ذکر اور جدید سائنس (حصہ دوم)

ایس ایم نور

’’طب نفسی جسمی‘‘ ایک جدید طریقہ علاج (Psychosomatic Medicine)

’’طب نفسی جسمی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی بیماری میں مریض کے نفسیاتی طور پر جذبات و احساسات کا حصہ کس قدر ہے اور اسی طرح جسم کا حصہ کس حد تک ہے اور پھر یہ کہ ان دونوں میں تعلق کی نوعیت کیا ہے؟

یہ ایک جدید طریقہ علاج ہے کیونکہ سالہا سال کی (Research) تحقیق کے بعد سائنس اس بات کو علی الاعلان تسلیم کرچکی ہے کہ انسانی نفسیات کا اس کے جسم کے ساتھ ایک براہ راست اور گہرا تعلق ہے، جس کی بدولت انسانی جسم نفسیاتی کیفیت کا اثر فوری طور پر قبول کرتاہے اور تحقیقات سے یہ بات بھی مانی گئی ہے کہ کوئی بھی بیماری صرف جسمانی نہیں ہوتی بلکہ انسانی نفسیات کا اثر اس بیماری پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ضرور ہوتا ہے اور اسی طرح کوئی بھی بیماری صرف نفسیاتی نہیں ہوتی بلکہ اس میں بھی کہیں نہ کہیں بالواسطہ یا بلاواسطہ انسانی جسم کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے۔ ذیل میں اسی بات کی تائید میں دلائل دیئے جارہے ہیں۔

’’طب نفسی جسمی‘‘ اور احادیث و اقوال

٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’جب کسی قوم میں بدکاری اور اخلاقی برائیاں پھیل جاتی ہیں تو اس میں طاعون اور دوسری ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو اس سے پہلے ان لوگوں میں نہیں تھیں‘‘۔

٭ ایک اور مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’خوش اطوار انسان کا قلب پر سکون ہوتا ہے‘‘۔

٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ’’خدا ترسی طول حیات کا سبب ہے‘‘۔

٭ مزید یہ بھی کہ ’’میرے لئے حاسد کی اچھی صحت ناقابل فہم ہے‘‘۔

٭ نیز یہ کہ ’’جو شخص گناہوں سے محفوظ رہتا ہے جری اور بہادر ہوتا ہے جب کہ گناہ گار بزدل ہوجاتا ہے‘‘۔

٭ قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے فرمایا :

وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ.

(الکهف، 18 : 24)

’’اور جب آپ بھول جائیں تو اپنے رب کا ذکر کرلیا کیجئے‘‘۔

اسی موضوع پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ رباعی بھی قابل توجہ ہے فرماتے ہیں :

شکوت الی وکيع سوء حفظی
فاوصانی الی ترک المعاصی
لان العلم نور من اله
و نور اللّٰه لا يعطی لعاصی

’’میں نے اپنے استاد گرامی حضرت وکیع رضی اللہ عنہ سے اپنی یاد داشت کی کمزوری کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے گناہوں سے بچنے کی نصیحت کی کیونکہ علم اللہ کے نور میں سے ایک نور ہے اور اللہ کا نور گناہگاروں کو عطا نہیں کیا جاتا‘‘۔

اکثر خواتین و حضرات کو یادداشت کی کمزوری کی شکایت کرتے دیکھا گیا ہے لہذا ہمیں اوپر بیان کردہ علاج کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

٭ اسی طرح ایک امریکی ڈاکٹر ’’مسٹر آر۔ڈبلیو۔ ٹرائن‘‘ اپنی کتاب ’’In Tune With The Infinit‘‘ کے صفحہ نمبر 39 پر لکھتا ہے کہ ’’دماغ جسم کا فطری محافظ ہے۔ ہر قسم کا گناہ جسم لطیف میں برص اور دیگر امراض پیدا کرتا ہے اور پھر یہی امراض جسم خاکی میں منتقل ہوجاتے ہیں‘‘۔

جبکہ مہاتما بدھ نے کہا کہ ’’تندرستی نیکی کا نام ہے جب لالچ، نفرت اور فریب کی آگ بجھ جاتی ہے تو نروان (مکمل چین اور سکون) حاصل ہوتا ہے‘‘۔

اسی طرح گیتا میں درج ہے کہ ’’جو شخص حواس اور عقل کو ضبط میں لانے کے بعد (سفلی) خواہشات کو ترک کردیتا ہے وہ تمام دکھوں سے رہائی پالیتا ہے‘‘۔

نفسیاتی پیچیدگی اور سرطان

سرطان (Cancer) کے حوالے سے جدید ترین تحقیق کے بارے میں روم میں مقیم ایک جرمن ڈاکٹر ’’رٹکی گریڈ ہامر‘‘ کا کہنا یہ ہے کہ : ’’سرطان نہ تو ماحول کی کثافت کا نتیجہ ہے، نہ اس کا کوئی تعلق وائرس سے ہے اور نہ ہی اس کی پیدائش میں موروثی اور جینیاتی اثرات کا کوئی حصہ ہے، بلکہ انسان اور جانور دونوں میں سرطان کی پیدائش دماغی کارکردگی میں خلل (Neurosis) کا نتیجہ ہوتی ہے اور خلل سے مراد ہے کہ دماغی عصبی رو لے جانے والے ڈور (اعصابی تار) آپس میں الجھ جاتے ہیں، جبکہ ایسا کسی نفسیاتی الجھن یا شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے‘‘۔

(اسٹیٹسمین، نئی دہلی، 6 جون 1982ء)

جسم پر ذہن کے حیرت انگیز اثرات

فرانس کے ایک سزائے موت کے مجرم کو بتایا گیا کہ پھانسی کی بجائے اس کے بازو کی فصد (Vein) کھولی جائے گی اور وہ خون بہنے سے ہلاک ہوجائے گا۔ مجرم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے ایک میز پر لٹا دیا گیا، ہاتھ پاؤں جکڑ دیئے گئے اور ایک جراح (سرجن) نے جھوٹ موٹ اس کے بازو کی فصد کھولی اور نلکی کے ذریعے نیچے رکھے ہوئے طشت میں پانی ٹپکایا جانے لگا۔ ٹپ ٹپ، ٹپ تاکہ مجرم کو مکمل یقین ہوجائے کہ فصد کھولنے سے اس کے بازو سے خون کی دھار بہہ رہی ہے، ظاہر ہے کہ یہ ساری کارروائی فرضی تھی لیکن صرف فصد کھلنے اور خون بہنے کے تصور کے زیر اثر مجرم کے جسم میں رفتہ رفتہ اینٹھن پیدا ہونے لگی اور چند منٹ بعد بے چارے کی موت واقع ہوگئی۔ حالانکہ نہ تو اس کی فصد کھولی گئی تھی اور نہ ہی خون کا ایک قطرہ ہی جسم سے باہر نکلا تھا۔۔۔ یہ ایک ’’نفسی جسمی‘‘ تجربہ تھا کہ جسے تمام دنیائے طب و نفسیات نے وہی اہمیت دی کہ جس کا یہ مستحق تھا۔

ارتکازِ توجہ اور بیماریوں سے چھٹکارا

اوپر بیان کردہ تحقیقات کو پڑھ لینے کے بعد اب آپ روزمرہ کے عام تجربات کو ذہن میں دہرائیں تو آپ یہ سوچ کر حیران رہ جائیں گے کہ ہمارے جذبات اور جسمانی کیفیات کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے۔ مثال کے طور پر عام مشاہدہ ہے کہ بھوک میں غصہ آجاتا ہے اور غصے میں بھوک کا احساس ماند (پھیکا) پڑنے لگتا ہے، خوف کی حالت میں جنسی جذبات سرد (ٹھنڈے) پڑ جاتے ہیں، رعب کے سبب آدمی ہکلانے لگتا ہے، غم یا پریشانی کے عالم میں سر درد شروع ہوجاتا ہے اور سر درد کے دوران غم یا پریشانی گھیرا ڈال لیتی ہے، پھر اسی طرح خوشی سے دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور موسیقی جذبات میں ہیجان (جوش و ولولہ) (Emotion) پیدا کردیتی ہے، یعنی اس حوالے سے روزمرہ کے معاملات میں ہی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

تو نتیجہ یہ نکلا کہ ’’ذکر‘‘ کو اگر آپ خدانخواستہ ذکر الہٰی کی نیت سے بھی نہ کریں بلکہ اسے صرف ’’ارتکاز توجہ کی مشق‘‘ کے طور پر اپنا لیں تو پھر بھی یہ آپ کے لئے لاتعداد بیماریوں سے شفا اور بہت سے فوائد کے حصول کا ذریعہ ہے کیونکہ دراصل یہ غلط انداز فکر یا جذباتی دباؤ ہے جو بدن میں امراض کے اثرات کو قبول کرنے کی ناصرف گنجائش اور استعداد (قوت) پیدا کردیتا ہے بلکہ جسمانی امراض کی شدت میں اور بھی اضافہ کر دیتا ہے لہذا ذکر کی صورت میں کی جانے والی ’’ارتکاز توجہ کی مشق‘‘ کی بدولت قوت ارادی مضبوط ہوجاتی ہے اور جذبات میں اعتدال پیدا ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں جذباتی دباؤ، غلط انداز فکر اور اعصابی تناؤ ختم ہوجاتا ہے اور یوں یہ بات تحقیقی نقطہ نظر سے بھی پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے کہ قرآن پاک میں ذکر الہٰی کو سکون کا باعث کیوں کہا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :

اَلَا بِذِکْرِ اللّٰه تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ.

(الرعد : 28)

’’بے شک دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے‘‘۔

اور یہی بات، کتاب ’’Destructive Emotions‘‘ کے مصنف Danial Goleman نے لکھی ہے کہ

For 30 years meditation Reserch told us that it works beautifully as anantidote to stress

’’تیس سالہ تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مراقبہ ذہنی دباؤ کے خلاف بہترین تریاق ہے‘‘۔

اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ

’’ڈاکٹر کی ایک بہت بڑی تعداد لمبی بیماریوں جیسے دل کی بیماریاں، ایڈز، کینسر اور بانجھ پن کو قابو کرنے کے لئے مراقبہ کو ایک عمدہ ذریعہ علاج قرار دیتی ہے اور اس کے علاوہ یہ دوسری اعصابی بیماریوں جیسے ذہنی دباؤ، ہیجان اور ذہنی پسماندگی کو بھی ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے‘‘۔

(Monthly Time 4th August 2003, New York City)

بہر حال اس طرح جگر کے امراض، پھیپھڑوں کی تکلیف، بلڈ پریشر، شوگر، دل کی بیماریاں (مثلاً تپ دق، جس کا تعلق جذبات کے اتار چڑھاؤ سے ہے) جنسی امراض، نفسیاتی بیماریاں (مایوسی، محرومی، تلخی، عداوت، تشویش، ٹینشن، Stress وغیرہ دور ہوجاتی ہیں۔ غرض یہ کہ ’’ارتکاز توجہ کی مشق‘‘ کی وجہ سے تقریباً ہر بیماری کی نوعیت اور شدت کے اعتبار سے ضرور افاقہ ہوتا ہے۔

ہماری روح پر ذکر کے مثبت اثرات

تاریخ میں سب سے پہلے فیثا غورث نے اس حقیقت کا انکشاف کیا تھا کہ کائنات کی ہر چیز سے لہریں نکل رہی ہیں جب کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ وہ پہلے مفکر تھے جنہوں نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’حجۃ البالغہ‘‘ میں ’’عالم مثال‘‘ اور ’’اوراء‘‘ کی موجودگی کا اعلان فرمایا تھا۔

’’روح‘‘ کو فلاسفہ مغرب ’’آسٹرل باڈی‘‘ (Austral Body) ’’جسم لطیف‘‘ یا ’’جسم مثالی‘‘ کا نام دیتے ہیں اور ’’عالم مثال‘‘ کو ’’کاسمک ورلڈ‘‘ (Cosmic World)، ’’آسٹرل ریجن‘‘ (Austral Region)، ’’ایتھر‘‘ (Either) یا ’’اثیر‘‘ کہتے ہیں۔

یورپ میں ’’کاپرینکی‘‘ پہلا مفکر ہے جس نے 1543ء میں انسان کو ایک روحانی حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ کیپلر، گلیلیو، نیوٹن اور ڈارون نے بھی اسی موضوع پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، چنانچہ 1874ء میں سرولیم کرکس نے اپنی کتاب ’’Research in the Phenomena of Spiritualism‘‘ کے نام سے شائع کی جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ فرانس کے فزیالوجسٹ (Richet) نے اپنی کتاب Thirty years of Physical Research میں روح اور ’’آسٹرل ورلڈ‘‘ کے وجود کی تصدیق کی۔

اوراء (Aura)

جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’اوراء‘‘ (Aura) کے بارے میں لکھا تھا، اسے بعد ازاں ڈاکٹر کرنگٹن اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے۔

"Aura is an invisible magnetic radiation from the Human body which either attracts or repels."

’’اوراء‘‘ وہ غیر مرئی (نہ نظر آنے والی) مقناطیسی روشنی ہے جو انسانی جسم سے خارج ہوتی ہے یہ یا تو دوسروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور یا پرے دھکیلتی ہے‘‘۔

دراصل انسان کے جسم سے مختلف رنگ کی شعاعیں نکلتی ہیں جو جسم کے اردگرد ایک ہالہ سا بناتی ہیں۔ یہ شعاعیں ہر آدمی خارج کرتا ہے۔ خواہ وہ نیک ہو یا بد، فرق صرف یہ ہے کہ نیک و بد کی شعاعوں کا رنگ حسب کردار مختلف ہوتا ہے۔

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

صِبْغَةَ اللّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَO

(البقره، 2 : 138)

’’اے مسلمانو! اہل کتاب سے کہو ہم نے اللہ کے دین کا رنگ قبول کرلیا ہے اور اللہ کے رنگ سے کس کا رنگ اچھا ہے، اور ہم اسی اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں‘‘۔

موت کے وقت یہ ’’اوراء‘‘ نیلگوں مائل بہ سیاہی ہو جاتا ہے، بعض لوگوں میں یہ صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے کہ وہ ظاہری آنکھوں سے ’’اوراء‘‘ کو دیکھ سکتے ہیں جبکہ کچھ لوگ باطنی آنکھ سے بھی اسے دیکھ سکتے ہیں، اس حوالے سے جدید سائنسی تحقیق کی بدولت ’’کیرلین برادرز‘‘ نے ایسا کیمرہ ایجاد کرلیا ہے جس سے کسی بھی شخص کے ’’اوراء‘‘ کو نہ صرف دیکھا جاسکتا ہے، بلکہ اس کی تصویر بھی لی جاسکتی ہے۔

روح

قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُّسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَO وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُم حَفَظَةً حَتَّىَ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لاَ يُفَرِّطُونَO

(الانعام، 6 : 60، 61)

’’اور وہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روحیں قبض فرما لیتا ہے اور جو کچھ تم دن کے وقت کماتے ہو وہ جانتا ہے پھر وہ تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تاکہ (تمہاری زندگی کی) معینّہ میعاد پوری کر دی جائے پھر تمہارا پلٹنا اسی کی طرف ہے پھر وہ (روزِ محشر) تمہیں ان (تمام اعمال) سے آگاہ فرما دے گا جو تم (اس زندگانی میں) کرتے رہے تھے۔ اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ تم پر (فرشتوں کو بطور) نگہبان بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے (تو) ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ خطا(یا کوتاہی) نہیں کرتے‘‘۔

اسی روح کو مغرب کے اہل فن اپنی اصطلاح میں ’’آسٹرل باڈی‘‘ (Austral Body) یا ’’جسم لطیف‘‘ کہتے ہیں۔ یورپ کے مشہور پادری ’’لیڈ بیٹر‘‘ جنہیں وہاں کے صوفیاء میں سرفہرست سمجھا جاتا ہے، یہ جسم لطیف میں دور دور تک پرواز کرتے اور مخفی اشیاء کو دیکھ سکتے تھے۔ وہ اپنی کتاب ’’Invisible Helpers‘‘ جو 1928ء میں شائع ہوئی تھی، کے صفحہ نمبر 70 پر رقمطراز ہیں :

"You are not your body you inhabit your body. Bodies are mere shells which we cast aside like a suit of clothing."

’’تم جسم نہیں ہو یہ جسم تمہاری قیام گاہ ہے، اجسام محض خول ہیں، جنہیں ہم موت کے وقت یوں پرے پھینک دیتے ہیں جس طرح کہ کپڑے اتار دیئے جاتے ہیں‘‘۔

ڈاکٹر الیکسزکیرل کا کہنا ہے کہ

"Man overflows and is greater than the organism which he inhabits."

’’انسان اپنے جسم سے عظیم تر ایک چیز ہے اور اس پیمانہ خاکی سے باہر چھلک رہا ہے‘‘۔

دراصل تحقیقات سے یہ حقیقت اب تسلیم کی جاچکی ہے کہ ہمارے جسم خاکی کے اندر ایک اور جسم داخل ہے جو بخارات آبی سے زیادہ لطیف ہے، حقیقی انسان وہی ہے، یہی جسم خاکی فانی ہے اور وہ غیر فانی ہے۔ جب ہم سو جاتے ہیں تو جسم لطیف خاکی جسم سے نکل کر ادھر ادھر گھومنے چلا جاتا ہے۔ یہ دونوں جسم ایک لطیف بندھن سے باہم بندھے ہوئے ہیں اور جب کسی حادثے یا بیماری سے یہ بندھن کٹ جاتا ہے تو موت واقع ہوجاتی ہے، ورنہ نیند کے بعد جسم لطیف جسم خاکی میں واپس آجاتا ہے۔

دنیائے اثیر

ایک سائنس دان کے ہاں ممکن ہے کہ آسٹرل ریجن، کاسمک ورلڈ، ایتھریا دنیائے اثیر کے الگ الگ مفہوم ہوں، مگر ماہر روحانیات انہیں مترادفات ہی قرار دے گا۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ امواج اثیر کے حوالے سے اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے صفحہ نمبر 50، 51 پر لکھتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ نے انسانی خدمت کے لئے ملکوت (اثیر) میں فرشتے پیدا کئے ہیں جب کوئی شخص اچھا کام کرتا ہے تو ان فرشتوں سے سرور و مسرت کی لہریں نکلتی ہیں اور برے کاموں پر بغض و نفرت کی۔ جب یہ لہریں اس شخص کی روح میں داخل ہوتی ہیں تو پہلی لہروں کا نتیجہ سرور و فرحت ہوتا ہے اور دوسری کا اضطراب و وحشت‘‘۔

اور تقریباً یہی مضمون قرآن پاک میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے :

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَO نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَO

(حم السجده، 41 : 30، 31)

’’بے شک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھاo  ہم دنیا کی زندگی میں (بھی) تمہارے دوست اور مددگار ہیں اور آخرت میں (بھی)، اور تمہارے لئے وہاں ہر وہ نعمت ہے جسے تمہارا جی چاہے اور تمہارے لئے وہاں وہ تمام چیزیں (حاضر) ہیں جو تم طلب کروo‘‘۔

هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُO تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍO يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَO

(الشعراء، 26 : 221 تا 223)

’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیںo وہ ہر جھوٹے (بہتان طراز) گناہگار پر اترا کرتے ہیںo جو سنی سنائی باتیں (ان کے کانوں میں) ڈال دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیںo‘‘۔

بات دراصل یہ ہے کہ یہ زمین اور اس کے مناظر کی تصاویر و اشکال ہو بہو اثیر میں بھی موجود ہیں۔ وہ اس طرح کہ اثیر کہ وہ لہریں جو روشنی سے پیدا ہوتی ہیں کسی چیز مثلاً کتاب، قلم، در، دیوار وغیرہ سے ٹکرا کر اسی چیز کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ چونکہ اثیری لہروں کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے، اس لئے ہر چیز کی اتنی ہی اثیری تصاویر ایک سیکنڈ میں تیار ہوتی ہیں۔ یہ تصاویر آنکھوں کی راہ سے جب دماغ تک پہنچتی ہیں تو دماغ اس چیز کو دیکھنے لگتا ہے، یہ تصاویر ہر سمت یعنی دائیں بائیں، اوپر نیچے جاتی ہیں، آپ کسی زاویے پر کھڑے ہوجائیں، وہ چیز نظر آئے گی۔ اگر آپ ایک مووی کیمرہ سامنے رکھ دیں اور پوری رفتار سے فلم گھمانا شروع کریں تو ایک منٹ میں کئی ہزار تصاویر فلم پر (Print) مرتسم ہوجائیں گی، یہ تصاویر اثیر میں ہمیشہ موجود رہتی ہیں، زمین و آسمان کی ان گنت تصاویر اثیر میں محفوظ ہیں، نہ صرف تصاویر بلکہ آواز اور خیال بھی ہمیشہ کے لئے اثیر میں موجود رہتا ہے، دوسرے لفظوں میں ہمارا کیا ہوا ہر عمل ہمارے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ اور ذہن میں پیدا ہونے والا ہر خیال اثیر میں ہمیشہ کے لئے ریکارڈ ہوجاتا ہے، لہذا قیامت کے دن کسی مجرم کے لئے اپنے گناہ سے انکار کی گنجائش نہیں رہے گی، کیونکہ جیسے ہی کوئی مجرم اعتراض کرے گا تو یوں سمجھیں کہ اثیر کی یہی ریکارڈنگ پروجیکٹر پر چڑھا دی جائے گی اور وہ شخص پردہ سکرین پر بولتا اور چلتا پھرتا دکھائی دے گا۔ اوپر بیان کردہ باتوں پر اگر غور کیا جائے تو یہ سب قرآن پاک کی اس آیت کی تشریح معلوم ہوتی ہے جس میں رب کائنات نے فرمایا کہ:

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَO

(يٰس، 36 : 65)

’’ہم اس روز ان کے منہ پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ پاؤں بول کر ان کے اعمال پر شہادت دیں گے‘‘۔

(جاری ہے)