سوال: عشرہ محرم الحرام میں شادی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: امام حسین علیہ السلام اور آپ کے رفقاء کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اسلام کا دامن شہادت کے پھولوں سے لبریز ہے مگر کلمہ گو ظالم شیطانوں کے ہاتھوں جس ظالمانہ انداز میں گلشنِ مصطفیٰ ﷺ کے پھول مَسلے گئے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ اس قدر دردناک شہادت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نہ صرف اس کے وقوع پذیر ہونے کی خبر دی بلکہ چشمانِ مقدس سے آنسو بہا کر غمِ حسین علیہ السلام میں رونا اپنی سنت بنا دیا۔
امت کی اکثریت نے حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے رفقاء کی شہادت کو ایک عظیم سانحہ کے طور پر دیکھا اور یوم عاشورہ یعنی 10 محرم الحرام کو یوم الحزن کے طور پر یاد کیا۔ اس لیے امتِ مسلمہ کے ہاں عشرہ محرم الحرام میں شادیوں یا خوشیوں کی دیگر تقریبات کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ البتہ مجبوری کی صورت میں سادگی کے ساتھ نکاح کرنے میں حرج نہیں۔اگر کوئی شخص جان بوجھ کر خانوادہِ رسالت کے شہدائے پر ہونے والے مظالم پر خوشیاں مناتا ہے اور اسی لیے عشرہ محرم میں خوشیوں کی تقریبات کا انعقاد کرتا ہے تو وہ یقیناً روحِ مصطفیٰ ﷺ کو ایذا دینے کا مرتکب ہے اور اسے بروزِ قیامت رسول اللہ ﷺ کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ امت میں ایسے بدبخت گروہ بھی گزر چکے ہیں جو شہادتِ امامِ عالی مقام کی مناسبت سے عاشورہ کے روز باقاعدہ خوشیوں اور عید کا اہتمام کرتے۔ امام ابن کثیر (البدایه و النهایه،11: 577) رقمطراز ہیں:
’شام کے ناصبین نے (سانحہ کربلا کے بعد) یوم عاشورہ کو اس طرح منانا شروع کیا کہ یہ لوگ یوم عاشورہ کو کھانے پکاتے، غسل کرتے، خوشبو لگاتے اور قیمتی لباس پہنتے اور اس دن کو عید کے طور پر مناتے اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے۔ انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے قتل کی تاویل یہ کی کہ وہ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے نکلے تھے اور جس شخص کی بیعت پر لوگوں نے اتفاق کیا تھا، اسے معزول کرنے آئے تھے (معاذ اللہ)۔
ابنِ کثیر خلاصہ کلام ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ آپ علیہ السلام کی شہادت پر غمگین ہو۔ بلاشبہ آپ سادات مسلمین اور علماء صحابہ میں سے تھے اور رسول اللہ ﷺ کی اس بیٹی کے صاحبزادے ہیں جو آپ کی بیٹیوں میں سب سے افضل تھیں۔ آپ عبادت گزار، دلیر اور سخی تھے۔
سوال: بیٹی کے نکاح کے لیے شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں کیسا لڑکا تلاش کرنا چاہے؟
جواب: اسلامی شریعت کے مطابق رشتہ طے کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ لڑکے اور لڑکی کے قد کاٹھ، شکل و صورت، تعلیم و تربیت میں ہر ممکن حد تک مناسبت پائی جائے تاکہ دونوں میں ہم آہنگی، مطابقت و موافقت اور الفت قائم ہو سکے۔ بےجوڑ اور غیر مناسب رشتوں سے بچا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ.
(النساء، 4: 3)
’’تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے مطابق پسندیدگی دو طرفہ ہے، صرف لڑکے کو لڑکی پسند ہونا کافی نہیں ہے بلکہ لڑکی کو بھی لڑکا پسند ہونا ضروری ہے، پھر ہی دونوں میں ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے۔ شادی کے مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ دونوں میں محبت و مودت ہو اور ایک دوسرے سے سکون پائیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ.
(الروم، 30: 21)
’’اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘
انتخابِ زوج کے لیے یہ بنیادی چیزیں ہیں جنہیں نظر انداز کر کے اکثر لوگ لڑکے کے مال ودولت کو دیکھ کر لڑکیوں کی زندگیاں برباد کر بیٹھتے ہیں۔ اگر لڑکے کے پاس زیادہ مال و دولت کی بجائے ضروریات زندگی پوری کرنے کی استطاعت اور اچھا کردار ہو تو دونوں کی زندگی میں محبت و سکون اور اللہ تعالیٰ کی رحمت جیسی نعمتیں بآسانی نازل ہو سکتی ہیں اور اسی کی تعلیم دی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا جَاء َکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ أَمَانَتَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْکِحُوهُ کَائِنًا مَنْ کَانَ، فَإِنْ لَا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ، أَوْ قَالَ: عَرِیضٌ.
(عبد الرزاق، المصنف،6: 152، رقم: 10325)
جب تمہارے پاس ایسے شخص کے نکاح کا پیغام آئے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے نکاح کردو خواہ وہ کوئی بھی شخص ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت زیادہ فساد اور فتنہ پھیلے گا۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اِذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِیْنَه وَخُلُقه فَزَوِّجُوْ اِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْارْضِ وَفَسَادٌ عَرِیْضٌ.
(ترمذي، السنن، كتاب النكاح، باب ما جاء إذاجاء كم من ترضون دينة فزوجوه، 3: 394، رقم: 1084)
جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ بپا ہوگا۔
حدیث مبارک میں ہے کہ اچھا شوہر وہی ہو گا جو ذیل میں مذکور جملہ امور پر عمل کرنے والا ہوگا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَنْ يُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمَ وَأَنْ يَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَى وَلَا يَضْرِبِ الْوَجْهَ وَلَا يُقَبِّحْ وَلَا يَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ.
(ابن ماجه، السنن، کتاب النکاح، باب حق المرأة علی الزوج،2: 417، رقم:1850)
جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے۔ اس کے منہ پر نہ مارے، اسے برا نہ کہے اور گھر کے علاوہ تنہا کہیں نہ چھوڑے۔
لہٰذا بہترین انتخاب زوج کے لئے معیار یہ ہونا چاہیے کہ بندہ دین دار، با اخلاق اور وسیع النظر ہو اور اہل خانہ کو نیکی کی رغبت دلانے والا، حلال رزق کمانے والا اور اپنے خاندان یعنی بیوی اور بچوں کی کفالت کا اہل ہو۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.
(مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء،2: 1019، رقم: 1400)
اے نوجوانو! تم میں سے جو شخص گھر بسانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کرلے کیونکہ نکاح سے نظر بہکتی نہیں اور شرمگاہ محفوظ رہتی ہے، اور جو شخص نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ روزے اس کی شہوت کو کم کر دیتے ہیں۔
علاوہ ازیں مرد کو حلیم الطبع، بہادر، خوش خلق، عورت سے بھلائی کرنے والا، اچھے کاموں سے محبت والا خصوصاً بیوی کے اچھے کاموں پر دل کھول کر داد دینے والا، احسان کرنے والا، ظلم وتشدد سے پرہیز کرنے والا اور معاملاتِ زندگی میں بہترین منظم اور معاشی لحاظ سے خود کفیل ہونا چاہیے۔
سوال: عدالتی نکاح (COURT MARRIAE) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: بالغ لڑکا، لڑکی اپنی پسند اور مرضی سے دستور کے مطابق نکاح کر سکتے ہیں۔ یہ حق ان کو قرآن وحدیث اور تقریباً ہر ملکی قانون نے دیا ہے مگر ہمارے سماج نے نہ دیا یہی وجہ کورٹ میرج میں اضافے کا سبب بھی ہے۔ دورِ حاضر میں مسلمانوں کی، اسلامی تعلیمات سے دوری جہاں معاشرے میں دیگر خرابیوں کا باعث بن رہی ہے ان میں ایک خرابی یہ بھی سر فہرست ہے کہ اکثر والدین بچوں کی پسند و ناپسند کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی اور پسند کے رشتے طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اکثر لڑکے لڑکیاں والدین کو بتائے بغیر اپنی پسند اور مرضی کے مطابق عدالتی نکاح کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھر دوسری طرف والدین اپنی مرضی کے خلاف کی گئی شادی کو قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے حالانکہ جس جوڑے نے آپس میں مل جل کر رہنا ہے، اگر وہ رضامند ہوں تو ان کو زندگی گزارنے کا حق دینا چاہیے جبکہ قرآن و حدیث میں بھی پسند کی شادی کرنے کا حکم ہے۔ لیکن لاعلمی و جہالت کی وجہ سے معاشرے میں لڑکی اور لڑکے کی آپس میں پسند کی شادی کو عجیب سمجھا جاتا ہے اگر وہ بذریعہ عدالت نکاح کرلیں تو مزید نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ.
(النساء، 4: 3)
’’تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں۔‘‘
یہ پسند دو طرفہ ہو گی، لڑکے کی طرف سے بھی اور لڑکی کی طرف سے بھی، کسی پر اس کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ ٹھونسا نہیں جا سکتا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا تُنْکَحُ الْأَيِّمُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہ وَکَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ أَنْ تَسْکُتَ.
بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کی: یاسول ﷲ ﷺ کنواری کی اجازت کیسے معلوم ہوتی ہے؟ فرمایا: اگر پوچھنے پر وہ خاموش ہوجائے تو یہ بھی اجازت ہے۔
(بخاري، الصحيح، 5: 974، رقم: 4843)
فقہائے کرام فرماتے ہیں:
ينعقد نکاح الحرة العاقلة البالغة برضاها وان لم يعقد عليها ولی بکرا کانت أو ثيبا... ولا يجوز للولی اجبار البکر البالغة علی النکاح.
آزاد، عقل مند بالغ لڑکی کا نکاح اس کی رضا مندی سے ہو جاتا ہے، خواہ اس کا ولی نہ کرے، کنواری ہو یا ثیبہ۔۔۔ ولی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ کنواری بالغ لڑکی کو نکاح پر مجبور کرے۔
(مرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 196)
ولی یعنی باپ یا دادا کے کیے ہوئے نکاح کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
واذا أدرکت بالحيض لا بأس بأن تختار نفسها مع رؤية الدم.
اگر لڑکی حیض کے ذریعے بالغ ہوئی تو خون دیکھتے ہی اسے اختیار حاصل ہو گیا خواہ بچپن کے نکاح کو برقرار رکھے یا رد کر دے۔
(الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1: 286)
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ عاقل وبالغ لڑکا اور لڑکی بدستور اپنی پسند اور مرضی سے بعوض حق مہر اور دو مسلمان عاقل وبالغ گواہوں کی موجودگی میں جہاں چاہیں نکاح کر سکتے ہیں۔ لہٰذا لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی سے عدالتی نکاح کریں تو شرعی طور پر نکاح جائز ودرست ہو گا۔
عدالت میں نکاح کرنا بنیادی طور پر کوئی بری بات نہیں ہے۔ اصل خرابی کی جڑ والدین کا لڑکے اور لڑکی کی پسند و ناپسند کو نظر انداز کرنا ہے۔ اکثر والدین مال ودولت اور جائیداد کے لالچ میں شرعی کفو کا خیال نہیں رکھتے بغیر سوچے سمجھے بچوں کی زندگی کا سودا کر دیتے ہیں۔ اُن کا یہ فیصلہ بعد میں ناخوشگوار زندگی کا باعث بنتا ہے۔ اگر کوئی جوڑا اپنی پسند اور رضامندی سے بذریعہ عدالت نکاح کر کے جائز وحلال تعلقات قائم کرتا ہے تو اُس کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق ملنا چاہیے۔ اگر یہ راستہ بھی بند کر دیا جائے تو اس کا مطلب ہے ہم اُن کو غلط کاری پر مجبور کرنے جا رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنی سوچیں اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ شادی بیاہ کے معاملات میں بھی والدین اور بچے اپنی اپنی حدود میں رہ کر اچھا فیصلہ کر سکیں اور طے پانے والا رشتہ دنیا وآخرت میں راحت وسکون کا باعث بنے۔ جبکہ عدالتی نکاح پر پابندی لگانا، اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔