کتاب اور خطاب روزِ اول سے علم وشعور کی روشنی پھیلانے کا ذریعہ رہے ہیں۔ کتاب اور خطاب دونوں کی اپنی تاثیر اور دائرہ اثر ہے۔ کتاب وہ دروازہ ہے جو آپ کو علم کے نئے جہانوں کی سیر کرواتا ہے۔ دور اور زمانہ کوئی بھی ہو انسانی عقل کی ترقی کتاب اور خطاب کی مرہون منت رہی ہے۔ انسان نے جب اپنے تجربات اور مشاہدات کو بیان کیا تو وہ خطاب بن گئے اور ان خطابات کو جب ضبطِ تحریر میں لایا گیا تو وہ کتاب بن گئی۔ کتاب اور خطاب کا آج بھی چولی دامن کا ساتھ ہے اور آج بھی علم و شعور کے فروغ میں کتاب اور خطاب کی ضرورت و اہمیت مسلّمہ ہے۔
اگر ہم کتاب اورخطاب کی اسلامی تاریخ کا جائزہ لیں تو حضور نبی اکرم ﷺ کے مواعظِ حسنہ اور کرۂ ارض کی مصدقہ اور سچی کتاب قرآن مجید سے شعور و آگہی کے اس سفر کی ابتدا ہوتی ہے۔ آج بھی قرآن مجید اور حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث و سنت مبارکہ کو علوم کے ماخذ ہونے کا مقام حاصل ہے۔ تخلیقِ آدم سے لے کر پوری معلوم انسانی تاریخ تک جانکاری اور رسائی کا سبب کتاب ہے۔ ہمیں کتابِ حکیم اور تاریخ کی کتب سے آثارِ قدیمہ اور سابقہ اُمتوں کے احوال معلوم ہوتے ہیں، قرآن حکیم کا ضخیم حصہ قصص القرآن پر مشتمل ہے، جن میں اُمتوں اور قوموں کے عروج و زوال، خوشحالی اور بربادی کے واقعات بطورِ نصیحت اور عبرت بیان کئے گئے ہیں۔ جب تک یہ دنیا باقی ہے کتاب کی اہمیت برقرار رہے گی اور ڈیجیٹل دنیا کے وجود میں آنے کے بعد خطاب کی اہمیت بھی کتاب کی اہمیت کی طرح مسلّمہ ہو چکی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس عہد کی ایک ایسی صاحبِ مطالعہ شخصیت ہیں کہ اُن کے شب و روز کا غالب حصہ مطالعہ کُتب اور تصنیف و تالیف میں گزرتا ہے۔ وہ اکثر و بیشتر فرماتے ہیں کہ میں دین کی نوکری کے لئے وقف ہوں۔ 15 دسمبر 2024ء کو آپ نے برصغیر پاک و ہند بلکہ عرب و عجم کے سب سے بڑے ختم صحیح البخاری کے علمی اجتماع سے عاجزی و انکساری کے ساتھ ایک ایسا اعلان کیا کہ جس پر شرکاء جھوم گئے۔ وہ اعلان تھا کہ میرے خطاب کے دوران پیش کئے جانے والے حوالوں کو جہاں چاہیں استعمال کریں، ان حوالوں کے مستند ہونے کے حوالے سے آپ کو کبھی ندامت نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ بہتر ہے کہ ترجمہ شدہ مواد پر انحصار کرنے کی بجائے ماخذ کُتب کا مطالعہ اپنا شعار بنائیں اور اگر کسی وجہ سے آپ ماخذ کُتب تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے تو جو حوالہ جات میں نے اپنی کتب اور اپنے خطابات میں استعمال کئے ہیں اُنہیں آنکھیں بند کر کے اپنی گفتگو میں شامل کریں۔
آپ ہمیشہ یہ نصیحت فرماتے ہیں کہ مستقل بنیادوں پر میرے خطابات کو سماعت کریں اور اس راستے سے کبھی نہ ہٹیں، چاہے کوئی فتنہ، کوئی طوفان، کوئی آندھی آئے مگر آپ خطابات کی سماعت کا سلسلہ نہ ٹوٹنے دیں۔ اس عمل کو مستقل اپنانے سے عقیدے میں کمزوری کا احتمال جاتا رہے گا۔ آپ تحریک کے نوجوانوں اور ہر طبقہ عمر کے افراد کو ہمیشہ یہ نصیحت فرماتے ہیں کہ تھوڑے وقت کے لئے ہی سہی لیکن خطاب ضرور سنیں، اس سے آپ کے علم و شعور کی آبیاری بھی ہوتی رہے گی اور میرے ساتھ محبت و سنگت کا رشتہ بھی قائم رہے گا۔ خطاب کی سماعت سے تعلق قائم رہتا ہے اور جب آپ کتاب اور خطاب سے لاتعلق ہو جاتے ہیں تو آپ حفاظت سے محروم ہو جاتے ہیں، مسلمان ہونا اورقرآن مجید پر ایمان ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ قرآن مجید کو غلاف میں سنبھال کررکھ دیں اور اسی زعم میں پھرتے رہیں کہ آپ مسلمان ہیں اور ایمان والے ہیں۔ مسلمانیت اور ایمان کی حفاظت کے لئے علم و تحقیق سے تعلق ناگزیر ہے۔ قرآن آپ کی زندگی میں جاری ہونا چاہیے، ہر روز اس کی تلاوت کریں، ہر روز اس کے ترجمہ و تفسیر سے تعلق قائم کریں۔ اگر آپ خود یہ نہیں کر سکتے تو جو راسخ فی العلوم ہیں اُن کو سُنیں، آپ محفوظ ہو جائیں گے۔ تحریک منہاج القرآن کے ہر رفیق پر لازم ہے کہ وہ اس پر خود بھی عمل کرے اور کتاب اور خطاب کی اس وراثت (Legacy) کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرے۔
علم سماج کے عروج و زوال کا ایک لازمی جزو ہے۔ وہی سماج معتبر اور باوقار قرار پاتے ہیں جن میں علم کی سچی پیاس اور تلاش موجود ہو۔ کتابوں کا مطالعہ ہمیں نظریں اٹھا کر جینے کا اسلوب عطا کرتا ہے۔ علم اور کتاب انسان سے حیوانی رویوں کو جدا کرتے ہیں۔ علم انسان کو سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت اور قوتِ برداشت دیتا ہے۔ یہ قوتِ برداشت قوموں کو لافانی بناتی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہمیشہ مطالعہ کُتب کے کلچر کے احیاء پر زور دیا۔ انہوں نے منہاج یوتھ لیگ، ویمن لیگ اور ایم ایس ایم کے نوجوانوں کو کتاب کلچر پروان چڑھانے کے لئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی ہدایات دیں۔ شیخ الاسلام کا کہنا ہے کتاب سے بہتر اور کوئی دوست نہیں ہے۔ کتاب آپ کو ماضی سے جوڑنے، حال درست کرنے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کی قوت عطا کرتی ہے۔ امسال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سالگرہ کی نسبت سے ملک گیر کتاب میلے منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ضلعی مقامات پر کتاب میلے منعقد ہوں گے جن کا بنیادی مقصد مطالعہ کے دم توڑتے ہوئے کلچر کا احیاء ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر تاحال ہر حکومت نے صوبائی اور وفاقی سطح پر مطالعہ کے کلچر کو عام کرنے کے لئے ملک گیر لائبریریوں کے قیام کے لئے کروڑوں، اربوں روپے کے فنڈز مختص کئے مگر یہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں۔ نتیجتاً سکولوں، کالجوں کے لائبریری کے لئے مختص کئے گئے کمرے گرد اور دھول سے اٹ گئے اور بیشتر سکولوں، کالجوں نے فنڈز تو وصول کر لئے مگر عملاً ایسی لائبریریاں سرے سے قائم ہی نہ ہو سکیں۔ مطالعہ کُتب محض لائبریریاں قائم کرنے سے یا فنڈز مہیا کرنے سے پروان نہیں چڑھے گا۔ اگر اُستاد صاحبِ مطالعہ علم اور کتاب سے شغف اور محبت رکھنے والا ہو گا تو یقینا اس کے اثرات اور ثمرات طلبہ و طالبات تک بھی پہنچیں گے۔ محض انتظامی حکم سے کُتب بینی کا کلچر پروان نہیں چڑھے گا۔ ایک وقت تھا کہ ہر شہر کی بلدیہ میں لائبریری ہوا کرتی تھی اور ان لائبریریوں کی دیکھ بھال کے لئے باقاعدہ انتظامی عملہ ہوا کرتا تھا جو معروف مصنفین کی کُتب کی خریداری اور انھیں لائبریریوں کا حصہ بنانے کی ذمہ داری انجام دیتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کلچر ختم ہو گیا۔ اب یہ کتابیں فٹ پاتھوں کے کنارے بکتی نظرآتی ہیں یا مہنگے داموں اردو بازاروں اور معروف پبلشروں کے سیل سنٹروں سے ملتی ہیں۔
آخر میں شیخ الاسلام کے خوبصورت الفاظ پر اختتام کرتے ہیں کہ ’’اپنی زندگیوں میں علم کی اہمیت کو اُجاگر کریں، اگر کوئی شخص یہ سمجھےکہ اُس کی تعلیمی زندگی کا سفر ختم ہو گیا ہے تو سمجھیں اُس کی ترقی وہیں پر رُک گئی ہےاور اُس کی زندگی جمود میں بدل گئی ہے۔ ترقی اُسی کو نصیب ہوتی ہے جو ہمیشہ تعلیم کے سفر کو جاری رکھتا ہے اور انسان مرتے دم تک طالبِ علم رہتا ہے۔ ‘‘
(چیف ایڈیٹر: ماہنامہ منہاج القرآن)