فنا و بقا صرف آج کے صوفیا کا تصور نہیں بلکہ یہ تصور ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ حتی کہ ہر مذہب میں فنا و بقا کا تصور پایا جاتا ہے۔ ہندو مت میں فناکے تصور کو ’’موکش‘‘کہا جاتا ہے اور بدھ مت میں اسے ’’نروان‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسیح مذہب میں فنا کاتصور’’صفاتِ باری تعالیٰ کے اندر اپنے آپ کو گم کرلینا‘‘ ہے اور یہ اسلام کے تصور سے قریب تر ہے۔ یہودیت میں اس حوالے سے ’’قبالہ‘‘ کا تصور ہے کہ اللہ رب العزت کی صفات و وحدانیت میں اس انداز میں غوروفکر کرنا کہ اپنے وجود اور اپنی صفات کا تصور بھی باقی نہ رہے۔گویا انسانی تہذیب کے اندر تمام مذاہب میں ہمیشہ سے فنا و بقا کا تصور پایا جاتا ہے۔
درجاتِ بقا
فنا کسے ملتی ہے اور بقا کسے دی جاتی ہے۔۔۔؟یاد رکھیں ہر وہ شے جو انسان کے اپنے لیے ہو یعنی اپنی ذاتی خواہش و چاہت کے نتیجے میں رونما ہو، اس کو ترک کرنا فنا کہلاتا ہے اور ہر وہ شے جو دوسرے کے لیے ہو یعنی جو اپنے ذاتی مفادات اور حرص و لالچ سے بالاتر ہو اور محض اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا اور اس کے احکام کی بجا آوری کے لیے ہو، اسے بقا کہتے ہیں۔ گویا جو خواہش اپنے لیے ہو، تصوف و معرفت میں وہ فنا کا تقاضا کرتی ہے جبکہ دوسرے کے لیے کی جانے والی خواہش بقا کی منزل سے ہمکنار کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو خواہش اپنی ذاتی لذت کے حصول کے لیے پوری کی جائے تو اس میں اجر نہیں لیکن اگر وہی خواہش اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے پوری کی جائے تو اس میں اجرو ثواب ہے۔
بقا کے دو درجے ہیں:
1۔ عارضی بقا
2۔ دائمی بقا
اعمالِ صالحہ کی حقیقت دائمی بھی ہے اور عارضی بھی ہے۔ جسمانی طور پر کیے جانے والے اعمالِ صالحہ دنیا میں رہ جائیں گے۔یہ ان کی عارضی بقا ہے لیکن ان کے اجر کو دائمی بقا نصیب ہوجائے گی کیونکہ وہ آخرت میں انسان کی اخروی زندگی کے حصے میں آجائیں گے۔ پس جس طرح اخروی زندگی کو دائمی بقا حاصل ہوگی، اسی طرح اعمالِ صالحہ کے اجرکو بھی دائمی بقا حاصل ہوگی۔ ہر وہ عمل جو اجر کا باعث بننے والا ہے، وہ باقی ہوجائے گا اور ہر وہ عمل جو صرف ذاتی مفاد کے لیے ہے، وہ اجرکا باعث نہیں لہذا وہ فانی ہوجائے گا۔ جو عمل اللہ اور رسول اللہﷺ کی رضا جوئی کے لیے، دوسروں کی بھلائی، خدمت، سہولت کے لیے کیاجاتا ہے، اس میں اجرو ثواب ہے اور وہ دائمی عمل کہلائے گا۔ پس معلوم ہوا کہ انسان کی زندگی میں جو عمل تبدیلی رونما کرتا ہے، خیر لاتا ہے، شخصیت کے اندر بہتری اور نکھار پیدا کرتا ہے، وہ باقی رہے گا اور جو عمل نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے انجام دیں گے تو نفسانی خواہشات چونکہ فانی ہیں، اسی طرح ان کی تکمیل کے نتیجے میں انجام دیا گیا عمل بھی فانی ہوجائے گا۔
انسانی حیات کی مثال لیں کہ اگر اپنے لیے زندہ رہیں گے تو فنا ہوجائیں گے اور اگر اس زندگی کو دوسروں کی خدمت کے لیے صرف کریں گے تو باقی رہ جائیں گے۔ اگر اپنی زندگی کو ذاتی ضروریات، آرام و آسائش، اولاد اور اپنی بصارت، سماعت، زبان کی لذت کے لیے صرف کریں گے تو جس طرح اس حیات سے وابستہ سب کچھ فانی ہے، اس طرح اس حیات کے ساتھ ہی یہ سب کچھ بھی فانی ہوجائے گا۔ اگر اس حیات کو خداومصطفیﷺ سے وابستہ کرلیں گے، دینِ متین سے وابستہ کرلیں گے، قرآن سے وابستہ کرلیں گے تو خود بھی باقی ہوجائیں گے اور ہماری حیات بھی باقی ہوجائے گی۔ حتی کہ ہماری یادیں بھی لوگوں کے ذہنوں میں باقی رہیں گی، خواہ ہزاروں سال کیوں نہ گزر جائیں۔ جملہ اولیاء و صلحاء نے جو یادیں چھوڑیں، وہ یادیں آج بھی اسی وجہ سے باقی ہیں۔ پس جو کام اپنے لیے کیا جائے، وہ فانی ہے اور جو دوسرے کے لیے کیا جائے، وہ باقی ہے۔ اگر اس حقیقت کو ذہن نشین کرلیا جائے کہ ہر شے پر دوسرے کو ترجیح دینی ہے تو زندگی گزارنے کا سلیقہ مل جائے گا۔دوسروں کی مدد اور حاجت روائی کا یہی عمل صوفیا کرتے تھے۔ وہ اپنی ذات کے لیے کیے جانے والے نفلی اعمال اور عبادات پر مخلوق کی خدمت کے عمل کو ترجیح دیتے اور یہی عمل انہیں باقی کردیتا۔
انسانی نفوس بھی فنا سے بقا کی طرف عازمِ سفر ہوتے ہیں اور امارہ سے ترقی کرتے کرتے نفسِ راضیہ تک پہنچتے ہیں، یہ بھی بقا کی علامت ہے۔ پہلے سے موجود نفس کو فنا کرنے سے ہی باقی رہ جانے والا نفس یعنی نفسِ مطمئنہ و راضیہ حاصل ہوتا ہے۔
تصورِ فنا و بقا:حیاتِ انبیاء و اولیاء کی روشنی میں
فنا و بقا کے اس تصور کو درج ذیل واقعات سے بھی بخوبی سمجھا جاسکتا ہے:
1۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا:
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَلٰـکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئًا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ.
(البقرة، 2: 260)
’’ اور (وہ واقعہ بھی یاد کریں) جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے عرض کیا: میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے؟ ارشاد ہوا: کیا تم یقین نہیں رکھتے؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں (یقین رکھتا ہوں) لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے، ارشاد فرمایا: سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے، اور جان لو کہ یقینا اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
اس واقعہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ پرندوں کی پہلی حیات فانی تھی، جب دوبارہ زندہ ہوئے تو اب یہ حیات برکت والی ہوئی کیونکہ یہ حیات کسی کی خواہش کے نتیجے میں ملی ہے۔ لہذا جو عمل دوسروں کی خواہش کی تکمیل کے لیے انجام دیا جائے گا، وہ زندہ رہے گا اور برکت کا باعث بنے گا۔
2۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو ذبح کردیں۔ درحقیقت اللہ رب العزت ان سے بیٹے کی محبت کا امتحان لینا چاہتا تھا تاکہ نفسانی اور قلبی محبت کو فنا کردیا جائے۔ جب آپ آمادہ ہوئے اور بیٹے کو ذبح کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اس امتحان میں ثابت قدمی کو دیکھتے ہوئے اُن کے فدیہ میں دنبہ بھیج دیا۔ اب اس امتحان کے بعد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اپنے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے جو محبت تھی، وہ اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی تھی۔ لہذا وہ باقی رہ گئی اور اسے بقا نصیب ہوگئی۔ اس لیے کہ ان سے سب باقیوں کے امام نے آنا تھا۔ سو یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی محبت کی آزمائش تھی۔
3۔ ایک غزوہ کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک کافر کو قتل کرنے لگے تو اس نے اچانک آپ پر تھوک دیا۔ آپ نے اس کے قتل کا ارادہ ترک کردیا اور اسے معاف کردیا۔ پوچھنے پر فرمایا کہ پہلے جب مارنے لگا تھا تو دین کے لیے مار رہا تھا اور یہ عمل باقی تھا لیکن اب اگر میں اس کو قتل کرتا تو اس میں میرا اپنا غصہ شامل ہونے کے سبب اس عمل نے فانی ہوجانا تھا۔ یہ عمل نہ کرکے مولا علی رضی اللہ عنہ کو بقا مل گئی کیونکہ وہ جو عمل بھی کرتے تھے وہ صرف رضائے خدا اور رضائے مصطفی کی خاطر کرتے تھے۔
4۔ حضرت شیخ عبدالقاہر ابو نجیب سہروردی اپنے بھتیجے حضرت شہاب الدین سہروردی (سلسلہ سہروریہ کے شیخ) کو حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی خدمت اقدس میں لے گئے اور عرض کی کہ حضور اس پر نگاہ کرم فرمائیں۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ابھی چھوٹی عمر کے تھے۔ حضور غوث الاعظم نے اپنا دستِ اقدس ان کے سینے پر رکھا تو شیخ شہاب الدین سہروردی جوکچھ جانتے تھے اورجو علم حاصل کررکھا تھا، وہ یکسر صاف ہوگیا اور ان کا سینہ خالی ہوگیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں پریشان ہوگیا کہ یہ کیا ہوا کہ میں سب کچھ بھول گیا۔ حضور غوث الاعظم نے فرمایا کہ پریشان نہ ہوں کیونکہ جب تختی پر نئی لکھائی لکھنی ہو تو پہلے سے موجود سارا کچھ مٹانا پڑتا ہے۔ درحقیقت اس سے پہلے جو علم تھا، وہ کتابی تھا، اب آپ کے سینہ کو صاف کرکے اس پر از سر نو علمِ لدنی اور معارف کا علم لکھ دیا گیا۔یہ بھی فنا اور بقاکا ایک تصور ہے۔
5۔ حضرت رابعہ بصری ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے میں پانی لے کرجارہی تھیں کہ کسی نے پوچھا کہ کہاں جارہی ہیں؟ کہا کہ اس پانی سے آج دوزخ بجھادوں گی اور آگ سے جنت جلادوں گی۔ پوچھا کہ ایسا کیوں کرنا چاہتی ہیں؟کہا: اس لیے کہ لوگ دوزخ کے خوف سے خدا کی عبادت نہ کریں اور جنت کی لالچ سے خدا کی عبادت نہ کریں بلکہ اس کی عبادت صرف اسی کے لیے کریں۔
اس عمل کا فنا اور بقا سے اس طرح تعلق ہے کہ حضرت رابعہ بصری نے بیانیہ (narrative) تبدیل کیا کہ اللہ سے جنت کی طلب اور خوفِ جہنم کے سبب محبت نہ کرو بلکہ اس سے اسی کے لیے محبت کرو۔ جو بندہ بھی مولا کو چاہے تو صرف اسی کے لیے چاہے، اس کے حسن وجمال کی خاطر چاہے، اس کی عظمت و کبریائی کی خاطر چاہے اور کسی لالچ اور خوف کی وجہ سے اسے نہ چاہے۔
اللہ والوں کے وقت، کلام اور نگاہ میں تاثیر و برکت کی وجہ یہی ہے کہ وہ بقا والی زندگی بسرکرتے ہیں۔ لہذا جب کسی کے لیے زندگی بسر کی جائے تو پھر وہ عام انسان کی زندگی کی طرح نہیں ہوتی بلکہ وہ خاص الخواص بندوں کی زندگی کی طرح ہوتی ہے اور اس کے ثمرات الگ ہوتے ہیں۔
تصور فنا و بقا کائنات کی ہر شے میں پوشیدہ ہے
مذکورہ حقائق کا جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ فنا اور بقا صرف تصوف سے متعلقہ نہیں ہے بلکہ تصوف سے ہٹ کر بھی اس کا وجود پایا جاتا ہے۔ یہ اللہ رب العزت کی کل کائنات کے تخلیقی رازوں میں سے ایک راز ہے۔ وہ کائنات کی ہر شے کو فنا اور بقا کے مراحل سے گزارتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی بقا عارضی ہوتی اور کوئی دائمی ہوتی ہے۔لیکن نظام ایک جیسا ہے کہ ہر شے کو فنا سے گزار کر بقا کی طرف لے جایا جاتا ہے۔
موسم کی تبدیلی مثال لیں۔ خزاں میں پتے جھڑ جاتے ہیں، درختوں کاحسن ماند پڑجاتا ہے اور پھول مرجھا جاتے ہیں۔ یہ فنا کا ایک منظر ہے۔ پھر اس کے بعد موسم تبدیل ہوتا ہے تو انہی سوکھی ڈالیوں پر نئی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں اور آہستہ آہستہ درختوں کے رنگ اپنے جوبن پر آجاتے ہیں۔ گویا موسموں میں بھی اللہ رب العزت نے فنا اور بقا کا راز رکھا ہے۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ خزاں میں پتے زمین پر کیوں بکھر جاتے ہیں؟ اس لیے کہ فنا میں جو آزمائشیں آتی ہیں، وہ بقا کے لیے کھاد کا کام کرتی ہیں۔ یہ خزاں رسیدہ پتے جب زمین پر گرتے ہیں تو ہزاروں جانداروں کی زندگی کے لیے سبزہ اگانے میں زمین کو طاقت مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح فنا؛ بقا کا سبب بن جاتی ہے۔
یہ تصورِ فنا و بقا کائنات کی ہر شے میں پوشیدہ ہے۔ یہاں تک کہ ممالک اور اقوام کی حیات میں بھی فنا اور بقا کا تصور پایاجاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نہیں سمجھتے۔ اس لیے کہ ہم repair work (مرمت) کرتے ہیں جبکہ فنا reconstruction (از سرِ نو تعمیر) چاہتی ہے، وہ ٹوٹی ہوئی چیزکو دبارہ جوڑنے کا تقاضا نہیں کرتی۔ ہمارا کوئی بھی نظام باقی اس لیے نہیں رہتا کیونکہ ہم repair (مرمت) کرتے ہیں، تعمیرِ نو نہیں کرتے۔
حضور نبی اکرمﷺ کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے بھی فنا و بقا کا تصور اجاگر ہوتا ہے۔ آپﷺ کی مدینہ آمد سے قبل یہ جگہ یثرب کہلاتی تھی اور بیماریوں کی آماجگاہ تھی۔ لوگ ایک دوسرے کے دشمن تھے، قبیلے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھے۔ چھوٹے چھوٹے مسائل پر طویل عرصے تک لڑائیاں چلتی رہتی تھیں۔ بے امنی، بے سکونی اور بے چینی عام تھی۔ وہاں کا معاشی نظام استحصالی تھا اور سیاسی نظام بے وقعت تھا۔ آقا علیہ السلام نے پچھلے تمام بوسیدہ نظام کو repair نہیں فرمایاکہ پچھلا نظام بھی باقی رہے اور اگلا نظام بھی چل پڑے بلکہ حضور نبی اکرمﷺ نے وہاں پہنچ کر سب سے پہلے اس شہر کے پرانے نام کو ہی فنا فرمادیا اور یوں reconstruction (تعمیرِ نو) فرمائی کہ اس شہر کا نام ختم کردیا اور اسے باقی رہنے والا نام مدینۃالمنورہ عطا فرمادیا۔ اب یثرب فانی ہوگیا اور مدینۃ المنورہ قیامت تک باقی ہوگیا۔
مدینہ میں یہود کے ہاں جاری معاشی نظام استحصال پر مبنی تھا۔ آپﷺ نے انصار و مہاجرین کو مواخات کے رشتے میں جوڑ دیا اور اعتدال پر مبنی ایسا معاشی نظام دیا جس نے پچھلے استحصالی نظام کو فناکردیا۔ آپﷺ نے ایک نئے معاشی سسٹم کی تعمیر نو فرمائی جو باقی رہ گیا۔ گویاآپﷺ نے استحصالی معاشی نظام کو فنا فرمادیا اور انصاف اور اعتدال پر مبنی معاشی نظام کو بقا عطا فرمائی۔
پھر آپﷺ نے میثاقِ مدینہ کا تصور پیش کیا جس میں سیاسی نظام کو تعمیرِ نو بخشی۔ استحصال، ظلم و جبر اور قتل وغارت اور دشمنی پر مبنی پرانے سیاسی نظام کو repairنہیں فرمایا کہ پرانا نظام بھی چلتا رہے اور ساتھ ساتھ اس میں بہتری کے قوانین بھی شامل کرتے جائیں۔مطلب برائی بھی ساتھ چلے اور اچھائی بھی ساتھ چلے، ایسے نہیں کیا۔ یہ اقدام نہیں فرمایا کہ ایک ایسی پارلیمنٹ بنادی جائے جس میں پرانی پارٹیوں کے لوگ بھی ساتھ چلیں اور دو چار نئے بھی آجائیں۔ ایسی پارلیمنٹ سے ریاستِ مدینہ کبھی وجود میں نہیں آسکتی۔ آقا علیہ السلام نے ریاست مدینہ کی جو پارلیمنٹ بنائی، اس کو reconstruct فرمایا تھا۔ پچھلے نظام کو مکمل طور پر فنا کردیا اور اس سے بہتر سیاسی و پارلیمانی نظام کو بقا بخشی۔ گویا میثاق مدینہ کی صورت میں آپﷺ نے باقی رہنے والا سیاسی نظام متعارف کرایا۔
تعمیرِ نو اللہ تعالیٰ کی سنت
اللہ رب العزت نے مختلف اقوام پر ان کی بداعمالیوں کے سبب عذاب نازل فرمائے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو مختلف ترمیمی ایکٹ کے ذریعے پوری قوم کو یکسر صفحہ ہستی سے نہ مٹاتا لیکن اللہ رب العزت نے جو نظام قائم کیا، وہ یہ ہےکہ جب کسی نظام میں خرابی آجاتی تو اس کو repair نہیں کرتا بلکہ اس نظام کی تعمیر نو کرتا ہے تاکہ نظام طویل عرصہ تک چل سکے۔ لہذا وہ پہلے سے موجود بوسیدہ نظام کو مکمل طور پر فنا کرتا ہے اور پھر نئی قوم و ملت پیدا کرتا ہے۔سیدنانوح علیہ السلام کی قوم پر طوفان کی صورت میں عذاب نازل ہوا تو پچھلی ہر شے کو فنا کردیا، خس و خاشاک کی طرح بہادیا اور بعد ازاں از سر نو نئی نسل آبادکی۔
آج پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے، ان میں معاشی اور سیاسی مشکلات بھی ہیں، بے امنی، بے سکونی اور بے چینی بھی ہے، لوگ بھوک پیاس سے تنگ آکر بچوں کو زہر دے کر خود بھی خودکشی کررہے ہیں۔ یہ سب خرابی اس لیے ہے کہ ہم 75 سالوں سے repair work کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہم نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تصور انقلاب کو نہیں سمجھا۔ آپ کا تصور انقلاب درحقیقت فنا و بقا کی زمین سے پھوٹتا ہے۔ آپ نے اس فرسودہ استحصالی نظام کو یکسر فنا کردینے کی تجویز دی تاکہ اللہ رب العزت اس برے نظام کے خاتمے کے بعد باقی رہنے والا عادلانہ اور صاف ستھرا نظام عطافرمادے۔لیکن ہم repair work کو ترجیح دے کر تباہی کے دہانے جا کھڑے ہوئے۔ کبھی آئین میں معمولی ترمیم کردی۔۔۔ کبھی آرڈیننس سے کام چلایا۔۔۔ کبھی قانون سازی سے کام چلایا۔۔۔ کبھی ایک کو بٹھاکر اور کبھی دوسرے کو بٹھا کر ہم اس نظام کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔ مگر 75 سال میں ہم کامیاب نہ ہوسکے۔ آج بھی اس ملک کو اگر راہِ راست پر لانا ہے تو ایک ہی طریقہ ہے کہ فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کو فنا کی گھاٹی میں اتار دیا جائے تاکہ اللہ رب العزت اس بوسیدہ نظام کے خاتمے کے بعد باقی رہنے والا صاف ستھرا اور اعتدال و توازن پر مبنی بہتر نظام سے نوازے۔ حل صرف بقاوالے نظام میں ہے اور یہ فنا کے راستے سے گزر کر نصیب ہوتا ہے۔ فنا کا رستہ دشوار گزار اور مشکل ضرور ہے مگر بقا کی ضمانت دیتا ہے۔
عقاب/ شاہین کی مثال لیں کہ 40 سال صحت مند زندگی گزارنے کے بعد اس کی چونچ اور پنجے کمزور ہوجاتے ہیں جس سے اس نے شکار کرنا ہوتا ہے۔ اس کے پر بھاری ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال میں وہ نہ کھا سکتا ہے، نہ چل سکتا اور نہ اڑ سکتا ہے۔ اب اس شاہین کے پاس ایک حل یہ ہوتا ہے کہ وہ بھوکا و پیاسا جان دے دے اور دوسرا حل اس کے پاس فنا کا رستہ ہے۔ چنانچہ وہ فنا کے راستہ کا انتخاب کرتا ہے اور کسی پہاڑ کی چوٹی پر جاکر خلوت نشین ہوجاتا ہے۔ وہ وہاں پتھر پر اپنی چونچ مار مار کر پرانی چونچ توڑ دیتا ہے تاکہ اللہ رب العزت اس کی جگہ نئی چونچ عطا فرمائے۔ پھر اپنے مڑے ہوئے پنجوں کو پتھر پر مارمار کر توڑ دیتا ہے تاکہ اللہ رب العزت اس کی جگہ نئے پنجے دے دے۔ کچھ عرصہ بعد اُسے نئی چونچ اور پر عطا ہوجاتے ہیں تو پھر نئی چونچ سے اپنے پروں کو چن چن کر اکھاڑ دیتا ہے تاکہ ان کی جگہ اللہ تعالیٰ نئے پر عطا کردے۔ یہ اس قدر تکلیف دہ مرحلہ ہے کہ وہ خون آلود ہوتا ہے اور درد کی کیفیت سے دوچار ہوتاہے مگر یہ تکالیف وہ اس لیے برداشت کرتا ہے کہ اس کو پتہ ہے کہ فنا کا راستہ آسان نہیں ہے اور وہ بالآخر اس فنا کے راستے سے گزر کر اپنی چونچ، پنجوں اور پروں کی صورت میں ایک نئی زندگی حاصل کرلے گا۔ چنانچہ وہ اس میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔
یہی حال پاکستان کا ہوچکا ہے۔اب اس مملکت کے پنجے مڑ چکے ہیں، چونچ ٹیڑھی ہوچکی ہے اور پر بھاری ہیں۔ یہ خود کچھ بھی کھانے پینے اور پرواز اور ترقی کرنے سے محروم ہوچکی ہے۔ اقبال کا وہ خواب اور تصور جس کے نتیجے میں پاکستان قائم کیا گیا تھا،اب اس خواب اور تصور کو لوگ وہم و گمان سمجھتے ہیں۔یاد رکھیں! نہ سیاسی و معاشی فنا آسانی سے آتی ہے اور نہ ہی انفرادی فناآسانی سےآتی ہے۔ یہ سارا مرحلہ تکلیف دہ ہے لیکن اگر کوئی اسے پورا کرجائے تو اس کے بعد اللہ رب العزت اسے نئی حیات عطا کرتا ہے جیسے عقاب کو نئی زندگی سے نوازتا ہے۔
پس جب کوئی فنا کی گھاٹی کی مشقت عبورکرلیتا ہے تو پھر اللہ رب العزت اس کو بقا کی ضمانت عطا فرمادیتا ہے اور اگر کوئی فنا میں گھبرا جائے، پریشان حال ہوجائے اور روحانی سفر کے اندر بھی ریاضت و مجاہدہ سے گھبرا جائے، آزمائش کی تکلیف سے گھبرا جائے اور سختی برداشت کرنے پر آمادہ ہی نہ ہو تو اس کو بقا کیسے نصیب ہوگی۔۔۔؟ آج پاکستان کے معاشی حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ ہر چیز اب Sale(برائے فروخت) پر لگ گئی ہے۔ پرائیویٹائزیشن (نجکاری) کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ پاکستان دہائیوں سے بڑے بڑے معاشی اداروں کا مقروض ہے اور اب یہ گروی پڑا ہوا ہے اور اس حالت میں اس کی چیزیں Sale پر ہی لگنی ہیں۔
ملک پاکستان کی بقا کا راز اسی امر میں پوشیدہ ہے کہ اب اس نظام کو فنا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمت کرنے کی ضرورت ہے کہ آج کے بعد کوئی قرضہ نہیں لیا جائے گا، قوم مشقت وتکلیف اور بھوک کی صورت میں فنا کی گھاٹی عبورکرے گی لیکن قرض نہیں لے گی۔ یہ مشکل راستہ ہے مگر اس کے بغیر کوئی حل میسر نہیں ہے۔ ہم آج تک reparing پر لگے ہوئے ہیں، قرضوں کی قسط میں سے کچھ جمع کرواکر مزید قسط حاصل کرتے ہیں، منت سماجت کرلیتے ہیں لیکن فنا کے راستے پر قدم نہیں رکھتے اور نظام کی reconstrcution پر آمادہ نہیں ہوتے۔ وہی قومیں بنتی اور سنورتی ہیں جو فنا کے سفر کو بہ خوشی اپنے دل سے لگاتی ہیں تاکہ اللہ رب العزت ان کو بقا عطا فرمائے لیکن جو فنا سے گھبراتی رہتی ہیں، وہ ہمیشہ رسوا رہتی ہیں اور اللہ رب العزت انہیں کبھی باقی نہیں کرتا۔
یہی وہ پیغام ہے جو گزشتہ 44 سال سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دیتے آرہے ہیں اور آپ کے تمام تر تصورات چاہے وہ تعلیم پر مبنی ہوں یا تہذیب و ثقافت، سیاست و معاشرت، اقتصادیات اور روحانیت پر مشتمل ہو، ان تمام میں درحقیقت یہی فناو بقا کا تصور کار فرما ہے۔ پس آج اپنے ذاتی سفرسے قومی سفر تک فنا کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اللہ رب العزت بقا عطا فرمادے۔ جو لوگ فنا سے ڈرتے رہتے ہیں، انھیں کبھی بقا نصیب نہیں ہوتی۔