ختم صحیح البخاری : ملک گیر اجتماع

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ختم صحیح البخاری کے ملک گیر اِجتماع

خصوصی رپوٹ

تحریک منہاج القرآن اور نظام المدارس پاکستان کے زیر اہتمام گزشتہ ماہ ختم صحیح البخاری کی عظیم الشان تقریب منہاج یونیورسٹی لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس علمی، فکری اور روحانی پروقار اجتماع میں ملک بھر سے 20 ہزار سے زائد علما کرام و مشائخ عظام، دینی بورڈز کے قائدین، ناظمین مدارس، شیوخ الحدیث، مدرسین، مدرسات، خواتین سکالرز اور طلبہ و طالبات شریک تھے۔ شیخ الاسلام Rajaڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے ختمِ صحیح البخاری کے اس عظیم الشان علمی و فکری اجتماع میں صحیح البخاری کا درس حدیث ارشاد فرمایا۔

منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے علمائے کرام و مذہبی سکالرز کو ختم صحیح البخاری کے اجتماع میں خوش آمدید کہا۔ اس اجتماع میں نقابت کے فرائض علامہ عین الحق بغدادی، علامہ اشفاق علی چشتی اور ڈاکٹر محمد فاروق رانا نے انجام دیے۔ تلاوتِ قرآن پاک کی سعادت قاری خالد حمید کاظمی الازہری اور نعت سرور کونین ﷺ کی سعادت حسانِ منہاج الحاج محمد افضل نوشاہی نے حاصل کی۔ ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈاپور نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ ناظم اعلیٰ نظام المدارس پاکستان ڈاکٹر میر آصف اکبر قادری نے اجتماع کی غرض و غایت اور نظام المدارس پاکستان کی کارکردگی رپورٹ پیش کی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے درس کے آغاز میں اِس فقید المثال اجتماع کے انعقاد پر منتظمین کو مبارک باد دی اور تمام مکاتب فکر کے ہزارہا کی تعداد میں شریک علماء کرام و شیوخ الحدیث، محققین، مبلغین، معلمین و معلمات، مدرسین و مدرسات اور طلبہ و طالبات کو خراجِ تحسین پیش کیا اور اپنی دعاؤں سے نوازا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اتحادِ اُمت کے کلچر کو زندہ کیا جائے تاکہ فروعی مسائل کی بنیاد پر پیدا ہونے والے اختلافات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم اختلافات کی بجائے مشترکات پر توجہ دیں۔ اُمت کے مختلف مسالک اور مکاتبِ فکر میں اختلافات کم جب کہ مشترکات زیادہ ہیں۔ آج کے اس درسِ ختمِ صحیح البخاری میں حدیث و سُنت نبوی ﷺ کی نسبت سے ہزار ہا علماء و شیوخ کا جمع ہونا فتنۂ اِنکار حدیث پر بڑی کاری ضرب ہے۔

حدیث و سُنتِ نبوی ﷺ سے اَفرادِ اُمت کا تعلق مضبوط و مستحکم کرنا دراصل فتنۂ الحاد کے خاتمہ کا سبب بنے گا۔ دین کی حفاظت حدیث و سُنت کی حفاظت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ملتِ بیضا کے تمام مکاتب کو متحد ہو کر علمِ حدیث و سُنت کے کلچر کو پھر سے زندہ کرنا ہو گا تاکہ موجودہ اور اگلی نسلوں کو فتنۂ انکار حدیث سے پچایا جا سکے۔

اُمت میں اعتدال اور وسطیت پیدا کرنے اور ہر طرح کی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اُمت کے جتنے بھی مکاتبِ فکر ہیں، سب میں حق گردش کرتا ہے اور ہر ایک میں حق کے کچھ نہ کچھ اجزاء موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک تو حق پر ہے اور دوسرا کلیتاً حق سے خالی ہے۔ لہذا تمام مکاتبِ فکر ایک دوسرے کے لیے برداشت اور رواداری پیدا کریں۔ اختلاف کو رحمت بنائیں، زحمت نہ بنائیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ احیاے دین اور اگلی نسلوں تک روحِ دین کی منتقلی کے لیے ہم فروعی اختلافات کی بنا پر دوسرے مکاتب فکر کی تفسیق، تضلیل اور تکفیر کے عمل کی حوصلہ شکنی کریں۔

مجھے خوشی ہے کہ آج تحریک منہاج القرآن اور نظام المدارس پاکستان کے زیرِ اہتمام منہاج یونیورسٹی لاہور کے پنڈال میں کراچی سے خیبر اور کشمیر تک، دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے جامعۃ الرشید کراچی تک پاکستان کے دونوں کناروں سے علماء و مشائخ اس درس میں جمع ہیں۔ یہ اِتحادِ اُمت کا ایک عظیم الشان مظاہرہ ہے۔ اگر ہم حدیث و سنت کی بنیاد پر جمع ہو گئے ہیں تو گویا ہم عشقِ رسول ﷺ پر جمع ہوگئے ہیں۔ ہمیں باہم تفریق اور تنگ نظری کو چھوڑ کر اتحاد اور وسعتِ نظری کو اپنانا ہوگا۔ ہمارے اسلاف محنت کر کے غیر مسلموں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرتے تھے، افسوس کہ ہم فروعی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کو دائرہِ اسلام سے خارج کر رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے اُمت کے اتحاد، علم دین و سنت کے احیاء، دین کی قدروں کو زندہ کرنے اور اگلی نسلوں تک دین منتقل کرنے کے لیے ہم تکفیریت کی دیواروں کو گرا دیں۔ آج اُمت میں وحدت، یگانگت اور یکجہتی پیدا کرنے کا وقت ہے۔ آج کا دور فتنوں کا دور ہے۔ یہ زمانۂ جبر، قَسط اور ظلم ہے، آپ اصحابِ قِسط (صاحبانِ عدل) بنیں؛ انصاف اور اعتدال پسندی پر کاربند رہیں۔ ظلم و جبر کے آگے اپنا سر نہ جھکائیں، اپنا ضمیر نہ بیچیں، ہمیشہ اعلائے کلمۃ اللہ پر کاربند رہیں، علمائے حق بنیں، علمائے سُو کی روش اختیار نہ کریں، دین نہ بیچیں، اسلاف کے طریق پر چلیں اور اپنی طبیعتوں کو آقا ﷺ کی سیرت اور متابعت میں ڈھالیں۔

شیخ الاسلام نے اپنے درس میں صحیح البخاری کی فضیلت و اہمیت اور امام بخاری کے حالاتِ زندگی بھی تفصیل سے بیان کیے اور ختم صحیح البخاری کے تاریخی پس منظر پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ صحیح البخاری کے ابتدائی تمام راوی نہ صرف محدث تھے بلکہ اُن کا شمار کبار صوفیاء میں ہوتا تھا۔ اس امر کا اقرار بلاتفریقِ مسلک تمام علماء کرتے یں اور انھوں نے اس امر کو اپنی اپنی کتب میں درج بھی کیا ہے۔ اس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ اکابرینِ امت اور ائمہ کے ہاں تصوف اور علم الحدیث کے حوالے سے کوئی اختلاف نہ تھا۔ افسوس کہ آج ہم نے اس خود ساختہ تقسیم کے ذریعے امت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔

شیخ الاسلام نے صحیح البخاری کی پہلی حدیث مبارک اور آخری حدیث مبارک کی قرأت کرتے ہوئے اِن دونوں کے درمیان تعلق اور ان احادیث مبارکہ سے آغاز اور اختتام کرنے کی وجوہ کی بھی وضاحت کی۔ شیخ الاسلام نے فرمایا کہ حدیث کی دیگر الجامع کتب کی طرح امام بخاری نے اپنی الجامع الصحیح کا آغاز کتاب الایمان سے نہیں کیا بلکہ کتاب بدء الوحی سے کیا اور اس کتاب میں آقاعلیہ السلام کی سیرت اور آپ ﷺ کی شخصیت مبارکہ کے اوصاف کے حوالے سے احادیث مبارکہ بیان کیں۔

اس کتاب کے آغاز میں امام بخاری نے بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی تحریر نہیں فرمائی۔ اس کے بعد آپ کتاب الایمان لائے اور اس کے آغاز میں بسم اللہ تحریر فرمائی۔ امام بخاری کے اس اسلوب سے اُن کے عقیدہ کا پتہ چلتا ہے کہ اُن کی بسم اللہ شانِ رسالت کا بیان ہے۔ صحیح البخاری کی آخری کتاب ’’کتاب التوحید‘‘ کے عنوان سے ہے۔ صحیح البخاری کے اول اور آخری باب کی اس ترتیب سے امام بخاری کے عقیدہ کا پتہ چلتا ہے کہ اُن کا عقیدہ محبتِ رسول سے شروع ہوتا ہے اور توحید کے بیان پر کمال پرپہنچتا ہے۔ امام بخاری نے صحیح البخاری کا اختتام کتاب التوحید میں خوارج کی مذمت کے حوالے سے حدیث سے کیا ہے۔ اس سے وہ اس امر کو واضح کررہے ہیں کہ عقیدہ توحید کبھی خوارج سے نہ لیں بلکہ ہمیشہ علماے ربانیین سے لیں۔

اس موقع پر شیخ الاسلام نے ’’امام بخاری اور محبتِ رسول ﷺ‘‘ کے عنوان سے صحیح البخاری میں موجود محبتِ رسول ﷺ کے تناطر میں درج احادیث پر تفصیلی گفتگو فرمائی اور امام بخاری کا تکرار کے ساتھ محبتِ رسول کے حوالے سے احادیث درج کرنے کی وجہ اُن کی حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کے ساتھ انتہا درجہ کی عقیدت و محبت کو قرار دیا۔

درسِ ختمِ صحیح البخاری کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ اجتماع میں شریک 20 ہزار سے زائد علماے کرام نے محدثین کی علمی اجازات کے طریق پر شیخ الاسلام سے عالی اور اقرب اسانیدِ حدیث کی اِجازات حاصل کیں، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:

1۔ شیخ الاسلام کی سند محدِّثُ الھند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ تک صرف چار واسطوں سے۔

2۔ شیخ الاسلام کی سند حضرت امام یوسف بن اسماعیل النبہانیؒ تک صرف ایک واسطے سے۔

3۔ شیخ الاسلام کی سند اَعلیٰ حضرت شاہ اَحمد رِضا خان بریلوی تک صرف ایک واسطے سے۔

4۔ شیخ الاسلام کی سند حضرت شاہ امداد اللہ مہاجر مکی تک صرف ایک واسطے سے۔

5۔ شیخ الاسلام کی سند حضرت علامہ انور شاہ کاشمیری تک صرف ایک واسطے سے۔

6۔ شیخ الاسلام کی سند حضرت امام آلوسی البغدادی تک صرف چار واسطوں سے۔

7۔ شیخ الاسلام کی سند حضرت امام جلال الدین سیوطی تک صرف چھ واسطوں سے۔

8۔ شیخ الاسلام کی سند حضرت امام ابن حجر عسقلانی تک صرف چھ واسطوں سے۔

9۔ شیخ الاسلام کی سند امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت امام محمد بن اسماعیل البخاری تک صرف گیارہ (11) واسطوں سے۔

10۔ بفضلہٖ تعالیٰ شیخ الاسلام کی سندِ حدیث تاجدارِ اَنبیاء حضور نبی اکرم ﷺ تک صرف پندرہ (15) واسطوں سے متصل ہے۔

ختمِ صحیح البخاری کے ملک گیر اِجتماع سے خطیب داتا گنج بخش علی ہجویری لاہور علامہ مفتی محمد رمضان سیالوی، سربراہ دار الاخلاص علامہ ڈاکٹر شہزاد مجددی، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے مولانا سید محمد یوسف شاہ، آستانہ عالیہ چشتیہ کریمیہ ڈاگ اسماعیل خیل نوشہرہ سے علامہ پیر محمد سعید حسین القادری، اتحاد المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مفتی محمد زبیر فہیم، جامعہ محمدیہ سیفیہ کے شیخ الحدیث مفتی پیر حمید جان سیفی، امیر جمعیت اہل حدیث پاکستان علامہ ڈاکٹر سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، مجمع العلوم الاسلامیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ اور جامعۃ الرشید کراچی کے شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد صاحب، رابطۃ المدارس پاکستان کے ناظم اعلیٰ و نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر علامہ عطاء الرحمان اور امیر جماعت اہلسنت کشمیر علامہ سید محمد اسحاق نقوی نے خطاب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام کی تجدیدی و اِحیائی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے علوم الحدیث کے احیاء کے لیے کی جانے والی آپ کی تجدیدی مساعی کا ذکر کیا اور انہیں رواں صدی میں امت کے لیے ایک عظیم خزانہ قرار دیا۔

مقررین نے ختم صحیح البخاری کی روایت کو زندہ کرنے کے اقدام کو سراہا اور شیخ الاسلام کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ قحط الرجال کے اس پرفتن دور میں شیخ الاسلام کی ذات بابرکات اس امت کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ آپ نے ساری زندگی دین متین کی خدمت کے لیے وقف کررکھی ہے۔ آپ نے ہر موضوع پر جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قلم اٹھایا اور آنے والی نسلوں کے لیے ایسی عظیم شاہراہ قائم کی جس پر چلتے ہوئے ہر شخص کامیابی و کامرانی سمیٹ سکتا ہے۔ دورِ حاضر میں دعوت اسلام کو اقوام عالم تک پہنچانے کے لیے اور وقت کی ضرورت کے پیش نظر نظام المدارس پاکستان نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں جو نصاب مرتب کیا ہے یہ بھی ان کا ایک امتیاز ہے۔ آج کے زمانہ میں اس اعتبار سے ختم الصحیح البخاری کی مجلس کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے۔ اس اقدام سے انکار حدیث کا فتنہ اور الحاد کا فتنہ اپنی موت خود مرجائے گا۔

حجۃ المحدثین شیخ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اللہ رب العزت اور حضور نبی اکرم ﷺ کا پندرھویں صدی میں امت کے لیے احسان عظیم ہیں۔ اگر ہم شیخ الاسلام کو حجۃ المحدثین مان رہے ہیں تو یہ صرف عقیدت نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اس لیے کہ حضرت نے اپنی زندگی اسلامی علوم اور عقائدِ اسلامیہ کے فروغ و ترویج میں صرف فرمائی۔ آپ حقیقی معنی میں جدید و قدیم علوم پر دسترسِ تامہ کے حامل ہیں۔ شیخ الاسلام مزاج شناس تفسیر، مزاج شناس عقائد اسلامیہ ہیں۔ ہم سعادت مند بھی ہیں اور نیک بخت بھی کہ ہم شیخ الاسلام کے عہد میں ہیں اور آپ سے اکتساسب فیض کررہے ہیں۔

اس پروگرام میں وفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ کے چیئرمین ڈاکٹر مفتی محمد کریم خان، دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ سے علامہ ڈاکٹر نعیم الدین الازہری، صدر نظام المدارس پاکستان و پرنسپل جامعہ ہجویریہ لاہور علامہ مفتی امداد اللہ خان قادری، پرنسپل جامعہ ہجویری لاہور مفتی عرفان اللہ اشرفی، مہتمم جامعہ محمدیہ لاہور مفتی حنیف چشتی، زیب سجادہ آستانہ عالیہ بابا فرید الدین گنج شکر صاحبزادہ دیوان عثمان فرید، سجادہ نشین حضرت میاں میر صاحبزادہ سید علی چن رضا قادری، صاحبزادہ پیر نصیر الدین چراغ فریدی زیب سجادہ گڑھی اختیار شریف، خطیب بابا فرید الدین گنج شکر پاکپتن ڈاکٹر مفتی محمد عمران انور نظامی، ، پرنسپل جامعہ رضویہ ماڈل ٹاؤن لاہور علامہ ڈاکٹر مفتی محمد وحید قادری، مہتمم جامعہ غوث العلوم علامہ صاحبزادہ بدر الزمان قادری، صدر جمعیت علمائے لاہور پنجاب مفتی نعیم جاوید نوری، سجادہ نشین آستانہ عالیہ نقشبندیہ ماتلی شریف بدین پیر کرم اللہ الہیٰ المعروف دلبر سائیں، شیخ الحدیث جامعہ غوثیہ رضویہ گلبرگ لاہور علامہ اسد اللہ نوری، مہتمم جامعہ محمدیہ قادریہ چکدرہ مالاکنڈ حضرت علامہ صاحبزادہ ڈاکٹر انوار محمد، صدر منہاج القرآن علماء کونسل مفتی غلام اصغر صدیقی، شیخ الحدیث جامعہ فریدیہ ساہیوال مفتی ندیم قادری، مفتی نعمان جالندھری، اور دیگر علماء و مشائخ نے خصوصی شرکت کی۔