید ہونے کے باوجود بھولے بھی نہیں۔

اس معنی کی تائید خود حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمان سے بھی ہوتی ہے۔ غزہ حنین کے موقع پر مال غنیمت کی تقسیم کے وقت کچھ لوگوں نے کچھ باتیں کیں۔ جب وہ باتیں حضور علیہ السلام تک پہنچیں تو ان کے جواب میں حضور علیہ السلام نے فرمایا: اے لوگو! تم باتیں کرتے ہو حالانکہ:

یا معشرالانصار! الم اجدکم ضلالاً فھداکم اللّٰہ بی و کنتم متفرقین فالفکم اللّٰہ بی و عالۃ فاغناکم اللّٰہ بی.

(صحیح بخاری، کتاب المغازی باب غزوة الطائف)

’’اے انصار کے لوگو! کیا تم گمراہ نہیں تھے، پھر اللہ نے میرے ذریعے تمہاری ہدایت فرمائی۔ کیا تم بٹے ہوئے نہیں تھے، پھر اللہ نے میرے ذریعے تم کو باہم متحد کیا۔ کیا تم فقیر تنگدست نہیں تھے، پھر اللہ نے میرے ذریعے تم کو مالدار بنایا۔‘‘

گویا اس حدیث مبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ نے سورۃ الضحیٰ کےالفاظ کی وضاحت فرمادی۔

(2) محبت کی دو خصوصیات

ماضل صاحبکم وماغوی کے فرمان میں اللہ تعالیٰ نے لفظ ضل کیوں استعمال فرمایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت کی دو خوبیاں ہیں:

1۔ اگر کسی سے محبت ہوجائے تو محبت، محبت کرنے والے کا ارادہ مٹادیتی ہے اور ارادہ محبوب کے ارادے میں گم ہو جاتا ہے۔

2۔ محبت کی دوسری خوبی یہ ہے کہ محبت بھلانے لگ جاتی ہے۔ یعنی محبت ہو جائے تو حافظے پر اثر پڑتا ہے۔ محبت سے بندے کو نسیان ہوجاتا ہے۔ بندہ غیر کو بھولنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارانام انسان رکھا۔ لفظ انسان پر ائمہ لغت نے دو اقوال بیان کیے ہیں:

1۔ لفظ ’’انسان‘‘ میں پہلا حرف الف ہے۔ اگر یہاں الف زائدہ ہے تو پھر یہ لفظ ’’نسیان‘‘ (بھولنا) سے نکلا ہے۔

2۔ اگر لفظ انسان کا الف زائدہ نہ ہو بلکہ اصلیہ ہو تو پھر یہ ’’انس‘‘ (محبت) سے نکلا ہے۔

پس بعض کے نزدیک لفظِ انسان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ چونکہ بھولنا اس کی فطرت میں ہے، اس لیے اسے انسان کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک چونکہ انس و محبت کرنا اس کی فطرت میں ہے، اس لیے اسے انسان کہتے ہیں۔میں ان دونوں اقوال کو الگ الگ تسلیم کرنے کے بجائے ایک ہی قول کے دو رخ قرار دیتا ہوں۔ یہ ایک ہی حقیقت ہے۔ انسان بیک وقت ’’نسیان‘‘ اور ’’انس‘‘ سے ہے۔ انسان میں یہ دونوں چیزیں ہیں۔ یہ محبت کرنے والا بھی ہے اور بھولنے والا بھی ہے۔ محبت کرنا اور بھولنا، ان دونوں کا تعلق یہ ہے کہ جب محبت سچی اور شدید ہوجائے تو صرف محبوب یاد رہتا ہے اور محبوب کے علاوہ باقی ہر شے بھول جاتی ہے۔ محبت کامل ہی تب رہتی ہے کہ جب محبوب یاد رہے اور محبوب کا غیر بھول جائے۔ گویا جب انس و محبت اس مقام پر جاپہنچے کہ غیر بھول جائے تو انسان؛ انسان بن جاتا ہے۔ جس طرح محبت ارادے کو ختم کرتی ہے اور محبوب کا ارادہ غالب آجاتا ہے، اسی طرح محبت کا دوسر ااثر یہ ہوتا ہے کہ یہ نسیان پیدا کرتی ہے۔

جب سوائے محبوب کے سب بھول جائے اور بھولنے کی کیفیت غالب آجائے تو انسان راستہ بھی بھول جاتا ہے مگر اللہ نے فرمایا کہ میرے محبوب کو مجھ سے شدید محبت ہوئی اور کمال پر پہنچی اور اس محبت نے اپنا یہ اثر دکھایا کہ میرے محبوب کا ارادہ میرے ارادے میں فنا کردیا، مگر محبت کا دوسرا اثر کہ یہ بھلادیتی ہے، میرے محبوب کی محبت کا کمال یہ ہے کہ محبت شدید بھی رہی مگرکہیں بھولنے بھی نہ پائی۔ جب محبت شدید ہوتو بندہ چلتے چلتے راستے سو بار بھول جاتا ہے، بات کرتے کرتے بھول جاتا ہے اور پھر پوچھتا ہے کہ میں کیا کہہ رہا تھا، اس لیے کہ جب دھیان ایک طرف لگا ہو تو راستے اور باتیں بھول جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اذا ھوی میرے محبوب کو شدید محبت ہوئی مگر ماضل؛ یہ شدید محبت میرے محبوب کو بھلا نہ سکی اور محبوب میری طرف چلا اور ایسا چلا کہ محبت کا جوش بھی تھا اور معرفت حق کا ہوش بھی تھا۔

بہت سے لوگوں پر جب محبت غالب آجاتی ہے تو وہ بھول جاتے ہیں، بہت سی باتیں ان سے صادر ہوتی ہیں، منہ سے شطحیات نکلتی ہیں، نتیجتاً ان پر فتوے لگ جاتے ہیں، حتی کہ اس سبب وہ حلاج کی طرح پھانسی چڑھ جاتے ہیں، مگر آپ ﷺ کی اللہ سے محبت پر قربان جائیں کہ محبت شدید ہوئی مگر کمال یہ ہے کہ بھولے بھی نہیں۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ نماز عصر دورکعت پڑھانے کے بعد سلام پھیر دیا۔ ایک صحابی نے پوچھا:

یار سول اللہ ﷺ! أَنَسِیتَ أَمْ قَصُرَتِ الصَّلَاةُ؟

کیا آپ بھول گے ہیں یا نماز آدھی کر دی گئی ہے؟

آقا علیہ السلام نے فرمایا:

لَمْ أَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ.

’’نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز چھوٹی کی گئی ہے۔‘‘

(بخاری، الصحیح، باب: من یکبرفی سجدتی السہو، 1: 412، الرقم: 1172)

دوسری روایت میں ہے کہ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ اگر آپ نہیں بھولے تو پھر کیا ہوا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ:

انی لأنسی أو أنسی لأسن.

(موطا مالک، 1: 100، الرقم:225)

جب دیکھتے ہو کہ میں بھولا ہوں تو یاد رکھ لو کہ میں بھلایا گیا ہوں اور میں بھلایا اِس لیے جاتا ہوں تاکہ میرا ہر فعل تمہارے لیے سنت بن جائے۔یعنی تمھیں معلوم ہوجائے کہ بھولنے کی صورت میں سجدہ سہو کیسے کرنا ہے۔

جب یہ فرمایا کہ بھلایا گیا ہوں تو اس سے واضح ہورہا ہے کہ بھلانے کا ارادہ حضور علیہ السلام کا نہیں بلکہ اللہ کا ہے۔اللہ تعالیٰ نے تو نسیان کی نسبت بھی حضور علیہ السلام کی طرف نہیں کی اور لوگ نعوذ باللہ اس سے بھی بڑی چیزوں کی نسبت حضور علیہ السلام کی طرف کرتے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے بھی صراحت سے اپنی ذات کے ساتھ بھولنے کی نفی فرمادی۔ جس نسیان کی حضور علیہ السلام اپنی ذات سے خود نفی فرمادیں تو اب کوئی کیسے حضور ﷺ کی طرف نسیان کو منسوب کرسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ماضل صاحبکم فرماکر اس نسیان کی نفی فرمادی اور واضح کردیا کہ میرا محبوب کبھی نہیں بھولا۔

حضرت آدم علیہ السلام نے جب جنت میں پھل کھایا تو ان سے اللہ نے گناہ کی نفی کی۔ فرمایا:

فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا.

(طہ، 20: 115)

’’سو وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں بالکل (نافرمانی کا کوئی) ارادہ نہیں پایا (یہ محض ایک بھول تھی)۔‘‘

جب نافرمانی کا ارادہ نہ پایا تو گناہ نہ رہا اور جب گناہ نہ رہا تو آدم علیہ السلام گناہگار نہ ہوئے اور اللہ نے آدم علیہ السلام کی بے گناہی کا اعلان خود فرمادیا اور آدم علیہ السلام کے پھل کھانے کے اس عمل کو بھول جانا قرار دیا۔ معلوم ہوا کہ بھولنا کوئی اتنا بڑا جرم نہیں۔ ہم بھول کر کھانا کھالیں تو روزہ بھی نہیں ٹوٹتا اور اگر آدم علیہ السلام بھول کر پھل کھالیں تو کیا اس سے ان کی بندگی ٹوٹ جائے گی؟

سمجھانا یہ مقصود ہے کہ نسیان (بھولنا) ایک چھوٹا سا عمل ہے جس میں نافرمانی اور گناہ نہیں ہے ۔اللہ نے آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ وہ بھول گئے مگر جب حضور علیہ السلام کی باری آئی تو اس چھوٹے سے عمل کی نسبت بھی حضور علیہ السلام کی طرف نہ کی بلکہ فرمایا: ماضل میرے محبوب نہیں بھولے۔

پس معلوم ہوا کہ محبت بھلاتی ہے مگر حضور علیہ السلام نے پورا سفر معراج کیا اور کہیں بھولے بھی نہیں۔ یہ محبت سے معرفت تک کا مرحلہ ہے۔ یعنی ہر وقت حضور علیہ السلام معرفت کے ساتھ رہے اور کبھی نہیں بھولے۔

3۔ معرفت سے تجرید تک کا سفر

سفر معراج میں روحانی معراج کا تیسرا مرحلہ ’’معرفت سے تجرید تک کا سفر‘‘ ہے۔ یہ مرحلہ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کی روشنی سے واضح ہورہا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی.

(النجم، 53: 3)

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔‘‘

حضور علیہ السلام اپنی خواہش سے بولتے ہی نہیں ہیں۔ آقا علیہ السلام کے عمل اور فعل حتی کہ بولنے میں بھی خواہش کی نفی کردی۔ یہ معرفت سے تجرید تک کا سفر ہے۔ تجرید کا معنی انقطاع ہے۔ اس سفر میں اپنی خواہش، اپنی ذات الغرض ہر چیز سے مکمل انقطاع کروایا گیا۔ فرمایاکہ حضور علیہ السلام جو بولتے ہیں، اس میں آپ ﷺ کی خواہش کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔

یاد رکھیں! جب قرب کی وادی میں بلایا جاتا ہے تو کامل تجرید و انقطاع کے بغیر قرب نہیں دیا جاتا۔موسیٰ علیہ السلام کو بھی تجرید و انقطاع کے مرحلہ سے گزارا گیا مگر اس تجرید اور حضور علیہ السلام کی تجرید میں واضح فرق ہے۔ موسیٰ علیہ السلام جب وادی سے گزرے توانھوں نے وہاں ایک آگ دیکھی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا تم یہاں ٹھہرے رہو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں اس میں سے کوئی چنگاری تمہارے لیے بھی لے آؤں۔ پھر جب وہ اس آگ کے پاس پہنچے تو آواز آئی کہ اے موسیٰ!بے شک میں ہی تمہارا رب ہوں:

فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی.

(طہ: 12)

’’سو تم اپنے جوتے اتار دو، بے شک تم طویٰ کی مقدس وادی میں ہو۔‘‘

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس مقدس وادی میں سب سے پہلے تجرید و انقطاع کا حکم دیا گیا کہ میری قر ب کی وادی اور میرے حضور میں آنے کے لیے ہر چیز سے انقطاع ضروری ہے۔ اس تجرید اور انقطاع کے لیے فرمایا کہ اپنے جوتے اتار دیں۔ جوتے اتارنے کا یہ حکم اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ اپنے ہونے کا، اپنی چاہت، اپنی خواہش، اپنی شخصیت اور اپنے نفس کا لباس اتار دیں۔ اس لیے کہ یہ غیریت ہے۔ تم میرے حضور میں آرہے ہو اور حاضری کے لیے غیریت کی ہر شے چھوڑ کر آتے ہیں۔

اب مقام موسوی علیہ السلام اور مقام محمدی ﷺ کا فرق سمجھیں کہ موسیٰ علیہ السلام سے تجرید و انقطاع تو اسی وادی میں کروادیا تھا اور حکم دیا تھا کہ ہر شے کو چھوڑ کر آ مگر جب حضور علیہ السلام کو بلایا تو مسجد حرام سے لے کر قاب قوسین او ادنیٰ تک پورے سفر میں ایک مقام بھی نہیں ملتا کہ جہاں اللہ نے آپ ﷺ کو تجرید و انقطاع کا حکم دیا ہو بلکہ حضور علیہ السلام کی شان کو بیان فرمایا کہ وما ینطق عن الھوی، ان کی تو اپنی خواہش ہے ہی نہیں، یہ جب بھی بولتے ہیں، مجھ سے بولتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کو تجرید کا حکم دیا جارہا ہے جبکہ حضور علیہ السلام کی شانِ تجرید کو بیان فرمایا جارہا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب وادی میں نور نظر آیا تب تجرید و انقطاع کروایا جبکہ حضور علیہ السلام نے غیریت، علائقِ بشریت اور علائقِ مادیت کا لباس کب سے چھوڑ رکھا ہے؟ اس کا تو کسی کو معلوم ہی نہیں ہے۔ گویا جو بات موسیٰ علیہ السلام کو بتائی جارہی ہے، مصطفی ﷺ سفر پر روانہ ہونے سے قبل ہی اس مقام پر ہیں۔موسیٰ علیہ السلام کو تو ظاہری لباس اور علائقِ دنیوی کی تجرید کا کہا جبکہ خواہش کا تعلق تو باطن سے ہوتا ہے۔موسیٰ علیہ السلام سے ابھی ظاہر کا تعلق چھڑوایا جارہا ہے، اگلے مرحلے میں باطنی علائق سے انقطاع کروایا جائے گا جبکہ حضور علیہ السلام کے لیے خود اعلان فرمادیاکہ ظاہری علائق تو بڑی دور کی بات وماینطق عن الھوی کے مصداق حضور علیہ السلام میں تو باطنی علائق بھی موجود نہیں ہیں۔

4۔ تجرید سے تفرید تک کا سفر

اس تجرید کے بعد پھر اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے جو تجرید سے تفرید تک کا سفر ہے۔ تفرید کا معنی مکمل علیحدگی ہے۔ انقطاع جب شروع ہو تو اسے تجرید کہتے ہیں اور جب انقطاع کامل ہوجائے تو اسے تفرید کہتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضور علیہ السلام اپنی خواہش سے نہیں بولتے تو حضور علیہ السلام کا بولنا کیا ہے؟ فرمایا:اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی۔ (النجم، 53: 4)

’’اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘

یعنی وہ ایک لفظ بھی اپنی مرضی اور خواہش سے نہیں بولتے بلکہ ایک لفظ بھی جو آپ ﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہوتا ہے، وہ اللہ کی وحی ہوتی ہے۔ گویا حضور علیہ السلام کی زبان زبانِ وحی ہے۔ اگر وہ الفاظ کی صورت میں آئی ہو تو اسے قرآن کہتے ہیں اور اگر معناً آئی ہو تو اسے حدیث کہتے ہیں۔

جب تفرید ہوجائے تو ’’بودہ او بودہ اللہ بود‘‘ کے مصداق زبان سے جو لفظ بھی نکلتا ہے وہ کلامِ خدا ہوتا ہے اور ہر فعل جو حضور علیہ السلام سے صاد رہوتا ہے، وہ فعل بھی حضور علیہ السلام کی اپنی خواہش سے روبہ عمل نہیں آتا۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ کا کلام اور فعل وحی خدا ہوا تو آپ ﷺ کا ہر کلام اور فعل ہر ایک نقص سے پاک ہوا۔ اب حضور علیہ السلام کی طرف کوئی نقص منسوب نہ رہا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کی شخصیت سے ہر اُس چیز کو علیحدہ کردیا ہے جس سے کوئی خطا اور نقص ہوسکتا تھا یا خطا اور نقص کا امکان بھی ہوسکتا تھا۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ہر ایک ظاہری و باطنی علائقِ بشری سے جدا کرکے نکھارا اور سنوارا اور اس سفر معراج میں اِن تمام روحانی اسفار اور مراحل سے گزارا اور بالآخر اپنی زیارت اورملاقات کا شرف عطا فرمایا۔