سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زندگی اسلامی تاریخ میں ایک درخشندہ اور تابندہ باب ہے جو ہر تاریخ سے افضل اور برتر ہے۔ ایسی روشن زندگی کہ جس کی شرافت، بزرگی، اخلاص، جہاد اور دعوت الی اللہ کا معمولی حصہ بھی دوسری تمام قوموں کی تاریخ نہیں سمیٹ سکی۔ آپ دوسرے خلیفہ راشد ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد صحابہ میں سب سے افضل تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیں رغبت دلائی ہے اور حکم دیا ہے کہ ہم ان کے طریقوں کی پیروی کریں اور ان کے راستہ پر چلیں، آپ ﷺ نے فرمایا:
علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی
(سنن ابی داؤد، 4: 201)( الترمذی، 5: 44)
’’میری اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔‘‘
پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انبیاء و مرسلین اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد نیکیوں میں سب سے بہترین ہیں اور ان دونوں کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر وعمر.
(سنن الترمذی، 3: 200)
’’میرے بعد ابوبکر و عمر کی اقتداء کرنا۔‘‘
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی آپ رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو ظاہر کرتا ہے:
لقد کان لکم فیمن قبلکم من الامم محدثون فان یکن فی امتی احد فانہ عمر.
(البخاری: 3689) ( مسلم: 2398)
’’تم سے پہلے کی تمام امتوں میں الہام یافتہ شخصیتیں ہوتی تھیں، پس اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہیں۔‘‘
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی معاشرتی زندگی کتابِ الہٰی اور سنت نبوی کی زندہ تصویر تھی، معاشرتی زندگی میں آپ کے افکار و کردار سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ کی سیرت اسلامی زندگی کا مجسم نمونہ تھی۔ اس حوالے سے ذیل میں آپ کے چند افکار و کردار کا ذکر کیا جاتا ہے:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور خواتین کی خبر گیری
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مسلمان عورتوں اور ضعیف خواتین کی خصوصی دیکھ بھال کرتے تھے، انہیں ان کا حق دیتے اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہیں ہونے دیتے تھے۔ جن خاندانوں کے مرد حضرات جہاد پر ہوتے ان کی تمام ضروریات پر نگاہ رکھتے، بیواؤں کے حقوق ان تک پہنچانے کے اس قدر حریص تھے کہ آپ نے یہاں تک کہہ دیا:
’’اگر اللہ نے مجھے صحیح سالم رکھا تو عراق کی کسی بیوہ کو محتاج نہ چھوڑوں گا، جو میرے بعد کسی سے اپنی ضرورت مانگے۔‘‘
(صحیح التوثیق فی سیرۃ و حیاۃ الفاروق عمر بن الخطاب، ص: 373)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عورت کا مقام و مرتبہ پہچانتے تھے اور جانتے تھے کہ عورت بھی ایک حساس اور باشعور مخلوق ہے، وہ بھی دیکھتی سوچی اور سمجھتی ہے۔ اس لیے آپ رضی اللہ عنہ جس طرح مردوں سے مشورہ لیتے تھے، عورتوں سے بھی مشورہ لیتے حتی کہ بعض مواقع پر شفاء بنت عبداللہ عدویہ کی رائے کو مقدم رکھتے۔ پس عورت کو کس چیز کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے جسے اسلام کے علاوہ دوسری جگہوں پر تلاش کیا جاتا ہے۔ امیرالمومنین ملکی معاملات میں عورت سے مشورہ لیتے ہیں اور اس کی رائے پسند بھی کرتے ہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود کو مجاہدین کے بچوں کا باپ شمار کرتے تھے، جن خواتین کے شوہر جہاد پر ہوتے، آپ ان کے دروازوں پر جاکر پوچھتے: کیا تمھیں کسی چیز کی ضرورت ہے؟ آپ لوگوں کو کچھ خریدنا ہے؟ مجھے پسند نہیں کہ خریدوفروخت میں تم دھوکا کھاجاؤ۔ پھر وہ عورتیں اپنے چھوٹے بچوں کو آپ کے ساتھ بھیج دیتیں، آپ بازار میں داخل ہوتے تو آپ کے پیچھے بے شمار بچے اور بچیاں ہوتیں، آپ ان کی ضروریات خرید کردیتے اور جس کے پاس رقم نہ ہوتی، اسے اپنی طرف سے خرید کردیتے، جب کسی سرحدسے مجاہدین کے پاس سے حکومتی کارندہ آتا تو مجاہدین کے خطوط ان کی بیویوں کے گھر گھر جاکر بذات خود پہنچاتے اور مجاہدین کے گھر والوں کے خطوط مجاہدین تک پہنچاتے۔آپ ان سے کہتے:
تمھارے خاوند اللہ کے راستے میں ہیں اور آپ لوگ رسول اللہ ﷺ کی بستی میں ہیں۔ اگر تمھارے پاس خط کا پڑھنے والا یا لکھنے والا کوئی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ دروازے کی آڑ میں قریب آجاؤ تاکہ تمھیں خط پڑھ کر سنادوں اور تمھارا جواب لکھ کر ان تک پہنچادوں۔
(اخبار عمر، ص: 339، سراج الملوک، ص: 109)
معاشرے کے کمزور لوگوں کی نگرانی اور خبر گیری کرنا نصرت و تائید الہٰی کا سبب اور عظیم ترین کار ثواب ہے۔ لہذا اسلامی تحریکات کے پیشواؤں، مسلمانوں کے حکام، مساجد کے ائمہ اور تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ انسانیت کے اس مقصد کو اپنے معاشرہ میں وسیع کریں اور اسے پورا پورا حق دیں۔
رعایا کے بہترین کارناموں کا لحاظ
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے بہترین کارناموں کا لحاظ رکھتے تھے۔ آپ کے پاس مردم شناسی کا نہایت دقیق پیمانہ تھا، چنانچہ آپ نے فرمایا:
’’تم کو کسی آدمی کی شہرت دھوکے میں نہ ڈال دے، اچھا اور کامل آدمی وہ ہے جو امانت دار ہو اور لوگوں کی غیبت کرنے سے دور رہے۔‘‘
(فقہ الائتلاف، محمود محمد الخزندار، ص: 164)
آپ یہ بھی کہتے تھے: ’’کسی شخص کی نماز اور اس کے روزے سے دھوکہ نہ کھاؤ بلکہ اس کی دانائی اور سچائی کو دیکھو۔‘‘
ایک مرتبہ فرمایا: ’’مجھے تمھارے بارے میں دو قسم کے لوگوں سے کوئی خوف نہیں ہے: پکا سچا مومن کہ جس پر ایمانی علامات ظاہر ہوں اور کافر جس کا کفر واضح ہو۔ البتہ میں تمھارے بارے میں اس منافق سے ڈرتا ہوں جو ایمان کے پس پردہ غیر ایمانی عمل کرتا ہے۔‘‘
ایک آدمی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گواہی دینے آیا، آپ نے جاننا چاہا کہ کیا کوئی اس کا تزکیہ و تصدیق کرنے والا ہے۔ ایک آدمی نے کہا: اے امیرالمومنین میں اس کی اچھائی اور صداقت کی گواہی دیتا ہوں۔ آپ نے پوچھا: کیا تم اس کے پڑوسی ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کسی دن اس کے ساتھ رہے ہو کہ اس کی حقیقتِ حال سے واقف ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کبھی تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے؟ کیونکہ سفر اور پردیس لوگوں کو پرکھنے کا ذریعہ ہے۔ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے کہا: شاید تم نے اسے مسجد میں اٹھتے بیٹھتے اور نماز پڑھتے دیکھا ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: جاؤ تم اس کو نہیں پہچانتے۔
(عمر بن الخطاب، صالح بن عبدالرحمن بن عبداللہ، ص: 66)
واقعات و شواہد بتاتے ہیں کہ خدمت اسلام کے لیے عظیم کارناموں کے بدلے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اللہ کے فضل و احسان سے اور اعزاز و احترام فاروقی سے نوازی گئی۔ اس سلسلہ کے درج ذیل واقعات قابلِ ذکر ہیں:
1۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں اپنی قوم کے کچھ لوگوں کو لے کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، آپ قبیلہ ’’طی‘‘ کے ہر فرد کے لیے دو ہزار درہم مقرر کرنے لگے اور مجھے نظر انداز کردیا۔ میں آپ کے سامنے آکھڑا ہوا لیکن آپ نے پھر نظر انداز کردیا۔ پھر میں بالکل آپ کی نگاہوں کے سامنے آکھڑا ہوا لیکن آپ نے مجھ پر توجہ نہ دی۔ میں نے کہا: اے امیرالمومنین! آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ آپ ہنسنے لگے، یہاں تک کہ لوٹ پوٹ گئے۔ پھر کہا: ہاں، اللہ کی قسم! تمھیں یقیناًپہچانتا ہوں۔ جب انھوں نے کفر کیا تب تم ایمان لائے، جب انھوں نے پیٹھ پھیری تب تم آگے آئے، جب انھوں نے بے وفائی کی تب تم نے وفاداری کا ثبوت دیا اور سب سے پہلی زکوٰۃ جس نے نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کے چہروں کو روشن کیا، وہ قبیلہ طی کی زکوٰۃ تھی، تم اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تھے۔ پھر آپ نے عدی سے معذرت کی اور کہا: میں نے ان لوگوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا ہے جن کو فاقہ نے گھیر لیا ہے، حالانکہ وہ اپنی قوم کے سردار رہے ہیں اور یہ ان کا حق بنتا ہے۔
(صحیح مسلم: 2523) ( مسند احمد: 316)
2۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: آپ لوگ اپنی اپنی تمنا بیان کیجئے۔ کسی نے کہا: میری تمنا ہے کہ اگر یہ گھر سونے سے بھرا ہوتا تو میں اسے اللہ کے راستہ میں صدقہ کردیتا۔ ایک نے کہا: اگر یہ گھر ہیرے جواہرات سے بھرا ہوتا تو میں اسے اللہ کے راستے میں صدقہ کردیتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اور بھی تمنا کرو۔ انھوں نے کہا: ہم اور کیا تمنا کریں، ہم نہیں جانتے۔ آپ نے فرمایا: میری آرزو اور تمنا یہ ہے کہ یہ گھر ابوعبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل، ابو حذیفہ کے غلام سالم، اور حذیفہ بن یمان جیسے لوگوں سے بھر جاتا اور میں انہیں اللہ کی راہ میں استعمال کرتا۔
(مستدرک حاکم، 3: 266) (تہذیب الکمال، المزی، 5: 505)
یہ لوگ آپ کے اسلامی بھائی تھے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سچے دوستوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا: راست گو بھائیوں کی صحبت اختیار کرو اور ان کے زیر سایہ زندگی گزارو۔ وہ لوگ خوش حالی میں سامانِ زینت اور مصیبت کے وقت زادِ راہ ہیں۔ اور اپنے بھائی کے معاملے کو بحسن و خوبی نمٹاؤ تاکہ اس سے تمھیں کوئی پریشانی نہ لاحق ہو۔اپنے دشمن سے دور رہو اور اپنے دوستوں سے ہوشیار رہو مگر یہ کہ وہ امین ہو اور امین وہی ہوسکتا ہے جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو۔ فاجر کی صحبت نہ اختیار کرو کہ اس کے فجور کو تم بھی سیکھ لو، نہ اسے اپنے بھید سے خبردار کرو اور اپنے معاملہ میں اس آدمی سے مشورہ لو جو اللہ سے ڈرتاہو۔
(مختصر منہاج القاصدین، ص: 100)
3۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے کسی اسلامی بھائی کو رات کو اس طرح یاد کررہے تھے: ہائے رات کی لمبائی (تو کب ختم ہوگی) جب صبح کی نماز پڑھی تو ان کے پاس گئے اور ملاقات ہوئی تو ان سے چمٹ گئے اور گلے لگالیا۔
(اخبار عمر، ص: 321)
4۔ آپ کہتے تھے: اگر میں اللہ کے راستہ میں نہ چلوں، اللہ کی اطاعت میں اپنی پیشانی خاک آلود نہ کروں یا ان لوگوں کی مجلس میں شرکت نہ کروں جو بھلی اور حکمت کی باتوں کو ایسے ہی لے لیتے ہیں جیسے کہ پھل چناجاتا ہے، تو میں یہ پسند کروں گا کہ کاش میں مرگیا ہوتا۔
(الشیخان ابی بکر وعمر، بروایت بلاذری، ص: 225)
معاشرہ میں آپ رضی اللہ عنہ کا رعب و دبدبہ
لوگوں کے دلوں میں عمر رضی اللہ عنہ کا احترام بھی تھا اور رعب بھی، ایسا رعب جو ایک آہنی عزم کے انسان ہی کا ہوسکتا ہے اور اس کی روشن مثال یہ ہے کہ انھوں نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا پروانہ اس وقت جاری کیا جب ان کی شہرت بام عروج پر پہنچی ہوئی تھی۔ جنگ میں ان کی قیادت بلکہ محض موجودگی بھی کامیابی اور فتح مندی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ ہر طرف سے ان کو مدح و تحسین کا خراج پیش کیا جارہا تھا۔ ان کا قائدانہ و فاتحانہ اقبال اپنے نقطہ عروج پر تھا، ایسے عالم میں اور ایسے وقت میں جبکہ مسلمانوں کو ان کی قیادت کی سخت ضرورت تھی اور وہ ہر دل عزیز تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کومعزول کرنے کا فیصلہ نافذ کردیا اور یہ حکم اس وقت پہنچا جب مسلمان رومیوں کے مقابلہ میں جنگ یرموک کے میدان میں صف آرا تھے اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ ایسا نازک وقت تھا کہ اچھے اچھوں کے قدم ڈگمگا سکتے تھے اور نفس امارہ بلکہ فطری خودداری بھی اپنا رنگ دکھا سکتی تھی لیکن عمر رضی اللہ عنہ کا رعب وجلال اور خالد رضی اللہ عنہ کی قوتِ ایمانی تھی کہ حکم پاتے ہی ان کی زبان سے نکلا: سمعا وطاعۃ لامیرالمومنین امیرالمومنین کاحکم سر آنکھوں پر۔
اور جب ان سے کہا گیا کہ ایسے نازک موقع پر یہ عظیم تبدیلی لشکر اسلام اور مسلمانوں میں انتشار کی موجب ہوسکتی ہے تو انھوں نے فرمایا کہ ’’جب تک عمر موجود ہیں کسی فتنہ کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا امیرالمومنین کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کرنا جبکہ وہ ایک مقبول عام، صاحبِ اقبال فاتح و سپہ سالار تھے اور ان کا اس طرح عاجزی کے ساتھ سپہ سالاری کے عہدہ سے اتر کر معمولی سپاہی بن جانا ایک ایسا واقعہ ہے جس کی دنیا کی جنگی اور فوجوں کی سپہ سالاری کی تاریخ میں مثال ملنی مشکل ہے۔ اس کے ساتھ یہ عمر رضی اللہ عنہ کے دبدبہ کی بھی دلیل ہے اور یہ کہ ان کو کس درجہ تمام امور سلطنت اور فوج پر قابو تھا۔
(المرتضیٰ، ابوالحسن علی الحسنی الندوی، ص: 107)
معاشرہ میں بعض بے جا تصرفات پر پابندی
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زندگی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کی آئینہ دار تھی، اسی وجہ سے آپ کسی بھی غلط کردار یا بے جاتصرفات جس سے اسلامی معاشرہ میں برائیاں پیداہوں، انہیں قطعاً برداشت نہ کرتے تھے۔ اس باب میں آپ ایسے واقعات ملاحظہ کریں گے جس میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بعض غلطی کرنے والوں کو سیدھے راستے پر لگادیا:
1۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ زبیر بن عوام کے ذبیحہ خانہ آتے تھے، اس وقت مدینہ میں وہی ایک ذبیحہ خانہ تھا، آپ کے پاس درہ ہوتا تھا۔ اگر آپ کسی آدمی کو مسلسل دو دن گوشت خریدتے دیکھتے تو اسے درے لگاتے اور کہتے: کیا تم اپنے شکم کو اپنے پڑوسی اور چچا زاد بھائی کے لیے سمیٹ نہیں سکتے۔
(الدور السیاسی، صفوۃ، ص: 221)
2۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بھکاری کو مانگتے ہوئے دیکھاجبکہ اس کی پیٹھ پر کھانے سے بھرا ہوا تھیلا تھا۔ آپ نے اس سے کھانا چھین لیا اور اسے صدقہ کے اونٹوں کے آگے ڈال دیا اور پھر کہا: اب تمھیں جو مانگنا ہو مانگو۔
(مناقب امیرالمومنین، ابن لاجوزی، ص: 101)
رعایا کی صحت و تندرستی پر آپ کی خصوصی توجہ
خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رعایا کی صحت و تندرستی پرخصوصی توجہ کی۔ آپ لوگوں کو موٹاپے کے نقصانات اور اس کی ہلاکت خیزیوں سے آگاہ کرتے تھے اور انہیں جسمانی تخفیف پر ابھارتے تھے۔ کیونکہ بدن ہلکا ہونے کی صورت میں واجبات کی ادائیگی پر قدرت اور دیگر کاموں میں قوت و نشاط ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ کہا کرتے تھے:
’’اے لوگو! اپنے آپ کو توند والا ہونے سے بچاؤ کیونکہ وہ نماز میں سستی، جسم کی خرابی اور طرح طرح کی بیماریوں کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ توند والے مذہبی رہنما کو پسند نہیں کرتا۔ تم اپنی طاقت کے حد اعتدال میں رہو۔ یہ بھلائی سے بہت قریب، بے اعتدالی سے بہت دور اور عباداتِ الہٰی کے لیے بڑی قوت کا سبب ہے۔ کوئی بندہ اس وقت تک ہر گز گمراہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی شہوت کو اپنے دین پر ترجیح نہ دے دے۔
(الخلیفہ الفاروق، عبدالرحمن العانی، ص: 124)
1۔ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک توند والے آدمی کو دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: بس یہ اللہ کی برکت ہے۔ آپ نےفرمایا: برکت نہیں، یہ اللہ کی طر ف سے عذاب ہے۔
(مناقب عمر امیرالمومنین، ص: 200)
2۔ جہاں تک عام شہریوں کی صحت پر آپ کی خصوصی توجہ کی بات ہے تو اس سلسلے میں آپ کا طریقہ یہ تھا کہ جس شخص کو کوئی متعدی بیماری ہوتی، اسے بیماری پھیلنے کے خوف سے دوسروں سے ملنے جلنے سے روکتے تھے اور اسے مائل بہ صحت ہونے تک اپنے گھر میں ہی رہنے کی نصیحت کرتے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کا گزر ایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جسے جذام (کوڑھ) کی بیماری تھی اور وہ خانہ کعبہ کا طواف کررہی تھی۔آپ نے اس سے کہا: اے اللہ کی بندی! بہتر ہوتاکہ تم اپنے گھر ہی میں رہتیں اور لوگوں کو تکلیف نہ پہنچاتیں۔ چنانچہ وہ گھر چلی گئی۔ (کچھ ہی دنوں بعد) اس کے پاس سے ایک آدمی گزرا تو کہا: جنھوں نے تم کو گھر سے نکلنےسے روکا تھا، ان کی وفات ہوگئی، اب تو نکلو۔ اس نے جواب دیا: میں ایسی نہیں ہوں کہ جب وہ باحیات ہوں تو فرمانبرداری کروں اور جب وفات پاجائیں تو ان کی نافرمانی کروں۔
اسی طرح آپ لوگوں کو ورزش کرنے، گھڑسواری اور گھوڑا دوڑانے کی تاکید کرتے تھے اور کہتے تھے: اپنی اولادوں کو تیراکی اور تیر اندازی سکھاؤ اور انہیں حکم دو کہ وہ گھوڑوں سے گھوڑوں پر کودنا سیکھیں اور انہیں بہترین اشعار یاد کراؤ۔
(الخلیفہ فاروق، ص: 125)
عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کے مہاجرین صحابہ کے بارے میں سورۃ الحج کی آیت: 41 میں بتایا کہ جب اللہ تعالیٰ انھیں زمین پر غلبہ دے دے گا تو وہ چار کام کریں گے: اقامتِ نماز، ادائیگی زکوٰۃ، بھلائی کا حکم اور برائی پر پابندی۔
تاریخ گواہ ہے اور زبانِ خلق بھی شاہد ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کاموں کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ مالی نظام، محکمہ قضاء، فوجی نظام اور عمال و امراء سے متعلق امور کے متعدد شعبہ جات (جیسے ملکی اداروں کی حفاظت و ترقی) پر آپ نے خصوصی توجہ دی اور منصب خلافت پر بحیثیت خلیفۃ المسلمین نیز اسلامی سلطنت میں مسلم ریاستوں کے توسط سے آپ نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ لوگوں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی ﷺ کے احکامات کی پابندی کرائیں اور جن کاموں سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے ان سے لوگوں کو دور رکھیں۔
عابس بن ربیعہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ حجر اسود کے پاس آئے، اسے بوسہ دیا اور کہا: ’’میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے، نہ تو نقصان پہنچاسکتا ہے، نہ ہی نفع۔ اگر میں نبی ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘
(صحیح البخاری: 1597)
درحقیقت یہ اتباع نبوی کی سب سے بہترین مثال اور اس کا سب سے خوب صورت مفہوم ہے۔ حافظ ابن حجرؒ امام طبریؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس وجہ سے کہی تھی کہ لوگ ابھی نومسلم تھے اور تازہ تازہ ہی بتوں کی عبادت چھوڑی تھی، آپ ڈرے کہ کہیں جاہل لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ حجر اسود کا بوسہ بعض پتھروں کی تعظیم کا ایک حصہ ہے، جیسے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے۔ پس عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بتانا چاہا کہ نبی ﷺ کے اتباع میں اس کا استلام کیا جاتا ہے۔ (پتھر کی عظمت کی وجہ سے نہیں)
اس کے بعد ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جن امور شرعیہ کی علت و حکمت نہ معلوم ہوسکے، اس میں مسلمانوں کو تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور بہتر طریقے سے اتباع کرنا چاہیے۔ اتباع نبوی کے باب میں یہ ایک عظیم قاعدہ ہے کہ نبی ﷺ کی سنت کا مکمل اتباع ہونا چاہیے اگرچہ آپ کی سنت کی حکمتیں سمجھ میں نہ آئیں۔
(فتح الباری، 3: 590، 591)
سنت نبوی کا اتباع اور اس پر جان نثار ہونے کا جذبہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی غیبی نصرت و تائید کا سبب تھا۔ وہ بخوبی جان چکے تھے کہ اللہ کی محبت پانے اور اس کی مدد و تائید کے استحقاق کے لیے سنت نبوی کا اتباع ضروری ہے۔
تجارت اور بازاروں کی نگرانی
عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس بات کے حریص رہے کہ بازار میں لین دین کرنے ولوں کے حالات سے باخبر رہیں، انہیں اسلامی شریعت کے مطابق لین دین کرنے پر ابھاریں۔ آپ اپنے علاوہ کسی کو بازار کی نگرانی پرمامورکردیتے تھے۔ مثلاً آپ نے سائب بن یزید اور عبداللہ بن عتبہ بن مسعود وغیرہ کو مدینہ کے بازار کی نگرانی پر مامور کیا تھا۔
ایک محقق یہ ملاحظہ کرسکتا ہے کہ اسلامی حکومت میں احتساب کا نظام اسلامی شریعت کے مطابق وجود میں آیا اور اسلامی معاشرے کی دیگر ترقیات کے ساتھ اس میں بھی ترقی ہوئی۔ یہاں تک کہ ایسی سلطنت وجود میں آئی جس کے حاکم میں چند اسلامی شرطوں کا پایا جانا ضروری قرار پایا۔ نیز کس کا محاسبہ کیا جائے اور کن چیزوں میں محاسبہ کیا جائے؟ اس کے لیے کچھ شرطیں ضروری قرار دی گئیں۔
1۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ بازاری معاملات کا محاسبہ کرنے میں بھی بہت سخت واقع ہوئے تھے۔ آپ ہاتھ میں درہ لیے ہوئے بازار میں گھومتے تھے اور جسے اس کا مستحق سمجھتے اس کی اس سے سرزنش کرتے۔ آپ تاجروں اور خریداروں کی ضرورت و حفاظت کے پیش نظر بوقتِ ضرورت ضروری سامان کی قیمت بھی متعین کردیتے تھے۔ ایک آدمی بازار میں تیل فروخت کرنے آیا اور عام تاجروں کی قیمت سے زیادہ قیمت پر بیچنے لگا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: یا تو بازار کی عام قیمت میں بیچو یا ہمارے بازار سے چلے جاؤ۔ ہم تمہیں ایک قیمت پر مجبور نہیں کرتے، آپ نے سے بازار سے دور بھگادیا۔
(تاریخ المدینۃ المنورۃ، 2: 749)
2۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایسے آدمی کو درے لگاتے تھے جو بازار میں تجارت کرنے آتا اور لین دین کے متعلق شرعی احکامات نہ جانتا ہوتا۔ آپ اسے کہتے: جو شخص سود کو نہ پہچانتا ہو، وہ ہمارے بازر میں نہ بیٹھے۔
عمر رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں حکومت کے تمام تر معاملات اہمیت و اہتمام کے حامل تھے، کسی گوشہ کا دوسرے گوشہ پر ظلم نہیں ہوتا تھا اور نہ حاکم وقت کے ہوتے ہوئے کسی صورت حال میں بگاڑ پیدا ہوسکتا تھا۔ وہ حاکم تجارت کےایسے قوانین اور اصول بناتے جو بازاروں کے مناسب اور ان کے مفاد میں ہوتے۔ لین دین کو منظم کرتے اور بھروسہ و اطمینان کے ضامن ہوتے۔ ان اصولوں کی تنفیذ کے بعد نہ غبن ہوتا، نہ دھوکا اور نہ کوئی احتکار اور بلیک مارکیٹنگ ہوتی، نہ تجارت کی دنیا میں جواز و عدم جواز سے کسی کو ناواقفیت ہوتی۔ مختصر مگر جامع قرار داد صادر ہوتی جو تمام تر مفاسد کا استیصال اور ہر چیز کو منظم کردیتی۔یہ ہے فرمان فاروقی کہ جو تجارت کے شرعی اصولوں کو نہ سمجھتا ہو وہ ہمارے بازارمیں تجارت نہ کرے۔
(شہید المحراب، ص: 209)
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا علم سے شغف
امت مسلمہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی علمی گہرائی کی شہادت دی ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ اسلام کے شروع دور میں آپ امت مسلمہ کے فقیہ تھے۔ فکرو فہم کی گیرائی، تحلیل و تجزیہ کی قدرت اور استنباط کی مہارت میں آپ نے شہرت پائی۔ اللہ کے فضل و توفیق کے بعد آپ مذکورہ جن خصوصیات و اوصاف سے متصف ہوئے، حقیقت میں اس ممتاز مقام و منصب کے لیے وہ ضروری بھی تھیں۔ چنانچہ جب خلافت آپ کے ہاتھ میں آئی تو آپ مسلمانوں کے فقیہ بن کر ابھرے اور اسلام کی حقیقی معرفت نیز اس کی جوہر شناسی کے نتیجہ میں آپ نے اپنے اجتہادات کے ذریعے سے عدالت و ثاقت کے قواعد وضع کیے۔ فقیہ سمجھے جانے والے صحابہ میں آپ سب سے آگے تھے۔
سلف صالحین نے آپ کے علم، سمجھ اور شرعی احکام کی دقیق معرفت کو خوب سراہا ہے۔ آپ حدیث قبول کرنے میں بہت محتاط تھے۔۔۔ صحابہ کے ساتھ علمی مذاکرہ کا اہتمام کرتے تھے۔۔۔ جن مسائل کو رسول اللہ ﷺ سے نہیں سیکھ سکے تھے انہیں صحابہ کرامl سے پوچھتے تھے۔۔۔ طلب علم پر رغبت دلانے والے بہت سے اقوال آپ سے ثابت ہیں۔۔۔ اپنی رعایا کو تعلیم و توجیہ سے نوازا۔۔۔ فقہ و فتویٰ کے لیے آپ نے مدینہ میں ایک گھر خاص کیا، جو بعد میں مدرسہ کی شکل اختیار کرگیا اور اس سے قاضی و حکمران بن کر نکلنے لگے۔ اس مدرسہ نے صحابہ کی ایک ایسی منتخب جماعت تیار کی جنھوں نے فتوحات کے موقع پر علمی اداروں (مسجدوں) کی قیادت کی۔ انھوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول کی روشنی میں مفتوحہ قوموں کو اسلامی تعلیم و تربیت دی۔ اس طرح علمی مدارس کی تاسیس میں سب سے پہلی اینٹ آپ نے رکھی اور یہ علمی مدارس جیسے بصرہ، کوفہ اور شام کے مدارس، امت مسلمہ کے دلوں میں کافی موثر ثابت ہوئے۔ آپ نے مکی اور مدنی مدرسہ کو خصوصی ترقی عطا کی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایمان، علم، فکر، گفتگو اور اخلاق کے پہاڑ تھے۔ آپ نےعظمت و برتری کو ہر طرف سے سمیٹ لیا تھا اور یہ عظمت آپ کو گہری بصیرت، اسلام کو عملاً کر دکھانے، اللہ کے ساتھ مکمل تعلق رکھنے اور نبی کریم ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کے نتیجے میں آپ کومیسر آئی تھی۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان اماموں میں سے ہیں جنھوں نے لوگوں کے لیے نشانِ راہ متعین کیا اور جن کے اقوال و افعال پر اس دنیا میں عمل کرتے ہوئے لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔ درحقیقت آپ کی سیرت ایمان کے طاقتور سرچشموں میں سے ایک ہے اور صحیح اسلامی جذبہ کی علامت اور اس دین کی صحیح سمجھ کے لیے ایک مینارہ ہے۔