سوال:ثقافتی یا پیشہ ورانہ ضرورت کے سبب اسلامی لباس ترک کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اسلام کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہیں، زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کے بارے میں شریعتِ اسلامیہ نے راہنمائی فراہم نہ کی ہو۔ ’لباس‘ انسانی زندگی کا اہم گوشہ اور رہن سہن کا ضروری پہلو ہے، اس لیے قرآن و سنت نے اس کے بارے میں بھی اصولی اور معتدل تعلیمات عطا فرمائی ہیں اور اس سلسلے میں کچھ بنیادی اصول اور مقاصد مقرر کر دیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے کسی خاص وضع یا ہیئت کا لباس مقرر نہیں کیا کہ ہر شخص بس یہی لباس پہنے اور جو کوئی اس ہیئت اور صورت سے ہٹ کر پہنے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا، بلکہ اسلام نے اس سلسلے میں اصولی راہنمائی کی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰـبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّکَّرُوْنَ.
(الاعراف: 26)
اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقوٰی کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب) اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے لباس کے تین مقاصد بیان فرمائے ہیں:
1۔ سترِ عورت یعنی شرمگاہ کو چھپانا:لباس کا سب سے بنیادی مقصد ’’ستر عورت‘‘ ہے، مرد اور عورت کے جسم کے کچھ حصوں کو ’’عورت‘‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی وہ چھپانے کی چیز ہے۔ مردوں کیلئے ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ ستر ہے، اور عورت کا سارا جسم ستر ہے سوائے چہرے اور گٹوں تک ہاتھوں کے۔ لہٰذا لباس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ شریعت کے مقرر کئے ہوئے ستر کے حصوں کو چھپالے، جو لباس اس مقصد کو پورا کر رہا ہو شریعت کی نگاہ میں وہ لباس جائز ہے اور جو اس مقصد کو پورا نہ کرے شرعاً وہ لباس ہی نہیں، کیونکہ وہ اس بنیادی مقصد کی تکمیل نہیں کر رہا جس کے لئے اسے بنایا گیا ہے۔
2۔ زینت اور خوبصورتی:لباس کا دوسرا مقصد زیب و زینت اور خوبصورتی ہے۔ اس لیے لباس ایسا ہونا چاہئے جسے زیبِ تن کرنے سے انسان کی زینت اور خوبصورتی میں اضافہ ہو۔ ایسا گھٹیا، پھٹا پرانا، بے ڈھنگا اور بدہیت لباس نہ ہو کہ جس کو دیکھ کر دوسروں کو کراہت محسوس ہو۔
3۔ تقویٰ و پرہیزگاری:ظاہری لباس کے ذریعے ستر پوشی اور زینت و تجمل کے حصول کا اصل مقصد تقویٰ اور خوف خدا تعالیٰ ہے، جس کا ظہور انسان کے لباس میں اس طرح ہونا چاہئے کہ اس کے لباس میں فخر و غرور کا انداز نہ ہو بلکہ تواضع کے آثار ہوں۔
مفسرین نے اس آیتِ مبارکہ کی روشنی میں کہا ہے کہ لباس ایسا ہونا چاہیے جس میں پوری ستر پوشی ہو، کہ قابل شرم اعضاء کا پورا پردہ ہو، وہ ننگے بھی نہ رہیں، اور لباس بدن پر ایسا چست بھی نہ ہو جس میں یہ اعضاء مثل ننگے کے نظر آئیں، نیز اس لباس میں فخر و غرور کا انداز بھی نہ ہو بلکہ تواضع کے آثار ہوں، اسرافِ بے جا بھی نہ ہو، ضرورت کے موافق کپڑا استعمال کیا جائے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَّجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ.
(النحل،16:81)
اور اس نے تمہارے لئے (کچھ) ایسے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں۔
اس آیتِ مبارکہ میں لباس کی چوتھی مصلحت بیان ہوئی ہے کہ لباس موسم کی شدت سے انسان کو محفوظ رکھنے والا ہونا چاہیے۔صاحب حیثیت انسان کا اچھے کپڑے پہننا شرعاً پسندیدہ عمل بلکہ جس شخص کی آمدنی اچھی ہو ،اس کے لیے خراب قسم کا کپڑا اور گھٹیا قسم کا لباس پہننا ممنوع ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے دور کے عرب کلچر کے مطابق بہترین لباس زیب تن فرمائے اور اسی بات کا صحابہ کرام کو درس بھی دیا۔ چنانچہ حضرت ابو الاحوص عوف بن مالک الجشمی فرماتے ہیں کہ ان کے والد حضرت مالک بن نضلہg رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے دیکھا کہ انہوں نے گھٹیا قسم کپڑے پہنے ہوئے تھے، نبی اکرم ﷺ نے اُن سے پوچھا:
أَلَكَ مَالٌ؟قَالَ:نَعَمْ. قَالَ مِنْ أَيِّ الْمَالِ؟ قَالَ:قَدْ آتَانِي اللهُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ وَالْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ قَالَ فَإِذَا آتَاكَ اللهُ مَالًا فَلْيُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللهِ عَلَيْكَ وَكَرَامَتِهِ.
(ابی داؤد، السنن، كِتَابُ اللِّبَاسِ، بَابٌ فِي غَسْلِ الثَّوْبِ وَفِي الْخُلْقَانِ، رقم الحدیث:4063)
کیا تمہارے پاس مال ہے؟ انہوں نے کہا:ہاں۔ آپﷺ نے پوچھا کس قسم کا؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ نے مجھے اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام اور ہر طرح کا مال عنایت فرمایا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:جب اللہ تعالی نے تمہیں مال دیا ہے تو اس کے انعامات کا کچھ اثر تمہارے لباس سے بھی ظاہر ہونا چاہیے۔
شارحینِ حدیث نے اس حدیثِ مبارکہ سے اخذ کیا ہے کہ انسان کا اپنی حیثیت کے مطابق مناسب لباس پہننا مستحب اور اظہارِ شکر کا ایک ذریعہ ہے۔ مگر اس سلسلے میں نمائش اور دکھاوا جائز نہیں، بلکہ حرام ہے۔ آیات و روایت سے لباس سے متعلق شرعی اصولوں کا خلاصہ درج ذیل چار اصول ہیں:
1۔ لباس ساتر (شرمگاہ کو چھپانے والا) ہو
2۔ حدود شریعت میں رہتے ہوئے اس کے ذریعے زیب و زینت حاصل ہو۔
3۔ نمائش اور دکھاوا مقصود نہ ہو۔
4۔ اس کے پہننے سے دل میں تکبر پید انہ ہو۔
اسی طرح لباس کے تین عیب ہیں جو لباس کے بنیادی مقاصد کو پورا کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں، درج ذیل ہیں:
1۔ لباس اتنا چھوٹا ہو کہ پہننے کے باوجود ستر نہ ڈھانپ سکے۔
2۔ اتنا باریک ہو کہ اس سے اندر کا بدن جھلکتا ہو
3۔ لباس اتنا چست ہو کہ پہننے کے باوجود جسم کی بناوٹ اور ابھار نظر آرہا ہو
لہذا ہر انسان کو ایسا لباس پہننا چاہیے جو شرم و حیا، غیرت و شرافت اور جسم کی ستر پوشی کے ساتھ ساتھ موسم کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ نیز جس سے تہذیب نفس ، سلیقے و قرینے ، عزت و شرافت اور زینت و جمال کے ساتھ وقار انسانیت اور احترام آدمیت کا بھی اظہار ہو۔ اسلام ایسی سادگی کا حکم نہیں دیتا جس سے زمانے کے تقاضے پورے نہ ہوسکیں۔ یاد رکھیں کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو لباس کی کسی خاص کیفیت اور وضع کا پابند نہیں کیا، بلکہ اس کے مذکوہ بالا اصول، حدود اور مقاصد طے کرکے اسے ہر علاقہ اور ملک کے لوگوں کے مزاج اورضرورت پہ چھوڑ دیا ہے ۔ ان متعین حدود کی رعایت رکھتے ہوئے جو لباس بھی زیب تن کیا جائے وہ اسلامی و شرعی لباس ہی کہلائے گا۔
سوال:کیا ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر منافع دینے والی غیر مسلم کمپنیوں کی طرح مسلمان بھی کاروبار کر سکتے ہیں؟
جواب: مسلمانوں کے پاس اس طرح کے کاروبار کے لیے شرعی طریقہ بیع مضاربہ اور مشارکہ کی صورت میں موجود ہے۔مضاربہ میں سرمایہ ایک شخص کا اور محنت دوسرے شخص کی ہوتی ہے۔ مضاربہ سے جتنا منافع حاصل ہو، طے شدہ معاہدہ کے مطابق آپس میں تقسیم کر لیں گے۔مشارکہ میں دو یا زیادہ لوگ اپنا اپنا سرمایہ لگاتے ہیں، جو منافع ہوتا ہے، آپس میں طے شدہ معاہدہ کے مطابق تقسیم کر لیتے ہیں۔
مسلمان یہ دونوں طریقے اپنا کر اپنا کاروبار اور منافع بڑھا سکتے ہیں۔ کوئی بھی کمپنی ہو، خواہ مسلمانوں کی یا غیر مسلموں کی، اگر اس نے منافع فکس کیا، مثلاً ایک لاکھ پر پانچ ہزار روپے تو یہ جائز نہیں ہے اور اگر منافع میں سے طے شدہ تناسب کے مطابق کمپنی آپ کو دے تو یہ جائز ہے۔ گویا فکس کرنے کے دو طریقے ہوئے:
1۔ ایک لاکھ لے کر پانچ ہزار روپے دے دینا، یہ صورت جائز نہیں ہے۔ یہ سود ہے۔
2۔ دوسری صورت ایک لاکھ لے کر ٪10 یا ٪5 دے تو یہ جائز ہے۔اس صورت میں رقم فکس نہیں ہے، اس لیے یہ صورت جائز ہے۔ ہو سکتا ہے ایک ماہ آپ کا منافع ٪ 5 کی صورت میں ایک ہزار ہو اور دوسرے ماہ ٪ 5 کی صورت میں منافع آٹھ ہزار ہو۔ ایسی صورت میں انسان نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے۔ جبکہ پہلی صورت میں ایسا نہیں ہے۔ اس نے ہر صورت میں جو پانچ ہزار فکس کیے ہیں، وہ ادا کرنے ہیں اور یہ سود ہے جو حرام ہے۔
ایسی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے شرعاً کوئی حرج نہیں، ان کے لیے جائز ہے، کیونکہ وہ فقط محنت مزدوری کرتے ہیں، سود کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا کمیشن پر محنت مزدوری کرنے والوں کے لیے ایسی کمپنیوں میں کام کرنا جائز ہے۔ البتہ سود لینے والا، دینے والا، گواہ اور کاتب (اس کو لکھنے والا) ان کے لیے جائز نہیں ہیں۔ حدیث میں ان چار لوگوں کو سود خور کہا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ متبادل کام تلاش کرتے رہیں، جونہی انہیں کسی دوسری جگہ کام ملے، سود والی کمپنی میں فوراً کام کرنا چھوڑ دیں۔
حالتِ اضطراری میں حرام چیز بھی حلال ہو جاتی ہے، اگر سود کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں تو پھر جائز ہے۔ جیسے جان بچانے کے لیے مردار کا کھا لینا وغیرہ۔قرآن میں آیا ہے:
فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.
(البقرة،2:173)
پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔
پس شرط یہ رکھی گئی ہے کہ وہ واقعی مجبور ہے، ورنہ نہیں۔
سوال:ڈیوٹی پر دیر سے آنا اور دوران ڈیوٹی اپنے ذاتی کاموں کی غرض سے باہر چلے جانا، اس عمل کی شرعی حیثیت اور اس بندے کی کمائی کے بارے کیا حکم ہے؟
جواب: کسی بھی ادارے کے ساتھ آپ کا جتنے وقت کے لیے معاہدہ ہے، اگر آپ اس کو اتنا وقت نہیں دیتے، اس کے قوانین کے مطابق نہیں چلتے تو وہ کمائی جائز نہیں ہو گی۔ اس لیے کہ کوئی مجبوری ہو تو سرکاری ادارہ ہو یا پرائیویٹ، انھوں نے سالانہ چھٹیاں مقرر کی ہوتی ہیں۔ اسی طرح کبھی کبھار کوئی کام پڑ جائے تو سربراہِ ادارہ کو اطلاع کر کے کچھ وقت کے لیے جانے کی اجازت بھی ہوتی ہے لیکن مستقل ہی دیر سے آنا اور وقت سے پہلے ہی چلے جانے کی اجازت تو نہیں ہوتی۔ لہذا جو طے ہے اس کے مطابق ہی آنا جانا ضروری ہے، کم وقت دینا جائز نہیں ہے۔