خانقاہ۔۔۔ ایک ایسا مقدس آستانہ ہے جہاں زمین کی خاک میں آسمان کا نور اترتا ہے۔ یہ صرف اینٹ اور گارے کی عمارت نہیں، بلکہ دلوں کی تربیت گاہ، روحوں کی تطہیر کا مرکز اور کردار سازی کی آغوش ہے۔ یہاں نہ خطبوں کی گھن گرج ہے، نہ منبروں کی چمک، صرف خاموشی ہے۔۔۔ مگر ایسی خاموشی جس میں دل بولتے ہیں، آنکھیں سیکھتی ہیں اور روحیں سجدہ ریز ہوتی ہیں۔
خانقاہ۔۔۔ وہ مقام ہے جہاں مرشد کی ایک نظر، سالک کے دل کی گرد جھاڑ دیتی ہے۔ جہاں قال سے زیادہ حال کی قدر ہے اور جہاں ہر آنے والا، ’’میں‘‘ کو ’’تو‘‘ میں ڈھال کر لوٹتا ہے۔ یہاں نہ ذات پات کی دیوار ہے، نہ علم و جاہ کا غرور۔۔۔ صرف اخلاص کا دریا ہے، جس میں ہر دل غوطہ زن ہو کر، بندگی کی لذت سے آشنا ہوتا ہے۔
خانقاہ۔۔۔ وہ آستانہ ہے جہاں قال کی جگہ حال کو، اور ظاہری علم کی جگہ باطنی مشاہدے کو وقعت دی جاتی ہے۔ یہاں دلوں کو جگایا جاتا ہے، نفس کو قابو میں کیا جاتا ہے اور محبتِ الٰہی کی چنگاری کو شعلہ بنایا جاتا ہے۔۔۔ خانقاہ نہ عبادت گاہ ہے، نہ مدرسہ، نہ دربار۔۔۔ یہ ان سب کا جامع روحانی مرکز ہے، جہاں مرشدِ کامل دل کی الجھنیں سلجھاتا ہے، زبان سے کم اور نگاہ سے زیادہ بات کرتا ہے۔ یہاں ذکر میں گریہ ہے، مراقبے میں معرفت ہے اور خلوت میں قربت ہے۔
خانقاہ کا مقصود صرف تزکیہ نہیں، بلکہ بندگی کے آداب سکھانا اور تسلیم و رضا کا وہ رستہ دکھانا بھی ہے، جہاں سالک اپنے رب کے رنگ میں رنگا جائے۔ یہیں سے وہ فقر جنم لیتا ہے جس کی آنکھ میں نہ تختِ سکندری کوئی حیثیت رکھتا ہے اور نہ دارا کا تاج شاہی کسی وقعت کا حامل ہوتا ہے۔
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر، فقر ہے شاہوں کا شاہ
خانقاہ کی بنیاد دراصل اُس وقت رکھی گئی جب دنیا کی ہنگامہ خیزیوں میں ایک گوشۂ سکوت درکار ہوا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے غارِ حرا سے نکلنے والے نور نے جب باطنی جہاد کا آغاز کیا، جب نور نبوت کے سائے میں قلوب کی دنیا جگمگائی تو تصوف کی تخم ریزی کا مرحلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رہا۔ خلفائے راشدین کے دور میں جہاں عدل، علم اور جہاد کا غلبہ رہا، وہیں دلوں کے تزکیہ اور باطن کی صفائی کا چراغ بھی روشن رہا۔ یہی چراغ پھر تابعین، تبع تابعین اور بعد ازاں صوفیائے کرام کی مجالس میں مزید روشن ہوا۔
اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا اور اسلامی سلطنتیں بڑھتی گئیں، تب خانقاہیں ایک علیحدہ روحانی نظام کے طور پر ابھریں اور دلوں کو سنوارنے اور روحوں کو جگانے کا مرکز بنتی گئیں۔ خانقاہوں کے اس روحانی نظام نے صدیوں تک امت کے فکر و کردار کو سنوارا، نفس کو قابو میں رکھا اور دلوں کو سچائی کے عطر سے معطر کیا۔ یہ روحانی مراکز نہ سیاست کی آماج گاہ، نہ معیشت کا مرکز بل کہ روح کی تربیت گاہ تھے، جہاں ہر آنے والے کو اپنے رب سے لو لگانے کا سلیقہ سکھایا جاتا۔
بصرہ میں خواجہ حسن بصری اور امام ابن سیرین کا مرقد انور ہو۔۔۔ یا بغداد میں حضرت معروف کرخی اور حضرت جنید بغدادیؒ کی مجلس ہو۔۔۔ نیشاپور میں خواجہ بایزید بسطامیؒ کا آستانہ ہو یا گیلان کی سرزمین پر حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی خانقاہ پر انوار ہو۔۔۔ یہ سب وہ قندیلیں ہیں جن سے خانقاہی نظام کا دامن منور ہے اور جب یہ نظام سرزمین ہند میں وارد ہوا تو خواجہ غریب نواز، داتا گنج بخش، حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی، بابا فرید گنج شکر جیسے آفتاب و ماہتاب نے اسے جلا بخشی۔
خانقاہی نظام۔۔۔ علم و اخلاق اور روحانیت کا امتزاج
ہر خانقاہ علم و شعور، ذکر وفکر، اخلاق وتربیت اور خدمتِ خلق کا گلشن اور فیوضات روحانی کے لیےمرجعِ خلائق بنی رہی، جہاں نورِ معرفت اور دلوں کا سوز و گداز تقسیم ہوتا رہا اور طالبانِ حق اپنے دامنِ مراد کو گوہرِ مقصودسے مالا مال کرتے رہے۔ اب بھی یہ ایسی خلوت گاہیں ہیں، جہاں دل کی دنیا آباد کی جاتی ہے۔۔۔ یہاں نفس کے فتنے بجھائے جاتے ہیں اور عشق الہی کی مشعل فروزاں کی جاتی ہے۔۔۔ یہاں نہ حکمرانی کا دعوی، نہ خطابت کی نمائش۔۔۔ فقط ایک درویش کا در، فقط خاموشی سے دلوں میں روشنی انڈیلتا ہے۔
تاریخ کے صفحات میں جب ہم تصوف کے تابندہ نقوش تلاش کرتے ہیں تو خانقاہی نظام ایک روحانی تحریک کی صورت میں ابھرتا ہے۔ یہ محض ایک ادارہ نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک طرزِ حیات اور ایک تہذیبی مرکز ہے، جس نے اہلِ ایمان کے سامنے علم، اخلاق، روحانیت اور معاشرت کا امتزاج پیش کیا۔ ان خانقاہوں نے صرف دلوں کی دنیا نہیں بدلی، بلکہ معاشرے کے تانے بانے بھی سنوارے۔ جب سلطنتوں میں فرقہ واریت، ظلم یا فکری جمود نے جگہ بنائی، تب خانقاہیں؛ امن، رواداری، خدمتِ خلق اور یکجہتی کی علامت بن گئیں اور اہلِ ایمان کی ایک زندہ روحانی سچائی بن کر ابھریں۔
تصوف، دنیا سے فرار نہیں بلکہ خودی کی پہچان کا سفر ہے
تصوف کے افقِ نازپر ہی دلوں کی گہرائی، روح کی پاکیزگی اور ذات کی سچائی کی جھلک نمودار ہوتی ہے؛ جہاں قلبِ انسانی ربّی تجلیات کا آئینہ بن جاتا ہے۔ تصوف دنیا سے فرار کا فلسفہ نہیں، بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے ذات کے اندر جھانکنے، خودی کو پہچاننے اور رضائے الٰہی کے حصول کا ایک ہمہ گیر، زندہ اور بامعنی سفر ہے بلکہ اپنے من میں ڈوب کر زندگی کے حقائق کو پا لینے کا نام ہے تصوف ہے۔ بقول حضرت علامہ اقبال:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
حقیقی تصوف کی بنیاد اُس باطنی طہارت پر ہے جو انسان کو مخلوق کی خدمت اور خالق کی طلب کے حسین امتزاج کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی وہ چشمۂ فیض ہے جس سے اہلِ فقر و غنا نے سیرابی حاصل کی۔ وہ درویش، جن کے لباس میں سادگی، مگر نگاہوں میں ربانی جلال تھا۔ جنہوں نے تکیے پر نہیں، میدانِ عمل میں بیٹھ کر خلقِ خدا کی تربیت کی۔ ان کا فقر، محض ترکِ دنیا نہیں بلکہ دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھ کر، دل کو اللہ کے حضور سجدہ ریز کرنا تھا۔
یہ صاحبانِ تسلیم و رضا وہ چراغ ہیں جنہوں نے ہر دور کے اندھیروں میں ایمان، استقامت اور اخلاص کا نور جلایا۔ ان کے دل قناعت کے سمندر اور ان کی روحیں رضا کے گلشن تھیں۔ ان کی تسلیم و رضا نے اُنہیں مقامِ قرب تک پہنچایا، جہاں ہر لمحہ رَضِيتُ بِاللّٰهِ رَبًّا کی صدا بلند ہوتی۔ ان کے صبر، خاموشی اور قربانیوں سے نہ صرف افراد سنورے بلکہ معاشرے نکھر گئے۔ ان کی مجلس میں دل نرم ہوتے، آنکھیں نم ہوتیں اور روحیں معطر ہو جاتیں۔
اسی سلسلۂ صفا کے روشن مینار، اولیاء اللہ ہیں۔ وہ نفوسِ قدسیہ جو رب کے عشق میں فنا ہو کر بقا کا پیغام بنے۔ جن کی زندگیاں قرآن کی زندہ تفسیر اور سنتِ مصطفیٰ ﷺ کی عملی تصویر تھیں۔ ان کی خامشی میں درس ہوتا اور ان کے سکوت میں ہدایت کی صدا گونجتی۔ وہ وہی لوگ تھے جنہیں ربِ کریم نے اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡهِمۡ وَ لَا هُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ کا خطاب عطا فرمایا۔
تاریخِ انسانیت میں اگر کہیں دلوں کی دھڑکن، روح کی تڑپ اور ذات کی پہچان کا سراغ ملتا ہے تو وہ تصوف کے روشن آستانوں پر ہی ملتا ہے۔ تصوف کوئی مجرد فلسفہ یا دنیا گریز رویہ نہیں بلکہ یہ زندگی کہ تہہ میں اترا کر اسے رب کی خوشبو سے معطر کرنے کا نام ہے۔ اس کا آغاز تب ہوا جب انسان نے اپنی فطرت میں سچائی، سادگی اور قربِ الہٰی کی جستجو محسوس کی اور اس کے سفر کا نقطۂ عروج وہ تھا جہاں انسان، رَضِیْتُ بِاللہِ رَبًّا کہہ کر فنا میں بقا کا مزہ چکھنے لگا۔
اہلِ فقرو غنا، وہ درویش ہیں جنھوں نے بادشاہوں کے سروں پر دستِ کرم رکھا، خود خرقہ اوڑھ کر سلطانِ دل بنے۔۔۔ وہ جو چٹائی پر بیٹھے تھے، مگر دنیا ان کے قدموں میں جھکتی تھی۔۔۔ ان کے فقر میں وہ غنا تھی جو دنیا کی سلطنتوں کو شرمادے۔۔۔ ان کے در سے کوئی خالی نہ گیا، کیونکہ وہ خود خالی ہوکر رب کے خزانے سے لبریز ہوچکے تھے۔۔۔ یہی وہ صاحبانِ تسلیم و رضا اور بندگانِ خاص تھے، جنھوں نے ہر حال میں رب کی مرضی کو اپنی چاہت بنالیا۔۔۔ جن کے چہروں پر سکوں کی روشنی اور دلوں میں تسلیم کی نرمی ہوتی۔ جنھوں نے درد کو دعا بنادیا اور آزمائش کو وسیلۂ قرب سمجھا۔ اُن کے قدموں سے جو راستے بنے، وہ آج بھی سالکانِ تصوف کے لیے مینارۂ نور ہیں۔
ان نفوسِ قدسیہ کی اصلاحِ احوال کی روح پرور کوششوں کے ثمرات فرد کی اصلاح سے بڑھ کر معاشرے کی تعمیر تک پہنچے۔ محبت، اخوت، عفو، تحمل اور ایثار جیسے خزانے، انہی درویشوں کے آنگن سے نکلے۔ ان کی محافل میں دل گداز ہوتے، اور ان کی صحبت میں سنگ دل نرم پڑتے۔ وہ وقت کے نباض بھی تھے اور دلوں کے جراح بھی۔ یہ بندگان خدا اس نور روحانیت سے معمور ہوتے ہیں جو دل کے آئینے میں رب کی جھلک دکھاتے ہیں۔
چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا
اور یہ جھلک، اہلِ فقر و رضا کی زندگیوں میں ایک مشعل بن کر، آج بھی راہ نوردانِ شوق کو منزل کا پتا دیتی ہے۔
یہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے باطن کو تسخیر کیا بلکہ خلقِ خدا کے لیے ہدایت کا چراغ بنے۔ ان کی زندگی قرآن کی تفسیر اور سنتِ رسول ﷺ کا عملی نمونہ ہوتی ہے۔ ان کا مقام محض زہد و عبادت تک محدود نہیں، بلکہ وہ اخلاقِ محمدی کے مجسم آئینے اور فطرتِ انسانی کے اصلی معمار ہوتے ہیں۔ ان کے سکوت میں خطبے ہوتے ہیں اور ان کی خاموشی میں وہ صدائیں سنائی دیتی ہیں جو دلوں کو رب سے جوڑ دیتی ہیں۔ نہ وہ تخت کے طلبگار ہوتے ہیں، نہ تعظیم کے خواہاں، مگر ربِ جلیل انہیں وہ عزت عطا کرتا ہے جو شاہوں کے سروں پر سایہ کرتی ہے۔
نہ تخت وتاج میں، نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد ِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
دراصل وہی ہستیاں وارثانِ نبی ﷺ ہیں، جو ہر دور میں تصوف کے گلشن کو سرسبز رکھتے ہیں۔ ان کی یاد، ان کی تعلیمات اور ان کے فیوض آج بھی اہلِ دل کے لیے ایک ایسا چشمۂ حیات ہے جو تشنگانِ معرفت کو سیراب کر رہا ہے۔
بر صغیر میں خانقاہی نظام کا منظر نامہ
آج جب خانقاہوں پر بسا اوقات رسومات کا غلبہ اور اصلی تعلیمات سے دوری کا منظر دکھائی دیتا ہے، تو لازم ہے کہ ہم ان آستانوں کو اُن کے اصل مزاج کی طرف لوٹائیں۔ وہ مقام، جہاں کوئی دھمال نہ ہو بلکہ فقط دَم ہو۔۔۔ افسانے نہ ہوں بلکہ فقط قرآن و سنت کا عطر ہو۔۔۔ دنیا داری کی سودے بازی نہ ہو، فقط رضا کا سودا ہو۔ خانقاہی نظام تصوف کی اس شمع کا نام ہے جو صدیوں سے قلوب کو روشنی عطا کرتی آئی ہے۔ یہ نظام آج بھی حیات بخش ہے، بشرطیکہ ہم اسے اس کے اصل خمیر، اس کی اصل روح اور اس کے حقیقی کردار کے ساتھ سمجھیں اور اپنائیں۔
جب روحانیت کو دنیا داری کی کوٹھڑی میں قید کر دیا جائے، جب تصوف کی خوشبو پیسے کے عطر میں بجھنے لگے اور جب خانقاہیں دلوں کی تطہیر کے مراکز کی بجائے حرص و ہوس کی منڈیاں بن جائیں، تو یہ محض ایک فکری انحراف نہیں بلکہ ایک گہرا معاشی و نفسیاتی انحطاط ہوتا ہے۔ اس انحطاط کی کوکھ سے ایک ایسا استحصالی نظام جنم لیتا ہے جو روحانی وابستگی کو مالی سرمایہ کاری میں بدل دیتا ہے اور دلوں کے سکون کو خانقاہی وفاداری کی قیمت پر نیلام کرتا ہے۔ یہاں عقیدت ایک کرنسی بن جاتی ہے اور مرشد کا مقام روحانی تربیت کے بجائے سماجی بالادستی اور معاشی کنٹرول کا ذریعہ بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسی فضا میں روحانیت ایک داخلی سفر نہیں بلکہ خارجی مظاہر کا کھیل بن جاتی ہے، جہاں ظاہر پرستی، شخصیت پرستی اور مادی منفعت روحانی جوہر کو نگلنے لگتی ہے۔
یہ خانقاہیں، جن کے بانیان نے زہد و تقویٰ کو شعار بنایا، آج ان کے سجادہ نشین اپنی گدیوں کو موروثی اقتدار کی کرسی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ’’روحانی فیض‘‘ کے نام پر جہالت کو فروغ دیا جا رہا ہے، اور عقیدت مندوں کی جیبیں چپ چاپ خالی کی جا رہی ہیں۔ چادریں چڑھتی ہیں، نقد نذرانے چمکتے ہیں اور صدقے کے بکروں سے لے کر نقدی کے لفافوں تک سب کچھ ایک ایسے نظام میں ڈھل چکا ہے جو بظاہر روحانی ہے مگر باطن میں خالص مادی اور دنیاوی۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ اپنی نظم ’’باغی مرید‘‘ میں فرماتے ہیں:
نذرانہ نہیں، سود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آ ئی ہے انھیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!
یہ استحصال بڑا لطیف اور مہذب ہے۔ یہاں بندہ چیخ بھی نہیں سکتا، کیونکہ اس کے عقیدے کا خون چوسنے والا ایک ’’پیر‘‘ ہوتا ہے، جسے اس نے روحانی نجات دہندہ مان رکھا ہوتا ہے۔ زائرین، جو علم، شعور اور معاشی فہم سے ناآشنا ہوتے ہیں، نہایت خاموشی سے اپنی مزدوری، پنشن یا بچوں کی فیسیں، درباروں کے قدموں میں نچھاور کر دیتے ہیں، اس امید پر کہ شاید قسمت کا دروازہ کھل جائے۔
خانقاہی نظام کا یہ معاشی استحصال ایک ’’روحانی فیکٹری‘‘ کی شکل اختیار کر چکا ہے، جہاں عاملین، تعویذ نویس، خادم، نعت خوان اور مناجات گو سب کسی منظم ڈھانچے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان درباروں کے اطراف میں دکانیں، ہوٹل، ٹرانسپورٹ سروسز، حتیٰ کہ موبائل ایپلیکیشنز تک ایک مکمل معیشت کو جنم دے چکی ہیں۔ گویا یہ خانقاہیں محض روحانی مراکز نہیں رہیں، بلکہ چھوٹے درجے کی مملکتیں بن چکی ہیں۔
اس معاشی استحصال کے مضمرات نہ صرف عوام کی جیبوں پر پڑتے ہیں، بلکہ قومی شعور، فکری آزادی اور دینی بصیرت کو بھی گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ جب قوم کے محروم طبقے کو تعلیم اور ہنر کی بجائے تعویذ اور دم درود کی بھیک پر لگا دیا جائے، تو معیشت صرف روپے میں نہیں، اقدار میں بھی دیوالیہ ہو جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تصوف کو اصل روح کے ساتھ زندہ کیا جائے، خانقاہوں کو علم و شعور کے مراکز میں بدلا جائے، اور اس نظام کو شفاف اور احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔ بصورت دیگر، یہ خانقاہی کاروبار ہمارے معاشرتی نظام کی جڑوں میں دیمک بن کر بیٹھ جائے گا۔
خانقاہی نظام کے احیاء میں منہاج القرآن کا کردار
تصوف، اسلام کے جمالیاتی و روحانی حسن کا وہ زاویہ ہے جہاں دل حقیقتِ محمدی سے منور ہوتا ہے اور باطن، معرفتِ الٰہی کی روشنی میں نکھرتا ہے۔ برصغیر میں صوفیائے کرام نے جب روحانیت کا چراغ جلایا تو خانقاہیں اس نور کی قندیل بنیں۔ خانقاہی نظام برصغیر کی صوفی روایت کا وہ سرچشمہ ہے جس نے ہزاروں انسانوں کو روحانی حیات بخشی۔ حضرت معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیاء، حضرت بہاؤالدین زکریا، اور حضرت شاہ ولی اللہ جیسے بزرگوں کی خانقاہیں علوم و معرفت، سلوک و طہارت اور خدمت خلق کے مراکز تھیں مگر وقت کے ساتھ جب روحانیت کے قافلے کو مادّہ پرستی کی گرد نے آ لیا، تو انہی خانقاہوں میں تقدس کی بجائے جمود اور اخلاص کی جگہ استحصال نے ڈیرے ڈال لیے۔ خانقاہوں میں سجادگی موروثی بن گئی، مریدی کاروبار بن گئی اور روحانیت کا دروازہ چند مخصوص خانوادوں کی جاگیر بنتا گیا۔ علمی و فکری تربیت کی جگہ تعویذ و عملیات نے لے لی اور مجاہدۂ نفس کے بجائے محض ظاہری رسوم نے تصوف کی اصل روح کو دُھندلا دیا۔ زائر، جو اصلاحِ نفس کا متلاشی تھا، ایک اندھے پیروکار میں بدل دیا گیا۔
منہاج القرآن: روحانیت کی نویدِنو
ایسے ماحول میں تحریک منہاج القرآن ایک تازہ ہوا کا جھونکا بن کر سامنے آئی، جس نے تصوف کو نہ صرف اس کی اصل روح میں پیش کیا، بلکہ اسے ایک بیدار شعور، علمی بنیاد، اور اخلاقی تربیت کا منہج بنا دیا۔ تحریک منہاج القرآن، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں، اس وقت منصہ شہود پر آئی جب خانقاہی نظام زوال پذیری کا شکار ہو چکا تھا۔ یہ تحریک، روحانیت کو ماضی کے جمود سے نکال کر موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ایک شعوری کوشش ہے۔ اس تحریک نے تصوف کو محض وجد و حال، خواب و کشف یا مجربات کے خول سے نکال کر فکری بالیدگی، علمی روشنی اور عملی زندگی کے حسن سے جوڑ دیا۔
منہاج القرآن کے روحانی منہج میں تزکیۂ نفس، تطہیرِ قلب، تزکیۂ اعمال اور خدمتِ خلق کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ یہاں شیخ کی حیثیت استاد و مربی کی ہے، نہ کہ مافوق الفطرت ہستی کی۔ یہاں عقیدت علم کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوتی ہے، نہ کہ اندھی اطاعت کے محراب میں قید۔
منہاج القرآن اور تصوف کی اصل روح کی بازیافت
جب خانقاہوں کے چراغ، دنیا داری کے دھویں میں دھندلا گئے، جب روحانیت کے نخلستانوں کو خودغرضی کے ریگزاروں نے نگل لیا اور جب تزکیہ نفس کے چشمے، عقیدت کی آڑ میں استحصال کے زہر سے آلودہ ہو گئے، تب اُمتِ مسلمہ کی آنکھیں کسی ایسے چراغ کی متلاشی تھیں جو ان کے دل و دماغ کو نہ صرف روشنی دے، بلکہ انہیں بندگی کی اصل منزل کا پتہ بھی دے۔
ایسے میں تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل، ایک ایسا فکری و روحانی قافله بن کر ابھری، جس نے اسلام کی فکری اساس، روحانی پیغام اور تصوف کی اصل روح کو نئی زندگی عطا کی۔ اس تحریک نے، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں، ان درباروں اور خانقاہوں کے مصنوعی طلسم کو چاک کیا جہاں نہ معرفت تھی، نہ مجاہدہ، نہ سلوک کا سچ تھا، نہ خدمتِ خلق کا رنگ، نہ بلند نگاہی، نہ زندگی کی تب و تاب بلکہ تصوف کے نام پر صرف پیری مریدی کا کاروبار تھا۔ بقول علامہ اقبال:
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
ان دگرگوں حالات میں منہاج القرآن نے بندگی کو تعویذ کے دھندے سے نکال کر شعور کی روشنی میں رکھا۔ ذکرِ الٰہی کو ہوش و خرد کے ساتھ جوڑا۔ اس تحریک نے روحانیت کو صرف وجد و حال کے مظاہر سے بلند کرکے ایک متوازن زندگی، معاشرتی تطہیر، اخلاقی تربیت اور علمی بصیرت کا نام دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ’’تزکیہ نفس‘‘ اس تحریک کی اساس ہے اور’’اصلاحِ باطن‘‘ اس کا مرکزی پیغام ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تحریریں اور خطابات محض علمی مباحث نہیں بلکہ قلوب کی تطہیر کا وسیلہ بنے۔ اُنہوں نے تصوف کو ایک جامد فلسفہ نہیں، بلکہ متحرک عمل کے طور پر پیش کیا۔ سچائی، اخلاص، محبت، تحمل اور خدمتِ خلق کو روحانیت کا جوہر قرار دیا۔ منہاج القرآن کے تربیتی نظام، شب بیداریاں، حلقہ جاتِ درود، محافلِ ذکر، عرفانی لیکچرز اور روحانی اجتماعات میں جو نورانی فضا قائم ہوتی ہے، وہ دراصل اس بات کی دلیل ہے کہ تصوف اب بھی دلوں کو زندہ کرنے کی قوت رکھتا ہے، اگر اس کا منہج قرآن اور سنت کی روشنی میں استوار کیا جائے۔
منہاج القرآن نے روحانیت کو طبقاتی غلامی سے نکال کر ہر فرد کے لیے قابلِ حصول بنا دیا۔ یہاں پیر اور مرید کا رشتہ خادم و مخدوم کا نہیں، بلکہ علم و محبت کا ہے۔ یہاں ہر وہ شخص جو سچائی کا متلاشی ہو، اس تحریک کا ہمسفر بن سکتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی رنگ ونسل، کسی بھی مسلک و مشرب یا مکتبِ فکر سے ہو۔
اس تحریک نے یہ ثابت کر دکھایا کہ خانقاہ صرف دیواروں کا نام نہیں، بلکہ وہ دل کی وسعت ہے جہاں اللہ بستا ہے۔ منہاج القرآن نے تصوف کو مسندوں سے اٹھا کر معاشرے میں اتارا، تاکہ ہر فرد بندگی کے سفر پر گامزن ہو سکے۔ یہ تحریک تصوف کو محض سلوک کی اصطلاحات سے نکال کر ایک ایسی شعوری تحریک میں بدل چکی ہے جو دلوں کو پاک کرتی ہے اور سماج کو سنوارتی ہے۔
درحقیقت، منہاج القرآن نے روحانیت کو علم، فہم اور عمل کے سانچے میں ڈھال کر اُمت کو وہ متاعِ گم گشتہ لوٹا دی ہے جو صدیوں سے محض رسوم و روایات کی گرد میں چھپی ہوئی تھی۔
منہاج القرآن کا روحانی تربیتی نظام
خانقاہی نظام میں تربیت کا محور عام طور پر ظاہری بیعت، وظائف اور روحانی مشاہدات ہوتے ہیں، جن میں دلیل کم اور جذبات زیادہ ہوتے ہیں۔ جبکہ منہاج القرآن نے تصوف کو کتاب و سنت کی بنیاد پر استوار کیا۔ اس تحریک کے روحانی تربیتی نظام میں سیرۃ النبی، تفاسیر قرآن، حدیث، فقہ، اور اخلاقی مضامین شامل ہیں، جنہیں روحانی تزکیہ کے ساتھ مربوط کیا جاتا ہے۔
رسم کے مقابلہ میں علم کا فروغ
خانقاہی نظام میں اب بھی کئی مقامات پر تعلیم و شعور سے زیادہ رسوم و روایات کی گونج سنائی دیتی ہے جبکہ منہاج القرآن نے علم کو ہر روحانی سفر کی بنیاد قرار دیا۔ اس تحریک نے روحانیت کو یونیورسٹی کی سطح تک پہنچایا اور طریقت کو جدید فہم اور علومِ جدیدہ کے ساتھ مربوط کر کے اسے ایک عالمی سطح کی فکری تحریک میں ڈھال دیا۔
خدمتِ خلق اور معاشرتی روحانیت کا مرکز
خانقاہی نظام کا مثبت پہلو یہ رہا ہے کہ وہ درویشی اور سادگی کا مظہر رہا، تاہم جدید تقاضوں کے مطابق اس کا سماجی کردار محدود رہا۔ اس کے برعکس منہاج القرآن نے روحانیت کو خدمتِ خلق، تعلیم، صحت، بین المذاہب ہم آہنگی اور امن عالم کی تحریک بنا کر روحانیت کے دائرہ کار کو وسعت دی۔
خانقاہی نظام ہمارے روحانی ورثے کا ایک قابلِ فخر باب ہے، جس نے کئی صدیوں تک انسانوں کے دلوں کو اللہ سے جوڑنے کا کام کیا مگر وقت کے تغیر نے اس نظام کو زوال کا شکار کر دیا۔ تحریک منہاج القرآن نے اس عظیم ورثے کو جدید دور میں نئے رنگ، نئی روشنی اور نئے شعور کے ساتھ زندہ کیا۔ یہ ایک ایسی روحانی تحریک ہے جو ماضی کی پاکیزہ روایت کو حال کی ضرورتوں سے جوڑ کر مستقبل کی راہیں روشن کر رہی ہے۔ تصوف کا اصل چہرہ وہی ہے جو شعور، محبت، علم، اخلاص اور خدمت سے روشن ہو اور اس چہرے کو تحریک منہاج القرآن نے آئینے کی طرح زمانے کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
پاکیزہ صوفیانہ ماحول کی تشکیل میں اہم کردار
اولیاء اللہ کے مزارات اسلامی تاریخ میں روحانی تربیت، اخلاقی ارتقاء اور دینی شعور کے مراکز رہے ہیں۔ ان عظیم ہستیوں کی زندگیوں کا اصل پیغام خالص توحید، اتباعِ سنت اور خدمتِ خلق تھا۔ ان مزارات اولیاء پر ہونے والی سرگرمیاں تقوی اور خدمتِ خلق سے عبارت تھیں۔ عوام نے بھی ان مزارات کو روحانی تربیت، دعا اور اصلاحِ احوال کے مراکز کے طور پر اپنایا لیکن بد قسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مقدس مقامات پر ایسی خرافات نے جگہ بنا لی جو دین کی روح اور شریعت کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ ان درباروں پر غیر شرعی رسومات، خرافات اور بدعات کا راج ہو گیا، جنہوں نے ان مقامات کی اصلی روح کو مسخ کر دیا۔
ایسے میں تحریک منہاج القرآن نے ان مقامات کو دین، علم، اخلاق اور روحانیت کے اصل مراکز میں بدلنے کی مخلصانہ کوشش کی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں دین اسلام کے اصل پیغام کو عام کرنے اور خرافات کا قلع قمع کرنے کے لیے علمی، فکری اور عملی اقدامات کیے۔ مزارات پر ہونے والی محافل کو محافل ذکر و فکر، مجالسِ حمد و نعت، دروسِ قرآن و حدیث اور روحانی تربیت کے ذریعے دین سے ہم آہنگ کیا۔ ان محافل میں عوام الناس کو توحید، رسالت، قیامت، عبادات، اخلاق اور خدمتِ انسانیت جیسے بنیادی اسلامی موضوعات سے روشناس کروایا جاتا ہے۔
منہاج القرآن کی ان کاوشوں نے لوگوں کو روحانی بالیدگی، قلبی سکون اور اخلاقی تربیت کا راستہ دکھایا۔ ان محافل کا مقصد محض رسوم نہیں بلکہ دلوں کی اصلاح، اعمال کی تطہیر اور سوسائٹی میں خیر کا فروغ ہے۔ ان محافل میں مرد و خواتین کی الگ نشستوں، باحجاب ماحول اور باقاعدہ تربیتی پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ منہاج القرآن محض جذباتی نہیں بلکہ علمی و فکری بنیادوں پر معاشرے کی اصلاح چاہتی ہے۔