مؤلف : میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ
مترجم : علی محمد نور بخشی منہاجین
(حصہ دوم)
حضرت سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ (م786ھ) کی حیات و خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ خصوصاً کشمیر، ہزارہ، گلگت، بلتستان، لداخ، اسکردو، تبت اور شمال مشرقی مسلمان ریاستوں میں آپ کی دعوت و تبلیغ سے ہی اسلام آٹھویں صدی ہجری میں پھیل گیا تھا۔ آپ کو امیر کبیر اور سید السادات جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ساری زندگی سفیر اسلام کے طور پر گزاری اور جگہ جگہ اسلام کے نظام دعوت و تربیت کے عظیم الشان مراکز قائم فرما کر عہد صحابہ و تابعین کی یاد تازہ کردی۔ اقبال نے آپ کی انہی بے پایاں خدمات پر آپ کو ’’سالارِ عجم‘‘ اور ’’معمارِ تقدیر امم‘‘ جیسے خوبصورت ٹائٹل دیئے۔ سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ متبحر عالم، اعلیٰ پائے کے مصنف اور ثقہ ادیب بھی تھے۔ انہوں نے 70 سے زائد چھوٹی بڑی کتب لکھیں جن میں ’’ذخیرۃ الملوک‘‘ بطور خاص قابل ذکر ہے، اس کتاب کا کئی زبانوں میں ترجمہ چھپ چکا ہے۔ آپ کی بہت سی کتب چھپ چکی ہیں اور بہت سی ابھی غیر مطبوعہ ہیں۔ انہی غیر مطبوعہ عربی کتب میں سے ایک رسالہ ’’الطالقانیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے جو آپ نے دوران سفر ختلان کے جنوب میں واقع قصبہ ’’طالقان‘‘ میں کسی سالک کی فرمائش پر تحریر فرمایا جس میں مقامات سلوک و تصوف کو نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔ اس مختصر مگر بنیادی نوعیت کی خصوصی تحریر کو ہمارے فاضل علامہ علی محمد نور بخشی منہاجین نے اردو میں ڈھالا ہے اور شاید پہلی مرتبہ ماہنامہ منہاج القرآن کو اشاعت کا شرف حاصل ہورہا ہے۔ یہ کتابچہ بعد ازاں مکمل عربی عبارات اور حوالہ جات کے ساتھ زیورِ طبع سے آراستہ ہوجائے گا۔ (مدیر اعلیٰ)
8۔ آٹھواں مقام۔ ۔ ۔ خوف
مقامات سلوک و تصوف میں سے آٹھواں مقام ’’خوف‘‘ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لوتعلمون ما اعلم لضحکم قليلا ولبکيتم کثيرا.
(بخاری، الجامع الصحيح 4 : 1832، رقم 2359)
’’لوگو جو کچھ میں جانتا ہوں تم بھی جان جاتے تو تھوڑا ہنستے اور اللہ کے خوف و خشیت میں زیادہ روتے ‘‘۔
٭ حضرت عبادہ رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :
ما وجدت للمومن في الدنيا مثلا الر جل علی خشبة فی البحر يقول يارب يارب لعل الله ينجيه.
’’میں نے دنیا میں مومن کی مثال اس شخص کی طرح پائی جو سمندر میں لکڑی پر سوار ہو اور یارب یارب کہتا ہو تاکہ اللہ اسے سمندر کی تکلیفات سے نجات دے‘‘۔
٭ شیخ خلیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :
علامة التوفيق ان تطيع الله وانت تخاف وعلامة خذلان ان تعصي الله وانت ترجو.
’’توفیق کی علامت یہ ہے کہ تو اللہ کی فرمانبرداری بھی کرے اور اس سے ڈرتا بھی رہے اور رسوائی کی علامت یہ ہے کہ تو اللہ کی نافرمانی بھی کرے اور اس کی رحمت کی امید بھی کرے‘‘۔
9۔ نواں مقام۔ ۔ ۔ امید
مقامات سلوک و تصوف میں سے نواں مقام ’’رجاء یعنی امید‘‘ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اتانی جبريل فبشرنی انه من مات من امتک لايشرک بالله دخل الجنة. (متفق عليه)
’’میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے، انہوں نے مجھے یہ خوشخبری دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے جو اس حال میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔
٭ حضرت شیخ حنیف رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :
الرجاء ارتياح القلوب بروئية کرم المحبوب.
’’محبوب حقیقی کے کرم اور نوازش کو دیکھ کر اپنے دلوں کو راحت پہنچانا امید کہلاتا ہے‘‘۔
٭ شیخ عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :
الرجاء علی اقسام رجل عمل حسنه ثم يرجو قبولها ورجل عمل سيئه ثم تاب فهو يرجوا لمغفرة ورجل کاذب يتماری في الذنوب ويقول ارجوالمغفرة. (الرسالة القشيريه صفحه 132 جلد 1)
’’امید کی کئی اقسام ہیں پہلی یہ کہ ایک شخص نیکی کرتا ہے پھر اللہ سے اس کی قبولیت کی امید رکھتا ہے۔ دوسری قِسم اس شخص کی ہے جو برائی کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے پھر وہ اللہ سے مغفرت کی امید رکھتا ہے۔ تیسری قسمِ امید یہ ہے کہ وہ جھوٹا شخص جو گناہوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے اور وہ کہتا ہے میں بخشش کی امید رکھتا ہوں‘‘۔
10۔ دسواں مقام۔ ۔ ۔ حزن
مقامات سلوک و تصوف میں سے دسواں مقام ’’حزن‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
ان الله يبغض الفريحين النديحين ويحب کل قلب حزين.
(حاکم المستدرک علی الصحين 3514، 7884)
’’بے شک اللہ حد سے زیادہ ہنسنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے اور ہر غمگین دل کو پسند کرتا ہے‘‘۔
٭ حضرت سلیمان بن عیینہ کا ارشاد ہے :
لوان محزنا بکي علي امة لرحم الله تلک الامة.
’’اگر کوئی غمگین شخص کسی قوم پر روئے تو ضرور اللہ اس قوم پر رحم فرماتا ہے‘‘۔
٭ حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :
من لم يقطع مفارقة الحزن لم يسلک قلبه لسفر السماء.
’’جب تک آدمی حزن و غم سے جدائی کو ختم نہ کرے تب تک اس کا دل آسمان کے سفر پر نہیں چل سکتا‘‘۔
٭ حضرت سری سقطی کا ارشاد ہے :
وددت ان حزن کل الناس القی علی.
(قشيريه ص 139)
’’میری یہ خواہش ہے کہ تمام لوگوں کا غم مجھ پر آپڑے‘‘۔
11۔ گیارہواں مقام۔ ۔ ۔ تواضع
مقامات سلوک و تصوف میں سے گیارہواں مقام ’’تواضع‘‘ ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الذل للمومن خير من العز والرفعة.
’’مومن کے لئے اختیاری ذلت، عزت و رفعت سے بہتر ہے‘‘۔
٭ حضرت ذوالنون مصری سے پوچھا گیا کہ فقرِ حقیقی کا حامل مقام صفوۃ پر کب فائز ہوتا ہے؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
اذا خلع الراحة وسعی بالجهود فی الطاعة واحب سقوط المنزلة واستوی عندالمحمدة والمذمة.
’’جب وہ آرام و راحت کے لباس کو اتار پھینکے اور اللہ کی اطاعت میں محنت کرے۔ اپنے مقام سے عاجزی و انکساری کے طور کرنے کو پسند کرے اس کے لئے اس کی اپنی تعریف و مذمت دونوں برابر ہوں‘‘۔
٭حضرت ابوالقاسم المنادی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے :
’’بندہ اس وقت تک خیر کے ساتھ رہتا ہے جب تک لوگ اسے پہچان نہ لیں‘‘۔
٭ حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :۔
حب الرياسة نار في نفس بني آدم اذا توقد علي قلوبهم تحرق ايمانهم.
’’ریاست و سلطنت کی محبت انسان کے وجود میں وہ آگ ہے جب وہ بھڑک اٹھتی ہے تو ان کے ایمان کو بھسم کر دیتی ہے‘‘۔
12۔ بارہواں مقام۔ ۔ ۔ توکل
مقامات سلوک و تصوف میں سے بارہواں مقام ’’توکل‘‘ ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لو توکلتم علی الله حق توکله لرزقتم کما يرزق الطير.
(ترمذی، السنن 4 : 513 رقم 2344)
’’(لوگو!)اگر تم قادر مطلق اللہ پر ایسا توکل کرو جیسا کہ اس پر توکل کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے‘‘۔
٭ حضرت یحییٰ بن کثیر نے فرمایا ہے :
’’توراۃ میں اس شخص پر لعنت کی گئی ہے جو اللہ کو چھوڑ کر اپنے جیسے انسان پر بھروسہ کرتا ہے‘‘۔
٭ حضرت ابراہیم الخواص سے پوچھا گیا کہ آپ اپنے سفر کی عجیب ترین شے ہمیں بتا دیں تو آپ نے ارشاد فرمایا :
’’حضرت خضر علیہ السلام مجھ سے ملے تو انہوں نے مجھ سے صحبت کے بارے میں پوچھا مجھے ڈر سا لگا کہ میرا ان کے پاس ٹھہرنا میرے توکل کا راز کھول دے گا چنانچہ میں ان سے جدا ہوگیا‘‘۔
13۔ تیرہواں مقام۔ ۔ ۔ شکر
مقامات سلوک و تصوف میں سے تیرہواں مقام ’’شکر‘‘ ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا :
الهی کيف اشکرک وشکری لک نعمة من عندک فاوحی الله تعالی اليه الان شکرتنی.
(رسالة قشيريه ص 175)
’’اے میرے رب مجھے بتا کہ میں تیرا شکر کیسے بجالاؤں؟ حقیقت یہ ہے کہ میرا تیری بارگاہ میں شکر بجالانا بھی تیری نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی کہ اب تو میرا شکر بجالایا‘‘۔
٭ حضرت ابوعثمان رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :
الشکر معرفة العجز عن الشکر.
(رساله قشيريه ص 173)
’’اللہ کی بارگاہ میں شکر بجالانے سے اپنی عاجزی و بے بسی کا اظہار کرنا حقیقت میں شکر ہے‘‘۔
٭ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے :
الشکر ان تجعل نعمة ربک معينا علی طاعته.
’’اے سالک! راہ سلوک پر شکر یہ ہے کہ تو اللہ کی نعمتوں کو اس کی اطاعت اور بندگی کے لئے معین اور مددگار بنائے‘‘۔
14۔ چودہواں مقام۔ ۔ ۔ صبر
مقامات سلوک و تصوف میں سے چودہواں مقام ’’صبر‘‘ ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
الصبر نصف الايمان.
’’صبر آدھا ایمان ہے‘‘۔
(قضاعی، مسند الشهاب، 1 : 126 رقم : 158)
٭ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی۔
’’اے داؤد (علیہ السلام) تو میرے اخلاق کے رنگ میں رنگ جا، بے شک میں خوب برداشت کرنے والا ہوں‘‘۔
٭ حضرت ابوعثمان المغربی کا ارشاد ہے میں نے خضر علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا :
ان تحب ان تکون من المقربين فعليک بالصبر.
’’اے سالک اگر تو اللہ کے قربت یافتہ بندوں میں شامل ہونا چاہتے ہو تو تم پر لازم ہے کہ تم صبر اختیار کرو‘‘۔
٭ حضرت ابن عطاء کا فرمان ہے :
الصبر الوقوع مع البلاء بحسن الادب.
(رساله قشيريه ص 184)
’’حسن ادب کے ساتھ آزمائش و ابتلاء کا مقابلہ کرنا صبر ہے‘‘۔
15۔ پندرہواں مقام۔ ۔ ۔ یقین
مقامات سلوک و تصوف میں سے پندرہواں مقام ’’یقین‘‘ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اليقين الايمان کله.
(بخاری الجامع الصحيح 1 : 11 رقم 7)
’’یقین کل ایمان ہے‘‘۔
٭ حضرت ابو سعید الخراز نے فرمایا ہے :
العلم ما استعملک واليقين ماحملک.
(رسالة القشيريه ص 182)
’’علم وہ ہے جو عمل پر ابھارے اور یقین وہ جو تجھے قرب الہٰی کی طرف لے جائے‘‘۔
٭ حضرت یحییٰ بن المنصور الطوسی نے فرمایا ہے :
’’فقیر چار چیزوں کا محتاج ہوتا ہے۔ (وہ) علم جو احوال درست کردے (وہ) ذکر جو اسے بچھڑی ہوئی جگہ (یعنی قرب الٰہی) کے قریب کردے (وہ) یقین جو غفلت کی نیند سے اٹھادے اگر اس کے پاس یقین ہو تو وہ زندوں اور مردوں کے درمیان نہیں ہوگا‘‘۔
16۔ سولہواں مقام۔ ۔ ۔ مراقبہ
مقامات سلوک و تصوف میں سے سولہواں مقام ’’مراقبہ‘‘ ہے :
المراقبة ماکرهت ان يراه الناس منک فلاتغفله اذا خلوت.
’’مراقبہ یہ ہے کہ جس چیز کے متعلق تم ناپسند کرو کہ لوگ تمہیں اس میں ملوث دیکھیں تم خلوت میں بھی اس کا ارتکاب نہ کرو‘‘۔
٭ حضرت ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے :
افضل الطاعات مراقبة الحق علی دوام الاوقات.
(رسالة قشيريه ص 191)
’’سب سے بہتر اطاعت یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کا تصور ہمہ وقت کرنا شروع کردیں ‘‘۔
٭ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
’’جو اپنے باطن کا مراقبہ کرے اس کے اعضاء و جوارح گناہوں سے محفوظ رہتے ہیں جو اس کی رعایت کرتا ہے اس کی ولائت برقرار رہتی ہے‘‘۔
٭ حضرت حارث المحاسبی کا ارشاد ہے :
اول المراقبة علم القلب لقرب الرب.
’’مراقبے کا پہلا درجہ اللہ کے قرب کے لئے قلب یعنی دل کا علم ہے‘‘۔
17۔ سترہواں مقام۔ ۔ ۔ عبودیت
مقامات سلوک و تصوف میں سے سترہواں مقام ’’عبودیت‘‘ ہے۔ حضرت ابراہیم الثعلبی کا ارشاد ہے :
العبودية اربعة اشياء : الوفاء بالعهود والحفظ بالحدود والرضاء بالموجود والصبر علی المفقود.
’’عبودیت چار چیزوں سے مرکب ہے۔
- وعدے کو پورا کرنا
- (اللہ کے قائم کردہ) حدود کی حفاطت کرنا
- موجود یعنی دستیاب نعمتوں پر خوش رہنا
- مفقود یعنی گمشدہ نعمتوں پر صبر کرنا‘‘
٭ حضرت ابوعلی الدقاق کا فرمان ہے۔
انت عبد فی رقه فان کنت اسيرا فی اسر نفسک فانت عبدنفسک وان کنت اسيرالدنيا فانت عبد دنياک.
’’تو جس کی قید میں ہے اس کا بندہ ہے اگر تو نفس کی قید کا قیدی ہے تو سمجھ لے کہ تو نفس کا بندہ ہے اگر تو دنیا کا قیدی ہے تو دنیا کا غلام ہے‘‘۔
18۔ اٹھارہواں مقام۔ ۔ ۔ استقامت
ان مقامات سلوک و تصوف میں سے اٹھارہواں مقام ’’استقامت‘‘ ہے۔ حضرت محمد واسطی کا فرمان ہے :
الخصلة التی بها کملت المحاسن وبفقدها قبحت المحاسن الاستقامة.
’’وہ خصلت جس کی وجہ سے محاسن اخلاق مکمل ہوتے ہیں اور جس کے نہ ہونے سے محاسن نامکمل رہتے ہیں وہ استقامت ہے‘‘۔ (الرسالۃ قشیریہ ص 26)
٭ حضرت ابو علی الجرجانی نے فرمایا :
ان کنت صادقا فاطلب الاستقامة ولاتطلب الکرامة فان نفسک متحرک بالکرامة وربک يطلب الاستقامة.
(الرسالة القشيريه ص 26)
’’اگر تم سچے ہو تو (رب العالمین) سے استقامت طلب کرو اور کرامت طلب نہ کرو یقیناً تیرا نفس کرامت کیلئے بے چین رہتا ہے حالانکہ تیرا پروردگار تجھ سے استقامت مانگتا ہے‘‘۔
٭ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فاستقم کما امرت ’’پس آپ ثابت قدم رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے‘‘۔
19۔ انیسواں مقام۔ ۔ ۔ اخلاص
مقامات سلوک و تصوف میں سے انیسواں مقام ’’اخلاص‘‘ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
الاخلاص سرمن اسراري استودعته من احببته من عبادي.
(رسالة القشيريه ص 28)
’’اخلاص میرے رازوں میں سے ایک رازہے جو میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہے ودیعت کرتاہوں‘‘۔
٭ حضرت یعقوب کا ارشاد ہے :
المخلص من يکتم حسناته کما يکتم سياته.
’’مخلص وہ شخص ہے جو اپنی حسنات یعنی اچھائیوں کو بھی اسی طرح چھپاتا ہے جس طرح اپنی برائیوں کو چھپاتا ہے‘‘۔
٭ حضرت احمد بن سعیدالمروزی کا ارشاد ہے :
’’تمام امور اپنی انتہا پر جاکر دواصل پر منتج ہوتے ہیں۔ ایک وہ عمل ہے جو اس محبوب و مطلوب حقیقی کی طرف سے تیرے لئے ہے اور دوسرا وہ عمل ہے جو تیری طرف سے اس کے لئے کیا جاتا ہے۔ جہاں تک رضا کا تعلق ہے وہ اس کے لئے کیا جاتا ہے اور اخلاص وہ عمل ہے جو تم اس محبوب حقیقی کی رضا کیلئے کرتے ہو اگر تم نے یہ کام کیا تو یقیناً تم ان دواصل سے مزین ہوئے اور تمہاری آنکھیں دونوں جہانوں میں ٹھندی ہوئیں‘‘۔
٭ حضرت ابو عثمان نے فرمایا :
الاخلاص نسيان روية الخلق بدوام النظر الی الخالق.
’’بندے کا ہمہ وقت اپنے خالق اور محبوب حقیقی کی طرف دیکھنے کی وجہ سے مخلوق کی طرف دیکھنے کو بھول جانا اخلاص ہے‘‘۔
20۔ بیسواں مقام۔ ۔ ۔ صِدق
مقامات سلوک و تصوف میں سے بیسواں مقام ’’صدق‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی۔
ياداؤدمن صدتتي في سريرته صدقته عندالمخلوق في العلانيه.
’’اے داؤد میرے بندوں میں سے جو خلوت میں میری تصدیق کرے تو میں مخلوق میں اعلانیہ اس کی تصدیق کروں گا‘‘۔
٭ حضرت ابوالخواص رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے :
القطع الخلق عن الله بخصلتين اولهما انهم طلبو النوافل وضيعو الفرائض والثانية انهم اخذو اعمالا بالظاهر ولم ياخذ انفسهم بالصدق.
’’دو خصلتیں ایسی ہیں جس سے مخلوق کا اللہ سے تعلق بندگی ٹوٹ جاتا ہے اس میں پہلی یہ کہ وہ نوافل کے پیچھے پڑتے ہیں اور فرائض ضائع کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ وہ اعمال کو ظاہراً اپناتے ہیں اور صدق کو نہیں اپناتے‘‘۔
21۔ اکیسواں مقام۔ ۔ ۔ حیاء
مقامات سلوک و تصوف میں سے اکیسواں مقام ’’حیاء‘‘ ہے۔ حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :
خمس من علامات الشقاء القسوة في القلب وحمود العين والرغبة في الدنيا وطول الامل وقلة الحياء.
’’پانچ چیزیں بدبختی کی علامت ہیں دل کی سختی، آنکھوں کی خشکی، دنیا کی طرف رغبت، لمبی امیدیں، حیاء کی کمی‘‘۔
٭ حضرت جنید سے حیاء کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا :
’’اللہ کی نعمتوں کی طرف کثرت کی نظر سے دیکھنا اور اپنی بندگی و شکر گزاری کی طرف کمی کی نظر سے دیکھنا سو ان دونوں سے ایک ایسی حالت جنم لیتی ہے جسے حیاء کا نام دیا جاتا ہے‘‘۔
٭ حضرت ابوبکر الرزاق فرماتے ہیں :
انما اصلی رکعتين فالنصرف عنها وانا بمنزلة من ينصرف من السرقة من الحياء.
’’کبھی کبھی میں دو رکعات نماز پڑھتا ہوں پھر اس سے رجوع کرتاہوں اس طرح کہ جو شخص حیاء کی وجہ سے چوری سے رجوع کرتا ہے‘‘۔
(جاری ہے)