معاشرتی بحران کا قرآن و سنت کی روشنی میں حل

محمد یوسف منہاجین

ہمارا معاشرتی بحران اور اس کا قابلِ عمل حل: قرآن و سنت کی روشنی میں

محمد یوسف منہاجین

انفرادی اعتبار سے ہم میں سے اکثریت چند ایسے مسائل کا شکار ہے جس نے ہماری فکری اور روحانی ترقی کا راستہ مسدود کر رکھا ہے۔ ان مسائل کا تعلق ہماری روز مرہ زندگی کے ساتھ ہے۔ یہ مسائل چونکہ ہماری اپنی طبیعت ، مزاج اور عادت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ، اس لئے یہ لا ینحل نہیں ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں کسی بڑے انتظام و انصرام اور پلاننگ کی ضرورت نہیں بلکہ ایک ایسا عزمِ مصمم درکار ہے جس کے پیچھے صدق اور اخلاص کی طاقت موجود ہو۔ ذیل میں ان مسائل کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کا قابلِ عمل حل پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ہم میں سے ہر ایک اپنی طبیعت، مزاج، عادت، رویے اور معاشرتی رسوم و رواج سے پیدا ہونے والے ان مسائل سے چھٹکارا پاتے ہوئے اپنی فکری، روحانی اور اخلاقی اصلاح کو ممکن بنا سکے۔

1۔حقوق العباد کو نظر نداز کرنا

انفرادی اعتبار سے ہمارا سب سے پہلا مسئلہ اپنے ذمہ واجب الادا حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کر نا اور انھیں نظر انداز کرنا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اس بات کا تو دعویدار ہے کہ مجھے میرے حقوق دیے جائیں مگر وہ دوسروں کے اپنے اُوپر واجب حقوق سے لاپرواہی برتتا نظر آتاہے۔ ہرشخص کسی نہ کسی حیثیت میں دوسروں کے حقوق کو نظر انداز کرتا ہے بلکہ وہ موقع ملنے پر دوسروں کے حقوق کو پامال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ ہر طبقۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کوتاہی میں برابر کے شریک ہیں مگر بدقسمتی سے کوئی بھی اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہونے سے قاصر ہے۔

قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ کا مطالعہ اس امر کو واضح کرتاہے کہ دین اسلام میں ہر ایک طبقۂ زندگی حتی کہ نباتات، حیوانات، غیر مسلموں اور مرنے والے افراد کے بھی حقوق کو نہ صرف واضح طور پر بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کی ادائیگی کی تلقین بھی فرمائی گئی ہے۔اسلامی تعلیمات میں ایتائے حقوق پر اصرار کا مقصد ایک پُر امن معاشرے کی تشکیل ہے جہاں بسنے والے نہ صرف ایک دوسرے کے حقوق ادا کرے نظر آئیں بلکہ احسان کے پیکر بھی ہوں اور حقوق ادا نہ کرنے والوں کے بھی حقوق ادا کرتے چلے جائیں تاکہ وہ خود ہی اپنے رویے پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے ایتائے حقوق کی طرف متوجہ ہو سکیں۔ حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیٔ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ ھُوَ الَّذِیْ اِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَھَا

(ابوداؤد، ج2، ص 59، رقم: 1697)

وہ شخص صلۂ رحمی کا حق ادا نہیں کرتا جو بدلے کے طور پر صلۂ رحمی کرتا ہے۔ صلہ رحمی کرنے والا تو اصل میں وہ شخص ہے جو اس شخص سے بھی صلۂ رحمی کرے جو اس کے ساتھ قطع رحمی کرتا ہے۔

ایتائے حقوق ایک ایسا بنیادی مسئلہ ہے جس میں ہمارے معاشرے کی سلامتی اور خوشحالی کی ضمانت موجود ہے۔ اگر ہم اپنے رویہ اور مزاج میں اس مسئلہ کی اہمیت کا ادراک پیدا کرلیں تو صرف یہی ایک عمل بھی ہمارے معاشرے کو جنت نظیر معاشرہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتاہے۔

2۔ قیمتی وقت اور وسائل کا ضیاع

وقت اور صلاحیتیں دونوں ہی بے حد قیمتی اور نایاب سرمایہ ہیں، جنہیں ہم غیر ضروری، بے معنی اور بے وقعت سرگرمیوں یا بیکار مصروفیات میں ضائع کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ہمیں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس امر کا ایک واضح ثبوت ہمارے سرکاری دفاتر کا ماحول ہے جہاں ہم وقت اور سرکاری وسائل کا بے دریغ نقصان کرتے ہیں۔ یہ ماحول بدترین غفلت اور خیانت کا مظہر ہے۔ اسی طرح ہماری نوجوان نسل اکثر گھنٹوں اور بعض اوقات ساری رات سوشل میڈیا پر لا یعنی اور بے مقصد سرگرمیوں کی نذر کردیتی ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنے فرائض میں سنگین غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہیں۔ گھریلو ذمہ داریوں سے غفلت کے بارے میں بھی شکایات بڑھ رہی ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ہی پامال ہو رہے ہیں اور نتیجتاً کچھ بھی حاصل نہیں ہو رہا۔ نہ دنیا کی ترقی، نہ دین کا فائدہ، اور اس سب کے باعث گھریلو اختلافات، بے روزگاری، مالی مشکلات اور بڑھتے ہوئے اخراجات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے جو ہماری زندگی کو مزید پیچیدہ اور دشوار بنا رہے ہیں۔

ان مسائل کا حل صرف یہ ہے کہ ہم اپنے قیمتی وقت کو مفید اور کارگر سرگرمیوں میں صرف کریں اور فضول و بے مقصد کاموں سے خود کو بچا کر وقت کی قدر کریں۔ اسلام نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ وقت کی اہمیت کو پہچانیں اور اسے نیک اعمال اور فائدہ مند مصروفیات میں صرف کریں تاکہ ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔ لایعنی اُمور سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے حضور نبی اکرمﷺنے فرمایا:

مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ

(ابن حبان، ج1، ص 466، رقم:229)

اسلام کے حسن میں یہ بات بھی ہے کہ انسان لایعنی (فضول، بے کار)مشاغل ترک کردے۔

انسان کو وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتے ہوئے آپﷺنے فرمایا:

اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ، شَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ ۔

(حاکم، المستدرک، ج4، ص 341، رقم:7846)

پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: بڑھاپے سے پہلے جوانی، بیماری سے پہلے تندرستی، تنگ دستی سے پہلے مال داری، مشغولیت سے پہلے فراغت اور موت سے پہلے زندگی کو۔

اور ایک روایت میں آپﷺ نے وقت کی قدروقیمت کی جانب توجہ دلواتے ہوئے ارشاد فرمایا:

نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیْھِمَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ ، اَلْفَرَاغُ وَالصِّحَۃُ ۔

(ابن ابی شیبہ، المصنف، ج:7، ص:82، رقم:34357)

دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے کا شکار ہیں: ایک فراغت اور دوسری صحت۔

ان نصوص کی روشنی میں ہمیں اپنے طرزِعمل کا جائزہ لینا ہوگا، تاکہ ہم مشکلات کے بھنور سے نکل کر کامیابی و کامرانی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔

3۔ فضول خرچی اور ریاکاری

اسراف یعنی فضول خرچی دراصل ہماری لامحدود اور غیر حقیقت پسندانہ خواہشات کا نتیجہ ہے، جنہیں ہم ہر قیمت پر پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ان خواہشات کی تکمیل اس دنیا میں کبھی ممکن نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے اسلام نے ہماری خواہشات کی درست رہنمائی کی ہے اور ان کی تکمیل کے لیے حدود و قیود مقرر کی ہیں۔ہم بے شمار فضول خرچیوں میں ملوث ہیں، جن میں سب سے نمایاں ہماری تقریبات ہیں۔ ہر چھوٹی بات پر تقاریب کا انعقاد کرنا ہمارے فیشن کا حصہ بن چکا ہے۔ تقاریب میں بیش از حد کھانے پینے کا اہتمام اور پھر اس کا ضیاع، ان تقاریب میں خواتین کے ملبوسات اور زیورات کا غیر معمولی اہتمام، یہ نہ صرف فضول خرچی ہے بلکہ ریاکاری بھی ہے۔ دینِ اسلام نے فضول خرچی اور ریاکاری کے سدِّباب کے لیے کیا تعلیمات ارشاد فرمائی ہیں اور ایسی جائز خوشیوں کو منانے کے لیے کس حد تک خرچ کرنا جائز قرار دیا ہے؟ اس حوالے سے حضور نبی اکرمﷺ،ازواجِ مطہرات اور اہلِ بیت اطہارf کے معمولات تاریخِ اسلام کا ایک روشن باب ہیں۔

حضرت ابوامامہg سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ مجھے میرے ربّ نے پیش کش کی کہ (اگر میں چاہوں تو) میرے لیے پورے بطحا (مکّہ) کو سونے کا بنا دیا جائے، مگر میں نے کہا: نہیں، میرے رب! مَیں تو یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن مَیں سیر ہوں اور ایک دن بھوکارہوں۔ آپﷺ نے یہ بات تین بار فرمائی، اور جب بھوک لگے تو تیرے سامنے تضرع (گریہ و زاری) کروں اور تجھے یاد کروں، اور جب سیر ہوں تو تیرا شکر ادا کروں اور تیری حمد کروں۔

(ترمذی، ج4، ص 155، رقم: 2354)

آپﷺ نے اہلِ قناعت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وہ شخص کامیاب ہوگیا جو اسلام لایا اور گزر اوقات کے مطابق اسے رزق مل گیا اور اللہ نے اسے قناعت کی دولت سے نوازا۔ (ترمذی، ج4، ص 156، رقم: 2355)

ó ریاکاری کو بھی ناپسندیدہ فعل قرار دیا گیا۔ دینی اُمور میں اس کے نقصانات بالکل واضح ہیں۔ آپﷺکا فرمانِ مبارک ہے:

مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللہُ بِہٖ وَمَنْ رَاءَیٰ رَاءَیٰ اللہُ بِہٖ ۔

(مسلم: رقم 2986، نسائی، کبریٰ، ج6، ص522، رقم:11700)

جس نے اپنا کوئی عمل دکھاوے کے لیے کیا، اللہ تعالیٰ اس کی رُسوائی کا سامان کرے گا، اور جس کسی نے اپنا کوئی عمل ریاکاری کی نیت سے کیا تو اللہ اس کے راز لوگوں پر عیاں کر دے گا۔

اس بنا پر ہماری کوشش و خواہش ہونی چاہیے کہ ان خطرناک اُمور سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اور ان عام ہوجانے والی بُرائیوں سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کریں۔

4۔ جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت

جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اسلام نے ان قبیح امور سے شدت سے منع فرمایا ہے مگر اس کے باوجود ہم ان عادات میں اس حد تک ملوث ہیں کہ ان سے نکلنا ممکن نہیں رہا۔

آپﷺ نے جھوٹ کو نفاق کی علامت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: جس شخص میں چار عادتیں ہوں وہ خالص منافق ہے، اور جس میں ان چار میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے جب تک وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ پھر ان علامات کا ذکر ان الفاظ سے فرمایا:

1- جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔

2- جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔

3- جب کسی سے عہد کرے تو اسے دھوکا دے۔

4- جب کسی سے لڑے تو گالیوں پر اُتر آئے۔

(بخاری، ج1،ص 16، رقم:34)

ó اسی طرح عہد اور وعدے کا ایفا کرنا بھی ضروری ہے اور وعدہ خلافی کی سخت وعید قرآنِ حکیم میں وارد ہوئی ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاً۔

(الاسرا،17: 34)

’’بے شک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہو گی۔‘‘

ہمارے معاشرے میں جھوٹ کی مختلف اقسام کا رواج ہے، جو عام روزمرہ کے جھوٹ سے شروع ہو کر گواہی، قسم اور شہادت میں غلط بیانی، جھوٹے سرٹیفکیٹس، وکلا کی طرف سے غلط مقدمات کا انتخاب، جھوٹی سفارشات، ناپ تول میں کمی، تجارتی دھوکہ دہی، صحافتی رپورٹنگ میں غلط معلومات فراہم کرنا، اور حکومتی و سیاسی سطح پر جھوٹ بولنا تک پھیل چکی ہیں۔ ان تمام اقسام سے اجتناب کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہی جھوٹ ہمارے معاشرتی مسائل اور موجودہ مشکلات کا ایک اہم سبب بن چکےہیں۔

ó خیانت اور بے ایمانی کی بیماری بھی ہمارے معاشرے میں اتنی گہری اور وسیع ہو چکی ہے کہ اس سے نجات حاصل کرنا اب ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ امانت کا مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی کام، چیز یا مال کو اعتماد اور بھروسے کے ساتھ دوسرے فرد کے حوالے کرتا ہے، تو اس کا یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ شخص اپنی ذمہ داری کو پورے اخلاص اور ایمانداری کے ساتھ نبھائے گا اور اس میں کسی قسم کی غفلت یا کوتائی نہیں برتی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ اﷲَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰـنٰـتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ

(النساء،4: 58)

’’ بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُنہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اَہل ہیں، اور جب تم لوگوں پر حکومت کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کیا کرو (یا: اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و اِنصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کرو)۔‘‘

آپﷺ کے متعدد فرامین سے بھی خیانت کی مذمت اور امانت کی حفاظت کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ جس شخص کے اندر امانت نہیں، اس کے اندر ایمان نہیں، اور جس شخص میں عہد کا پاس نہیں، اس کے پاس دین نہیں‘‘۔(احمد، المسند، ج3،ص 594)

حضرت ابن عمرg سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا: اگر چار چیزیں تمھیں میسر ہوں تو دنیا کی کسی چیز سے محرومی تمھارے لیے نقصان دہ نہیں:1- امانت کی حفاظت کرنا، 2- سچ بولنا، 3- خوش خلقی اختیار کرنا، 4- روزی میں پاکیزگی اختیار کرنا۔(احمد، ج2،ص 370، رقم: 6614)

'امانت' کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ یہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کو اپنے دائرے میں شامل کرتا ہے۔ ہر شخص کا اپنے معاملات اور معمولاتِ زندگی میں سچ بولنا، دوسروں کے حقوق کو بر وقت ادا کرنا اور اپنی ذمہ داریوں کی کماحقہ ادائیگی کرنا امانت داری ہی کی صورتیں ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کے خلاف عمل کرتا ہے تو وہ خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

اَدُّوْا الْخِیَاطَ وَالْمَخِیْطَ وَ اِیَّـاکُمْ وَالْغُلُوْلَ ، فَاِنَّہٗ عَارٌ عَلٰی اَھْلِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃ

 (دارمی، ج2،ص 302، رقم: 2487)

دھاگا اور سوئی (تک) ادا کردو ، اور خیانت سے بچو، اس لیے کہ یہ خیانت قیامت کے دن عار اور ندامت کا باعث ہوگی۔

جس طرح امانت کا مفہوم وسیع ہے، اسی تناظر میں خیانت کا بھی ایک وسیع مفہوم ہے۔ ملازمت کے اوقات میں خیانت، ذمہ داریوں کی ادائیگی میں غفلت، علمی خیانتوں سے لے کر عملی خیانت تک۔ ہم اکثر وقت پر دفاتر نہیں پہنچتے، اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا نہیں کرتے، دوسروں کے حقوق کے معاملے میں خیانت کرتے ہیں اور لین دین میں اپنے مفادات کو ترجیح دے کر دوسروں کو نقصان پہنچانا عام بات بن چکی ہے۔ یہ تمام چیزیں خیانت کی مختلف صورتیں ہیں اور ہر لحاظ سے سخت ممنوع ہیں۔

ہمارے موجودہ مسائل کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہم سچائی، ایفائے عہد اور امانت و دیانت کے اسلامی اصولوں کا صحیح طور پر پاس نہیں رکھتے، جن کی اہمیت قرآن و حدیث میں بار بار بیان کی گئی ہے۔ ان اصولوں کو اختیار کیے بغیر کسی فلاحی معاشرے کا قیام ممکن نہیں ہے۔

5۔ رزقِ حلال کی ناگزیریت اور اہمیت

ہماری بہت سی مشکلات کا بنیادی سبب رزقِ حلال پر کفایت نہ کرنا ہے۔ ہمارا مقصد صرف دولت کمانا بن چکا ہے، خواہ وہ کسی بھی طریقے سے حاصل ہو۔ نتیجتاً اکثریت کے سامنے حلال و حرام کا کوئی واضح فرق نہیں رہا، اور جو لوگ اس کا کچھ حد تک خیال رکھتے ہیں، وہ بھی مختلف حیلوں، بہانوں سے ہر چیز کو جائز سمجھ لیتے ہیں۔ یہ حرام رزق ہماری مال و دولت، زندگی اور کام میں برکت کو ختم کردیتا ہے اورہماری مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔اسلام نے جہاں حلال رزق کمانے کی سخت ترغیب دی ہے، وہیں حرام سے بچنے کے لیے بھی واضح ہدایت دی ہے۔ آپﷺنے فرمایا:

طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ

حلال روزی کا طلب کرنا (دوسرے) فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے۔(طبرانی، المعجم الکبیر، ج10، ص74)

حرام کمائی سے اجتناب کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّہٗ لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ۔

بلاشبہ حرام کمائی سے پلنےوالا گوشت جنّت میں داخل نہ ہوسکے گا۔(دارمی،ج2،ص409، رقم:2776)

اسی طرح ایک موقع پر حرام کمائی سے صدقہ و خیرات کرنے والوں کی بابت فرمایا کہ جس شخص نے بُرائی کے ذریعے مال کمایا، پھر اس کے ذریعے صلۂ رحمی کی، یا اس سے صدقہ کیا، یا اسے اللہ کے راستے میں خرچ کیا، تو یہ سارا مال جمع کر کے اس کے ساتھ جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔

(ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، ج1، ص 102)

6۔ ناامیدی اور توقعات

جو مسائل آج ہمیں ذاتی طور پر درپیش ہیں اور ہمارے گھروں کو کسی نہ کسی طرح متاثر کر رہے ہیں، ان کے نقصانات اپنی جگہ اہم ہیں، مگر ان کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم نااُمیدی کی ایک خطرناک نفسیاتی حالت میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں منفی خیالات ہمارے ذہنوں میں پروان چڑھتے جا رہے ہیں، جو ہمیں مایوسی کی طرف دھکیلتے ہوئے ہمیں مختلف نفسیاتی و جسمانی بیماریوں میں مبتلا کررہے ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھنا چاہیے تاکہ ہم اس منفی کیفیت سے نکل سکیں، کیونکہ اس طرح کی سوچ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اسلام تو ہمیں اللہ تعالی پر مضبوط ایمان رکھنے کی تعلیم دیتا ہے، جو ہر حال میں ثابت قدم رہنے کی ترغیب دیتا ہے اور مصائب و مشکلات کے سامنے ہمارے استقلال کو قائم رکھتا ہے۔

انسان ایک طرف خوف، شکستگی، بے بسی اور دوسری طرف دنیاوی لذتوں سے فائدہ اٹھانے میں مگن ہے اور قابلِ تعجب امر یہ ہے کہ ان دونوں حوالوں سے ہم انتہا پر ہیں۔ یہ دونوں انتہائیں انسان کی حقیقی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسلام ان میں سے کسی ایک بھی انتہا کو پسند نہیں کرتا ہے بلکہ وہ ایک معتدل راستہ اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔اسلام کا پیغام یہ ہے کہ خوف و امید کے توازن سے ایسی متوازن کیفیت پیدا کی جائے جہاں ایک طرف اللہ کا خوف ہمیں برے اعمال سے روکے تو دوسری طرف اللہ کی رحمت کی امید ہمیں زندگی کے آخری لمحے تک کوشش اور جدوجہد کی ترغیب دے۔

اسلام کے نزدیک نااُمیدی اور مایوسی کا تعلق گمراہی سے ہے۔ اگر ہم حق کی راہ پر گامزن ہوں تو نااُمیدی ہمیں چھو کر بھی نہیں گزر سکتی۔ نااُمیدی اسلام کے مزاج کے بالکل برعکس ہے۔ حضرت ابراہیم  علیہ السلام  کا قول قرآنِ مجید میں ہماری رہنمائی کررہا ہے کہ

قَالَ وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ۔

 (الحجر،15: 56)

’’ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: اپنے رب کی رحمت سے گمراہوں کے سوا اور کون مایوس ہو سکتا ہے۔‘‘

قرآنِ مجید نے اُمید کا تعلق مومنین سے قائم کیا ہے کہ اللہ کی رحمت کی اُمید صرف مومن ہی رکھ سکتا ہے۔ فرمایا:

وَتَرْجُوْنَ مِنَ اﷲِ مَالَا یَرْجُوْنَ وَکَانَ اﷲُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا۔

’’حالاں کہ تم (مومنین) اللہ سے (اجر و ثواب کی) وہ امیدیں رکھتے ہو جو اُمیدیں وہ (کفار) نہیں رکھتے۔ اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔‘‘(النساء،4: 104)

اللہ کے بارے میں حُسنِ ظن کا یہی مفہوم ہے کہ اس کی رحمت کی اُمید رکھی جائے اور اس پر ہرحال میں اور ہر کام میں بھروسا کیا جائے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَنَـا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ فَلْیَظُنَّ بِیْ مَاشَاءَ

(دارمی، ج2، ص 395، رقم:2731)

میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں، سو وہ جو چاہے میرے بارے میں گمان رکھے۔

حقیقت یہ ہے کہ مومن کے دل میں خوف اور اُمید کی دونوں کیفیات بیک وقت موجود ہونی چاہئیں۔ ایک طرف جہاں وہ اپنے گناہوں کی بازپرس اور غلطیوں پر عذاب کا خوف رکھتا ہے، وہیں دوسری طرف اللہ کی بے پایاں رحمت کی اُمید بھی اس کے دل میں موجود رہنی چاہیے۔ یہ دونوں کیفیات اس لیے ضروری ہیں کہ خوف اسے گناہوں اور معاصی میں مبتلا ہونے سے روکتا ہے جبکہ اُمید اور اللہ کی رحمت اسے مایوسی اور شکستگی سے بچاتی ہے۔ اُمید اس کی آرزوؤں کو جلا بخشتی ہے اور اس کے عزائم کو بلند کرتی ہے جو کہ زندگی کی جدو جہد میں مصروف رہنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ خوف اور اُمید کی یہ معتدل کیفیت ہمیں مایوسی اور نااُمیدی کی فضا سے باہر نکال سکتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی اُمید پر ہم مصائب اور مشکلات کے وقت میں دوبارہ جدوجہد کی طاقت حاصل کر سکتے ہیں۔