روحانی پاکیزگی: ایمان کی شرطِ اوّل

عبدالستار منہاجین

اَچھی عادات کو بچپن سے ہی بچوں کے دِلوں میں راسخ کر دیا جائے تو وہ بچے بڑے ہو کر عظیم اِنسان بنتے ہیں، کیونکہ جو عادتیں بچپن میں پختہ ہوجاتی ہیں وہ ساری زندگی غیراِداری طور پر برقرار رہتی ہیں۔ اِنسان بچپن میں جو عادتیں اِختیار کرتا ہے وُہی بڑے ہوتے ہوتے پختہ ہو کر اُس کا کِردار بن جاتی ہیں۔ ہمارا کِردار ہماری عادات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ بچوں کی عادات میں والدین کی تربیت اور گھر کے ماحول کا گہرا اَثر ہوتا ہے۔ کسی معاشرے میں بسنے والے لوگ اگر اپنا اِنفرادی کردار بہتر کرنے پر آمادہ ہوجائیں تو اُس کے نتیجے میں بہتر قومی کردار کا تعین ہو پاتا ہے۔ قومیں اِسی راستے سے ترقی کی منازِل طے کرتی ہیں۔ کامیاب ہونے کیلئے صرف دولت کافی نہیں ہوتی، کامیابی میسر وسائل کے بہتر اِستعمال کا نام بھی نہیں ہے، اَصل کامیابی اُس اَخلاق و کردار کا نام ہے، جو اَفراد کے مزاج سے شروع ہو کر پوری قوم کے مزاج کو تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے۔

دینِ اِسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جونہ صرف اِیمان و عبادات بلکہ اَخلاق و آداب اور معیشت و سیاست سمیت تمام دُنیاوِی معاملات کے حوالے سے بھی اپنے ماننے والوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ حُسنِ اَخلاق کا اَعلیٰ معیار اَدب کہلاتاہے۔ فقہِ اِسلامی کی رُو سے بعض آداب فرض اور واجب کا درجہ رکھتے ہیں، جبکہ باقی سنت اور مستحب کے درجہ میں آتے ہیں، یوں آدابِ زندگی کا دائرہ فرض، واجب، سنت اور مستحب پر اچھے طریقے سے عملدرآمد اور حرام، مکروہ اور مشتبہ سے اِجتناب تک وسیع ہے۔

آدابِ زندگی سے مراد یہ ہے کہ بندۂ مومن اپنی ساری زندگی اِسلام کے عطاکردہ طرزِ حیات کے مطابق گزارنے کی کوشش کرے۔ اَپنے ذاتی معاملات کو بھی اچھے طریقے سے سرانجام دے اور معاشرتی معاملات میں بھی اِسلام ہی سے رَہنمائی لے اور دُوسروں کے حقوق بہترین انداز میں اَدا کرے۔

رُوحانی پاکیزگی کے حصول کیلئے جہاں اِیمان پہلی شرط ہے، وہیں آدابِ زندگی بھی بہت اَہمیّت رکھتے ہیں۔ اچھا مؤمن وُہی ہوتا ہے جس کے اِیمان کے نور سے اُس کے اَعمال منوّر ہوں۔ عمل سے عارِی اِیمان رُوح کو وہ پاکیزگی نہیں دے سکتا کہ جس کے ذریعے ہم موت کے بعد بآسانی جنت کی طرف واپس جا سکیں، یہی وجہ ہے کہ اِیمان والوں کو قرآن و حدیث میں باربار نیک اَعمال اور اَچھے اَخلاق و آداب اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔

اَچھی سوچ اَچھے اَعمال کو جنم دیتی ہے اور اَچھے اَعمال جب ہماری عادات بن جاتے ہیں تو پھر پختہ ہو کر وُہی عادات ہمارا کِردار بن جاتی ہیں؛ اور ہمارا کِردار ہمارا اَصل مقدّر ہوتا ہے۔ گویا بِالواسطہ طور پر ہماری سوچ اور فکر ہی ہمارے مقدّر کا تعین کرتی ہے۔

ہمیں چاہئے کہ ہم رُوحانی پاکیزگی کے حصول کیلئے اپنی زندگی اَللہ ربّ العزت کے دیئے ہوئے ضابطۂ حیات سے اَخذ کردہ آداب کے مطابق گزاریں تاکہ ہمارے جسم و رُوح دونوں پاکیزہ ہوں اور موت کے راستے جنت تک ہمارا سفر آسان ہوسکے۔

ذیل میں آدابِ زندگی میں سے دو اہم ترین آداب؛ غم و الم کے آداب اور خوف و ہراس کے آداب کا تذکرہ کیا جارہا ہے:

1۔ غم و الم کے آداب

غم و الم بھی زندگی کا حصہ ہے، جو ہمیں بہت سے سبق دیتا ہے۔ کبھی کبھار غم کی شدّت ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے، مگر پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ غم ماضی کی یادوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے، یعنی مکمل طور پر رفع ہوجاتا ہے۔ غم کی شدت میں دینِ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں درج ذیل اقدامات کرنا چاہئیں:

1۔ رنج و غم کے لمحات کو صبروتحمل کے ساتھ برداشت کریں اور اپنی ہمت کبھی مت ہاریں۔ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں فرمایا:

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِۚ إِنَّ ٱللهَ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ.

(البقرة، 2 :153)

’’اَے اِیمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اَللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔‘‘

اگر ہم غم کی شدّت میں صبر کریں اور اللہ کی یاد سے لَو لگائیں تو غم کی شدّت کا اِحساس کم ہوجاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:

جب کوئی مسلمان کسی قلبی اذیّت، جسمانی تکلیف، بیماری یا کسی رنج میں مبتلا ہوتا ہے، یہاں تک کہ اُسے کانٹا بھی چبھ جائے اور وہ اُس پر صبر کرے تو اللہ اُس کے گناہوں کو یوں معاف کر دیتا ہے، جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتا ہے۔

(بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 5648)

2۔ غم کی شدّت میں ہمیں دُعا کرنی چاہئے تاکہ ہمارا دِل اللہ ربّ العزت کی طرف متوجہ ہو اور غم کی شدّت میں کمی آئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ ہمیں اس دعا کی تاکید فرماتے ہیں:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ وَالحَزَنِ.

(بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 6363)

’’اَے اَللہ! میں فکر اور غم سے تیری (ہی) پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

3۔ بندۂ مومن رنج و غم کے لمحات کو اللہ ربّ العزت کی طرف سے آزمائش سمجھتا ہے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ وہ اُسے اللہ کی مرضی سمجھ کر اُس کی حِکمت و مصلحت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ہمیشہ اُس میں خیر کا پہلو تلاش کرتا ہے۔ پختہ اِیمان رکھنے والے مؤمن کو رنج و غم میں ثابت قدم رہ کر رُوحانی سکون ملتا ہے اور اُسے غم کی چوٹ میں لذّت ملنے لگتی ہے۔

4۔ ہر قسم کے رنج و غم کی صورت میں اللہ ربّ العزت کی رضا پر راضی رہنے کی عادت ڈالیں۔ بندۂ مومن یہ جانتا ہے کہ اُس کی طرف آنے والی ہر مصیبت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہے اور اُس کی مرضی سے آتی ہے۔ چنانچہ وہ اُمید کا دامن نہیں چھوڑتا اور اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

5۔ جس غم کے نتیجے میں اِنسان صبر و شکر اور قناعت و رضا جیسے اَوصاف اپناتا ہے وہ غم زندگی میں خوشیوں کی بہاریں لاتا ہے؛ اور جس غم کے نتیجے میں اِنسان بےصبری اپناتا اور شکوہ و شکایت کا اِظہار کرتا ہے وہ غم زِندگی کی تکلیفوں میں اِضافے کا باعث بنتا ہے۔

6۔ زِندگی میں کتنا بھی غم ملے اُس سے کبھی مایوس نہ ہوں۔ اگر کوئی بڑی خواہش پوری نہ ہو تو اُسے اللہ کی رضا سمجھ کر راضی رہیں۔ اللہ ربّ العزت اُس سے بہتر نعمت کی صورت میں ہماری دُعاؤں کا صلہ عطا فرمائے گا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔

اِنسان جب غم کو اللہ ربّ العزت کی رضا سمجھ کر اُس میں راحت محسوس کرنے کی بجائے غم کی شدّت کو اپنے اُوپر طاری کر لیتا ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے۔ مایوسی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو کچھ لوگ خودکشی تک جا پہنچتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مایوسی گناہ ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ.

(الزمر، 39: 53)

’’تم اَللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا‘‘

اگرچہ آج کل مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد دُنیاوِی آلائشوں میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے رُوحانی پاکیزگی کے کمال سے عاری ہوچکی ہے پھر بھی اِسلام کی تعلیمات کا فیض ہے کہ مسلمانوں میں خودکشی کی شرح دیگر مذاہب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اِس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اِسلام ہمیں غم کو اپنے اُوپر طاری کرکے مایوس نہیں ہونے دیتا۔ چنانچہ ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق دُنیا میں سب سے زیادہ خودکشی ایسے لوگ کرتے ہیں جو کسی خدا کو نہیں مانتے اور سب سے کم خودکشی مسلمان لوگ کرتے ہیں۔ دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں بھی خودکشی کی شرح مُلحدین کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے، تاہم دیگر مذاہب کے مقابلے میں دین اِسلام کے ماننے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور اِس کا سبب مسلمانوں کا مایوسی سے دُور رہنا ہے۔

(https://www.ncbi.nlm.nih.gov)

7۔ جب رنج و غم کی کوئی خبر پہنچے یا کوئی نقصان ہوجائے یا کوئی ناگہانی مصیبت آن پہنچے تو فوری طور پر اپنے اندر یہ اِحساس بیدار کریں کہ ہم اِس کرۂ ارض پر ہمیشہ کیلئے نہیں آئے، ہمیں ایک دن ضرور یہاں سے لوٹ کر واپس اپنے ربّ کی طرف جانا ہے۔ چنانچہ ایسے موقع پر دِل میں اللہ ربّ العزت کی طرف واپسی کاخیال لائیں۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:

الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْآ اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ.

(البقرة، 2: 156)

’’جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بیشک ہم بھی اَللہ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اُسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی بندہ مصیبت کی صورت میں انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہے تو اللہ ربّ العزت اُس بندے سے خوش ہوکر اُس کی مصیبت دُور فرما دیتا ہے، اُسے اچھے انجام کی طرف لوٹا دیتا ہے اور اُس کے اِس عمل کے صلے میں نعمُ البدل عطا فرماتا ہے۔

8۔ غم سے نمٹنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم غم سے فرار اِختیار کرنے کی بجائے اُسے نہ صرف تسلیم کریں بلکہ مصلحتِ خداوندی سمجھ کر برداشت کریں۔ غم سے نجات کیلئے اِس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں، کیونکہ ہمارے ہر غم میں اللہ ربّ العزت کی کوئی حکمت کوئی مصلحت ضرور پوشیدہ ہوتی ہے۔

9۔ ہمیں چاہئے کہ غم اور غصے کی شدّت میں کوئی اہم فیصلہ نہ کریں۔ اگر ایسا موقع آ جائے تو کچھ وقت کیلئے رُک جائیں۔ ممکن ہو تو ایک دِن کیلئے ٹھہر جائیں تاکہ غم و غصہ کی شدّت میں کوئی اَیسا جذباتی فیصلہ نہ کر بیٹھیں جو بعد میں ساری زِندگی کیلئے پچھتاوے کا باعث بن جائے۔

(1) غم عارضی ہوتے ہیں

غم کی حالت میں یہ یقین رکھنا کہ یہ غم کی رات ایک دن ضرور چھٹ جائے گی، اُمید کی یہ کرن اِنسان کو زندگی کی طرف واپس لے آتی ہے اور وہ مایوسی سے نکل آتا ہے۔ سلطان محمود غزنوی کے بارے میں مشہور ہے کہ اُس نے اپنے محبوب غلام ایاز سے کہا کہ مجھے ایک ایسا جملہ لکھ دو کہ جسے میں اُداسی کے وقت پڑھوں تو خوش ہو جاؤں اور خوشی کے وقت پڑھوں تو اُداس ہوجاؤں۔ ایاز نے اُسے یہ جملہ لکھ دیا: ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا۔‘‘

بظاہر یہ ایک چھوٹا سا معمولی واقعہ اپنے اندر ایک بہت بڑا سبق رکھتا ہے۔ وقت خوشی کا ہو یا غم کا، بس وہ گزر ہی جاتا ہے۔ جب وقت کو گزر ہی جانا ہے تو پھر ہمیں کسی دُکھ اور غم کو اپنے سر پر مسلط نہیں کرنا چاہئے۔ اِسی طرح خوشی کے لمحات میں بھی ہمیں غفلت کو خودپہ طاری نہیں ہونے دینا چاہئے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر اِنسان کی زمینی زندگی کا آغاز اُس کی ماں کی دردِ زہ سے ہوتا ہے اور اُس کی زندگی کا اِختتام اُس کی اپنی آخری ہچکی کی تکلیف پر ہوتا ہے۔ اِس کرۂ ارض پر اِنسان جب تک زندہ رہتا ہے رنج و غم اُسے گھیرے رہتے ہیں۔ موت کے راستے کرۂ ارض سے واپسی سے قبل غم سے حقیقی نجات ممکن نہیں۔

(2) غم کو اپنی طاقت بنائیں

ہمیں چاہئےکہ غم کے سامنے کمزور پڑنے کی بجائے غم کو اپنی طاقت بنائیں۔ دُکھ اور غم ہمیں رُوحانی اِعتبار سے مضبوط اور توانا کرتے ہیں۔ اُن کی وجہ سے ہمیں بہت سے مسائل سے نمٹنے کا شعور پیدا ہوتا ہے، بہت سے تجربات نصیب ہوتے ہیں اور بہترین زندگی گزارنے کا سلیقہ آتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:

آزمائش اور مصیبت جتنی سخت ہوتی ہے اُس کا صلہ بھی اُتنا ہی بڑا ہوتا ہے اور جب خدا کسی گروہ سے محبت کرتا ہے تو وہ اُنہیں مزید نکھارنے کیلئے آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے۔ پس جو لوگ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں، اللہ بھی اُن سے راضی ہو جاتا ہے؛ اور جو اُس آزمائش میں خدا سے نارض ہوں اللہ بھی اُن سے ناراض ہو جاتا ہے۔

(ترمذی، السنن، رقم الحدیث: 1954)

غم کو برداشت کر جانے پر خوشی اِنعام میں ملتی ہے۔ ہم جتنا بڑا غم سہتے ہیں اُتنی ہی بڑی خوشی اِنعام میں پاتے ہیں۔ یہ قرآنی ضابطہ ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے اور آسانی مشکل کے بعد ہی آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

فَإِنَّ مَعَ ٱلۡعُسۡرِ يُسۡرًا إِنَّ مَعَ ٱلۡعُسۡرِ يُسۡراً.

(الانشراح، 94: 5-6)

’’سو بیشک ہر دُشواری کے ساتھ آسانی (آتی) ہے۔ یقیناً (اِس) دُشواری کے ساتھ آسانی (بھی) ہے۔ ‘‘

(3) غم اور اِنسانی فطرت

زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہمیں پختہ یقین رکھنا چایئے کہ غم کی کیفیت زندگی کے جمود کو تحرک دیتی ہے اور اِنسان کو اُس سے ایک نئی سوچ اور بہتر جذبہ ملتا ہے۔ غم ہماری زندگی کے تجربہ کو وسیع کرتے ہیں اور ہمیں راہِ راست پر لے جانے کا حتمی ذریعہ بنتے ہیں۔ غم کی کیفیت سے گزرے بغیر زندگی کی حقیقت کو جاننا ممکن نہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ اپنی نظم ’’فلسفۂ غم‘‘ میں فرماتے ہیں:

حادثاتِ غم سے ہے اِنساں کی فطرت کو کمال
غازہ ہے آئینۂ دل کیلئے گردِ ملال

غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطفِ خواب سے
ساز یہ بیدار ہوتا ہے اِسی مضراب سے

طائرِ دل کیلئے غم شہ پرِ پرواز ہے
راز ہے اِنساں کا دل، غم اِنکشافِ راز ہے

غم نہیں غم، رُوح کا اِک نغمۂ خاموش ہے
جو سرودِ بربطِ ہستی سے ہم آغوش ہے

چنانچہ جو اِنسان ساری زندگی کسی غم میں مبتلا نہ ہوا ہو وہ زندگی کا راز نہیں پا سکتا۔ ہمارے غم بالعموم بے جا توقعات اور غلط نظریات کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، جیسے ہی ہماری کوئی توقع ٹوٹتی ہے یا کوئی سوچ غلط ثابت ہوتی ہے ہم غم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اِس سے بچنے کا پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ اِس فانی دُنیا میں لوگوں سے بےجا توقعات نہ لگائی جائیں اور اپنی مثبت خواہشوں کے پورا نہ ہونے پر بھی غمزدہ ہونے کی بجائے اللہ ربّ العزت کی رضا پہ راضی رہاجائے۔

پاکیزہ تمنائیں بھی لاتی ہیں اُداسی
ہر ذوقِ طلب شوقِ تمنا ہی مٹا دے

(4) غم کے منفی ردِّعمل سے بچیں

اِسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ غم کے لمحات کو صبروتحمل کے ساتھ برداشت کریں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے زمانۂ جاہلیت کی طرح غمزدہ ہو کر ماتم کرنے، بین کرنے، رونے، چیخنے، چلانے، سینہ پیٹنے اور طمانچے مارنے سے منع فرمایا۔ غمزدہ ہو کر اپنی خوشیوں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے صرفِ نظر کرنا اِنسان کو بسااَوقات کفرانِ نعمت کی طرف لے جاتا ہے۔ غم کو اللہ کی رضا سمجھا جائے تو یہی غم اِنسان کی فطرت کو کمال عطا کرتا ہے ورنہ دُوسری طرف ناشکری سے مایوسی تک اور پھر مایوسی سے خودکشی تک بھی لے جا سکتا ہے۔

اِنسان ہمیشہ دُوسروں کو ملنے والی نعمتیں دیکھتا ہے، لیکن دُوسروں کو ملنے والے غم نہیں دیکھتا۔ ہمیں چاہئے کہ ہم غمزدہ ہو کر شکوہ شکایت شروع کرنے کی بجائے دُوسروں کے غموں کی طرف بھی دیکھیں۔

2۔ خوف و ہراس کے آداب

پریشانی اور مصیبت کا سامنا خود پر خوف و ہراس طاری کرنے کی بجائے ہمیشہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ کریں تاکہ اُس پر جلد مناسب حد تک قابو پایا جا سکے۔ خوفزدہ ہو کر چیخ و پکار کرنا یا شوروغوغا کرکے دُوسروں کی ہمت کمزور کرنا حکمت کے خلاف ہے۔ اس سلسلہ میں یہ امر ملحوظ رہے کہ کسی قسم کی ایمرجنسی میں خود کو حاضر دماغ رکھیں اور خوف و ہراس کی صورتحال میں ایک دُوسرے کی ہمت بندھائیں۔ یاد رکھیں کہ جو شخص جتنا زیادہ حاضر دماغ اور بیدار مغز ہوگا، وہ ہنگامی حالات میں اُتنا ہی درست فیصلہ کرنے کی قوّت بھی رکھتا ہوگا۔

پراُمیدی قدرت کی طرف سے عطا کیا گیا وہ تحفہ ہے جو ہمیں ہر حال میں جینے اور ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کا موقع دیتی ہے۔ پراُمیدی ہمیں یقین کی دولت سے آراستہ کرتی ہے، جبکہ مایوسی اور نااُمیدی ہم سے یقین کی دولت چھین لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں بہت سے مقامات پر مؤمنین کو اپنی رحمت سے اُمید لگائے رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔ خوف و ہراس پر قابو پانے کیلئے پُرامید رہنا اور اپنی ذات پر اِعتماد و یقین رکھنانہایت ضروری ہے۔

آزمائش میں اِستقامت اِختیار کریں

خوف و ہراس کی کیفیت میں یہ کبھی مت بھولیں کہ اللہ ربّ العزت کو ہر آزمائش میں ثابت قدم رہنے والے لوگ پسند ہیں۔ اللہ ربّ العزت قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وہ ہمیں بہت سے طریقوں سے آزماتا ہے اور اُن آزمائشوں پر ثابت قدم رہنے والوں کو خوشخبری دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَيۡءٖ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصٖ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَٰلِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٰتِۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّٰبِرِينَ.

(البقرة، 2: 155)

’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اَے حبیب!) آپ (اُن) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔‘‘

ہم پر آنے والی بیشتر مصیبتوں کے سبب کے متعلق بھی اللہ رب العزت نے ہمیں آگاہ فرمادیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ.

(الشوری، 42: 3۰)

’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالاں کہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔‘‘

اگر ہم غور کریں تو اِنسانوں نے کرۂ اَرض پر بے شمار مسائل خود اپنی حماقتوں سے کھڑے کئے ہیں۔ فضائی آلودگی اور خوراک میں ملاوٹ کے نتیجہ میں جنم لینے والے مُوذی اَمراض اِنسان کے فطرت کے ساتھ تصادُم کا نتیجہ ہیں۔ اُن میں سے بعض کی بڑی سخت سزا بنی نوع اِنسان کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ کرۂ ارضی پر اِنسانیت کو پچھلی صدیوں میں بھی کورونا جیسی وبائی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے، جن میں طاعون جیسی بیماریاں شامل تھیں۔ ہمیشہ یہ اِیمان رکھیں کہ اللہ ربّ العزت قادرِ مطلق ہے، یعنی وہ ہمیں ہر قسم کی وبائی صورتحال سے نکالنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ خوف و ہراس کی کیفیت میں حادثاتی موت مر جانے والے کو شہادت کا رُتبہ عطا ہوتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ راہِ خدا میں قتل کے علاوہ بھی درج ذیل سات قسم کی شہادتیں ہوتی ہیں:

1۔ طاعون کی وباء سے مرنے والا

2۔ پانی میں ڈوب کر مرنے والا

3۔ نمونیہ سے مرنے والا

4۔ پیٹ کی بیماری سے مرنے والا

5۔ آگ میں جل کر مرنے والا

6۔ عمارت کے نیچے دب کر مرنے والا

7۔ بچے کی پیدائش کے موقع پر مرنے والی عورت شامل ہیں۔

(مالک، الموطأ، رقم الحدیث: 563)

چنانچہ خوف و ہراس کے دوران بےیقینی کی صورتحال میں بھی اِس حدیث مبارک کی طرف متوجہ ہو کر اللہ ربّ العزت سے پراُمید رہنا چاہئے کہ وہ بُرے سے بُرے حالات میں بھی ہمارا خاتمہ خیر پر کرنے پر قادر ہے۔ اِجتماعی مصیبت پر یہ سوچ کر ثابت قدم رہنا چاہئے کہ اگر ہم پر یہ مصیبت آئی ہے تو دیگر لوگ بھی تو اُس میں مبتلا ہیں۔ جو ربّ اُنہیں اِس مصیبت سے نکالے گا، یقیناً وہ ہمیں نکالنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ خوف و ہراس کے دو بڑے اَسباب ہیں:

جن میں سے پہلا دُنیا سے محبت ہے اور دُوسرا موت سے نفرت۔

(أبوداؤد، السنن، رقم الحدیث: 4297)

غور کریں تو یہ دونوں اَسباب کرۂ ارض کو اپنا مستقل ٹھکانہ سمجھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ بندۂ مومن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کرۂ ارض اُس کا مستقل ٹھکانہ نہیں ہے اور اُسے ایک نہ ایک دن ضرور موت کے راستے سے گزر کر اپنے اصلی وطن کی طرف واپس جانا ہوگا۔