انسانی شخصیت پر ماحول اور تعلقات کے اثرات

عبدالستارمنہاجین

نفسیات کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہر شخص کا مزاج اس کے قریبی دوستوں کے مزاج کا اوسط ہوتا ہے۔ یعنی جیسی سوچ اور مزاج کے لوگوں کو ہم اپنا قریبی دوست بناتے ہیں، ہماری سوچ اور ہمارا مزاج بھی کم و بیش ویسا ہی بنتا چلا جاتا ہے۔ اس نظریہ کا اِنحصار انسانی رویوں اور باہمی تعلقات کے گہرے مشاہدے پر مبنی ہے۔ انسان ایک سماجی مخلوق ہے اور اُس کی شخصیت اور عادات پر اِردگرد کے لوگوں کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ اثرات اس کے اَفکار، نظریات، رویوں اور حتیٰ کہ اس کے معمولاتِ زندگی میں بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔

دوستی اِنسانی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ دوست وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے ہم اپنے جذبات، خیالات اور تجربات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اُن کی موجودگی اور خیالات نہ صرف ہمارے مزاج پر اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ ہمارے فیصلوں، اَہداف اور زندگی کی سمت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ نفسیات کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر ہمارے دوست خوش مزاج، مثبت سوچ رکھنے والے اور حوصلہ افزائی کرنے والے ہوں تو ہمارا رویہ بھی اُنہی خطوط پر اُستوار ہوتا ہے۔ جبکہ اِس کے برعکس، اگر ہمارے قریبی لوگ منفی خیالات کے حامل ہوں یا اُن کی زندگی میں مایوسی ہو تو یہ اثرات ہمارے مزاج پر بھی مرتب ہونے لگتے ہیں۔

اگر ہم شاعرانہ مزاج لوگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا شروع کر دیں تو ہم بھی شاعری میں دلچسپی لینے لگیں گے۔۔۔ اگر ہمیں ہر معاملے کو سائنسی بنیادوں پر پرکھنے والوں کا ساتھ مل جائے تو ہم بھی سائنسی مزاج اپنا لیں گے۔۔۔ اگر ہم مایوس لوگوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو مایوسی کی باتیں کرنے لگیں گے۔۔۔ اگر ہم پراُمید لوگوں کے ساتھ دوستی لگاتے ہیں تو خودبخود مایوس رہنا چھوڑ دیں گے۔۔۔ اگر ہم تنقیدی مزاج رکھنے والے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے لگیں تو کچھ عرصہ میں ہم بھی تنقیدی مزاج اپنا لیں گے۔۔۔ اگر ہم حقیقت کا سامنا کرنے کی بجائے خوش فہمیاں پالنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو اُنہی کی طرح حقیقت سے نظریں چرانا شروع کر دیں گے۔۔۔ اگر ہم ذومعنیٰ پوسٹس کرکے وسوسہ اندازی کرنے والوں کے ساتھ دوستی لگائیں گے تو ایک دن خود بھی وسوسوں کی زد میں ضرور آئیں گے۔

الغرض عام زندگی کی طرح سوشل میڈیا پر بھی جیسے لوگوں کو ہم اپنے سوشل سرکل میں شامل کرتے ہیں، ایک دن ہم بھی اُنہی جیسے بن جاتے ہیں۔

عادتیں کیسے اثرانداز ہوتی ہیں؟

علمِ نفسیات کی رو سے دوستوں کی عادات اور رویےّ ہماری زندگی پر ضرور اثرانداز ہوتے ہیں۔ ایک مشہور فلسفی کا قول ہے کہ کسی کا قرب پانے کیلئے اُس کا ہمخیال ہونا ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم عموماً اُن لوگوں کے قریب ہوتے ہیں جن کے خیالات، نظریات اور عقائد ہم سے ملتے جلتے ہوں۔ یہ فکری ہم آہنگی نہ صرف دوستی کو مضبوط کرتی ہے بلکہ ہماری شخصیت پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ جب ہم کسی کو دوست بناتے ہیں تو لاشعوری طور پر رفتہ رفتہ اُس کے ساتھ ہم آہنگی بھی اِختیار کرنے لگتے ہیں۔

اسی طرح دوستوں کی مذہبی سوچ اور سیاسی وابستگی بھی ہماری شخصیت میں جھلکتی ہے۔ اگر ہمارے دوست کسی خاص مذہبی یا سیاسی نظریہ کے حامل ہیں تو ہم جتنا مرضی اِنکار کرتے رہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ہم بھی اُن کے نظریات کو اپنانے لگتے ہیں۔ یہ اَثرات کبھی شعوری طور پر اور کبھی غیرشعوری طور پر ہماری سوچ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آن لائن دوستیاں بھی اِسی طرح مذہبی و سیاسی اَثرات پیدا کرتی ہیں۔

سماجی رویےّ بھی دوستوں کے اَثرات سے محفوظ نہیں رہتے۔ اگر کسی کے دوست معاشرتی طور پر فعّال اور دوسروں کی مدد کرنے والے ہیں تو اُس شخص میں بھی یہ عادت پیدا ہوسکتی ہے۔ اِسی طرح اگر کسی کے دوست غیرذمہ دار یا منفی رویہ رکھتے ہیں، لوگوں پر طعن و تشنیع کرتے ہیں اور ان کی غیبت کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تو یہ اَثرات بھی اُس کی اپنی زندگی کا بھی حصہ بن سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کھلے عام گالی گلوچ کرنے والوں اور درپردہ معنیٰ خیز پوسٹس کرکے دوسروں کی تضحیک کرنے والوں کے ساتھ دوستی رکھنے والے بھی لامحالہ اِسی ڈگر پر چل پڑتے ہیں۔

علم نفسیات میں مختلف نظریات اِس موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں کہ اِنسان کی شخصیت اور رویےّ پر ماحول اور تعلقات کا کیا اثر ہوتا ہے۔ ذیل میں چند نظریات کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے:

1. سماجی اَثرات کا نظریہ بتاتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے اہم فیصلے اور رویئے عموماً اپنے قریبی لوگوں کے اَثرات کے تحت شعوری طور پر اِختیار کرتے ہیں۔ یہ اَثرات ہمیں ایک خاص طرزِ زندگی، خیالات اور عادات کو اپنانے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

2. عکاسی نظریہ کہتا ہے کہ انسان اپنے قریبی لوگوں کی عادات اور رویوں کو غیرشعوری طور پر اپنانا شروع کر دیتا ہے۔ اس صورت میں ضروری نہیں کہ ہمیں کسی کام کے کرنے پر اُکسایا یا ورغلایا جائے، ہم لاشعوری طور پر اپنے دوستوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جیسے دوست ہم اپناتے ہیں ہم خود بھی ویسے ہی بنتے چلے جاتے ہیں۔

پس اگر ہمارے دوست مثبت سوچ رکھتے ہوں گے تو اُن کا ساتھ ہم پر بھی مثبت اَثرات چھوڑے گا۔ اور اگر ہمارے دوست منفی سوچ کے حامل ہیں اور دوسروں کیلئے اذیت کا باعث بننے والے ہیں تو یہ منفی رویہ ایک دن اَثر ہماری شخصیت کا حصہ بھی ضرور بن جائے گا۔

دوستوں کے اِنتخاب کی اہمیت

دوستوں کا اِنتخاب زندگی کا ایک اہم فیصلہ ہوتا ہے۔ اچھے دوست ہماری زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں، جبکہ برے دوست ہماری ترقی اور خوشی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ دوستی کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو:

مثبت سوچ رکھتے ہوں۔ دوسروں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے اور اُن کے کام آنے والے ہوں۔ حوصلہ افزائی کرنے والے اور مشکل وقت میں کام آنے والے ہوں۔

اچھی اَخلاقی اَقدار کے حامل ہوں۔ غیبت اور چغلی کرنے والے نہ ہوں۔ دوسروں کی کمزوریاں تلاش کرکے اُچھالنے والے اور طعن زنی کرنے والے نہ ہوں۔

زندگی میں مقصد رکھتے ہوں۔ اگر ہمارے دوست زندگی میں کوئی مقصد نہیں رکھتے، محنت سے بھاگتے ہیں تو ہم بھی اُنہی جیسے بن کر ناکام ہوجائیں گے۔

دوستی کے تعلقات کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ اگر کسی دوست کا رویہ ہماری زندگی پر منفی اَثر ڈال رہا ہے تو اُس سے دوری اِختیار کر لینا ہمارے لیے بہتر ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ ہمارے دوست ہمارے مزاج، عادات اور شخصیت پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ یہ اَثرات مثبت بھی ہوسکتے ہیں اور منفی بھی۔ اِس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے دوستوں کا اِنتخاب سوچ سمجھ کر کریں اور اپنی زندگی میں بہتری اور خوشی کا باعث بننے والے لوگوں سے دوستی لگائیں۔ دوستوں کے اَثرات کو سمجھنا اور اُن کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا ہماری شخصیت کی ترقی کیلئے بہت اہم ہے۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر بھی ہمیں مثبت سوچ رکھنے والوں کو دوست بنانا چاہئے اور منفی سوچ کے ساتھ مسائل کھڑے کرنے والوں سے دُوری اِختیار کر لینی چاہئے۔ جو لوگ بنا سوچے سمجھے سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں فرینڈ بنا لیتے ہیں اُن کا وسیع سوشل سرکل اُن کی سوچ و عمل پر اُسی طرح اثرانداز ہونے لگتا ہے جیسے عام زندگی کے دوست ہوتے ہیں۔ اِس لئے ہمیں سوشل میڈیا پر بھی دوستوں کے چناؤ میں خاص اِحتیاط کرنی چاہئے۔ سوشل میڈیا پر بھی ہمیشہ مثبت توانائی رکھنے والوں کو اپنا دوست بنائیں اور منفی سوچ رکھنے والوں کے شر سے بچنے کیلئے اُنہیں اَن فرینڈ کر دیں۔