ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین
امام سلمی کی ’’طبقات الصوفیہ‘‘سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا علمی اور تربیتی خطاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ شہر اعتکاف 2007ء کے ہزاروں معتکفین کی فکری، اخلاقی اور نظریاتی تربیت کے لئے امام ابو عبدالرحمن محمد بن حسین السُّلَمِی (325ھ ۔ 412ھ) کی تصوف کے موضوع پر لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب ’’طبقات الصوفیہ‘‘ کے دروس ارشاد فرمائے۔ اس سلسلے میں نشست اول اور دوم ماہنامہ منہاج القرآن ماہ نومبر07، دسمبر07 اور فروری 2008ء میں شائع کی جاچکی ہیں۔ جن میں ڈاکٹر صاحب نے حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے احوال و مقامات کو بیان کیا۔ اس تیسری نشست میں شیخ الاسلام نے حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کے ابواب کی تکمیل پر مشتمل خصوصی گفتگو فرمائی جو نذرِ قارئین ہے۔
بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم
أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَO
(يونس، 10 : 62)
’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے‘‘۔
اہل اللہ کی پہچان
حضرت فضیل ابن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
اِذَا اَحَبَّ اللّٰهَ عَبْدًا اَکْثَرَ حَمَّه وَغَمَّه.
’’اللہ اپنے جس بندے سے محبت کرلیتا ہے اس کے غموں کو بڑھادیتا ہے‘‘۔
گویا اللہ صرف نیک بندوں کا محبوب ہی نہیں ہے بلکہ وہ بعض بندوں کا محب بھی بن جاتا ہے۔
غموں کو کیوں بڑھادیتا ہے؟ اس لئے بڑھا دیتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يَقُوْلُ اللّٰهُ تعالیٰ لِدنيا يَا دُنْيَا مُرِّی عَلٰی اَوْلِيآئِی وَلاَ تَحْلَوْلِی لَهُمْ فَتَفْتَنِيْهِمْ.
’’اللہ تعالیٰ دنیا سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے دنیا میرے دوستوں پر کڑوی بن کر رہ اور ان کے لئے بہت میٹھی نہ بن کہ ان کے دل تیرے فتنے میں مبتلا ہوجائیں‘‘۔
کبھی بیمار کردیا۔۔۔ کبھی تکلیف میں مبتلا کردیا۔۔۔ کبھی تھوڑی سی خوشحالی دے دی۔۔۔ اور کبھی چھین لی۔۔۔ کبھی فاقہ، فقراور کبھی غم دے دیا۔۔۔ کبھی کچھ ثمرات دے کر چھین لئے۔۔۔ کبھی اس کے خلاف ملامت کرنے والے لوگ پیدا کردیئے۔۔۔ کہیں طعنہ زنی کرنے والے پیدا کردیئے۔۔۔ الغرض طرح طرح کے غم بڑھا دیتا ہے تاکہ ان کا دل دنیا میں نہ لگے، جن دلوں سے وہ پیار کرتا ہے وہ نہیں چاہتا کہ وہ دل دنیا میں کسی اور کی محبت میں مشغول ہوں بلکہ چاہتا ہے کہ وہ دل میرے ساتھ لگے رہیں۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ آگے فرماتے ہیں کہ
حَتّٰی لَا يَجِدَ عَشَآءَ وَلَا غَدَآءً.
’’اتنے غموں میں مبتلا رکھتا ہے کہ کبھی کبھی ایسی بھی نوبت آجاتی ہے کہ کبھی رات کا کھانا نہیں ملتا اور کبھی دن کا کھانا نہیں ملتا‘‘۔
ہمارا معیار کیا ہے۔۔۔؟ اگر مال و دولت، آسائش اور راحتِ دنیا کی کثرت ہوجائے توکہتے ہیں۔۔۔ اللہ کا بڑا کرم ہے۔۔۔ حالانکہ جس پر اللہ کا کرم ہوتا ہے ان کے غم زیادہ ہوتے ہیں۔
حضرت سہل بن سعد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَوْ کَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰهِ جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ مَا سَقَی کَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ.
’’اگر دنیا کی قدر اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر جتنی بھی ہوتی تو اس سے کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ ملتا‘‘۔
(جامع الترمذی، ج 4، ص 560، رقم 2320)
اس دنیا میں اللہ کے جو دشمن ہیں، کافر و مشرک ہیں، اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ہیں، سب سے بڑھ کر دنیا ان کے پاس ہے۔ گویا پیمانے بدل گئے۔۔۔ فرمایا کہ اگر دنیا کی قدر و عزت میرے نزدیک مچھر کے پر جتنی بھی ہوتی تو بھلا میں اپنے دشمنوں کو اس سے نوازتا؟۔۔۔ میں جو اپنے دشمنوں کو بے حساب دیتا ہوں اس کا مطلب ہے کہ اس دنیا کی کوئی حیثیت میرے نزدیک نہیں ہے۔ اصل قدر و منزلت والی زندگی آخرت والی زندگی ہے۔
٭ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے پھر فرمایا :
وَاِذَا اَبْغَضَه وَسَّعْ دُنْيَآءُ ه وَفَرَّحَهْ بِمَا اَعْطَاه وَشَغَله بِهَا عَنْه.
’’اور جس سے اللہ ناراض ہوجاتا ہے، جس سے اپنا منہ پھیر لیتا ہے اس پر دنیا کو وسیع کردیتا ہے، دنیا کی فرحتیں اس کے لئے بے حساب کردیتا ہے تاکہ وہ ان میں مزید مشغول ہوجائے اور رب سے اور دور ہوجائے‘‘۔
علامتِ محبتِ الہٰی
٭ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
وَقَالَ طُوْبٰی لِمَنِ اسْتَوْحَشَ بِالْخَلْقِ وَاَنِسَ بِالْحَق.
’’مبارک ہو اس شخص کو جسے مخلوق سے وحشت مل گئی اور اپنے مولیٰ سے اس کے دل میں انس آگیا‘‘۔
اللہ کی محبت کی ایک علامت یہ ہے کہ اگر اس کی محبت دل میں گھر کر جائے تو بندے کو مخلوق کے ساتھ رغبت نہیں رہتی۔
معرفتِ الہٰی کا حصول کیسے؟
٭ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
مَنْ عَرَفَ اللّٰهَ مِنْ طَرِيْقِ الْمَحَبَّةِ بِغَيْرِ خَوْفٍ هَلَّکَ وَ مَنْ عَرَفَه مِنْ طَرِيْقِ الْخَوْفِ اِنْ قَطَعَ عَنْه بِالْبُعْدِ وَمَنْ عَرَفَه مِنْ طَرِيْقِهِمَا مَعًا اَحَبَّه وَقَرَّبَه وَمَکَّنَه وَعَلَّمَه.
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات بڑی غور طلب ہے کیونکہ یہ وہ بات ہے جس پر مسلک، فرقے بن گئے ہیں اور عقیدے کی جہتیں وجود میں آگئیں ہیں۔ میں یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور یہ میری پوری زندگی کے مطالعہ اور تجربہ کا نچوڑ ہے کہ عقیدہ اور معرفتِ حق صرف اور صرف وہی ہے جو اولیاء و صلحاء سے ملی۔ باقی ہر طرف افراط ہے یا تفریط ہے۔ جو کچھ اللہ والوں نے بتایا عقیدہ وہی حق ہے۔۔۔ معرفت انہی کے پاس ہے۔۔۔ اور جو بات انہوں نے کہی وہ حق ہے۔۔۔ اور جو اہل اللہ، صوفیاء اور اولیاء کی راہ سے ہٹے یا تو وہ تفریط کی وادیوں میں بھٹک گئے یا افراط کا شکار ہو گئے۔۔۔ یا زیادتی کر بیٹھے یا کمی کر بیٹھے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لئے فرمایا تھا :
مَنْْ تَفَقَّهَ وَلَمْ يَتَصَوَّف فَقَدْ تَفَسَّقْ وَمَنْ تَصَوَّفَ وَلَمْ يَتَفَقَّه فَقَدْ تَذَنْدَق وَمَنْ جَمَعَ بَيْنَهُمَا فَقَدْ تَحَقَّقْ.
جو فقیہ ہوگیا اور صوفی نہ ہوا یعنی جس نے ظاہری علم شریعت کو حاصل کیا اور علم باطن و تصوف کو چھوڑ دیا وہ فاسق و فاجر ہوگی، بھٹک گیا اور جس نے تصوف اور علم باطن پایا اور علوم شریعت نہ پائے، احکام شریعت کے علم کو چھوڑ دیا وہ ملحد و زندیق ہوگی، گمراہ ہوگیا اور حق صرف اسی کو ملا جس نے دونوں کو جمع کیا۔
پس دونوں کو جمع کرنے والے اولیاء اللہ تھے۔ اگر سوال کیا جائے کہ محدثین کا شمار کن میں ہوگا؟ امام اعظم ابوحنیفہ، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابوداؤد رحمھم اللہ کس طبقہ میں ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب اولیاء اللہ تھے اور صاحبان کرامات و استقامت تھے۔ پس حق اولیاء و صوفیاء کے پاس ہے۔۔۔ جو عقیدہ اس راستے سے ملے وہ لو۔۔۔ دائیں بائیں افراط و تفریط ہوگی۔ یہی بات حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے اور اس کا پہلا حصہ ہم اہل سنت کے لئے ہے جو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کے دعویدار ہیں کہ
’’جس شخص نے اللہ کو پہچانا اور اللہ کی معرفت کی راہ پر خوف الہٰی کے بغیر صرف محبت کے طریق سے جانا چاہا وہ ہلاک ہوا‘‘۔
ہمارے ہاں خوف الہٰی کا کوئی سبق نہیں ہوت، محبت کا سبق ہوتا ہے یا رجاء (امید) کا سبق ہوتا ہے حالانکہ ایمان خوف و امید کے درمیان ہے اور یہ اعتدال ہے۔ ایک ہاتھ میں اللہ کے خوف کا دامن پکڑا ہو اور ایک ہاتھ میں امید کا دامن پکڑا ہو تو ایمان بنتا ہے۔
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’اگر قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری امت میں سے یہ فیصلہ ہوگیا کہ صرف ایک شخص کو دوزخ میں ڈالا جائے گا باقی ساری امت بخش دی جائے گی تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میں ہی نہ ہوں‘‘۔
یہ مقام خوف تھا اور پھر فرماتے ہیں کہ
’’اگر یہ خبر ملے کہ قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے صرف ایک ہی شخص کو جنت میں بھیجا جائے گا تو میں امید رکھتا ہوں کہ شاید اللہ مجھ پر کرم کردے‘‘۔
یہ ان کا مقام امید تھا۔ محبت سے امید پیدا ہوتی ہے اور خوف سے خشیت پیدا ہوتی ہے۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ
’’جو صرف طریق خوف سے جانا چاہے اور طریق محبت چھوڑ دے وہ وحشت کی گھاٹی میں گرا کر کاٹ دیا گیا اور جو خوف و محبت کو اکٹھے رکھ کر اس کی معرفت کی طرف جانا چاہے تو اللہ اس کو محبوب بنالے گ، اس کو قریب کرلے گ، اس کو ایک مقام پر متمکن کردے گا اور اس کو علم و ہدایت اور نورو معرفت عطا کردے گا‘‘۔
تصوف کیا ہے؟
تصوف کسی ورد و وظیفہ کا نام نہیں ہے۔۔۔ کسی خاص تسبیح کا نام تصوف نہیں ہے۔۔۔ تصوف نہ رسوم کا نام ہے اور نہ علوم کانام ہے۔۔۔ نہ کسی وضع قطع کا نام ہے، نہ کسی ہئیت کا نام ہے۔۔۔ اور نہ جبہ و دستار و گدی کا نام ہے۔۔۔ تصوف نہ وراثت ہے نہ دعویٰ ہے۔۔۔ تصوف کیا ہے۔۔۔؟ تصوف سراسر حسن معاملہ ہے اور حسن ادب ہے۔
تصوف یہ ہے کہ اللہ سے معاملہ کیسے کرنا ہے۔۔۔؟ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معاملہ کیسے ہو۔۔۔؟ صحابہ و اہل بیت سے کیسا معاملہ ہو۔۔۔؟ اولیاء سے معاملہ کیسے ہو۔۔۔؟ بڑوں، چھوٹوں، بیوی بچوں۔۔۔ والدین، پڑوسیوں، دوست احباب، دشمن۔۔۔ عالم، جاہل، نیک، بد، غریب، امیر سے معاملہ کیسے ہے۔۔۔؟ ہر ایک کے ساتھ اپنا معاملہ اچھا رکھنا تصوف ہے۔ حسن ادب ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم دو معاملات درست رکھتے ہیں تو آٹھ معاملے خراب رکھتے ہیں۔
٭ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اِذَا اکْتَابَکَ عَدُوُّ فَهُوَ اَنْفَعُ لَکَ مِنَ الصِّدِيْق فَاِنَّه کلما ماکْتَابَکَ اَعْطَاکَ من حَسَنَاتِه.
اے بندے تصوف یہ ہے کہ جب تیرا کوئی دشمن ہو اور وہ تیری پشت پیچھے تیری غیبت کرے۔۔۔ تجھے برا بھلا کہے۔۔۔ تیری چغلی کرے۔۔۔ تیرے خلاف بری بھلی باتیں کرے۔۔۔ تہمتیں لگائے تو، تُو اس دشمن کو اپنے دوستوں سے بھی زیادہ نفع مند سمجھ، غنیمت جان کہ کوئی تیری غیبتیں کرتا ہے، تجھے گالی گلوچ دیتا ہے اس لئے کہ دوست تو تیری تعریف کریں گے اور تعریف کرنے سے تیرا نفس بگڑ جائے گا۔۔۔ دشمن تجھے گالی دے گا اور ہر ایک گالی پر اپنی نیکیاں تیرے کھاتے میں ڈالتا جائے گا۔۔۔ جتنی گالیاں دے گ، اس کی ایک ایک گالی پر اس کی نیکیاں تیرے نامہ اعمال میں منتقل ہوتی چلی جائیں گی۔۔۔ دوست کا تیری تعریف کرنا تجھے کوئی بھی نیکی نہ دے گا بلکہ الٹا نقصان کا ڈر ہے۔ اگر نفس پرتمکن نہ ہو اور نفس مطمئنہ، راضیہ، مرضیہ نہ ہو بلکہ درمیان میں ہو، ڈگمگارہا ہو۔۔۔ باطن کمزور حالت میں ہو تو زیادہ تعریف سے نفس پھول سکتا ہے۔۔۔ نفس بگڑ سکتا ہے، وہ نفس یہ سمجھ سکتا ہے کہ جو تعریف ہورہی ہے وہ حق ہے۔۔۔ شاید میں ہوں ہی اس کے قابل۔۔۔ بس یہ خیال آیا کہ میں اس تعریف کا حقدار ہوں، بربادی شروع ہوگئی۔۔۔ لیکن یہ اتنی باریک بربادی ہے کہ اس کا شعور بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے۔ ورنہ آج کل تو ہر شخص تعریف اور خوشامد کا بندہ ہے۔ اولیاء اللہ میں ہمیں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جب اس خطرے کے پیش نظر انہوں نے تعریف کرنے والوں کی نظروں میں خود کو برا بنا دیا لیکن نفس کو بگڑنے سے بچا لیا۔
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اور علاجِ نفس
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ جس راہ سے گزرتے اس راستے پر بادشاہ کی مجلس بھی آتی تھی، آپ رحمۃ اللہ علیہ وہاں سے جب گزرتے تو بادشاہ ان کے ادب و احترام میں کھڑا ہوجاتا اور سب وزراء بھی کھڑے ہوجاتے۔۔۔ بادشاہ و وزراء سلام کرتے۔۔۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ جواب دیتے اور گزر جاتے۔۔۔ ایک دن ایسا ہوا کہ بادشاہ و وزراء آپ کے ادب میں کھڑے تھے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس بادشاہ کی طرف منہ کرکے تھوک دی، آپ کے اس عمل پر بادشاہ و وزراء کو غصہ آیا اور آپ کو برا بھلا کہنے لگے۔ مریدین کو بات سمجھ نہ آئی، پریشان ہوئے۔ آگے جاکر اس عمل کے بارے پوچھا کہ آپ کے اخلاق حسنہ ہیں، آپ نے ان کی طرف منہ کرکے تھوک دیا؟ یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ صوفیاء کی علامت یہ ہے کہ یہ اخلاق حسنہ کے پیکر ہوتے ہیں۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا نمونہ کسی نے دیکھنا ہو تو وہ اولیاء و صوفیاء ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی سب سے بڑی خیرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اہل تصوف، اولیاء و صلحاء کو ملی ہے، یہی ولایت ہے اور یہی تصوف ہے۔
مریدین کے سوال پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ میں یہی چاہتا تھا۔ اس لئے کہ میں روز یہاں سے گزرتا اور وہ میرے لئے کھڑے ہوتے تھے، میں نفس میں جھانکتا تو ان کے کھڑے ہونے سے میرے نفس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھ، مگر آج جب بادشاہ اور پورا دربار میرے ادب میں کھڑا ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے نفس میں تھوڑی ہلچل ہوئی ہے اور نفس کے اندر یہ خیال آیا کہ بایزید، اللہ نے تجھ پر اتنا کرم کیا ہے کہ شاہان وقت بھی تیرے اکرام میں کھڑے ہوتے ہیں، پس جونہی نفس میں یہ خیال آیا میں نے چاہا کہ نفس کا علاج یہیں اسی وقت کردوں، کہیں بڑھ نہ جائے پس میں نے اس لئے تھوکا کہ مجھے معلوم تھا کہ جب تھوکوں گا تو وہ مجھے گالیاں دیں گے اور بیٹھ جائیں گے، جب انہوں نے برا بھلا کہا اور بیٹھ گئے میں نے نفس کو کہا کہ سن لیا یہ ہے تیرا اصل مقام، اب دیکھ وہ گالیاں دے رہے ہیں۔ مجھے تو نہ بادشاہ کے کھڑے ہونے سے کوئی غرض تھی نہ بیٹھنے سے، میں تو اپنے نفس کے حال کو درست رکھنا چاہتا تھا۔
نفس بڑا شیطان ہے۔ یہ نفس کاملہ کے درجہ پر بھی پہنچ جائے تو اپنی مکاری و عیاری سے باز نہیں آت، تاک میں لگا رہتا ہے کہ تھوڑی سی غفلت کہیں ہو اور پھر حملہ کرے۔۔۔ اصل سرشت سے باز نہیں آتا۔ اس لئے اہل اللہ آخری مراتب پر بھی پہنچ کر نفس کا دھیان رکھتے ہیں کہ کہیں یہ ڈس نہ لے۔
اس لئے فرمایا کہ جو شخص خوف و محبت کے ساتھ اس کے معرفت کے راستے پر چل نکلتا ہے تو وہ کامیاب ہوجاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں تصور یہ ہے کہ ’’بس جی بیڑا ہی پار ہے‘‘۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہیں، میلاد شریف، گیارہویں شریف کا انعقاد کرتے ہیں۔ فلاں بزرگ سے نسبت ہے۔۔۔ فلاں کے مرید ہیں اس لئے نماز، روزہ کی خیر ہے۔۔۔ وقت مل گیا تو پڑھ لی، جی چاہا تو روزہ رکھ لیا۔۔۔ طبیعت میں آگیا تو کسی کی کوئی ضرورت پوری کردی۔۔۔ دیگیں پکوادیں، عمرے اور حج پر چلے گئے۔۔۔ بس اس طرح کے آسان آسان کام کرلئے اور سوسائٹی میں حاجی صاحب، میاں جی کہلواتے رہے۔۔۔ یعنی یہ پارٹ ٹائم شریعت بھی ہم نے اپنا رکھی ہے۔ میں نے تو ساری زندگی کسی ایسے ولی کو نہیں دیکھا جس نے ’’ایسے ہی بیڑا پار ہونے‘‘ کی تعلیم دی ہو۔۔۔ یہ مال کمانے والے لوگ ایسے ہی بیڑے پارلگاتے ہیں کہ بس آپ ایک بار ہمارے ہاتھ میں ہاتھ دے دیں، ہماری جیب بھر دیں ان شاء اللہ بیڑا ہی پار ہے۔ افسوس! عرس میں سال میں ایک مرتبہ حاضری۔۔۔ اور پیر صاحب کو نذر نیاز دینے کو ہم نے تصوف بنالیا۔ یہ اولیاء کی تعلیمات نہیں اور نہ یہ تصوف ہے۔ اولیاء وہ تھے جن کی زندگی کا کوئی لمحہ سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف نہ تھا اور جن کی زندگی کثرتِ غم میں گزرتی تھی۔
(جاری ہے)