راہِ حق میں اللہ اور اس کے رسول کی خاطر جان دینے والے تمام شھدائے اسلام بالخصوص شہدائے کربلا نے اپنی زندگیوں کے چراغ بجھاکر اسلام کے چراغ کو روشن کیا ہے۔ اپنی جان اسلام کی خاطر دے کر قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو جینے کا سلیقہ سکھادیا ہے۔ عام قتل انسان کو موت دیتا ہے مگر شہید کا قتل اس کو حیاتِ ابدی دیتا ہے۔ قرآن حکیم شہادت کو موت کہنے سے سختی سے منع کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
(البقرہ: 154)
’’ اور جو لوگ ﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔ ‘‘
گویا شہادت ایسی حیات ہے جو ہمارے احاطہ ادراک میں نہیں آسکتی اور اگر ہم اسے عقل کے پیمانے سے سمجھنا بھی چاہیں تو ہرگز سمجھ نہیں سکتے۔ شہدائے اسلام اور شہدائے کربلا نے اپنے وجودوں سے ہزاروں وجودوں کو روشن کیا ہے۔ ہزاروں بجھے ہوئے چراغوں کو منور و تاباں کیا ہے۔ انھوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کیا ہے اور اسلام کو قوتِ دائمی دے کر اس کے چراغ کو ہمیشہ کے لیے روشن کردیا ہے۔ شہید چونکہ امت و قوم کے لیے حیاتِ نو بنتا ہے، اس وجہ سے جونہی اس کےخون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے تو :
یغفر لہ فی اول دفعۃ من دمۃ
پہلے قطرہ خون کے گرنے کے ساتھ ہی اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الجہاد، باب فی الفضل الشہادۃ فی سبیل اللہ، الرقم الحدیث: 2799)
اوائل اسلام سے لے کر آج تک اسلام میں بڑی بڑی شہادتیں ہوئی ہیں مگر ہر دور اور ہر زمانے میں جو مقام، مرتبہ اور جو قبولیت و مقبولیت عنداللہ اور عندالناس شہادتِ امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کو حاصل ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ یہ اہلِ بیتِ اطہار علیہ السلام کے مقدس نفوس کی شہادت تھی۔
قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے یہ حکم دیا کہ اپنی امت کو اہلِ بیتِ اطہار علیہ السلامسے محبت و مؤدت کرنے کی تلقین فرمائیں۔ ارشاد فرمایا:
قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی
’’ فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور ﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)۔ ‘‘
(الشوریٰ،42: 23)
رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت سے ابلاغِ دین، تعلیماتِ اسلام اور عرفانِ توحید دینے کے عوض میں صرف اور صرف اپنی قرابت اور اپنی ذریت کی محبت کا تقاضا کیا ہے کہ میری قرابت اور میری ذریت کے حقوق کی پاسداری کرنا، ان کی عزت و تکریم کا خاص خیال کرنا، ان سے محبت و چاہت اور انس و مؤدت کا تعلق قائم کرنا۔ اس لیے کہ ان سے محبت مجھ سے محبت ہے اور ان سے بغض مجھ سے بغض ہے۔
شانِ اہلِ بیت اطہار: احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل بیت علیہ السلام کی بابت اپنی امت کو یاددہانی کرائی ہے کہ ان کے حقوق کا خیال و پاس رکھنا اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کے حوالے سے اللہ سے ڈرتے رہنا۔ ارشاد فرمایا:
اذکرکم اللہ فی اھل بیتی، اذکرکم اللہ فی اھل بیتی، اذکرکم اللہ فی اھل بیتی
(مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب، 3: 1873، رقم: 2408)
میں تمھیں اپنی اہلِ بیت کے حوالے سے اللہ یاد دلاتا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ کی اپنی قرابت اور اپنے اہل بیت سے محبت کا اندازہ آپ ﷺ سے مروی احادیث اور آپ ﷺ کی دعاؤں سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ آپ ﷺ نے حسنین کریمین علیہ السلام سے نہ صرف اپنی محبت کا اظہار کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی درخواست کی کہ تو بھی ان سے محبت کر۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں آپ ﷺ کی یہ دعا ہمیں محبتِ اہلِ بیت اطہار علیہ السلام کی محبت کی طرف متوجہ کرتی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
اللھم انی احبھما فاحبھما واحب من یحبھما.
(ترمذی، جامع الصحیح، 5: 656، ابواب المناقب، رقم: 3769)
اے اللہ میں ان دونوں (حسن و حسین) سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر اور ان سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت کر۔
پھر فرمایا:
من ابغضھما او بغی علیھما ابغضتہ، ومن ابغضتہ، ابغضہ اللہ.
(طبرانی، المعجم الکبیر، 3: 50، رقم: 2655)
جس نے ان سے بغض رکھا یا ان سے بغاوت کی وہ میرے ہاں مبغوض ہوا اور جو میرے ہاں مبغوض ہوا وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوگیا۔
ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من احب الحسن والحسین فقد احبنی ومن ابغضھما فقد ابغضنی.
(سنن ابن ماجہ،کتاب فی فضائل اصحاب رسول اللہ ﷺ ، باب فضل الحسن والحسین،رقم الحدیث: 143)
جس نے حسن اور حسین سے محبت کی اس نے درحقیقت مجھ سے ہی محبت کی اور جس نے حسن و حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ سے ہی بغض رکھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے اہل بیت سے بار بار حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ ایک مقام پر فرمایا کہ میں اپنے بعد تمھارے اندر دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں۔ ان کے حقوق کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور ان سے ہر حال میں حسنِ سلوک اختیار کرتے رہنا۔زید بن ارقم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إني تارك فيكم الثقلين: اولهما كتاب الله فيه الهدى والنور، فتمسكوا بكتاب الله، وخذوا به فحث عليه ورغب فيه، ثم قال: واهل بيتي، اذكركم الله في اهل بيتي، ثلاث مرات.
(سنن دارمی،كتاب فضائل القرآن، باب فَضْلِ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ، رقم الحدیث: 3348)
میں تمہارے پاس دو بڑی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، پہلی تو اللہ کی کتاب، اس میں ہدایت ہے اور نور ہے، پس تم اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اسے مضبوطی سے پکڑے رہو،“ غرض آپ ﷺ نے کتاب اللہ کی طرف ابھارا اور رغبت دلائی پھر فرمایا: ”اور میرے اہل بیت، میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں“، آپ ﷺ نے تین بار یہ فرمایا۔
دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي، احدهما اعظم من الآخر، كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الارض، وعترتي اهل بيتي، ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض، فانظروا كيف تخلفوني فيهما
(سنن ترمذي،كتاب المناقب عن رسول الله ﷺ ،باب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ ﷺ ،رقم الحدیث: 3788)
میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے، اللہ کی کتاب گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری ’’عترت‘‘ یعنی میرے اہل بیت ہیں۔ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کر رہے ہو۔“
اس حدیث مبارک میں فانظروا کیف تخلفونی فیھما (سو تم دیکھو میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو) کے کلمات امت کے لیے انتہائی قابلِ توجہ ہیں۔ پس اس فرمانِ رسول ﷺ کے تناظر میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارا تعلق اہلِ بیت اطہار علیہ السلام سے الا المودۃ فی القربی کے میزان پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔۔۔؟ کیا ہم اہل بیت سے محبت و مودت کا تعلق رکھنے والے ہیں یا بغض و عناد کا تعلق رکھنے والے ہیں۔۔۔؟
یزیدی دورِ حکومت
حضرت امام حسین علیہ السلام اور کربلا میں خانوادہ نبوت کے ساتھ کربناک سلوک براہ راست رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینے کی سزا قرآن مجید نے دنیا و آخرت کی لعنت اور عذاب مھین بیان کی ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا
(الاحزاب، 33: 57)
’’بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لئے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
جس طرح رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے،اس طرح ہر وہ عمل جو رسول اللہ ﷺ کے لیے اذیت کا باعث ہے، وہ اللہ رب العزت کو اذیت دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی اہلِ بیت کو اذیت دینا، آپ ﷺ کی ذات کو اذیت دینا ہے۔
واقعہ کربلا یزیدی لشکر کی طرف سے بغضِ اہلِ بیت اور عداوتِ اہلِ بیت کی صریح عملی مثال ہے جو ارض کربلا پر ثبت ہوچکی ہے۔ یزید 60 ہجری میں تخت نشین ہوا۔ اس کے دورِ حکومت میں دین میں فساد آیا، احوالِ امت میں بگاڑ آیا اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ضائع کیے گئے اور ہر طرف شر و فساد بپا ہوگیا۔ اوباش اور عیاش لونڈے جو حکمت و دانش اور فکرو تدبر سے محروم تھے، وہ معاملاتِ سلطنت کو سنبھالے ہوئے تھے۔ تمام تجربہ کار اور پختہ عمر کے افراد کو عہدوں سے معزول کردیا گیا۔تخت پر بیٹھتے ہی اپنی حکومت و سلطنت کو مضبوط کرنے کے لیے یزید نے تمام اکابر و اصاغر کو اپنی بیعت پر مجبور کیا۔ اس کی چار سالہ حکومت ظلم و فساد کا آئینہ دار تھی۔
معروف تابعی حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یزید بن معاویہ کی حکومت امت پر نحوست تھی۔ پہلے سال اس نے حضرت امام حسین اور رسول اللہ ﷺ کے خانوادے کو شہید کیا۔
دوسرے سال رسول اللہ ﷺ کے حرم پاک کو مباح کیا اور مدینہ منورہ کی سخت بے حرمتی کی اور تیسرے سال بیت اللہ کی بے حرمتی کی اور وہاں خون بہایا اور کعبۃ اللہ کو جلایا۔
(ابن کثیر، البدایہ والنھایۃ، 8: 221)
مقام و کردارِ حسین علیہ السلام
دس محرم الحرام کا دن اہلِ ایمان کے سامنے دو کردار رکھتا ہے: ایک کردار اسلام کی تعلیمات پر مبنی حق پرستانہ ہے جبکہ دوسرا کردار اسلام کی تعلیمات کے نام پر منافقانہ، فاسقانہ اور ظالمانہ ہے۔ تاریخ نے ایک کردار کو حسینی کردار کا نام دیا ہے اور دوسرے کردار کو یزیدی کردار کا نام دیا ہے۔ ان دونوں کرداروں کا ماضی تاریخ اسلام ہمارے سامنے یوں رکھتی ہے:
حسین علیہ السلام وہ ہیں جو: فجعل یتوثب علی ظھر النبی .
(ابن حبان، الصحیح، 15: 142، رقم: 6742)
رسول اللہ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہوکر کھیلتے ہیں۔
حسین علیہ السلام وہ ہیں جو : وجعل النبی ﷺ یتلثمہ ویقبلہ ۔
(ابن حبان، الصحیح، 15: 142، رقم: 6742)
جن کے چہرے اور ہونٹوں پر لب رسول مس ہوتے تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کو چومتے تھے۔
وہ حسین علیہ السلام جن کی شہادت کی خبر فرشتوں نے رسول اللہ ﷺ کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے بچپن میں دے دی تھی:
لقد أتاني جبرائيل يخبرني أن ابني حسين يقتل.
(سُنن الترمذی،باب فی مناقب الحسين، حديث نمبر 3773)
’’ جبرائیل نے آکر مجھے بتایا کہ میرا بیٹا حسین قتل کیا جائے گا۔‘‘
وہ حسین علیہ السلام جن کو باری تعالیٰ نے فضیلت وشرف کی نشانی بنایا تھا۔۔۔جو یزیدی تیروں، نیزوں اور تلواروں کے سامنے اپنا سینہ تان کر کھڑے رہے۔۔۔ جنھوں نے دشتِ کربلا میں اپنے بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں اور اپنے سارے خانوادہ نبوت کی قربانی دی۔۔۔ جنھوں نے دینِ اسلام کی تعلیمات اور پیغمبرِ اسلام کی تربیت کا حق کربلا میں ادا کردیا۔۔۔جنھوں نے مدینہ منورہ کی حرمت کی خاطر شہر نبی کو حزین اور غمگین دل کے ساتھ چھوڑا تو اپنے نانا کی بارگاہ میں الوداعی سلام کرتے ہوئے زبانِ حال سے یوں عرض کیا:
تیرے قدموں سے دنیا اب مجھے دور کرتی ہے
کسی فاسق کی بیعت پر مجھے مجبور کرتی ہے
وہ حسین علیہ السلام جنھوں نے کربلا میں سارے خاندان کی جانثاری کے بعد وقتِ شہادت ایسا سجدہ کیا جس پر ساری خلق کو رشک ہے۔۔۔ وہ حسین جو راکب دوشِ مصطفی ہے۔۔۔ جو پروردہ آغوشِ بتول ہے۔۔۔ جو نقطہ و مرکز محبتِ علی شیر خدا ہے۔۔۔ جو کربلا کے ریگستان میں اتمامِ حجت کے لیے کھڑا رہا کہ تم نے اسلام کی خاطر بلایا تھا، اس لیے میں آیا ہوں اور جس نے ان کو زبانِ حال سے للکار کر کہا اگر تم اپنے وعدے سے پھرگئے ہو تو کیا ہوا:
تمھاری تیغ سے ڈر کر عظمتِ قرآن نہیں دوں گا
میں اپنی جان دے دوں گا مگر ایمان نہیں دوں گا
وہ حسین علیہ السلام جن کے لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حسین منی، حسین مجھ سے ہے۔۔۔ جن کے لیے آپ ﷺ نے انا من حسین اس لیے کہا کہ واقعہ کربلا کے بعد قیامت تک رسول اللہ ﷺ کے کردار اور اسوہ کی پہچان حسین علیہ السلام سے ہے۔
یزید لعین کا کردار
دوسری طرف امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام کے مقابل یزید ہے۔ وہ یزید جو حسین علیہ السلام کے مقابل وصفِ صحابیت، نسبتِ نبوت، تربیتِ رسول اور آغوشِ رسالت نہیں رکھتا۔ وہ پیغمبرِ اسلام اور تعلیماتِ اسلام کو حسین علیہ السلام کے مقابل کیا جان سکتا ہے۔۔۔؟ اس لیے کہ یزید فساد فی الدین اور احوال امت کو بدلنے کا نام تھا۔
رسول اللہ ﷺ کے قول کے مطابق یزید وہ تھا:
اول من یبدل سنتی من بنی امیۃ رجل یقال لہ یزید.
(العسقلانی، فتح الباری، 1: 216، رقم: 120)
سب سے پہلا شخص جو میری سنت کو تبدیل کرے گا وہ بنو امیہ کا ایک شخص ہوگا جس کا نام یزید ہوگا۔
ó یزید وہ تھا کہ جس کی امارت و حکومت سے صحابہ کرامl پناہ مانگتے تھے:
اعوذ باللہ من راس الستین وامارۃ الصبیان.
(عسقلانی، فتح الباری، 13: 10)
یزید وہ تھا جو اپنی حکومت کی خواہش اور طلب میں اپنے مخالفین کو قتل کرتا تھا: انھم یھلکون الناس بسبب طلبھم التملک
(بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، 3: 1319، رقم: 3410)
یزید وہ تھا کہ جس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی کردی تھی: ھلکۃ امتی علی یدی غلمۃ من قریش
میری امت کی بربادی قریش کے چند نوعمر اوباش لڑکوں کے ہاتھوں پر ہوگی۔
(صحیح بخاری، کتاب الفتن، رقم: 7058)
یزید وہ تھا جس نے اپنی امارت اور حکومت کی مضبوطی کے لیے اسلام کے نام پر جبری بیعت کا سب سے پہلے آغاز کیا تھا اور بیعت بالجبر کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا:
فخذ حسینا و عبداللہ بن عمر و عبداللہ بن الزبیر بالبیعۃ اخذا شدیدا، لیست فیہ رخصۃ حتی یبایعوا۔
(ابن حجر الہیتمی، الصواعق المحرقہ، 2: 641)
امام حسین، حضرت عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر کو کڑی حراست میں لے لو اور حکم کی تعمیل میں کسی قسم کی نرمی نہ برتو، یہاں تک کہ وہ میری بیعت کرلیں۔
یزید وہ تھا کہ جس نے عترتِ رسول اور خانوادۂ نبوت کو قتل کیا اور گلشنِ نبوت کو مسمار کیا۔
یزید وہ تھا کہ جس کے بارے میں دنیا یہ کہتی تھی کہ
کان فظاً غلیظاً، کان جلفاً و ظالماً، کان یتناول المسکر، کان یفعل المنکر.
(ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 5: 83)
جو انتہائی ترش رو اور بداخلاق تھا۔ بہت بڑا ظالم تھا۔ شراب پیتا تھا اور ہر طرح کے برے اعمال سرانجام دیتا تھا۔
یزید وہ تھا کہ جس کی حکومت کا آغاز قتلِ حسین سے ہوا تھا اور جس نے حرمین پاک کے تقدس کوبری طرح پامال کیا۔جس کی حکومت کا اختتام واقعہ حرہ یعنی مدینۃ النبی کی بے حرمتی و پامالی اور بیت اللہ پر منجنیق کے ذریعے حملوں سے ہوا۔
یزید وہ تھا جو سرعام شراب پیتا تھا اور محرمات کے ساتھ نکاح کرتا تھا اور اعلانیہ نماز کا تارک تھا۔
ویشرب الخمر، ینکح الامھات والبنات والاخوات و یدع الصلاۃ.
(یعقوبی، التاریخ، 2: 253)
یزید تاریخ اسلام میں وہ پہلا حکمران و بادشاہ تھا جو رعایا کو اپنا غلام سمجھتا تھا۔ واقعہ حرہ میں اس نے اہل مدینہ سے اپنا غلام بننے پر بیعت لی تھی:
یبایعوہ لیزید علی انکم عبید لہ ان شاء باعکم وان شاء اعتقکم
(ابن الجوزی، تذکرۃ الخواص، ص 259)
یزید کی اس طرح بیعت کرو کہ تم اس کے غلام ہو، وہ چاہے تو تمھیں بیچ دے اور چاہے تو تمھیں آزاد کردے اور جو اس کی بیعت کا انکار کرتا اس کا سر تن سے جدا کردیا جاتا۔
یزید وہ تھا کہ یعلقب بالطنابیر والکلاب والقرود
(ابن الجوزی، تذکرہ الخواص، ص 259)
جو عیش و عشرت کی محفلیں سجاتا تھا، کتوں اور بندروں سے کھیلتا تھا۔
یزید وہ تھا جو اولاد انبیاء کو قتل کرنے والا تھا:
ویقتل اولاد النبیین.
(المسعودی، مروج الذھب، 3: 63)
یزید کربلا میں اہلِ بیتِ اطہار کا خون بہانے والا تھا۔۔۔اسی کے حکم سے خانوادہ نبوت کے سربریدہ وجودوں کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے کچلا گیا۔۔۔ یہی اہل بیت اطہار علیہ السلام کے مقدس مردوں کو نیزوں پر چڑھانے والا تھا۔۔۔ یہی امام حسین علیہ السلام کے کٹے ہوئے سر اور آپ علیہ السلام کے لبوں پر گستاخانہ انداز میں چھڑی مارنے والا تھا۔۔۔ یہی اہل بیت اطہار علیہ السلامکی عفیف و طاہر شہزادیوں کو قیدی بنانے والا تھا۔۔۔ یہی ان کو کوفہ اور دمشق اور شام کے بازاروں میں گھمانے والا تھا۔۔۔ یہی امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے لاغر جسم کو رسیوں اور بیڑیوں کے ذریعے جکڑنے والا تھا۔۔۔ یہی امام حسین علیہ السلام کو سر بریدہ دیکھ کر اظہار فرحت و مسرت کرنے والا اور رجزیہ اشعار پڑھ کر غزوہ بدر کا بدلہ لینے کا اظہار کرنے والا تھا۔ یزید اسلام کی مقدس پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے۔۔۔ یہ دین کی پاک و صاف چادر پر ایک دھبہ ہے۔۔۔ اس نے شریعت مصطفی ﷺ اور دینِ اسلام کی حدود کو توڑا ہے۔۔۔ اس نے ہر طرف فسق و فجور کو فروغ دیا ہے اور ظلم و ستم کو عام کیا ہے۔
خلاصۂ کلام
یزید دنیا کا بدمست ترین انسان تھا جبکہ حسین علیہ السلام دین کے لیے سرمست ہیں۔۔۔ یزید مجسمہ کفر و طغیان تھا جبکہ حسین علیہ السلام پیکرِ دین و ایمان ہیں۔۔۔ یزید فسق و فجور کا نمائندہ تھا جبکہ حسین علیہ السلام سراپا تسلیم و رضا ہیں۔۔۔ یزید ظلم و ستم کی جیتی جاگتی تصویر تھا جبکہ حسین علیہ السلام اخلاق محمدی کی زندہ تفسیر ہیں۔۔۔ یزید اسلام میں ایک نفسِ شریر تھا جبکہ حسین علیہ السلام اسلام کی چادر تطہیر کے وارث ہیں۔
10 محرم الحرام 61 ہجری کے بعد اسلام نے ہر دور میں دو کردار دیے ہیں: ایک حسینی کردار ہے اور دوسرا یزیدی کردار ہے۔ حسینی کردار عدل و انصاف کا علمبردار ہے جبکہ یزیدی کردار ظلم و ستم کی علامت ہے۔۔۔ حسینی کردار محبت و شفقت سے معمور ہے جبکہ یزیدی کردار نفرت و عداوت سے بھرپور ہے۔۔۔ حسینی کردار ایثار و قربانی کا نام ہے جبکہ یزیدی کردار ہوا و ہوس کا نام ہے۔۔۔حسینی کردار رحم و ترحم کی نشانی ہے جبکہ یزیدی کردار تحکم اور تظلم کا عنوان ہے۔
آج امت مسلمہ کو 10 محرم الحرام کو شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہوئے اپنے کردار کو اسوۂ محمدی اور اسوۂ شبیری سے مزین کرنا ہوگا۔ جس کی طرف اقبال نے یوں اشارہ کیا ہے:
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
خاکِ کربلا سے اپنی زندگی کو باکمال بنانے کے لیے اور زندہ ضمیر انسانوں کی طرح ہمیں آج یہ عہد کرنا ہوگا:
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادیٔ حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول