صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے باہمی تعلقات

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰـئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ. جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰـرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَآ اَبَدًا ط رَضِیَ اللہُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ط ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ.

(البینۃ، 98: 7۔ 8)

’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہی لوگ ساری مخلوق سے بہتر ہیں۔ ان کی جزا ان کے رب کے حضور دائمی رہائش کے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اﷲ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ لوگ اس سے راضی ہیں، یہ (مقام) اس شخص کے لیے ہے جو اپنے رب سے خائف رہا۔‘‘

اس آیت مبارکہ میں ’’خیرالبریۃ‘‘کا مصداق اللہ تعالیٰ نے اہلِ بیت اطہار علیہم السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذوات مقدسہ کو قرار دیا ہے۔ یہی وہ طبقۂ امت ہے جن کے لیے باری تعالی نے دنیا و آخرت میں اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان کیا ہے۔ہماری یہ کج فہمی ہوگی کہ ہم ان ہستیوں کے بارے نصوصِ قطعیہ سے رہنمائی لینے کے بجائے غیر ثقہ روایات سے کوئی غیر متوازن مؤقف اپنائیں۔ یاد رکھیں! اگر ہماری سوچ و فکر کا ماخذ، مصدر اور منبع قرآن اور حدیث نبویہ ہو تو اس میں ہماری نجات ہے۔ احادیث صحیحہ میں رسول اللہ ﷺ نے خیرالبریہ کے مصداق کے حوالے سے راہنمائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ.

(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب المناقب باب فضائل الصحابہ، 11: 481، الرقم: 3377)

’’میری امت کے سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں، پھر وہ لوگ جن کا زمانہ ان کے زمانے سے ملا ہوا ہے پھر وہ لوگ جن کا زمانہ ان کے زمانے سے ملا ہوا ہے۔‘‘

آپ ﷺ نے خیر امتی قرنی کے الفاظ کے ذریعے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی شخصی و اجتماعی افضلیت باالعموم بیان کردی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

أَكْرِمُوا أَصْحَابِي، فَإِنَّهُمْ خِيَارُكُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ.

(المسند الجامع، 32: 371، رقم: 10655)

’’میری صحبت سے سرفراز ہونے والے نفوس کی عزت و احترام بجا لایا کرو، اس لیے کہ وہ تم سے بہتر ہیں۔ پھر وہ لوگ بہتر ہیں جو ان کے زمانے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور پھر وہ لوگ بہتر ہیں جن کا زمانہ ان کے زمانے کے ساتھ ملا ہوا ہے۔‘‘

عہد رسالتمآب کے لوگ اپنی مجموعی حیثیت میں افضلیت و برتری رکھتے ہیں۔ ان کا زمانہ؛ زمانۂ رسول اللہ ﷺ کی ظاہری حیات کے تناظر میں اور صحبت و معیت اور اس کے اثرات کے اعتبار سے بہترین زمانہ ہے۔اسی بناء پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کرتا ہے:

یارسول اللہ ﷺ ای الناس خیر؟ قال القرن الذی کنت فیہ.

(الصحیح البخاری، 11: 392، الرقم: 3293)

’’یارسول اللہ ﷺ لوگوں میں سے سب سے بہتر لوگ کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ لوگ جو میرے زمانے کے ہیں۔‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام ہی قرنِ اول کے لوگ ہیں اور اس امت میں سے سب سے پہلے یہی لوگ خیرالناس کے مصداق ہیں۔

’’میری صحبت سے سرفراز ہونے والے نفوس کی عزت و احترام بجا لایا کرو، اس لیے کہ وہ تم سے بہتر ہیں۔ پھر وہ لوگ بہتر ہیں جو ان کے زمانے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور پھر وہ لوگ بہتر ہیں جن کا زمانہ ان کے زمانے کے ساتھ ملا ہوا ہے۔‘‘ (حدیث مبارک)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کا ذکر قرآن نے اپنے عمومی بیان میں ایک ہی صیغے میں کیا ہے۔ جن نصوص میں اہل بیت اطہار علیہم السلام کو خصوصیت کے ساتھ الگ صیغے میں بیان کیا ہے، وہاں اختصاصی طور پر وہی مراد ہیں مگر جہاں اصحاب رسول ﷺ کا عمومی ذکر ہے وہاں اہل بیت بھی مراد ہیں اور صحابہ کرام بھی مقصود ہیں۔ اہل بیت اطہار کو ساری فضیلت نسبتِ مصطفی ﷺ سے میسر آئی ہے اور اسی نسبتِ مصطفی ﷺ نے ایک عام شخص کو صحابی رسول ﷺ بنایا ہے۔

صحابی کی تعریف ہی یہ ہے کہ جس نے حالتِ ایمان میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہو اور اسلام پر ہی اس کی وفات ہوئی ہو، اسے صحابی رسول کہتے ہیں۔ جبکہ اہل بیت اطہار علیہم السلام سے مراد آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اور ذریت طیبہ اور بنو ہاشم و بنی عبدالمطلب اور بنی عباس کے وہ افراد ہیں جن پر صدقہ و خیرات حرام ہے۔

(نووی، شرف الدین، التقریب والتیسیر، باب معرفۃ الصحابہ، 1: 21) (ابن العربی، احمد بن علی، احکام القرآن، 3: 623)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے اجتماعی ذکر کو قرآن مجید اپنے اسلوب میں والذین معہ کے کلمات کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ.

(الفتح، 48: 29)

’’ محمد ( ﷺ ) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ ( ﷺ ) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ( ﷺ ) انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ صرف اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے طلبگار ہیں ان کی نشانی ان کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے۔‘‘

یہ قرآنی الفاظ قرنِ اول اور قرنِ رسول ﷺ کے جملہ مومن طبقات اور تمام مومن خاندان و قبائل کو شامل ہے جنھیں آپ ﷺ کا شرفِ معیت و صحبت حاصل ہوا۔ والذین معہ کے ذریعے ان کی جو خوبی بیان کی گئی ہے، یہ خوبی وقتی نہیں بلکہ دائمی ہے، عارضی نہیں بلکہ آفاقی ہے۔ وہ رحماء بینہم کا پیکر تھے اور دین دشمن کے لیے اشداء علی الکفار کے مصداق جذبہ غیرت و حمیت سے مملو تھے۔ یعنی اہل ایمان کے لیے وہ باہم نرم تھے مگر دشمن اسلام کے لیے سخت چٹان تھے۔

قرآن مجید نے معیت محمدی ﷺ میں آنے والے اہلِ ایمان کا بڑا ہی جامع تعارف کرادیا ہے کہ صحبتِ نبوی ﷺ نے ان پر یہ رنگ چڑھادیا کہ وہ دین دشمن افراد کے لیے سخت اور مومن کے لیے سراپا خیر و محبت بن گئے تھے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے باہمی تعلقات، قرابت داریاں، باہمی لین دین اور تعلق و رفاقت کی بنیاد رحماء بینہم تھی۔ اسی نسبت پر وہ اپنی حیاتِ مقدسہ میں قائم تھے اور یہی نسبت ان کے لیے ایک روح کی حيثیت رکھتی تھی۔ دنیوی اختلافات اور باہمی تنازعات نے ان کی اس روح کو ان کے وجودوں سے فنا نہیں کیا۔ بلکہ اصلاً رحماء بینہم کا فیض جاری رہا۔

یہ الگ بات ہے کہ ان کے بعد زمانے کا راوی ان کی کن چیزوں کو نقل کرتا ہے۔ ایسا راوی کسی قبیلے، کسی بادشاہی دربار کےساتھ تعلق رکھ سکتا ہے یا کسی خلیفہ و امیر کا متعین کردہ مؤرخ ہوسکتا ہے۔ یہ اپنے سیاسی و معاشی مفادات سے وابستہ ہوکر خود غرض ہوسکتا ہے۔ الغرض کوئی بھی دنیوی عزائم اس کے آڑے آسکتے ہیں مگر ایک راوی ایسا ہے جو ان سارے دنیوی علائق سے بالاتر ہے، جس کو رب کائنات نے مامور کیا ہے، جو اپنی نگاہ نبوت سے دیکھتا ہے اور اللہ کی عطا کردہ قوتِ نبوت اور فراست رسالت سے بیان کرتا ہے۔ ایک بیان رسالت مآب ﷺ کا ہے اور ایک بیان دنیوی مورخ کا ہے۔ ہمارا ایمان یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہماری نگاہ، سوچ، رائے اور موقف درِ رسالت کی دریوزہ گری کرے اور اسی ذات سے اکتساب فیض کرے جن کی نگاہ منبعِ حقائق اور جن کی زبان کی ہربات قاطع ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا بیان ہماری تقسیمات اور تفریقات سے بالا تر ہے۔ آپ ﷺ اپنے سنگت کار اور اہل بیت کو ایک ہی نسبت اور ایک ہی لفظ میں جمع کرتے ہوئے ’’صحابی‘‘ کے لفظ سے موسوم کرتے ہیں اور ان کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے امت پر واضح کرتے ہیں کہ:

أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمْ اِقْتَدَيْتُمْ اِهْتَدَيْتُمْ.

(جامع الاصول من احادیث الرسول، 8: 6369، الرقم: 6369)

’’میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پاؤ گے۔‘‘

سوال یہ ہے کہ ان کے وجود سے ہدایت کیسے پاسکتے ہیں؟ اس کے لیے یاد رکھیں کہ کسی بھی ذات و شخصیت سے اس کا علمی و روحانی، ظاہری و باطنی اکتسابِ فیض کا پیمانہ یہی ہے کہ اس کا اکرام و احترام بجا لایا جائے، اپنے ذہن و قلب میں اس کی عظمت و رفعت کو سجایا جائے اور اس کی محبت اور ادب کے تمام تقاضے بجا لائے جائیں۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان ذواتِ اقدس کے لیے طریقِ ادب سکھاتے ہوئے یہ حکم دیا کہ:

اکرموا اصحابی فانهم خیارکم.

(المسند، الجامع، 32: 371، رقم: 10655)

’’میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اکرام کرو، بے شک وہ تم سے بہتر اور چنیدہ لوگ ہیں۔‘‘

جن نصوص میں اہل بیت اطہار علیہم السلام کو خصوصیت کے ساتھ الگ صیغے میں بیان کیا ہے، وہاں اختصاصی طور پر وہی مراد ہیں مگر جہاں اصحاب رسول ﷺ کا عمومی ذکر ہے وہاں اہل بیت بھی مراد ہیں اور صحابہ کرام بھی مقصود ہیں

اب اس احترام اور اکرام کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا نام بھی عزت و احترام کے ساتھ لیا جائے، ان کے باہمی اختلافات کے حوالے سے زبان درازی نہ کی جائے اور معاملات کا کامل ادراک کے بغیر ان کی تنقیص اور ان پر تنقید نہ کی جائے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ﷺ فَلَمُقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمْرَهُ.

(سنن ابن ماجہ، 1: 190، الرقم: 158)

’’تم میرے اصحاب کو گالی نہ دو، ان کا ایک لمحہ میرے ساتھ گزارنا تمہاری ساری زندگی کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا شرف صحابیت اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت و سنگت اتنا بڑا اعزاز ہے کہ دنیا کے سارے اعزازات اس اعزاز کے بعد ہیچ ہیں۔ اس صحبتِ محمدی ﷺ نے ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرتوں پر یہ رنگ چڑھایا ہے کہ ان کو اپنے زمانے کا مقتدا، راہنما اور رہبر بنادیا ہے۔ ان کی پیروی لوگوں کو راهِ ہدایت پر گامزن کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنِّي لَا أَدْرِي مَا قَدْرُ بَقَائِي فِيكُمْ فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ۔

(سنن ابن ماجہ، باب فی فضل ابی بکر، 1: 107، رقم: 94)

’’میں نہیں جانتا کہ میں تم میں کب تک رہوں۔ پس تم ان کی پیروی کرنا جو میرے بعد ہوں اور آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا۔‘‘

’’پس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت علیہم السلام کہ تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل اور شک و نقص کی گرد تک دور کردے اور تمہیں کامل طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کردے۔‘‘(القرآن)

یہ وہ ذواتِ اقدس ہیں کہ ان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمارے لیے باعثِ ہدایت اور باعثِ نجات بنایا ہے۔ ہم ان کی پیروی کریں اور ان کی شخصیتوں میں سیرتِ رسول اور اسوۂ حسنہ کے آثار تلاش کریں۔ صحبتِ رسول ﷺ نے ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس مقام پر پہنچایا ہے کہ ان سے محبت کا تعلق استوار کیا جائے اور اپنے دلوں کو ان کے بغض و حسد سے پاک کیا جائے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ.

(الجامع ترمذی، کتاب المناقب، باب فی من سب اصحاب النبی، 12: 362، الرقم: 3797)

’’اے لوگو! میرے اصحاب کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ ان کو میرے بعد طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی، اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے دراصل میرے ساتھ اپنے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں طعن و شتم سے تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اس نے اللہ کو ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذ دی، قریب ہے کہ اللہ تعالی اسے اچک لے اور اسے عذاب دے۔‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین جو اختلافات رسول اللہ ﷺ کی وفات و وصال کے بعد وقوع پذیر ہوئے اور جن اختلافات، تنازعات اور باہمی مشاجرات نے ان کی قدر و منزلت کو مجروح ہونے کا تاثر دیا، ایسے تمام تاریخی وقائع اور باہمی مشاجرات کو نگاهِ نبوت دیکھ رہی تھی، اس لیے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ.

(ابن ماجہ، السنن، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین، 1: 49، رقم: 42)

’’تم عنقریب میرے بعد شدید اختلاف دیکھو گے پس تم پر میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کی پیروی لازم ہے اور اس پیروی کو مضبوطی سے اختیار کرلو۔‘‘

ان کی پیروی سے اللہ کی رحمت اور اللہ کا فضل و کرم بندے کے شامل حال ہوتا ہے۔ ان کی عدم پیروی بندے کو ان سے دور لے جاتی ہے اور پھر وہ ان کی عظمت شان سے بے خبر ہوکر زبان درازی کرنے لگتا ہے۔ اس کا یہ عمل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذواتِ اقدس کے احترام کو بھی مجروح کردیتا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا:

مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.

(طبرانی، المعجم الکبیر، باب العین، احادیث عبداللہ بن عباس، 10: 289، الرقم: 12541)

’’جس نے میری صحبتوں سے سرفراز ہونے والے کو برا بھلا کہا، اس پر اللہ کے فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔‘‘

ان ساری روایات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کا مشترکہ بیان اس طرح ہے جس طرح قرآن حکیم کا صیغۂ مذکر یایھا الذین امنوا تمام مومنین اور مومنات کو اپنے اندر سمولیتا ہے۔ علاوہ ازیں ہم کلامِ رسول میں بیانِ اختصاص بھی دیکھتے ہیں اور شخصی فضائل بھی ملاحظہ کرتے ہیں۔ کتاب المناقب صحابہؓ و اہل بیتؓ کے شخصی فضائل سے معمور ہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کی اختصاصی شان کا ذکر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ

خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ {إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا } (الاحزاب، 33: 33).

(المسلم، الجامع الصحیح، کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل اهل بیت النبی، 4: 1883، رقم: 242)

’’حضور نبی اکرم ﷺ صبح کے وقت اس حال میں تشریف لائے کہ آپ نے ایک چادر مبارک اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اون سے کجاووں کے نقوش بنے ہوئے تھے۔ حضرت امام حسن بن علیؓ آئے تو آپ ﷺ نے انہیں چادر میں داخل فرمالیا پھر حضرت امام حسینؓ تشریف لائے تو وہ بھی ان کے ساتھ چادر میں داخل ہوگئے پھر سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراؓ تشریف لائیں تو آپ ﷺ نے انہيں بھی چادر میں داخل فرمالیا پھر حضرت علیؓ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے انہیں بھی چادر میں داخل فرمالیا پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی۔’’ پس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت علیہم السلام کہ تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل اور شک و نقص کی گرد تک دور کردے اور تمہیں کامل طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کردے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں لفظ ’’اہل البیت‘‘میں ازواج مطہرات اور ذریات طیبات تو داخل تھے مگر اس آیت کریمہ میں بطور خاص رسول اللہ ﷺ نے حسنین کریمین، سیدہ کائنات اور حضرت علی علیہم السلام کو اپنے اہل بیت میں داخل کرنے کا صریح اعلان فرمایا ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ} دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي.

(مسلم، الجامع الصحیح، کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل علی بن ابی طالب، 4: 1871، رقم: 2404)

’’جب آیت مباہلہ نازل ہوئی کہ ’’آپ فرمادیں کہ آؤ ہم مل کر اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو ایک جگہ پر بلاتے ہیں۔‘‘ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کو بلایا ان ساروں کو جمع کرکے فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘

رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب اور اپنے اہل بیت کی تنقیص کو ناپسند کرتے تھے۔حضرت بریدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے ان سے کچھ شکایت ہوئی۔ جب میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں واپس حاضر ہوا تو:

ذَكَرْتُ عَلِيًّا فَتَنَقَّصْتُهُ فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ.

(احمد بن حنبل، المسند، 5: 347، رقم: 22995)

’’تو میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شان میں تنقیص کی تو میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے چہرے مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا۔‘‘

گویا رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب اور اپنے اہل بیت کی غیر مصدقہ اور غیر محققہ تنقیص کو ناپسند کرتے اور اس طرزِ عمل سے ہمیں بھی یہ درسِ حیات دیا ہے کہ ہم بھی اپنی زبان و قلم کو محتاط انداز میں استعمال کریں۔

ہمیں اہل بیت اطہار علیہم السلام کے دامن سے بھی وابستہ ہونا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بھی اپنے تعلقِ محبت کو آراستہ کرنا ہے۔ یہی وہ درسِ اسلام ہے جو ہمارے اسلاف نے دیا ہے۔ اہلِ علم اور صاحبانِ حکمت و دانش بھی اسی پر کاربند رہے ہیں

ایسی متعدد احادیث مبارکہ جن کو صحابہ کرام؛ اہل بیت علیہم السلام کی شان میں اور اہل بیت؛ صحابہ کرام کی شان میں روایت کرتے ہیں، ان میں ان کا باہم تعلق قرآنی بیان کے مطابق رحماء بینہم کا آئینہ دار تھا۔ ا ن کی باہم رشتہ داریاں اور قرابتیں بڑی گہری تھیں۔ ان کا ایک دوسرا کا خیال و لحاظ اور باہمی عزت و تقدس مثالی تھا۔ اسی بنا پر یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام امت کے لیے پیشوا، راہنما اور رہبر بنائے گئے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کو باری تعالی نے کامل اور کسی نہ کسی میدان کا شہسوار بنایا۔ رسول اللہ ﷺ کی صحبت و تربیت نے ان کی زندگیوں کو صفاتِ احسن اور فضائلِ ابیض سے منور و تاباں کردیا۔آپ کے یارِ غار و مزار حضرت ابوبکر صدیقؓ کو دیکھیں تو آپ کو صدیقین کا امام بنایا۔۔۔ حضرت عمر فاروقؓ کی طرف نظر کریں تو آپ کو عادل حکمرانوں کا سرتاج بنایا۔۔۔ حضرت عثمانؓ کو امت کا سب سے زیادہ سخی و فیاض اور حیا دار بنایا اور ذوالنورین کے لقب سے مزین کیا۔۔۔ حضرت علیؓ کو شجاعت و قضا میں ضرب المثل بنایا۔۔۔ حضرت زبیر بن عوامؓ کو حواری رسول کے لقب سے ملقب کیا۔۔۔ حضرت طلحہؓ کو محافظ و پاسبانی کا شرف عطا کیا۔۔۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو اسلام کا پہلا تیر انداز اور فاتح کسری بنایا۔۔۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو امانت دار تاجروں کا سردار بنایا۔۔۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کو فاتح شام اور امین الامت کے لقب سے ملقب کیا۔۔۔ حضرت سعید بن زیدؓ کو تقوی و عبادت میں مقتدا بنایا۔۔۔ حضرت سلیمان فارسیؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت مقداد بن اسودؓ کو ایسا وجود بنایا کہ جنت بھی ان کی طالب اور ان کی مشتاق ہے۔۔۔ امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو سیدا شباب اہل الجنۃ جنت کے نوجوانوں کی سرداری کا اعزاز عطا کیا۔۔۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اپنا موذن، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سیف اللہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو فاتح مصر بنایا۔۔۔حضرت ابوالدرداءؓ عبداللہ بن عمر، عبدالرحمن بن ابوبکر کو زہاد اور متقیوں کا امام بنایا۔۔۔ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو سیدالشہداء بنایا۔۔۔ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، خباب بن ارت رضی اللہ عنہ اور صہیب رضی اللہ عنہ رومی کو فروغ اسلام میں مصائب و آلام کو برداشت کرنے والا پیکر صبر بنایا۔۔۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو رواۃ حدیث اور مبلغینِ اسلام کا مقتداء و راہنما بنایا۔ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو فقہا کا امام و پیشوا بنایا۔۔۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو حبر ھذہ الامۃ ترجمان القرآن کی شان کا حامل بنایا۔ الغرض رسول اللہ ﷺ کے یہ تربیت یافتگان وہ نجوم ہیں کہ ان کی روشنی آج بھی امت میں موجود ہے اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ فیضان رسالتمآب ﷺ کے تسلسل کی وجہ سے بڑھتی رہے گی اور فروغ پاتی رہے گی۔

ضرورت اس امر کی ہے ہمیں اپنی نیت و ارادے کی جہت درست کرنی ہے اور ہمیں ان کی سیرتوں اور شخصیتوں سے اکتسابِ فیض کرنا ہے۔ہمیں اہل بیت اطہار علیہم السلام کے دامن سے بھی وابستہ ہونا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بھی اپنے تعلقِ محبت کو آراستہ کرنا ہے۔ یہی وہ درسِ اسلام ہے جو ہمارے اسلاف نے دیا ہے۔ اہلِ علم اور صاحبانِ حکمت و دانش بھی اسی پر کاربند رہے ہیں۔ یہی درس سرزمین لاہور پر سید ہجویر علی بن عثمان حضور داتا گنج بخشؒ نے پانچویں ہجری میں دیا ہے۔ آپ نے اپنی کتاب میں صحابہ کرامؓ کا بھی تذکرہ کیا ہے اور اہل بیت اطہارؓ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان دونوں سے تمسک عصرِ حاضر میں ہمارے ایمان و عمل میں حلاوت و چاشنی اور اس میں کثرت و زیادت کا باعث بن سکتا ہے۔ یہی سوچ و نظریہ اور یہی فکرو نظر اس زمین کا خمیر ہے اور یہی اسلام کی اصل تعلیم ہے۔ ہمارا تعلق بیک وقت اہلِ بیت سے بھی محکم رہے اور صحابہ کرامؓ سے بھی مستحکم رہے۔

خلاصۂ کلام

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے لیے جو بیان قرآن اور رسالتمآب ﷺ نے دے دیا ہے، امت کے لیے اس میں ہدایت اور نجات ہے۔قرآن نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کو خیر امتی کا لقب دیا ہے اور ان کو خیرالبریۃ کا شرف دیا ہے۔۔۔ ان کی زندگیوں کا مقصد یبتغون فضلا من اللہ قرار دیا ہے۔۔۔ ان کی سب سے بڑی اور واحد پہچان والذین معہ بیان کی ہے۔۔۔ ان کو اولٰٓئک ھم الراشدون کا اعزاز بخشا ہے۔ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کے الفاظ کی صورت میں اس سے بڑا اعزاز اور اس سے بڑا انعام اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہ رب سے راضی ہیں اور رب ان سے راضی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے فرمایا:

أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمْ اِقْتَدَيْتُمْ اِهْتَدَيْتُمْ.

(مسلم الصحیح، 12: 134، الرقم: 4425)

اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی اہل بیت کی محبت کے حوالے سے اللہ کا حکم سنایا ہے کہ نیز امت کو بار بار تاکید کے ساتھ فرمایا کہ میری اہل بیتؓ کا خیال رکھنا:

أُذَكِّرُكُمْ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمْ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي.

ہم میں سے کامیاب وہ ہے جو ان دونوں گھروں سے فیضیاب ہوتا ہے۔ یہ حقیقت میں ایک ہی گھر اور ایک ہی چشمہ ہے اور وہ چشمہ والذین معہ کے فرمان کے مصداق صحبت و معیت مصطفی ﷺ کا چشمہ ہے۔

باری تعالی ہميں حضور نبی اکرم ﷺ کی صحبتوں اور نسبتوں سے معمور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے فیضان سے بہرہ یاب فرمائے۔