پاکستان کے مسائل اور ان کا حل
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی زیرِ نظر تحریر کے پہلے حصے (شائع شدہ ماہنامہ منہاج القرآن ماہِ دسمبر2024ء) میں پاکستان کے اہم ترین مسائل میں سے؛ گورننس (طرزِ حکمرانی) کی اصلاح، معیشت کی زبوں حالی اور اس کا تدارک، اخلاق و نظریہ کی تطہیر اور تعلیمی نظام کی اصلاح کو بالتفصیل بیان کیا گیا۔ اس تناظر میں پاکستان کے بیرونی قرضوں سے نجات کے لیے ایک قابلِ عمل ماڈل بھی ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی طرف سے پیش کیا گیا۔ علاوہ ازیں بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے بھی نوجوانوں کے لیے چھوٹے کاروبار کے فروغ کے حوالے سے رہنمائی دی گئی۔ اس مضمون کا بقیہ حصہ نذرِ قارئین ہے۔
پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہ آنے کا سبب اور اس کا حل
معاشی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح Ease of doing Business ہے یعنی کاروبار کرنے میں آسانیاں پیدا کرنا۔ اس کے انڈیکسز بھی عالمی سطح پر دستیاب ہیں کہ ممالک اس حوالے سے کہاں کھڑے ہیں؟ پاکستان اس حوالے سے 2020ء کے سروے کے مطابق 199ممالک کے اندر 108ویں نمبر پر تھا جبکہ اس کے برعکس انڈیا 63 ویں، سعودی عرب 62 ویں، UAE 25ویں اور ملائیشیا 12ویں نمبر پر تھا۔ Ease of doing business کا تعلق Economic slugs یعنی معاشی رکاوٹوں سے ہے۔ افسر شاہی اور قانونی رکاوٹیں جب کسی بھی بزنس کے انتظامی امور میں آجاتی ہیں تو یہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ہمارے ملک سے دور کردیتی ہیں۔ یہاں تک کہ مقامی سرمایہ کار بھی پاکستان میں اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے میں آسانی محسوس نہیں کرتے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنی حکمت عملیوں کےاندر زبردست تبدیلیاں کیں اور اپنے ملک کو غیرملکی سرمایہ کار کے لیے پرکشش بنایا۔ ہماری حکومت کا میڈیا پر بیٹھ کر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی دعوت دینے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک انھیں یہ نہ بتایا جائے کہ ہم ان کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ انھیں ان اقدامات اور سہولیات سے آگاہ کرنا ہے جنھیں سن اور دیکھ کر وہ دیگر ممالک کے بجائے ہمارے ملک کا انتخاب کریں۔ جبکہ ہماری صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارا اپنا سرمایہ کار پاکستان چھوڑ کر دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کررہا ہے تو باہر والا کیوں ہمارے ہاں آئے گا؟
سعودی عرب نے آج سے پندرہ سال پہلے بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے ایک پالیسی بنائی لیکن کاروبار کرنے کے لیے درکار سہولیات (Ease of doing Business) کو بہتر نہیں کیا جس کی وجہ سے وہاں سے سرمایہ کار چلا گیا۔ انھوں نے اعلانات کیے، کچھ ویزے متعارف کروائے لیکن Ease of doing business کو بہتر نہ کرنے کے سبب کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ اقامہ کا تصور، قطاریں بنانا، ویزوں کا انتظارکرنا، ہر چھ ماہ بعد ویزوں پر دوبارہ مہریں لگوانا اور دفاتر میں جانا، اس طرح کی بہت ساری پیچیدگیاں ان کے ہاں تھیں۔ نتیجتاً سرمایہ کاروں کو یہ مناسب نہ لگا اور وہ وہاں سے چلے گئے۔ موجودہ حکومت نے اس حوالے سے کچھ بہتر اقدامات کیے جس کے نتیجے میں وہ Ease of doing business انڈیکس میں 96 سے سے غالباً 62 ویں نمبر پر آگئے۔ اب بیرونی سرمایہ کار وہاں آ رہا ہے، ان کو ویزا بھی مل رہا ہے، سرمایہ کا بھی تحفظ ہے اور طریقہ کار بھی بالکل آسان کردیا گیا ہے۔
Ease of doing business کے تناظر میں پاکستان میں Pakistan Institute of Development Economics (PIDE) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے، اس رپورٹ میں پاکستان میں مختلف شعبہ جات میں کاروبار شروع کرنے کے لیے جتنا وقت اور جو اقدامات درکار ہیں، ان کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مثلاً اگر ہم اسلام آباد میں صرف ایک کمرشل پلازہ بنانا اور ایک بلڈنگ قائم کرنا چاہتے ہیں تو مکمل طورپر قانون کے مطابق کرنے کے لیے چار سال اور 114 اقدامات (Steps) کرنا ہوں گے۔ اس سارے طریقہ کار کو ہم سمجھتے ہیں لیکن اب جو غیر ملکی سرمایہ کار آئے گا، وہ ان چیزوں سے نا آشنا ہوگا۔ جب وہ اس قسم کی پیچیدگیاں دیکھے گا تو وہ بھاگ جائے گا۔
اسی طرح اگر کوئی فارماسیوٹیکل یونٹ لگانا چاہتا ہے تو اس کے لیے کم از کم دو سال کا وقت درکار ہے اور اسی طرح بیسیوں مراحل درکار ہیں جن سے گزرنا ہوگا۔ Ease of doing business یا Slugs کو ختم کرنے کے لیے گورنمنٹ انقلابی اصلاحات کرے، کسی چیز کو روبہ عمل لانے کے لیے ان کے مراحل کو کم کرے اور کم سے کم وقت میں ہر چیز کو مکمل کرے۔ تصور کریں کہ اگر ایک سرمایہ کار 100 ملین ڈالر کا سرمایہ لگانا چاہتا ہے اور اس کا چار سال کا وقت مختلف ادارہ جاتی منظوریوں اور دستخطوں کی نذر ہوتا ہے تو اس عرصہ کے دوران وہ سٹاف رکھ رہا ہے، انھیں تنخواہیں دے رہا ہے، دفاتر کے اخراجات اور یوٹیلٹی بلز کو برداشت کررہا ہے۔ اس کی سرمایہ کاری کا تو 30 سے 40 فیصد مصنوعات کی تیاری سے قبل ہی صرف منظوریوں کی نذر ہوگئی اور وہ اپنا اتنا سرمایہ ضائع کربیٹھا۔ یہ معاشی لحاظ سے GDP کا نقصان ہے۔ جن ممالک نے اِن امور کی طرف توجہ کی اور ان کی منصوبہ بندی کی، وہ اپنے GDP کو محفوظ کرلیتے ہیں۔ پوری دنیا اس حوالے سے اپنے آپ کو بہتر بنارہی ہے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے موجود پیچیدگیوں کے سبب غیر ملکی سرمایہ دار بھاگ رہا ہے۔
پاکستان کو ترقی کی جانب لے جانے کے لیے ایک اہم شعبہ مائننگ انڈسٹری (معدنیات) ہے۔ اسی طرح بندرگاہیں اور جہازرانی کا شعبہ ہے۔ اسی طرح دیگر بہت سارے شعبہ جات ہیں، جن کے اندر غیر ملکی سرمایہ دار بہت خوشی سے سرمایہ لگائے گا۔ بشرطیکہ ہم سرمایہ کاری کے طریقہ کار کو آسان بنادیں۔ بدقسمتی سے ہم Protectionist approach رکھتے ہیں، Economic productive approachنہیں رکھتے۔ یعنی ہر چیز کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ کہیں نقصان نہ ہو جائے جبکہ ہمیں Economic Risk taking initiative درکار ہیں۔ اس حوالے سے ہم جہاں تک آگے بڑھ سکتے ہیں، وہاں تک آگے بڑھنا ہے۔ موجودہ نوجوان نسل کو بھی اس پر آمادہ کرنا ہے، تبھی یہاں غیر ملکی سرمایہ کار بھی آئے گا اور ملک بھی تیزی سے آگے بڑھے گا۔
آئی ٹی ایکسپورٹ کو بڑھانے کی ضرورت
آئی ٹی ملکی معیشت کی ترقی کے لیے نہایت اہم شعبہ ہے۔ افسوس کہ ہم اس کی جانب بھی صحیح طریقے سے متوجہ نہیں ہوئے۔ انڈیا کی آئی ٹی ایکسپورٹس 2024ء میں 205. 2 بلین ڈالرز کے قریب چلی گئی ہیں جبکہ پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ ستمبر 2024ء میں 876 ملین ڈالرز ہے جو کہ انڈیا کے مقابلے میں بہت نیچے ہے۔ پاکستان کو یہاں تک پہنچنے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔ انڈیا نے آئی ٹی پارکس قائم کیے ہیں جبکہ ہم لوگ وسائل کی کمی کے سبب ایسا کرنے سے محروم ہیں۔ یاد رکھیں کہ جب وسائل کی کمی ہو تو انسان کو زیادہ تخلیق کار ہونا پڑتا ہے جبکہ جب وسائل بے تحاشہ ہوں تو دماغ کا استعمال کم ہو جاتا ہے۔ یہی حالت ممالک کی بھی ہے کہ جب ہمارے پاس وسائل کم ہیں تو پھر ہمیں زیادہ تخلیقی ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم اگر سیکڑوں کی تعداد میں راتوں رات آئی ٹی پارکس تخلیق نہیں کر سکتے تو ہمیں آئی ٹی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لیے محنت کرنا ہوگی۔
اس حوالے سے حکومت پاکستان سمیت دیگر متعلقہ فورمز پر میں نے یہ تجویز دی ہے کہ پاکستان میں 200 سے زائد یونیورسٹیز ہیں، ان ساری یونیورسٹیز کو آئی ٹی پارکس ڈیکلیئر کر دیں۔ حکومت ان کے ساتھ مل کر کام کرے۔ ان یونیورسٹیز کے پاس انفراسٹرکچر ہے، کمپیوٹر لیبز ہیں، بیٹھنے کی جگہ ہے، اساتذہ ہیں، ٹرینرز ہیں، آپریٹرز موجود ہیں، ضرورت صرف اس امرکی ہے کہ حکومت انھیں آئی ٹی پارکس ڈیکلیئر کرے اور انھیں فنڈنگ کرے اور ان سے تعاون کرے۔ ان یونیورسٹیز کو ٹارگٹس دیں کہ انھوں نے اگلے دو سال کے اندر یونیورسٹی کے اندر اور باہر سٹارٹ اپس تیار کر کے ایکسپورٹ شروع کرنی ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ہم ایک ایسا ملک ہوں گے کہ ایک ہفتے کے اندر 200 آئی ٹی پارکس ہمارے پاس ہوں گے۔
آئی ٹی اور دیگر شعبہ جات میں چھوٹے کاروبار کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے حکومتی اور پرائیویٹ ہر دو سطح پر اس حوالے سے اقدامات ملک کی معیشت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ منہاج یونیورسٹی نے اس سلسلہ میں المواخات مائیکرو فنانس کے نام سے ایک شعبہ قائم کیا ہے۔ اس سے کثیر تعداد میں لوگ رابطہ کرتے ہیں جو پاکستان میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ المواخات ان کی مائیکرو فنانسنگ کے ذریعے مالی معاونت کرتی ہے۔ مختلف کاروبار کے منصوبہ جات میں ان کی مدد کی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کے طلبہ کی طرح آغوش آرفن کیئر ہوم میں یتیم بچے رہائش پذیر ہیں، ای کامرس کے حوالے سے ان کی ٹریننگ بھی کی جا رہی ہے تاکہ وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرسکیں۔ اسی طرح منہاج یونیورسٹی میں minhaj centre for startups کے نام سے ایک مرکز ہے یہاں بہت سارے بزنس آئیڈیاز نوجوان لاتے ہیں۔ اسے المواخات اسلامک مائیکرو فنانس کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ ان کے خیالات اور تجاویز پر ’’المواخات‘‘غور و فکر کے بعد مالی طور پر مدد فراہم کرتا ہے اور اس طرح کئی کاروبار فروغ پا رہے ہیں۔
حکومتی اور عوامی اداروں میں گورننس کو درپیش چیلنجز اور ان کے حل کے لیے اقدامات
وہ حکومتی شعبہ جات جن کا تعلق عوامی فلاح و بہبود کے ساتھ ہے، ان کی کارکردگی کی تباہ حالی کی بنیادی وجہ ہمارے سول سروسز کا سسٹم ہے۔ یہ نظام آج سے 100 سال پہلے برطانوی راج ہمیں دے گیا۔ اس کے اندر سنجیدگی سے اصلاح کی ضرورت ہے۔ چاہے یہ فیڈرل سروسز کے امتحانات ہیں یا پبلک سروس کے صوبائی سطح کے امتحانات۔ اس سسٹم کی خرابی کو اس امر سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ سرکاری مراتب پر فائز ہونے کے لیے طلبہ بیچلرز اور ماسٹرز کر کے امتحانات دیتے ہیں، نمبروں کے مطابق ان کی ڈویژن ہو تی ہے، وہ کامیاب ہوتے ہیں اور مختلف شعبہ جات کے اندر ان کو ملازمت دی جاتی ہے۔ کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر زیادہ نمبر لینے کے لیے سادہ طریقہ کار یہ ہے کہ وہ آسان مضامین رکھے جاتے ہیں کہ جن کے اندر وہ زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرسکیں۔
جو آدمی سول سروس میں آ کر کسی وزارت میں، سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری اور ڈائریکٹر لیول کی پوزیشن سنبھال رہا ہے، سرکار کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے پاس اس شعبے سے متعلق مہارت اور تجربہ بھی ہے یا نہیں؟ حتی کہ وہ نوجوان جو Ph. D’sہیں، مگر تجربہ و مہارت نہ ہونے کے سبب ان کو بیوروکریسی چلا رہی ہے۔ حکومت ان نوجوانوں کو شارٹ کورسز کے لیے بیرون ملک بھیجتی ہے تو اس کے انتخاب کا طریقہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ کورسز تربیت کم اور تفریح زیادہ ہوتی ہے۔ ان لوگوں کا انتخاب حکومت کی پسندیدگی سے ہوتا ہے۔ نتیجتاً تجربہ و مہارت کی کمی اور حکومتی نوازشات کے احسانات کے سبب یہ ملک و قوم کو کوئی قابلِ ذکر فائدہ دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ نتیجتاً وہ شعبہ جات جہاں انھیں ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں، وہ تنزلی اور بربادی کا شکار ہوجاتا ہے۔
دوسری طرف پبلک سیکٹر کے مقابلے میں پرائیویٹ سیکٹر اس لیے بہتر ہیں کیونکہ وہ براہ راست بھرتی کرتے ہیں اور بھرتی کرتے ہوئے امیدوار کی تعلیم، تجربہ، جس کام کے لیے اس کی خدمات لی جارہی ہیں اس حوالے سے اس کا vision اور دیگر متعلقہ امور کو دیکھا جاتا ہے۔ نتیجتاً اہل، تجربہ کار اور دوراندیش افراد کی بدولت پرائیویٹ سیکٹر ترقی کرتا ہے۔ یہ سارا کچھ پبلک سیکٹر میں نہیں ہوتا۔ وہاں اندر سے اور باہر سے کوئی تازہ ہوا نہیں آ رہی ہوتی، اس صورت الحال میں ملک ترقی کی طرف کیسے گامزن ہوگا؟
ترقی یافتہ ممالک میں کئی اہم افسر شاہی اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں۔ امریکہ، جرمنی، کینیڈا وغیرہ نے سینٹرل سول سروسز کے امتحان کے طریقہ کار کو ختم کر کے ہر وزارت کو آزاد کر دیا ہے اور وہ اپنے شعبہ سے متعلق خصوصی امتحان لیتے ہیں اور اس موضوع سے متعلقہ تجربہ کار لوگوں کو اپنے ملک کے اندر سے اور باہر سے بلاتے ہیں۔ جب تک ہم پاکستان کے اندر پبلک سیکٹر میں ان اصلاحات کو متعارف نہیں کریں گے اور نئے visionary افراد اور دیگر ممالک سے ہر شعبہ سے متعلقہ تجربہ کار لوگوں کو لاکر بیوروکریسی میں نہیں بٹھائیں گے اس وقت تک یہ افسر شاہی رکاوٹیں، مشکلات اور تاخیریں ختم نہیں ہوسکیں گی اور مجموعی طور پر ہم خود کو بہتر نہیں کرپائیں گے۔ ترقی کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے ان بیوروکریٹک اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
لیڈر شپ اور ترقی کے ناگزیر تقاضے
ترقی کے لیے جہاں استحکام، تسلسل اور اخلاقیات ضروری ہیں وہاں قابل اور اہل بیوروکریسی کا بھی اہم کردار ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری بیوروکریسی Non-performing ہے۔ پاکستان کی تباہی میں اس کا بہت بڑا کردار ہے۔ جب تک اس میں بہتر اصلاحات نہیں لائی جاتیں تب تک ہم ترقی کے راستے پر گامزن ہونے میں ناکام ہیں۔ اسی طرح قومی و ملکی سطح پر ہر شعبۂ زندگی میں نئی اصلاحات متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہر شعبۂ زندگی سے متعلقہ پالیسیز میں استحکام اورتسلسل نہیں لاتے، بے روزگاری کو ختم نہیں کرتے، کاروبار، تجارت اور صنعت کو فروغ نہیں دیتے، تب تک بہتری کی امید رکھنا عبث ہے۔ اگر امانت داری کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہر شعبہ میں اچھی اصلاحات کو نافذ کیا جائے، آڈٹ کے نظام کو بہترین بنایا جائے تو اگلے دس سال میں ترقی کی منزل کی طرف سفر شروع ہوسکتا ہے۔
ترقی کے لیے ایک اہم ترین کردار ملک و قوم کی قیادت کا بھی ہوتا ہے۔ یاد رکھیں! ممالک اور اقوام کی ترقی کے دو ماڈل ہیں:
۱۔ کوئی ایسا لیڈر ہو جو ملک و قوم کو ترقی دے۔
۲۔ افرادِ قوم خود مل کر اپنے ملک کو بہتری کی طرف لائیں۔
یہ دونوں ماڈل دنیا میں موجود ہیں۔ کچھ ممالک میں قیادت نے انفرادی طور پر معاشرے کو بہتر بنایا ہے اور کچھ جگہوں پر افراد تو مضبوط نظر نہیں آتے لیکن collective wisdom کے ذریعے ترقی کی منزل کو حاصل کیا گیا۔ قیادت اگرچہ متوسط صلاحیتوں کی حامل ہو لیکن مضبوط ٹیم ہو اور ہر کوئی اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنا کردار اد ا کرنا شروع کردے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے لیکن سب سے ضروری چیز پالیسیز میں تسلسل ہے۔ اگر یہ ہے تو افراد یا لیڈر کوئی بھی ماڈل ہو، وہ ملک اقوامِ عالم میں اپنا مقام بناسکتا ہے۔
اس حوالے سے اس تصور کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر تاریخِ عالم میں وہ لیڈرز جنھوں نے ملک کی تعمیرِ نو کی، اگر وہ اپنی ذاتی حیثیت میں ذہین اور بہترین منتظم تھے تو دوسری طرف افرادِ قوم کو بھی شعور تھا اوروہ جانتے تھے کہ کس کا انتخاب کرنا ہے۔ ملائیشیا میں مہاتیر محمد نے انیس بیس سال حکومت کی۔ سنگاپور کے اندر (Leekwan yew) اکتیس سال تک حکومت کرتے رہے۔ حتی کہ انڈیا کو بھی اپنے آغاز میں استحکام ملا اور پہلے 26 سال کے طویل عرصہ میں صرف دو وزیراعظم آئے۔ اس سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ consistency of policy نہایت اہم ہے۔ یہ وہ تسلسل ہے جو افراد کے ذریعے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اور ایک گروہ کے ذریعے بھی۔ ہر شہری اور طبقہ اپنے طور پر اپنی ذمہ داری کو سمجھے تو کچھ نہ کچھ بہتری کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں۔
نعرے نہیں، عمل
قومی مسائل کے حل کے لیے ہمارے ہر ادارہ کو اپنا کردار اداکرنا ہوگا۔ عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، فوج، میڈیا، تعلیمی ادارے، والدین، علماء، معیشت دان، سائنسدان، سیاستدان، طلبہ الغرض ہر ایک کو آگے بڑھنا ہوگا۔ بدقسمتی سے مذکورہ ادارے اور طبقات اصلاحِ معاشرہ اور مسائل کے حل میں اپنا کردار اداکرنے میں ناکام رہے ہیں۔ صرف میڈیا ہی کی مثال لے لیں تو میڈیا کا کردار بھی افسوسناک ہے۔ میڈیاپر ہونے والے ٹاک شوز چاہے وہ مذہبی پروگرام ہوں یا سیاسی نوعیت کے، ان کے موضوعات روزمرہ کے موضوعات ہیں۔ کوئی بھی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں پر مستقبل کے حوالے سے کوئی ثمر آور گفتگو ہوتی ہو اور پالیسیز زیرِ بحث آئیں۔ یہ روزمرہ کی Blame game ہے، جہاں فریقین ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں۔ گویا سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کا ایک اکھاڑے میں دنگل کروایا جاتا ہے۔ یہی حال مذہبی پروگرامز کا بھی ہے۔ اس حوالے سے میڈیاکو سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ملکی و قومی مسائل کے حوالے سے منہاج القرآن تعلیمی، تربیتی، فکری، تحقیقی اور فلاحی میدان میں اپنی بھرپور کوششیں کررہا ہے۔ ہم نیشنل میڈیا پر نظر نہ بھی آئیں تب بھی ہم اپنے اداروں، تصانیف اور خطابات کے ذریعے ملک و قوم کی تعلیمی، تربیتی، اخلاقی، روحانی اور فلاحی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔ ہمیں کوئی دیکھنا چاہے تو وہ نیشنل میڈیا میں ہمیں تلاش کرنے کے بجائے پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہمارے 600 سے زائد سکولز، کالجز، یونیورسٹی، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی، آغوش اور مراکزِ علم کے نیٹ ورک کو دیکھے، جہاں ہم عملی طور پر موجود ہیں۔ یہی طرزِ عمل ہر ادارہ اور ہر طبقہ کو اپنانا ہوگا کہ ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ اس طرح نبھائے کہ اُن کا عمل ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتا نظر آئے۔
نوجوانوں کے لیے لائحہ عمل
پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اس کے نوجوانوں کو ایک کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ نوجوان نسل پاکستان کا مستقبل ہے۔ حالات بے شک مایوسی کن ہیں لیکن ہم آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے نام لیوا اور آپ ﷺکو ماننے والے ہیں، آپ ﷺ کی تعلیمات نے ہمیں مایوسی نہیں سکھائی۔ اس لیے ہمیں مایوس نہیں ہونا اور بے مقصد زندگی نہیں گزارنی۔ موجودہ حالات لامحالہ ہمارے اندر مذہبی اقدار کو ختم کرنے کا باعث رہے ہیں اور ہم وسائل کی دستیابی کے لیے ہر حد پار کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ان حالات میں ہمیں اپنی حدود و قیود کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔۔۔ اپنی اقدار، اخلاقیات، ثقافت اور روایات کو بھی ملحوظ رکھنا ہے۔۔۔ یہ ہماری شناخت ہیں، اسی سے پاکستانیت اور اسی سے مسلمانیت ہے۔۔۔ ہم نے ان چیزوں کا دامن اس ساری جدوجہد کے اندر بالکل نہیں چھوڑنا۔
جب یہ معاشرتی و معاشی حالات ہمیں ڈپریشن دیتے ہیں تو ڈپریشن کا علاج صرف دوائیوں میں ہی نہیں ہے بلکہ ڈپریشن کا علاج اللہ رب العزت کی ذات کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنے میں بھی ہے۔ ڈپریشن کا سب سے بہترین حل مشاورت ہے اور سب سے بہتر مشورہ دینے والی ذات اللہ کی ہے۔ اگر ہم اللہ رب العزت کے ساتھ نماز اور عبادات کے ذریعے اپنے رشتے کو جوڑیں اور اپنے دل کی باتیں اللہ رب العزت کے حضور سجدے میں پیش کریں تو یہ ہماری ڈپریشنز کا علاج ہے۔ اپنے مسائل کا حل دعاؤں میں تلاش کریں اور پھر اس کے ساتھ علم میں محنت کریں اور اپنی قابلیت اور صلاحیت پر توجہ دیں تو اس سے بہتری آئے گی۔ اگر روزگار میسر نہیں تو حالات کا رونا رونے کے بجائے کچھ نہ کچھ اچھے اور تخلیقی خیالات کے ساتھ اپنے دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے خود کفیل ہونے کی کوشش کریں۔ اللہ رب العزت ضرور راستے پیدا کر دے گا۔ جو کچھ ہمارے اپنے اختیار میں ہے، اس کو انجام دینے کی کوشش کریں، مثبت سوچیں اور اس قوم اور ملت کے لیے کار آمد بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قوم و ملت کی ترقی اور اپنے احوال کی اصلاح کے لیے ہر سطح پر اپنی بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔