القرآن : اطاعت رسول ﷺ مطلق اور غیر مشروط اطاعت ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

اطاعتِ رسول ایک مطلق، مستقل، لازم اور غیر مشروط اطاعت ہے
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا علمی و فکری خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین (حصہ : 10)

قرآن و سنت کی روشنی میں عقائدِ صحیحہ کے موضوع پر زیرِ نظر سلسلہ وار تحریر میں اس امر کا مطالعہ کررہے ہیں کہ کیا دین، اسلامی عقیدہ اور ایمان کے باب میں یہ کہنا درست ہے کہ ہمارے لیے صرف قرآن حجت ہے اور قرآن کے سوا ہم کس اور چیز کو خواہ وہ سنت اور حدیثِ رسول ہی کیوں نہ ہو حجت نہیں مانتے؟ قرآن مجید کی متعدد آیات کے مطابق ایسی سوچ نہ صرف گمراہی ہے بلکہ کفر و الحاد ہے۔ ایسا کہنا پورے قرآن مجید کی نفی ہے، قرآنی تعلیمات کے خلاف بغاوت ہے اور قرآنی احکام کا کھلا انکار اور مخالفت ہے۔ اس ضمن میں اس مضمون کے سابقہ حصوں میں ہم بہت سے دلائل کامطالعہ کر چکے ہیں۔ گزشتہ شمارہ (دسمبر2024ء) میں قرآن مجید کی اُن 18 آیات کے مطالعہ کا آغاز کیا تھا جن میں اللہ رب العزت نے فقط اطاعتِ رسول کا حکم دیا ہے اور ان میں اطاعتِ الہٰی کا لفظاً ذکر نہیں ہے۔ ایسی 18 آیاتِ کریمہ میں سے 7 آیات کا مطالعہ ہم کرچکے ہیں۔ اس حوالے سے مزید آیاتِ کریمہ ملاحظہ ہوں:

8۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝

’’ ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہوگئے، اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (النور، 24: 51)

اس آیت کریمہ میں لِیَحْکُمَ (تاکہ وہ فیصلہ فرمائے) فعل ضمیر واحد ہے، تثنیہ نہیں ہے۔ یہ صیغہ اللہ اور رسول کے لیے نہیں آیا بلکہ واحد کے لیے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یوں نہیں فرمایا کہ لِیَحْکُمَا بیہنم کہ اللہ اور اللہ کے رسول اُن کے درمیان فیصلہ کر دیں۔ بلکہ فرمایا لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ تا کہ حضور علیہ السلام اُن کے درمیان فیصلہ کر دیں۔

پھر فرمایا کہ جب رسول ان کے درمیان فیصلہ کر دیں تو مومن کی شان یہ ہے کہ وہ فقط ایک ہی کلمہ کہے کہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہ ہم نے سن لیا، اور ہم سراپا اطاعت ہوگئے۔ گویا آج اور قیامت تک جن معاملاتِ زندگی پر بھی وضاحت اور رہنمائی درکار ہو گی، جب اُن پر رسول کا حکم، فیصلہ، حدیث، سنت، فرمان اور اسوہ مل جائے تو جو مومن ہوں گے، وہ یہی کہیں گے کہ یا رسول اللہ! ہم نے آپ کا حکم سن لیا، سرِ تسلیم خم کر لیا اور ہم آپ کی اطاعت بجا لاتے ہیں

آیت کے آغاز میں فرمایا: اِذَا دُعُوْۤا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ کہ جب انھیں اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے لیکن جب حکم دینے اور اطاعت کی بات آئی تو یہاں صرف رسول اکرمﷺ کا حکم اور اُن کی اطاعت کا مفردًا ذکر کر دیا۔ اللہ کی اطاعت اور اس کے حکم کو ماننا از خود اس میں شامل ہو گیا۔ (اس حوالے سے تفصیلی گفتگو اسی سورۃ النور کی آیت: 54 کے تحت اس مضمون کے گذشتہ حصہ میں گزر چکی ہے)

تقویٰ و عبادت کی نسبت اللہ کی طرف جبکہ اطاعت کی نسبت نبی و رسول کی طرف ہے

9۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ ِ۟الْمُرْسَلِیْنَۚۖ۝ اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ۝ اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ۝ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ۝

’’ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا۔ جب اُن سے اُن کے (قومی) بھائی نوح (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو؟۔ بے شک میں تمہارے لیے امانت دار رسول (بن کر آیا) ہوں۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘ (الشعراء، 26: 105۔ 108)

ان آیاتِ کریمہ میں سیدنا نوح علیہ السلام کے حوالے سے ذکر ہے۔ قرآن مجید میں مختلف انبیائے کرام اور رسل عظام علیہم السلام کے حوالے سے یہی قاعدہ ہے کہ تنہا اُس رسول یا نبی کی اطاعت کا حکم دے کر اُس سے اللہ اور اللہ کے رسول دونوں کی اطاعتیں مراد لے لی گئیں۔

مذکورہ آیات میں قابلِ غور لفظ تَتَّقُوْنَ ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرمارہے ہیں کہ تم میری دعوت، توحید اور اللہ کے پیغام کو ٹھکرا رہے ہو اور حق کو رد کررہے ہو اور تم میری مخالفت کرتے جارہے ہو، اَ لَا تَتَّقُوْنَ کیا تمہارے دلوں میں اللہ کا خوف نہیں ہے؟ پھر نوح علیہ السلام اپنی قوم کو فرماتے ہیں کہ بے شک میں تمہارے لیے امانت دار رسول بن کر آیا ہوں فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِؕ سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کے لیے تقویٰ کا لفظ بیان کیا جب کہ اطاعت کی نسبت اپنی طرف کی کہ وَاَطِیْعُوْنِ کہ میری اطاعت کرو۔ یعنی لفظِ اطاعت کے ساتھ جو حکم دیا، وہ اطاعتِ رسول کا ہے اور اطاعتِ رسول میں از خود اطاعتِ الٰہی کا معنیٰ شامل ہے۔ آیت مبارکہ میں تقویٰ اختیار کرنے کا حکم بھی اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اگر تم اللہ سے ڈرتے ہو تو اللہ نے جس رسول کو بھیجا ہے، اُس کا حکم مانو اور اُس کی اطاعت کرو۔ گویا اگر تم رسول کی اطاعت نہیں کرتے اور رسول کے حکم کو حجت نہیں مانتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ سے ہی نہیں ڈرتے اور اللہ کا خوف تمہارے دلوں میں نہیں ہے۔ پس اللہ رب العزت واضح فرمارہا ہے کہ جس رسول کے حکم کو حجت ماننے سے تم انکار کر رہے ہو اور جس کی اطاعت کو اتھارٹی نہیں مان رہے، وہ رسول اللہ ہی کا تو بھیجا ہوا ہے۔ رسول کی اطاعت کو حجت نہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ تم نہ صرف رسول کی اطاعت کا انکار کررہے ہو بلکہ اللہ کے خوف کا بھی انکار کررہے ہو اور اُس کی توحید کے بھی منکر ہورہے ہو۔

10۔ سورۃ الشعراء کی آیت 110 میں پھر یہی اسلوب اختیار کیا گیا۔ ارشاد فرمایا:

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِؕ۝

 (الشعراء، 26: 110)

’’پس تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری کرو۔‘‘

نوح علیہ السلام پہلے رسول ہیں جن سے باقاعدہ امت، کتاب اور شریعت کا ایک نظام شروع ہوا۔ نظامِ رسالت کی ابتداء سے ہی اللہ رب العزت نے یہ قاعدہ، کلیہ اور اصول مقرر فرما دیا تھا کہ بندہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور رسول کے حکم، سنت، حدیث، فرمان، ارشاد اور دعوت کو ہمیشہ حجت اور اتھارٹی تسلیم کرے۔ یہ عقیدہ رکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بندہ متقی ہے اور اللہ کا خوف رکھتا ہے۔ جب نوح علیہ السلام کی شان یہ ہے کہ اُن کی حدیث، فرمان، حکم، سنت، اسوہ اور شعارِ زندگی کو اپنانے کا حکم ہے، ان کی اطاعت واجب قرار دے دی گئی ہے تو حضور نبی اکرمﷺ کی اطاعت امتِ محمدی کے لیے کیوں واجب نہیں ہو گی۔

11۔ سورۃ الشعراء کی آیت 123 تا 126 میں قوم عاد اور حضرت ہودعلیہ السلام کے ذکر کے ذیل میں بھی اطاعتِ ہودعلیہ السلام کا حکم اسی طرح دیا گیا۔ ارشاد فرمایا:

كَذَّبَتْ عَادُ ِ۟الْمُرْسَلِیْنَۚۖ۝ اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ هُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ۝ اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ۝ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ۝

’’(قومِ) عاد نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا۔ جب اُن سے اُن کے (قومی) بھائی ہود (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو؟۔ بے شک میں تمہارے لیے امانتدار رسول (بن کر آیا) ہوں۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘ (الشعراء، 26: 123۔ 126)

جب اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی بات ہو رہی ہے اور رسول کی اطاعت کا لفظ بھی آ رہا ہے تو اللہ اور اللہ کے رسول دونوں کی اطاعت کا ذکر بھی آ سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں تقویٰ کے لیے اپنی ذات کو مختص کر دیا اور اطاعت و پیروی، حکم، فرمان اور سنت کو حجت قرار دینے کے لیے رسول کو مختص کر دیا۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ اطاعتِ نبی و رسول میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت بھی از خود شامل ہے۔ اللہ کے تقویٰ میں رسول کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت میں اللہ کا تقویٰ ہے۔ یہ دونوں چیزیں باہم لازم و ملزوم ہیں۔ اگر تنہا رسول کی اطاعت کا ذکر ہے تو اُس سے اللہ کی اطاعت کی نفی نہیں ہوتی بلکہ اس میں اللہ کی اطاعت بھی شامل ہے۔

جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے اس اسلوب کو اختیار کرنے سے ثابت ہوا کہ رسول کی حدیث و سنت کی ایک تاریخی اور ثقافتی اہمیت ہے۔ اگر کوئی کہے کہ سابقہ انبیاء و رسل کے لیے اختیار کردہ یہ اسلوب ہمارے لیے حجت اور اتھارٹی نہیں تو یہ پورے قرآن مجید اور تمام انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کی تاریخ اور ان کی تعلیمات کا انکار ہے جنھیں قرآن نے بیان کیا ہے۔

12۔ سورہ الشعراء میں ایک اور مقام پر حضرت ہودعلیہ السلام کے تذکرہ میں پھر اسی بات کو بیان کیا گیا۔ ارشاد فرمایا:

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ۝

(الشعراء، 26: 131)

’’ سو تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری اختیار کرو۔‘‘

رسول کی اطاعت کو حجت نہ ماننے والوں سے سوال ہے کہ وہ قرآن مجید کی ان آیات پر کیا کہیں گے؟ کیا وہ انھیں قرآن مجید کا حصہ ماننے سے انکار کردیں گے؟ صرف حضور علیہ السلام کے حوالے سے اس طرح کے کلمات نہیں ملتے بلکہ قرآن کی آیات شاہد ہیں کہ تمام رسولوں کی یہی تعلیم رہی ہے۔ ہر دور پر جب رسول قوم سے مخاطب ہوتے تو وہ کہتے کہ میری اطاعت کرو۔ ان کے اس فرمان میں اللہ کی اطاعت اور اس کا تقویٰ خودبخود شامل ہوگیا۔

اللہ کی عبادت و تقویٰ اختیار کرنا اور رسول کی اطاعت کو حجت اور واجب جان کر اپنے اوپر لازم کرنا، یہی صراط مستقیم اور سیدھی راہ ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے حجیتِ حدیث و سنت کا انکار کرکے اس صراط مستقیم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔

13۔ حضرت صالح علیہ السلام کے تذکرہ میں قرآن فرماتا ہے:

اِذْ قَالَ لَـهُـمْ اَخُوْهُـمْ صَالِــحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ اِنِّـىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ فَاتَّقُوا اللّـٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ

 (الشعراء، 26: 142۔ 144)

’’جب اُن سے اُن کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو؟۔ بے شک میں تمہارے لیے امانتدار رسول (بن کر آیا) ہوں۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘

حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم سے فرمارہے ہیں کہ کیا تم مجھے رسول نہیں مانتے، میرا کلمہ نہیں پڑھتے، مجھ پر ایمان نہیں لاتے؟ کیا تم میری دعوت کو رد کر رہے ہو؟ تمھارا اس طرح بے خوف ہونا دراصل اللہ سے نہ ڈرنا ہے۔ پس اللہ سے ڈرا کرو، اُس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت اختیار کرو۔

قرآن مجید کے اس اسلوب سے یہ واضح پیغام مل رہا ہے کہ جب صالح علیہ السلام کی اطاعت حجت ہے تو آقا علیہ السلام کی اطاعت تو سب اطاعات سے بالا ہے۔

14۔ حضرت صالح علیہ السلام ہی کے ضمن میں سورۃ الشعراء میں دوبارہ تذکرہ آیا۔ ارشاد فرمایا:

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ۝

(الشعراء، 26: 150)

’’پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘

15۔ حضرت لوط علیہ السلام کے حوالے سے بھی قرآن مجید یہی تذکرہ کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ ِ۟الْمُرْسَلِیْنَۚۖ۝ اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ۝ اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ۝ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ۝

’’قومِ لوط نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا۔ جب اُن سے اُن کے (قومی) بھائی لوط (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو۔ بے شک میں تمہارے لیے امانتدار رسول (بن کر آیا) ہوں۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت اختیار کرو۔‘‘ (الشعراء، 26: 160۔ 163)

نظامِ رسالت کی ابتداء سے ہی اللہ رب العزت نے رسول کے حکم اور سنت و حدیث کو حجت اور اتھارٹی تسلیم کرنے کا قاعدہ مقرر فرمادیا ہے۔ جملہ انبیاء کی شان یہ ہے کہ اُن کی اطاعت واجب قرار دے دی گئی ہے تو آپﷺ کی اطاعت امتِ محمدی کے لیے کیوں واجب نہیں ہو گی

16۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی اطاعت کے حوالے سے بھی اسی طرح تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:

كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْـَٔیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ۝ اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ۝ اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ۝ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ۝

’’ باشندگانِ ایکہ (یعنی جنگل کے رہنے والوں) نے (بھی) رسولوں کو جھٹلایا۔ جب ان سے شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو؟۔ بے شک میں تمہارے لیے امانتدار رسول (بن کر آیا) ہوں۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری اختیار کرو۔‘‘ (الشعراء۔ 26: 176۔ 179)

جب اللہ کا ذکر آ رہا ہے تو یوں بھی بات ہو سکتی تھی کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی اطاعت اختیار کرو مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں دو جدا لفظ استعمال فرمائے۔ تقویٰ اور خوف اللہ کے لیے جبکہ رسول کے لیے اطاعت کرنے کا حکم ہے۔ اس سے رسول کے فرمان اور سنت و دعوت کی حجیت نکھر کر سامنے آجاتی ہے اور یہ دونوں چیزیں معنیٰ و مفہوم کے اعتبار سے لازم و ملزوم ہو کر ایک ہی ہو جاتی ہیں۔

17۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ارشاد فرما رہے ہیں:

وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ۝ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ ؕ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۝

’’ اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) واضح نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے کہا: یقینا میں تمہارے پاس حکمت و دانائی لے کر آیا ہوں اور (اس لیے آیا ہوں) کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو تمہارے لیے خوب واضح کر دوں، سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ بے شک اللہ ہی میرا (بھی) رب ہے اور تمہارا (بھی) رب ہے، پس اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔‘‘ (الزخرف، 73: 63۔ 64)

ان آیات سے واضح ہورہا ہے کہ اللہ کا عبادت اور تقویٰ اختیار کرنا ہے جبکہ اطاعت رسول کی کرنی ہے۔ عبادت رسول کی نہیں ہو سکتی، وہ اللہ کے لیے خاص ہے، اسی طرح تقویٰ بھی اللہ کے لیے خاص ہے جبکہ اطاعت کو یہاں رسول کے لیے خاص کیا گیا۔ ہر رسول یہ پیغام دے رہا ہے کہ میری اطاعت اختیار کرو اور اسے حجت جانو۔ ہر نبی نے یہ کلمات کیوں استعمال فرمائے؟ اس لیے کہ وہ بتانا چاہ رہے تھے کہ میری اطاعت کرو گے تو اسی میں اللہ کی اطاعت ہے۔ میری اطاعت کرو گے تو پھر اللہ کی عبادت اور اس کے تقویٰ کی راہ بھی نصیب ہو گی۔

اللہ کی عبادت و تقویٰ اختیار کرنا اور رسول کی اطاعت کو حجت اور واجب جان کر اپنے اوپر لازم کرنا، یہی صراط مستقیم اور سیدھی راہ ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اس صراط مستقیم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ وہ امر جسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ بیان کیا، افسوس کہ اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور کہا کہ اللہ کا حکم واجب ہے، ہم صرف اُسے حجت مانتے ہیں اور رسول کا حکم، فرمان اور حدیث و سنت ہمارے لیے حجت اور واجب نہیں (استغفرا اللہ)۔ نہ جانے ان لوگوں نے یہ عقیدہ کہاں سے لیا ہے؟ یہ عقیدہ رکھنا تو سراسر قرآن کے مقابلے میں آنا ہے۔ اس سے بڑی بد اعتقادی، گمراہی اور پورے قرآن کا انکار کرنا بھلا اور کیا ہو گا۔

قرآن مجید کی 18 آیات میں لفظاً اطاعتِ الہٰی کا ذکر نہیں ہے بلکہ ان میں صرف رسول کی اطاعت کا ذکر ہے۔ اس اسلوب سے یہ بتانامقصود ہے کہ اگر رسول کی اطاعت کرلی جائے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے

18۔ قرآن مجید کی وہ 18 آیات جن میں فقط نبی اور رسول کی اطاعت کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا ذکر الگ سے لفظاً نہیں کیا گیا بلکہ رسول اور نبی کی اطاعت میں ہی اللہ کی اطاعت کو شامل کیا گیا ہے، ان آیات میں سے آخری آیت ملاحظہ ہو۔ ارشاد فرمایا:

قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ۝ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَطِیْعُوْنِۙ۝

’’ اُنہوں نے کہا: اے میری قوم! بے شک میں تمہیں واضح ڈر سنانے والا ہوں کہ تم اﷲ کی عبادت کرو اور اُس سے ڈرو اور میری اِطاعت کرو۔‘‘ (نوح، 71: 2، 3)

حجیت حدیث و سنت کے حوالے سے اس آیت میں مزید واضحیت ہے۔ اُس آیت میں تین چیزوں کا ذکر ہے جن میں سے دو چیزیں؛ عبادت اور تقویٰ اللہ کے لیے خاص کر کے بیان کی گئی ہیں اور ایک چیز یعنی اطاعت صرف رسول کے لیے بیان کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اطاعت کو بھی اللہ کے لیے کیوں بیان نہیں کی گیا؟ اگر رسول کی اطاعت، حدیث اور حکم ہمیشہ کے لیے امت پر حجت اور واجب نہ ہوتا تو پھر قرآن کا مضمون یوں ہوتا کہ اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْہُ یعنی اللہ کی عبادت کرو، اس کا تقویٰ اختیار کرو اور اس کی اطاعت کرو۔ مگر یہاں واضح طور پر فرمادیا کہ؛  اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَطِیْعُوْنِۙ عبادت اور تقویٰ اللہ کا اور اطاعت میری (اللہ کے رسول) اختیار کرو۔ ہر مقام پر یہی اسلوب اختیار کیا۔

الغرض قرآن مجید میں مذکور کسی بھی نبی اور رسول کے ذکر میں اس حوالے سے تضاد اور دوہرا پن نہیں ہے۔ قرآن مجید ان چیزوں سے پاک ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پورے قرآن کی تعلیم ہی یہی ہے اور اللہ رب العزت کا حکم بھی یہی ہے کہ رسول کا حکم اور اطاعت حجت ہے۔ اسی میں اللہ کی اطاعت بھی ہے، اس کا تقویٰ بھی ہے اور اسی میں ایمان بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کی زبان سے امت کو یہی پیغام دیا ہے اور ہر جگہ اسی تصور پر توجہ مرکوز کروائی ہے۔

لفظِ اطاعت کے ذیل میں مذکور قرآن مجید کی 38 آیات میں سے 20 آیات میں اطاعتِ الہٰی اور اطاعتِ رسول کے اکٹھے ذکر سے یہ سمجھانا مقصود تھا کہ اطاعتیں دو ہیں: اللہ کی اطاعت الگ ہے اور اطاعتِ رسول الگ ہے۔ اس اسلوب کو اس لیے اختیار کیا تا کہ کسی کو التباس اور شبہ نہ رہے کہ صرف اللہ ہی کی اطاعت ہے۔ رسول کی اطاعت بھی اُسی طرح اپنی جگہ واجب، لازم اور مستقل ہے جس طرح اللہ رب العزت کی اطاعت اپنی جگہ مستقل ہے۔ 20 آیات میں دو اطاعتوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا تاکہ سمجھ میں آجائے کہ اطاعتیں، حجتیں اور اتھارٹیز اصلاً دو ہیں۔

18 آیات میں صرف رسول کی اطاعت کا ذکر ہے اور لفظاً اطاعتِ الہٰی کا ذکر نہیں ہے، اس اسلوب سے یہ بتانا مقصود تھا کہ یہ بات واضح ہو کہ اگر رسول کی اطاعت کر لی تو یہ بھی مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ کے مصداق اللہ کی اطاعت ہوگئی۔

اطاعتِ رسول کے حکم پر مبنی آیات سے چند اصول و قواعد کا استنباط

قرآن مجید کی وہ 18 آیاتِ کریمہ جن میں فقط رسول کی اطاعت کا ذکر ہے، ان آیاتِ کریمہ سے درج ذیل چند اصول و قواعد کا استنباط ہوتا ہے:

1۔ ان آیات کریمہ میں اللہ کے لیے عبادت اور تقویٰ کا ذکر کرنا اور اطاعت کے لیے صرف اطاعتِ رسول پر زور دینے سے یہ ثابت ہوا کہ رسول کی اطاعت بھی ایک مستقل اطاعت ہے، یہ عارضی اطاعت نہیں ہے۔ آیات میں أطیعون کہہ کر صرف رسول کی اطاعت پر ارتکاز کیا تا کہ پتہ چلے کہ رسول کی اطاعت عارضی نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت کی طرح مستقل اطاعت ہے کیونکہ جب رسول ہی کی اطاعت اللہ کی اطاعت بن رہی ہے تو وہ عارضی شے نہیں ہو سکتی۔

2۔ ان آیات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول کی اطاعت؛ اطاعتِ مطلقہ ہے۔ یہ مشروط نہیں ہے۔ اگر رسول کی اطاعت مشروط اور جزوی ہوتی، بعض امور میں ہوتی اور بعض میں نہ ہوتی تو فقط رسول کی اطاعت پر زور نہ دیا جاتا۔ اس لیے کہ اگر یہ جزوی اور مشروط اطاعت ہوتی تو معاذ اللہ یہ ناقص اور ادھوری اطاعت ہوتی۔

رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی طرح مطلق، مستقل اور دائمی ہے۔ اُس میں اختلاف، تنازعہ، استثناء اور توقیت (وقت) کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو شان اللہ کی اطاعت کی ہے، حکماً وہی شان آپﷺ کی اطاعت کی ہے

3۔ فقط رسول کی اطاعت کے حکم پر خصوصی طور پر توجہ مرکوز کروانے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول کی اطاعت مطلق، کامل اور ہر چیز پر جامع ہوتی ہے۔

4۔ اس سے یہ امر بھی ثابت ہوا کہ رسول کی اطاعت کا تعلق کسی ایک خاص زمانے کے لیے مخصوص نہیں بلکہ سارے زمانوں پر اس کا وجوب اور لزوم قائم ہے۔ اس کی حجیت تمام زمانوں پر قیامت تک واجب ہے اور فقط ایک وقت یا ایک زمانہ کے ساتھ مختص نہیں ہے۔

5۔ فقط ر سول کی اطاعت پر ارتکاز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اصل وجوب میں کوئی استثناء نہیں ہے اور رسول کے حکم سے اختلاف کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

6۔ صرف رسول کی اطاعت پر زور دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جب رسول کا حکم آ جائے تو امتی کا حق نہیں کہ اُس سے اختلاف کرے اور اُس سے تنازعہ پیدا کرے۔ چونکہ رسول کے حکم کو نہ ماننا، اللہ کے حکم کا انکار۔ ۔ ۔ رسول کے حکم سے اختلاف کرنا، حکمِ الٰہی کے خلاف۔ ۔ ۔ رسول کے حکم کو حجت نہ ماننا، اللہ کے حکم کو رد کرنا ہے۔ پس یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ رسول کے حکم، حدیث اور سنت کو اگر واجب سمجھنے میں تامل کرو گے تو اللہ کا بھی انکار ہو جائے گا اور پورے دین کا انکار ہو جائے گا۔

7۔ یہ اسلوب اطاعت رسول اور حدیث و سنت رسول کی حجیت واجبہ، حجیت کاملہ اور حجیت شاملہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں حکم آیا کہ

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ.

’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور اُن کی جو اُن میں سے اولی امر ہیں۔‘‘ (النساء، 4: 59)

تو یہاں رسول کے لیے لفظ اَطِیْعُوا کو دوبارہ بیان کیا کہ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ رسول کی اطاعت کرو) اور جب اُولِی الْاَمْرِ کی باری آئی تو اُن کے لیے اَطِیْعُوا کے حکم کا تکرار نہیں کیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ وأطیعوا أولی لأمر منکم۔ اس سے معلوم ہوا کہ اولی الامر کی اطاعت کو مستقل اور مطلق اطاعت نہیں بنایا بلکہ اُن کی اطاعت کو اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط کیا اور ان کے تابع رکھا کہ اگر اولی الامر، حکام، امراء، ائمہ، فقہاء اور علماء اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کے تابع چلیں تو اُن کے اُس حکم کی اطاعت واجب ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت میں نہ ہو۔ اگر ان کا حکم اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی متابعت میں ہو تو پھر اُن کی اطاعت واجب ہے اور اگر اُن کا حکم اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی معصیت اور خلاف ورزی میں ہو تو اُن کی اطاعت واجب نہیں۔

پس معلوم ہوا کہ اولی الامر کی اطاعت مشروط ہے، مطلق نہیں۔ اسے اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ پر منحصر کر دیا گیا ہے۔ گویا یہ اللہ اور رسول کی اطاعت کی ایک فرع ہے، اگر اُسی درخت پر یہ شاخ لگے تو اس کا پھل کھاؤ۔ اگر اُس درخت سے ہٹ جائے تو پھینک دو۔ مگر رسول کی اطاعت کے لیے اَطِیْعُوْا کے حکم کو اسی طرح دوبارہ بیان کیا جس طرح اللہ کے لیے اَطِیْعُوْا کا حکم آیا ہے۔ کیونکہ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی طرح مطلق، مستقل، دائمی اور کامل و شامل ہے اور اُس میں اختلاف، تنازعہ، استثناء اور توقیت (وقت) کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو شان اللہ کی اطاعت کی ہے، حکماً وہی شان حضور نبی اکرمﷺ کی اطاعت کی ہے۔

قرآن مجید میں جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے اطاعت کو واجب ٹھہرانے کے اسلوب سے ثابت ہوا کہ رسول کی حدیث و سنت کی ایک تاریخی اور ثقافتی اہمیت ہے۔ اس اسلوب کو حجت اور اتھارٹی نہ ماننا پورے قرآن مجید اور اس میں مذکور تمام انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کی تاریخ اور ان کی تعلیمات کا انکار ہے

8۔ ان آیات کریمہ سے ایک فائدہ یہ بھی برآمد ہوا کہ اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ لازم و ملزوم ہیں جو انھیں جدا کرے گا، وہ کفر کرے گا۔ ۔ ۔ جو ایک کا انکار کرے گا، اُس نے لازماً دوسرے کا انکار کر دیا۔ ۔ ۔ جس نے اللہ کی اطاعت کا انکار کیا، وہ خود بخود رسول کی اطاعت کا انکاری ہوگیا۔ ۔ ۔ کیونکہ اللہ کی اطاعت، رسول کے اسوہ اور سنت کے بغیر نہیں ملتی۔ اس لیے کہ بندوں نے کچھ بھی براہ راست اللہ سے وصول نہیں کیا بلکہ رسول کے واسطے سے وصول کیا ہے۔ اسی طرح جس نے رسول کی اطاعت کا انکار کر دیا، اُس نے گویا خود بخود اللہ کی اطاعت کا انکار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ النساء میں جہاں اللہ کی اطاعت، رسول کی اطاعت اور اولی الامر کا ذکر آیا، وہاں اس آیت میں یہ بھی بیان ہوا کہ اگر تمہارے درمیان اختلاف اور تنازعہ ہو جائے تو:

فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ.

 (النساء، 4: 59)

’’اگر تمہارے درمیان تنازعہ ہو جائے اختلاف ہو جائے تو پھر حتمی فیصلے کے لیے اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو۔‘‘

اختلاف ہونے کی صورت میں حتمی فیصلے کے لیے اولی الامر کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اولی الامر سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ اولی الامر کی رائے کے مقابلے میں دوسری رائے ہو سکتی ہے۔ اہل سنت میں چار فقہی مذاہب حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی بنے۔ ائمہ اربعہ کا بعض مسائل پر آپس میں ایک دوسرے سے اختلاف ہوا، ہر ایک نے اپنی دلیل کی بنیاد قرآن و سنت پر رکھی۔ مگر اُن میں سے کوئی بھی اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم سے اختلاف نہیں کر سکتا۔ ہر ایک کو اپنی بات درست ثابت کرنے کے لیے استدلال حضور نبی اکرمﷺ ہی کی حدیث اور سنت سے کرنا ہے۔ ہر امام نے رسول ہی کے حکم پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے۔

ان تمام امور سے یہ چیز ثابت ہو گئی کہ رسول کی اطاعت؛ اطاعتِ الٰہی کی طرح دائمی، مستقل، مطلق اور حجتِ کاملہ و شاملہ ہے اور یہ تصور کرنا کہ صرف قرآن کافی ہے اور سنتِ رسول کی کوئی حجیت نہیں، ایسا کہنا سراسر قرآن سے بغاوت اور قرآن مجید کی تمام تعلیمات کا انکار ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ کی سنت اور حکم کو اللہ کے حکم سے جدا چیز سمجھنا یہ محض قرآن مجید کی تعلیمات کا انکار ہے۔ اس کی کوئی گنجائش اُس قرآن میں نہیں ہے جس قرآن کو یہ لوگ کافی اور حجت قرار دیتے ہیں۔ قرآن ایسی تعلیم نہیں دیتا۔ قرآن تو جا بجا کہتا ہے کہ قرآن اور سنت حجت ہیں۔ اللہ اور اُس کے رسول کا حکم حجت ہے۔ اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت ایک ہے۔ اور رسول کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے جو قیامت تک قائم و دائم ہو گی۔

(جاری ہے)