سرپرست منہاج القرآن انٹرنیشنل یونان محترم سید محمد جمیل شاہ سے خصوصی گفتگو
انٹرویو پینل : محمد یوسف منہاجین، محمد فاروق اعوان
محترم سید محمد جمیل شاہ کی شخصیت یونان میں بسنے والے پاکستانی مسلمانوں کے لئے کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ منہاج القرآن انٹرنیشنل یونان کے سرپرست ہیں اور عرصہ 40 سال سے یونان میں مقیم مسلمانوں بالخصوص پاکستانی کمیونٹی کے حوالے سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جہاں آپ یونان کی سب سے پہلی رجسٹرڈ Pak Hellenic کلچرل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کے بانی صدر کے طور پر پاکستانی مسلمانوں کی ویلفیئر اور ثقافتی تحفظ کی ذمہ داری احسن طور پر انجام دے رہے ہیں وہاں الیکٹرانک میڈیا میں ’’Hellenic اردو ریڈیو سروس‘‘ کے نام سے ایک ریڈیو چینل کے ذریعے اسلام، اسلامی ثقافت اور پاکستان کے حوالے سے اہل یورپ کو آگاہ بھی کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں یونان سے شائع ہونے والے ماہنامہ ثقافت انٹرنیشنل کے منیجنگ ایڈیٹر کی ذمہ داری بھی شاہ صاحب کے پاس ہے۔ شاہ صاحب کا تعلق فیصل آباد کے ایک مذہبی گھرانے سے ہے اور آپ معروف نعت خواں سید منظور الکونین کے بھائی ہیں۔ آپ نے یونان میں امریکن یونیورسٹی ایتھنز سے Shipping (شپنگ) میں MBA کیا اور پھر شپنگ بزنس سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں ریسٹورنٹ اور ہوٹلنگ کے بزنس کا آغاز کیا۔ یونان میں پہلا فائیو سٹار ہوٹل قائم کرنے کا سہرا بھی شاہ صاحب کے سر ہے۔
ماہنامہ منہاج القرآن نے محترم سید محمد جمیل کی مرکزی سیکرٹریٹ آمد پر ان کے خیالات جاننے کے لئے ان سے خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا جو نذرِ قارئین ہے۔
میگزین : مسلمانوں کے حوالے سے یونان کے تاریخی پس منظر اور موجودہ صورت حال کو واضح فرمائیں؟
شاہ صاحب : یونان ایک کٹر Orthodox کرسچن ملک ہے۔ 400 سو سال وہاں مسلمانوں نے حکومت کی۔ کتبِ تاریخ کو اگر کھنگالا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دورِ اقتدار میں مسلمانوں نے یونان میں امن، سلامتی، رواداری، مساوات اور دیگر مذاہب کے احترام کے کلچر کو فروغ دیا۔ مگر چند غلط فہمیوں کی بناء پر آج اسلام کے بارے میں ان کے ذہنوں میں دہشت اور خوف کا عنصر موجود ہے۔ اسلام سے متعلق ان کے تحفظات کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 1980 تک یونان میں باجماعت نماز پڑھنا بھی بہت بڑا مسئلہ تھا۔ ہم چھپ کر نماز پڑھتے تھے۔ عید کی نماز کی اجازت بھی بہت مشکل سے ہمارا سفارت خانہ لیتا تھا۔ جب پاکستانی زیادہ تعداد میں وہاں آنے لگے تو ماحول آہستہ آہستہ ٹھیک ہونے لگا۔ مسلمان وہاں پر پہلے سے آباد تھے لیکن مساجد کا وہاں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ یہاں تک کہ رمضان میں تراویح کا اہتمام اپنے گھروں پر کرتے اور بڑی دھیمی آواز میں تلاوت کرتے۔ آہستہ آہستہ اللہ کا شکر ہے کہ اس ماحول میں تبدیلی آئی۔ بہر حال ہماری شروع دن سے یہ کوشش ہے کہ اس خوف و دہشت اور غلط فہمی کو یہاں کی مقامی آبادی کے دلوں سے رفع کرنے کے لئے یونانیوں سے مقامی سطح پر تعلقات کو زیادہ سے زیادہ استوار کیا جائے اور ان کو مثبت بنیادوں پر فروغ دیا جائے۔ حکومتی سطح اور عوامی سطح پر جب تک ہم ان کے ماحول اور روایات کو نہیں سمجھ سکیں گے وہ بھی ہمارے مذہب کو نہیں سمجھ سکیں گے۔الحمدللہ اس سلسلے میں منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے مثبت کردار ادا کیا گیا اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو معاشرے میں متعارف کروایا جارہا ہے۔
میگزین : منہاج القرآن سے وابستگی کب ہوئی اور یونان میں آپ نے اس حوالے سے کیا خدمات سرانجام دیں؟
شاہ صاحب : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے میرا پہلا تعارف ’’فہم القرآن‘‘ کے عنوان سے TV میں آنے والا پروگرام ہے۔ میں نے جب آپ کا خطاب سنا تو اس سے بے حد متاثر ہوا۔ کیونکہ میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے اور یہاں کے علماء میں بھی اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا اور علماء کا اکثر ہمارے گھر بھی آنا جانا تھا لیکن وہ انداز جو شیخ الاسلام کا میں نے محسوس کیا وہ مجھے کسی اور عالم دین میں نظر نہ آیا۔ اندازِ خطابت اور دلیل نے متاثر کیا۔ اس موقع پر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ایک نوجوان سکالر تو ایسا ہے جس کی شخصیت، انداز گفتگو ایسا ہے جو دلوں کو چھولیتے ہیں اور مدبرانہ طریقے سے ہر سوال کا جواب دیتے ہیں۔ اس طرح یہ میرا پہلا غائبانہ تعارف تھا جو شیخ الاسلام سے ہوا۔ بعد ازاں یونان میں میری ملاقات آصف نامی لڑکے سے ہوئی جو منہاج القرآن کا بہت ہی ہونہار کارکن ہے۔
وہ ایک دن میرے ریسٹورنٹ پر آیا اس کے پاس تین چار ویڈیو کیسٹس تھیں۔ اس نے مجھے کہا شاہ صاحب ان کو آپ ضرور دیکھیں اور سنیں۔ میں مصروفیت کی وجہ سے ٹال مٹول سے کام لیتا رہا مگر اس نوجوان کے مسلسل کہنے پر میں نے الحمداللہ وہ کیسٹس دیکھیں اور شیخ الاسلام کا مزید گرویدہ ہوگیا۔ اس طرح مجھے تحریک اور مشن کے قریب لانے کا کریڈٹ آصف کو جاتا ہے اس کے بعد اس نے کچھ اپنے دوستوں سے ملاقات کروائی میں نے تحریک کی فکر سے متاثر ہوکر اپنی صلاحیتیں اس پلیٹ فارم کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا اور بعد ازاں ہم نے یونان میں منہاج القرآن اسلامک سنٹر یونان کی بنیاد رکھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں ہمارا اسلامک سنٹر ہے وہاں پہلے کلب تھا۔ وہاں پر رہنے والے پاکستانی سارا دن محنت مزدوری کرتے اور شام کو مرکز پر تعمیراتی اور سجاوٹی کام کرتے۔ اس طرح تحریک منہاج القرآن کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ یونان میں پہلا باقاعدہ اسلامک سنٹر، منہاج اسلامک لائبریری کے نام سے وجود میں آیا اور یہی مسجد بھی قرار پائی کیونکہ یونان میں باقاعدہ مساجد کی اجازت نہیں۔ اس وقت یونان میں کم و بیش چالیس کے قریب پرائیویٹ مساجد ہیں اور وہ سب انڈر گراؤنڈ گیراجوں اور لائبریریوں کی شکل میں موجود ہیں۔ اس پہلے مرکز کے قیام کے وقت کمیونٹی کو تھوڑے بہت تحفظات تھے ان کو پتہ نہیں تھا کہ یہ لوگ کیا کرنے جارہے ہیں کیونکہ لوگوں کو علم نہیں تھا پروپیگنڈا زیادہ تھا۔ بہر حال اللہ کا کرم ہوا لوگوں کو اعتماد میں لیا۔ اس موقع پر الحاج شفیق خان صاحب، مرتضی قادری صاحب، عامر قادری صاحب اور دیگر احباب جو بنیادی کارکن تھے انہوں نے اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔
میگزین : قائد محترم سے پہلی براہ راست ملاقات کہاں ہوئی؟
شاہ صاحب : 1990ء کے اوائل میں مرکز کے قیام کے بعد تحریک نے باقاعدہ طور اپنا کام شروع کردیا۔ اس سنٹر سے پہلے صرف مصری مسلمانوں کے اسلامک سنٹرز تھے۔ بلاشبہ یہ ان نوجوانوں کی کاوش اور بھرپور محنت اور مشن کا فیض ہے۔ اس وقت ہمارے پاکستانی نوجوان جو روزگار کے سلسلے میں وہاں موجود تھے ان کی اکثریت بے راہ روی کا شکار تھی کیونکہ ان کے پاس کوئی مثبت سلسلہ یا Activity نہ تھی۔ شیخ الاسلام کی فکر کا نتیجہ اور خیروبرکت ہے کہ وہاں پر منہاج القرآن نے ان نوجوانوں کو کلبوں، کیفے ٹیریاز سے مسجد کا راستہ دکھایا۔ ان کی تعداد بڑھتی گئی ان میں شعور آتا گیا۔ مرکز لاہور کی طرف سے ان کو حوصلہ افزائی ملتی رہی، کیسٹس، ویڈیو کیسٹس کتب وغیرہ کا سلسلہ بھی جاری رہا اور مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ مرکز لاہور سے کتابیں اور سپارے سب سے پہلے میں لے کے گیا۔ آہستہ آہستہ ساتھیوں میں اور کارکنوں میں ایک تڑپ اور لگن ابھرنے لگی کہ قائد محترم کو یونان بلوایا جائے۔ اس وقت تک الحمدللہ یونان میں مشن کا سارا کام غائبانہ ہوتا رہا، مرکز سے کوئی عالم فاضل وہاں نہیں گیا تھا۔ لوگوں نے تمام کام صرف ویڈیو کیسٹس اور قائد محترم کی کتب سے فیض حاصل کرکے کیا اور یوں یہ لوگوں کی بانی و سرپرست تحریک کو دیکھے بغیر مشن سے وابستگی کی انتہا تھی۔ بہر حال جب شیخ الاسلام کا دورہ فائنل ہوا تو یہ میری خوش بختی اور خوش قسمتی ہے کہ میرے دوستوں نے مجھے بلوایا اور اس دورے کے تمام انتظامات کی ذمہ داری میرے سپرد کی حالانکہ اس وقت میرے پاس باقاعدہ کوئی ذمہ داری بھی نہیں تھی اور یہ سب صرف محبت اور عقیدت کی بناء پر تھا۔ اس دورہ کے موقع پر مجھے پہلی مرتبہ شیخ الاسلام کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، آپ نے میری حوصلہ افزائی فرمائی۔
اس دورہ کے موقع پر آپ نے گورننگ باڈی کے عہدے تقسیم کرنے تھے۔ اس سے پہلے جو ساتھی جو کام کررہا تھا وہ انہوں نے اپنے لئے مخصوص کرلئے تھے لیکن باضابطہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی ایک رات پہلے جب کھانے پہ ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور میں شیخ الاسلام کے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا تو یہی بات ہورہی تھی کہ کل مرکزی جلسے میں عہدے بھی تقسیم ہوں گے اور حلف بھی لیا جائے گا تو میں نے عرض کیا کہ میں یہاں کلچر سوسائٹی کا صدر ہوں اور کلچرل پروگرام کرواتا ہوں لوگوں کو انٹرٹین کرنے کے لئے مختلف فنکار بھی آتے ہیں۔ یہ نہ ہوکہ آپ مجھے کوئی عہدہ دیں تو یہ بات مشن کے لئے بدنامی کا باعث بنے۔ قائد محترم نے شفقت فرماتے ہوئے کہا شاہ صاحب آپ نہ گھبرائیں۔ مجھے اس سے ایک حوصلہ، قوت اور سکون ملا۔ اگلے دن قائد محترم نے مجھے اور ہماری کلچرل سوسائٹی کو Own کرنے کا اعلان فرمایا اور مجھے منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے کلچرل ونگ کا صدر نامزد کیا۔ وہ باضابطہ طور پر میرے لئے ایک اعزاز کی بات تھی۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ یونان میں پہلا مذہبی جلسہ تھا جو ایک باسکٹ بال سٹیڈیم میں منعقد ہورہا تھا۔ سٹیڈیم کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔ مجموعی طور پر یہ بہت کامیاب دورہ رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا تھا کہ آج مجھے لاہور کا قذافی سٹیڈیم یاد آگیا ہے۔ اس پروگرام کے حوالے سے ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ قائد محترم کے دورے سے پہلے ایک شخص آپ پر بہت تنقید کرتا تھا۔ اتفاق کی بات یہ کہ سٹیج پر جب ہم بیٹھے وہ ساتھی بھی سٹیج پر بیٹھے جن کا نام احد خان ہے اور وہ کراچی سے تھے۔ اس وقت قائد محترم نے اعلان کیا کہ ایگزیکٹو باڈی میں ہم احد خان صاحب کو یہ عہدہ دیتے ہیں جو شخص ایک رات پہلے اتنی تنقید کرتا تھا صرف ایک ملاقات اور ایک دفعہ ہاتھ ملانے سے اس کی کایا پلٹ گئی۔
میگزین : منہاج القرآن کلچرل ونگ کے صدر کے علاوہ آج تک کون کون سی ذمہ داریاں آپ کے پاس رہیں؟
شاہ صاحب : منہاج القرآن کلچرل ونگ کے صدر کے علاوہ میں نے مختلف حیثیتوں سے خدمات سرانجام دیں اور آج بھی ایگزیکٹو باڈی کا ممبر ہوں۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ جتنے بھی کام وہاں پر تنظیمی حوالے سے ہوتے ہیں ان تمام میں دوستوں سے صلاح مشورہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں منہاج القرآن کے معتدل اور حقیقی تصورات و فکر کی بناء پر میری سب سے بڑی ذمہ داری یونان میں موجود دیگر مذہبی تنظیموں کے ساتھ ایک اچھا تعلق پیدا کرنا بھی ہے تاکہ یونان کی روایات اور ان کے رہن سہن کو مدنظر رکھ کر دیگر مذہبی جماعتوں کو بھی اسلام کی حقیقی تعلیمات (جو شیخ الاسلام کے بہتر انداز میں دنیا میں پیش کی ہیں) کے مطابق گائیڈ لائن دینا ہے تاکہ اسلام کا اچھا تاثر پیدا ہو۔ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے اسلام کی حقیقی اور سچی تعلیمات کے صحیح اور مثبت ابلاغ کا نتیجہ ہے کہ آج تک اللہ کی مہربانی سے منہاج القرآن انٹرنیشنل کا شمار حکومتی اور نجی سطح پر A+ّ گریڈ میں ہے۔
میگزین : منہاج القرآن اور دیگر جماعتوں کے کام کے انداز، نظریہ و فکر میں کیا فرق دیکھتے ہیں؟
شاہ صاحب : یونان میں جتنی بھی تنظیمیں کام کررہی ہیں وہ اپنی سوچ و فکر کے اعتبار سے ٹھیک ہیں کیونکہ دعوی سب کرتی ہیں کہ ہمارا پیغام عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے لیکن جو چیز ان میں اور منہاج القرآن میں فرق پیدا کرتی ہیں وہ گلوبل سوچ اور عظیم مقاصد ہیں۔ چونکہ 40 سال سے یونان میں مقیم ہوں اس لئے وہاں پر موجود ہر تنظیم سے ایک تعلق بھی رہا ہے اور ان کی سوچ، ڈیمانڈ، وژن سارے میرے سینے میں محفوظ ہیں اور مجھے بہت آسان ہوتا ہے کہ میں موازنہ کرسکوں۔ قائد محترم کا وژن اس وقت پورے عالم اسلام اور پوری دنیا کا احاطہ کیا ہوئے ہیں۔ یہ میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ میرا ان سے انس ہے محبت یا میری اس تحریک سے ذاتی وابستگی ہے، نہیں میں یہ بات بالکل نیوٹرل ہوکے کہہ رہا ہوں کہ میں بہت ساری عظیم مذہبی شخصیات سے مل چکا ہوں جو چیز میں نے محسوس کی کہ اکثریت کا مطمع نظر دنیاوی مفادات اپنی ذاتی ناموری اور مال و دولت ہے۔ خواہ وہ تعلیم کی شکل میں ہو یا کسی اور صورت میں۔ شیخ الاسلام اور منہاج القرآن انٹرنیشنل اس حوالے سے منفرد تنظیم ہے کہ اس جیسا نظامِ دعوت و تعلیم اور کہیں نظر نہیں آتا۔ اس میں کوئی جھول نہیں ہے اور میں کہتا ہوں کہ یہ اس مرد قلندر کی ہمت اور حوصلہ، ان کے بزرگوں کی برکتیں اور ان کی دن رات کی انتھک محنت، لگن اور کوشش کا نتیجہ ہے۔ حضور قائد محترم کا برے سے برا دشمن بھی ان ساری چیزوں کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہے۔
میگزین : آج کل یونان کے کتنے شہروں میں منہاج القرآن کی تنظیمات موجود ہیں؟
شاہ صاحب : یونان میں منہاج القرآن انٹرنیشنل الحمدللہ اپنے عروج پر ہے اس وقت 40 مساجد جو ایتھنز (یونان کا دارالحکومت) کے اردگرد ہیں ان میں سے 30 الحمد للہ منہاج القرآن کے زیر انتظام ہیں۔
میگزین : عموماً سال بھر وہاں کیا کیا سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں؟
شاہ صاحب : وہاں کے تمام مرکزی سنٹرز میں ہفتہ وار محافل ہوتی ہیں جن میں قرآن، حدیث، فقہ اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے بریف کیا جاتا ہے۔ ان سنٹرز پر شیخ الاسلام کی کتب اور خطابات کی سی ڈیز اور کیسٹ دستیاب ہیں جن کو دکھانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں گیارہویں شریف کی محافل اور خصوصی مواقع پر بڑی محافل کا انعقاد بھی بڑی کامیابی سے کیا جاتا ہے۔ لوکل گورنمنٹ اور مقامی آبادی کے ذہنوں سے اسلام بارے منفی تاثرات کو ختم کرنے کے لئے ورکشاپس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
میگزین : بچوں اور خواتین کے لئے اسلامک سنٹرز کی سرگرمیاں کیا ہیں؟
شاہ صاحب : بہت ہی اہم سوال ہے عام طور پر ہمارے بچے اور ہماری مائیں، بہنیں گھروں میں بند رہتی ہیں ان کے لئے کوئی Activity نہیں ہوتیں۔ مرد صبح سے لے کر شام تک محنت مزدوریاں کرتے ہیں۔ ان حالات میں بچوں اور خواتین کی تربیت کا سہرا بھی منہاج القرآن کے سر ہے۔ مسجد علی میں MQI کے زیر انتظام سرگرم کارکن قاری محمد اکرم صاحب بچوں کو بلامعاوضہ قرآن پاک کی تعلیم دیتے ہیں جبکہ کسی اور تنظیم نے ایسا کارنامی سرانجام نہیں دیا۔ مستقبل میں ہم مرکز میں عورتوں اور بچوں کے لئے بھی اسی حوالے سے نیا سلسلہ شروع کرنے والے ہیں۔
اس کے علاوہ میں بذات خود الحمدللہ وہاں کے سرکاری ریڈیو Pak Hellic اردو سروس کے نام سے پروگرام کرتا ہوں جو پورے یونان میں آن ایئر جاتا ہے۔ اس پروگرام کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ گزشہ کچھ عرصہ ناروے سے کسی فاضل کا Live خطاب بھی سنایا جاتا ہے۔ پروگرام میں پہلے تلاوت نعت اور قومی ترانہ اور کسی کا بھی خطاب ہوتا ہے۔
میگزین : یونان میں جمعہ، عیدین اور رمضان کے معمولات کیا ہوتے ہیں؟
شاہ صاحب : الحمد للہ بہت زیادہ اور بڑے بڑے مرکزی پروگرام منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیر اہتمام ہوتے ہیں اور یہاں سے جو بھی عالم فاضل جاتا ہے وہ پورے یونان کی مساجد میں جاتے ہیں اور ان کی مصروفیات کا یہ عالم ہوتا ہے کہ دن میں تین تین چار چار پروگرامز ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کے منہاج القرآن انٹرنیشنل یونان میں بہت Active ہے۔ تمام کارکنان بڑی محنت اور لگن سے کام کررہے ہیں۔
میگزین : 9/11 کے بعد جو صورت حال Develope ہوئی ہے اس میں وہاں پر مسلم کمیونٹی کو کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اس تناظر میں شیخ الاسلام اور تحریک نے کیا کردار ادا کیا؟
شاہ صاحب : آپ نے ٹھیک فرمایا کہ 9/11 کے بعد پوری دنیا کا منظر بدل گیا اور بالخصوص عالم اسلام پر بہت کڑا وقت آیا اور ابھی تک بھی ہے موجودہ حالات میں ہمارا پاکستان بھی اس کٹھن دور سے گزر رہا ہے۔ اس حوالے سے یونان خوش قسمت ہے کہ باقی یورپین ممالک کی طرح سارا نزلہ پاکستان پر گرانے کی رسم ابھی کم ہے۔ بعد ازاں 7/7 کا سانحہ پیش آیا اور ایک دفعہ پھر پوری دنیا میں اور یورپ میں بالخصوص پاکستانیوں اور مسلمانوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس صورت حال میں ہم نے یونان میں جتنی مذہبی تنظیمی ہیں ان سب سے تفصیلاً گفتگو کی اور ان کو حقائق بارے آگاہ کیا۔ کیونکہ وہاں ہر تنظیم کی Activity کو آفیسرز واچ کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے یونان میں ہیومن سمگلنگ کا مسئلہ بہت بڑا ہے اور چونکہ یونان گیٹ وے ہے باقی یورپ کے لئے ازبک، افغانی اور دوسرے لوگ بھی جاتے ہیں لیکن پاسپورٹ وہ ہمارے استعمال کرتے ہیں۔ نتیجتاً کوئی بھی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس شخص سے پاکستانی پاسپورٹ برآمد ہونے سے پاکستان اور مذہبی جماعتوں کی بدنامی ہوتی ہے۔ الحمدللہ ہماری منہاج القرآن انٹرنیشنل اس حوالے سے بہترین رینکنگ میں ہے۔ ہم اپنے ہر پروگرام اور Movement میں تحریری طور پر ان کو باخبر کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے جو عالم فاضل آتے ہیں ان کا شیڈول بھی تحریری طور پر ان کے علم میں لاتے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ پر واچ کرتے رہتے ہیں اور مرکز کا انٹرنیٹ سسٹم بہت اپ ٹو ڈیٹ ہے اور اس کو وہ لوگ بھی Appriciate کرتے ہیں۔ جو عالم فاضل آتے ہیں وہ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کی پالیسی کے عین مطابق امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہیں نیز پاکستانیوں کو تلقین کرتے ہیں وہ یہاں کے قوانین کی پابندی کریں۔ شیخ الاسلام کے خطابات کے ذریعے اسلام کی حقیقی تصویر اس معاشرے میں متعارف کروائی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں میں اپنا ایک پندرہ روزہ اخبار ثقافت کے نام سے جو آدھا اردو اور آدھا یونانی زبان میں ہے اس میں خاص طور پر شیخ الاسلام کے پیغامات اور خطابات دیتا ہوں۔ اس میں جہاد اور دیگر اسلامی نظریات کو Define کیا جاتا ہے جس کا مغرب میں تصور بہت غلط ہے اور یہی اخبار بلا معاوضہ تمام اعلیٰ اور متعلقہ یونانی حکام کے پاس جاتا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ وہ یونانی زبان میں ہماری تحریکی سرگرمیوں کو پڑھیں اور اسلام کی صحیح تعلیمات کو جان سکیں۔
میگزین : اخلاقی، سماجی اور ثقافتی حوالے سے پاکستانی مسلمان کس طرح اپنی ثقافت اور اقدار کا تحفظ کررہے ہیں؟
شاہ صاحب : الحمد للہ اس چیز کا سہرا سب سے پہلے منہاج القرآن کو ہی جاتا ہے۔ نوجوانی کی عمر بہت نازک عمر ہے وہاں نوجوانوں کا بے راہ روی کی طرف جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اس لئے کہ بعض اوقات کام نہیں ملتا، بے روزگاری ہے۔ زیور زمینیں بیچ کے پہنچ گئے ہیں۔ اب کیا کریں گے اور اس طرح کے نوجوان غیر قانونی سرگرمیوں کے لئے آسان نشانہ ہیں۔ ظاہر ہے جب ان کو کھانے کے لئے نہیں ملے گا، ان کو پیچھے کی فکر ہوگی تو وہ اس طرح کی سرگرمیوں میں Involve ہوں گے۔ یہی اس تنظیم نے بیڑہ اٹھایا ہے کہ ان کی بہتری اور فلاح کے لئے کام کیا جائے لہذا ایسے نوجوان کی علمی، فکری، روحانی تربیت کا بندوبست کیا جاتا ہے تاکہ وہ اخلاقی بے راہ روی کا شکار نہ ہو نیز ان کے لئے حتی المقدور مناسب روزگار کا بندوبست کرنا بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔
میگزین : آپ وہاں بیٹھے ہوئے پاکستان کے حالات کو کیسے دیکھتے ہیں؟
شاہ صاحب : پہلی بات تو یہ ہے کہ وہاں جتنے بھی پاکستانی ہیں وہ اپنے وطن سے شدید محبت کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اپنے ملک کے حالات دیکھ کر فکر مند رہتے ہیں۔ وہاں پر محافل میں خصوصی دعائیں کروائی جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو سلامت رکھے اور ہمارے حکمرانوں کو عقل سلیم دے۔ بہر حال ایک پریشان کن صورت حال ضرور وہاں بیٹھے پاکستانی کو فکر مند رکھتی ہے کہ ہمارے ملک میں ہمارے اپنوں کو بنیادی ضروریات زندگی تک دستیاب نہیں، دہشت گردی کا مسئلہ بہت بڑا ہے اور ہم حیران ہوتے ہیں کہ 160 ملین کا ملک کیسے چل رہا ہے اور اگر سچ پوچھیں تو بے شک یہ ملک صرف اللہ تعالیٰ کے فضل اور بزرگان دین کی دعاؤں کے طفیل ہی چل رہا ہے۔
میگزین : اتحاد امت کے بارے میں کیا کہیں گے؟
شاہ صاحب : یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ مشکل بھی اس لئے کہ اس میں ہماری اپنی کوتاہیاں، نادانیاں اور مفادات ہیں۔ ایک ملک میں رہنے والوں کا آپس میں اتحاد نہیں تو اتحاد امت تو بڑی دور کی بات ہے۔ اس صورت حال میں اگر شیخ الاسلام کی فکر کا مطالعہ کریں اور منہاج القرآن کے مقاصد کا احاطہ کریں تو بلامبالغہ یہ بات کی جاسکتی ہے کہ اتحاد امت کے حوالے سے اب تک جتنی کاوشیں ہوئیں منہاج القرآن کا کردار ان سب میں سرفہرست اور نمایاں ہے۔ قائد محترم اس میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں وہ ایک ایسی شخصیت ہیں کہ اگر وہ آئیں اور ٹیبل پر بیٹھیں تو کوئی بھی شخصیت ایسی نہیں ہے جو ان سے اختلاف کرے۔ ان میں ماشاء اللہ اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اتحاد بھی کرسکتے ہیں اور ملا بھی سکتے ہیں۔ جس طرح یہاں انہوں نے ایک ہی پلیٹ فارم پر ہر مکتبہ فکر کے علماء اکٹھے کردیئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں، پوری دنیا کے معاملات پر ان کی نظر ہے اور گہرا مشاہدہ ہے۔
میگزین : تحریک کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
شاہ صاحب : ماشاء اللہ بہت اچھا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ہمت اور حوصلہ دے آپ کو ثابت قدم رکھے۔ مجھے منہاج القرآن کے مرکز پر آکر بے حد خوشی ہوئی۔ مرکز پر بہت ساری ایسی چیزیں اور Development ایسی ہوئی ہیں جو پہلے نہیں تھیں اور جن کی ضرورت تھی اور میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ
بلاشبہ بڑی بڑی NGO,s ہیں، تنظیمیں ہیں۔ لیکن ماشاء اللہ ہمارا سیٹ اپ ہر لحاظ سے مکمل ہے اور میں کہتا ہوں کہ یورپ کیا پوری دنیا کے مبصر بھی آجائیں تو ہر لحاظ سے تعریف ہی کریں گے اور ہم سب کا فرض ہے کہ ہم دل و جان سے اس کے ساتھ چلیں کوئی جیسے بھی اپنا کردار ادا کرسکتا ہے اس کی معاونت کرے اور وہ وقت دور نہیں جب قومی و بین الاقوامی حالات میں منہاج القرآن کا ایک اہم کردار ہوگا ان شاء اللہ۔
میگزین : قارئین اور کارکنان کو ایسا خصوصی پیغام جو ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دے؟
شاہ صاحب : میرا پیغام یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں جس طرح دین اسلام کو رسوا کیا جارہا ہے اور بالخصوص ہمارے ملک پاکستان کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور مستقبل میں بھی بہت ساری پلاننگ ہیں ان تمام کو ذہن میں رکھ کر منہاج القرآن کے پیغام امن و محبت کو ہر سمت پھیلادیں۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات کا پرچار کریں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت اور امن عالم کے لئے کی جانے والی ان کاوشوں کو جہاں بھی ہیں جس حیثیت میں بھی ہر خاص و عام تک پہنچائیں اس صورت احیائے اسلام، اصلاح احوال کے مصطفوی مشن کی منزل کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔