تعلیم و تحقیق سے بیگانگی: ایک سماجی المیہ

ڈاکٹر زہیر صدیقی

تعلیم اور تحقیق کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام کی بنیاد ہیں۔ یہ وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے انسان نہ صرف اپنے علم میں اضافہ کرتا ہے بلکہ معاشرے کو بھی مثبت تبدیلیوں کی طرف گامزن کرتا ہے۔ تاہم، موجودہ دور میں تعلیم و تحقیق سے بے رغبتی ایک سنگین سماجی مسئلہ بن چکا ہے، جس کے اثرات محض فکری واعتقادی پستی کی صورت میں ہی ظاہر نہیں ہو رہے بلکہ اضافتا اخلاقی، معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی میدانوں میں بھی واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اپنی آفاقی تعلیمات میں علم وتحقیق کو کسی بھی معاشرے کی ہمہ جہتی ترقی کا ضامن قرار دیتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں علم وتحقیق سے بے اعتنائی و بے گانگی کوکسی بھی معاشرے کے زوال کا سبب قرار دیتا ہے۔ ذیل میں ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے معین کردہ مضمون کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم وحی الہی سے رہنمائی لیتے ہوئے اپنے آج کو سنوار کر، اپنے کل کو منور و روشن کر سکیں:

تعلیم وتعلم کی ناگزیریت

اگر ہم کتاب وسنت کا بنظر غایر مطالعہ کریں تو ہم یہ بات بلا تأمل جان سکیں گے کہ وحی الہی کسی بھی انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر اس کی عائلی وخاندانی زندگی تک اور سماجی ومعاشرتی زندگی سے لے کر قومی وبین الاقوامی زندگی تک کے ہر مرحلے میں مسلسل تعلیم اور تحقیق کے سفر پر گامزن رہنے کی ترغیب و تلقین کرتی دکھائی دیتی ہے۔

قرآن مجید کی پہلی وحی کی صورت میں نازل ہونے والی سورۃ العلق کی ابتدائی آیات ہی حضرت انسان پر ’’اِقْرَءْ‘‘ کی صدائے دلنواز کے ذریعے محض تعلم کی ذمہ داری ہی نہیں ڈالتیں، بلکہ انسانی زندگی میں تعلیم وتعلم کے دوہرے رشتے کو بخوبی ثابت بھی کرتی ہیں۔ یاد رہے کہ تعلیم وتعلم ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں، اسی لیے قرآن مجید کے اس مقام پر اللہ تعالی نے اپنا تعارف معلم کے طور پر ان الفاظ میں کروایا:

’’عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ‘‘

یعنی آپ اس کریم واکرم رب کے نام سے پڑھیے کہ جس نے نہ صرف یہ کہ انسان پر احسان فرماتے ہوئے اسے عدم سے وجود بخشا، بلکہ احسان در احسان کرتے ہوئے بے علم انسان کو وہ وہ کچھ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

اگر ہم دقتِ نظری کے ساتھ فرمانِ عالی شان ’’عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ‘‘ پر رک کر غور وفکر کریں، تو ہم پر یہ بات بخوبی عیاں ہو جائے گی کہ جہاں فرمان مبارک ’’عَلَّمَ الْإِنْسَانَ‘‘ انسان کو علم کے مراحل سے گزارنے کی الوہی مشیئت کی طرف صراحت سے دلالت کر رہا ہے، وہیں فرمان مبارک ’’مَا لَمْ یَعْلَمْ‘‘ حضرت انسان کی فطرت میں موجود تجسس، مزید سے مزید کا متلاشی رہنے اور نئے سے نئے کی جستجو اور تگ و دو کرتے رہنے کی صفت کو بھی واضح کر رہا ہے۔ عدمِ علم کا احساس، انسان کو علم وتحقیق کی طرف بڑھانے کا پہلا قدم ہے۔

اسی طرح معلم برحق، اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ کو کئی مقامات پر بطور معلم متعارف کروایا ہے۔ چنانچہ سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر 107 میں فرمایا:

’’وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘

یہ نبی آخر الزمان ﷺ متلاشیانِ علم کو کتاب کی تعلیم دیتے ہیں اور حکمت ودانائی سکھاتے ہیں اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ تم میں متلاشیانِ علم وتحقیق کو ایسے ایسے اسرارِ معرفت وحقیقت سکھاتے ہیں جو تم نہ جانتے تھے۔

قرآن مجید میں مذکور حضور نبی اکرمﷺ کی شانِ معلمیت امت کو اس امر کی جانب متوجہ کرتی ہے کہ محبوبِ دو عالمﷺکی اس شان سے کچھ نہ کچھ فیض پائیں اور اپنے آپ کو تادمِ حیات، ان کی اتباع میں رہتے ہوئے تعلیم وتعلم سے منسلک کیے رکھیں۔ نبی آخر الزماں ﷺ نےبھی بذاتِ خوداپنی شان معلمیت کا اعلان ’’إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا‘‘ کے الفاظ سے فرمایا، اب ایسی صورت میں یہ بھلا کیوں کر ممکن ہے کہ امتی، اپنے آپ کو زندگی کے کسی مرحلے میں بھی تعلیم وتعلم سے جدا کر لے؟ اس سے بے اعتنائی برتے اور علم وتحقیق سے بےگانگی کا اظہار کرے؟

سماج میں تحقیق و جستجو کی اہمیت

قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور اقوال وآثار سے تحقیق کی اہمیت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ قرآن مجید کی مذکورہ آیات میں جہاں تعلیم کا ذکر آیا، وہاں ’’مَا لَمْ یَعْلَمْ‘‘ اور اسی طرح ’’مَالَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘کے الفاظ اس بات کے عکاس ہیں کہ حضرت انسان کے اندر مجہول و نا آشنا کی معرفت کی جستجو ودیعت کر دی گئی ہے۔ یہ الفاظ اس بات کو بھی بخوبی سمجھا دیتے ہیں کہ علم میں تحقیق کا دروازہ اسی شخص پر کھلے گا جو ’’لَمْ یَعْلَمْ‘‘ (کہ وہ نہیں جانتا) کا احساس اپنے اندر پیدا کرنے میں کامیاب رہے گا۔

قرآن مجید میں تحقیق کی نہ صرف اہمیت ذکر ہوئی ہے، بلکہ اس کی ترغیب بھی وارد ہوئی ہے۔ اب ذرا غور فرمایئے۔ اللہ تعالی نے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 85 میں ارشاد فرمایا:

’’وَمَا أُوْتِيْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيْلًا‘‘

یعنی اے لوگوں تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔

یہ آیت انسانی علم کے قلیل ہونے پر نصِ صریح ہے۔ یہ آیت انسان کے اندر مزید جستجو کو زندہ کرتی ہے اور اس بات کا احساس پیدا کرتی ہے کہ اے انسان تو علم کی جس بھی بلندی تک پہنچ جائے، تیرا علم ابھی قلیل ہی ہے، تجھے ابھی مزید تحقیق کرنی ہے، مزید علم حاصل کرنا ہے، نئے حقائق تک رسائی حاصل کرنی ہے اور اس کائنات کو تسخیر کرنا ہے۔ لہذا یہ آیت مبارکہ انسان کے اندر تحقیق کی جستجو کو زندہ کرتی ہے۔ اسے یہ احساس دلاتی ہے کہ اسے اپنے علم پر اکتفاء نہیں کرنا، کیوں کہ اس کا علم ابھی نامکمل ہے۔ اسے مزید علم کے حصول کی طرف بڑھنا ہے۔

اب ذرا قرآن مجید ہی کے ایک اور مقام پر غور فرمائیے۔ اللہ تعالی سورۃ یوسف کی آیت نمبر 76 میں فرماتے ہیں:

’’وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ‘‘

یعنی کہ ہر صاحبِ علم سے اوپر بھی ایک علم والا ہوتا ہے۔

یہ آیت کریمہ بھی انسان کے اندر تحقیق وجستجو کے دروازے کھولتی ہے۔ انسان کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ اسے اپنے علم پر اکتفا نہیں کرنا، اسے مزید علم حاصل کرنا ہے، اشیائے موجودات اور ان کے پنہاں رازوں کی نئی نئی جہات تک پہنچنا اور ان کو منکشف اور عیاں کرنا ہے۔ یقینا یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک کہ کوئی اپنے علم کو حرف ِآخر سمجھنا ترک نہ کر دے۔ کیوں کہ الوہی تعلیمات اسے بتلا رہی ہیں کہ اس کی معرفت جہاں بھی پہنچ جائے، اس سے بڑھ کر صاحبان معرفت موجود ہیں۔

سورۃ طہ کی آیت نمبر 114 بھی انسان میں تعلیم وتحقیق کے دروازے کھولتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

’’وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا‘‘

اور آپ رب کے حضور یہ عرض کیا کریں کہ اے میرے رب مجھے علم میں اور بڑھا دے۔

زیادتِ علم، یعنی علمی کثرت کا تقاضا وہی شخص کرے گا جس کو اس کے نقصان یعنی کم ہونے کا ادراک ہو گا اور علم کے نقصان کا احساس اسی کو ہو گا جو اپنے علم کو حرفِ آخر قرار دینے کی بجائے اپنے رب کے حضور متواضع، عاجز اور منکسرِ نفس رہتے ہوئے اپنی کم علمی، کج فہمی، بے مائیگی اور بے بضاعتی کا اقرار واعتراف کرتا ہو۔

یہاں ضمنا یہ مفہوم بھی واضح ہو گیا کہ صرف ایسا محقق شخص ہی معاشرے میں صحیح معنیٰ میں نافع بن سکتا ہے جو اپنی طبیعت میں عاجز اور متواضع رہتے ہوئے تحقیق کے میدان میں آگے بڑھے۔ معاشرے میں بسنے والا ہر فرد جس کی تحقیق رعونت کا باعث بنے، قدرت اسے معاشرے میں تعمیری کردار ادا کرنے کی نعمت سے محروم کر دیتی ہے۔

تعلیم وتحقیق سے بے گانگی ایک سماجی المیہ کیسے؟

ہمیں سب سے پہلے اس بات کو ذہن نشیں کر لینا چاہیے کہ وحی الہی کی تعلیمات ہم سے متقاضی ہیں کہ ہم ایک ایسا سماج اور ایسا معاشرہ قائم کریں جس کا سہرا علم وتحقیق سے سجا ہو، نہ کہ جہالت و ناخواندگی کی ظلمت میں ڈوبا ہوا یا غیر مصدقہ اندازوں اور خیالات کے غبار سے اٹا ہوا۔ یہی امتیاز اللہ رب العزت نے سورۃ زمر کی آیت نمبر 9 میں استفہام برائے تقریر کے اسلوب میں فرمایا:

’’قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الأَلْبَابِ‘‘

یعنی فرما دیجئے: کہ کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے، سب برابر ہو سکتے ہیں؟ بس نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔

اس آیت کریمہ سے یہ بات بخوبی ظاہر ہو گئی کہ ہر وہ سماج اور معاشرہ جو علم وتحقیق سے عاری ہو گا، وہ دنیوی اعتبار سے تو پستی کا شکار ہوگا ہی، علاوہ اس کے وہ عند اللہ بھی اپنا مقام ومرتبہ اور وقار واہمیت کھو دے گا۔ لہذا کسی بھی سماج کا علم وتحقیق سے عاری ہونا اور تعلیم وتعلم اور تحقیق کے میدان سے بے گانگی ظاہر کرنا بالیقین کسی بڑے المیہ سے کم نہیں۔

ہمیں ایک دوسرا پہلو بھی نظر میں رکھنا چاہیے اور وہ یہ کہ معاشرے کا علم وتحقیق سے بیزار اور بے گانہ ہونا، قربِ قیامت کی علامات میں سے بھی ہے۔ اس اعتبار سے تعلیم وتحقیق سے بے گانگی ایک بڑا سماجی المیہ قرار پائے گا۔

صحیح بخاری ومسلم کی ایک متفق علیہ روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ بين يَدَيْ السَّاعَةِ لأيَّامًا يَنْزِلُ فيها الْجَهْلُ وَيُرْفَعُ فيها الْعِلْمُ۔

(أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الفتن، باب: ظهور الفتن، 6: 2590، الرقم:6653)

یعنی قیامت کے قریب ایسے ایام بھی آئیں گے جب معاشرے میں جہالت اتر آئے گی اور وہاں سے علم، تعلیم وتعلم کو اٹھا لیا جائے گا۔

اس حدیث کی رو سے سماج سے علم وتحقیق کا اٹھا لیا جانا، قربِ قیامت کی دلیل ٹھہرا، جو کہ ہر ذی شعور کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس باب میں جو روایت آئی ہے، وہاں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں:

أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَثْبُتَ الْجَهْلُ۔

(خرجه البخاري في الصحيح، كتاب العلم، باب: رفع العلم وظهور الجهل، 1: 43، الرقم:80)

سماج سے علم کا نور اٹھا لیا جائے گا اور وہاں بسنے والے افراد میں جہالت ثبت ہو جائے گی۔

معلوم ہوا کہ معاشرے سے علم کا اٹھا لیا جانا اور جہالت کی کثرت کا ہوجانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ قربِ قیامت معاشرے سے تعلیم وتحقیق سے بےگانگی اور لاتعلقی بکثرت نظر آئے گی۔

تعلیم وتحقیق سے بے گانگی کے سماجی اثرات

ہمیں یہ بات ہرگز ذہن سے نہیں نکالنی چاہیے کہ جس معاشرے میں بھی علم، تعلیم وتعلم اور تحقیق کے دروازے بند ہو جائیں گے وہ معاشرہ یقینی اور لازمی طور پر کئی طرح کے فسادات کا شکار ہو جائے گا۔ ایسے معاشرے سے علم تو رفع ہو گا ہی، اس کے ساتھ ساتھ وہاں فکری پستی، اعتقادی بے راہروی، احکامِ شریعت سے ناواقفیت اور طرح طرح کے جرائم کا ارتکاب ہو گا۔ ایسا معاشرہ عدمِ برداشت کا شکار ہو جانے کے ساتھ ساتھ بہت سی ایسی اخلاقی بیماریوں کا شکار ہو جائے گا جو یقینا اس کے زوال کا سبب بنیں گی۔ یوں تو تعلیم وتحقیق سے بے گانگی کے بہت سے مضرات واثرات ہیں، مگر ہم یہاں چیدہ چیدہ اثرات کا ذکر کرتے ہیں:

(1) جہالت کا غلبہ

جو معاشرہ تعلیم وتحقیق سے بے رخی دکھائے گا، وہاں جہالت راج کرے گی۔ لوگ جہلاء کے طبقے کو اعلی مناصب اور سیادت دیں گے۔ ایک حدیث پاک میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن اللهَ لا يقبضُ العلمَ انتزاعا يَنتزعه من العباد، ولكن يقبضُ العلمَ بقبضِ العلماءِ حتى إذا لم يُبْقِ عَالمًا اتخذَ النَّاسُ رؤوسًا جُهَّالا، فسُئلوا، فأفتَوا بغير عِلم، فضَلُّوا وأَضَلُّوا۔

(أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب العلم، باب: كيف يقبض العلم، 1: 50، الرقم:100)

بے شک اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں کے سینوں سے یکایک نکال کر نہیں اٹھاتے، بلکہ علم کو علماء کے اٹھائے جانے کے ذریعے اٹھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے۔ ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، نتیجتا خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔

لہذا ہم بڑے وثوق سے یہ بات کہ سکتے ہیں کہ معاشرے کو علم وتحقیق سے عاری کرنا، جہالت کے سپرد کرنا ہے، جو یقینا ایک بڑا المیہ ہے۔ امام بدر الدین عینی صحیح بخاری کی معروف شرح عمدۃ القاری میں اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا:

وقد وُجد ذلكَ في زماننا؛ كما أخبرَ به عليه الصَّلاة والسَّلام

یہ بات ہمارے زمانے میں ویسی ہی پائی جاتی ہے، جیسا کہ نبی ﷺ نے خبر دی تھی۔

پھر فرمایا: شیخ قطب الدین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

قلت: هذا قوله مع توفُّر العلماء في زمانه، فكيف بزماننا

میں کہتا ہوں کہ امام قاضی عیاض نے یہ بات اپنے زمانے میں کہی تھی، جب کہ اُس وقت بھی بڑی تعداد میں علماء موجود تھے۔ پھر ہمارے زمانے کا کیا حال ہوگا؟

امام عینی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:

هذا قولُه معَ كثرةِ الفقهاء والعُلماء مِن المذاهبِ الأربعَة والمحدِّثين الكبار في زمانه، فكيفَ بزماننا الّذي خَلَتِ البلادُ عنهم، وتصدَّرتِ الجُهّالُ بالإفتاء، والتَّعيُّنِ في المجالس، والتَّدريس في المَدارس؟ فنسأل السَّلامة والعَافية۔

یہ بات انہوں نے اس وقت کہی تھی جبکہ ان کے زمانے میں مذاہب اربعۃ کے بڑے فقہاء اور نامور محدثین موجود تھے۔ پھر ہمارے اس زمانے کا کیا حال ہوگا جب شہروں سے ایسے علماء ختم ہو چکے ہیں اور جاہل لوگ فتویٰ دینے، مجالس میں سربراہ بننے اور مدارس میں تدریس کے مناصب پر فائز ہو نے لگے ہیں؟ ہم اللہ سے سلامتی اور عافیت کی دعا کرتے ہیں۔

(2) محرمات کا ارتکاب

جس معاشرے میں علم وتحقیق سے بے اعتنائی برتی جائے گی وہاں نتیجتاً جہالت پھیلے گی، اور جہالت کا نتیجہ محرمات کے ارتکاب کی صورت میں ہو گا۔ علمی جہالت، رویوں کی جہالت میں بدلے گی اور نتیجتا لوگ بڑے بڑے شرعی جرائم کے مرتکب ہوں گے، حلال وحرام میں حدِ فاصل نہ رہے گی۔ لوگ حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیں گے۔ سچ کی جگہ جھوٹ لے لے گا۔ لوگ جھوٹی گواہیاں دیں گے۔ ایسے شنیع شرعی جرائم کا معاشرے میں راج ہونے کے سبب لوگ عبادت کریں گے، مگر وہ پراثر نہ ہو گی، لوگ دعائیں کریں گے، مگر قبول نہ ہوں گی۔

تعلیم و تعلم اور تحقیق سے بے گانگی کے وہ اثرات جو براہ راست معاشرے اور سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے، ان میں محرمات کا ارتکاب سر فہرست ہے، اسی کے سبب لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔

ایسے شخص کے عمل کی بھی اللہ کو چنداں حاجت نہیں رہتی، ظاہری سی بات ہے، جب تعلیم وتعلم اور بحث وتحقیق ہی معاشرے میں نہ رہی، اور علم کے ثمرات معاشرے میں بسنے والے افراد کے مزاج، طبائع اور رویوں کو سیراب نہ کر سکے تو محض ظاہری دکھلاوے کے عمل کی اللہ کو بھلا کیا حاجت؟ اسی لیے ایک حدیث پاک میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ لَم يَدَعْ قَولَ الزُّور والعَمَلَ به، والجَهْل، فليس لله حَاجةٌ أن يَدعَ طعَامه وشَرابه۔

(أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الأدب، باب: (قول الله تعالى) واجتنبوا قول الزور، 5: 2251، الرقم: 5710)

سماج کا کوئی فرد اگر جھوٹ بولنا نہ چھوڑے، جھوٹ پر عمل نہ چھوڑے، جہالت ترک نہ کرے، تو اللہ کو حاجت نہیں کہ وہ اس کا نام لے کر کھانا پینا چھوڑ رکھے۔

اہل علم فرماتے ہیں کہ یہاں جس جہالت کے ترک کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اس میں جہالت کی جملہ صورتیں شامل ہیں۔ لہذا جملہ صفاتِ جہل، احوالِ جہل اور جملہ معاصی کا ارتکاب عمل بالجہل ہی کے ذیل میں ہے جس کو ترک کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ اپنی امت کو تعلیم دینے کی غرض سے، اپنی دعا میں جہل اور اس کی جملہ صورتوں سے پناہ طلب فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث مبارک میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں:

مَا خَرج النبيُّ ﷺ من بَيتي قط، إلّا رفع طرَفَه إلى السّماء فقالَ: اَللّهم، إنّي أعوذُ بكَ أن أّضِلَّ أو أُضَل، أو أَزِلَّ أو أُزَل، أو أَظْلِم أو أُظْلَم، أو أَجْهَل أو يُجْهَل عَلَيَّ۔

(أخرجه ابو داؤد في الصحيح، كتاب الأدب، باب: باب ما جاء فيمن دخل بيته ما يقول، 4: 325، الرقم: 5094)

نبی اکرم ﷺ جب کبھی بھی میرے گھر سے باہر تشریف لے جاتے، آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے، اور یہ دعا پڑھتے: اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ میں خود گمراہ ہو جاؤں یا کسی کو گمراہ کروں، میں خود لغزش کروں یا مجھے لغزش پر ڈالا جائے، میں خود ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے، میں خود جہالت کروں یا مجھ پر جہالت کی جائے۔

علامہ مناوی فیض القدیر میں فرماتے ہیں:

أو أَجهلَ أو يُجهلَ عَليَّ، أي: أفعل بالناس فعل الجهَّال من الإيذاء والإضلال۔

حضور اکرم ﷺ نے یہ جو ارشاد فرمایا:’’أو أَجهلَ أو يُجهلَ عَليَّ‘‘، اس سے مراد ہے کہ یا میں خود جاہلوں جیسا برتاؤ کروں (جیسے تکلیف دینا یا گمراہ کرنا)، یا لوگ مجھ سے جاہلانہ سلوک کریں (یعنی مجھے ضرر پہنچائیں یا گمراہ کرنے کی کوشش کریں)۔

نیز فرمایا:’’ويُحتمل أن يُراد بقوله: أجهل أو يُجهل عليّ؛ الحالُ الذي كانتِ العربُ عليها قبلَ الإسلام منَ الجَهل بالشرائع والتّفاخُر بالأنساب، والتّعاظُم بالأحسابِ والكِبرياءِ والبَغيِ ونحوها ‘‘

اور یہ بات بھی ممکن ہے کہ آپﷺ کے فرمان: ’’أجهل أو يجهل علي‘‘ سے مراد وہ حالت ہو جس پر عرب اسلام سے پہلے تھے، یعنی شرعی احکام سے ناواقفیت، نسب پر فخر کرنا، خاندانی حسب و نسب پر تکبر، غرور و تکبر، ظلم و زیادتی اور اسی قسم کی دیگر جاہلیت کی صفات۔

لہذا، جس سماج کو علم وتحقیق خیر باد کہہ دے اور وہاں سے رخصت ہو جائے، ایسے معاشرے میں جہل اپنی جملہ صورتوں کے ساتھ راج کرتا ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں، ایک حدیث جس میں جہل کے بکثرت پھیل جانے کا ذکر ہے، اس پر کلام فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’أن هذَا النوع مِن الجَهل هُو: الجَهل الصّرف، الّذي يستحكم في الأمة، فيُلازم نزولَه كثرةَ الفتن والاختلاف والقتل‘‘

اس قسم کے جہل سے مراد خالص جہالت ہے جو امت میں اس قدر پھیل جاتی ہے کہ اس کے نتیجے میں فتنوں، اختلافات اور قتل و غارت گری میں شدت آجاتی ہے۔

قارئین محترم! معاشرے میں علم وتحقیق سے بے اعتنائی برتنے کے مضرات کیا کیا ہیں؟ انفرادی ظاہری وباطنی امراض سے لے کر عائلی وخاندانی مسائل تک، سماجی ومعاشرتی مصائب سے لے کر، قومی وبین الاقوامی مشکلات تک، ہر مرحلۂ حیات میں اس کے اثرات دکھائی دیں گے۔ مستزاد یہ کہ علم وتحقیق سے یہ بے گانگی، نہ صرف فکر ونظر اور اعتقاد کو گرد آلود کرتی ہے بلکہ اخلاقی وروحانی اقدار کا بھی جنازہ اسی سبب نکلتا دکھائی دیتا ہے۔

اس باب میں کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ جو کچھ بھی کہا یا لکھا گیا، اس کا مآل ومنتہی ایک ہی ہے، اور وہ یہ کہ تعلیم و تحقیق سے دوری ایک سماجی المیہ ہے۔ جس سے معاشرہ سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہیں کرتا۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو علم اور تحقیق کی طرف راغب کرنا ہوگا، تب ہی ہم ایک مستحکم اور ترقی یافتہ معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالی کے حضور دعا ہے کہ وہ ہمیں علم وتحقیق سے منسلک رکھے اور اس کے جملہ تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس پر حقیقی معنی میں عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔