اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم اور حضور نبی اکرم ﷺ کے حکم کی حجیت کو یکساں اور ایک قرار دینے، مقامِ نبوت و رسالت کی عظمت کو ہمارے اذہان میں جاگزیں کرانے اور قرآن و سنت کے لزوم اور وجوب کو ایک قرار دینے کے لیے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر یہ اسلوب بھی اختیار کیا ہے کہ اپنا اور اپنے حبیب ﷺ کا ذکر کر کے فعل میں تثنیہ کی ضمیر استعمال نہیں کی بلکہ واحد کی ضمیر استعمال کی تا کہ یہ امر واضح ہوجائے کہ حکمِ الٰہی اور حکمِ رسول کا آپس میں وحدت کا تعلق ہے، یہ علیحدہ نہیں بلکہ ایک ہیں اور اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کی حجیت اور اتھارٹی ایک ہے۔ اگر اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے اکٹھے ذکر میں تثنیہ کی ضمیر آتی تو اس کا مطلب تھا کہ یہ دونوں جدا جدا ہیں۔ اسی لیے اللہ نے ہر جگہ واحد کی ضمیر استعمال فرمائی اور واضح کردیا کہ ہم دونوں جدا نہیں اور ہمارے حکم کی حجیت و اتھارٹی ایک ہی ہے۔
اس سلسلۂ تحریر کے گذشتہ حصہ (شائع شدہ ماہ جون 2025ء) میں ہم اس باب میں چند آیات کریمہ کا مطالعہ کرچکے ہیں۔ مزید آیات ملاحظہ ہوں:
1۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ.
(الانفال، 8: 24)
’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دونوں) کی طرف فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو۔ ‘‘
آیت کریمہ میں مذکور دَعَاکُمْ کے فعل کا فاعل رسول ہے، اس کا فاعل اللہ نہیں ہے۔ یعنی بلانے والے رسول اللہ ﷺ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے اس بلاوے پر لبیک کہنے کی تلقین کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ
تو پھر اللہ اور رسول دونوں کی طرف جواب دیتے ہوئے حاضر ہوجایا کرو۔
پس معلوم ہوا کہ جب بلانے والے رسول اللہ ﷺ ہیں تو اُن کے بلاوے پر لبیک کہنا کہ ’’میں حاضر ہوں‘‘، یہ لبیک کہنا صرف رسول اللہ ﷺ کے بلاوے پر نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے بلاوے پر لبیک کہنا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دعاکم میں واحد کی ضمیر استعمال فرمائی تاکہ پتہ چل جائے کہ اللہ کی دعوت اور رسول اللہ ﷺ کی دعوت ایک ہے۔۔۔ اللہ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی حجیت ایک ہے۔۔۔ ان میں فرق کرنا اللہ کی منشاء اور قرآن مجید کے حکم کے خلاف بغاوت ہے۔
اس آیت کریمہ کے مفہوم کی مزید واضحیت ہمیں حدیث رسول ﷺ سے بھی میسر آتی ہے۔ حضرت ابو سعید بن معلی فرماتے ہیں:
کُنْتُ أُصَلِّی فِی الْمَسْجِدِ فَدَعَانِی رَسُولُ اللَّہِ ﷺ فَلَمْ أُجِبْہُ، حَتّٰی صَلَّیْتُ فَأَتیْتُہٗ فَقَالَ مَامَنَعَکَ اَنْ تَاتِیَنِیْ؟ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ ﷲِ إِنِّی کُنْتُ أُصَلِّی، فَقَالَ ﷺ :أَلَمْ یَقُلْاللہ تعالیٰ (اسْتَجِیبُوا لِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیکُمْ)
(بخاری، الصحیح، کتاب التفسیر، باب ما جاء فی فاتحۃ الکتاب، 4: 1623، رقم:4204)
میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ آقا ﷺ نے مجھے بلایا۔ میں آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوا۔ تیزی سے نماز کو مکمل کیا اور سلام پھیرنے کے بعد آقا ﷺ کی بارگاہ میں پہنچا تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: اے ابوسعید! کیا تونے سنا نہیں تھا کہ میں نے تمہیں بلایا تھا؟ میں نے کہا: جی، میں نے سنا تھا لیکن میں نماز میں تھا۔ اس پر آقا ﷺ نے فرمایا کہ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ کلام نہیں سنا کہ ’’جب بھی رسول تمہیں بلائے توفوری لبیک کہتے ہوئے اللہ اور رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجایا کرو۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر یہ اسلوب بھی اختیار کیا ہے کہ اپنا اور اپنے حبیب ﷺ کا ذکر کر کے فعل میں تثنیہ کی ضمیر استعمال نہیں کی بلکہ واحد کی ضمیر استعمال کی تا کہ یہ امر واضح ہوجائے کہ حکمِ الٰہی اور حکمِ رسول کا آپس میں وحدت کا تعلق ہے، یہ علیحدہ نہیں بلکہ ایک ہیں اور اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کی حجیت و اتھارٹی ایک ہے۔
معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا بلانا کسی غیر کا بلانا نہیں ہے، جب رسول اللہ ﷺ بلا رہے ہیں تو رسول اللہ ﷺ کا بلاوا بھی اللہ تعالیٰ کا بلاوا ہے۔ عقیدہ رسالت کو سمجھنے کے لیے اسی تصور کو بنیاد بنانا ہوگا۔ نہ جانے کس تصور نے امت کو عقیدۂ رسالت کی صحیح معرفت سے محروم کر دیا کہ وہ توحید و رسالت اور قرآن و سنت کے باہمی تعلق کو سمجھنے سے قاصر رہی اور گمراہ ہوگئی۔
اس حدیث مبارک کے ذریعے آقا علیہ السلام نے عقیدہ رسالت کے حوالے سے امت کی رہنمائی اور تربیت فرمائی ہے۔ آقا ﷺ نے اپنے صحابی کو نماز پڑھتے دیکھنے کے باوجود آواز دی۔ اس سے واضح ہورہا ہے کہ گویا امتحان لے رہے ہیں اور صرف امتحان ہی نہیں بلکہ اس موقع پر تربیت بھی فرمانا چاہتے ہیں اور ایک نمونہ بھی دینا چاہتے ہیں۔ اگر یہ نمونہ آقا ﷺ اس وقت نہ دیتے تو آج تک امت کو یہ مسئلہ اور قرآن مجید کی اس آیت کی سمجھ نہ آتی اور اس کا حقیقی معنی ہم تک نہ پہنچتا۔ پس آقا ﷺ نے عملی طور پر اس آیت کے معنی کو بیان فرما دیا۔
اگر ہم نماز پڑھ رہے ہوں، اور ہمارے پاس سے مفتی اعظم بھی گزریں تو شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم ان کے بلانے پر نماز توڑ کر ان کے پاس آجائیں۔ یہ کسی کا حق نہیں ہے، اس لیے کہ حالتِ نماز میں بندہ اللہ کے حضور پیش ہوتا ہے، وہ اللہ کے دروازے پر ہے اور کسی کو حق نہیں کہ اللہ کے دروازے پر کھڑے ہوئے بندے کو وہاں سے ہٹائے اور اپنے پاس بلائے۔ آقا ﷺ نے اس تصور کو سمجھانے کے لیے اس صحابی کو آواز دی کہ میرا بلانا عام بندے کا بلانا نہیں ہے بلکہ میرا بلانا اللہ ہی کا بلانا ہے۔ پس اس تصور اور عقیدہ کو سمجھانے کے لیے آپ ﷺ نے اس صحابی کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھنے کے باوجود آواز دی اور یہ دیکھنا چاہا کہ وہ میرے بلاوے پر فوری آتا ہے یا نہیں؟
یہ واقعہ چونکہ پہلی بار پیش آرہا تھا، اس لیے وہ صحابی سمجھ نہیں سکتے تھے کہ اس صورت حال میں کیا کیا جائے کہ ایک طرف میں نماز پڑھ رہا ہوں اور دوسری طرف آقا ﷺ نے بلایا ہے۔ انہوں نے سمجھا کہ اگر آقا ﷺ کی طرف چلا گیا تو نماز ٹوٹ جائے گی، اس لیے انھوں نے تیزی سے نماز مکمل کی اور پھر حاضر ہوئے۔ آقا ﷺ نے سوال کیا کہ فوری کیوں نہیں آئے؟ حالانکہ آپ ﷺ کو علم تھا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آقا ﷺ فرماتے ہیں:
أَلَمْ یَقُلْاللہ تعالیٰ:اسْتَجِیبُوا لِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ.
کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ جب بھی رسول تمہیں بلائے تو اللہ اور رسول دونوں کی بارگاہ میں فوری حاضر ہوجایا کرو۔ رسول اللہ ﷺ کے بلانے میں حیاتِ جاودانی، حیاتِ روحانی اور حیاتِ ایمانی ہے، جو زندگی تمھیں نماز میں ملتی ہے، وہی زندگی تمھیں رسول اللہ ﷺ کے بلاوے سے ملتی ہے۔
پس آپ ﷺ نے اس آیتِ کریمہ کی طرف اس صحابی کو متوجہ فرماکر واضح کردیا کہ میرا بلانا کسی غیر اللہ کا بلاوا نہیں تھا بلکہ اللہ ہی کا بلاوا تھا۔ تم فوری نماز چھوڑکر آتے، مجھے لبیک کہتے، میری بات سنتے، مجھے جواب دیتے، مجھ سے ہم کلام ہوتے اور میرا کام کرتے تو تمھاری نماز نہ ٹوٹتی۔ تم میری بات سن کر اور میرے کہے پر عمل کرنے کے بعد وہیں سے نماز شروع کرتے جہاں سے چھوڑی تھی تو نہ نماز ٹوٹتی اور نہ سجدہ سہو کرنا پڑتا۔
معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مشغول رہنا، اللہ کی عبادت میں مشغول رہنا ہے۔ یہ شان کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں ہوسکتی، خواہ وہ خلفائے راشدین ہوں یا صحابہ کرام، اہل بیت اطہار ہوں یا اولیاء کرام، کسی کو یہ شان حاصل نہیں۔ یہ صرف حضور نبی اکرم علیہ السلام کے خصائص میں سے ہے۔
عقیدۂ رسالت کو سمجھنے کے لیے اس تصور کو بنیاد بنانا ہوگا کہ اللہ کی دعوت اور رسول اللہ ﷺ کی دعوت ایک ہے۔ اللہ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی حجیت ایک ہے۔ ان میں فرق کرنا اللہ کی منشاء اور قرآن مجید کے حکم کے خلاف بغاوت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا بلانا کسی غیر کا بلاوا نہیں ہے بلکہ اللہ ہی کا بلانا ہے۔
اسی موضوع سے متعلقہ ایک اور حدیث مبارک ملاحظہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
خَرَجَ رَسُولُ ﷲِ عَلَی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ وَھُوَ یُصَلِّی، فَقَالَ: یَا أُبَیُّ فَالْتَفَتَ ابی فَلَمْ یُجِبْہُ، ثُمَّ صَلَّی أُبَیٌّ فَخَفَّفَ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی رَسُولِ ﷲِ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْکَ یا رَسُولَ ﷲِ، قَالَ: وَعَلَیْکَ السّلام قَالَ: مَا مَنَعَکَ یا أُبَیُّ إِذْ دَعَوْتُکَ أَنْ تُجِیبَنِی قَالَ: أَیْ رَسُولَ ﷲِ انی کُنْتُ فِی الصَّلَاۃِ۔ قَالَ: أَفَلَمْ تَجِدُ فِیمَا أَوْحَیاللہ إِلَیَّ أَنْ {اسْتَجِیبُوا لِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیکُمْ} قَالَ: بَلَی یا رَسُولَ اللَّہِ و لَا أَعُودُ ان شاء اللہ.
(سنن ترمذی، کتاب فضائل القرآن، رقم: 2884)
آقا ﷺ ابی بن کعب کی تلاش میں نکلے، ان کے پاس تشریف لائے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ آقا ﷺ نے فرمایا: اے ابی بن کعب! ابی بن کعب نے آقا ﷺ کی زبان مبارک سے اپنا نام سن کر اپنا چہرہ اس حالت میں آقا ﷺ کی طرف کردیا کہ ان کے ہاتھ حالتِ نماز کی طرح بندھے ہوئے تھے۔ اب انھیں یہ پتہ نہیں تھا کہ کیا کروں، ان کے ساتھ پہلی بار یہ واقعہ پیش آیا تھا، اس لیے انھوں نے اپنا چہرہ تو آپ ﷺ کی طرف کردیا مگر کوئی کلام نہ کیا اور آپ ﷺ کو کوئی جواب نہ دیا۔
پھر انھوں نے تیزی سے نماز مکمل کی اور آقا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا۔ آقا ﷺ نے ابی بن کعب کو جواب دیا اور فرمایا: اے ابی بن کعب! جب میں نے بلایا تھا تو آپ کو کس چیز نے مجھے جواب دینے سے روکا؟ وہ جواب دیتے ہیں: یا رسول اللہ! میں نماز میں تھا۔ آقا ﷺ نے فرمایا: اے ابی بن کعب! کیا اللہ کی وحی اور قرآن میں تم یہ حکم نہیں پاتے کہ اللہ نے فرمایا کہ جب بھی تمہیں رسول آواز دے تولبیک کرتے ہوئے اللہ اور اللہ کے رسول کی بارگاہ میں حاضرہو جایا کرو۔ میری بارگاہ میں فوراً حاضر ہونا یہ اللہ اور اللہ کی رسول کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ یہ فقظ میری طرف آنا نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی طرف آنا ہے۔ نماز میں بھی تم اللہ کی عبادت میں تھے اور اگر میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے میرے پاس آجاتے تو تمھارا یہ عمل بھی اللہ کی عبادت ہی متصور ہوتا۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ادب کا عالم دیکھئے کہ حالتِ نماز میں ہی اپنا چہرہ آقا ﷺ کی طرف کردیا۔ اگر آج ہمارے زمانے کا کوئی فرد ہوتا جو علم اور توحید کا بڑا علمبردار ہوتا تو شاید مڑ کر بھی نہ دیکھتا، کھڑا رہتا اور کہتا کہ حضور ﷺ خود دیکھ لیں گے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں۔ صحابہ کرام کو اگرچہ اس وقت تک مسئلہ کی سمجھ نہیں تھی مگر ان کے اندر ذاتِ مصطفی ﷺ کا ادب و احترام اور شانِ رسالت کی بلندی کا فہم موجود تھا۔ اندازہ کریں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نمازمیں کھڑے ہیں مگر اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ آقا ﷺ کے بلانے کے باوجود اپنا چہرہ قبلہ کی طرف کر کے کھڑے رہیں۔ انھوں نے فوراً آقا ﷺ کی طرف اپنا چہرہ موڑ لیا اور ہاتھ حالتِ نماز کی طرح باندھے رکھے تا کہ آقا ﷺ کو پتہ چل جائے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ہمیں آواز دے اور ہم اس کی طرف مڑ کر دیکھ لیں، بے شک جواب نہ دیں تو کیا نماز باقی رہتی ہے؟ نہیں، بلکہ ٹوٹ جاتی ہے، اس لیے کہ قبلہ رخ سے دائیں یا بائیں جانب پھرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ اس فقہی مسئلہ سے تو آشنا ہوں گے کہ اگر چہرہ رخِ کعبہ سے مڑگیا تونماز ٹوٹ جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ حضور ﷺ کی طرف چہرہ مڑجانے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ اس لیے کہ اگر ان کا یہ عقیدہ ہوتا کہ نماز ٹوٹ جاتی ہے تو پھر حضرت ابی بن کعب اپنا چہرہ آقا ﷺ کی طرف پھیرنے کے بعد خاموش نہ رہتے، بلکہ باتیں بھی شروع کردیتے کہ نماز تو پہلے ہی رخ کعبہ سے پھرنے کے سبب ٹوٹ گئی ہے۔ اگروہ یہ سمجھتے کہ آقا ﷺ کی طرف مڑ کر دیکھ لینے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے تو پھر باتیں بھی شروع کر دیتے۔ مگر یہ اُن کا عقیدہ نہ تھا۔ اُن کا عقیدہ تو یہ تھا کہ چہرہ کعبہ کی طرف سے ہٹا کر مصطفی کی طرف کردیا جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی۔ وہ اللہ کی طرف رخ کرنے اور حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف رخ کرنے کو ایک ہی طرف رخ کرنا سمجھتے تھے۔
پس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اپنا چہرہ مصطفی ﷺ کی طرف پھرنے کے باوجود خاموش اس لیے رہے کہ انھیں اس کے بعد مسئلہ کی سمجھ نہیں تھی کہ اب کیا کرنا ہے؟ اس لیے نماز مکمل کرنے کے بعد آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا حکم اللہ نے دیا ہے اور اللہ کے ہر حکم کی اطاعت بجا لانا عبادت ہے
یاد رکھیں! اللہ کی عبادت صرف رکوع، قیام اور سجود نہیں ہے بلکہ آقا ﷺ کے حکم کی اطاعت بھی اللہ کی عبادت ہے۔۔۔ آقا ﷺ کی محبت بھی اللہ کی عبادت ہے۔۔۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ہر سنت پر عمل کرنا بھی اللہ کی عبادت ہے۔۔۔ آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر چلنا بھی اللہ کی عبادت ہے، اس لیے کہ یہ اللہ ہی کا حکم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ پر چلو اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرو۔ پس اللہ کے حکم کی اطاعت بجا لانا بھی اللہ کی عبادت ہے۔
جس طرح والدین کی فرمانبرداری کرنا بھی اللہ کی عبادت ہے، کیونکہ والدین کے ساتھ نیکی کا حکم اللہ نے دیا ہے۔۔۔ رزقِ حلال کمانا اور رزقِ حرام سے بچنا بھی اللہ کی عبادت ہے، حالانکہ یہ سجدہ، رکوع، قیام اور تلاوت نہیں ہے مگر رزقِ حلال کے لیے محنت چونکہ اللہ کے حکم سے کررہے ہیں، اس لیے یہ بھی اللہ کی عبادت ہے۔۔۔ علم کے حصول کے لیے سفر کرنا بھی اللہ کی عبادت ہے کیونکہ اللہ نے حصولِ علم کا حکم دیا ہے۔۔۔ کسی کو اس نیت سے کھانا کھلانا کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو یہ بھی اللہ کی عبادت ہے۔۔۔ الغرض غریب کی مدد کرنا، یتیم کی کفالت کرنا، جہاد پر جانا، پڑوسی کوکھانا بھیجنا، بے روزگار کی مدد کر دینا، غریب کو کھانا دینا، یتیموں اور غریبوں کا سہارا بن جانا، مسکراہٹ سے کسی سے ملنا، دل جوئی کرنا، بھلائی کے کام کرنا، لوگوں کو عزت دینا، مہمانوں کو عزت کے ساتھ اپنے ہاں بٹھانا، ملتے ہوئے السلام علیکم کہنا، سلام کا جواب محبت سے دینا، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی کرنا، غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا اور اپنے وعدے ایفا کرنا، یہ سب عبادت ہے، اس لیے کہ اللہ نے ان امور کو بجا لانے کا حکم دیا ہے اور اللہ کے ہر حکم کی صدقِ نیت سے تعمیل کرنا، اللہ کی عبادت ہے۔
اسی طرح اللہ کا حکم ہے کہ رسول کی اطاعت کرو، پس رسول کے حکم کی اطاعت کی نیت سے کوئی بھی کام کرنا عبادت کہلائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ.
(الأنفال، 8: 24)
یعنی تمہارے قلوب و ارواح کی زندگی رسول اللہ ﷺ کے بلاوے میں ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کے بلاوے میں روحانی اور ایمانی زندگی ہے تو مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہمارے ایمان کو زندہ کرتا ہے۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کے حکم پر عمل کرنا اور اسے واجب و لازم جاننا، ہماری حیاتِ ایمانی ہے۔۔۔ اور اس کا انکار کرنا ہمارے ایمان کی موت ہے۔ وہ لوگ جو حجیتِ حدیث و سنت کا انکار کرتے ہیں وہ دراصل اپنی ایمانی موت سے ہمکنار ہورہے ہیں۔
قرآن مجید کی آیات اور احکامات ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ہر آیت دوسری آیت کی تائید کرتی ہے یا اس کی وضاحت کرتی ہے۔ یہ ٹکراؤ اور تضاد ہمیں اپنی ناقص عقل کے باعث نظر آتا ہے۔ ہم نے اپنی سوچ کو قرآن اور دینِ اسلام پر حاوی کر رکھا ہے اور قرآنی تعلیمات کو اپنی سوچ اور اپنے فہم کے مطابق موڑنا چاہتے ہیں
امام قرطبی نے اس حدیث مبارک کے حوالے سے امام شافعی کا قول درج کیا ہے کہ امام شافعی فرماتے ہیں:
ہذا دلیل علی أن الفعل الفرض أو القول الفرض إذا أتی بہ فی الصلاۃ لا تبطل، لأمر رسول ﷲ بالإجابۃ وإن کان فی الصلاۃ.
(قرطبي، جامع لأحکام القرآن، 9: 484)
صحابہ کرامؓ کا نماز کی حالت میں آقا ﷺ کا حکم سننا کہ میرے پاس آؤ اور اس آواز پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا فوراً آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوجانا، اس عمل سے ان کی نماز باطل نہیں ہوتی تھی۔ وہ نماز چھوڑ کر حضور نبی اکرم علیہ السلام کے تفویض کردہ کام کر کے آتے اور پھر وہیں سے نماز پڑھنا شروع کردیتے جہاں سے چھوڑ کر گئے تھے۔
2۔ قرآن مجید کے وہ مقامات جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا اور اپنے محبوب ﷺ کا نام اکٹھا ذکر کیا مگر دونوں کے لیے تثنیہ کی بجائے واحد کی ضمیر استعمال کی، اُن آیات میں سے ایک اور آیت ملاحظہ ہو: اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ.
(التوبۃ، 9: 62)
اللہ اور اس کا رسول (علیہ السلام) زیادہ حقدار ہے کہ وہ اسے راضی کریں۔
سوال یہ ہے کہ آیت مبارکہ میں کس کو راضی کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ اللہ کو یا اس کے رسول ﷺ کو؟ اس لیے کہ بات تو دو کی ہورہی ہے مگر ضمیر واحد کی استعمال ہوئی ہے۔ عام قاعدہ کی رو سے تو تثنیہ کی ضمیر استعمال ہونی چاہیے تھی اور یہ کہا جاتا: اَنْ یُّرْضُوْہُمَا کہ اُن لوگوں پر ایمانی ذمہ داری ہے کہ اللہ اور اس کے رسول دونوں کوراضی کریں۔ یہاں یہ نہیں فرمایا بلکہ فرمایا: اَنْ یُرْضُوْہٗ (اُس کو راضی کریں۔ ) آیت کی ابتداء میں نام اللہ اور رسول دونوں کا آیا مگر واحد کی ضمیر اس لیے استعمال کی تاکہ واضح کردیا جائے کہ رضائے رسول ہی رضائے الہٰی ہے اور رضائے رسول، رضائے الہٰی سے مختلف نہیں۔ جیسے اطاعتِ رسول، اطاعتِ الٰہی سے جدا نہیں۔۔۔ جیسے محبتِ رسول، محبتِ الٰہی سے جدا نہیں۔۔۔ جیسے معصیتِ رسول، اللہ کی معصیت سے جدا نہیں۔۔۔ جیسے حدِ رسول کا حکم، اللہ کی حد کے حکم سے جدا نہیں۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کی رضا، اللہ ہی کی رضا ہے، یہ آپس میں جدا نہیں۔۔۔ اسی طرح رسول کی بیعت اللہ کی بیعت سے جدا نہیں، جو رسول ﷺ کی بیعت کر رہے ہیں، وہ اللہ ہی کی بیعت کر رہے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ ؕ یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ.
(الفتح، 48: 10)
اے میرے حبیب ﷺ جو لوگ آپ کے دستِ اقدس پر بیعت کرتے ہیں، انھیں کوئی اور مغالطہ نہ لگے، انھیں معلو م ہو کہ وہ اللہ ہی کی بیعت کررہے ہیں۔ پھر مزید تصریح کرتے ہوئے فرمایا:ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ یعنی بیعت کرتے وقت رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کو محض رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ نہ جانو بلکہ اللہ کا ہاتھ جانو۔
3۔ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اللہ نے اپنا اور اپنے رسول کا ذکر اکٹھا کیا مگر ضمیر واحد کی استعمال کی۔ ارشاد فرمایا:
وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ.
(التوبۃ، 9: 74)
’’انہیں اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں غنی کرنے کا فعل صرف اللہ کی طرف نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی طرف بھی ہے، اس لیے قاعدہ کے اعتبار میں من فضلھما ہونا چاہیے تھا کہ اللہ اور اس کے رسول دونوں نے اپنے فضل سے غنی کیا مگر اللہ رب العزت نے تثنیہ کی ضمیر وارد نہ کر کے اس دوئی کی جڑ کاٹ دی اور واضح کردیا کہ غنی کرنے کے عمل میں بھی اللہ اور رسول کا غنا ایک ہے اور فضل کے معاملے میں بھی دونوں کا فضل ایک ہے۔ رسول کا فضل فرمانا بھی اللہ ہی کا فضل فرمانا ہے۔
آج ہم اتنی بات بھی کہنے سے ڈرتے ہیں کہ ’’اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے غنی کردیا اور رسول اللہ ﷺ کا ہم پر فضل ہے۔ ‘‘ اس لیے کے ہمارے تصورات واضح نہیں رہے۔ غنی کرنے میں اللہ کے نام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا نام ملا دیا تو سوچتے ہیں کہ کہیں شرک نہ ہو جائے۔ افسوس کہ ہم نے توحید کو سمجھا ہی نہیں اور ہم جانتے ہی نہیں کہ شرک کی حدود کیا ہیں؟ ہم نے توحید کو شرک بنا دیا ہے اور توحید کے اندر شرک کی آمیزش کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرمارہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے انھیں اپنے فضل سے غنی کیا تھا۔
4۔ قرآن مجید میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ دونوں کا ذکر فعل کی ضمیر واحد کے ساتھ ہونے کے حوالے سے ایک اور آیت کریمہ ملاحظہ ہو۔ ارشاد فرمایا:
اِذَا دُعُوْۤا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ.
(النور، 24: 51)
’’جب انہیں اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ اوراس کے رسول دونوں کی طرف بلانے کی بات ہے مگر جب فیصلہ کرنے کے بارے میں واضحیت دی تو فعل لِیَحْکُمَ واحد کی ضمیر استعمال کی کہ وہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے۔ یہاں بھی قاعدہ کے مطابق واحد کی ضمیر نہیں بلکہ تثنیہ کی ضمیر ہونی چاہیے تھی اور یوں کہا جاتا کہ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی ﷲِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَا کہ وہ دونوں (اللہ اور رسول) ان کے درمیان فیصلہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا بلکہ فرمایا: لِیَحْکُمَ وہ فیصلہ کردے۔ اس اسلوب سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ یہاں ضمیرکا مرجع صرف رسول کی ذات ہے حالانکہ دعوت الی اللہ بھی ہے اور الی الرسول بھی ہے۔ پس اللہ کا حکم اور رسول کا حکم ایک ہے۔ رسول کے حکم پر لبیک کہنا اسی طرح ہے جیسے اللہ کی طرف دعوت پر لبیک کہنا۔
اسی بات کو سورۃ النساء میں بھی بیان کیا گیا۔ ارشاد فرمایا:
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
(النساء، 4: 65)
’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں۔ پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔ ‘‘
یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اختلاف کی صورت میں اللہ اوررسول کو حاکم بنائے بلکہ فرمایا میرے حبیب ﷺ جب تک آپ ﷺ کو حاکم نہ بنائے، اس وقت تک یہ صاحبِ ایمان ہی نہیں ہوسکتا۔
اختلاف کی صورت میں کس کی طرف رجوع کریں؟
اس موقع پر ایک اشکال کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیات ہمارے مذکورہ بالا مؤقف (کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے درمیان اختلاف کی صورت میں حاکم مانا جائے) کی نفی کرتی ہیں۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ.
(یوسف، 12: 40)
’’حکم کا اختیار صرف ﷲ کو ہے۔ ‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَ مَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْهِ مِنْ شَیْءٍ فَحُكْمُهٗۤ اِلَی اللّٰهِ.
(الشوریٰ، 42: 10)
’’اور تم جِس اَمر میں اختلاف کرتے ہو تو اُس کا فیصلہ اللہ ہی کی طرف (سے) ہوگا۔ ‘‘
اب ہم اختلاف کی صورت میں کس کی طرف جائیں؟ اللہ کی طرف یارسول اللہ ﷺ کی طرف؟ اس لیے کہ ان آیات میں تو صریحاً اللہ کی طرف جانے کا حکم دیا جارہا ہے۔
ہمارے قلوب و ارواح کی ایمانی زندگی آپ ﷺ کے بلاوے میں ہے۔ آپ ﷺ کا حکم ہمارے ایمان کو زندہ کرتا ہے۔ آپ ﷺ کے حکم پر عمل کرنا اور اسے واجب و لازم جاننا، ہماری حیاتِ ایمانی ہے۔ اس کا انکار کرنا ہمارے ایمان کی موت ہے۔ وہ لوگ جو حجیتِ حدیث و سنت کا انکار کرتے ہیں، وہ دراصل اپنی ایمانی موت سے ہمکنار ہورہے ہیں
اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت کی نفی نہیں کرتی اور نہ ہی قرآن کا ایک حکم دوسرے حکم کے مخالف ہے بلکہ ہر آیت دوسری آیت کی تائید کرتی ہے یا اس کی وضاحت کرتی ہے۔ یہ ٹکراؤ اور تضاد ہمیں اپنی ناقص عقل کے باعث نظر آتا ہے۔ ہم نے اپنی سوچ کو قرآن اور دینِ اسلام پر حاوی کر رکھا ہے اور قرآنی تعلیمات کو اپنی سوچ اور اپنے فہم کے مطابق موڑنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم ایسی سوچ رکھیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے فہم پر شیطان حاکم ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ کو قرآن کے تابع کردیں تو قرآن نے تو ہر چیز کھول کھول کر سمجھا دی۔ مذکورہ التباس اور اشکال بھی قرآن مجید کے مطالعہ سے دور ہوجاتا ہے۔
اختلاف کی صورت میں کس کی طرف رجوع کرنا ہے، اس حوالے سے قرآن مجید میں تین طرح کی آیات ہیں:
1۔ کچھ آیات میں فرمایا کہ اختلاف کی صورت میں حکم اللہ کا ہوگا۔ مثلاً: ارشاد فرمایا:
وَ مَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْهِ مِنْ شَیْءٍ فَحُكْمُهٗۤ اِلَی اللّٰهِ.
(الشوریٰ، 42: 10)
’’اور تم جِس اَمر میں اختلاف کرتے ہو تو اُس کا فیصلہ اللہ ہی کی طرف (سے) ہو گا۔ ‘‘
2۔ کچھ آیات میں فرمایا کہ اختلاف کی صورت میں حکم رسول کا ہوگا۔
مثلاً: ارشاد فرمایا:
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ.
(النساء4: 105)
’’(اے رسولِ گرامی!) بے شک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس (حق) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے۔ ‘‘
3۔ کچھ آیات میں فرمایا کہ اختلاف کی صورت میں حکم اللہ اور اس کے رسول کا ہوگا۔ مثلاً: ارشاد فرمایا:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ
(النساء، 4: 59)
’’ پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول ( ﷺ ) کی طرف لوٹا دو۔ ‘‘
ان تین طرح کی آیات میں تضاد نہیں بلکہ اسے ایک ہی حقیقت کے تین روپ تصور کیا جائے گا۔ جب ہم اس راز کو سمجھ جائیں گے کہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کا حکم ایک ہی حکم ہے تو پھر ہمیں ان آیات میں کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا۔ (اس سلسلہ وار تحریر کے گزشتہ چودہ حصوں میں بیسیوں آیات کریمہ اس موضوع پر بیان کی جاچکی ہیں)
پس حکم اللہ کا ہو تب بھی وہ رسول کا حکم ہوگا۔۔۔ حکم رسول کا ہو تب بھی وہ اللہ اور رسول کا حکم ہوگا۔۔۔ اور حکم اللہ اور رسول دونوں کا لکھا جائے تب بھی وہ ایک ہی حکم ہوگا۔ ہم اسے علیحدہ کر ہی نہیں سکتے، جو ایسا کرے گا وہ قرآن کی مخالفت کرے گا۔
رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت: منافقین کا شیوہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت کو منافقین کا شیوہ قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ
(النور، 24: 48)
’’اور جب ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو اس وقت ان میں سے ایک گروہ (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آنے سے) گریزاں ہوتا ہے۔ ‘‘
دربارِ رسالت میں آنے سے گریزاں رہنے والا یہ گروہ منافقین کا تھا۔ اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کے حکم کو نہ ماننے والوں کو قرآن مجید نے منافقین کہا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی طرف فیصلہ کے لیے آنے والوں کو حق پر ہونے والا قرار دیا کہ حق والے ہی حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف آتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
وَ اِنْ یَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْۤا اِلَیْهِ مُذْعِنِیْنَؕ
(النور، 24: 49)
’’اور اگر وہ حق والے ہوتے تو وہ اس (رسول ﷺ ) کی طرف مطیع ہو کر تیزی سے چلے آتے۔ ‘‘
یعنی اگر وہ لوگ حق پر ہوتے اور انھیں پتہ ہوتا کہ ہم حق پر ہیں اور فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا تو وہ دائیں بائیں نہ دیکھتے اور اعراض نہ کرتے۔ اس آیت میں بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ دونوں کا ذکر ہے مگر اِلَیْہِ ضمیر واحد کی بیان فرمائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کی طرف جانے میں اللہ اور رسول دونوں کی طرف جانا شامل ہے اور جو لوگ اس میں فرق کرتے ہیں، وہ منافقین ہیں۔
اس بات کو دوسرے مقام پر یوں واضح فرمایا:
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًاۚ
(النساء4: 61)
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول( ﷺ ) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ جب انھیں قرآن کی طرف بلایا جاتا ہے اورپھرساتھ ہی رسول کی طرف بھی بلایا جاتا ہے تو منافق اللہ اور قرآن کی طرف جانے سے نہیں گھبراتے لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی بات آتی ہے تو وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف آنے سے کتراتے ہیں اور آپ ﷺ کے حکم کو حجت ماننے سے گھبراتے ہیں۔ پس جو شخص قرآن کو تو حجت مانے مگر رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو حجت نہ مانے، ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن نے فتویٰ دے دیا کہ وہ منافق ہیں، ان کا اہلِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
آیت مبارکہ میں اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ یَصُدُّوْنَ عَنِّی کہ وہ میرے پاس آنے سے گھبراتے ہیں بلکہ فرمایا یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا میرے حبیب ﷺ ! آپ کی بارگاہ میں آنے اور آپ ﷺ کے حکم کو حجت مان کر حاضر ہونے سے کتراتے ہیں۔ لہٰذا جو فقط قرآن کو حجت ماننے کی بات کرے اور حکمِ رسول کو حجت نہ مانے، قرآن نے اسے منافق قرار دیا۔ اب یہ فیصلہ ہمارے اپنے پاس ہے کہ ہم قرآن کی اصطلاح کے مطابق منافق بننا چاہتے ہیں یا مومن بننا چاہتے ہیں؟ قرآن نے کہا کہ اگر مومن بننا ہے تو پھر سر جھکا کر اور پیکرِ اطاعت بن کر حکمِ رسول کی طرف آجاؤ اور حضور ﷺ کے فرمان کو قرآن کے فرمان کی طرح سمجھو۔ اس لیے کہ جو قرآن اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی حجیت میں فرق کرے، وہ قرآن کی رو سے منافق ہے۔
(جاری ہے)