گزشتہ 4 دہائیوں کے دوران عدمِ برداشت اور عدم رواداری کی وجہ سے باہمی اتحاد و اتفاق کی فضا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ’’لاتفرقوا‘‘ یعنی فرقہ واریت اور گروہ بندی سے دور رہنے کا حکم دیامگر افسوس کہ اس قرآنی حکم کے برعکس مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹے جانے لگے۔ اپنی خواہش کو نظریہ کا نام دے کر زبردستی دوسروں پر مسلط کیا جانے لگا، اختلافِ رائے کو دشمنی بنا لیا گیا، تہمت اور الزام تراشی کے ذریعے عوامی جذبات سے کھیلنا معمول بنا لیا گیا اور مذہب کے نام پر انتہا پسندانہ رجحانات کو فروغ دیا جانے لگا۔ اس انتہا پسندانہ سوچ کو پروان چڑھانے والوں کے نزدیک اولیائے اللہ کے مزارات کا تقدس قائم رہا اور نہ ہی خانۂ خدا کی حرمت کا کوئی پاس۔ ایک وقت تھا کہ کسی بھی فقہ کے عالم دین کے بارے میں پتہ چلتا کہ وہ فلاں جگہ پر تشریف لائے ہیں تو لوگ جوق در جوق زیارت کرنے کے لئے پہنچتے۔ بالخصوص نوجوان اہلِ علم کے ساتھ مصافحہ کرنا باعثِ افتخار سمجھتے تھے۔ اپنے علم میں اضافہ کے لئے ادب و احترام سے سوالات کرتے اور اہلِ علم کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کو خیر و برکات کا ذریعہ سمجھتے۔ مگر آج کچھ کوتاہ اندیش اپنے گروہی اور مسلکی مفادات کے اس حد تک غلام بن چکے ہیں کہ وہ مصطفوی تعلیمات اور اسلاف کی علمی اقدار و روایات کو ملیا میٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔انہوں نے سوسائٹی کو ہیجان میں مبتلا کررکھا ہے اور نوجوانوں کو ادب سکھانے کے بجائے ان کے ہاتھوں سے اہلِ علم کی پگڑیاں تار تار کروارہے ہیں۔ جب بھی کوئی معاشرہ آمادۂ زوال ہوتا ہے تو پھر عدمِ برداشت پر مبنی مخرب الاخلاق رویّے جڑ پکڑتے چلے جاتے ہیں۔ اگر ہم سوسائٹی کے اجتماعی بگاڑ پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں ہر طرف بے ادبی، انتشار، تقسیم، فساد فی الارض اور اہلِ علم کی بے توقیری نظر آتی ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ اس پر اہلِ علم حضرات اور دینی، مذہبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کو سنجیدہ غور و فکر سے کام لینا چاہیے۔ اگر یہ روش اسی طرح جاری رہی تو کسی کے لئے سچ بولنا اور اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کرنا بھی ناممکن ہو کر رہ جائے گا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے کامل اسوہ حسنہ کی تفہیم کے لئے آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے اندر غیر مسلموں کے ساتھ ہونے والے معاہدات کا مطالعہ کیا جائے بالخصوص میثاقِ مدینہ، صلح حدیبیہ اور خطبہ حجتہ الوداع کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا جائے۔ اس سے اندازہ ہو گا کہ پیغمبرِ حق و صداقت ﷺ طاقت ہونے کے باوجود غیر مسلموں کے ساتھ انتہائی محبت اور ملنساری کے ساتھ پیش آتے تھے۔ جس نبی آخر الزماں ﷺ نے دشمنانِ اسلام کے ساتھ معاہدے اور گفتگو کرتے ہوئے محبت و شفقت والا برتائو کیا اس نبی برحق ﷺ کے پیروکار تنگ نظر، کوتاہ نظر، منتقم اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیونکر ہو سکتے ہیں؟ میثاقِ مدینہ کرۂ ارض کا وہ واحد دستاویز ہے جس نے ایک بین الاقوامی معاشرہ و مملکت کے قیام کی راہ ہموار کی۔ میثاقِ مدینہ کے آرٹیکلز اس بات کے گواہ ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے یہودی قبائل کے ساتھ مساوات اور احترام پر مبنی معاملہ کیا۔ تحریری معاہدے کے ذریعے ان کے مذہب اور مذہبی روایات کو تحفظ دیا، ان کے جان و مال کو تحفظ دیا اور انہیں ریاست کا ایک ذمہ دار شہری تسلیم کرتے ہوئے مساوات کی گارنٹی دی۔ اگر اس معاہدہ کے وقت حضور نبی اکرم ﷺ یہودیوں اور نصرانیوں کے ساتھ ایک دشمن والا برتائو کرتے تو کرۂ ارض کی مثالی ریاستِ مدینہ وجود میں نہ آتی۔ یہ آپ ﷺ کی بصیرت اور اسوۂ حسنہ تھا کہ آپ ﷺ نے اپنے بہترین حسنِ سلوک سے دشمنوں کو بھی گرویدہ بنا لیا اور کرۂ ارض کی پہلی ملٹی نیشنل سوسائٹی کی بنیاد رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے تمام یہودی قبائل و دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو تحریری گارنٹی دی کہ جو بھی ریاستِ مدینہ کا وفاداررہے گا، اسے مدد اور تحفظ حاصل ہوگا ۔ ریاست کے وفاداروں پر کوئی ظلم روا نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی ان کے خلاف کسی حملہ آور کی مدد کی جائے گی۔ اگرچہ یہودی قبائل باہم متحارب رہنے کی تاریخ رکھتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ برابری کی بنیاد پر نہیں چلتے تھے مگر آپ ﷺ نے ریاست مدینہ کے استحکام کے لئے ’’divide and rule‘‘کی پالیسی اختیار کرنے کے بجائے مساوات کا معاملہ کیا۔ آپ ﷺ نے میثاقِ مدینہ پر دستخط کرنے والے تمام قبائل کو تحریری گارنٹی دی کہ ریاستِ مدینہ کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے سب برابر ہونگے، کسی قبیلے کو دوسرے پر اس کے حسب نسب، مال و دولت، جاہ و حشم کی وجہ سے برتری حاصل نہ ہوگی۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ ﷺ نے اسلام میں جو مساوات اور برابری کا تصور اور تعلیمات دیں، وہی تعلیمات دیگر مذایب کے لئے بھی تھیں۔ آج اس امرکی اشد ضرورت ہے کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمانِ عالی شان پر عمل پیرا ہوں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس کا مفہوم ہے کہ مومن بندوں کی مثال جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق ایک مضبوط عمارت کا سا ہے، اس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھایا کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم وابستہ اور پیوستہ ہونا چاہیے۔ اگر مسلمان آپس میں دست و گریبان ہونگے، کسی کی بات سننے اور سمجھنے کی بجائے ہر وقت آمادۂ جنگ و جدل رہیں گے تو پھر امت کا اتحاد ممکن نہیں ہوسکے گا اور جس کا فائدہ یقینی طور پر اغیار اٹھائیں گے۔
اس وقت انفرادی اور اجتماعی سطح پر عالمِ اسلام گوناگوں سیاسی، سماجی، معاشی و معاشرتی مسائل سے دو چار ہے، جس کی لاتعداد وجوہات ہیں، تاہم سب سے بڑی وجہ باہمی تقسیم و افتراق اور فرقہ و گروہ بندی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عالمی میلاد کانفرنس 2022ء میں اپنے ایمان افروز خطاب میں فرمایا کہ اتحاد و استحکام کے لئے اُمت سیرت مصطفی ﷺ کی پیروی کرے۔ مذہب کے نام پر جھگڑے اور علمی اختلافِ رائے کو دشمنی میں تبدیل کرنے والوں نے مصطفوی تعلیمات کو نظر انداز کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اول روز سے دینِ امن و سلامتی رہا ہے۔ وحدت و یکجہتی اور خوشحالی و استحکام کے لئے اُمت کو سیرت النبی ﷺ کی پیروی کرنا ہو گی۔ شیخ الاسلام نے آپ ﷺ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ﷺ مخالفین کے ساتھ بھی نرم خوئی سے پیش آتے تھے۔ آپ ﷺ نے اسلام قبول نہ کرنے والوں کو دعوت دیتے وقت یہ کبھی نہیں فرمایا کہ میری دعوت رد کرو گے تو مار دئیے جائو گے۔ ہمیشہ حکمت و بصیرت، نرم خوئی اور احسن انداز کے ساتھ دین کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آج خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ مذہبی معاملات میں علمی اختلافِ رائے پر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا متشدد سلوک اور اختیار کیا جانے والا طرزِ تکلم کیا مصطفوی تعلیمات کے مطابق ہے؟