سوال: کیا پینٹ شرٹ میں امامت کرانا درست ہے؟
جواب: قرآنِ مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:
یٰـبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللہِ لَعَلَّهُمْ یَذَّکَّرُوْنَ.
(الاعراف: 26)
اے اولادِ آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب) الله کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔
سورہ الاعراف کی ہی ایک اور آیت میں مزید فرمایا:
یٰـبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ.
(الاعراف: 31)
اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
سورہ النحل میں فرمایا:
وَاللهُ جَعَلَ لَکُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰـلًا وَّجَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَکْنَانًا وَّجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَ.
(النحل: 81)
اور اللہ ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کردہ کئی چیزوں کے سائے بنائے اور اس نے تمہارے لئے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں اور اس نے تمہارے لئے (کچھ) ایسے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں اور (کچھ) ایسے لباس جو تمہیں شدید جنگ میں (دشمن کے وار سے) بچاتے ہیں، اس طرح اللہ تم پر اپنی نعمتِ (کفالت و حفاظت) پوری فرماتا ہے تاکہ تم (اس کے حضور) سرِ نیاز خم کر دو۔
ان آیات میں لباس کے تین اہم بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں:
1۔ستر پوشی
2۔ زیب و زینت کا حصول
3۔ موسمی شدت سے بچاؤ
اس لیے ہر وہ لباس جو انسان کی سترپوشی کرے، پہنا ہوا خوبصورت لگے اور گرم و سرد موسم کی شدت سے بچائے‘ شرعاً جائز ہے، اور اگر کوئی دوسری شرعی ممانعت اس سے ملحق نہ ہو تو اسے پہن کر نماز ادا کرنا‘ جماعت کروانا بھی درست ہے۔
کسی لباس کو صرف اس بنا پر ترک نہیں کیا جاسکتا کہ غیرمسلم بھی ایسا لباس پہنتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ وسلم نے وہی لباس زیبِ تن کیے جو عرب معاشرت میں مروج تھے، وہی لباس بدترین کفار، یہود و نصاریٰ بھی پہنتے تھے۔ حرمت و حلت کے احکام کے ساتھ وہی جبہ و دستار، وہی پاپوش، وہی خورد و نوش، وہی سواری کے جانور، وہی جنگی اوزار آپ ﷺ کے ہاں بھی مستعمل تھے جو دیگر مذاہب کے ماننے والے استعمال کرتے تھے۔ اس لیے کہ غیرمسلموں کی مشابہت کے خوف سے ضرورت کی اشیاء کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ صرف ان امور میں ان کی مشابہت مذموم ہے جو شرعاً ناجائز ہوں۔ جیسے امام ابنِ نجیم فرماتے ہیں:
اعْلَمْ أَنَّ التَّشْبِیْهَ بِأَهْلِ الْکِتَابِ لَا یُکْرَهُ فِي کُلِّ شَيئٍ فإِنَّا نَأْکُلُ وَنَشْرَبُ کَمَا یَفْعَلُونَ إنَّمَا الْحَرَامُ هُوَ التَّشَبُّهُ فِیْمَا کَانَ مَذْمُومًا وَفِیْمَا یُقْصَدُ بِهِ التَّشْبِیهُ کَذَا ذَکَرَهُ قَاضِیخَانُ فِي شَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِیرِ.
(ابن نجیم، البحر الرائق، 2: 11)
جان لو کہ اہلِ کتاب کے ساتھ ہر چیز میں مشابہت مکروہ نہیں ہے، کیونکہ ہم بھی کھاتے پیتے ہیں جس طرح وہ کھاتے ہیں۔ صرف ان امور میں مشابہت ممنوع ہے جو شرعاً مذموم ہیں، یا جس کام کو ان کے ساتھ مشابہت کے ارادے سے کیا جائے، وہ ممنوع ہے۔ یہی قاضی خان نے جامع الصغیر کی شرح میں ذکر کیا ہے۔
اور علامہ حصکفی کے مطابق:
فَإِنَّ التَّشَبُّهَ بِهِمْ لَا یُکْرَهُ فِيْ کُلِّ شَيْءٍ، بَلْ فِيْ الْمَذْمُومِ وَفِیْمَا یُقْصَدُ بِهِ التَّشَبُّهُ.
(حصكفي، الدر المختار، 1: 624)
اہلِ کتاب کے ساتھ ہر چیز میں مشابہت مکروہ نہیں ہے، بلکہ مذموم چیزوں میں مشابہت مکروہ ہے یا وہ کام جس کے ذریعے ان جیسا بننے کی کوشش کی جائے۔
پینٹ شرٹ اگرچہ مغربی اقوام کا لباس ہے مگر دورِ حاضر میں یہ مذہبی لباس نہیں رہا۔ سکول و کالج سے لیکر دفاتر تک بلا تفریقِ مذہب یہ پہنا جاتا ہے، اس لیے یہ کہہ کر کسی کو جماعت سے روکنا درست نہیں کہ اس نے غیرمسلموں کا لباس پہن رکھا ہے۔ البتہ پینٹ شرٹ ڈھیلی ڈھالی ہونی چاہیے، ایسی چست و تنگ نہ ہو کہ جس میں جسمانی اعضاء کے خدوخال ظاہر ہو رہے ہوں۔
یہ درست ہے کہ لباس ستر پوشی، موسمی شدت سے بچاؤ اور زیب و زینت کے ساتھ تہذیب و تمدن کا بھی اظہار کرتا ہے۔ اسلام کے اولین مخاطب عربوں سمیت تمام مشرقی تہذیبوں میں ڈھیلا ڈھالا لباس ہی پہنا گیا اور چست لباس کو ناپسند کیا گیا۔ قمیص، تہبند اور شلوار ہند تہذیب کا حصہ ہیں مگر فقہائے برصغیر نے ان کو قبول کیا کیونکہ یہ ایسا لباس نہیں تھے جس سے اعضائے جسمانی کا اظہار ہو۔ چست و تنگ لباس کا تعلق ہماری تہذیب سے نہیں ہے۔ پینٹ شرٹ بھی اگر ڈھیلی ڈھالی ہے اور ستر پوشی کرتی ہے تو اس میں نماز پڑھنے یا جماعت کروانے میں حرج نہیں۔
سوال: بیوی کی تادیبِ جسمانی کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب:اسلامی نظامِ معاشرت میں گھر کی مثال ایک چھوٹی سی ریاست کی ہے جس کی سربراہی قدرت اور فطرت نے شوہر کو سونپی ہے‘ بیوی اس ریاست میں شوہر کی معاون اور اس کے مال و آبرو کی محافظ ہے۔ اگر کسی موقع پر بیوی کے رویے میں ایسا بگاڑ آجائے کہ اس سے ’ریاستِ خاندانی‘ کی ٹوٹ پھوٹ کا اندیشہ پیدا ہو جائے تو ازدواجی زندگی بچانے کی خاطر قرآنِ حکیم نے شوہر کے لیے چند اقدامات اور تدابیر تجویز کی ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں قرآنِ مجید کا ارشاد ہے:
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللهُ وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ج فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَـلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا اِنَّ اللهَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا.
(النساء، 4: 34)
’’مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔ اور تمہیں جن عورتوں کی نافرمانی و سرکشی کا اندیشہ ہو تو اُنہیں نصیحت کرو اور (اگر نہ سمجھیں تو) اُنہیں خواب گاہوں میں (خود سے) علیحدہ کر دو اور (اگر پھر بھی اِصلاح پذیر نہ ہوں تو) اُن سے (تادیباً) عارضی طور پر الگ ہو جاؤ؛ پھر اگر وہ (رضائے الٰہی کے لیے) تمہارے ساتھ تعاون کرنے لگیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ سب سے بلند سب سے بڑا ہے۔‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں بیوی کی سرکشی عملاً واقع ہونے یا اس کے اندیشے کے پیشِ نظر شوہر سے کہا گیا ہے کہ اولاً بیوی کو سمجھائے، اگر سمجھانے بجھانے سے اس کی سرکشی ختم نہ ہو تو دوسری تدبیر اختیار کرتے ہوئے اس کا بستر الگ کر دے اور اس سے عملِ مباشرت روک دے۔ اگر ان دونوں اقدامات سے بھی سرکشی کا سدِباب نہ ہو تو تادیباً اس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے تاکہ اسے اپنی غلطی کا احساس ہو۔ یہ اس کی آخری اور حتمی سزا ہے۔ لفظ ’وَاضْرِبُوْهُنَّ‘ سے یہاں مراد بیوی کو سزا کے طور پر الگ کرنا ہے۔ اگر یہ تمام تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہو پائے تو اگلی آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا ہے:
وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللهُ بَیْنَھُمَا اِنَّ اللهَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا.
(النساء، 4: 35)
’’اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم ایک مُنصِف مرد کے خاندان سے اور ایک مُنصِف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو، اگر وہ دونوں (مُنصِف) صلح کرانے کا اِرادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے۔‘‘
یعنی شوہر کے تمام تدابیر کارگر ثابت نہ ہونے پر میاں بیوی کی ازدواجی زندگی بچانے کے لیے دونوں خاندانوں کے لوگ ان کے درمیان الجھاؤ ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ کوشش بھی بیکار رہے اور میاں بیوی کی نفرت خود کو یا دوسرے کو ہلاک کرنے تک پہنچ جائے تو مارپیٹ کرنے اور تشدد کا راستہ اپنانے کی بجائے آخری قدم کے طور پر شوہر بیوی کو ایک طلاقِ رجعی دے۔ اگر دورانِ عدت معاملات درست ہو جائیں تو ٹھیک ورنہ طلاق کی عدت مکمل ہونے پر ان کا نکاح ختم ہو جائے گا اور بیوی کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
خاندان چلانے اور بچانے کا یہی مہذب اور درست طریقہ ہے، مارپیٹ، تشدد اور گالم گلوچ کی نہ فطرت اجازت دیتی ہے اور نہ اسلام اس کا حکم دیتا ہے۔ حضرت عبدالله بن زمعہgسے روایت ہے کہ نبی کريم ﷺ نے فرمایا ہے:
لاَ يَجْلِدُ أَحَدُكُمُ امْرَأَتَهُ ثُمَّ يُجَامِعُهَا فِي آخِرِ اليَوْمِ.
(بخاري، الصحيح، كتاب النكاح، باب ما يكره من ضرب النساء وقول الله (واضربوهن) أي ضربا غير مبرح، 5: 1997، رقم: 4908)
’’تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو نہ پیٹے کہ پھر دن ختم ہو تو اس سے مجامعت کرنے بیٹھ جائے۔‘‘
اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ایک طویل حدیث مبارکہ روایت کرتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع بیان کیا گیا ہے۔ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فَاتَّقُوا اللهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللهِ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.
(مسلم، الصحیح، كتاب الحج، باب حجة النبي، 2: 889-890، رقم: 1218)
تم لوگ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم لوگوں نے ان کو اللہ تعالیٰ کی امان میں لیا ہے، تم نے اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے ان کی شرمگاہوں کو اپنے اوپر حلال کر لیا ہے، تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم ان کو اس پر ایسی سزا دو جس سے چوٹ نہ لگے! اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم اپنی حیثیت کے مطابق ان کو خوراک اور لباس فراہم کرو۔
درج بالا آیات و روایات سے واضح ہوتا ہے کہ بيويوں پر تشدد کا نہ حکم ہے اور نہ یہ عمل پسندیدہ ہے۔ بیوی کی سرکشی کی صورت میں مار كے علاوہ دیگر تدابیر اختیار کرنا ہی مشروع و مندوب ہے۔