سفر معراج اور شان مصطفیٰ ﷺ

شیخ حماد مصطفیٰ المدنی القادری

سفر معراج اور شان مصطفیﷺ

قرآن مجید کے بعد آپﷺ کے تمام معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ ’’سفرِ معراج‘‘ ہے۔ اس سفر میں حضور نبی اکرمﷺ نے عالمِ مکاں سے عالمِ لامکاں تک کا سفر کیا اور نہ صرف اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے بلکہ اللہ رب العزت کا بے حجاب دیدار کیا۔ آپﷺ کو یہ عظیم معجزہ کیوں عطا فرمایا گیا؟ اس حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ معجزہ معراج کے تین اسباب و وجوہات ہیں، جن کی بناء پر اللہ رب العزت نے اپنے حبیبﷺ کو اپنے پاس بلا کر اپنا دیدار کروایا اور ان سے ہم کلامی کی۔ جس سال آپﷺ کو یہ عظیم معجزہ عطا ہوا، یہ سال آقاعلیہ السلام پر بہت سخت گزرا تھا اور آپﷺ کو غم و اندوہ اور مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا۔ رب ذوالجلال اپنے حسن و جمال کے دیدار کے ذریعے آپﷺ کے اس غم و اندوہ کا ازالہ فرمانا چاہتا تھا۔

پہلا صدمہ یہ تھا کہ اسی سال سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا وصال فرماگئی تھیں۔ آپ آقاﷺ کی شریکِ حیات تھیں اور اعلانِ نبوت سے بھی قبل آپﷺ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرچکی تھیں۔ آپﷺ کو ان کے وصال کا بہت دکھ تھا۔ اللہ رب العزت نے اس رنج و الم کو مٹانے کی خاطر اپنے حبیبﷺ کو اپنے پاس بلایا۔

ثانیاً سیدنا ابوطالب رضی اللہ عنہ  بھی اسی سال وفات فرماجاتے ہیں جو حضور نبی اکرمﷺ کا ہر حوالے سے دفاع کرتے رہے اور مشرکینِ مکہ کے خلاف آپﷺ کے لیے ڈھال بن کر رہے۔ ان کے وصال کا بھی حضورﷺ کو دکھ تھا۔

اللہ تعالیٰ کا آپ کو سفرِ معراج پر لے جانے کا تیسرا سبب اہل قریش کا حضور نبی اکرمﷺ اور آپ کے اہل وعیال اور اصحاب کا معاشرتی و معاشی مقاطعہ تھا۔ اس کی وجہ سے آپ کے خاندان کو تین سال تک فقر و فاقہ کا سامنا کرنا پڑا اور قیدو بند کی صعوبتیں کاٹنی پڑیں۔

ان غم و اندوہ بھرے لمحات کا ازالہ فرمانے کے لیے اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرمﷺ کو یہ معجزہ معراج عطا کیا اور آپﷺ کو مقام قاب قوسین او ادنیٰ کی بلندیوں پر فائز فرماکر آپﷺ سے ہم کلام ہوا اور اپنے دیدار سے مشرف فرمایا۔

سفرِ معراج کے اسباب جاننے کے بعد آیئے اب اس کے مزید نکات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرمﷺ کے سفرِ معراج کے دو حصے ہیں:

مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر ۔ اس سفر کو ’’اسراء‘‘ کہتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ سے ساتویں آسمان،سدرۃ المنتہیٰ، مقام قاب قوسین اور عالمِ لامکاں تک سفر کرنا اور اللہ رب العزت کا دیدار کرنا۔ اس سفر کو معراج کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء میں سفرِ معراج کے پہلے حصے کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا

 (الاسراء،17: 1)

’’ وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی۔‘‘

اس آیتِ کریمہ میں متعدد علمی، روحانی اور حبی نکات موجود ہیں۔ ذیل میں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

لفظِ سبحان کے استعمال کی حکمتیں

آیت کریمہ کا آغاز اللہ رب العزت نے لفظِ سبحان سے فرمایا۔ اس کے دو مقاصد ہیں: پہلا مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی تقدیس و تنزیہ اور ہر عیب اور نقص سے پاک ہونے کا اظہار فرمارہا ہے۔ دوسرا مقصد یہ کہ اللہ رب العزت چونکہ اپنےحبیبﷺ کا ذکر فرما رہا ہے، اس لیے اس کی شانِ سبحانیت کے اظہار سے جو تقویت اور تاکید پیدا ہوتی ہے، اسے وہ آقاعلیہ السلام کی شان کے پلڑے میں داخل فرمارہا ہے تاکہ آقاعلیہ السلام کے اس سفر اسراء و معراج کے حوالے سے تعجب کرنے والوں کے شک و شبہ اور تشکیک کو ختم کیا جائے کہ اگر تم حضور نبی اکرمﷺ کے سفرِ معراج کی نفی کررہے ہو تو گویا تم میری قدرت اور اختیار کا انکارکررہے ہو۔

لفظِ سبحان کے استعمال کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے یہ سفر عالمِ بیداری میں نہیں بلکہ عالمِ رؤیاء میں کیا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اس اعتراض کی تردید کررہا ہے اور اپنی شان و شوکت اور قدرت کا اظہار فرماتے ہوئے منکرین سے فرما رہا ہے کہ میں اپنے مقربین اور اولیاء و صالحین کو عالمِ رؤیاء میں معراج عطا کردیتا ہوں، اگر میرے محبوبﷺ کا یہ سفر بھی عالم رؤیاء میں واقع ہوا ہوتا تو یہ بھلا کون سا معجزہ ہوتا۔ مجھے میری شانِ سبحانیت کی قسم کہ محمد مصطفیﷺ عالمِ رؤیاء میں نہیں بلکہ عالمِ بیداری میں حرم سے اقصیٰ تک تشریف لے گئے اور پھر سدرۃ المنتہیٰ سے ہوتے ہوئے عالمِ لامکاں پر تشریف لے گئے اور میرے حسن و جمال کو عالمِ رویاء میں نہیں بلکہ عالمِ بیداری میں بے حجاب دیکھا اور مجھ سے کلام کیا۔

لفظ ’’اسریٰ‘‘ کا پیغام

آیتِ کریمہ میں مذکور لفظ اسریٰ کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ اپنے حبیب کو سفر پر لے گیا۔ اللہ یہ بھی فرماسکتا تھا کہ حضورعلیہ السلام سفر پر تشریف لے گئے مگر ایسا نہیں فرمایا۔ یہ اسلوب اس لیے اختیار فرمایا کہ وہ واضح کردے کہ میرے حبیب نے تو یہ دعویٰ کیا ہی نہیں ہے کہ میں رات کے تھوڑے سے حصے میں عرشِ الہٰی اور عالمِ لامکاں تک گیا ہوں بلکہ میں ربِ قادر ہوکر یہ دعویٰ کررہا ہوں کہ میں اپنے حبیبﷺ کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا۔ اب سفرِ معراج کا انکار کرنے والے میرے محبوبﷺ پر اعتراض اور تنقید نہ کریں کہ محمد مصطفیﷺ اس سفر پر نہیں گئے بلکہ اگر وہ اس قابل ہیں تو میری قدرت و اختیار کو چیلنج کرکے دکھائیں، اس لیے کہ میں یہ اعلان کررہا ہوں کہ میں انھیں اس سفر پر لے گیا۔

حضورعلیہ السلام کی شانِ عبدیت کا اظہار

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرمﷺ کے لیے لفظ ’’عبدہ‘‘ استعمال فرمایا کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو سفر پر لے گئی۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماسکتا تھا کہ میں اپنے حبیب مکرم اور برگزیدہ رسول کو سفر پر لے گیا یا یہ بھی فرماسکتا تھا کہ سبحن الذی اسری بمحمد(ﷺ) پاک ہے وہ ذات جو اپنے برگزیدہ پیغمبر محمدﷺ کو سفر پر لے گئی۔ حالانکہ رسالت کا اپنا مقام و منصب اور شان و شوکت ہے اور نبوت کا اپنا مرتبہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ اسلوب اختیار نہیں فرمایا بلکہ آپﷺ کی شانِ عبدیت کو ظاہر کرنے کے لیے انھیں اپنا بندۂ خاص ’’عبدہ‘‘ قرار دیا۔ اس لیے کہ عبدیت میں اللہ تعالیٰ قربت اور صحبت کا تعلق ظاہر کرنا چاہ رہا ہے۔ اس سے بڑا مقام و مرتبہ اور بلندی کیا ہے کہ اللہ خود کہے کہ میں اپنے بندے کو اپنے پاس بلارہا ہوں۔

؎ عبد دیگر عبدہ چیزے دیگر

ایں سراپا انتظار او منتظر

بندہ ہونا الگ چیز ہے اور اُس کا بندہ ہونا الگ چیز ہے۔ بندہ ہمیشہ انتظار میں رہتا ہے کہ کب مجھے اس کی بارگاہ سے بلاوا آتا ہے جبکہ جو اس کا اپنا ہوجاتا ہے، اس کا انتظار وہ ذاتِ باری تعالیٰ اپنی شان کے لائق خود کرتی رہتی ہے۔

سفرِ معراج میں حضورعلیہ السلام کو اللہ کی

مصاحبت بھی حاصل تھی

اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں لفظ عبدہ کے ساتھ’’با‘‘ کو جوڑا اور فرمایا: بعبدہ۔ یہ حرف ’’باء‘‘مصاحبت، قربت و سنگت اور معیت کا فائدہ دیتا ہے۔ اللہ رب العزت نے یہ واضح فرمادیا کہ اس سفر میں نہ صرف جبرائیل علیہ السلام اور براق میرے حبیب کے ہم سفر تھے بلکہ میں نے خود اپنی شان کے لائق اپنے حبیبﷺ کو اپنے انوار و تجلیات کے جلو میں سفر کروایا اور میرا حبیب میرے پاس میری ہی معیت میں آیا ہے۔

اس سفر کے پہلے حصہ یعنی مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کے سفر اسراء کے اختتام پر بیت المقدس میں جملہ انبیاء کرام و رسل عظامعلیہم السلام حضور نبی اکرمﷺ کا استقبال کرتے ہیں اور آقاعلیہ السلام تمام انبیاء کی امامت فرماتے ہیں۔

سدرہ المنتہٰی سے آگے کا سفر

مسجدِ اقصیٰ پر اسراء کا سفر ختم ہوتا ہے اور یہاں سے آگے معراج کا سفر شروع ہوتا ہے۔ مسجدِ اقصیٰ سے آسمانوں تک کے سفر کے لیے اللہ رب العزت کی بارگاہ سے ایک نوری سیڑھی عطا ہوتی ہے جس کے ذریعے آپﷺ آسمان پر تشریف لے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عظیم انبیاء کرام علیہم السلام ہر آسمان پر آپﷺ کا استقبال فرماتے ہیں۔ ساتویں آسمان کے بعد سدرۃ المنتہیٰ پر سیدنا جبرائیل امین علیہ السلام کے قدم بھی رک جاتے ہیں اور وہ بھی اس مقام سے آگے جانے کی صلاحیت سے محرومی کا اقرار کرتے ہیں کہ مجھے اللہ رب العزت نے صرف یہاں تک رسائی کی اجازت مرحمت فرمارکھی ہے۔ اس کے آگے جانا میری بساط میں نہیں ہے۔کیونکہ یہاں سے اللہ رب العزت کے براہِ راست انوار و تجلیاتِ کا ظہور شروع ہوجاتا ہے۔

؎پہنچ کر سدرہ پہ روح الامین یہ کہنے لگے

یہاں سے آگے کا رستہ حضور جانتے ہیں

سدرۃ المنتہٰی سے آگے کے سفر کے لیے رفرف کو حاضر کیا جاتا ہے۔ ایک مقام ایسا آتا ہے کہ جہاں رفرف بھی رک جاتا ہے اور پھر یہاں سے آگے اللہ رب العزت بذاتِ خود اپنے انوار و تجلیات کے جلووں میں اپنے حبیبﷺ کو عالمِ لامکان تک کا سفر کرواتا ہے۔

مقامِ قاب قوسین او ادنیٰ پر حاصل قربت

انوار و تجلیات کے جھرمٹ میں حضورنبی اکرمﷺ اپنی شان و مقام کے مطابق گزرتے ہوئے بالآخر قاب قوسین او ادنیٰ کے مقام پر جلوہ افروز ہوجاتے ہیں۔ اس مقام کے حوالے سے اللہ رب العزت سورہ النجم میں فرماتا ہے:

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوۡسَیۡنِ اَوۡ اَدۡنٰی

(النجم،53: 8،9)

’’ پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمدﷺ سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّمﷺ میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)۔‘‘

یہ مقام وہ ہے جس کا ہماری عقل اور شعور بھی احاطہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی انسان کا فہم یہاں پہنچ سکتا ہے۔ یہ وہ عالم ہے جہاں فقط اللہ ، اس کا حسن و جمال اور انوار و تجلیات ہیں۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ یہ مقام احدیت ہے اور اس مقامِ احدیت میں اللہ رب العزت حضور نبی اکرمﷺ کی شانِ احمدیت کو اپنی شان کے جلوؤں میں شامل کرلیتا ہے۔ اس عالمِ لامکاں میں حضورنبی اکرمﷺ اپنے رب کے اور وہ ربِ کائنات اپنے محبوبﷺ کے قریب ہوجاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس مقامِ قاب قوسین میں نہ حد ہے اور نہ حدود ہے۔۔۔ نہ جہت ہے اور نہ جہات ہیں۔۔۔ اور نہ زماں و مکان کا تعین ہےتو اللہ رب العزت یہ کیوں فرمارہا ہے کہ میں اپنے حبیب کے قریب ہوا؟ اس کا جواب فقط اللہ تعالیٰ اور مصطفیﷺ ہی جانتے ہیں۔ اللہ اپنے حبیبﷺ سے کتنا قریب ہوا، اس کا علم فقط اللہ اور مصطفیﷺ کو ہی ہے مگر اللہ قربت کے اس تصور کو امت کے لیے بیان فرما رہا ہے تاکہ امت کو عظمت و شانِ رسالتِ مصطفیﷺ کا ادارک ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ جب عام انسان کے لیے یہ فرماتا ہے کہ

وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ

 (ق:50: 16)

’’ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘

تو مقامِ غور یہ ہے کہ اس عالم لامکاں میں اللہ نے اپنے محبوب کو کتنی قربت و معیت عطا کی ہوگی۔ سوال یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے حبیبﷺ کے کتنے قریب ہوا بلکہ سوال یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ رہ گیا؟ اللہ کی بارگاہ تمثیل سے پاک ہے مگر دو کمانوں جتنا فاصلہ رہ جانا، اللہ رب العزت یہ فقط ہمیں سمجھانے کے لیے فرمارہا ہے۔

مقامِ قاب قوسین او ادنیٰ پر حضورعلیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتیں

مقام قاب قوسین پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کو درج ذیل نعمتیں عطا فرمائیں:

1۔ پہلی نعمت یہ ہے کہ اللہ اپنے حبیبِ اکرمﷺ کو اپنی قربت اور معیت عطا فرماتا ہے۔ وہ اپنے حبیب کے قریب ہوتا ہے اور پھر قریب سے قریب تر ہوتا ہے۔

2۔ دوسری نعمت یہ عطا فرمائی کہ اللہ رب العزت اس مقام پر اپنے حبیب ﷺکو بے حجاب اپنے حسن و جمال اور انوار و تجلیات دکھاتا ہے۔ اس مقام پر آقاعلیہ السلام دیدار ِحق اور مشاہدۂ حق میں فنا ہو جاتے ہیں ۔

3۔ تیسری نعمت اللہ رب العزت نے یہ عطا فرمائی کہ وہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام سے کلام فرماتا ہے۔ اس نعمت کو عطا کرتے وقت عالم یہ تھا کہ اللہ رب العزت نے اس مقام پر کسی غیر کے وجود کو گوارا نہیں کیا۔ اس بزم میں فقط اللہ ہے اور خدا کے حبیب مصطفیﷺ ہیں۔ نہ جبرائیل امیں ہیں، نہ رفرف ہے، نہ انبیاء و رسل ِعظام کی نیک ارواح ہیں اورنہ ملائکہ ہیں۔ اس گوشۂ تنہائی میں فقط اللہ ہے اور اس کے روبرو مصطفیﷺہیں۔ اس مقام پر اللہ اپنے حبیب ﷺ کے قلبِ اطہر کو سکون عطا فرمانے کے لیے بلاواسطہ آپ ﷺ سے گفتگو فرماتا ہے۔ یہاں کبھی اللہ اپنے محبوب سے مخاطب ہے اور کبھی حضور نبی اکرم ﷺ اللہ سے مخاطب ہیں۔ صرف دو ہی ذاتیں ہیں اور کوئی تیسرا موجود نہیں ہے۔ اس مقام کے حوالے سے اللہ رب العزت فرماتا ہے :

فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی

(النجم، 53: 10)

’’پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اللہ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی۔‘‘

اس مقام پر ہونے والی گفتگو فقط اللہ اور اس کا حبیبﷺ ہی جانتا ہے کہ ان کے درمیان کیا راز و نیاز کی باتیں ہوئیں اور اس نے اپنے محبوب کو اپنے خزانہ غیب سے کیا کیا علوم و معارف اور اسرار و حکم عطا فرمائے۔

4۔ اس مقام پر اللہ رب العزت نے چوتھی نعمت یہ عطا فرمائی کہ حضورعلیہ السلام کو اپنا دیدار بھی عطا فرمایاہے۔ جس شان کے ساتھ آپﷺ نے اللہ کا دیدار کیا، اللہ تعالیٰ اس کا خود اس طرح اظہار فرماتا ہے:

مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی

(النجم، 53: 11)

’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔‘‘

آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی چشمان ِمقدسہ نے جب دیدارِ الہی اور مشاہدۂ حق کیا تو قلب ِاطہر ِمصطفیﷺنے چشمان ِمقدسہ سے ہونے والے اس دیدار کی تصدیق کی ۔ اللہ رب العزت خود فرماتا ہے کہ میرے حبیب نے اس طرح دیکھا کہ

مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی

(النجم، 53: 17)

’’اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)۔‘‘

یعنی ایسے دیکھا کہ دیکھنے کا حق ادا ہوگیا اور اس دوران میں حبیبﷺ کی آنکھیں کسی اور طرف مائل نہ ہوئیں بلکہ فقط حسن و جمالِ الہٰ کو دیکھتی رہیں۔ یہ دیدارِ الہٰی اتنی بڑی اور عظیم نعمت تھی کہ رب کائنات کو معلوم تھا کہ دنیا والے آپﷺ کو ملنے والی اس نعمت کا انکار کردیں گے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے، لہذا اللہ رب العزت منکرین سے فرما رہا ہے کہ

اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی وَ لَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃًاُخۡرٰی

(النجم،53: 12، 13)

’’کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھا۔ اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوۂِ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)۔‘‘

میں نے اپنے حبیبﷺ کو بے حجاب و بے نقاب اپنا جلوہ عطا فرمایا، کیا تم انکار کرتے ہو اور میرے حبیب کے ایک بار مجھے اور میرے حسن و جمال کے دیکھنے پر جھگڑتے ہو حالانکہ انھوں نے مجھے ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ دس بار دیکھا ہے اور ایسا اس وقت ہوا جب میں نے انھیں 50 نمازوں کا تحفہ عطا کیا اور وہ ان نمازوں میں تخفیف کروانے کے لیے میری بارگاہ میں 9 بار پلٹ کر حاضر ہوئے تو ہر بار میں نے اپنے حبیبﷺ کو اپنا حسن و جمال اور انوار و تجلیات دکھائیں۔

5۔ مقام قاب قوسین پر حضور نبی اکرمﷺ کو عطا ہونے والی ایک نعمت اللہ رب العزت نے نماز کی صورت میں عطا فرمائی۔ پہلے امت کے لیے پچاس نمازیں عطا ہوئیں، جن میں بعد ازاں اللہ رب العزت نے نو بارتخفیف فرمائی اور پانچ نمازیں رہ گئیں مگر اللہ تعالیٰ نے حضورعلیہ السلام کے صدقے سے امت کو پانچ نمازوں پر بھی پچاس نمازوں کے اجر کا وعدہ فرمایا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو مکی دور میں جن مصائب و آلام اور غم واندوہ کا سامنا کرنا پڑا اور جن پر آپﷺ اور صحابہ کرامl نے صبر کیا اس کی جزا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشۡرُ اَمۡثَالِہَا

(الانعام،6: 160)

’’جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لئے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں ۔‘‘

گویا امت کو یہ تحفہ ملا کہ وہ پانچ نمازیں ادا کریں گے مگر اللہ رب العزت پچاس نمازوں کے برابر انہیں اجر عطا فرمائے گا ۔اس تحفے کو جب صدق و خلوص سے قبول کریں گے اور اس تصور اور کیفیت سے نماز ادا کریں گے کہ یہ تحفہ وہ ہے جو محب نے اپنے محبوب کو عالمِ لامکاں میں عطا کیا تو مومن بھی نماز کی ادائیگی کے دوران معراج کی منازل طے کرتا چلا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

الصلوۃ معراج المومن۔نماز مومن کی معراج ہے۔

(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، رقم الحدیث:746)

آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا معراج ماورائے عرش تھا مگر مومن جب صدق و خلوص سے نماز پڑھتا ہے تو اس کی معراج فرش پر ہی ہو جاتی ہے۔ اس کا جسم فرش پر ہی ہوتا ہے مگر اس کا دل سدرۃ المنتہی اور عرشِ الہٰی پر پہنچ جاتا ہے ۔

کسی سے میری منزل کا پتہ پایا نہیں جاتا ۔۔۔۔!

جہاں میں ہوں، فرشتوں سے وہاں جایا نہیں جاتا

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضور نبی اکرمﷺ کو عطا کی گئی معراج کا موازنہ

اللہ رب العزت نے حضرت موسی علیہ السلام کو بھی کوہِ طور پر بلاکر معراج عطا فرمائی تھی۔ اس معراج اور آپﷺ کو عطا کی گئی معراج کے درمیان کیا فرق ہے؟ آیئے قرآن مجید کی روشنی میں اسے سمجھتے ہیں:

1۔ اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی معراج عطا کرنے کے لیے اپنے پاس بلانے کا ایک وقت مقرر کیا تھا۔ فرمایا:

وَ لَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِیۡقَاتِنَا

(الاعراف، 7: 143)

’’اور جب موسٰی (علیہ السلام) ہمارے (مقرر کردہ) وقت پر حاضر ہوا‘‘۔

یہ مقام ِموسیٰ ہے کہ اللہ رب العزت اپنے نبی اور رسول کو اپنی بارگاہ میں حاضر ہونے اور بلانے کے لیے ایک خاص وقت عطا فرما رہے ہیں، گویا Appointment دی جارہی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام فلاں وقت اور فلاں مقام پر آ جانا ۔صرف یہی نہیں بلکہ اپنی ذات کی عظمت کے پیشِ نظر حکم دیا کہ میری بارگاہ میں حاضر ہونے سے پہلے روزے رکھ کر آنا۔

دوسری طرف مقامِ مصطفیﷺیہ ہے کہ اللہ رب العزت جبریل امین کو سواری دے کر حضورعلیہ السلام کو اپنی زیارت و دیدار عطا کرنے کے لیے خود بلارہا ہے۔

2۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے فقط ہم کلامی کی نعمت سے نوازا۔ فرمایا :

وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوۡسٰی تَکۡلِیۡمًا

(النساء،4: 164)

’’اور اللہ نے موسٰی (علیہ السلام) سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی۔‘‘

جبکہ آپﷺ سے رب ہم کلام بھی ہوا اور دیدار بھی عطا فرمایا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے رب کا کلام و گفتگو سن کر سوچا کہ جس رب کی گفتگو اور کلام اتنا خوبصورت ہے، اس کے دیدار کا عالم کیا ہوگا ۔

قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ

(الاعراف،7: 143)

’’ (حضرت موسیٰ علیہ السلام کلامِ ربانی کی لذت پا کر دیدار کا آرزو مند ہوا اور) عرض کرنے لگا: اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں۔‘‘

یہ ادبِ موسوی ہے، یہ عشاق و محبین کا ادب ہے کہ وہ محبوب سے براہِ راست دیدار کی طلب اور التجا نہیں کرتے۔ موسی علیہ السلام یہ بھی فرما سکتے تھے کہ باری تعالی میں براہِ راست تیرا جلوہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے یہ نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ تجھے دیکھنا تو بڑی دور کی بات، میں تیری جانب بھی دیکھ لوں تو بڑی بات ہے۔ عشاق و محبین ادب کے دائرے میں رہتے ہیں اور وہ قریب ہو کر بھی اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں تاکہ ادب میں بھی کوئی خطا سرزد نہ ہوجائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کی بارگاہ میں یہ عرض کر سکتے تھے کہ اے باری تعالیٰ! میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں مگر ادب کے پیشِ نظر عرض کیا کہ میں تیری طرف دیکھنا چاہتا ہوں۔

دور بیٹھا غبارِ میر اس سے

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

اللہ رب العزت کی بارگاہ سے حضرت موسیٰعلیہ السلام کی اس گزارش پر جواب آتا ہے کہ :

لَنۡ تَرٰىنِیۡ

(الاعراف،7: 143)

’’ تم مجھے (براہِ راست) ہرگز دیکھ نہ سکوگے ۔‘‘

یعنی موسیٰ علیہ السلام آپ میں مجھے دیکھنے کی ہمت نہیں ہے، آپ دیکھنا بھی چاہیں تو نہیں دیکھ سکتے۔ حضرت موسی مزید اصرار نہیں کرتے، یہ ان کا مقام ادب ہے۔

ہم نے جمالِ یار نہ دیکھا تو کیا ہوا

ہم پہ نگاہِ یار ہے، یہ بھی تو کم نہیں

حدیث مبارک ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك۔

(صحيح البخاری، کتاب الإيمان ،باب سؤال جبريل النبيﷺ عن الإيمان والإسلام والإحسان وعلم الساعة،رقم الحدیث: 50)

” اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے۔“

یہ محسنین کی عبادت ہے۔ محسنین حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ محسنین کی عبادت ایسی ہے کہ ان کے لیے یہ تصور ہی کافی ہے کہ وہ اللہ کو نہیں دیکھ پارہے تو کیا ہوا، اللہ تو انھیں دیکھ رہا ہے۔ موسیعلیہ السلام کو اگرچہ اللہ نے اپنا دیدار عطا نہیں کیا۔مگر پھر بھی وہ اللہ کی چوکھٹ پر کھڑے ہیں، محبوب دیدار عطا کرے یا نہ کرے، اس کی مرضی۔ موسیٰ علیہ السلام کے لیے یہی کافی تھا کہ اللہ انہیں دیکھ رہا ہے۔

اللہ کے فرمان’’لن ترانی‘‘(اے موسی تو مجھے نہیں دیکھ سکتا)، اس انکار میں بھی ایک اثبات ہے کہ اگرچہ موسی تو نہیں دیکھ سکتا مگر میں یہ نہیں کہہ رہا کہ دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو مجھے دیکھ سکے۔ موسی آپ نہیں دیکھ سکتے مگر آپ کے جانے کے بعد کوئی ایسا آئے گا جو میرا حسن و جمال اور میری انوار و تجلیات دیکھے گااور ایسا دیکھے گا کہ

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی

(النجم، 53: 17)

’’اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)۔‘‘

یہ مقام موسی تھا کہ براہ راست دیکھنے کی التجا کی مگر جواب ملا کہ نہیں دیکھ سکتے جبکہ مقامِ مصطفیﷺ یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کو بے حجاب اپنا حسن و جمال اور ایسا دیدار کروایا کہ دیکھنے والے کی سبھی توجہ صرف جمالِ خدا پر ہی مرتکز رہیں۔ ان کی نظریں اِدھر سے اُدھر نہ ہوئیں بلکہ ٹکٹکی باندھے صرف ذاتِ خدا کو ہی تکتی رہ گئیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس معجزہ معراج کے ذریعے حضور نبی اکرمﷺ کے مقام و شان کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپﷺ کے فیوضات میں سے حصہ وافر عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلینﷺ۔