چاروں طرف کفرو شرک کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے، ظلم و جور کا راج تھا، ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کی امانت بت خانہ بن چکی تھی۔ رسوم و اوہام کی تاریکیاں اتنی گہری اور سیاہ کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ اس گھمبیر ماحول اور بھیانک فضا میں ایک آواز گونجتی ہے: لا الہ الا اللہ! صرف ایک آواز، تنہا لیکن پرعزم آواز! یہ حسین علیہ السلام کے جد امجد محمد رسول اللہ ﷺ کی آواز تھی۔
اس آواز پر سب سے پہلے ایک بچہ کان دھرتا ہے، محمد رسول اللہ ﷺ کی آغوشِ رحمت میں پلا ہوا بچہ، آپ ﷺ کی شفقتوں اور محبتوں کا مرکز بچہ، یہ بچہ لا الہ الا اللہ کی آواز سن کر سب سے پہلے اسے تسلیم کرتا ہے اور مسلم اول ہونے کا اعزازحاصل کرتا ہے۔یہ سابق الی الاسلام حسین علیہ السلام ہی کے پدرِ بزرگوار علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
یوں تو سبھی قرابت دار بیٹھے ہوئے ہیں، جہاں دیدہ، فہمیدہ، گرم و سرد چشیدہ، رسالت اپنی رفاقت کی دعوت دے رہی ہے اور اس پر بشارت سنارہی ہے۔ لیکن جواب میں ایک خاموشی ہے، ایک سناٹا ہے، بڑی معنی خیز خاموشی، بہت مصلحت آمیز سناٹا! اس سناٹے کو ایک ہی آواز توڑتی ہے اور رفاقت و معیت کی بشارت سے سرفراز ہوجاتی ہے۔اس حلقے کی یہ پہلی اور آخری آواز حسین علیہ السلام ہی کے بابا علی رضی اللہ عنہ کی آواز تھی۔
دشمن نے گھر گھیرا ہوا ہے، تلواروں کی چمک دکھائی دے رہی ہے، قتل کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، ایسے میں ایک شخص تن تنہا، رسول اکرم ﷺ کے امر سے، بسترِ رسالت پر بے خوف و خطر لیٹ جاتا ہے۔ کس لیے؟ رسول صادق و امین ﷺ کی امانتوں کی حفاظت کے لیے، امانتوں کو حقداروں تک پہنچانے کے لیے۔ رسول امین ﷺ کی امانتوں کے یہ امینِ اول اور محافظِ اول حسین علیہ السلام ہی کے بابا تھے! سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ۔
بدر کا میدان ہے، یوم الفرقان ہے، ایک سے ایک بڑھ کر وفادار اور جان نثار بہادر موجود ہیں لیکن سب سے پہلے جو دشمن سے مبارزت طلب ہوئے، وہ حسین علیہ السلام ہی کے بابا علی رضی اللہ عنہ تھے۔
احد میں رسول اللہ ﷺ کی آواز پر سب سے پہلے دشمنانِ اسلام پر لپکنے اور جھپٹنے کا اعزاز جسے حاصل ہوا۔ وہ حسین علیہ السلام ہی کے بابا علی رضی اللہ عنہ تھے۔
احزابِ متحدہ محاذ بناکر مدینے کو گھیرے ہوئے ہیں، ایک زلزالِ شدید کی کیفیت طاری ہے، عرب سورما عمرو بن عبدود خندق عبور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے امرِ عالی سے خندق میں اتر کر دشمن کو جس نے ٹھکانے لگایا اور احزاب کے حوصلے جس نے پست کردیئے، یہ پہلا بہادر علی رضی اللہ عنہ ہی تھا، حسین علیہ السلام کا بابا!
خیبر فتح نہیں ہورہا، محاصرہ طویل ہوتا جارہا ہے، آوازِ نبوت بلند ہوتی ہے: ’’کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا اور جو اللہ اور رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
اگلی صبح نگاہِ نبوت کا شرفِ انتخاب جسے حاصل ہوا اور اپنی نوعیت کے پہلے اور تنہا اعزاز یافتہ جو قرار پائے، وہ حسین علیہ السلام ہی کے بابا علی رضی اللہ عنہ تھے۔
مرحب جیسے شہ زور کو ایک وار میں زیر کرنے اور خیبر کا بھاری در تنہا اکھیڑنے کی سعادت جسے حاصل ہوئی، وہ حسین علیہ السلام ہی کے بابا علی رضی اللہ عنہ تھے۔
دوشِ نبوت پر سوار ہوکر کفرو شرک کی علامات سے اللہ کا گھر پاک کرنے کی کرامت سے جو مکرم ہوا، وہ حسین علیہ السلام ہی کے بابا علی رضی اللہ عنہ تھے۔
’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘ کا طرۂ امتیاز حسین علیہ السلام ہی کے بابا رضی اللہ عنہ کے سر سجا!
’انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ‘ کی قربت حسین علیہ السلام ہی کے بابا رضی اللہ عنہ کو ملی!
لسانِ نبوت سے سیدۃ نساء اہل الجنۃ ہونے کا شرف حسین علیہ السلام ہی کی اماں فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوا۔۔
امام حسین علیہ السلام نے ملوکیت کے مفاسد کا فوری ادراک کیا، عزیمت کی راہ اپنائی اور اس کے انسداد کے لیے بروقت قیام اس شان سے فرمایا کہ امت کو جنگ و جدال کی تباہی سے بھی بچایا اور خود اپنی اور اپنے گھرانے کی قربانی دے کر حق و باطل کے درمیان فرق بھی امت کو سمجھادیا۔
یوں تو عبادت اور عفت و عصمت کے نور سے منور بہت سے جنازے اٹھے، لیکن جنازہ لکڑی کے ڈولے میں ڈھانپ کر لے جانے اور شب کی تاریکی میں دفنانے کی، شرم و حیا سے معمور، وصیت سب سے پہلے حسین علیہ السلام ہی کی اماں جان سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کی اور غالباً اسی کے صلے میں اور اس حیا کی لاج رکھتے ہوئے قیامت کے دن یہ اعزاز صرف حسین علیہ السلام ہی کی اماں رضی اللہ عنہا کے حصے میں آئے گا کہ پردۂ جلال سے ایک پکارنے والا پکارے گا:
’’محشر میں جمع ہونے والو! اپنی نگاہیں نیچی رکھو یہاں تک کہ محمد کی بیٹی فاطمہ گذر جائیں۔‘‘
رسول اکرم ﷺ نے اپنی ذات اقدس کو جن کی سواری بنایا، وہ صرف حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہی تھے!
’سید اشباب اہل الجنۃ‘ کا تمغہ رسولِ رحمت ﷺ نے خود جن کے سینے پر سجایا، وہ صرف حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہی تھے!
لشکر جرار ہونے کے باوجود امت کے مفاد کی خاطر اقتدار سے دستبردار ہونے کی اولین مثال حسین علیہ السلام ہی کے بھائی حسن علیہ السلام نے قائم کی!
سبقتوں، خصوصیتوں اور اعزازوں کے اس طویل اور تابناک پس منظر میں ملوکیت کا خطرہ اگر حسین علیہ السلام نے سب سے پہلے بھانپا، اس کے انسداد کے لیے اگر حسین علیہ السلام نے سب سے پہلے قیام فرمایا، خلافت کے احیا کے لیے اگر حسین علیہ السلام نے سب سے پہلے قدم اٹھایا اور ملوکیت کی بنیادوں کو بے مثال قربانی دے کر اگر حسین علیہ السلام نے سب سے پہلے ہلایا تو اس پر تعجب نہ ہونا چاہیے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سبقت حسین علیہ السلام کے دود مانِ والا شان کی ریت تھی۔
سوچیے! بابا رضی اللہ عنہ کی طرح رسول اللہ ﷺ کی امانت کی حفاظت حسین علیہ السلام نہ کرتے تو کون کرتا۔۔۔؟ بابا رضی اللہ عنہ کی طرح دین کی نصرت کے لیے سب سے پہلے حسین علیہ السلام نہ بڑھتے تو کون بڑھتا۔۔۔؟ اپنے جدِ امجد ﷺ کی طرح اس ظلمت میں لا الہ الا اللہ کا اجالا حسین علیہ السلام نہ بکھیرتے تو کون بکھیرتا۔۔۔؟ اُس وقت حسین علیہ السلام جیسا کون تھا؟ کوئی نہ تھا، کوئی نہ تھا!
اس لیے ملوکیت کے خلاف قیام میں شرفِ سبقت بجا طور پر حسین علیہ السلام ہی کی قسمت بنا! اور ارشاد ربانی ہے:
وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ. اُولٰٓـئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ. فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ.
(الواقعة، 56: 10۔12)
’’یہ جو آگے رہنے والے ہیں نا آگے رہنے والے، نعمتوں بھری جنتوں میں بھی یہی آگے آگے (مقربین) ہوں گے۔‘‘
عزمِ حسینی علیہ السلام عزمِ صدیقی رضی اللہ عنہ کا نمونہ ہے
امت کی زندگی میں دو وقت بہت کڑے اور نازک آئے:
1۔ پہلا وقت رسول اللہ ﷺ کی وفات حسرت آیات کا تھا۔ ایک طرف امت صدمے سے نڈھال تھی، دوسری طرف فتنوں کا دروازہ کھل گیا۔ کہیں ارتداد کی وبا پھوٹ پڑی، کہیں نبوت کے مقدس عنوان سے مہم جوئیاں ہونے لگیں، رہی سہی کسر منع زکوٰۃ کے فتنے نے پوری کردی۔ یہ لوگ کلمہ تو پڑھتے تھے، لیکن خلافت کو زکوٰۃ دینا لازم نہیں سمجھتے تھے اور کچھ لوگ سیاسی گھاگ تھے، انتظار کررہے تھے کہ پانسہ کس طرف پلٹتا ہے۔
تیسری طرف لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کامعاملہ تھا، رسول اللہ ﷺ اسے روانگی کا حکم دے چکے تھے، لشکر ابھی روانہ نہ ہوا تھا کہ آپ ﷺ اس دنیا سے روانہ ہوگئے، اس بدلی ہوئی صورت حال میں یہ لشکر بھیجا جائے یا مدینے کی حفاظت اور مرتدین کے مقابلے کے لیے روکا جائے؟
اس گھمبیر صورت حال میں سب پریشان تھے، کچھ سمجھ نہ آتا تھا، البتہ ایک شخصیت تھی جو ان تمام مراحل میں حوصلہ مند، پرعزم اور ثابت قدم رہی اور یہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت تھی۔ وفات کے صدمے میں فرمایا:
سنو! جو محمد (ﷺ) کی عبادت کرتا تھا، تو محمد (ﷺ) وفات پاگئے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے۔ کبھی نہیں مرے گا۔
اس حوصلہ افزا اور ایمان افروز جملے سے ڈھارس بندھی، حوصلے قائم ہوئے۔ لشکر اسامہؓ کے بارے میں بلند مرتبت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مشورہ دیا کہ اسے روانہ نہ کیا جائے، صورت حال بہت نازل اور خطرناک ہے۔فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر مجھے یہ بھی معلوم ہوجائے کہ درندے مجھے اس قریے میں آبھنبھوڑیں گے تو بھی میں اس لشکر کو روانہ کرکے رہوں گا، جس کی روانگی کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا اور جو پرچم رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے باندھا، میں اسے ہرگز نہیں کھولوں گا۔‘‘
مرتدین اور مدعیان نبوت کے خلاف جہاد کا معاملہ تو واضح تھا لیکن مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف اقدام میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت کو بھی اس وجہ سے تردد تھا کہ یہ تو لا الہ الا اللہ کے قائل ہیں۔ فرمایا:
’’اللہ کی قسم! جو صلوٰۃ اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا، میں اس سے ضرور قتال کروں گا، زکوٰۃ مال کا حق ہے، اگر یہ زکوٰۃ میں رسول اللہ ﷺ کو بھیڑ کا بچہ دیتے تھے اور اب مجھے نہیں دیں گے تو میں اس پر بھی ان سے قتال کروں گا۔‘‘
امامِ حسین علیہ السلام کی قربانی کے بعد امت میں بیداری کی لہر دوڑ گئی، ملوکیت سے نفرت گہری ہوگئی، لا الہ الا اللہ کے مفہوم کی وسعت لوگوں پر آشکارا ہوگئی۔ آج جب شعور کی آنکھ کھلی ہےاور عوام کو اپنے حقوق کا احساس ہوا ہےتو ہر قوم پکار رہی ہے: ’’حسین علیہ السلام ہمارے ہیں۔‘‘
یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ لوگوں سے نرمی برتیے، اس سال کی زکوٰۃ چھوڑ دیجئے۔ فرمایا:
’’وحی بند ہوچکی، دین پورا ہوچکا، اب دین میں کمی ہو اور میں زندہ رہوں؟‘‘ یہ نہیں ہوسکتا۔
عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: ’’اللہ کی قسم ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ عزم دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ نے قتال کے معاملے میں ابوبکرؓ کا شرح صدر فرمادیا ہے اور انہیں کی رائے حق ہے۔ اللہ کی قسم! مرتدین کے ساتھ قتال کے باب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان پوری امت کے ایمان پر بھاری رہا۔‘‘
(صحیح بخاری، باب وجوب الزکوٰۃ)
یہ پہلا کڑا وقت تھا، ایک طرف تنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ، دوسری طرف پوری امت اور امت بھی خیرالقرون!
لیکن آئندہ حالات و واقعات نے ثابت کردیا کہ انہی کا عزم مبارک تھا، انہی کی رائے برحق تھی، انہی کی سوچ صحیح سمت میں کام کررہی تھی، انہی کی عزیمت اور آہنی عزم نے فتنوں کا سدباب کیا، انہیں بروقت اور صحیح شرح صدر ہوا یہاں تک کہ پھر سب کو اس بارے میں شرح صدر ہوگیا۔
2۔ امت پر دوسرا کڑا وقت وہ تھا، جب امت کے سیاسی نظام کا کانٹا بدلا گیا اور گاڑی کو خلافت کی پٹری سے اتار کر ملوکیت کی پٹری پر ڈالنے کی ارادی اور شعوری کوشش کی گئی۔ یہ بڑی بھیانک سیاسی بدعت تھی۔ ہر شعبے کی بدعت کا اپنا خاص رنگ ہوتا ہےا ور ہر شخص ہر بدعت کو کہاں سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے اس پر جو اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معترض ہوئے، یہ وہ تھے جو امت کا سیاسی نظام سمجھتے تھے۔۔۔ خلافت کی آغوش میں پلے تھے۔۔۔ خلافتِ راشدہ کے مزاج شناس تھے۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی قربت، صحبت، شفقت اور تربیت سے مشرف تھے۔۔۔ علم و شعور اور تقویٰ و ورع کے اوصاف حسنہ سے آراستہ تھے۔۔۔ یہ تھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے حسین علیہ السلام، زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہؓ، عبداللہؓ بن عباسؓ بھی انہی کے ہمنوا تھے۔
امامِ حسین علیہ السلام نے رخصت اور سمجھوتے کی راہ اختیار نہیں کی اور ایسے بے مثال انداز سے حق و باطل میں تفریق کردی کہ اب قیامت تک اس میں التباس نہیں ہوسکتا۔
جب یزید کی بیعت کا وقت آیا تو عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے رخصت کی راہ اپنائی، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا اپنا ایک انداز تھا، جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے مولا کے حضور پہنچ چکے تھے، چند گنے چنے صحابہؓ جو باقی تھے، وہ بڑھاپے کی آخری منزلیں طے کررہے تھے۔ خود امام حسین علیہ السلام جو تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کم عمر تھے، 56 برس سے تجاوز کرچکے تھے۔ پھر امیرالمومنین حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان خونریز جنگوں میں امت کا جو بے پناہ نقصان ہوا، وہ ان حضرات کے سامنے تھا، اس لیے ان قدسی صفات نے نہایت نیک نیتی سے امت کو ایک اور جنگ سے بچانے کے لیے سکوت اور رخصت پر عمل کیا۔
ان حالات میں تنہا امام حسین علیہ السلام تھے، جنھوں نے ملوکیت کے مفاسد کا فوری ادراک کیا، عزیمت کی راہ اپنائی اور اس کے انسداد کے لیے بروقت قیام فرمایا اور قیام بھی اس شان سے کہ امت کو جنگ و جدال کی تباہی سے بھی بچایا اور خود اپنی اور اپنے گھرانے کی قربانی دے کر خلافت و ملوکیت اور حق و باطل کے درمیان فرق بھی امت کو سمجھادیا۔ چنانچہ میدان کربلا میں امام حسین علیہ السلام اقدام نہیں کرتے بلکہ تادم آخر دفاع میں تلوار اٹھاتے ہیں کہ مقصود اس حکم ربانی کی تعمیل تھی:
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.
(البقرة، 2: 42)
’’ اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ۔‘‘
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
اس موقع پر پرکشش پیشکش بھی ہوئی لیکن آپؓ نے قرآن مجید کے اس حکم کی عملی تفسیر کی:
فَـلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ. وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ.
(القلم، 68: 8-9)
’’ سو آپ جھٹلانے والوں کی بات نہ مانیں۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ (دین کے معاملے میں) آپ (بے جا) نرمی اِختیار کر لیں تو وہ بھی نرم پڑ جائیں گے۔‘‘
چنانچہ آپؓ نے رخصت اور سمجھوتے کی راہ اختیار نہیں کی اور ایسے بے مثال انداز سے حق و باطل میں تفریق کردی کہ اب قیامت تک اس میں التباس نہیں ہوسکتا۔
تاریخ اسلام کے اس کڑے مرحلے میں آپ علیہ السلام تنہا تھے لیکن آپ کو ویسا ہی شرحِ صدر ہوا جیسا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہوا تھا اور آئندہ حالات و واقعات نے تصدیق کردی کہ آپؓ کا قیام بجا اور آپؓ کا شرح صدر بروقت تھا، یہی وجہ ہے کہ صلحا امت میں سے کسی نے آپ کے قیام کو غلط نہیں کہا۔
آپ علیہ السلام کی قربانی کے بعد امت میں بیداری کی لہر دوڑ گئی، ملوکیت سے نفرت گہری ہوگئی، لا الہ الا اللہ کے مفہوم کی وسعت لوگوں پر آشکارا ہوگئی اور چند ہی برس میں اس کا مثبت نتیجہ بھی سامنے آگیا۔ اور آج جب شعور کی آنکھ کھلی ہے، عوام کو اپنے حقوق کا احساس ہوا ہے، آمریت و ملوکیت کا جوا لوگ اپنے کندھوں سے اتارکر پھینک رہے ہیں اور جبر و استبداد کی بیڑیاں توڑ رہے ہیں تو ہر قوم پکار رہی ہے: ’’حسین علیہ السلام ہمارے ہیں۔‘‘
الغرض عہد اول میں دوکڑے وقت آئے، ایک میں عزمِ صدیقی نے سنبھالا دیا، دوسرے میں عزمِ حسینی کام آیا، حقیقت یہ ہے کہ آپؓ کا عزم عزمِ صدیقی ہی کا عکسِ صادق تھا۔ اقبالؒ آپ کے عزم و استقلال کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عزمِ او چوں کوہساراں استوار
پائدار و تندسیر و کامگار
امام حسین علیہ السلام کی اولوالعزمی اور جرأت کے حوالے سے لوگ اب جو باتیں بنا رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نگاہ میں حسینؑ ہارگئے! ان کی کوتاہ بین نگاہیں شہادت کو شکست دیکھتی ہیں۔ حقیقت یہ نہیں، اہلِ حق مومن تو ہر حال میں کامیاب ہے، غازی ہو یا شہید، منزل تک پہنچ جائے یا راہ میں کام آئے۔ یہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تعریف و توصیف آج اس لیے کررہے ہیں کہ وہاں ظاہری اعتبار سے بھی فتح ہوئی۔ اگر بالفرض وہاں صورتِ حال برعکس ہوتی تویہ کج فہم اور ظاہر پرست آج حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی باتیں بنارہے ہوتے کہ انھوں نے اتنے عظیم المرتبت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بات نہ مانی اور من مانی کی، اس لیے امت کو اتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران، نساء اور توبہ میں کچھ لوگوں کا ذکر کیا ہے جو فتح حاصل ہونے پر تعریف کے ڈونگرے برساتے تھے اور موجود نہ ہونے کے باوجود اپنی موجودگی دکھاتے تھے اور نقصان کی صورت میں اپنی غیرحاضری کو اپنی سیاسی دانش اور دور اندیشی کے ثبوت میں پیش کرتے تھے۔
حسینی عزم پر آج اعتراض کرنے والوں کو اپنا دامنِ دل ٹٹولنا چاہیے، کہیں اسی مرض نے وہاں انڈے بچے نہ دے رکھے ہوں۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشا لبِ بام ابھی
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین علیہ السلام کا شرحِ صدر
تاریخ اسلام کے ان دو کڑے وقتوں میں صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ اور صرف حسین علیہ السلام کو شرحِ صدر ہوا، یہ سعادت کسی اور کو نصیب نہ ہوئی، یہ سوچنے کی بات ہے۔ غور کیجئے تو سمجھ آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جیسے اپنی ظاہری اور دنیوی حیات میں کارِ امت انجام دیتے تھے، مشکلات میں رہنمائی فرماتے تھے اور پریشانیوں میں دلداری کرتے تھے، وفات کے بعد برزخی حیات میں بھی آپ ﷺ کا فیض جاری ہے۔ آج بھی آپ ﷺ کسی نہ کسی رنگ میں کسی نہ کسی ذریعے امت کی رہنمائی فرماتے ہیں۔
مذکورہ دو کڑے وقتوں میں ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حسین علیہ السلام کا شرحِ صدر درحقیقت رسول اللہ ﷺ کا فیض ہدایت اور آپ ﷺ کی روحانی نصرت تھی جو ان دو صحابیوں کے وسیلے سے امت کو حاصل ہوئی جو اپنے اپنے عہد میں رسول اللہ ﷺ کے سب سے زیادہ مقرب اور محبوب تھے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قربت اور محبت محتاجِ بیان نہیں اور سیدنا حسین علیہ السلام کے دور میں حسین علیہ السلام کے سوا کون تھا جس کے پاس رسول اللہ ﷺ کی محبتوں کا خزانہ ہو۔۔۔ نبوی فراست جس کی آنکھوں میں دمک رہی ہو۔۔۔ علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت جس کے کردار میں چمک رہی ہو۔۔۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تربیت جس کی سیرت میں مہک رہی ہو۔یہ صرف حسین علیہ السلام ہی تھے۔
اس لیے انہی دونوں کو اپنے اپنے دور میں شرح صدر ہوا اور پھر وقت کی کسوٹی نے ثابت کردیا کہ یہی اس کام کے اہل تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو کیا، وہ انہی کا حصہ تھا، حسین علیہ السلام نے جو قدم اٹھایا، وہ انہی کے لائق تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اقدام کے بعد ارتداد، بغاوت اور ادعائے نبوت کے فتنے دم توڑ گئے اور حقیقت کھل گئی، اسی طرح حسین علیہ السلام کے اقدام کے بعد آمریت کو کبھی عزت اور ملوکیت کو کبھی ثبات حاصل نہ ہوسکا اور خلافت و ملوکیت کی حقیقت عالم پر آشکارا ہوگئی۔
خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را