الفقہ: بغرضِ اصلاح بچوں کی تادیب کا حکم؟ ڈالرزکی ذخیرہ اندوزی کرنا؟

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: اصلاح کی غرض سے بچوں کی تادیب کا کیا حکم ہے؟

جواب: مارپیٹ اور سزا سے بچوں کو تکلیف اور شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ بعض اوقات والدین اور اساتذہ بچوں کو ان کے ناقابلِ قبول رویوں پر سزا دینا اپنا حق سمجھتے ہیں تاکہ وہ انہیں فوری نظم و ضبط کا پابند بنا سکیں جبکہ ان کے اس رویے سے اصلاح کی نسبت بگاڑ کا احتمال زیادہ ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ بچوں کی اصلاح کے لیے ترغیب و ترہیب دونوں ضروری ہیں، کیونکہ بعض اوقات صرف ترغیب کارگر نہیں ہوتی اور فقط ترہیب پر بھی اکتفاء کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے والدین اور اساتذہ کو موقع و محل کی مناسبت سے وقتاً فوقتاً دونوں پر عمل کرنا چاہیے۔

اسلام دینِ فطرت ہے اور ہر معاملہ میں اعتدال کا سبق دیتا ہے۔ تعلیم کے میدان میں نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی مشعلِ راہ ہے۔ آپ ﷺ بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملہ میں ڈانٹ ڈپٹ اور برا بھلا کہنے کی بجائے انہیں پیار، محبت اور حکمت سے سمجھاتے۔ حضرت معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

بَیْنَا أَنَا أُصَلِّی مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: یَرْحَمُکَ اللهُ فَرَمَانِی الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُکْلَ أُمِّیَاهْ! مَا شَأْنُکُمْ تَنْظُرُونَ إِلَیَّ؟ فَجَعَلُوا یَضْرِبُونَ بِأَیْدِیهِمْ عَلَی أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَیْتُهُمْ یُصَمِّتُونَنِی لَکِنِّی سَکَتُّ، فَلَمَّا صَلَّی رَسُولُ اللهِ ﷺ، فَبِأَبِی هُوَ وَأُمِّی، مَا رَأَیْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِیمًا مِنْهُ، فَوَاللهِ، مَا کَهَرَنِی وَلَا ضَرَبَنِی وَلَا شَتَمَنِی، قَال: إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فِیهَا شَیْءٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِیحُ وَالتَّکْبِیرُ وَقِرَائَۃُ الْقُرْآنِ.

میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک تھا کہ جماعت میں کسی شخص کو چھینک آئی۔ میں نے کہا: یرحمک اللہ۔ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: کاش یہ مر چکا ہوتا، تم مجھے کیوں گھور رہے ہو؟ یہ سن کر انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیا۔ جب میں نے سمجھا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا۔ نبی اکرم ﷺ پر میرے ماں باپ فدا ہوں! میں نے آپ ﷺ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ ﷺ سے بہتر کوئی سمجھانے والا نہیں دیکھا۔ خدا کی قسم! (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) آپ ﷺ نے مجھے جھڑکا نہ برا بھلا کہا، نہ مارا، بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا: نماز میں باتیں نہیں کرنی چاہئیں؛ نماز میں صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوت کرنی چاہیے۔

(مسلم، الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحریم الکلام فی الصلاة ونسخ ما کان من إباحة، 1: 381، رقم: 537)

معلم میں حلم الطبع اور عفو و درگزر جیسی صفات کا ہونا اَز حد ضروری ہے۔ اگر بچوں کی کسی غلطی پر معلم کو غصہ آ جائے تو وہ درگزر کرنے کی بجائے مار پیٹ اور غصے سے طلبہ کو اور بھی متنفر کر دیتا ہے۔ حالانکہ اس مسئلہ کا صحیح حل ایسی تادیبی کارروائی کرنا ہے، جو تعمیری ہو۔ مثلاً اگر معلم نے بچے کو ہوم ورک دیا اور اگلے دن کلاس میں بچے نے کہا کہ میں نے واقعی کام کر لیا ہے مگر ہوم ورک کی کاپی گھر بھول آیا ہوں۔ استاد کو تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے تو تعمیری سزا کے طور پر استاد اس بچے کی تفریح کے وقت اسے وہی کام دو یا تین مرتبہ لکھنے کو دے۔ اس سے بچے کو پریشانی لاحق ہوگی۔ کیونکہ تفریح کے وقت کوئی بچہ بھی مقید ہونا پسند نہیں کرتا۔ لہٰذا معلم بچوں کی غلطیوں پر درگزر کرتے ہوئے سزا کی بجائے بقدرِ ضرورت تعمیری و تادیبی کارروائی عمل میں لائے۔ بچوں کے ساتھ والدین کا رویہ بھی یہی ہونا چاہیے کیونکہ بیجا ڈانٹ ڈپٹ اور ہر وقت کی مار پیٹ بچوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

مار پیٹ سے بچوں پر مرتب ہونے والے چند منفی اثرات درج ذیل ہیں:

1۔ ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ، مارپیٹ اور غصہ نہ صرف بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ والدین و اساتذہ اور بچوں میں دوری کا بھی سبب بنتا ہے۔ وہ کسی کو بھی اپنی بات سمجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔

2۔ بچے اپنے والدین اور اساتذہ کا عکس ہوتے ہیں۔ اگر والدین بیجا غصہ اور رعب جماتے رہیں گے تو بچوں کی عادت میں بھی یہی رنگ نظر آئے گا۔

3۔ بچے انتہائی خاموش اور سہمے سہمے سے رہتے ہیں۔ بچپن کا وہ چلبلا پن جو بچوں کی فطرت ہے وہ ان میں مفقود ہو جاتا ہے۔

4۔ بچے جب اپنے جذبات مجروح ہوتے دیکھیں گے تو ان کے اندر منفی احساسات پیدا ہو جائیں گے۔ خود اعتمادی کے فقدان کے باعث وہ کسی بھی تعمیری کام میں حصہ لینے سے گھبراتے رہیں گے۔

5۔ بچوں کی مثبت صلاحیتیں منفی رخ اختیار کر لیتی ہیں جس کے نتائج نہ صرف گھر کے اندر خرابی کا باعث بنتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے بھی وبال بن جاتے ہیں۔

سوال: اسلام کے معاشی نظام کی کیا خصوصیات ہیں؟

جواب: اسلام کے معاشی نظام کی خصوصیات درج ذیل ہیں:

1۔ وہ تمام مسائل جن پر انسان کا معاشی انحصار ہے، سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور اس کی تخلیق ہیں۔

قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے:

لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ.

(البقرة، 2: 284)

’’جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب الله کے لیے ہے۔‘‘

2۔ خالقِ کائنات، رازقِ کائنات بھی وہی ہے جو تمام مخلوقات کو رزق دیتا ہے، قرآن پاک میں ارشاد ہے:

وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُهَا.

(ھود، 11: 6)

’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق الله (کے ذمۂ کرم) پر ہے۔‘‘

3۔ اسلام کا معاشی نظام انفرادی حقِ ملکیت تسلیم کرتا ہے۔ اس میں کچھ حدود و قیود لگائی گئی ہیں لیکن انسان کو اس کے حق سے محروم نہیں کیا گیا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ.

(البقرة، 2: 267)

’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے (الله کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔‘‘

4۔ اسلام حقِ معیشت میں مساوات کا قائل ہے۔ اسبابِ معیشت میں ہر انسان کو فائدہ اٹھانے کا مساوی حق فراہم کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْ مَکَّنّٰـکُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَط قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ.

(الاعراف، 7: 10)

’’اور بے شک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لیے اسبابِ معیشت پیدا کیے، تم بہت ہی کم شکر بجا لاتے ہو۔‘‘

5۔ جس طرح اسلام حقِ معیشت میں مساوات کا داعی ہے اور ہر انسان کو اللہ تعالیٰ کے فراہم کردہ اسبابِ معشیت سے فائدہ اٹھانے کا حق دیتا ہے۔ اسی طرح حالات کو سامنے رکھتے ہوئے درجاتِ معیشت میں تفاوت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی اسلام میں معاشی مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ ہر ذی روح کو دنیا میں رہنے کا حق حاصل ہو، محنت اور ترقی کے راستے سب کے لئے ہوں اور وہ معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اس کا فیصلہ اس کی محنت، قابلیت اور کام کرنے کی صلاحیت پر رکھا گیا ہے جتنا وہ کام کرے گا، اسی حساب سے معیشت میں اس کا درجہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ.

’’اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)۔‘‘

(النحل، 16: 71)

اس کے پس منظر میں اس آیت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہو گا۔ جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی.

(النجم، 53: 39)

’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض الله کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)۔‘‘

مذکورہ بالا اساسی تصورات کے ساتھ اسلام نے معاشیات کے میدان میں اخلاقی اقدار کی بھی نشاندہی کی ہے جن میں تقویٰ، احسان، ایثار، عدل، اخوت، تعاون، توکل، قناعت اور مساوات اہم ہیں۔

سوال: ایک آدمی ڈالر خرید کر ذخیرہ اندوزی کرتا ہے اور مہنگا ہونے پر بیچ دیتا ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب: ذخیرہ کی جانے والی اشیاء مختلف اقسام کی ہوتی ہیں جیسے: ضروریات، آسائشات اور تعیّشات وغیرہ جبکہ ذخیرہ اندوزی کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ اس لیے کسی ایک شے یا ایک قسم کا حکم سب پر نہیں لگایا جاسکتا۔ مثال کے طور پر اشیائے ضرورت یعنی اشیائے خورد و نوش غلہ اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء کو کچھ دیر کے لیے ذخیرہ کرنا تاکہ اس سے مناسب منافع حاصل کیا جاسکے جائز ہے۔ تاہم اس میں اتنی تاخیر کرنا کہ جس سے لوگ تنگی میں مبتلا ہو کر انتہائی مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہو جائیں، گناہ ہے۔ گویا اشیائے ضرورت اگر بازار میں آسانی سے دستیاب ہوں اور ان کے حصول کے لیے لوگوں کو کسی طرح کی تنگی اور قلّت کا سامنا نہ ہو تو مستقبل کی پیش بندی کے لیے انہیں ذخیرہ کرنا جائز ہے لیکن اگر اس کا مقصد مصنوعی قلت پیدا کرنا ہو تو ناجائز ہوگا۔ اشیائے ضرورت کی مصنوعی قلت پیدا کر کے مہنگے داموں فروخت کرنے والے کو رسول ﷺ نے ملعون قرار دیا ہے۔

اشیائے آسائشات و تعیشات کی بھی ایسی ذخیرہ اندوزی جس سے لوگوں کو تنگی لاحق ہو، ناجائز ہے مگر اس میں قدرے رعائت دی گئی ہے۔ مناسب منافع کے لیے ان اشیاء کو بھی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی بھی مصنوعی قلت پیدا کرنے میں شریک ہونا جائز عمل نہیں ہے۔ ڈالر یا دیگر غیرملکی کرنسیاں اسی زمرے میں آتی ہیں۔ اگر کسی شخص نے بازار سے ڈالر کی اتنی مقدار خرید کر ذخیرہ کر لی ہے، جس سے قیمت پر اثر پڑا ہے تو ناجائز ہے اور اگر معمولی مقدار میں ذخیرہ کیا ہے جس سے قیمت متاثر نہیں ہوئی تو کوئی حرج نہیں۔

ذخیرہ اندوزی کے سلسلے میں تمام فقہاء کا اصول یہی ہے کہ ذخیرہ اندوزی صرف اسی صورت میں ناجائز ہے جب ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے عامۃ الناس کو ضرر پہنچے۔ بازار میں کسی شے کی طلب ہو لیکن ذخیرہ اندوز اس کو فروخت کرنے کے لیے بازار میں نہ لائے یا لائے بھی تو ناجائز منافع خوری کرے۔ اگر ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے عوام کو کوئی ضرر نہ پہنچے اور بازار میں اس چیز کی کثرت ہو تو اس صورت میں ذخیرہ اندوزی کرنا ناجائز نہیں ہوگا۔ تاہم کھانے پینے کی اشیاء یا دیگر اشیائے ضرورت کی ذخیرہ اندوزی کو ہر حال میں روکا جائے گا۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

جوشخص غلہ رو ک کرگراں نرخ پر مسلمانوں کو فروخت کرتا ہے، اللہ اسے جذام اور افلاس میں مبتلا کر دیتا ہے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ جس شخص نے چالیس دن تک گرانی کے خیال سے غلہ روکے رکھا تو گویا وہ خدا سے بیزار ہوا اور خدا اس سے بیزار ہوا۔