حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ خالہ جان حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتایا :
ان کنا لننظر الی الهلال ثم الهلال ثلاثة اهلة فی شهرين وما اوقدت في ابيات رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم نار فقلت ياخالة ماکان يعيشکم قالت : الاسودان التمرو المآء الا انه قد کان لرسول الله صلی الله عليه وآله وسلم جيران من الانصار کانت لهم منائح وکانوا يمنحون رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم من البانهم فيسقيناه.
(بخاري، 1 : 349) (ترمذي، 2 : 70)
’’ہم تقریباً دو مہینوں میں تین دفعہ نیا چاند دیکھ لیتے تھے اور اس دوران حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں آگ نہیں جلتی تھی۔ میں نے عرض کی : خالہ جان! پھر کونسی چیز آپ کو زندہ رکھتی تھی؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : پانی اور کھجوریں! البتہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پڑوسی انصار دودھ کی شکل میں عطیات بھیجا کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ دودھ ہم کو پلا دیا کرتے تھے‘‘۔
شرحِ فقر
’’فقر‘‘ کا لفظ کانوں میں پڑتے ہی فاقہ مستی، تنگدستی اور غربت کا تصور ذہن میں آجاتا ہے اور ایک ایسا ہیولیٰ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے جس کے ناتواں جسم پر چیتھڑے لٹک رہے ہوں، بھوک، بیماری اور بے کاری سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہو اور تن پر کوئی ڈھنگ کی چیز نہ ہو۔ یہ خستہ حال فقیر کا سراپا ہے، ایسے شخص کو لوگ فقیر اور اس کی زبوں حالی کو ’’فقر‘‘ کہتے ہیں۔
مگر روحانی کائنات میں ’’فقر‘‘ ایک قابل رشک مرتبے کا نام ہے جس پر ہمت والے خال خال خوش قسمت حضرات ہی فائز ہوتے ہیں۔ اس روحانی دنیا میں، بے نیازی، استغنا اور ہر چیز سے قطع تعلق کا نام فقر ہے، اس ہستی کو فقیرکہتے ہیں جو کائنات کی ہر شے سے بے نیاز ہوجائے اور سب سے قلبی روابط توڑ کر ایک وحدہ لاشریک کے ساتھ ناطہ جوڑ لے اور اسی کی محبت کی مہک اور روشنی سے دل کو آباد اور منور کرلے۔ جب انسان اس مرتبے پر پہنچتا ہے تو ساری کائنات اس کے قدموں میں ڈھیر ہوجاتی ہے۔ ۔ ۔ سونے کے پہاڑ اسے حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ۔ ۔ زر و سیم کے ڈھیر اور لعل و جواہر کے انبار اس کی ایک نگاہِ التفات کے متمنی رہتے ہیں۔ ۔ ۔ مگر وہ ان خزف ریزوں پر ایک نظر ڈالنا بھی اپنی پاکیزہ نظر کی توہین سمجھتا ہے۔
ایسے انسان کی ظاہری سادہ حالت دیکھ کر ظاہر بین لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ محتاج اور غریب ہے، مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ بے نیازی اور تواضع کی بنا پر اس نے یہ حالت خود بنائی ہوئی ہے اور اس کا یہ فقر اختیاری ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اختیاری فقر اپنایا ہوا تھا۔ خود بتا دیا، لوشئت لسارت معنی جبال الذہب ’’یعنی اگر ہم چاہیں تو سونے کے پہاڑ ہمارے ہم رکاب رہیں اور ساتھ ساتھ چلیں‘‘ ایک دفعہ بتایا۔
بينا انا نائم اتيت بمفاتيح خزآئن الارض فوضعت فی يدی.
(مسلم شريف، 1 : 300)
’’ہم سو رہے تھے کہ زمین کے خزانوں کی چابیاں لاکر ہمارے ہاتھ پر رکھ دی گئیں‘‘۔
آنے والے مسافروں، سائلوں، یتیموں اور غریبوں کو اونٹوں کی قطاریں، بکریوں سے بھری ہوئی وادیاں، سونے کے ڈھیر اور مال و دولت کے انبار بخشتے رہتے تھے۔ جود و سخا کا یہ عالم دیکھ کر لوگ منہ میں انگلیاں دبا لیتے اور حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔
مگر اس سخا پیشہ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے گھر کی حالت یہ تھی کہ دو، دو ماہ تک چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی۔ ایک دفعہ یہی بات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے عروہ کو بتائی تو وہ دنگ رہ گئے اور عرض کی : خالہ جان! پھر آپ گزر اوقات کس طرح کرتے تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا : کھجور اور پانی پر گزر بسر ہوتی تھی، ہمارے ہمسائے میں انصار کے بڑے ملنسار گھرانے آباد تھے، وہ عموماً دودھ کا تحفہ بھیجتے رہتے تھے، اس دودھ سے بھی کام چل جاتا تھا۔
حرمِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اختیاری فقر کا عملی ظہور
مخلص عورت دکھ سکھ میں اپنے خاوند کی شریک ہوتی ہے اور ہر حالت میں اس کا ساتھ دیتی اور وفادار رہتی ہے۔ یہ نہیں کہ خوشحالی اور امارت میں تو محبت و وفاداری کا دم بھرے اور غربت و تنگدستی کی حالت میں چھوڑ دے۔ اس کے رہن سہن کا معیار بھی شوہر کی کمائی اور مالی حالت کے مطابق ہوتا ہے، آمدن زیادہ ہو تو وہ معیار زندگی بلند کرلیتی ہے لیکن اگر آمدن کم یا ضرورت کے مطابق ہو تو وہ شریک حیات پر دباؤ نہیں ڈالتی بلکہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے اپنا معیار زندگی بدل لیتی اور چادر کے مطابق پاؤں پھیلاتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ آمدن کے مطابق ہی گذارہ ہوتا رہے۔
لیکن اگر شوہر کی آمدن میں اضافہ ہوجائے تو طبعی طور پر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اخلاص و وفا کا صلہ ملے اور اس نے ماضی میں جو دکھ جھیلے ہیں اور تنگی ترشی میں شوہر کا ساتھ دیا ہے اب وہ بھی محبت کا ثبوت دے اور دل کھول کر اس کی ذات پر خرچ کرے تاکہ وہ گذشتہ غم بھول جائے اور غربت و وفاداری نے جو گھاؤ لگائے ہیں وہ مندمل ہوجائیں۔
مدینہ منورہ میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا معیار زندگی بالکل سادہ اور بہت عامیانہ تھا، یعنی اس میں دنیاوی ٹھاٹ باٹھ، شوکت و امارت، نمود ونمائش اور رنگ و روغن کی کوئی آمیزش نہ تھی، بے عیب زندگی، بے تکلف و بے رنگ ماحول میں بڑے آرام و قرار اور سکون و ثبات کے ساتھ گذر رہی تھی اور تمام خواتین اپنی وفا شعاری پر نازاں اس قدسیت بدامان پر نور زندگی پر قانع و مطمئن تھیں، کسی کو کوئی شکایت نہ تھی، شب و روز اسی طرح گذر رہے تھے۔
کچھ ہی عرصہ بعد حالات نے کروٹ لی، اسلامی شوکت و اقتدار نے عرب کے طول و عرض میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیئے، مسجد نبوی کے صحن میں مال و دولت، سونا چاندی، کپڑے اور کھانے پینے کی اشیاء کے ڈھیر لگ گئے، قدرتی طور پر اس صورت حال کا جو کچھ رد عمل ہونا تھا وہ ہوا۔ ازواج مطہرات کے دل میں فوراً یہ خیال آیا کہ اب فراواں مال و دولت کی اس حالت میں وہ آسودگی اور خوشحالی سے زندگی بسر کرنے کی سب سے زیادہ مستحق ہیں، چنانچہ وہ اپنے مہربان محبوب کی رحمت و شفقت پر نازاں، شان جود و سخا پر نظریں جمائے، چپکے چپکے آگئیں اور آہستہ آہستہ آرزوئے دل زبان پر لے آئیں۔
پہلی مرتبہ ان پر یہ حقیقت پورے جلال و کمال کے ساتھ نمایاں ہوئی کہ یہ سادگی کسی مجبوری کے تحت اختیار نہیں کی گئی ہے، شان و شوکت اور نمود و نمائش نہ پہلے مطلوب تھی، نہ اب ہے۔ پہاڑ سونا بن کر قدموں میں ڈھیر ہوجائیں پھر بھی زندگی کی یہ سادگی اسی طرح برقرار رہے گی اور اس میں دنیاوی شوکت کا کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ یہ راز کس طرح کھلا، اس کی تفصیل یہ ہے۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا بیان
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ راوی ہیں :
ہم مکہ والوں کے مزاج میں طبعی طور پر کچھ جلالت پائی جاتی تھی اس لئے ہماری عورتیں ہم سے دبتی تھیں، جب ہم مدینہ آئے تو ہمیں ایک اور ہی تجربہ ہوا، پتہ چلا کہ یہاں کی عورتیں، مردوں کے رعب میں نہیں بلکہ کچھ سوال و جواب بھی فرمالیتی ہیں، ہمارے لئے یہ بات حیران کن بھی تھی اور ناقابل برداشت بھی۔ ہماری عورتوں نے بھی دیکھا دیکھی رنگ پکڑنا شروع کردیا اور آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن میری بیوی نے میرے کسی معاملہ میں مداخلت کی، مجھے اس کی یہ جرات رندانہ سخت ناگوار گزری، وہ ہمت کرکے بولی :
آپ میری اتنی سی بات برداشت نہیں کر رہے، حالانکہ آپ کی بیٹی حفصہ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوال جواب کرلیتی ہے اور اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتی ہے، باقی ازواج مطہرات کا بھی یہی حال ہے۔
یہ بات سن کر میری حیرت و پریشانی کی انتہا نہ رہی، حیرت اس بات پر تھی کہ انہیں دربار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دم مارنے کی جرات کیسے ہوئی ہے اور پریشانی اس بات پر کہ اگر غضب الہٰی حرکت میں آگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں طلاق دے دی تو کیا بنے گا۔ ۔ ۔ میں نے اسی وقت کپڑے پہنے اور حفصہ کے پاس پہنچ گیا اور پوچھا : کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مطالبات کرتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بولتی ہے؟۔ ۔ ۔ اس نے کہا : ہاں ابا جان! ہم سب ازواج زندگی کی آسائشیں مانگتی ہیں اور دامن کرم پر مچلتی ہیں کیونکہ بیوی ہونے کے ناطے یہ ہم سب کا حق ہے۔
میں نے کہا : اے حفصہ! ایسی جسارت سے باز آؤ، ایسا نہ ہو، خدا تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمادے اور وہ تم کو طلاق دے دیں، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے مانگ لیا کرو، لیکن میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنگ نہ کیا کرو۔
میں بیٹی کو نصیحت کرکے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، وہ میری قریبی رشتہ دار تھیں، انہیں بھی تنبیہ کی کہ اپنے رویئے میں تبدیلی لائیں اور کوئی ایسی حرکت اور بات نہ کر بیٹھیں، جس کے بعد پچھتانا پڑے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا :۔ ۔ ۔ ہم میاں بیوی کے حقوق سے آگاہ ہیں، ادب کے دائرے میں رہ کر بات کرتی ہیں اور یہ معیوب و ممنوع نہیں، بیوی اپنے شوہر سے مطالبہ کرسکتی ہے، کسی غیر کو حق نہیں پہنچتا کہ میاں بیوی کے معاملات میں مداخلت کرے۔ یہ جواب دے کر، حضرت ام سلمہ نے لاجواب کر دیا۔
کاروباری معمولات
کاروبار میں شریک میرا ایک ساتھی تھا، ہم دونوں مل کر کاروبار کرتے تھے، طریق کار یہ تھا کہ ایک روز وہ منڈی میں خرید و فروخت کرتا اور میں سارا دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گزارتا اور اس دن کی ساری رپورٹ رات کو اسے دے دیتا۔ دوسرے دن میں کاروبار کرتا اور وہ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر رہ کر دن بھر کی روداد مجھے سنا دیتا۔ اس طرح ہمارے شب و روز بیت رہے تھے۔ کاروبار بھی کرتے اور مسجد نبوی کی تحریکی، دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں سے بھی آگاہ رہتے۔
ایک روز میرے ساتھی کی باری تھی وہ مسجد نبوی میں چلا گیا، میں رات کے وقت منڈی سے واپس آیا، تو اس نے آ کر زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کردیا، وہ ہراساں اور سخت پریشان تھا، میں باہر نکلا تو اس نے بتایا، بڑا غضب ہوگیا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوکر، بالا خانے پر تشریف فرما ہیں، لوگوں میں کہرام مچا ہوا ہے، مسجد نبوی میں اکٹھے ہوکر سب رو رہے ہیں۔
میں نے جب یہ بات سنی تو پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، دماغ چکرا گیا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا، سب کچھ چھوڑ کر فوراً حفصہ کے پاس پہنچا، وہ زارو قطار رو رہی تھی۔ ۔ ۔ میں نے کہا : کیا تجھے منع نہیں کیا تھا کہ نامناسب، مطالبات سے دستکش ہوجاؤ اور کوئی ایسی حرکت مت کرو، جو طبعِ مبارک پر ناگوار گزرے، مگر افسوس! تم نے ایک نہ سنی۔ اب بتاؤ اصل معاملہ کیا ہے؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم سب کو طلاق دے دی ہے؟ حفصہ نے باچشم گریاں جواب دیا :
پتہ نہیں، البتہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الگ تھلگ بالا خانے پر تشریف فرما ہیں اور کسی کو وہاں جانے کی جرات اور اجازت نہیں ہے۔
میں حجرے سے نکل کر مسجد میں آیا تو وہاں قیامت برپا تھی، لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے، میں منبر شریف کے پاس بیٹھ گیا لیکن قرار نہ آیا، اٹھ کر بالا خانے کے پاس آیا۔ وہاں حبشی غلام پاؤں لٹکا کر بیٹھا ہوا تھا۔ ۔ ۔ میں نے کہا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کرو کہ عمر باریاب ہونے کی اجازت چاہتا ہے۔ ۔ ۔ وہ غلام اندر گیا، تھوڑی دیر بعد واپس آکر بتایا کہ میں نے اجازت مانگی ہے، لیکن سرکار نے کوئی جواب نہیں دیا۔
میں پھر منبر کے پاس آگیا، مگر قرار نصیب نہ ہوا۔ امید وبیم کے عالم میں دوبارہ اٹھا اور غلام سے کہا، ایک بار پھر اجازت طلب کرو۔ ۔ ۔ دوسری بار بھی اجازت نہ ملی۔ مجھے مزید بے چینی ہوئی، میں پھر درِ اقدس پر حاضر ہوا اور حاضری کی اجازت مانگی۔ بارگاہِ رسالت سے تیسری بار عرض کرنے پر اجازت مل گئی، میں لرزاں ترساں اوپر گیا، سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی تھی، تاجدار عرب و عجم، سید اولاد آدم، سرور کائنات، فخر موجودات، مالک انس و جاں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ننگی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، اس سادگی میں رعب و دبدبہ نبوت اور جاہ و جلال رسالت کا یہ عالم تھا کہ نگاہ اٹھا کر دیکھنا ناممکن تھا۔ میرے پسینے چھوٹ گئے، میں نے خود کو سنبھالا، بہت نازک مرحلہ تھا، بمشکل خود کو گفتگو کے لئے تیار کیا۔ ۔ ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نے یہ دریافت کرنے کے لئے حاضری دی ہے کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازواج پاک کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے مختصر جواب دیا : ’’نہیں‘‘۔
یہ سن کر جان میں جان آئی اور جو مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے وہ چھٹ گئے، جسم میں زندگی کی نئی رو دوڑ گئی اور توانائی محسوس ہونے لگی۔ اب میری کوشش یہ تھی کہ کسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سلسلہ کلام شروع ہوجائے تاکہ حضور کی طبیعت پر جو بوجھ ہے وہ اتر جائے اور اندوہ و ملال کی جگہ فرحت و شگفتگی پیدا ہوجائے۔ اس مقصد کے لئے میں نے عرض کی!
یارسول اللہ : اہل مدینہ بڑے بردبار، نرم مزاج اور حلیم الطبع لوگ ہیں، اپنی شریک حیات ازواج کے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں اور ہر نازو ادا برداشت کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے ہاں آپس میں بڑی بے تکلفی پائی جاتی ہے اور وہ اس دوستانہ ماحول میں اپنے شوہروں سے سخت لہجے میں سوال و جواب بھی کرلیتی ہیں۔ ہم مکہ والے یہاں آئے تو ہماری ازواج نے بھی دیکھا دیکھی ان کا رنگ پکڑ لیا اور ترکی بترکی جواب دینا شروع کردیا جو ہم مکہ والوں کے لئے بالکل نیا تجربہ تھا۔
ایک دن میری بیوی نے بڑی خود اعتمادی کے ساتھ مجھے جواب دیا تو میں دنگ رہ گیا اور اسے حیرت سے دیکھنے لگا، حضرت ام سلمہ کے پاس گیا تو انہوں نے بھی قدرے تلخ لہجے میں جواب دے کر میری حیرت میں اور اضافہ کر دیا۔ ۔ ۔ بولیں : میاں بیوی کے باہمی معاملات ہوتے ہیں، ان میں مداخلت کا کسی کوحق نہیں پہنچتا، آپ کو زیب نہیں دیتا کہ اس سلسلے میں کوئی ہدایت دیں۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! انہوں نے یہ جواب دے کر مجھے لاجواب کردیا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر قدرے مسکرائے۔ یہ دیکھ کر میری کچھ ڈھارس بندھی اور گردن اٹھائی، ایک تکیہ، ایک مشکیزہ اور رنگین پتوں کا ایک ڈھیر نظر آیا، شاہ دو عالم کے کمرے کی یہی کل کائنات تھی، ظاہری بے سروسامانی کا یہ عالم دیکھ کر، میری آنکھوں سے جھڑی لگ گئی، مجھے ازواجِ مطہرات کا معاملہ بھول گیا اور میں نے احساسِ کرب کے ساتھ عرض کی :
میرے آقا! شاہانِ روم و فارس زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، دنیا بھر کی آسائش اور سامانِ عیش انہیں حاصل ہے، آپ بھی بہتات و فراوانی کے لئے دعا کریں تاکہ اتنا کچھ تو جمع ہوجائے کہ زندگی کی سختیوں اور صعوبتوں کا احساس نہ ہو اور ضروریات کی ہر چیز مہیا ہوجائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیٹے ہوئے تھے، اٹھ کر بیٹھ گئے، چہرہ انور پر جلال کے آثار نمودار ہوگئے، ارشاد فرمایا :
اے عمر! ہم دنیاوی جاہ و جلال اور مال و متاع کو پسند نہیں کرتے، سب کچھ پردہ غیب سے وجود میں آسکتا ہے، مگر ہمیں پسند نہیں ’’عبد نبی‘‘ بن کر رہنے میں جو مزہ ہے، وہ ’’بادشاہ نبی‘‘ بن کر رہنے میں نہیں۔ ۔ ۔ رہی بات، شاہانِ فارس و روم کی، تو کیا تمہیں پسند نہیں کہ وہ دنیا ہی میں سارے مزے لوٹ لیں اور آخرت میں ہر قسم کی نعمت و رحمت سے محروم رہیں اور ہمارے قدموں میں ہر قسم کی نعمتیں ڈھیر کردی جائیں۔ ۔ ۔ اپنے دل سے شکوک و شبہات جھٹک دو، ان کے لئے دنیا ہے، تمہارے لئے آخرت ہے۔ لازوال نعمتیں، لافانی آسائشیں اور ابدی راحتیں ہیں جن کا کوئی جواب نہیں۔
میں نے ادب سے سر جھکادیا، ہاتھ جوڑ کر عرض کی :
آپ میرے لئے دعائے مغفرت فرمائیں تاکہ اللہ تعالیٰ میرے اس سہو اور جرات کو معاف فرما دے۔
یہ صحابہ کرام کا معمول تھا کہ جب بھی نادانستگی میں ان سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تھی تو وہ فوراً حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کرتے تھے :
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! رب تعالیٰ سے معافی لے دیں، یہ ان کا ایمان افروز معمول اور پختہ عقیدہ تھا کہ یہ وہ عظیم و مقبول بارگاہ ہے جن کی شفاعت اور بات سنی بھی جاتی ہے اور قبول بھی کی جاتی ہے۔
اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سن کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ زندگی میں فقر اور سادگی کی جو روش اختیار کی گئی ہے، وہ کسی مجبوری کے تحت نہیں ہے۔
مال و دولت کے انبار لگ سکتے ہیں۔ ۔ ۔ دنیا کی آسائشیں ایک اشارہ ابرو پر حاضر ہوسکتی ہیں۔ ۔ ۔ بلکہ پتھر کے پہاڑ سونا بن سکتے ہیں۔ ۔ ۔ مگر یہ سب کچھ گوارا ہی نہیں، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ دنیا داروں کی طرح نہیں بلکہ زمین پر اللہ کے مقرب بندوں کی طرح تواضع کے ساتھ رہنا پسند ہے۔