کائنات ہستی اور اس کا ایک ایک وجود بلا شک و شبہ بامقصد تخلیق کیا گیا ہے۔ موجوداتِ عالم کاکوئی ذرہ ایسا نہیں جس کی پیدائش عبث اور بے مقصد ہو۔ خود قرآن حکیم اس حقیقت کی شہادت یوں دیتا ہے:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ. مَا خَلَقْنٰهُمَآ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ.
(الدُخان، 38-39)
’’ اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ اِن کے درمیان ہے اسے محض کھیلتے ہوئے نہیں بنایا۔ ہم نے دونوں کو حق کے (مقصد و حکمت کے) ساتھ پیدا کیا ہے لیکن اُن کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
لہذا اسلامی تعلیمات کے مطابق کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز ایک مخصوص حکمت کے تحت، ایک متعین مدّت تک کے لیے اپنا کام کررہی ہے۔ جب تمام چرند، پرند اور درند ایک خاص مقصد کے لیے وجود پزیر ہوئے ہیں اور بلا مقصد تخلیق کرنا خود شانِ الوہیت کے ہی منافی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کائنات کی سب سے اشرف وافضل مخلوق ’انسان‘ کو یوں ہی بے کار، بے مقصد اور محض موج ومستی یا کھانے کمانے کے لیے پیدا کیاگیاہو۔ رب کائنات کاکوئی بھی فعل خالی ازحکمت تصورکرنا کفر ہے۔ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی چیز میں پوشیدہ حکمتِ الٰہی ہما ری سمجھ میں نہ آسکے لیکن اِس سے ہما ری عقل کا ناقص ہونا ثابت ہوتاہے، الله کی کوئی بھی تخلیق بے کار قرار نہیں دی جاسکتی۔ قرآن مجید میں بھی حیات انسانی کو بے مقصد قرار نہیں دیا گیا۔ موت و حیات کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے قرآن واضح کرتا ہے:
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ.
(الملک: 2)
’’جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔‘‘
صاف ظاہر ہے کہ عملی جد وجہد کے لیے کوئی نہ کوئی مقصد اور نصب العین درکار ہوتا ہے۔ جس کے حصول کی ترغیب دی جاتی ہے اور اس کی مطابقت یا عدمِ مطابقت کے لحاظ سے جد و جہد کرنے والوں کے اعمال کا مقام متعین ہوتا ہے کہ آیا وہ شخص کامیاب رہا یا نا کام، اس نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا یا نہیں۔ قرآن مجید کے مطابق زندگی مقصد کے حصول کی جد و جہد سے عبارت ہے اور موت اس کے اخروی انجام و نتائج سے۔ اس لیے انسانی زندگی کا با مقصد ہونا خود نظام کائنات کے جواز کی بنیادی دلیل ہے۔
قرآن حکیم کے مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد اور نصب العین ’’ اخلاقی کمال کا حصول‘‘ ہے۔ اس سلسلے میں یہ آیت بنیادی اہمیت کی حامل ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ. مَآ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ.
( الذاریات: 56-57)
’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔ نہ میں اُن سے رِزق (یعنی کمائی) طلب کرتا ہوں اور نہ اس کا طلب گار ہوں کہ وہ مجھے (کھانا) کھلائیں۔‘‘
اس آیت نے بڑی صراحت کے ساتھ انسانی زندگی کامقصد اور اس کی غرضِ تخلیق بیان کردی کہ انسانوں کو پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی کسی اپنی حاجت کے لیے نہ تھا، کیوں کہ وہ ذات تو بے نیاز اور غنی و رزاق ہے۔ اسے کسی لحاظ سے بھی کسی مخلوق کی کوئی حاجت اور ضرورت نہ تھی، اس لیے کوئی یہ نہ سمجھے کہ تخلیقِ انسانیت میں شاید خدائے تعالیٰ کی اپنی خلاقیت کی ضرورتِ نمود ونمائش کا دخل تھا یا اس کی کسی صفت کی تکمیل اس امر کی محتاج تھی یا س کی اپنی ہستی وجود ِخلق کی ضرورت مند تھی۔ ہرگزنہیں، اس ذات نے تمہیں پیدا کیاتو صرف اس لیے کہ تم اس کی بندگی کرکے اخلاقی کمال حاصل کر سکو۔ کیوں کہ اس کی بندگی کے شعور میں تمہاری ہی منفعت ہے اور اس کی بندگی اختیار کرنے میں تمہارا ہی کمال ہے۔
آیت مذکورہ میں ’’عبادت‘‘ کے لفظ سے شاید کسی کو یہ گمان پیدا ہو کہ عبادت اور بندگی سے مراد وہی امور ہیں جنہیں عرف عام میں عبادات سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ مثلاً؛ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ اور ان ہی عبادات کا بجالانا انسانی زندگی کا نصب العین ہے۔ یہ تصور غلط ہے۔ کیوں کہ قرآن عبادت اور بندگی کو انسانی تخلیق کا واحد مقصد قرار دے رہا ہے۔ اگر عبادت سے مراد محض نماز ہو تو وہ تو دن میں صرف پانچ وقت کے لیے فرض ہے۔ بقیہ اوقات میں نہیں، اس طرح یہ تصور لازم آئے گا کہ خدائے تعالیٰ نے دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف چندلمحات پانچ نمازوں کے لیے مقرر کرکے انسان کو اپنے مقصد اور نصب العین کی طرف متوجہ کیا اور باقی سارا وقت اسے اصل مقصد تخلیق سے بے نیاز ہوکر گزارنے کے لیے چھوڑ دیا؟ اگر عبادت سے مراد محض روزہ ہو، تو وہ تو سال میں صرف ایک ماہ کے لیے فرض ہے۔ بقیہ مہینوں میں نہیں۔ اس طرح یہ تصور لازم آئے گا کہ خدائے تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینوں میں سے صرف ایک ماہ کے لیے انسان کو اپنے مقصد اور نصب العین کی طرف متوجہ کیا اور باقی سارے عرصے میں اسے اصل مقصد سے صرف نظر کرنے کی اجازت دے دی؟اگر عبادت سے مرادمحض زکوٰۃ ہو، تو وہ بھی سال میں صرف صاحب نصاب کے لیے ایک مرتبہ فرض ہے۔ اس طرح بقیہ عرصہ میں اور دیگر لوگوں کے لیے اپنے مقصد تخلیق کی طرف متوجہ ہونے کی کوئی صورت باقی نہ رہی ؟اگر عبادت سے مراد محض حج ہو تو وہ بھی صاحب استطاعت کے لیے عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ فرض، تو کیا بقیہ عمر مقصدِ حیات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بسر ہوگی؟
اگر ارکانِ اسلام کے علاوہ دیگر جملہ عبادت کو بھی شامل کر لیا جائے تو وہ ساری کی ساری مل کر بھی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے پر محیط نہیں ہو سکتیں۔ انسان کھاتا پیتا بھی ہے، سوتا جاگتا بھی ہے۔ شادی بیاہ بھی کرتا ہے تجارت اور کاروبار بھی کرتا ہے اور دیگر ہر طرح کے معاملات زندگی بھی نبھاتا ہے۔ ان تمام معاملات کو ’’عبادات‘‘ کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ پھر اس سارے کاروبار حیات کو جاری رکھنے کا حکم بھی اسلام نے ہی دیا ہے، کیوں کہ اسے ترک کرکے ہمہ وقت عبادت اور ذکر و فکر میں مشغول رہنا ’’رہبانیت‘‘ ہے، جسے نظام حیات کے طور پر اپنانے کی اجازت اسلام نہیں دیتا۔
عبادت کا صحیح تصور
سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی عبادت ہے جس کو انسانی تخلیق اور اس کی حیات کا مقصد اور نصب العین قرار دیا گیا ہے جو جملہ عبادات اور معاملات حیات میں یکساں طور پر انسان کے پیش نظر رہ سکے ؟ یہاں یہ امر بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اصل نصب العین اور مقصد وہ ہوتا ہے جو کسی حالت میں بھی نظر انداز نہ ہونے پائے۔ جو لمحہ مقصد سے بے توجہی اور بے التفاتی میں بسر ہو، گناہ ہوتا ہے اور بارگاهِ ربوبیت میں ناپسندیدہ۔ اگر عبادت سے مراد وہی تصور لیا جائے جو عام مذہبی ذہن میں راسخ ہے تو اس طرح انسانی زندگی کے جائز اور مشروع معاملات بھی تضاد کا شکار ہوجائیں گے۔ کیوں کہ بعض معاملات انسانی نصب العین کے مطابق ہوں گے اور بعض اس کے خلاف۔
اس الجھاؤ اور شبہ کو رفع کرنے کی صرف یہی صورت ہے کہ عبادت اور بندگی کا وہ جامع اور وسیع تصور ذہن نشین کر لیا جائے جو انسانی زندگی کے جملہ معاملات پر حاوی ہے اور جس کا تعارف خود قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کرایا ہے:
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ.
(البقرة: 177)
’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص الله پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور ( الله کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور الله کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں عبادت اور نیکی کا اصل تصور بیان کرنے سے پہلے مزعومہ تصور کی نفی کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ تعریف جامع اور مانع ہے۔ عوام کے ذہنوں میں عام طور پر محدود تصور راسخ ہوتا ہے اور وہ نماز ہی کی طرح کی عبادت کو عبادت، نیکی اور بندگی کہتے ہیں۔ زندگی کے باقی معاملات دنیا داری تصور کیے جاتے ہیں۔ قرآن نے سب سے پہلے اس راہبانہ تصورِ عبادت کو رد کر دیا کہ اگر کوئی شخص مشرق و مغرب کی جانب یعنی قبلہ رو ہوکر نماز وغیرہ پڑھنے کو ہی نیکی اور اصل عبادت سمجھتا ہے تو یہ غلط ہے۔ اسلام کے نزدیک عبادت اور نیکی کا مفہوم اس قدر محدود نہیں کہ جس کا بقیہ عملی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو۔ بلکہ قرآنی تصورِ عبادت اور اسلامی مفہومِ تقویٰ اس قدر وسیع ہےجو انسان کی فکری اور عملی زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے۔ اسلام کا تصور بندگی یہ ہے کہ انسانی زندگی درج ذیل خصائص کی جامع ہو:
1۔صحتِ عقائد: جس میں اللہ تعالیٰ، آخرت، فرشتو ں، آسمانی کتابوں اور انبیاء و رسل پر ایمان لانا ضروری ہے۔
2۔ حب الہی: جس کا ثبوت خلقِ خدا کے حق میں نفع بخشی، فیض رسانی اور مالی ایثار و قربانی کے ذریعہ فراہم کیا جائے۔
3۔ مالی ایثار: اپنے وسائل دولت، مستحق رشتہ داروں، یتامی و مساکین، غرباء و فقراء اور غلامی و محکومی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں کی آزادی، معاشی بحالی اور آسودگی پر خرچ کیے جائیں۔
4۔ صحتِ اعمال: نماز اور روزہ وغیرہ کے احکام کی پابندی کی جائے۔
5۔ ایفائے عہد: انسان جو عہد اور فیصلہ کرے عزم و ہمت کے ساتھ اس پر ثابت قدم رہے۔
6۔ صبر و تحمل: مصائب و شدائد کے تمام غیر معمولی حالات میں بھی صبر و تحمل اور عزم و استقلال کے ساتھ قائم رہے۔
7۔ راہ خدا میں جد و جہد: حق کی خاطر کسی قسم کی مخالفت و مخاصمت سے نہ گھبرائے۔
مذکورہ بالا خصائص اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان تمام اجزاء کا مجموعہ ’’نیکی اور اصل عبادت ‘‘ہے۔گویا اصل عبادت اور بندگی ایک کُل (totality) کا نام ہے اور زندگی کے جملہ معاملات مذہبی ہوں یا دنیوی اس کُل کے مختلف اجزاء ہیں۔جس طرح کسی ایک جزء کوالگ کرکے اسے کُل کا نام نہیں دیاجا سکتا۔ اسی طرح زندگی کے کسی ایک پہلو کو دوسرے سے لا تعلق کرکے کامل بندگی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ لہذا کامل عبادت اور بندگی یہ ہے کہ انسان پوری زندگی اس طرح بسر کرے جیسے اس کے خالق و مالک کی رضا ہو۔ اگر انسان نے کچھ معاملات رضائے الہی کے مطابق نبھائے اور کچھ اس کے خلاف تو اسے اخلاقی کمال یا کامل بندگی سے تعبیر نہیں کیا جائے گا۔
اخلاقی کمال کی اعلیٰ ترین صورت؛ حصولِ رضائے الہی
انسان کی زندگی کا نصب العین اخلاقی کمال ہے اور اخلاقی کمال کامل بندگی سے عبارت ہے۔ اس کی اعلیٰ ترین صورت ’’رضائے الہی‘‘ کا حصول ہے۔ اس لحاظ سے نتیجتاً انسان کی زندگی کا اصل نصب العین اور مقصد رضائے الہی قرار پایا۔ یا یوں سمجھ لیجیے کہ انسان کا مقصدِ حیات ’’انسانِ مرتضی‘‘ یعنی ایسا انسان بننا ہے جس پر اس کا رب راضی ہو۔یہ نتیجہ مذکورہ بالا آیت سے ہی نکلتا ہے جس میں خدا اور رسول اور آخرت پر ایمان لانے کے حکم کے بعد فرمایا گیا کہ انسان اللہ کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں، یتامی اور دیگر مستحق افرد پر خرچ کرے۔
یہاں ایمان کے بعد ایثار اور عمل کی تلقین کی گئی ہے لیکن ایثار و عمل کے لیے جس چیز کو بطورِ محرک بیان کیا گیا ہے وہ’’حب الہی‘‘ ہے۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ کسی کی محبت میں ایثار و قربانی، صبر آزما جد و جہد اور مصائب و شدائد کا خوشی سے برداشت کرنا محض محبوب کی رضا کی خاطر ہوتا ہے۔ اگر محبوب کو راضی کرنا پیش نظر نہ ہو تو کوئی کیوں کر تکالیف کو دعوت دے گااور اپنی جان و مال کی قربانی پر آمادہ ہوگا۔ اس لیے خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اصل زندگی اور روح ِ عبادت جو انسانی زندگی کا نصب العین اور مقصد وحید ہے، وہ ہر حال میں رضائے الہی کا حصول ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
انسانی زندگی کی خلق و بقا کا سب سے بڑا مقصد ہی رضائے الہی کا حاصل کرنا ہے۔ یہی وہ نعمتِ کبریٰ ہے جس کا کوئی بدل کارخانۂ حیات میں میسر نہیں آتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ اَکْبَرُ.
(توبة، 72)
’’اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہو گی)۔‘‘
جب رضائے الہی مقصدِ حیات بن کر انسان کی پوری زندگی پر محیط ہوجائے تو اس کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، چلنا پھرنا، الغرض سارا کاروبار حیات ہی عبادت اور بندگی قرار پاتا ہے۔ اس کا ایک ایک سانس اور ایک ایک لمحہ عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ وہ شخص رضائے الہی کی خاطر شادی کرتا ہے تو وہ بھی عبادت ہوتی ہے۔ ۔۔ بیوی بچوں سے شفقت و محبت کرتا ہے تو وہ بھی عبادت ہوتی ہے۔۔۔ مشاغلِ حیات میں مصروف ہوتا ہے تو وہ بھی عبادت ہوتی ہے۔۔۔ یہاں تک کہ حیاتِ انسانی کی ہر حرکت و سکون سراسر عبادت و بندگی میں بدل جاتی ہے۔ اس تصور کو قرآن مجید یوں واضح کرتا ہے :
رِجَالٌ لَّاتُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللهِ.
(النور: 37)
’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے۔‘‘
جس کی اپنی زندی کا ہر لمحہ خدا کی یاد اور اس کی رضا کے لیے وقف ہو، ا س شخص کو دیکھنا بھی خود یاد الہی بن جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کیا میں تمہیں ان لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں جو تم میں سے افضل ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا، جی ہاں یا رسول اللہ! تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے افضل ترین وہ لوگ ہیں جنہیں دیکھتے ہی خدا یاد آجائے۔
معلوم ہوا کہ اہلِ رضا؛ محبوبِ خدا ہوتے ہیں۔ رضائے الہی کو اپنا مقصود حقیقی سمجھنے والے جب اس مقصود کو عملاً پا لیتے ہیں تو پھر وہ خود بھی خدا کے محبوب و مرتضی ہوجاتے ہیں اور خود رب ذوالجلال بھی انہیں اپنا مطلوب و مقصود بنا لیتا ہے۔ قرآن حکیم اس حقیقت کی تائید یوں کرتا ہے:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ.
(آل عمران: 31)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم الله سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب الله تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘
اس آیت نے صراحت کے ساتھ یہ امر واضح کر دیا کہ رضائے الہی کی طلب بندے کو اطاعت و اتباعِ رسول اللہ ﷺ کے بعد خود محبوب و مرتضی بنا دیتی ہے۔ انسان کی جہدِ حیات کا آغاز تو حب الہی اور رضائے الہی کے حصول کی کاوش سے ہوتا ہے۔ جس میں صداقت کی شرط اتباعِ رسول ﷺ ہے۔ ورنہ حب الہی اور ضائے الہی کا دعوی کامل متصور ہی نہیں ہو سکتا۔ لیکن اتباع رسول جس کا محرک محبت ہو،اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بندہ محب سے محبوب۔۔۔ طالب سے مطلوب۔۔۔ اور متلاشی رضا سے خود مرتضی و مجتبی بن جاتا ہے۔ قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا.
(مریم: 96)
’’بےشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے تو (خدائے) رحمن ان کے لیے (لوگوں کے) دلوں میں محبت پیدا فرما دے گا۔‘‘
مذکورہ آیت مبارکہ میں ایک بہت اہم خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندۂ مومن کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے گا اور لوگ اس کی طرف جوق درجوق کھنچنے لگتے ہیں۔ اور یہ محبت نہ صرف انسانی حدوں تک محدود ہوتی ہے بلکہ چرند و پرند، درند و حیوانات سبھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔کیونکہ ایسا بندہ اپنے مقصدِ حیات کو مکمل حاصل کر چکا ہوتا ہے۔ اب اس کے کردار و عمل سے ایسے امور کا ظہور ہوتا ہے جو مقصدیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اور اس کی ہر ہر ادا اخلاقِ الٰہیہ کا آئینہ ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبرئیل کو ندا کرکے فرماتا ہے میں نے فلاں شخص کو محبوب و مرتضی بنالیا ہے تو بھی اسے محبت کر۔ پھر جبرئیل اس کو محبوب بنالیتے ہیں پھر وہ آسمانوں میں ندا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں شخص کو اپنا محبوب بنالیا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو، تو آسمان والے بھی اس کو محبوب بنالیتے ہیں۔ پھر اس شخص کے لیے اہلِ زمین کے دلوں میں مقبولیت اتاردی جاتی ہے۔ یعنی اہلِ زمین بھی حکمِ الہی سے اسے اپنا محبوب و مقصود بنا لیتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام آیات اور احادیث میں مختلف صورتوں سے ایک ہی حقیقت پر زور دیا گیا ہے اور وہ ہے اہلِ رضا سے تعلق، معیت، رفاقت اور وابستگی اختیار کرنا۔ کیوں کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے مقصودِ زندگی کو پاچکے ہیں۔ لہذا مقصدِ حیات اور نصب العین کی صحیح ہدایت بھی ان ہی کے راستے سے میسر آ سکتی ہے۔ یہ لوگ چونکہ صحیح معنی میں ہدایت یافتہ ہیں، اس لیے ہدایت کا اولین شعور بھی ان ہی کے راستے سے نصیب ہوتا ہے۔
خلاصۂ کلام
مقصدِ انسان؛ عبادتِ الٰہی ہے اور عبادتِ الہی؛ رضائے الہی سے عبارت ہے، گویا انسان کا مقصدِ حیات بڑا مبارک، عظیم اور اہم ہے اور اسی تصورِ عبادت کی بنیاد پر ایک انسان کو تقرب الی اللہ میسر ہوتا ہے۔انسانی زندگی کا اصل مقصد یہ ہے کہ اللہ کی رضا کا حصول ہوجائے اور اس کے نتیجے میں انسان حسناتِ دنیا اور حسناتِ آخرت سے فیض یاب ہوسکے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے یہ معلوم ہوکہ اللہ کی رضا کے لیے کیسی فکر، کیسا جذبہ اور کیا عمل درکار ہے؟ عقیدے کی درستی،جذبات و احساسات کی ہدایت اور ان کے نتیجے میں اعمالِ صالحہ کی سعی وجہد انسان سے مطلوب ہے۔جہاں تک فکری رہنمائی کا تعلق ہے،جس کے تحت عقیدے اور جذبات و احساسات آجاتے ہیں، اس کا وافر انتظام اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں موجود ہے، جن کی بنیاد پر انسان قیامت تک آنے والے تمام مسائل کا حل تلاش کرسکتا ہے۔
جب انسان اپنے مقصدِ اصلی کو چھوڑ دیتا ہے اور گناہوں میں ڈوب جاتا ہے تو وہ اپنے مقاصد سے بہت دور ہو جاتا ہے۔ جھوٹ، غیبت، چغلی،بدکاری، نافرمانی، ترکِ اوامر، ارتکابِ معاصی، لوگوں کا حق غصب کرنا، ترکِ نماز و زکوٰۃ و روزہ، کمزوروں کا حق دبانا، بڑوں کی بے ادبی کرنا، مرسلینِ عظام کے مناصب ومراتب کو گرانا، اللہ تعالی کی ذات کی معرفت سے روگردانی کرنا، عذابِ الٰہی سے بے خوف ہو جانا وغیرہ، یہ ایسے امور ہیں جو یکسر مقصدِ حیات کے خلاف ہیں۔ آج معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ انسان خود کو پہچان نہیں رہا ہے۔ جس نے خود کو پہچانا تو وہ دنیا کا ایک انمٹ کردار بن گیا۔ اس ضمن میں اہل بیت اطہارؓ، صحابہ کرامؓ، تابعین عظامؓ اور صوفیائے کرمؒ کا سلسلۃ الذہب اس بات پر شاہد ہے کہ ان پاکیزہ افراد نے بہر حال اپنے مقصدِ حیات کو سمجھا، جانا اور اس پر عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ ان پاکیزہ نفوس کے صدقے ہمیں بھی مقصدِ حیات کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین ﷺ