تزکیہ و احسان اور تصوف و سلوک کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم کے معمولات
دارالافتاء تحریک منہاج القرآن، زیر نگرانی: مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی
سوال: تزکیہ و احسان اور تصوف و سلوک کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ، صحابہ کرام اور تابعینِ عظام رضی اللہ عنہم کے معمولات کے بارے میں آگاہ فرمائیں؟
جواب: یہ اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ روٹی تب کھائی جاتی ہے جب بھوک ہو، دوا اس لیے استعمال کی جاتی ہے تاکہ شفاء یابی ہو لیکن اگر بھوک ہی نہ ہو تو کھانے کی طلب نہیں رہتی اور بیماری ہی نہ ہو تو دوا کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لیے اگر انسان پہلے ہی سے نفس کی آلودگیوں اور باطن کی آلائشوں سے پاک و مبرا ہو تو اسے تزکیہ و تصفیہ کے لئے سالکِ طریقت بننے کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے روحانی مقام کی ابتداء بھی طریقت و ولایت کے انتہائی مقام سے ماوراء تھی لیکن چونکہ آپ ﷺ نے امت کے لئے ہر پسندیدہ حکم کا عملی نمونہ بھی پیش کرنا تھا اس لیے آپ ﷺ نے سلوک و احسان کے اصول وضع فرمائے اور اپنی عملی زندگی میں ان کو نافذ کر کے دکھایا۔
تزکیہ و احسان اور آپ ﷺ کے معمولات
حضور نبی کریم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ بنی نوع انسان کے لئے کامل نمونہ ہے۔ دین کے ظاہری پہلو، شریعت کی تعلیمات و احکامات کی بات ہو یا دین کے باطنی پہلو اور طریقت و احسان کی بات ہو یہ سب حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت مبارکہ سے ثابت شدہ ہیں۔ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ خشوع و خضوع، زہد و ورع، خشیتِ الٰہٰی، محبت و معرفت الٰہی کی عظیم مثالی کيفیات سے بھری پڑی ہے۔ آپ ﷺ راتوں کو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ راتوں کو اتنی کثیر عبادت کرتے کہ آپ ﷺ کے پاؤں مبارک میں ورم آ جاتا۔ اتنی کثیر عبادت کے باعث صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ اتنی مشقت کیوں فرماتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے بخشش کا وعدہ فرما رکھا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
(بخاری، الصحيح:207، رقم :1130، کتاب التهجد، باب قيام النبی ﷺ حتی ترم قد ماه)
ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ ایک مردہ بکری کے قریب سے گزرے اور فرمایا : دیکھو یہ مردار اس درجہ ذلیل و خوار ہے کہ کوئی بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ حق تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس مردار سے بھی زیادہ ذلیل و خوار ہے اور پھر فرمایا : دنیا کی صحبت تمام گناہوں کی سردار ہے، دنیا برباد شدہ لوگوں کا گھر اور مفلسوں کا مال ہے۔
(ترمذی، الجامع :635 رقم : 2321، کتاب الزهد، باب ما جاء فی هوان الدنيا علی اللہ عزوجل)
تزکیہ و احسان اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمولات
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ احسان و تصوف کے جملہ اصول و ضوابط صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عملی زندگیوں میں بدرجہ اتم پائے جاتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم براہ راست حضور نبی اکرم ﷺ سے آدابِ طریقت سیکھتے تھے اور آقا ﷺ اپنی خاص تربیت سے انہیں سلوک و طریقت کی تعلیم دیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیثیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے شیخِ طریقت اور مرشدِ کامل کی تھی۔ تصوف و طریقت کا پہلا قدم نسبتِ ارادت کا قائم کرنا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی صحابی بھی ایسا نہ تھا جس نے با ضابطہ طور پر نبی اکرم ﷺ کے دستِ اقدس پر بیعت نہ کی ہو۔ حضرت عتبہ بن عبد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’میں نے رسول اللہ ﷺ سے سات بیعتیں کیں۔ پانچ بیعتیں اطاعت پر اور دو بیعتیں محبت پر۔ ‘‘
( کنز الاعمال، 1: 326، رقم :1524)
طریقت کی راہ میں شیخِ طریقت اور مرید کے درمیان کچھ آداب ہوتے ہیں جن کو بجا لائے بغیر کوئی مرید اپنے شیخِ طریقت سے کسی قسم کا فیض حاصل نہیں کر سکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے مرشدِ کامل حضور نبی اکرم ﷺ کے آدابِ محبت سے خوب واقف تھے۔ روایات میں ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کمال درجہ کے ادب اور تواضع و انکساری کا اظہار کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی اپنے چہروں اور آنکھوں پر مل لیتے، آپ ﷺ کا لعابِ دہن نیچے نہ گرنے دیتے بلکہ اپنے ہاتھوں اور چہرے پر مل لیتے تھے۔ آپ ﷺ کی بارگاہ میں اپنی آوازیں پست رکھتے، حصولِ برکت کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کی دست بوسی اور قدم بوسی کرتے تھے۔ تصور شیخ باندھنا بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت تھا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اپنے محبوب آقا ﷺ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ کائنات کی تمام نعمتوں سے محبوب تر عمل حضور نبی اکرم ﷺ کی صحبت و محبت کو گردانتے تھے۔ انہیں ہر قسم کی عبادت اور ریاضت سے بڑھ کر اگر کوئی عمل عزیز تھا تو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں رہنا تھا۔
عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ کرام میں ذکر و فکر کی مجالس کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا۔ پھر لباس صوف پہننا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا۔ اکثر صحابہ اون کا کھردرا لباس پہنتے تھے۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’بے شک میں نے ستر بدری صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صوف کا لباس پہنتے ہوئے دیکھا۔ ‘‘
(شهاب الدين سهروردی، عوارف المعارف، 2: 293)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول فاقہ کشی، قلتِ کلام، کثرتِ عبادت اور گریہ و زاری تھا۔ یہ تمام اوصاف ان کی زندگیوں میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کثرت سے روزے رکھنے والے اور راتوں کو قیام کرنے والے تھے۔
اس لیے صوفیاء کرام کے یہ تمام معمولات، عبادات و ریاضت و مجاہدات کے ذریعے روحانی مشقتیں کرنا، یہ سنتِ صحابہ کی اتباع کا نتیجہ تھا اس لیے یہ کہنا کہ ان کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے، سرا سر غلط ہے۔
احسان و تصوف اور تابعین عظامؓ کے معمولات
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زیر اثر تابعین میں بھی تصوف و احسان کے جملہ اصول و ضوابط بدرجہ اتم موجود تھے۔
óحضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو ان کے بلند درجہ معمولاتِ احسان و تصوف کی بنا پر بارگاہ رسالت مآب ﷺ سے غائبانہ طو رپر خیر التابعین کا لقب عطا ہوا۔ (مسلم، الصحيح : 1088 رقم :224، کتاب الفضائل، باب فضائل اويس قرنیؓ)
آپ رضی اللہ عنہ دن کو روزہ رکھتے اور راتوں کو کثرتِ عبادت کرتے۔ حلقہ ذکر میں شرکت فرماتے۔ زہد و ورع کا یہ عالم تھا کہ گھر بار، کھانے پینے بلکہ تمام دنیاوی چیزوں سے بے نیاز تھے۔ گرد آلود بال دیکھ کر بچے مذاق اڑاتے، پتھر مارتے مگر آپ رضی اللہ عنہ کے عالم کيف و مستی اور بے خودی میں فرق نہ آتا۔
(شيخ عبدالقادر جيلانیؓ، عنية الطالبين :907)
óامام زین العابدین رضی اللہ عنہ زہد و عبادت کا پیکر تھے۔ شبانہ روز ایک ہزار نوافل پڑھتے اور آخر دم تک اس معمول میں فرق نہ آنے دیا۔ اسی عبادت و زہد کی بنا پر آپ کا لقب زین العابدین مشہور ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’کچھ لوگ اللہ کی عبادت خوف سے کرتے ہیں، یہ غلاموں کی عبادت ہے، کچھ لوگ لالچ سے عبادت کرتے ہیں، یہ تاجروں کی عبادت ہے اور ایک قوم اللہ کی عبادت شکر کے طور پر کرتی ہے یہ آزاد بندوں کی عبادت ہے۔ ‘‘(ابن الجوزی، صفةالصفوة : 67۔ 71)
óحضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے زہد و ورع کا عالم یہ تھا کہ ہر وقت چہرے سے رنج و غم کی کيفیت عیاں ہوتی، خشیتِ الٰہی کا غلبہ اس قدر تھا کہ ہر آن لرزہ براندام رہتے۔ یونس بن عبید رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جب حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ آتے تو معلوم ہوتا کہ اپنے کسی عزیز کو دفنا کر آ رہے ہیں۔ جب بیٹھتے تو یوں معلوم ہوتا کہ ایسے قیدی ہیں جن کی گردن مارے جانے کا حکم دیا جا چکا ہے اور جب دوزخ کا ذکر کرتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا کہ دوزخ صرف انہی کے لئے بنائی گئی ہے۔
óحضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جس قدر دنیا جمع ہو گی اسی قدر تیرے دل سے آخرت کا فکر نکل جائے گا۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا تباہی کس چیز میں ہے؟ فرمایا : مردہ دلی میں۔ عرض کیا : مردہ دلی کیا ہے؟ فرمایا دنیا کی رغبت۔
ó حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ بدن کے لئے غذا دنیا سے حاصل کرو اور دل کے لئے غذا آخرت سے لو۔
(امام غزالی، مکاشفة القلوب : 238)
آپ ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین کرام رضی اللہ عنہم کے مذکورہ اعمال و فرامین سے یہ امر عیاں ہے کہ آج تصوف و سلوک کی اصطلاح کے تحت انجام دیے جانے والے جملہ اعمالِ صالحہ اِن مبارک ہستیوں کے معمول کا حصہ تھے۔
سوال :زرِ بیعانہ کے شرعی احکام کیا ہیں؟
جواب: زرِ بیعانہ اس رقم کو کہا جاتا ہے جو کسی طے پانے والے سودے کو پابند ٹھہرانے یا طے شُدہ معاملہ فروخت کی توثیق کے لیے ادا کی جائے یا طے شدہ زرِ ثمن (قیمت) کا کچھ حصّہ جو تکمیلِ معاملہ سے پہلے بطور پیشگی دیا جائے۔ شریعتِ مطاہرہ نے اسے جائز بتایا ہے۔ اس کے احکام درج ذیل ہیں:
اگر خرید و فروخت مکمل نہیں ہوئی، لیکن مُشْتَرِی (خریدار) اور بائِع (فروخت کنندہ) نے آپس میں وعدہ کرلیا کہ فلاں تاریخ کو ہم سودا کرلیں گے اور اس کے لیے ایڈوانس کچھ رقم خریدار نے بائع (فروخت کنندہ) کو دے دی، مگر مقررہ تاریخ پر خریدار نے بائع سے سودا نہیں کیا تو بائع کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بیعانہ کی رقم ضبط کرلے۔ اسی طرح اگر بائع نے سودا دینے سے انکار کردیا تو مشتری کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بیعانہ کی ادا شدہ رقم سے زیادہ رقم بائع سے وصول کرے۔ یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ بغیر کسی عذر کے وعدہ خلافی کرنا اور مقررہ تاریخ پر سودا نہ کرنا جائز نہیں ہے، لہذا ایسا کرنے والے پر وعدہ خلافی کرنے کا گناہ ہوگا اور فریقین کو قانونی چارہ جوئی کا بھی حق حاصل ہے۔ مگر بیعانہ کی رقم بائع کے پاس امانت ہے اور اس پر امانت کے احکام جاری ہوں گے۔
سوال: کیا ایسا کھیل جائز ہے جس میں ہارنے والا‘ جیتنے والے کو کچھ دینے کا پابند ہو؟
جواب: میر سید شریف جرجانی فرماتے ہیں:
القمار: هو أن يأخذ من صاحبه شيئًا فشيئًا في اللعب.
ہر وہ کھیل جس میں یہ شرط ہو کہ ہارنے والے کی کوئی چیز جیتنے والے کو دی جائے گی، قمار (جوا) ہے۔
(جرجانی، التعريفات، 1: 229)
عربی زبان کی ڈکشنری، المنجد فی اللغہ میں قمار کا معنیٰ یوں لکھا ہے:
ہر وہ کھیل جس میں یہ شرط لگائی جائے کہ غالب (جیتنے والا) مغلوب (ہارنے والا) سے کوئی چیز لے گا‘ خواہ تاش کے ذریعے ہو یا کسی اور چیز کے ذریعے۔ (لوئيس معلوف، المنجد، 653)
قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
’’ اے ایمان والو! بے شک شراب اور جوأ اور (عبادت کے لیے) نصب کیے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لیے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔ ‘‘ (المائدۃ، 5: 90)
درج بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے شراب نوشی، جوئے، بت پرستی اور فال کے تیروں کو ناپاک اور شیطانی اعمال قرار دیا ہے۔ اس لیے جب کھیل یا دیگر کسی معاملے میں یہ شرط عائد کردی جائے کہ ہارنے والا‘ جیتنے والے کو کوئی چیز دے گا تو ایسی شرط جوئے کے زمرے میں آنے کی وجہ سے ممنوع ہے۔ اگر کوئی تیسرا فریق جیتنے والے کو انعام کے طور پر دے تو یہ جائز اور درست ہے۔