شانِ اہلِ بیت اطہار علیہم السلام: قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ کی روشنی میں

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر صراحتاً و کنایتاً اور حضور نبی اکرم ﷺ نے صراحتاً اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت و مؤدت کا ذکر فرمایا ہے۔ آیئے اس حوالے سے قرآن مجید کی چند آیات اور آپ ﷺ کے فرامین کا مطالعہ کرتے ہیں:

1۔ محبتِ اہلِ بیت کے سبب اخروی اجر میں اضافہ

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَمَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَۃً نَّزِدْ لَهٗ فِیْهَا حُسْنًا.

(الشوریٰ، 42: 23)

’’اور جو شخص نیکی کمائے گا ہم اس کے لیے اس میں اُخروی ثواب اور بڑھا دیں گے۔‘‘

ائمہ مفسرین کے نزدیک اللہ رب العزت نے مذکورہ آیت مبارکہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت و مودت اور ان کے ذکرکے حوالے سے نازل فرمائی ہے۔حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اقتراف الحسنہ سے کیا مراد ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس آیت مبارکہ میں جس نیکی کا ذکر ہوا ہے، اس سے مراد:

مودتنا اهل البیت.

(المستدرک علی الصحیحین، 3: 188، رقم: 4802)

’’ہم اہلِ بیت کی محبت و مودت ہے۔‘‘

امام شوکانی تفسیر فتح القدیرمیں لکھتے ہیں کہ:

المراد بھذه الحسنۃ ھی المودۃ فی القربی.

(فتح القدیر، ج: 4، ص: 534)

ایسی نیکی جو انسان دنیا میں کرے اور قیامت کے روز اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ اضافہ کرتا چلا جائے، اس نیکی سے مراد اہل بیت اطہار علیہم السلام کی مودت ہے۔

امام قرطبی اپنی تفسیر میں سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا کہ قرآن مجید میں ایک ایسی نیکی کا ذکر ہے کہ جو یہاں کریں گے اور اس کا اجر اخروی زندگی میں بڑھتا چلا جائے گا، وہ کون سی نیکی ہے؟ آپ نے فرمایا:

المودۃ لآل محمد. ای نضاعف له الحسنۃ بعشر فصاعدا.

(القرطبی، الجامع الاحکام للقرآن، ج: 16، ص: 24)

وہ نیکی آل محمد سے والے بن جاؤ گے تو جب تمہارا نامہ اعمال کھولا جائے گا تو اس مودت و محبت ہے۔ اگر تم اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت سے سرشار ہوجاؤ گے، ان کا ذکر کرنے والے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے میں محبت اہل بیت میں کمائی گئی ہر نیکی کے بدلے 10 گنا ثواب لکھا ہوا پاؤ گے۔

2۔ حبِ اہلِ بیت کا اجر جنت ہے

سورۃ النمل میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ. وَمَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَۃِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ.

(النمل، 27: 89-90)

’’ جو شخص (اس دن) نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر (جزا) ہوگی اور وہ لوگ اس دن گھبراہٹ سے محفوظ و مامون ہوں گے۔ اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو ان کے منہ (دوزخ کی) آگ میں اوندھے ڈالے جائیں گے۔‘‘

مذکورہ آیات مبارکہ کے بارے میں دو اقوال ہیں:

1۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ الحسنۃ سے مراد ایمان ہے اور السیئۃسے مراد کفر اور شرک ہے۔ یعنی جو کلمہ طیبہ پڑھ کر ایمان سے لبریز ہوکر آئے گا تو اللہ رب العزت اس کے اجر میں اضافہ کرتا چلا جائے گا اور جو شرک میں مبتلا ہوکر آئے گا تو اللہ رب العزت اسے منہ کے بل دوزخ کی آگ میں ڈال دے گا۔

2۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس آیت کے ذیل میں امام ثعلبی سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ سےپوچھا گیا کہ اس آیت میں مذکور حسنہ (نیکی) اور سیئہ (برائی) سے کیا مراد ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

الحسنۃ حبنا اھل البیت والسیئۃ بغضنا.

نیکی سے مراد محبتِ اہلِ بیت ہے اور برائی سے مراد بغضِ اہلِ بیت ہے۔

امام ثعلبی نے ایک اور روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ الھزلی کو اپنی بارگاہ میں بلایا اور فرمایا کہ اے عبداللہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آج ایک عجیب و غریب خبر دوں کہ بندہ قیامت کے دن ایک ایسی نیکی اپنے ساتھ لے کر آئے گا کہ اللہ تعالیٰ بغیر سوال و جواب کے اسے جنت میں داخل کردے گا اور کوئی بندہ ایک ایسی برائی لے کر قیامت کےدن آئے گا کہ اللہ رب العزت اسے جہنم میں ڈال دے گا۔ عرض کیا کہ ارشاد فرمائیں۔ آپ نے فرمایا:

الحسنۃ حبنا والسئیۃ بغضنا.

(الثعلبی، الکشف والبیان، ج: 7، ص: 230)

وہ نیکی ہماری محبت ہے اور وہ برائی ہمارا بغض ہے۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا:

الا انبئکم بحسنۃ لا تضرمعھا معصیۃ؟

کیا میں تمہیں اس نیکی کی خبر نہ دوں کہ اگر تم وہ نیکی کرلو تو چھوٹی موٹی غلطیاں اور معصیت تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں۔عرض کیا کہ جی فرمایئے، وہ کون سی نیکی ہے؟ فرمایا: حب آل البیت

وہ نیکی اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت ہے۔

یعنی اگر محبتِ اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کی صورت میں نیکی تمھارے دل میں جاگزیں ہوجائے تو اس کے صدقے سے اللہ رب العزت تمھاری چھوٹی غلطیاں معاف فرمادے گا۔ پھر فرمایا:

الا انبئکم بسئیۃ لاتنفع معھا طاعۃ؟

کیا میں تمہیں کسی ایسی برائی کی خبر نہ دوں کہ جس کے ہوتے ہوئے کوئی نیکی تیرے کام نہیں آئے گی؟ عرض کیا کہ فرمادیجئے وہ کون سا گناہ ہے؟ فرمایا:

بغضهم

اگر تیرے دل میں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کا بغض ہے اور تو اس حال میں عبادت بھی کرتا رہے تو تیری عبادت کسی کام کی نہیں ہوگی۔

(المطالب العالیۃ، ابن حجر عسقلانی، 16: 215، رقم: 3972)

  • حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

فلو ان رجلا صفن بین الرکن والمقام ثم لقی اللہ مبغضا لبنی هاشم لاکبه اللہ علی وجھه فی النار.

(الحسکانی، شواهد التنزیل، ص: 203، 204)

اگر کوئی شخص حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان ساری زندگی ایک ٹانگ پر کھڑا ہوکر عبادت کرتا رہا ہو مگر جب اس کی موت کا وقت آئے تو اس وقت بنی ہاشم یعنی آل محمد کا بغض دل میں رکھتا ہو تو اللہ رب العزت اس کی ساری زندگی کی نیکیاں اور مقام ابراہیم و حجر اسود کے درمیان گزارے ہوئے وقت بھی رائیگاں کردے گا اور اسے اوندھے منہ دوزخ کی آگ میں گرادے گا۔

3۔ اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام اور ان کے محبین کا مقام

سورہ النمل میں مذکورہ اللہ رب العزت کے فرمان؛ وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ (اور وہ لوگ اس دن گھبراہٹ سے محفوظ و مامون ہوں گے۔) کے حوالے سے مفسرین بیان کرتے ہیں کہ اس کا اطلاق اہل بیت اطہار علیہم السلام پر ہے کہ جب ہر جان اور ہر نفس روزِ قیامت گھبراہٹ کا شکار ہوگا اور چہروں پر مایوسی اور پریشانی کے آثار ہوں گے، اس وقت میرے محبوب کے آل پاک کا حال یہ ہوگا کہ وہ ہر گھبراہٹ، پریشانی اور خوف سے آزاد امن کے ساتھ محفوظ کھڑے ہوں گے۔

مفسرین نے یہ بھی بیان کیا کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ساتھ محبت کرنے والے بھی روزِ قیامت غم و حزن اور پریشانی کے بغیر ان کی صحبت میں محفوظ و مامون کھڑے ہوں گے۔

4۔ حبل اللہ سے مراد اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام ہیں

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا.

(آل عمران، 3: 103)

تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور آپس میں تفرقہ میں مت پڑو۔

اس آیت مبارکہ کے بارے میں بھی دو اقوال ہیں:

1. ھو حبل اللہ من اتبعہ کان علی الھدی ومن ترکہ کان علی الضلالۃ.

(ابن ابی شیبہ، المصنف، ج: 6، ص: 133، رقم: 30081)

اللہ کی مضبوط رسی وہ ہے جس نے اس کو تھام لیا، وہ ہدایت پر ہوگا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہوگا۔

حضرت امام جعفرالصادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ حبل اللہ سے کیا مراد ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

نحن حبل اللہ

ہم یعنی اہل بیت اطہارؓ ہی تو حبل اللہ ہیں۔ ہم اہل بیت اطہار ہی خدا کی وہ رسی ہیں جو مضبوطی کے ساتھ اللہ سے جڑی ہے۔ اس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا.

یعنی اگر امت تفرقے سے بچنا چاہتی ہے تو اہل بیت رسول اللہ کا دامن تھام لے۔

  • حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے غدیر خم کے مقام پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرکے فرمایا:

وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي.

(مسلم الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، 4: 1873، رقم: 2408)

میں تمہارے لیے دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں۔ پہلی بھاری چیز کتاب اللہ ہے۔ جس میں تمھارے لیے ہدایت بھی ہے اور نور بھی ہے۔ اگر خیر، معرفت، علم، بقا، ہدایت اور نور چاہتے ہو تو قرآن سے جڑے رہنا، اس قرآن کی ترغیب دیتے رہنا اور اس پر ابھارتے رہنا۔ دوسری چیز میری اہل بیت اطہار علیہم السلام ہیں، ان سے جڑے رہنا۔ میں تمھیں اپنی اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمھیں اپنی اہلِ بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمھیں اپنی اہل بیت کے حوالے سے اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔

  • حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعِتْرَتِي كِتَابُ اللهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنْ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي وَإِنَّ اللَّطِيفَ الْخَبِيرَ أَخْبَرَنِي أَنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُونِي بِمَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا.

(احمد بن حنبل، المسند، ج: 3، ص: 17، رقم: 11147)

میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں: ایک چیز کتاب اللہ ہے اور دوسری چیز میری عترت ہے۔ کتاب اللہ سے مراد بندھی ہوئی وہ رسی ہے جس کا ایک سرا آسمان میں ہے اور دوسرا سرا زمین پر ہے۔ میری عترت میرے اہل بیت ہیں۔ اس لطیف و خبیر رب نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔ قرآن اہل بیت سے جدا ہوگا اور نہ اہل بیت قرآن سے جدا ہوں گے یعنی جب قرآن پڑھو گے اور کوئی بات سمجھ نہیں آئے گی تو تم میری اہل بیت علیہم السلام کے پاس جاؤ گے تو وہ تمھیں سمجھادیں گے کیونکہ یہ دونوں آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور حوض کوثر پر یہ دونوں جڑے ہوئے میرے پاس آئیں گے۔ دیکھومیرے بعد ان دونوں کے ساتھ کیسا سلوک کرو گے؟

  • ایک اور مقام پر حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وَسَأَلْتُ ذَلِكَ لَهُمَا رَبِّي، فَلا تَقْدُمُوهُمَا فَتَهْلَكُوا، وَلا تَقْصُرُوا عَنْهُمَا فَتَهْلَكُوا، وَلا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُم.

(الطبرانی، المعجم الکبیر، 5: 166، رقم: 4971)

میں نے اللہ سے ان دونوں (کتاب اللہ اور اہلِ بیت اطہار) کے بارے میں عرض کیا کہ ان دونوں کے اکٹھا ہونے سے کیا مراد ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ امت کو بتادیں کہ تم ان دونوں سے آگے بڑھنے کی کبھی جرأت نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اور نہ ہی ان دونوں سے پیچھے رہنے کی کوشش کرنا، تب بھی ہلاک ہوجاؤ گے۔ یعنی تمھارے حق میں بہتر یہی ہے ان کے ساتھ جڑے رہنا، نہ آگے بڑھنا کہ وہ پیچھے رہ جائیں اور نہ اتنا پیچھے رہ جانا کہ یہ دونوں آگے چلے جائیں اور تم ان سے جدا ہوجاؤ بلکہ ان کے ساتھ جڑے رہو۔ ان کے خادم بن کے رہو گے تو ہمیشہ کامیاب رہو گےاور کبھی میرے اہل بیت اطہار علیہم السلام کو پڑھانے کی کوشش نہ کرنا، وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں۔

معلوم ہوا کہ کوئی وقت کا امام بنا ہے، نہ بنے گا اور نہ بن سکے گا جب تک وہ چوکھٹِ اہل بیت پر نہیں جھکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہؓ فرماتے ہیں:

ولولا السنتان لھلک النعمان.

(الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ، ج: 1، ص: 264)

اگر مجھے دو سال امام جعفر الصادق علیہ السلام کے قدموں میں بیٹھنے کے لیے نہ ملتے تو میں ہلاک ہوجاتا۔

ابن الہیثم جو ایک نامور مسلم سائنس دان ہیں، ان سے پوچھا گیا کہ آپ سائنسدان کیسے بنے؟ فرماتے ہیں کہ مجھے تو کیمسٹری اور فلکیات کا علم بھی امام جعفر الصادق نے دیا ہے۔ میری ساری زندگی ان کی مرہون منت ہے۔

گویا کوئی مفسر، محدث، مفتی بن ہی نہیں سکتا، جب تک وہ اہل بیت اطہار علیہم السلام سے جڑتا نہیں۔ جس کے دل میں اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت کی نیکی ہے وہ دنیا میں بھی آباد ہے اور آخرت میں بھی آباد ہوگا۔

حُبِّ حسنین کریمین علیہما السلام بزبانِ مصطفی ﷺ

آیئے! چند فرامین مصطفی ﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں جن سے ہمیں معلوم ہوگا کہ آپ ﷺ حسنین کریمین علیہما السلام سے کتنی شدید محبت کرتے تھے:

1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي، فَإِذَا سَجَدَ وَثَبَ الْحَسنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَى ظَهْرِهِ، فإِذَا أَرَادُوا أَنْ يَمْنَعُوهُمَا، أَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ دَعُوهُمَا، فَلَمَّا صَلَّى وَضَعَهُمَا فِي حِجْرِهِ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ هَاذَيْنِ.

(النسائی، السنن الکبریٰ، 5: 50، رقم: 8170)

حضور نبی اکرم ﷺ نماز ادا فرمارہے تھے اور جب سجدے میں تشریف لے گئے تو اچانک سیدنا حسن اور سیدنا حسین علیھما السلام دوڑتے ہوئے آئے اور آقا علیہ السلام کی کمر مبارک پر سوار ہوگئے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کوشش کی کہ آگے بڑھ کر حسنین کریمین علیہما السلام کو حضور ﷺ کی پشت مبارک سے اٹھالیں توحضور ﷺ نے اشارہ فرمایاکہ انھیں رہنے دو۔ جب حضور ﷺ نے نماز مکمل کرلی تو دونوں کو اپنی گود میں بٹھالیا اور فرمایا: جو مجھ سے محبت کرتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ ان دونوں سے محبت کرے۔

2۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ حسنین کریمین علیہما السلام کو اپنے ساتھ لے کر تشریف فرما تھے۔ آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:

مَنْ أَحَبَّهُمَا فَقَدْ أَحَبَّنِي وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي يَعْنِي حَسَنًا وَحُسَيْنًا.

(احمد بن حنبل، 2: 288، رقم: 7863)

جس نے ابن دونوں سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کیاور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔

3۔ ایک اور مقام پر فرمایا:

اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا.

(سنن الترمذی، کتاب المناقب، 5: 656، رقم: 3769)

اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں۔ تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت فرما جو ان دونوں سے محبت کرے۔

4۔ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ سیدہ کائنات فاطمۃالزہرا سلام اللہ علیھا کے حجرہ مبارک کے قریب سے گزرے تو امام حسین علیہ السلام کے رونے کی آواز آئی۔ آپ ﷺ گھر کے اندر تشریف لے گئے اور سیدہ کائنات علیہا السلام کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:

أَلَمْ تَعْلَمِي أَنَّ بُكاءَهُ يُؤْذِينِي.

(الطبرانی، المعجم الکبیر، 3: 116، رقم: 2847)

اے فاطمہ تجھے پتہ نہیں کہ حسین کا رونا مجھے برداشت نہیں۔

5۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أَحَبَّهُمَا أَحْبَبْتُهُ، وَمَنْ أَحْبَبْتُهُ أَحَبَّهُ اللهُ، وَمَنْ أَحَبَّهُ اللَّهُ أَدْخَلَهُ جَنَّاتِ النَّعِيمِ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا أَوْ بَغَى عَلَيْهِمَا أَبْغَضْتُهُ، وَمَنْ أَبْغَضْتُهُ أَبْغَضَهُ اللَّهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ أَدْخَلَهُ عَذَابَ جَهَنَّمَ وَلَهُ عَذَابٌ مُقِيمٌ.

(الطبرانی، معجم الکبیر، 3: 50، رقم: 2655)

جس نے ان دونوں (حسنین کریمین علیہما السلام ) سے محبت کی، میں نے اس سے محبت کی۔ جس سے میں نے محبت کی، اس سے خدا نے محبت کی اور جس سے خدا محبت کرتا ہے اسے نعمتوں والی جنتوں میں داخل کرے گا۔ جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اور بغاوت کی، میں نے اس سے بغض رکھا اور بغاوت کی اور جس سے میں نے بغض رکھا، اس سے خدا نے بغض رکھا اور جس سے خدا بغض رکھتا ہے، اسے عذاب جہنم میں داخل کرے گا اور وہ اسی عذاب میں رہے گا۔

6۔ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک روز میرے گھر میں تشریف فرما تھے اور سیدنا امام حسن و حسین علیہما السلام آپ کے اردگرد کھیل رہے تھے۔ میں کسی کام کے لیے باہر گئی، واپس آئی تو دیکھا کہ آپ ﷺ کے چشمانِ اقدس سے آنسو رواں ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو فرمایا جبریل امین آئے تھے اور انھوں نےمجھے خبر دی ہے کہ

يَا مُحَمَّدُ! إِنَّ أُمَّتَكَ تَقْتُلُ ابْنَكَ هَذَا مِنْ بَعْدِكَ، فَأَوْمأَ بِيَدِهِ إِلَى الْحُسَيْنِ.

(الطبرانی، المعجم الکبیر، ج: 3، ص: 108، رقم: 2817)

یارسول اللہ! آپ کی امت کا ایک گروہ آپ کے بعد آپ کے اس بیٹے کو قتل کردے گا اور حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا۔ آپ ﷺ نے حضرت ام سلمہؓ کو فرمایا کہ جبرائیلؑ نے مجھے اس مقام کی مٹی بھی دی ہے جہاں حسین کو شہید کیا جائے گا۔ پس یہ سن کر مجھ پررقت طاری ہوگئی۔ پھر آپ ﷺ نے امام حسین کو اپنے سینے سے لگالیا اور فرمایا:

يَا أُمَّ سَلَمَةَ إِذَا تَحَوَّلَتْ هَذِهِ التُّرْبَةُ دَمًا فَاعْلَمِي أَنَّ ابْنِي قَدْ قُتِلَ.

اے ام سلمیٰ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا (حسینؓ) قتل ہوگیا۔

امام حسینؑ کو اذیت دینا آپؐ کو اذیت دینا ہے

جس نے کربلا کے میدان میں اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کا خون بہادیا، ظلم و ستم کا بازار گرم کردیا اور اہل بیت اطہار علیہم السلام پر قیامت برپا کردی۔ کیا آج وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے معافی کی کوئی گنجائش ہوگی؟ نہیں ایساممکن نہیں، اس لیے کہ ایک انسان کاقتل پوری انسانیت کا قتل ہے مگر اہل بیت اطہار علیہم السلام کے شہزادے کا قتل صرف انسانیت کا قتل ہی نہیں بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کو اذیت دینے والا عمل ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

یُؤْذُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا.

(الاحزاب، 33: 57)

’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘

سیدنا امام حسین علیہ السلام کو اذیت دینا مصطفی ﷺ کو اذیت دینا ہے اور جس نے حضور ﷺ کو اذیت دی، اس نے اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی، اللہ اسے کبھی معاف نہیں فرماتا۔

حقیقت یہ ہے کہ یزید نے تاریکی اور ظلم کی تاریخ رقم کی جبکہ امام حسین علیہ السلام نے ایک ایسی روشن تاریخ رقم کی جو رہتی دنیا تک زندہ رہے گی۔دنیا یزید کو ملعون، کافر، مرتد، جہنمی، بدبخت، جیسے الفاظ سے یاد کرتی ہے جبکہ دوسری طرف خانوادہ رسول ﷺ کی قربانیوں کو اللہ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا اور چودہ صدیاں گزر گئیں آج تک دنیا عقیدت و محبت کے انتہائی جذبات کے ساتھ یاحسین یاحسین پکار رہی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کی یہ قربانی اس وقت اپنی انتہا پر دکھائی دیتی ہے کہ جب خانوادۂ رسول دریائے فرات کے کنارے پر تصرف رکھتے ہوئے بھی پیاسا تھا۔حضور نبی اکرم ﷺ کا تصرف یہ تھا کہ اہل بیت و اصحاب حسین کا خون ایک چھوٹی سی شیشی میں بند کردیا۔ مگر آپ اپنے خانوادہ کو شہید ہوتے دیکھ رہے تھے، اگر بچانا چاہتے تو بچاسکتے تھے مگر نہیں بچایا۔ اس لیے کہ ایسی مثال کوئی پیدا کرسکتا تھا اور نہ کرسکے گا۔آپ ﷺ کے تصرف کو دیکھنا ہو تو حدیبیہ کا واقعہ سامنے لائیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَالنَّبِيُّ ﷺ بَيْنَ يَدَيْهِ رِكْوَةٌ فَتَوَضَّأَ فَجَهِشَ النَّاسُ نَحْوَهُ فَقَالَ مَا لَكُمْ قَالُوا لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَيْنَ يَدَيْكَ فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الرِّكْوَةِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُورُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ كَأَمْثَالِ الْعُيُونِ فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قُلْتُ كَمْ كُنْتُمْ قَالَ لَوْ كُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَكَفَانَا كُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَة.

(بخاری، الصحیح، 3: 1310، رقم: 3383)

حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پریشان اور پیاسے ہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوتے ہیں کہ یارسول اللہ ﷺ پینے کے لیے کچھ نہیں۔ ایک چھاگل موجود ہے جس میں صرف چند قطرے پانی ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ اپنا دست اقدس اس چھاگل میں ڈالتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی انگشتانِ مبارک کے درمیان سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے اور چودہ سو صحابہ سیراب ہوتے ہیں۔

گویا تصرف یہ ہوکہ پانی کو تخلیق کرسکتے ہوں، جو خدا سے مانگیں، وہ مل جائے، اشارہ فرمائیں تو چاند دو ٹکڑے ہوجائے، اشارہ کریں تو ڈوبا سورج واپس پلٹ آئے مگر اپنے اہل بیت کو پیاسا دیکھا اور برداشت کیا تو یہ مقام مصطفی ﷺ ہے۔ دوسری طرف امام حسین علیہ السلام پیاسے رہے مگر اپنے نانا کو پانی کی فراہمی کی درخواست کی اور نہ اپنا تصرف استعمال کیا۔ یہ مقامِ حسین ہے۔ اسی صبر، استقامت اور وفا کی خصلت کو آپ ﷺ نے امام حسین علیہ السلام میں دیکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ میری شان کا مظہر بن کر سامنے آئے گا۔ ارشاد فرمایا:

حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ۔

حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔

پس یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اسلام کی عظمت و شرف کا شاہکار حسین ہے۔۔۔ سیرتِ مصطفی ﷺ کا جوہر حسین ہے۔۔۔ نورِ مصطفی ﷺ کا جوبن حسین ہے۔۔۔ حسنِ مصطفی ﷺ کا مظہر حسین ہے۔۔۔ جرأت مصطفی ﷺ کا وارث حسین ہے۔۔۔ اقامتِ دین مصطفی ﷺ کی معراج حسین ہے۔۔۔ انقلاب مصطفی ﷺ کی تکمیل حسین ہے۔۔۔ صبرِ مصطفی ﷺ کا کمال حسین ہے۔۔۔ اور عظمتِ مصطفی ﷺ کا پر تو حسین ہے۔