نیا سال: خود احتسابی اور آئندہ کا لائحہ عمل

ساحل کاشمیری

نیا سال: خود احتسابی اور آئندہ کا لائحہ عمل

ساحل کاشمیری

اس حقیقت سے کوئی مفر نہیں کہ وقت کبھی نہیں ٹھہرتا، پہیۂ حیات ہر لحظہ رواں دواں رہتا ہے۔ قدرت کا نظام یہی ہے کہ جو آیا ہے اُسے جانا ہی ہے، چاہے وہ انسان ہو یا وقت ۔جس طرح وقت اپنی رفتار سے گزرتا چلا جارہا ہے، اسی طرح حیاتِ انسان کے دن اور سال بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔انسان جس لمحہ دنیا میں آتا ہے، اسی وقت سے ہی اس کی متعینہ عمر کے کم ہونے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔گزرا ہوا سال حسیں یادیں،خوشگوار لمحات و واقعات، تلخ تجربات اور غم و اندوہ سے بھرپور حادثات ساتھ لیے رخصت ہوجاتا ہے اور حیات ِ انسانی کےبے ثبات وعدم پائیدار ہونے کا پیغام دے جاتا ہے۔سال ختم ہوتا ہے تو حیاتِ مستعار کی بہاریں بھی ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی معینہ مدتِ زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔

سال ایک فرد کی انفرادی و نجی زندگی کا بہت بڑا دورانیہ ہوتا ہے۔ ایک سال کے اندر انسان کئی منصوبے،ان گنت ارادے اورکتنے ہی اندازے ترتیب دیتا ہے مگر سال کے اختتام پر سوچتا ہے کہ ان میں سے کتنے پایہ تکمیل کو پہنچے،کتنے ہنوز زیرِ تکمیل ہیں اور کتنے ہیں جو محض ہوا میں تحلیل ہوکر آرزووْں ،خواہشات اور امنگوں کی صورت اختیار کر کے وقت کی دبیز تہہ میں دب کر قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ان میں سے کچھ کی کسک سینے میں چبھتی رہتی ہے اور کچھ نسیان کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

سال 2024ء ہم سے رخصت ہوا اور سال 2025ء کو ہم خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ ہر نیا آنے والا سال درحقیقت خود احتسابی اور اپنے اعمال و احوال پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور دین و دنیا دونوں حوالوں سے گزشتہ سال کی سرگرمیوں پر غور کرنے اور آئندہ سال میں اپنے آپ کو بہتر بنانے کے عزم کے ساتھ اس کی تیاری کرنے کی طرف راغب کرتا ہے۔

نئے سال کا آغاز ہمیں دو کاموں کی طرف متوجہ کرتا ہے:

1۔خود احتسابی 2۔آئندہ کا لائحہ عمل

خود احتسابی

انگریزی سال 2024ء اختتام پذیر ہو چکا اور 2025ء کا آغاز ہو چکا ہے۔ بطور مسلمان ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری زندگیوں سے ایک سال کم ہو گیا ہے، جب کسی کی دولت کم ہونے لگتی ہے تو وہ اس پر خوشی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ مغموم ہوتا ہے مگر مسلمان کی خوشی اور اُس کے غم کا انحصار اُس کے اعمال پر ہوتا ہے۔ اعمال اچھے ہیں تو یہ معاملہ باعث مسرت و شادمانی ہے اور اگر اعمال وعبادات کی بجا آوری میں کوتاہی ہے تو یہ غم اورآزار والی کیفیت اور لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں ہر لحظہ اپنا احتساب کرنا ہے کہ ہمارے بیتے ہوئے لمحوں میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کتنی ہے اور نافرمانی کتنی ہے؟نفس کے محاسبہ کی یہ فکر تکبر، غفلت اور گمراہی سے بھی بچاتی ہے۔

ہمیں بدلتے ہوئے ماہ و سال میں اس بات کا محاسبہ کرنا ہے کہ ہم نے اللہ اوراُس کے بندوں کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو کس حدتک نبھایا؟ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا کتنا خیال رکھا، اللہ سے جو عہد نماز پنجگانہ کی ادائیگی کی صورت میں کررکھا ہے ہم نے کس حد تک اس عہد کی پابندی کی اور وہ فرائض جو اللہ کی طرف سے ہمارے ذمہ ہیں انہیں کس حد تک ادا کر سکے؟ ہم کس حد تک اللہ کے دئیے ہوئے وقت اور مہلت کا مثبت اور بہتر استعمال کر سکے اور بندوں کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو نبھا سکے؟

مومن کی یہ شان بیان کی گئی ہے کہ اُس کا آنے والا لمحہ گزرے ہوئے لمحہ سے بہتر ہوتا ہے، اسی میزان پر ہمیں اپنے روز و شب کو پرکھنا چاہیے اور پھر نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ ہمارے گزرے ہوئے لمحے آنے والے لمحوں سے کس اعتبار سے بہتر اور نفع بخش ہیں؟ اگر ہم دیانت داری کے ساتھ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں اور ہمیں اس محاسبہ کے دوران اپنے اعمال میں کچھ کوتاہیاں نظر آتی ہیں تو پھر تائب ہونے اور اصلاح کے لیے رتی برابر بھی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

حضور نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے :

حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا۔

(ترمذی، 4: 1247، ابواب الزہد)

تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمھارا حساب کیا جائے۔

حضور نبی اکرم ﷺنے مسجد سے نکلتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا کتنا زندہ رہنے کی توقع ہے؟ عرض کیا کہ ایک جوتا تو پہن چکا ہوں دوسرے کی خبر نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا تم نے تو بہت لمبی امید باندھ لی اور پھر ارشاد فرمایا کہ مجھے تو آنکھ جھپکنے کی بھی توقع نہیں کہ اتنی مہلت بھی ملے گی کہ نہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعودg سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے اس وقت تک نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ لیاجائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا؟ اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا؟ اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا؟ اور اس کے علم کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اس پر کہاں تک عمل کیا۔‘‘

óحضرت علیg سے روایت ہے کہ

من استوی یوماہ فھو مغبون ومن کان آخر یومہ شرا فھو ملعون ومن لم یکن علی الزیادۃ فکان علی النقصان ومن کان علی النقصان فالموت خیرلہ۔

 (مسندالفردوس للدیلمی، 3: 611)

’’جس شخص کے دو دن یکساں گزرے، وہ نقصان میں ہے، جس کا کل اس کے آج سے بہتر نہ ہو، وہ ملعون ہے، جس کے عمل میں زیادتی نہ ہوئی ہو، وہ گھاٹے میں ہے اور جس کے عمل میں کمی ہوگئی ہے، اس کے لیے مرنا ہی بہتر ہے۔‘‘

óحضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں:’’ اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزر گیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزر گیا۔‘‘

óامام رازیؒ فرماتےہیں:’’ میں نے اس نقصان کو برف فروش کی صدا سے پہچانا جو بآواز بلند پکارتا چلا جارہا تھا کہ لوگو! میرا سرمایہ پگھلتا چلا جارہا ہے، کوئی تو خریدلو۔

نیا سال ہمیں دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے ؟ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئیں۔

نئے سال کا لائحہ عمل:

اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل پر توجہ دینی ہوگی۔دیکھنا ہوگا کہ ہماری کیا کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور یا کم کیا جاسکتا ہے؟ انسان خطا کا پتلا ہے، اس سے غلطیاں تو ہوسکتی ہیں مگر کسی غلطی کا ارتکاب اتنا برا نہیں جتنا اس غلطی کو دہراتے چلے جانا اور اس سے سبق حاصل نہ کرنا برا ہے۔ ذیل میں چند نکات بیان کررہے ہیں جن کو اپناکر ہم آنے والے سال کو کامیاب اور سود مند بناسکتے ہیں:

1۔مقصد کا تعین

ہمارا مقصد روزِ اول سے ہی ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے۔کیونکہ یہ انسان کی حیات،جذبات، خیالات اور اعمال کو ایک خاص سمت اور راستہ فراہم کرتا ہے۔ جب انسان واضح، ٹھوس اور غیر متزلزل مقصد رکھتا ہے تو وہ اپنی جدوجہد اور کاوشیں صحیح راستے پر صرف کرتا ہے اور قدم بہ قدم کامیابی و کامرانی کی طرف بڑھتا ہے۔بہترین زندگی وہ ہی ہے جو بامقصد ہے۔ اگر کوئی مقصد متعین نہیں ہے تو زندگی سالوں اور صدیوں کی بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس لیے کہ بے مقصد زندگی سے بامقصد موت بہتر ہے۔اس لئے ہمیں اپنی زندگی کو بامقصد بنانے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔

2۔ وقت کی قدر

ہر انسان کے لئے اس کا قیمتی سرمایہ اس کا وقت ہے اور یہ ایک ایسا سرمایہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ انسان اگر اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے تو وہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ وقت کا بہترین استعمال انسان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارتاہے اور انسان کو اپنی ذاتی ترقی کے ساتھ ساتھ مقاصد کے حصول میں ترغیب دیتا ہے۔ جب انسان دیکھتا ہے کہ اس کا وقت ایک خاص اور صحیح سمت میں گزر رہا ہے تو اسے مزید محنت اور جدوجہدکرنے کی تحریک ملتی ہے۔اسلام میں وقت کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَالْعَصْرِ

’’قسم ہے زمانے کی۔‘‘

یہ آیت ہمیں وقت کی اہمیت بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر وقت (زمانے) کی قسم کھارہا ہے تو واقعتاً یہ ہمارے لیے ایک عظیم نعمت ہے اور اس کا ضیاع انسان کےلیے خسارے کا باعث ہے۔وقت کا بہترین استعمال انسان کی کامیابی کی ضامن ہے۔ وقت کا ضیاع صرف حسرت و پچھتاوے اور ندامت کا باعث ہے۔ جو لمحہ ایک بار ہاتھ سے نکل گیا، وہ دوبارہ ہاتھ میں نہیں آسکتا، لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان آغاز ہی میں انجام کو مدِنظر رکھے، تاکہ حسرت و پچھتاوے کی نوبت نہ آئے۔

3۔ مؤثر منصوبہ بندی

موثر منصوبہ بندی انسان کے مقصد و نظریہ کو حقیقت میں بدلنے کے لئے ایک عملی راستہ فراہم کرتی ہے۔اس کے ذریعے ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اپنے مقصد تک پہنچ سکتے ہیں اور اس کے لئے کیا کیا اقدامات اٹھانے پڑیں گے۔وقت کا موثر استعمال کامیاب منصوبہ بندی کا اہم حصہ ہے۔ اپنی منزل کو حاصل کرنے کے لئے وقت کا بہترین استعمال کارآمد ثابت ہوتاہے۔اپنے نظریے کو ہمیشہ غیرمتزلزل اور حکمت عملی کو لچکدار رکھنا چاہیے تاکہ مقصد کی طرف پیش رفت کرتے ہوئے ہر طرح کے مراحل و مواقع پر جدوجہد رکنے نہ پائے بلکہ جاری رہے۔ جب انسان اپنی زندگی کے لئے ایک واضح اور منظم منصوبہ تیار کرتا ہے، تو وہ اپنی توانائیوں، وقت، اور وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی طرف کامیابی سے بڑھتا ہے۔یہاں پر ایک بہترین اور موثر منصوبے سے مراد صرف ایک ذہنی خاکہ نہیں بلکہ عملی اقدامات اور حکمت عملیوں کا مجموعہ ہے۔ اپنی پیشرفت کو باقاعدہ چیک کیا جانا چاہیےتاکہ کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں بندہ کچھ نیا سیکھ سکے اور مزید بہتری کے لئے جدوجہد کرے۔

4۔ تعمیرِ شخصیت

شخصیت کی تعمیر کا عمل انسان کی باطنی صفات، عادات، رویوں اور زندگی کے تجربات کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایک مضبوط اور مثبت شخصیت انسان کو اپنے مقصد کے حصول میں مدد دیتی ہےاور اس کی زندگی کو نہ صرف نجی بلکہ معاشرتی سطح پر بھی کامیاب اور مؤثر بناتی ہے۔ شخصیت کی تعمیر کا پہلا قدم خود شناسی ہے۔ انسان سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرے کہ اس کی خوبیاں ، خامیاں ، کمزوریاں، خواہشات اور مقاصد کیا کیاہیں ۔یہ عمل انسان کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے میں مدد دیتا ہے اور وہ دوسروں سے متاثر ہونے کے بجائے اپنی معاشرتی و مذہبی اقدار کے اندر رہتے ہوئے بہترین فیصلہ کرتا ہے۔ایک انسان کو ہمیشہ مسلسل سیکھنے اور ترقی کرنے کے لئے تگ و دو کرنی چاہیے۔ وہ جتنا زیادہ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا نظریہ وسیع اور گہرا ہوتا ہے، جو اسے زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے بہتر فیصلے کرنے میں مدد دیتا ہے۔

تعمیر ِشخصیت میں خود اعتماد ی کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ خود اعتمادی، جستجوئے من اور صلاحیتوں کو نکھارنے کا سبب بنتی ہے۔ زندگی میں مشکلات، ناکامیاں اور چیلنجز آتے ہیں لیکن ایک مضبوط شخصیت وہ ہوتی ہے جو ان کا مقابلہ ثابت قدمی کے ساتھ کرتی ہے۔

5۔ احساس ذمہ داری

احساس ذمہ داری بھی انسان کی ذاتی اور معاشرتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ احساس انسان کو زیادہ مستحکم، متحرک اور مؤثر بناتا ہے، جس سے وہ اپنی زندگی کے مقاصد کی طرف کامیابی سے بڑھتا ہے۔جب انسان اپنے اعمال کے نتائج کے لئے خود کو ذمہ دار سمجھتا ہے، تو وہ اپنے کام اور جدوجہد میں مزید تیزی اور پائیداری لے آتا ہے۔ یہ احساس فرد کو معاشرتی تبدیلی لانے، دوسروں کی مدد کرنے اور دنیا کو بہتر بنانے کی طرف مائل کرتا ہے۔جب انسان اپنے کاموں کے لئے جوابدہ ہوتا ہے تو اس کی شخصیت میں اعتماد اور صداقت پیدا ہوتی ہے۔ یہ اخلاقی قوت فرد کو اپنے کاموں میں ایمانداری اور سچائی کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔

6۔ ایجاد وتقلید

ایجاد اور تقلید دو اہم تصورات ہیں جو کسی بھی انسان کے مقصد اور ترقی کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں۔ ایجاد کا مطلب ہے نئے خیالات، طریقے یا حل تخلیق کرنا۔ یہ عمل انسان کو جدید سوچ، تبدیلی اور ترقی کی طرف لے جاتا ہے تاکہ وہ موجودہ حالات اور چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکیں۔تقلید کا مطلب ہے موجودہ خیالات یا طریقوں کو نقل کرنا یا اپنانا۔ یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی صاحب جمال و جلال اور صاحب ِدانش کی پیروی کرنا۔ایک نظریاتی شخص کے اندر ہمیشہ یہ دونوں صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔وہ خود سے نئی چیز تخلیق کرنے کی مہارت تامہ بھی رکھتا ہے اور اس کے اندر اس قدر اہلیت بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے سے برتر نظریہ ،جماعت یا شخص کی اقتداء کرسکے۔

7۔ آخرت کے بارے میں فکر کریں

جس طرح سال ختم ہو گیا، ویسے ہی ہماری دنیوی زندگی بھی ایک دن ختم ہو جائے گی۔ لہذا اس دنیوی زندگی کا اختتام یاد رکھیں۔حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

دنیا میں ایسے رہو جیسے تم اجنبی ہو یا مسافر۔ (صحیح بخاری:6416)

یعنی یہ ہمارا مستقل ٹھکانہ نہیں ہے بلکہ ہم نے دارالبقا کی طرف رخصت ہوجانا ہے۔ اس لیے ہمیں زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ فکرِ آخرت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے اور اس کی بھرپور تیاری کرنی چاہیے۔

خلاصۂ کلام

گزرا سال جہاں ہمیں خود احتسابی کا درس دیتا ہے وہیں پر ہمیں نئے سال کے لئے حکمت عملی اپنانے کا بھی بتاتا ہے۔ہمیں دونوں باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی ذات کا محاسبہ بھی کرنا ہے اور نئے سال کو بہتر بنانے کے لئے لائحہ عمل بھی بنانا ہے اور پھر پورا سال اس پر عمل بھی کرنا ہے۔ ہمیں حضور ﷺ کی اس حدیث کا عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے کہ’’ مومن وہ ہےجس کا ہر آنے والا دن گزرے دن سے بہتر ہو ۔‘‘

غرض یہ کہ ہمیں سال کے اختتام پر اپنی ذات کا محاسبہ کرکے اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کرنی چاہیے، جو فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی یا گناہ ہوئے، ان پر اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور نئے سال کی ابتدا پر پختہ ارادہ کریں کہ زندگی کے باقی ماندہ ایام میں اپنے مالک ِحقیقی کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے اور منکرات سے بچ کر اﷲ کے احکام کو اپنے نبیﷺ کے طریقے کے مطابق بجا لائیں گے اور اپنی ذات سے اﷲ کی کسی مخلوق کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔

پروردگار عالم سے دعا ہے کہ آنے والا سال پوری انسانیت بالخصوص مسلمانوں کے لیے امن، سلامتی، بھائی چارے، باہمی ہم آہنگی، امن اور خوشحالی کا پیغام لائے۔