محبوب سبحانی، قطب ربانی، محی الدین، غوث الثقلین و سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ علومِ ظاہری و باطنی کا مجمع البحرین ہیں۔ جس طرح تصوف و روحانیت کے میدان میں آپ کا کوئی ثانی نہیں اور آپ کے مرتبۂ کمال کو کوئی نہ پہنچ سکا، اسی طرح علمِ شریعت میں بھی آپ کا کوئی ہم پلہ نہیں۔
اسی لیے آپ کا فرمان ذیشان ہے:
دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرْتُ قُطْبًا
وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَّوْلَی الْمَوَالِیْ
’’میں علم سیکھتے سیکھتے قطب بن گیا اور یہ سعادت مجھے فضلِ الہٰی سے حاصل ہوئی ہے۔‘‘
حضور غوث اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ کی عظیم الشان تصانیف کی تعداد چودہ ہیں جن میں سے فتوح الغیب، الفتح الربانی اور غنیۃ الطالبین زیادہ شہرت رکھتی ہیں۔ ان میں سے غنیۃ الطالبین اپنی جامعیت اور اصلاحی مضامین و موضوعات کی بنا پر عوام و خواص میں زیادہ مقبول ہے۔ حضرت شیخ ؓنے کتاب کے خطبہ میں اس کا نام الغنیۃ الطالبی الحق لکھا ہے یعنی ایسی کتاب جو حق کے طالبوں کو دوسری کتب سے بے نیاز کردے۔
غنیۃ الطالبین کل 14 ابواب پر مشتمل ہے جن کے تحت متعدد فصول بھی قائم کی گئی ہیں۔ ان میں سے ابتدائی دس ابواب تو ارکانِ اسلام، آدابِ زندگی، عقائد کے بیان، ایام ولیالی کے فضائل و خصوصیات، مہینوں کے فضائل، فرائض و نوافل نمازوں کی اقسام اور ان کی فضیلت پر مشتمل ہیں جبکہ آخری چار ابواب؛ آدابِ مریدین، آدابِ صحبت، طریقت کی اساس اور اہلِ مجاہدہ و محاسبہ کے فضائل کے بیان کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کہ ان میں سالک کے لیے راہِ سلوک پر چلنے کے لیے خصوصی رہنمائی اور ہدایات بیان کی گئی ہیں۔ ذیل میں اس کتاب سے چند تعلیماتِ نذرِ قارئین ہیں:
1۔ فقر، فقیر اور مرید کے احوال
حضور غوث اعظم، محبوبِ سبحانی سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ نے سچے فقراء کی تعریف فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سچے فقراء وہ ہیں جو ان صوفیائے کرام کے راستے پر چلتے ہیں جن کے باطن گمراہ کن خواہشات سے پاک ہوں اور وہ بری عادات سے باز رہنے والے ہوں۔ وہ سب ابدال اور اولیائے کرام کی جماعت میں شامل ہیں اور خوفِ خدا کی وجہ سے قلیل مدت میں شرفِ باریابی حاصل کرتے ہیں۔
ان فقراء کے پاس ارادہ یا ارادت کے لیے آنے والوں کی رہنمائی کرتے ہوئے آپ ارشاد فرماتے ہیں:
اپنی عادت کو ترک کردینے کا نام ارادہ یا ارادت ہے جس کی تفصیل و تحقیق یہ ہے کہ دل کو طلبِ حق کے لیے اور اس کے ماسوا کے ترک کے لیے تیار کیا جائے۔ جب بندہ اس عادت کو چھوڑ دیتا ہے جو دنیا اور آخرت کی لذت کہلاتی ہے تو اس وقت اس کا ارادہ خالص ہوجاتا ہے۔ پس ارادہ یا ارادت تمام باتوں سے مقدم ہے۔ پھر اس کے بعد قصد اور اس کے بعد فعل ہے۔ ارادہ ہر سالک کی ابتداء اور ہر قاصد کی پہلی منزل ہے۔
چونکہ ارادہ سے ہی مرید بنا ہے جس کا معنی ہے: ’’ارادہ کرنے والا‘‘۔ چنانچہ مرید کی تعریف کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:
’’مرید وہ ہے جس میں یہ صفت پیدا ہوجائے (کہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں لگا رہے) اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت کی طرف متوجہ رہے۔۔۔ غیر خدا سے منہ پھیر لے اور اس کی بات نہ مانے۔۔۔ اپنے رب عزوجل کی بات سنے اور کتاب و سنت پر عمل کرے۔۔۔ اس کے ماسوا سے بہرہ ہوجائے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھے۔۔۔ اپنے اور باقی مخلوق میں صرف اسی کے فعل کو دیکھے اور غیر سے اندھا بن جائے۔۔۔ فاعلِ حقیقی صرف اللہ تعالیٰ کو جانے اور غیر کو محض سبب، آلہ، حرکت کرنے والا، تدبیر کرنے والا اور مسخر جانے۔ نبی اکرمa نے فرمایا: کسی چیز سے محبت تجھے اندھا اور بہرہ کردیتی ہے یعنی محبت تجھے محبوب کے غیر سے اندھا کردے اور اپنے محبوب میں مشغولیت کی وجہ سے تو غیر سے بہرہ ہوجائے۔ جب تک ارادت نہ ہو کسی سے محبت نہیں ہوسکتی اور جب تک ارادت میں خلوص نہ ہو، ارادت شمار نہ ہوگی اور ارادت میں خلوص اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اس کے دل میں خشیت الہٰی کی چنگاری نہ ڈالی جائے جو وہاں پر موجود ہر چیز کو جلا کر راکھ کردے۔‘‘
حضور غوث الثقلین مزید فرماتے ہیں:
’’محبت ایک ایسی جلن ہے جو ہر مشکل کو آسان کردیتی ہے۔ ایسا آدمی اس وقت سوتا ہے جب نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔۔۔ اس کا کھانا فاقہ کے وقت اور کلام ضرورت کے وقت ہوتا ہے۔۔۔ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو نصیحت کرتا ہے۔۔۔ نفس کو اس کی محبوب چیزوں اور لذتوں کی طرف جانے نہیں دیتا۔۔۔ وہ بندگان خدا کو بھی نصیحت کرتا ہے۔۔۔ خلوت میں اللہ تعالیٰ سے لو لگاتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتا۔۔۔ اس کی رضا پہ راضی رہتا اور اس کے حکم کو ترجیح دیتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے حیاء کرتا ہے۔۔۔ اپنی تمام کوششیں اللہ تعالیٰ کی محبت میں صرف کرتا ہے۔۔۔ ہمیشہ وہ کام کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ بنے۔۔۔ وہ گوشہ نشینی اور خلوت اختیار کرتا ہے۔۔۔ وہ بندوں کی طرف سے اپنی تعریف پسند نہیں کرتا۔‘‘
’’وہ خدا کی محبت میں محض اسی کی رضا کے لیے کثرت سے نوافل پڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے دوستوں اور ارادت مندوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس وقت وہ مراد کہلاتا ہے۔ اب اس سے سالکین والے بوجھ اتار دیئے جاتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت، مہربانی اور لطف و کرم کے پانی سے اسے غسل دیا جاتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے پڑوس میں اس کے لیے مکان بنایا جاتا ہے اور اسے طرح طرح کے قیمتی لباس پہنائے جاتے ہیں۔۔۔ اسے خدا تعالیٰ کی معرفت سے اُنس اور اس کے ہاں سکونِ قلب حاصل ہوتا ہے۔۔۔ وہ صریح اجازت کے بعد اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اور اسرار بیان کرتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں خبر دیتا ہے۔۔۔ اور اسے ایسا لقب ملتا ہے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں مختار ہوتا ہے اور اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں شمار ہوتا ہے۔۔۔ اس کے لیے ایسے نام رکھے جاتے ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔۔۔ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص رازوں پر مطلع ہوتا ہے اور غیرِ خدا کے سامنے ظاہر نہیں کرتا۔۔۔ وہ اللہ تعالیٰ سے سنتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ دیکھتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ بولتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قوت کے ساتھ پکڑتا ہے۔۔۔‘‘
2۔ سلوک کی راہ میں مبتدی کے واجبات
حضور سیدنا غوث الاعظمؓ سلوک کی راہ پر قدم رکھنے والوں کو لازمی امور کی رہنمائی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:
- مبتدی پر لازم ہے کہ وہ کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑے اور ان کے اوامر و نواہی نیز اصول و فروع میں ان دونوں پر عمل کرے۔ ان دونوں کو اپنے پَر قرار دے کر اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے راستے پر اڑے۔
- ایک دانشمند کا قول ہے جو شخص طلب کرتا اور کوشش کرتا ہے وہ مقصود حاصل کرلیتا ہے۔ پس اعتقاد کے ساتھ اسے حقیقت کا علم حاصل ہوگا اور اجتہاد کے ساتھ وہ حقیقت کی راہ پر چل پڑے گا۔
- پھر سالک پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرے کہ اس کی طرف جاتے ہوئے وہ جو بھی قدم اٹھائے یا رکھے گا، اس پر رضائے الہٰی پیش نظر ہوگی، یہاں تک کہ اس کے پاس پہنچ جائے۔
- کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کے سبب وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے کیونکہ سچا آدمی کبھی رجوع نہیں کرتا۔
- کرامت کی وجہ سے بھی اپنا مقصد ترک نہ کرے اور اسی پر اکتفا کرکے ٹھہر نہ جائے کیونکہ جب تک اسے وصل نصیب نہیں ہوتا، کرامت اس کے لیے ایک حجاب ہے اور جب اللہ تعالیٰ کا وصل نصیب ہوجائے تو کرامات سے نقصان نہیں پہنچتا۔
3۔ صحبت کے آداب
غنیۃ الطالبین میں حضور غوث الاعظمؓ نے مختلف طبقات کے ساتھ ہم مجلسی اور اُن کی صحبت اختیار کرنے کے آداب بھی ارشاد فرمائے۔ فرماتے ہیں:
1۔ اپنے برادرانِ طریقت کی خدمت کے لیے کمربستہ ہوجائو۔ کسی پر اپنا حق نہ جتائو اور نہ ہی کسی سے اپنا حق مانگو بلکہ اپنے ذمہ ہر ایک کا حق سمجھے اور ان کا حق ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرو۔ صحبت کے حقوق میں سے یہ ہے کہ ان کی تمام باتوں اور کاموں میں موافقت ظاہر کرو۔ ہمیشہ ان کا ساتھ دو، چاہے ذاتی طور پر نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔ ان کی طرف سے تاویل کرو اور معذرت پیش کرو۔ ان کی مخالفت اور نفرت نہ کرو، اُن سے جھگڑا اور لڑائی نہ کرو۔ ان کے عیب دیکھنے سے اندھا بن جائو۔
2۔ اجنبی لوگوں کی مجلس کے تقاضے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے رازوں کو ان سے محفوظ رکھو۔ انہیں شفقت اور رحمت کی نگاہ سے دیکھو۔ ان کے مال ان کے حوالے کردو۔ ان سے احکامِ طریقت پوشیدہ رکھو اور جس قدر ممکن ہو ان کے برے اخلاق پر صبر کرو اور ان سے الگ تھلگ رہو۔ ان پر اپنی فضیلت کا عقیدہ نہ رکھو اور یوں کہو یہ لوگ سلامتی والے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں معاف کردے گا۔ ان کے مقابلہ میں اپنے نفس سے کہو کہ تو بڑی تنگی میں پکڑا گیا ہے، تجھ پر کھجور کی گھٹلی کے دھاگے اور باریک پردے نیز ہر چھوٹی بڑی چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا، صغیرہ و کبیرہ پر محاسبہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جاہل سے اس قدر درگذر فرمادیتا ہے جو عالم سے نہیں فرماتا۔ عام لوگوں کو اتنا ڈر نہیں جتنا خاص لوگوں کو ہے۔
3۔ مالدار لوگوں کی صحبت کے آداب اور تقاضے اس طرح بیان فرمائے کہ: مالدار لوگوں کی مجلس اختیار کرو تو ان پر اپنی قوت کا اظہار کرو۔ ان سے لالچ نہ رکھو اور جو کچھ ان کے پاس ہے اس کی امید نہ رکھو اور کسی کو خاطر میں نہ لائو۔ ان سے عطیات حاصل کرنے کی خاطر ذلت و رسوائی جیسے امور سے اپنے دین کو محفوظ رکھو۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی اکرمa نے فرمایا: جو شخص کسی مالدار سے مال حاصل کرنے کے لیے اس کے سامنے ذلت اختیار کرتا ہے، اس کا دو تہائی دین چلا جاتا ہے۔ پس ہم ایسے کام سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ اگر تمہیں کسی وقت سیرو تفریح، سفر، مسجد یا کسی اجتماع میں ان مالدار لوگوں کے ساتھ اکٹھا ہونا پڑے تو حسنِ اخلاق سے پیش آنا ضروری ہے۔ یہ حکمِ عام ہے جو مالدار اور فقیر سب کی صحبت میں اختیار کیا جائے۔
4۔ فقراء کی صحبت کا بیان یوں فرمایا کہ: فقیر کی صحبت اختیار کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں، لباس، لذت والی چیزوں، بیٹھنے والی جگہوںحتی کہ ہر نفیس اور عمدہ چیز میں ان کو ترجیح دے اور مقدم رکھے۔ اپنے آپ کو ان سے کم سمجھے اور کسی بات میں بھی اپنے آپ کو ان سے افضل نہ سمجھے۔ فقراء کے ساتھ جب یہ سلوک کیا جائے تو اس میں اپنی فضیلت کا اظہار نہ ہو بلکہ ان کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انہوں نے تمہارے تحائف قبول کیے۔
4۔ طریقت کی اساس
طریقت کی اساس اور بنیاد سے آگاہ کرتے ہوئے آپ نے مختلف ائمہ کے اقوال نقل فرمائے۔ لکھتے ہیں کہ:
1۔ حضرت ابو علی دقاقؒ کا قول ہے کہ جو شخص اپنے ظاہر کو مجاہدہ سے مزین کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے باطن کو مشاہدہ کا حسن عطا فرماتا ہے اور جو شخص شروع میں مجاہدہ نہیں کرتا وہ طریقت کی بُو بھی نہیں سونگھتا۔
2۔ حضرت ابو عثمان مغربیؒ کا قول ہے کہ جو آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ مجاہدہ اختیار کیے بغیر اس پر طریقت کی کوئی بات واضح ہوتی ہے یا اسے کوئی کشف ہوتا ہے، وہ غلط کہتا ہے۔
3۔ حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سری سقطیؒ سے سنا، آپ نے فرمایا: اے نوجوانو! میری عمر کو پہنچنے سے پہلے محنت کرو پھر تم کمزور ہوجائو گے اور میری طرح کوتاہی کرو گے حالانکہ اس وقت کوئی نوجوان آپ کی عبادت کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔
4۔ حضرت حسن قزارؒ نے فرمایا کہ سلوک کی بنیاد تین چیزیں ہیں:
i۔ جب تک فاقہ کی نوبت نہ آئے، کھانا نہ کھائے۔
ii۔ نیند غالب آنے کے بعد سوئے۔
iii۔ ضرورت کے وقت کلام کرے۔
5۔ حضرت منصور بن عبداللہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوعلی روذ باریؒ کو فرماتے سنا: تین چیزوں سے مصیبت آتی ہے:
i۔ طبیعت کی بیماری
ii۔ عادت کا پڑ جانا
iii۔ صحبت کا فساد
میں نے پوچھا طبیعت کی بیماری کیا ہے؟ فرمایا: حرام کھانا۔ میں نے عرض کیا: عادت کا پڑ جانا کیا ہے؟ فرمایا: بری نظر کرنا، حرام سے نفع اٹھانا اور غیبت۔ میں نے پوچھا: صحبت کا فساد کیا ہے؟ فرمایا: جب نفس میں ایسی خواہش پیدا ہو جس کی پیروی کی جائے۔
5۔ نفس کی آفات
حضور غوث اعظمؓ نفس کی آفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نفس کی آفات میں سے ایک بات یہ ہے کہ انسان کی طبیعت اپنی تعریف، اچھے ذکر اور ستائش کو شیریں خیال کرے۔ بعض اوقات اس مقصد کے حصول کے لیے وہ عبادت کے بھاری بوجھ بھی اٹھاتا ہے اور اس پر ریاکاری اور منافقت کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ جب یہ تصور نہ ہو اور لوگ اس کو اچھا نہ کہیں، اس وقت (عبادت میں) سستی اور کمزوری واقع ہوجاتی ہے۔
حضرت ابوحفصؒ فرماتے ہیں کہ نفس پورے کا پورا تاریک ہے اور اس کا چراغ باطن یعنی اخلاص ہے اور چراغ کی روشنی توفیق ہے۔ جب آدمی کے باطن میں توفیقِ الہٰی نہ ہو تو وہاں اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
پھر فرمایا: مجاہدہ کی اصل خواہشات کی مخالفت کرنا ہے۔ جن چیزوں سے الفت، خواہش اور لذت پیدا ہو، ان کو نفس سے الگ کردے۔ جب خواہشات دب جائیں تو نفس کو تقویٰ اور خوفِ خدا کی لگام ڈالے اور جب وہ سرکشی کرے اور عبادات کے لیے قیام کے وقت ٹھہر جائے تو خوف، مخالفتِ خواہشات اور نفسانی لذتوں سے رکاوٹ کے چابک سے چلائے۔
6۔ اہلِ مجاہدہ و محاسبہ کے دس خصائل
حضور غوث الاعظمؓ نے ارشاد فرمایا کہ اہلِ مجاہدہ، اہلِ محاسبہ اور اہلِ طریقت نے اپنے لیے درج ذیل دس خصلتیں اختیار کی ہیں۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان خصائل کو اپنا لیتے ہیں اور ان پر مضبوطی سے کاربند ہوتے ہیں تو مراتب عالیہ تک پہنچتے ہیں:
1۔ پہلی خصلت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی قسم نہ اٹھائے سچی ہو یا جھوٹی، جان بوجھ کر ہو یا بھول کر کیونکہ جب اسے اس بات کی عادت ہوجائے گی (کہ قسم نہ اٹھائے) تو وہ قسم اٹھانا چھوڑ دے گا، بھول کر ہو یا جان بوجھ کر، تو اس عادت کے باعث اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنے انوار و تجلیات کے دروازے کھول دے گا۔
2۔ جھوٹ سے اجتناب کرے مذاق میں ہو یا سنجیدگی سے۔ کیونکہ جب وہ جھوٹ چھوڑنے کا مصمم ارادہ کرے گا اور اس کی زبان جھوٹ نہ بولنے کی عادی ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دے گا اور علم میں صفائی عطا فرمائے گا۔
3۔ کسی سے وعدہ کرنے کے بعد بلا عذر وعدہ خلافی نہ کرے یا وعدہ کرنا ہی چھوڑ دے کیونکہ یہ اس کے عمل کو مضبوط کرنے اور سیدھا راستہ اختیار کرنے کا ایک ذریعہ ہے کیونکہ وعدہ خلافی بھی ایک قسم کا جھوٹ ہے۔
4۔ کسی مخلوق پر لعنت نہ بھیجے اور ذرہ سے کم مخلوق کو بھی اذیت نہ دے کیونکہ یہ بات نیک اور سچے لوگوں کی عادت میں سے ہے۔ اس کے باعث وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتا ہے۔
5۔ مخلوق میں سے کسی کے لیے بددعا نہ کرے، چاہے اس نے اس پر ظلم کیا ہو۔ زبان سے برا کہے اور نہ عمل کے ذریعے بدلہ دے بلکہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس ظلم کو برداشت کرے۔ قول و فعل کے ذریعے جوابی کاروائی نہ کرے۔
6۔ اہلِ قبلہ میں سے کسی کے خلاف شرک، کفر اور منافقت کی گواہی نہ دے۔ یہ بات رحمت کو قریب کرتی اور درجات کو بلند کرتی ہے۔ یہ بات سنت کی تکمیل کرنے اور علمِ الہٰی میں دخیل ہونے سے دور رکھتی ہے۔
7۔ ظاہری اور باطنی گناہوں کی طرف نظر کرنے اور ان کا ارادہ کرنے سے باز رہے اور ان سے اپنے اعضاء کو دور رکھے۔ اس بات سے اس کے اعمال کا ثواب دنیا میں اس کے دل اور اعضائِ جسمانی کو جلد ہی حاصل ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ اسے آخرت میں بھی ثواب عطا فرمائے گا۔
8۔ آٹھویں خصلت یہ ہے کہ مخلوق میں سے کسی پر چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، بوجھ نہ ڈالے بلکہ دوسروں کا بوجھ اٹھائے، چاہے وہ اس کی ضرورت محسوس کریں یا نہ کریں۔ اس لیے کہ یہ عابدین کی عزت اور متقین کی شرافت ہے۔ اس سے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے پر قوت حاصل ہوتی ہے۔
9۔ لوگوں سے امید اور طمع ختم کردے اور جو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اس کا لالچ نہ کرے۔ یہی بہت بڑی عزت اور خالص غنا ہے۔ عظیم بادشاہی، فخرِ جلیل، یقین صادق اور صحیح توکل ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ پر یقین کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔
10۔ دسویں خصلت تواضع ہے کیونکہ اس کے ذریعہ مرتبہ کی بزرگی مضبوط ہوتی ہے اور درجہ بلند ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک عزت و رفعت کی تکمیل ہوتی ہے۔ دنیا اور آخرت کے جس کام کا ارادہ کرتا ہے، اس پر طاقت حاصل ہوتی ہے۔ یہ خصلت تمام عبادات کی اصل، فرع اور کمال ہے۔
تواضع کی مزید وضاحت و تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: تواضع یہ ہے کہ آدمی جس انسان سے ملے، اسے اپنے سے افضل سمجھے اور کہے ممکن ہے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک مجھ سے بہتر اور بلند درجات کا مالک ہو۔ اگر وہ چھوٹا ہے تو کہے اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی اور میں نافرمان ہوں لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مجھ سے بہتر ہے۔ اگر وہ بڑا ہے تو کہے کہ اس نے مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے۔ اگر وہ عالم ہے تو کہے کہ اسے وہ کچھ دیا گیا جس تک میں نہیں پہنچ سکتا اور جو کچھ اسے ملا مجھے نہیں ملا۔ تواضع رحمت کا دروازہ ہے، اس سے تکبر کا راستہ اور خود پسندی کی رسیاں کٹ جاتی ہیں۔
7۔ توکل کے درجات و ثمرات
توکل کے حوالے سے حضور غوث الاعظمؓ ارشاد فرماتے ہیں:
توکل کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے۔ اختیار و تدبیر کی آندھیوں سے پاک ہو اور تقدیر الہٰی کی طرف قدم بڑھائے۔ متوکل اپنے رب کے وعدہ پر مطمئن ہوتا ہے۔ توکل کے تین درجے ہیں:
1۔ توکل
2۔ تسلیم
3۔ تفویض
- متوکل کون ہے؟ حضرت سہل بن عبداللہؒ فرماتے ہیں: توکل کا پہلا مقام یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس طرح ہوجائے جس طرح مردہ غسل دینے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ وہ اسے جدھر چاہے، پھیرتا ہے، اس کی اپنی حرکت اور تدبیر نہیں ہوتی۔
- حضرت ابوعلی روذباریؒ فرماتے ہیں کہ توکل کی رعایت میں تین باتیں قابلِ لحاظ ہیں: پہلی یہ کہ جب کچھ ملے تو شکر ادا کرے اور نہ ملنے پر صبر کرے۔ دوسری یہ کہ بندے کے نزدیک ملنا اور نہ ملنا دونوں برابر ہوں۔ تیسری یہ کہ نہ ملنے پر اس لیے شکر ادا کرے کہ اللہ تعالیٰ کو یہی بات پسند ہے۔