شانِ اہلِ بیت اطہار علیھم السلام

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ. تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَا ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ.

( ابراہیم، 14: 24، 25)

’’کیا آپ نے نہیں دیکھا، اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی ہے کہ پاکیزہ بات اس پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑ (زمین میں) مضبوط ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں۔ وہ (درخت) اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے، اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ ‘‘

اللہ رب العزت نے ان آیات میں ایک پاکیزہ درخت کی مثال بیان کی۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے کلمۃ طیبۃ پاکیزہ کلام کی مثال جس شجر مبارکہ سے دی ہے اس شجر کے لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا:

أنا شجرة، و فاطمة حملها، و على لقاحها، والحسن والحسين ثمرتها، والمُحِبُّونَ أهل البيت ورقها، من الجَنَّة حقاً حقاً.

(دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 52: 1، رقم : 135)

’’میں درخت ہوں، فاطمہ اُس کی ٹہنی ہے، علی اُس کا شگوفہ ہیں (جس پر پھل لگتے ہیں) اور حسن و حسین اس کا پھل ہیں اور اہلِ بیت سے محبت کرنے والے اُس کے پتے ہیں، یہ سب جنت میں ہوں گے، یہ حق ہے، حق ہے۔ ‘‘

اس حدیث مبارک میں آقا علیہ السلام نے اپنی ذات کو مثلِ درخت قرار دے کر اہلِ بیت اطہار علیہ السلام کی تمام شخصیات اور ان سے محبت کرنے والوں کا تعلق اپنی ذات کے ساتھ جوڑا ہے۔ اس لیے کہ ٹہنی، شگوفہ، پھل اور پتے یہ تمام کے تمام اپنے درخت کی نسبت سے ہی نہ صرف قائم رہتے ہیں بلکہ ان کی پہچان بھی وہی درخت ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ جو ذائقہ، تاثیر، کیفیت اور حلاوت اس درخت کے اندر ہے، اس کی شاخوں میں بھی وہی منتقل ہوگا، اس کی ٹہنیوں میں بھی وہی رس شامل ہوگا، اس درخت کے شگوفوں پر لگنے والے پھولوں سے بھی وہی مہک آئے گی اور جو پھل لگے گا، اس میں بھی اسی درخت کی تاثیر اور حلاوت شامل ہوگی۔ پس اہلِ بیت اطہار علیہ السلام کے مقدس نفوس اور ان سے محبت کرنے والوں کے اندر ان کی اصل یعنی ذاتِ مصطفیﷺ کا رنگ، مہک، اوصاف کی جھلک اور سیرت کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔

آئیے! آقا علیہ السلام کی زبان مبارک سے اپنی ٹہنی، شگوفہ اور پھل کا ذکر سنتے ہیں:

سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا شجرِ مصطفی ﷺ کی ٹہنی ہیں

آقا علیہ السلام نے اپنی ذات کی شکل میں موجود شجر مبارک کی ٹہنی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

فاطمة شجنة منى يبسطنى ما بسطها و يقبضني ما قبضها.

(مسند احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 725:20، رقم: 1347)

’’فاطمہ میری شاخ ثمر بار ہے، اس کی خوشی مجھے خوش کرتی ہے اور اُس کی پریشانی مجھے پریشان کر دیتی ہے۔ ‘‘

حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ نَادَى مُنَادٍ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ: يَا أَهْلَ الْجَمْعِ، غُضُّوا أَبْصَارَكُمْ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ ﷺ حَتَّى تَمُرَّ

(المستدرک علی الصحیحین: 4728)

’’قیامت کے دن ایک منادی حجاب کے پیچھے سے ندا دے گا: اے اہل محشر! اپنی نگاہیں (ادب سے) جھکا لو یہاں تک کہ فاطمہ بنت محمد گزر جائیں۔ ‘‘

سیدہ کائنات فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی صورت میں موجود شجرِ مصطفی کی ٹہنی کی عصمت و طہارت، ادب اور حجاب و حیاء کا عالم یہ ہوگا کہ قیامت کے روز جو فرشتہ اس اعلان کرنے پر معمور ہوگا، وہ بھی سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کے ادب میں اُن کے سامنے ظاہر نہ ہوگا بلکہ پردے کے پیچھے سے اعلان کررہا ہوگا۔ اس حدیث مبارک کے اندر ادبِ بارگاہِ اہلِ بیت اور بارگاہِ سیدہ کائنات کا ادب سکھایا جارہا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ ادب و حیا صرف یہاں نہیں بلکہ اہلِ محشر کو بھی اس ادب و تکریم کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ قیامت کے دن سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کی آمد کے وقت اعلان ہوگا:

یا اھل الجمع نکسوا روسکم وغضوا ابصارکم حتی تمر فاطمۃ بنت محمد ﷺ علی الصراط، فتمر ومعھا سبعون الف جاریۃ من الحور العین کالبرق اللامع

(محب الطبری، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربی، ص:96)

’’اے اہلِ محشر! اپنے سروں کو جھکا لو، اپنی نگاہوں کو نیچا کرلو، سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا گزر رہی ہیں۔ سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کے ساتھ ستر ہزار حورانِ جنت کا ایک قافلہ ہوگا اور آپ سلام اللہ علیہا براق پر سوار ہوکر جارہی ہوں گی۔ ‘‘

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ؛ شگوفۂ شجرِ مصطفی ﷺ

شجر مصطفیٰ کی ٹہنی یعنی سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کی عظمت کا عالم آپﷺ کی زبانِ مبارک سے سننے کے بعد اب آیئے اس درخت پر لگنے والے شگوفے یعنی سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو بھی بزبانِ مصطفیﷺ سنتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے اپنی ذات کی صورت میں موجود درخت پر لگنے والے شگوفہ جس سے پھول نکلتے ہیں، اس کا ذکر کرتے ہوئے کیا ارشاد فرمایا۔

آپﷺ نے فرمایا:

علي مني وانا من علي.

(سنن ترمذی، كتاب المناقب، رقم الحدیث:3719)

”علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔ ‘‘

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

اَلنَّظْرُ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ.

(امام حاکم، مستدرک علی الصحیحین، 3: 152، رقم الحديث:162)

’’علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ ‘‘

حضرت طلیق بن محمد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:

النَّظْرُ إِلَي عَلِيٍّ عِبَادَةٌ.

(طبرانی، المعجم الکبير، 18: 109، رقم الحديث: 164)

’’علی کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ ‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

ذِکْرُ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ.

(ديلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 2: 244، رقم الحديث: 1351)

’’علی کا ذکر بھی عبادت ہے۔ ‘‘

مذکورہ تین روایات میں آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کودیکھنا، آپ کے جسمِ اقدس کو دیکھنا حتی کہ آپ رضی اللہ عنہ کے ذکر کرنے کو بھی عبادت قرار دیا ہے۔

یہ فرمان مصطفیٰ ﷺ صرف ذاتِ علی رضی اللہ عنہ کے لیے مخصوص تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے کسی اور صحابی کے لیے آپ ﷺ نے ایسے کلمات ارشاد نہیں فرمائے۔ ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو تکنا اور آپ رضی اللہ عنہ کے ذکر کو ہی عبادت کیوں قرار دیا؟

اس حوالے سے ذہن اس امر کی جانب جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں یہ تینوں کلمات واقعہ ردِ شمس کے بعد فرمائے ہوں۔ واقعہ ردِ شمس کچھ اس طرح ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے کہ آپ ﷺ کو آرام کرنے کی طلب محسوس ہوئی تو آپ ﷺ نے تھوڑا آرام فرمانا چاہا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو آقا علیہ السلام نے کسی غرض سے کہیں بھیجا ہوا تھا اور ان کی عدم موجودگی میں عصر کی نماز بھی ادا فرمالی تھی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تفویض کردہ کام کرنے کے بعد آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سر رکھا اور آرام فرمانے لگے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ ﷺ نے اتنی دیر آرام فرمایا کہ سورج بھی ڈھل گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک نگا ہ سے غروب ہوتے ہوئے سورج کو دیکھ رہے تھے اور دوسری نگاہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کے چہرہ والضحیٰ کو دیکھ رہے تھے، نمازِ عصر کی قضاء کا غم ستانے لگتا تو فوراً اس کو جھٹک کر اپنے اس اعزاز پر فخر محسوس کرتے کہ سیدالعالم کا سر ان کی گود میں محوِ آرام ہے۔ یہ کوئی عام بات نہیں۔

نمازیں پھر ادا ہوں گر قضا ہوں

نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آج عقیدۂ علی کی آزمائش تھی، اللہ دیکھ رہا تھا کہ آج علی اپنی نمازِ عصر ادا کرنے کے لیے میرے محبوب ﷺ کو بیدار کرتا ہے اور میری نماز کی طرف جاتا ہے یا نمازوں کی نماز کی طرف جاتا ہے۔۔۔ آج علی شمس کو تکتا ہے یا شمس الضحیٰ کو تکتا ہے۔۔۔ آج علی میرے سورج کو دیکھتا ہے یا اس سراج منیر ﷺ کو دیکھتا ہے۔

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ادبِ مصطفی ﷺ کو ترجیح دی اور آپ ﷺ کے آرام کا خیال رکھا اور اپنی نمازِ عصر کا قضا ہونا تو قبول کرلیا مگر آپ ﷺ کے آرام میں خلل پیدا نہ کیا بلکہ اپنی گود میں موجود چہرہ مصطفیٰ ﷺ کو تکتے رہے۔ جب سورج غروب ہوگیا اورعصر کا وقت گزر گیا تو آقا ﷺ کی آنکھ کھلی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: علی! نماز پڑھ لی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔ آقا علیہ السلام سمجھ گئے کہ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے میرے آرام کی خاطر اپنی نمازِ عصر قربان کردی۔ سیدۃ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آقا علیہ السلام نے اپنے دست اقدس اٹھائے اور یوں دعا کرنے لگے:

اللهم إن عبدك عليا احتبس بنفسه على نبيک فرد عليه شَرْقَھَا.

’’اے اللہ! تیرا بندہ علیؓ تیرے نبی کے لیے اپنے آپ کو روک کر بیٹھا رہا، پس اس کے لیے سورج کو واپس لوٹا دے۔ ‘‘

دوسری روایت میں ہے کہ آپﷺ نے یوں دعا فرمائی:

اللهم إن عليا كان في طاعتك وطاعة رسولك فاردد عليه الشمس.

(طبرانی، المعجم الکبیر، ج: 24، ص: 151، رقم: 390)

اے اللہ ! علی تیری اور تیرے مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت و پیروی میں مشغول و مصروف تھا۔ پس اس پر سورج کو واپس پلٹا دے۔ ‘‘

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

فطلعت الشمس حتى وقعت على الجبال وعلى الأرض۔ ثم قام علي، فتوضأ وصلى العصر ثم غابت وذلك فی الصهباء.

(الطحاوی، مشکل الآثٖار، 2: 9)

پھر سورج واپس طلوع ہوا، یہاں تک کہ وہ پہاڑوں اور زمین پر چمکنے لگا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، وضو کیا اور عصر کی نماز ادا کی، پھر سورج دوبارہ غروب ہو گیا۔ یہ واقعہ صہباء کے مقام پر پیش آیا۔

مفسرین بیان کرتے ہیں کہ جب سورج ڈوبتا ہے تو وہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکر شکر ادا کرتا ہے۔ جب زبان مصطفیٰ ﷺ سے نکلا کہ اے اللہ! سورج کو واپس پلٹا دے تو اللہ نے اپنی بارگاہ میں سجدہ ریز سورج کو دعائے مصطفی کے پیشِ نظر واپس پلٹ جانے کا حکم دیا۔

اب ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ جب آپ ﷺ کا سرِ مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس دورانیہ میں کیا کر رہے تھے؟ لازمی بات ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں جب چہرہ مصطفیٰ ﷺ تھا تو اس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ چہرہ مصطفیٰ کو تکتے جارہے تھے اور اس تکنے کے دوران اس خلوت میں آقا علیہ السلام کا تصرف بھی جاری تھا اور آپ ﷺ کا فیض بھی رواں دواں تھا۔ یہ وقت وہ تھا جب خلوت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے تصرف سے اپنا سارا فیض عطا کردیا۔ اپنی نگاہ اس لیے بند کی کہ علی رضی اللہ عنہ عام معمول کے مطابق اپنی نظروں کو جھکائے نہیں بلکہ ٹکٹکی باندھ کر صرف میرے چہرہ اقدس کی طرف دیکھتا رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صفاتِ علی رضی اللہ عنہ صفات نبی ﷺ میں گم ہوگئیں۔۔۔ نگاہِ علی رضی اللہ عنہ نگاہِ مصطفیٰ ﷺ میں کھوگئی۔۔۔ تجلیات علی رضی اللہ عنہ، تجلیاتِ مصطفیٰ ﷺ بن گئیں۔۔۔ حُسنِ علی، حُسنِ مصطفیٰ ﷺ میں ڈھل گیا۔۔۔ کرامتِ علی، کرامتِ مصطفی ﷺ بن گئی۔۔۔ ذکرِ علی، ذکرِ مصطفیٰ ﷺ ہوگیا۔۔۔ اب علی نہیں بلکہ خود مصطفیٰ بولتے تھے۔۔۔ اب علی خود نہیں بلکہ مصطفیٰ نظر آتے تھے۔۔۔ اب فکر مرتضیٰ، فکر مصطفیٰ ہوگئی۔

یہی وجہ ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنا سب کچھ آقا علیہ السلام پر فنا کرچکے تو آقا ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا:

النظر علی وجہ علی العبادۃ۔۔۔ النظر الی علی العبادۃ۔۔۔ الذکر علی العبادۃ.

اب علی رضی اللہ عنہ کو دیکھو تب بھی عبادت ہے، سنو تب بھی عبادت ہے اور علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرو تب بھی عبادت ہے۔

یہ سب اسی فیض کا اثر تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے برملا اعلان کیا:

سلونی، واللہ لاتسالونی عن شیء یکون الی یوم القیامة الا اخبرتکم، وسلونی عن کتاب اللہ، فواللہ ما من آیة الا و انا اعلم ابلیل نزلت ام بنھار فی سھل ام فی جبل.

(محبّ طبرى,الریاض النضرة، 2: 198)

مجھ سے جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو، پوچھو میں تمھیں اس کا جواب کتاب اللہ سے دوں گا۔ اس قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں جس کی مجھے خبر نہ ہو کہ وہ دن میں نازل ہوئی یا رات میں، صحرا میں نازل ہوئی یا پہاڑی کی چوٹی پر۔

آپ رضی اللہ عنہ قرآن کے ظاہری علوم اور باطنی علوم ہر دو کو جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

علمِي وعلمُ أصحابِ محمَّد ﷺ في علمِ علىٍّ رضی اللہ عنہ كقطرَةٍ في سبعَةِ أبحرٍ.

(ابن الأثیر، أسد الغابہ، 4: 39)

’’میرا علم اور تمام صحابہ کرام کا علم علیؓ کے علم کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے سات سمندروں کے مقابل ایک قطرہ۔ ‘‘

حسنین کریمین علیہ السلام؛ شجرِ مصطفیﷺ کے پھول

شجرِ مصطفی ﷺ کی ٹہنی (سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا) اور شگوفہ (سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ) کے ذکر کے بعد اب شجرِ مصطفی کے پھولوں اور پھلوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اگر سیدہ کائنات اور علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو اس قدر عظمتوں سے نوازا گیا ہے تو ان کی اولاد پاک حسنینِ کریمین علیہ السلام کو کیسے کیسے انعام واکرام اور مقام و مرتبہ سے نوازا گیا ہوگا۔

آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

ان الحسن والحسین ھما ریحانتای من الدنیا.

(صحیح بخاری، کتاب فی بیان الاخلاق، باب الرحمہ والشفقۃ علی الطفل وتقبیلہ ومعانقۃ، 18، الرقم: 5994)

’’حسن و حسین (رضی اللہ عنھما) یہ دونوں میری دنیا کے پھول ہیں۔ ‘‘

دوسری روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

ریحانتی من ھذہ ا لامۃ.

(النسائی، سنن الکبری، 5: 49، 150، الرقم: 8167، 8529)

’’یہ دونوں ہی تو میری امت کے پھول ہیں۔ ‘‘

مفسرین اور محدثین نے ’’ریحانہ‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد رحمت بھی ہے، رزق بھی ہے اور راحت و چین اور سکون بھی ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

کل سبب ونسب منقطع یوم القیامۃ الا سببی ونسبی.

(الطبرانی، معجم الکبیر، 11: 194، الرقم: 11621)

’’میرے رشتے اور نسب کے سوا قیامت کے دن ہر رشتہ اور نسب منقطع ہوجائے گا۔ ‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

كل بني أنثى فإن عصبتهم لأبيهم ما خلا ولد فاطمة، فإني أنا عصبتهم و أنا أبوهم.

(احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 626:2، رقم : 1070)

’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اپنے باپ کی طرف سے ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ کے، میں ہی اُن کا نسب ہوں اور میں ہی اُن کا باپ ہوں۔ ‘‘

شجر نبوت پر لگنے والے پھل اور پھول حسنین کریمین ہیں۔ اس لیے آقا ﷺ انہیں بلاتے اور بلا کر انھیں سونگھتے تھے، ان کی مہک سے لطف اندوز ہوتے تھے اور پھر انہیں اپنے گلے سے لگا لیتے تھے۔ حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا تو (دیکھا کہ) حسن و حسین علیہ السلام آپ ﷺ کے سامنے یا گود میں کھیل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ : کیا آپ ﷺ ان سے محبت کرتے ہیں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

و کيف لا أحبهما وهما ريحانتي من الدنيا أشمهما.

(طبراني، المعجم الکبير، 4: 155، رقم: 3990)

’’میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حالانکہ میرے گلشنِ دُنیا کے یہی تو دو پھول ہیں جن کی مہک کو سونگھتا رہتا ہوں (اُنہی پھولوں کی خوشبو سے کیف و سرور پاتا ہوں)۔ ‘‘

اگر ’’ریحانہ‘‘ کو رزق کے معنی میں لیا جائے تو ترجمہ یوں ہوگا کہ حسن اور حسین میرا رزق ہیں۔ اس لیے کہ اولاد رزق ہوتی ہے جس پر والدین فخر کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام ان دونوں پر فخر کا اظہار اکثر فرماتے۔ ایک موقع پر سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:

ان ابنی ھذ اسید، ولعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین.

(صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب قول النبیﷺ للحسن بن علی علیہ السلام، رقم الحدیث: 2704)

’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ ‘‘

یعنی حسن وہ ہیں جو صلح اور امن کے علم بردار ہوں گے اور امت محمدی کو امن و سکون کے فروغ کے ذریعے رزق عطا کریں گے۔

امام حسین علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

حسین منی وانا من الحسین

یعنی میرا حسین کلمہ حق کے ساتھ، انقلاب کے ساتھ، قوت و جرات کا شہکار اور علم بردار بن کر میری امت کو رزق عطا کرے گا۔

پس جب ہم حسنین کریمین علیہ السلام کی صورت میں شجرِ مصطفی کے پھولوں اور پھلوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں ہمیں تاثیر اور ذائقہ شجرِ مصطفی ہی کا محسوس ہوتا اور دکھائی دیتا ہے۔ ان سے جو بھی انوار لیں گے، وہ دراصل اس شجرِ مصطفی ہی کے انوار و فیوضات ہیں۔

شہادت کی نعمت اور اہلِ بیتِ اطہار علیہ السلام

اللہ رب العزت نے چار چیزیں اہلِ بیت اطہار کے حصے میں رکھ دی ہیں:

1۔ مودت 2۔ ابتلاء و آزمائش 3۔ صبر 4۔ رضا

یہ چاروں امور جس طرح اہلِ بیتِ اطہار علیہ السلام کے حصے میں آئے، کسی کے حصے میں نہ آئے اور یہ اہلِ بیت کا خاصہ بن گئے۔ ہر اک چیز انہیں انتہا میں نصیب ہوئی۔ مؤدت ملی تو سرور کائنات کی بے مثال و لازوال محبت و مودت نصیب ہوئی۔۔۔ ابتلاء و آزمائش ملی تو کوفہ اور کرب و بلا میں اس کی بے نظیر مثالیں قائم کردیں۔۔۔ صبرو رضا نصیب ہوا تو سیدہ زینب و امام الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام اور دیگر اسیر، صبر و رضا کا پیکر بن گئے۔

مودت بھی انہیں وہ ملی ہے جس جیسی مودت کسی کے حصے میں نہیں آئی۔ ابتلاء اور آزمائش بھی انہیں وہ ملی ہے جس جیسی آزمائش کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ پھر صبر بھی انہیں وہ ملا ہے کہ اس جیسا صبر کسی اور کو نہیں ملا اور پھر مقام رضا بھی اہلِ بیت اطہار کو وہ ملا ہے کہ اس جیسا مقام کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے لے کر امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ تک سبھی ائمہ کرام کو شہید کیا گیا۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو خارجی ابن ملجم نے شہید کیا۔۔۔ سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو جعدۃ بنت الاشعث نے زہر دے کر شہید کیا۔۔۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام کو کر بلا میں بہتر ساتھیوں سمیت شہید کیا گیا۔۔۔ سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام کو اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے زہر دے کر شہید کیا۔۔۔ امام محمد باقر کو اموی حکمران ہشام بن عبدالملک نے زہر دلواکر شہید کیا۔۔۔ امام جعفر الصادق علیہ السلام کو عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور نے زہر دلوا کر شہید کیا۔۔۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو عباسی حاکم ہارون الرشید نے زہر دلوا کر شہید کروایا۔۔۔ امام علی الرضا علیہ السلام کو خلیفہ مامون الرشید نے انگور میں زہر ملاکر شہید کروایا۔۔۔ امام محمد جواد تقی علیہ السلام کو خلیفہ معتصم باللہ نے زہر دلاکر شہید کیا۔۔۔ امام علی نقی علیہ السلام کو خلیفہ معتز باللہ نے زہر دلاکر شہید کروایا۔۔۔ امام حسن العسکری علیہ السلام کو معتمد باللہ نے زہر دلا کر شہید کرایا۔ یعنی سبھی ائمہ اہل بیت کو ایک ایک کرکے شہید کیا گیا۔

اہلِ بیت اطہار علیہ السلام کے مقدس نفوس اور ان سے محبت کرنے والوں کے اندر ان کی اصل یعنی ذاتِ مصطفیﷺ کا رنگ، مہک، اوصاف کی جھلک اور سیرت کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔

اہلِ بیتِ اطہار کی ان مقدس ہستیوں کی شہادت سے یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کو شہادت اس قدر عزیز نہ ہوتی تو پھر اہل بیت اطہار ایک ایک کرکے شہید نہ ہوتے۔ میدانِ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور خانوادہ رسول، پیکرِ صبر بنے شہید ہورہے تھے، لہو بہا رہے تھے، گردن کٹا رہے تھے مگر اپنے نانا کے دین کو جھکنے نہیں دے رہے تھے۔ اپنے لہو کے خراج کے ذریعے دین کو سربلند کررہے تھے۔ شہادت ان کی گھٹی میں دی گئی تھی اور ان کا مقدر بنادی گئی تھی۔

جب سیدنا امام حسین علیہ السلام کربلا کی طرف جا رہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو علم تھا کہ حسین علیہ السلام اپنی اس منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کے بارے میں آقا علیہ السلام نے ان کے بچپن میں ہی آگاہ فرما دیا تھا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام کو علم نہ ہو کہ میری منزل وادی کرب و بلا ہے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو معلوم ہے تو کیا آپ علیہ السلام کو معلوم نہ ہوا ہوگا کہ میں اپنے مقتل کی جانب جارہا ہوں۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام کو سب معلوم تھا اور وہ جانتے تھے لیکن پھر بھی سفر جاری رکھتے ہیں، ٹھہرتے نہیں، رکتے نہیں۔ نہ خود جھکتے ہیں اور نہ کسی اور کو جھکنے دیتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ میری شہادت اصل میں دینِ مصطفی کی عظمت کا نام ہے۔

واقعہ کربلا نے یزیدیت اور حسینیت کا فرق بتا دیا کہ یزید تاریکی کا نام ہے جبکہ حسین علیہ السلام روشنی کا نام ہے۔۔۔ یزید بربریت کا نام ہے جبکہ حسین علیہ السلام انسانیت کا نام ہے۔۔۔ یزید ظلم کا نام ہے جبکہ حسین علیہ السلام عدل کا نام ہے۔۔۔ یزید دہشت گردی کا نام ہے جبکہ حسین علیہ السلام امن کا نام ہے۔۔۔ یزید جہالت کا نام ہے جبکہ حسین علیہ السلام علم اور شعور کا نام ہے۔۔۔ یزید کرپشن کا نام ہے جبکہ حسین علیہ السلام رفعت و بلندی کا نام ہے۔۔۔ حسینیت نام ہے کردار کا اور حسین علیہ السلام نام ہے صبر و رضا کا۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے اس محبت کا قرض اتار دیا جو حضور علیہ السلام نے انھیں عطا کی تھی۔

شہادت امام حسین علیہ السلام سے درحقیقت یزید ختم ہوگیا اور حسین علیہ السلام کے نانا کا دین زندہ ہوگیا۔ اگر حسین علیہ السلام نہ ہوتے تو قیامت تک راہِ خدا میں جانیں لٹانے والا کوئی نہ ہوتا۔ آج اگر ہمیں عالمِ کفر کے مقابلے میں شہادتیں دینے والے آتے ہیں تو یہ شہادتیں اس لیے دی جا رہی ہوتی ہیں کہ حسین علیہ السلام کا کردار ان کے سامنے ہوتا ہے۔ ہر دور کے یزید بھی ہیں اور ہر دور کے غلامانِ حسین بھی ہیں۔ وقت کا یزید ظلم کرتا ہے تو غلامانِ حسین صبر کرتے ہیں۔۔۔ وقت کا یزید استحصال کا نام ہے جبکہ غلامانِ حسین صبرو تحمل اور حکمت و دانش کا نام ہیں۔

آج کے اس معاشرہ میں اپنے اخلاق و کردار اور اپنے ایمان و حمیت کو بچانا اور وقت کے فرعونوں، نمرودوں اور یزیدوں کےسامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا کربلا کا سبق ہے۔ اللہ رب العزت بحرِ عصمت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا اور بحرِ شجاعت و ولایت ِعلی مرتضی کرم اللہ و جہہ اور ان کی ذیلی ابحار سیدنا حسنین کریمین علیہ السلام کے فیوضات و عنایات، لطف و کرم اور ان کی بارگاہ کی عطا و خیرات سے ہمیں ہمیشہ مستفیض و سیراب فرمائے۔ مصطفیٰ ﷺ کے پھولوں، ٹہنیوں، شگوفوں، پھولوں کی مہک کی صورت میں موجود رزق امت کو ہمیشہ منتقل ہوتا رہے۔ اس چمنستانِ مصطفوی کی مہک سے اس ملک و قوم اور اس امت سے منافرت، انتشار اور فساد کی ہوا ختم ہوتی چلی جائے اورعشق و محبتِ اہلِ بیت اطہار علیہ السلام کی فضا جنم لیتی رہے۔ آج امت کو اس کی ضروت بھی ہے اور یہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔