افراد معاشرہ کے باہمی احترام، رواداری اور تحمل مزاجی کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے آج ہمارا معاشرہ ’’عدم برداشت‘‘ جیسی مہلک سماجی بیماری کا شکار ہے۔ یہ ایک ایسی ذہنی و اخلاقی کیفیت ہے جس میں انسان دوسروں کی رائے، نظریات، عقائد یا طرزِ زندگی کو برداشت کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔اصطلاحا برداشت کا مفہوم کسی منفی یا تکلیف دہ صورتحال میں اپنے غصے اور سخت ردعمل کو قابو میں رکھنا ہے۔ یہ صفت انسان کو طاقت دیتی ہے کہ وہ جوش، اشتعال یا انتقام کے جذبات کے باوجود عفو و درگزر کا مظاہرہ کرے۔
اسلام نے برداشت اور رواداری کو نہ صرف ایک فرد کی اخلاقی بلندی کا پیمانہ قرار دیا بلکہ اسے اجتماعی امن، بھائی چارہ اور خوشحالی کی بنیاد قراردیا۔ قرآن مجید نے برداشت کرنے والوں کی تعریف واضح طور پر کی ہے:
وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ
(آل عمران، 3: 134)
’’اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’طاقتور وہ نہیں جو کُشتی میں دوسروں کو پچھاڑ دے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کو قابو رکھے۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الأدب، بَابُ الحَذَرِ مِنَ الغَضَبِ: 6114)
قرونِ اولیٰ کے اسلامی معاشرے میں اختلاف رائے کوباعث رحمت گردانا جاتا تھا۔ آج کا معاشرہ اس روایت کو بھلا بیٹھا ہے، اور اختلاف کو دشمنی بنا لی ہے۔
عدم برداشت کے اسباب
معاشرتی عدمِ برداشت کے کئی اسباب ہیں جن کی وجہ سے معاشرہ فتنہ و فساد اور بے چینی و بے قراری کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ذیل میں چند اسباب درج کیے جاتے ہیں:
(1) علمی اور فکری ناپختگی اور تربیت کا فقدان
معاشرتی عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ تعلیمی پسماندگی اور علمی اور فکری ناپختگی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام مکالمہ، تحقیق اور تنقیدی شعور کے بجائے رٹنے اور ایک جیسی سوچ پیدا کرنے کا حامل ہے۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں بلکہ شعور پیدا کرنا ہونا چاہئے۔ بلاشبہ علم بہت بڑی نعمت اور انبیاء کرامf کی میراث ہے لیکن جب اس کے تقاضے پورے نہ کیے تو یہ علم انسان کو اللہ عزوجل کا قرب بخشنے کے بجائے بارگاہ خداوندی سے دور بھی کر سکتا ہے۔
تعلیمی اداروں اور گھروں میں تربیت کی کمی عدم برداشت کا سبب بنتی ہے۔جب دانش گاہوں اور گھروں میں بچوں کو رواداری، اختلافِ رائے کا احترام اور برداشت کا سبق نہیں دیا جاتا تو یہی بچے آگے چل کر عدمِ برداشت کے رویوں کو اپناتے ہیں۔
(2) فرقہ واریت
مسالک اور مکاتبِ فکر کے درمیان فکری اختلافات اسلام کی علمی روایت کا حصہ رہے ہیں، لیکن آج انہی اختلافات کو افتراق، گالی اور تکفیر میں بدل دیا گیا ہے۔ امام شاطبیؒ کے مطابق شریعت میں اختلافِ رائے کی گنجائش ہے اور تمام اہلِ علم نے اختلاف کو جائز تسلیم کیا ہے۔
(الموافقات، 5: 66)
مسلکی تعصب، فتوٰی بازی اور دوسرے مکاتبِ فکر کے لیے نفرت انگیز زبان کا استعمال عدمِ برداشت کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔ کچھ مذہبی عناصر بعض اوقات سیاسی یا ذاتی مفاد کے لیے اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں حالانکہ تعلیمات نبوی میں سختی کے بجائے میانہ روی اختیار کرنے کا حکم ہے۔
اہل علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو نفرت کا ذریعہ بنانے کے بجائے علمی تنوع کے طور پر اپنا ئیں۔ ارشاد الہٰی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ
ؕ(الأنعام، 6: 159)
’’بے شک جن لوگوں نے (جدا جدا راہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے (تعلق دار اور ذمہ دار) نہیں ہیں۔‘‘
مسلکی اختلاف کو امت کے بگاڑ کا ذریعہ نہ بنایا جائے، بلکہ حکمت سے اختلاف کو قبول کیا جائے۔
(3) عدالتی نظام کی کمزوری اور سماجی ناانصافی
عدم برداشت کی اسباب میں سے ایک بڑی وجہ عدالتی انصاف کی عدم دستیابی بھی شامل ہے۔ جب افراد کو قانونی راستوں سے حق ملنے کی امید نہ رہے تو وہ غصہ، انتقام اور جذباتی شدت پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَهْلِهَا ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ.
(النساء، 4: 58)
’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و اِنصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کرو۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معروف قول ہے:
’’ریاست کفر پر تو قائم رہ سکتی ہے، مگر ظلم پر نہیں۔‘‘
عدل کی غیر موجودگی نفرت کو بڑھا کر معاشرے میں شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔
اسی طرح معاشرتی عدم برداشت کی ایک بنیادی وجہ سماجی ناانصافی بھی ہے۔ جب تعلیم، انصاف، ملازمت اور عزت صرف اشرافیہ کو میسر ہو تو نچلے طبقے کے دل میں نفرت اور ردعمل جنم لیتا ہے۔
(4) سیاسی مفادات اور گروہی تقسیم
سیاسی وابستگیاں اورمفادات بھی معاشرتی عدم برداشت کا ایک اہم سبب ہے۔سیاسی قائدین کی زبان اور انداز اکثر جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے حامیوں کو نہ صرف برداشت نہیں کیا جاتا بلکہ نفرت اور دشمنی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب سیاسی قیادت الزام تراشی اور تحقیر کا رویہ اپناتی ہے تو عوام میں بھی برداشت کا فقدان بڑھ جاتا ہے۔
(5) سوشل میڈیا کا منفی کردار
عصرِ حاضر میں سوشل میڈیا نے جہاں معلومات کے دروازے کھولے، وہیں الزام تراشی، کردار کشی اور جھوٹی خبروں کے فروغ نے معاشرتی فضا کو زہریلا کر دیا ہے۔ یہاں ہر فرد خود کو سچائی کا ٹھیکیدار سمجھتا ہے اور اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھتا ہے۔ اسلامی اصول تو یہ ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
(الحجرات، 49: 6)
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔ ‘‘
لوگ سوشل میڈیا پر بلا تحقیق ردعمل دیتے ہیں جس سے غیظ و غضب اور عدم برداشت کا کلچر فروغ پار ہا ہے۔ اگرچہ اظہارِ رائے کی اہمیت مسلم ہے مگر بے جا الزام تراشی کسی دور میں بھی قابلِ تحسین نہ رہی بلکہ باعثِ ندامت رہی ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں اخلاقی اصولوں کی عدم موجودگی نے عدم برداشت کو عام کر دیا ہے۔
(6) لسانی و نسلی تعصب و محاذ آرائی
لسانی و نسلی تعصب بھی عدم برداشت کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے حالانکہ قرآن ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے کہ قوموں میں تنوع کا مقصد تعارف ہے، تصادم نہیں:
وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا
(الحجرات، 49: 13)
’’اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔‘‘
اس قرآنی اصول کے برخلاف آج لوگ رنگ، نسل، عقیدہ، فرقہ اور مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے کا رد کر رہے ہیں۔ حضور نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اعلان فرمایا:
’’کسی عربی کو عجمی پر، اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ سے۔‘‘
(مسند احمد، 5: 411، 23536)
(7) خانقاہی نظام کا زوال
برصغیر میں صوفیاء کرام نے صدیوں تک سماجی برداشت کو پروان چڑھایا۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ، داتا گنج بخشؒ اور دیگر اولیاء کرام کی خانقاہیں امن، محبت اور برداشت کے مراکز تھیں۔ امام ابو القاسم قشیریؒ نے أبو سليمان الداراني کا قول نقل کیا ہے کہ:
افضل عمل اپنے نفس کی خواہشات کی مخالفت ہے۔
(الرسالہ القشیریہ، 1: 61)
جب خانقاہی نظام کمزور ہوا تو روحانی برداشت کی ثقافت بھی کمزور پڑ گئی اور پھر اس نے بھی معاشرے میں عدم برداشت کے ماحول کو جنم دینے میں کردار ادا کیا۔
عدم برداشت کے اثرات
معاشرے میں ان وجوہات کے سبب پیدا ہونے والے عدمِ برداشت نے معاشرے کو کن خرابیوں سے دوچارکیا؟ ذیل میں ان اثرات کا جائزہ درج کیا جارہا ہے:
(1) اجتماعی وحدت کی تباہی
آج مسلم معاشروں میں قومیت، زبان، قبیلہ اور رنگ کی بنیاد پر جو تعصب پایا جاتا ہے، وہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ باہمی اعتماد کی جڑوں کو بھی کاٹ دیتا ہے۔ امّت جو ’’جسدِ واحد‘‘ تھی، عدم برداشت کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ گئی۔ پشتون، بلوچ، سندھی، مہاجر، پنجابی جیسے الفاظ کو نفرت یا سیاسی شناخت کی علامت بنا دیا گیا۔ مسجدیں اور مدارس قومیت یا فرقے کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔ملازمتوں کے لئے، تعلیمی اداروں اور سیاسی پلیٹ فارمز پر ’’اپنا بندہ‘‘ تلاش کیا جاتا ہے جو معاشرتی عدم برداشت کا واضح اثر ہے۔
(2) تشدد اور نفرت انگیزی
عدم برداشت ایک ایسا زہر ہے جو معاشرے کو فرقوں، قوموں، زبانوں اور طبقات میں بانٹ دیتا ہے۔ افراد ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور دشمن بن جاتے ہیں۔ نتیجتاً باہمی تعاون، بھائی چارہ اور ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے۔ عدم برداشت کی کیفیت رفتہ رفتہ غصے، لڑائی، گالی گلوچ اور یہاں تک کہ قتل و غارت تک جا پہنچتی ہے۔ مذہبی، لسانی یا نظریاتی اختلاف پر تشدد کے واقعات اسی کی علامت ہیں۔ قرآن نے بار بار اختلاف کو علمی بنیادوں پر سلجھانے کا حکم دیا ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَن
(النحل، 16: 125)
’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو۔‘‘
(3) علمی و فکری جمود
آج معاشرے میں اختلاف رائے کو دشمنی سمجھا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں، سوشل میڈیا اور مساجد میں بھی دوسروں کے نظریات کو برداشت کرنا ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ جب معاشرہ تنقید کو برداشت نہ کرے تو نئی سوچ، تحقیق، مکالمہ اور تخلیق کا عمل رک جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشرے علمی پسماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
(4) ذہنی اضطراب اور عدمِ تحفظ کا احساس
جہاں فرد کو ہر لمحہ یہ خطرہ لاحق ہو کہ اس کی رائے پر حملہ ہوگا، وہاں سکون، امن اور اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور ایک مستقل ذہنی دباؤ معاشرے پر طاری ہو جاتا ہے۔ عدم برداشت کے نتیجے میں مذہبی اور لسانی سانحات اور انسانیت سوز واقعات رونما ہوتے ہیں۔
تدارک کا لائحہ عمل
معاشرتی عدمِ برداشت کے اسباب و اثرات کے اجمالی جائزہ کے بعد آیئے اب اس عدمِ برداشت کے تدارک کے لیے لائحہ عمل پر غور کرتے ہیں جس کو اپنانے سے ہم اس رویہ اور مزاج سے نجات پاسکتے ہیں:
(1) قرآن و سنت کی روشنی میں برداشت کا فروغ
رسول اکرم ﷺ کی سیرت برداشت اور رواداری کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے منافقین، مشرکین اور یہاں تک کہ یہودیوں سے بھی حسنِ سلوک رکھا۔ میثاق مدینہ ایک عملی ماڈل تھا جس میں مختلف قبائل، مذاہب اور ثقافتیں ایک ہی سیاسی اکائی میں پرامن طور پر رہتی تھیں۔ فتح مکہ کے موقع پر جب آپ ﷺ کو بدلہ لینے کا پورا اختیار تھا، تو آپ ﷺ نے ان قرآنی الفاظ کو بیان فرمایا:
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ
(یوسف، 12: 92)
’’آج کے دن تم پر کوئی ملامت (اور گرفت) نہیں ہے۔ ‘‘
اور پھر آپ ﷺ نے اعلان فرمایا:
’’جاؤ، تم سب آزاد ہو!‘‘
(السیرة النبویہ، ابن ہشام)
یہ اس معاشرتی برداشت کی عظیم ترین مثال ہے جو طاقت کے باوجود معاف کرنا سکھاتی ہے۔
عدم برداشت اکثر اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب انسان اپنا نفسیاتی خوف خارجی دشمنوں پر منتقل کرتا ہے۔حدیث نبوی ﷺ میں غصے سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا:
لَا تَغْضَبْ ’’غصہ نہ کرو۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الأدب، بَابُ الحَذَرِ مِنَ الغَضَبِ: 6116)
اللہ تعالیٰ نے صبر، عفو، اور تحمل کو اعلیٰ صفات میں شمار کیا ہے :
وَ الَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىِٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ وَ اِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ یَغْفِرُوْنَۚ
(الشوریٰ، 42: 37)
’’اور جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب انہیں غصّہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں۔ ‘‘
امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں اخلاقِ حسنہ کی چار بنیادی صفات اور اصول بیان کئے ہیں:
1۔حکمت 2۔ شجاعت 3۔ عفت 4۔ عدل
عدل سے مراد انسان کی وہ متوازن باطنی قوت ہے جو غصہ اور خواہش دونوں کو عقل و حکمت کے تابع کر دے۔ یعنی انسان جب اپنے نفس کو قابو میں رکھے، وہی دراصل اخلاق کا اعلیٰ مرتبہ ہے۔
(احياء علوم الدین،3: 54)
(2) نصابِ تعلیم میں برداشت کی تربیت
موجودہ مسلم دنیا میں عدم برداشت کی ایک بڑی جڑ علمی و فکری کمزوری ہے۔ کبھی مسلم معاشرہ کتاب، مکالمہ، اجتہاد اور حکمت کا امام تھا۔ بغداد، قرطبہ، نیشاپور اور دہلی جیسے مراکز علم نے انسانیت کو ہزارہا فکری موتی دیے۔ اسلام کا اصل علمی ماڈل فہم، مکالمہ، غورو فکر اور تحقیق پر قائم ہے۔ آیات بینات سے واضح ہوتا ہے کہ فہم و فکر، سوال و جستجواور تحقیقی رویہ اسلامی علم کا جوہر ہیں۔
مگر آج حال یہ ہے کہ مدارس میں متن کی حفظ پر زور ہے، فکر و تنقید کا فقدان ہے۔ مکاتب فکر کے درمیان علمی مناظرے کی جگہ ذاتی الزام تراشی نے لے لی ہے۔ دلیل سے بات کرنے والے ناپید اور نعرے لگانے والے ہر جگہ موجود ہیں۔اس لیے نصاب تعلیم میں ایسی اصلاحات ضروری ہیں جو محض معلومات نہ دے بلکہ اخلاقی تربیت، تنقیدی سوچ اور رواداری کا شعور بھی دے۔ نصاب میں اختلاف رائے کے ادب، مکالمہ اور سماجی ہم آہنگی کے اسباق کو شامل کیا جائےجو اختلاف کی قبولیت، اور بین المذاہب و بین المسالک احترام کو فروغ دیں۔
(3) بچوں کی تربیت میں شدت سے اجتناب
والدین اور اساتذہ اکثر بچوں کی تربیت میں سختی اور جبر سے کام لیتے ہیں، جس سے بچوں میں بھی عدم برداشت، غصہ اور خود سری پیدا ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’نرمی جس چیز میں ہو، اسے زینت دیتی ہے، اور جس سے نکل جائے، اسے بدصورت کر دیتی ہے۔‘‘
(صحیح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب فضل الرفق: 2594)
گھریلو ماحول کو محبت، صبر اور برداشت کی درسگاہ بنایا جائے۔ والدین بچوں کو سکھائیں کہ دوسروں کے عقائد و آراء کا احترام کیسے کیا جاتا ہے۔
(4) مکالمہ، علمی مجالس اور بین المذاہب و ثقافت ہم آہنگی کا فروغ
علمی و فکری زوال کے نتیجے میں معاشرہ تقلیدی جمود اور ذہنی کاہلی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اپنے ’’مسلک‘‘ یا ’’فرقے‘‘ کے خلاف ہربات گمراہی لگتی ہے۔ علمی اختلاف کو دشمنی اور سوال اٹھانے کو گستاخی سمجھا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین مکالمے کے لیے خصوصی ادارے قائم کیے جائیں جہاں اختلافات کو سمجھنے اور برداشت کی راہ نکالنے کی کوشش ہو۔اختلاف رائے کے احترام اور علمی مباحثے کی فضا پیدا کی جائے، جہاں سوال کو گالی نہ سمجھا جائے۔ جس معاشرے میں علم و آگاہی نہ ہو وہاں عدم برداشت کا کلچر فروغ پاتا ہے اور معاشرہ مٹی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔اہل علم اپنے خطبات اور بیانات میں محبت، رواداری اور وحدتِ امت کا پیغام دیں۔ فرقہ واریت اور تعصب پر مبنی بیانات سے گریز کریں تاکہ نفرت اور تعصب کے بیج نہ بونے پائیں۔
اسلام نے اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کی ہے، مگر آج ان کے خلاف تعصب اور نفرت آمیز رویے معاشرتی بگاڑ کا سبب ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جو کسی معاہد (ذمی) پر ظلم کرے گا، قیامت کے دن میں اس کا وکیل ہوں گا۔‘‘
(ابو داؤد: 3052)
مدینہ منورہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے اوس و خزرج، یہود و نصاریٰ اور مہاجر و انصار کو ایک معاشرتی وحدت میں پرو دیا تھا۔ اسی سیرت کو آج کی مسلم قیادتوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
(5) سوشل میڈیا کی تربیت کا ضابطہ
اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ عوام میں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کا شعور اجاگر کیا جائے۔سوشل میڈیا پر اخلاقیات، تحقیق اور ادب کو فروغ دیا جائے۔ جذباتی اشتعال انگیزی کے بجائے تحمل اور برداشت کو فروغ دیا جائے۔ بے بنیاد الزامات اور نفرت انگیزی پر سختی سے گرفت کی جائے۔
(6) قانونی و عدالتی انصاف و اقدامات کی کلیدی اہمیت
عدالتوں میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ لوگ اپنے حقوق کے لیے قانونی راستے اختیار کریں اور جذباتی انتقام یا غصے سے بچیں۔ عدم برداشت کی بنیاد پر پھیلنے والے جرائم پر فوری، غیر جانبدارانہ اور مؤثر کارروائی ہو تاکہ معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم ہو۔ریاست اگر اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف نہ کرے تو ردعمل کی صورت میں عدم برداشت، احتجاج، بغاوت اور شدت پسندی جنم لیتی ہے۔ قرآن فرماتا ہے:
وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ
(النساء، 4: 58)
’’اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و اِنصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کرو۔‘‘
(7) عالمی اسلامی اتحاد اور امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری
فرقہ واریت، لسانی و نسلی تعصب کی بنا پر عدم برداشت ایسا فکری اور تہذیبی ناسور ہے جس نے امتِ مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اگر ہمیں دوبارہ سیاسی وقار، روحانی بلندی اور عالمی سطح پر اتحاد قائم کرنا ہے، تو سب سے پہلے اپنے دلوں سے تعصبات کو مٹانا ہوگاتاکہ فکری اور سماجی اختلافات کے باوجود یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا سکے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
’’مؤمن کی مثال باہمی محبت، ہمدردی اور شفقت میں ایک جسم کی طرح ہےکہ اگر انسان کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے توسارے جسم کوشب بیداری اور بخار کا احساس ہوتاہے۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم: 2586)
تحریک منہاج القرآن کا عدمِ برداشت کے تدارک میں کردار
تحریک منہاج القرآن ایک بین الأقوامی، مذہبی، تعلیمی اور اصلاحی تحریک ہے، جس نے نہ صرف دین کی حقیقی تعلیمات کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ معاشرتی ہم آہنگی، برداشت اور رواداری کے فروغ میں بھی نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں۔ عدم برداشت اور تعصب کے خاتمے کے لیے تحریک کی علمی، نظریاتی اور عملی کوششیں امت ِمسلمہ اور معاشرہ کے دیگر طبقات کے درمیان امن و محبت کے فروغ کا باعث ہیں۔تحریک منہاج القرآن کے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے بارہا حضور نبی اکرم ﷺ کی حسنِ معاشرت کو اپنی فکر کا بنیادی نکتہ قرار دیا ہے۔
تحریک منہاج القرآن نے مختلف علمی و تعلیمی پروگرامز کے ذریعے معاشرے میں برداشت اور بھائی چارے کی تعلیم کو عام کیا ہے۔ یہ تعلیمی سرگرمیاں معاشرتی تفریق اور تعصب کو ختم کرنے میں موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کی قیادت میں تحریک نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نظریاتی و روحانی اصلاح کو فروغ دیا ہے، ان کی کتابیں، خطبات اور لیکچرز خاص طور پر سماجی عدم برداشت کی وجوہات اور ان کے حل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن عالمی سطح پر مختلف ممالک میں امن و رواداری کے لیے کام کر رہی ہے، جہاں مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے احترام اور محبت کے ساتھ رہ سکیں۔ عالمی امن کے فروغ میں بھی تحریک کا نمایاں کردار ہے۔ تحریک کی تعلیمات اور خدمات نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ غیر مسلموں میں بھی رواداری، برداشت اور امن کا پیغام پہنچاتی ہیں، جو ایک ہم آہنگ، خوشحال اور پُرامن معاشرہ تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔
حاصل بحث
معاشرتی عدم برداشت ایک ایسا رویہ اور مزاج جسے اگر بروقت نہ روکا جائے تو معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ صرف ایک اخلاقی خرابی نہیں، بلکہ قومی وحدت، ترقی اور امن کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ اس کا علاج صرف قانون سازی سے نہیں بلکہ سماجی، اخلاقی اور تعلیمی سطح پر ہمہ جہت جدوجہد سے ممکن ہے۔ ہمیں انفرادی، اجتماعی، تعلیمی، دینی اور قانونی ہر سطح پر اس کے خلاف شعوری جدوجہد کرنی ہوگی۔ اگر ہم برداشت کو اپنائیں، تو نہ صرف ہمارے سماجی تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ بحیثیت قوم ہماری بقا بھی محفوظ رہے گی۔لہذا ضروری ہے کہ
1۔ مذہبی و سیاسی قیادت رواداری کے عملی ماڈل پیش کرے۔ مساجد اور مدارس میں اعتدال پسندی اور باہمی احترام کے موضوعات پر خطبات ہوں۔
2۔ بین المسالک و بین المذاہب مکالمے کو ادارہ جاتی سطح پر فروغ دیا جائے۔
3۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے متعصب رویے سے گریز کریں۔ قانون سازی کے ذریعے منافرت پھیلانے والوں کو سزا دی جائے، اور قانون کا اطلاق ہر طبقے پر یکساں ہو۔
4۔ نصابِ تعلیم میں برداشت، احترامِ اختلاف اور بین المسالک ہم آہنگی کو شامل کیا جائے۔ تعلیم میں تنوع اور مکالمہ کی تربیت دی جائے۔
5۔ سوشل میڈیا کے لئے ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے، جو الزام تراشی اور نفرت انگیزی کو روکے۔
6۔ سیاسی قائدین ایک ضابطۂ اخلاق پر متفق ہوں کہ قومی مفاد کو جماعتی مفاد پر ترجیح دی جائے۔