شانِ تکوینی اور علمِ لدنی کے حامل حضور سیدنا غوث الاعظمؓ

محمد شفقت اللہ قادری

غوث الثقلین، قطب ربانی غوث الصمدانی، محبوب ربانی سید محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی حیاتِ مبارکہ کو دو حصوں میں تقسیم کریں تو حصہ اوّل: 488ھ آپ کی بغداد آمد سے 520ھ میں مسندِ تدریس پر فائز ہونے تک کا ہے اور دوسرا حصہ: 521ھ سے لے کر 562ھ آپ کے وصال تک ہے جو رشد و ہدایت کی روشنی پھیلانے، تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے اور وعظ و ارشاد کرنے کا مرحلہ ہے۔

آپ کی تصانیف دل پذیر غنیۃ الطالبین اور الفتح الربانی کا عمیق مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بولنے اور لکھنے والے کی زبان میں کوئی غیبی قوتِ الہٰیہ کار فرما ہے کیونکہ یہ کتب دنیاوی تحریری اسلوب سے ہٹ کر الوہی فیوضاتی کاوش ہیں، جن سے ایک عرصہ سے امتِ محمدیہ مستفید ہورہی ہے اور ہمیشہ مستفیض ہوتی رہے گی۔ شیخ المشائخ جناب حضور غوث الاعظمؓ کا وعظ و تدریس کا سلسلہ آپ کی زندگی میں تقریباً 42 برس تک جاری رہا۔ حضور غوث پاکؓ کی ساری زندگی قرآن و سنت کے تابع رہی ہے۔ لہذا آپؓ نے تدریس و تبلیغ کا فریضہ بھی عین قرآن و سنت کی روشنی میں سرانجام دیا۔

عالمِ ارواح میں ہی امامتِ ولایت پر فائز

قارئین گرامی! سیدنا غوث الاعظمؓ مادر زاد ولی تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نو سال کا تھا تو مدرسہ میں میری حفاظت کے لیے رب العزت نے فرشتے معمور کررکھے تھے۔ جن کی یہ آوازیں میں اکثر سنتا تھا کہ ’’راستہ چھوڑ دو عبدالقادر آرہے ہیں‘‘ اور میرے پہنچنے سے پہلے معمولات درست ہوجاتے تھے۔

امام الاولیاء و کاملین غوثیت مآب غوث الاعظمؓ شیخ عبدالقادر جیلانی نفسی طہارت اور بندگیٔ مولا کے سات مراحل بطنِ مادر میں ہی بفضل تعالیٰ طے کرچکے تھے اور ہدایتِ فطری، ہدایتِ حسی، ہدایتِ عقلی، ہدایتِ قلبی، ہدایتِ ربانی، ہدایت بالوحی، ہدایتِ عامہ اور ہدایتِ خاصہ سے نواز دیئے گئے تھے۔

انھوں نے تولد سے پہلے ہی بطنِ مادر میں اپنی والدہ محترمہ سے قرآن مجید کے کم و بیش اٹھارہ پارے سن کر حفظ کرلیے تھے اور آپ کی روح کو شکمِ مادر میں ہی نفسِ کاملہ پر فائز کردیا گیا تھا۔ آپ ایسی روح کے حامل تھے جو پیدائش سے پہلے ہی مادر زاد ولی اور صالح ہونے کے ناطے جنتی قرار دے دی گئی ہو۔ پس آپ کا تولد بشارتِ ازلی کے ساتھ ہوا۔ ایسی روح کاملہ کے لیے ارشاد قرآنی ہے:

فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰـدِیْ. وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ.

(الفجر، 89: 29، 30)

’’پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا۔‘‘

میری نظر میں ازلی تقویٰ اور پرہیزگاری کے باعث آپؓ مادر زاد ولی اور جنتی قرار پاگئے تھے۔ رمضان میں آپؓ روزے کے اوقات میں دودھ نہیں پیتے تھے۔ میرا وجدانی دعویٰ ہے کہ حضور غوثیت مآبؓ کی روحِ اقدس لوحِ محفوظ میں درج امام ہائے امت اور اولیائے صالحین کی ارواح میں سرِفہرست ہے اور آپ کی ولایت عظمیٰ روحانی طور پر طریقِ فیض نبویa اور طریقِ ولایتِ علوی پر استوار کردی گئی ہے۔ میرا وجدان گواہی دیتا ہے کہ تخلیقِ روح غوث الاعظم کا فیصلہ آپ کی تخلیقِ بشری سے پہلے ہی اطاعتِ محمدیa اور طریقِ علوی پر بارگاہ ربوبیت میں ہوچکا تھا۔ استدلالیہ دعویٰ یہ ہے کہ تخلیقِ کائنات سے پہلے لوحِ محفوظ پر سب کچھ درج کرلیا گیا ہے جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے۔

حضور غوث الاعظمؓ: سراپا کرامات

حضور غوث الاعظمؓ کا مقام و مرتبہ اولیائے صالحینِ امتِ محمدیہ میں بالکل ایسا ہے جیسے مقام رسالت مآبa انبیاء و مرسلین میں ہے۔ جب خالقِ عظیم نے مقامِ رسالت مآبa کو معراج بخشا تو تمام انبیائے کرامf کے اوصافِ جمیلہ اور فیوضات و معجزاتِ مقدسہ کو یکجا کرکے دامنِ رسالت مآبa میں ڈال دیا۔ اسی طرح جب خالق نے حضور غوث الاعظمؓ کو بلندی اور دوام بخشنا چاہا تو روئے کائنات کے اولیاء و صالحین کی بندگی اور اطاعت گزاری کو یکجا کیا اور اِن تمام فیوضات سے حضور غوث الاعظمؓ کو نوازتے ہوئے انھیں ولایتِ کاملہ کے منصب پر سرفراز فرمایا۔ غوث الثقلین، محی الدین جیلانی؛ غوثیت عظمیٰ کے باعث مقام تکوینِ کبریٰ پر فائز ہوئے۔ آپؓ کا حکمِ تکوینی باذن اللہ ہر جگہ نافذ و عیاں تھا۔ رب عظیم کے فضل سے ہر شے آپ کے تصرفِ کشفی میں اس طرح تھی، جس طرح ہتھیلی پر رائی کا دانہ۔ اللہ نے آپ کو جن اسرار سے آگاہ فرمایا اور جو مقامِ کشف آپ کو حاصل تھا، اس کی بابت آپؓ خود فرماتے ہیں کہ:

اگر میرے اسرار آگ پر پڑ جائیں تو آگ ٹھنڈی ہوجائے۔۔۔ میرے اسرار پہاڑوں پر پڑ جائیں تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔۔۔ میرے اسرار مُردے پر پڑ جائیں تو وہ زندہ ہوجائے۔ پھر اپنے مرید کو مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: میرے دشمن کا سر قلم ہوجائے گا کیونکہ صرف اللہ ہی میرا رب ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ بلاشبہ جس طرح محمد رسول اللہa ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے سردار اور امام ٹھہرائے گئے ہیں، اسی طرح بلاشبہ غوث الثقلین جناب شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فیض نبویa اور ولایت علوی علیہ السلام کے طریق پر ہونے کے ناطے قیامت تک آنے والے اولیاء اور صالحین کے امام اور سردار ہیں اور تمام اولیائے کرام کی گردنوں پر حضور غوثیت مآب کی ولایت کا قدم مبارک ہے۔

قارئین گرامی! آپ کی توجہ ایک لطیف نکتہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ جس طرح رسولوں اور انبیاء کو خالقِ عظیم نے معجزات سے نوازا اور جب رسول اللہa کی باری آئی تو آپ کو مرقع معجزاتِ الہٰیہ بنادیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیائے امتِ محمدیہ کی تمام کرامات کو حضور غوثیت مآب جناب غوث اعظمؓ کی ذاتِ بابرکات میں جمع فرمادیا اور آپ کو سراپائے کرامت بنادیا۔ آپؓ جس طرف توجہ کرتے تقدیر بھی بدل دیتے۔ یاد رہے معجزہ؛ انبیاء و رسل کے ہاتھوں صادر ہوتا ہے اور کرامت؛ اولیائے کرام کے ہاتھوں صادر ہوتی ہے۔ تاہم میری نظر میں معجزہ اور کرامت دونوں حکم کُن فیکون کی بدولت معرض وجود میں آتے ہیں کیونکہ اس کا انحصار فضل رب تعالیٰ پر ہے جسے چاہے نواز دے۔

اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.

(یٰسین، 36: 82)

’’جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے ہو جا، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے (اور ہوتی چلی جاتی ہے)۔‘‘

زہد تقویٰ کی معراج پر پہنچنے والے شیخ عبدالقادر فرماتے ہیں کہ خالق نے اپنی ذات حق سے ایسے وصف اور فیض سے مجھے نوازا ہے کہ میں محبوبیت اور بندگی کے کمال درجہ پر متمکن ہوگیا کہ میری دعا سے تقدیر مُبرم بھی ٹل جاتی ہے۔ تقدیر کی دو اقسام ہیں:

1۔ تقدیر معلق

2۔ تقدیرمُبرم

مشہور روایات اور نصِ قرآنی سے ثابت ہے کہ تقدیر معلق دعا اور صدقات سے ٹل جاتی ہے۔ تاہم جہاں تک تقدیر مُبرم کا تعلق ہے اس کا بدلنا امر محال ہے کیونکہ یہ لوحِ محفوظ پر لکھی ہوئی ہے۔ لیکن حضور غوثیت مآب کی دعا سے تقدیر مُبرم بھی بدل جاتی تھی اور اولیائے کرام میں یہ فقط حضور غوث الاعظمؓ کی ولایت کا طرۂ امتیاز تھا۔ خالق عظیم فرماتے ہیں کہ میں جزا اور سزا کامالک ہوں، میں ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہوں، سب کچھ تبدیل کرنا اور قائم رکھنا میرے ارادۂ کُن میں ہے۔

یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ ج وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ.

(الرعد، 13: 39)

’’الله جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔‘‘

زہد و تقویٰ اور طہارتِ قلبی

حضور غوث اعظمؓ کے زہد و تقویٰ اور طہارتِ قلبی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے چالیس برس تک عشاء کے وضو سے نماز فجر ادا کی ہے۔ امام الکاملین جناب غوث اعظمؓ جن کی طیب اور سعید روح ایسی تھی کہ دنیائے آب و گل میں منتقل ہونے سے قبل ہی آپ کو بطنِ مادر میں ہی علم و معرفت کے کشفی جام پلائے جاتے تھے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ آپ نے شیخ حماد اور شیخ ابو زکریا تبریزیؒ سے بھی اکتساب فیض کیا۔ تاہم حقیقت حال یہ ہے کہ ان اساتذہ کے علاوہ آپؓ کو عالم ارواح سے بھی علوم و معارف کے گنج ہائے گراں عطا کیے جاتے تھے کیونکہ خالق عظیم ہر چیز پر قادر ہے اور حضور غوث الاعظم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص کا ظہور تھا۔

ایسے فیوضاتِ الوہی کو علمِ لدنی کہتے ہیں یعنی اس علم کا تعلق فقط اللہ تعالیٰ کے فضل اور عطا پر موقوف ہے۔ یہ فیض حضور غوث اعظمؓ کو حضرت آدم علیہ السلام کی نسبتِ آدمی اور فیض و برکات کے طفیل ودیعت کیا گیا جو رب عظیم نے آدم کو فرشتوں میں افضلیت دیتے ہوئے اپنے حکمِ کُن سے علمِ غیب اور علمِ لدنی عطا کیا تھا جس سے وہ پہلے واقف نہ تھے اور یہی بات سجدۂ تعظیمی کا باعث ہوئی۔

قارئین گرامی قدر! مادر ذات ولی قطب الاقطاب غوث الاعظمؓ اپنی ریاضت، مجاہدے و عبادت اور شب بیداریوں کے باعث اپنی جوانی کے پچیس برس جنگلوں میں یادِ الہٰی کی لذتوں میں گزارنے کے باعث قربِ الہٰی کی لذتوں سے آشنا ہوچکے تھے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عراق کے جنگلوں میں تیس تیس اور چالیس چالیس روز کچھ کھائے پیئے بغیر گزارے اور ریاضت اور عبادت میں مشغول رہا، اکثر مجھ پر کمزوری کے باعث غشی کی حالت طاری ہوجاتی تھی۔ آپ نے حصول علم و دانش اور رضائے الہٰی کی خاطر ہزاروں میل کے پُر خطر سفر کیے اور یار منانے میں صرف کیے اور قربتِ الہٰیہ کے نور سے فیض یاب ہوئے۔

غوثیت مآب جناب شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے تقریباً آٹھ برس علوم دینیہ کے حصول میں صرف فرمائے اور پھر ریاضت و مجاہدہ کی معراج کو پہنچے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں تنہائی میں ریاضت میں اتنا مصروف رہا کہ میں مخلوق کو اور مخلوقِ خدا مجھے نہیں پہچانتی تھی۔ میں اپنی مستی میں گم تھا۔ یاد رکھیں آپ کو سرمستی دیدار یار میں صحرا نوردی کا فیض حضرت موسیٰ کلیم اللہ سے روحانی و وجدانی ودیعت ہوا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام بھی ہمکلامی رب العالمین کے مقصد لیے وادی ایمن (طور) میں بے قرار و مضطرب ریاضت و مجاہدہ میں مصروف رہا کرتے۔ بالآخر شوقِ دیدارِ الہٰی اور شوق ہمکلامی کی استدعائے موسیٰ علیہ السلام قبول ہوئی۔

شیخ المشائخ جناب غوث الاعظمؓ جب 488ھ میں بغداد تشریف لائے تو اس وقت امام غزالیؒ مدرسہ نظامیہ کی تدریسی ذمہ داریوں سے استعفیٰ دے کر حجِ بیت اللہ کے لیے حرمین تشریف لے جارہے تھے۔ آپ کے جانے سے اہلِ بغداد بہت دل رنجیدہ اور غمزدہ ہوگئے کہ علم کا تاجدار بغداد چھوڑ کر جارہا ہے لیکن رب کائنات کا فیصلہ اور رحمت دیکھئے کہ عین اسی وقت اٹھارہ برس کا حسنی و حسینی سید زادہ جیلان سے چل کر بغداد میں داخل ہوتا ہے، جس کے سر پر شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کا تاج سجایا جانے والا تھا۔

یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ حضور غوث الثقلینؓ بلا امتیاز تمام سلاسلِ طریقت میں بالواسطہ یا بلاواسطہ روحانی فیض بخش ہیں۔ آپ کے فیوض و برکات تاقیامت ان شاء اللہ جاری رہیں گے۔ حضور غوث الاعظمؓ کی ذات مبارکہ وہ ذات اقدس ہے جس میں طریقِ نبوت اور طریقِ ولایت دونوں کے فیوضات، مراتب اور درجاتِ روحانیت مجتمع ہوکر منتہائے کمال کو پہنچ گئے اور فضل رب تعالیٰ سے اور نظر مصطفی کریمa کے طفیل آپ کو ولایت اور غوثیت کبریٰ عطا ہوئی۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ صراط مستقیم میں فرماتے ہیں آج کسی بھی ولی کو ولایت اور کسی قطب کو قطبیت بالواسطہ یا بلاواسطہ حضور غوث اعظمؓ کے روحانی فیض اور اجازت کے بغیر نہیں مل سکتی۔ یہ سلسلۂ فیض قیامت تک شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے فیوضات و برکات اور توجہ کا مرہون منت رہے گا۔ تاقیامت کوئی ولی مہرِ ولایتِ غوثیتِ مآب کے بغیر ولایت سے سرفراز نہیں ہوسکے گا کیونکہ رب کائنات نے آپ کو بطریقِ فیضِ نبوت اور بطریقِ ولایت علوی دونوں ذرائع سے یکتا اور بے مثل کردیا ہے۔

مقامِ سُکر و صَحو

تصوف میں صوفیاء نے مشائخ عظام اور اولیائے کرام کے لیے دو اصطلاحات کا ذکر کیا ہے:

1۔ مقامِ سُکر

2۔ مقامِ صَحو

مقامِ سکر سے مراد مقام فنا فی اللہ ہے۔ اس مقام پر بندہ ذات حق تعالیٰ میں فنا ہونے کے باعث محوِ بے خودی رہتا ہے جبکہ مقامِ صحو سے مراد مقام بقا باللہ ہے۔ یاد رہے کہ فنا تو ہر صورت ہے ہی مگر فرق صرف اتنا ہے کہ بقا باللہ میں بندہ فنا کی مستی اور استغراق سے نکل کر خود میں واپس آجاتا ہے یعنی لوٹ آتا ہے اور حق تعالیٰ کی صفاتِ الوہیت کا مقصد بن جاتا ہے۔ جمہور مشائخ مقامِ صحو یعنی مقام بقا باللہ کو پسند کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں خاص روحانی قوت کے باعث بندہ بیک وقت فنا فی اللہ بھی ہوتا ہے اور باقی باللہ بھی اور فرائضِ عبدیت و عبادت بھی ادا ہوتے رہتے ہیں۔

حضور غوثیت مآب جناب شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے مشہور ومعروف قصیدہ غوثیہ شریف کی روشنی میں اگر میں یہ جاننا چاہوں کہ حضور غوث الاعظمؓ ان دونوں میں سے کس مقام پر ہیں تو میری نظر میں حضور غوث اعظمؓ مقام سکر اور مقام صحو دونوں پر بیک وقت فائز ہیں۔

مقامِ عبدیت

قارئین محتشم! حضور غوث الاعظمؓ امامِ صالحین و کاملین تھے۔ آپ کی ساری زندگی مقامِ عبدیت کی معراج پر متمکن رہے اور زندگی عین قرآن و سنت کی اطاعت و متابعت میں گزری۔ آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ محمد رسول اللہa کی رضا اور مرضی کے تابع گزرا۔ آپ کا کوئی عمل فضلِ خدا اور اس کے حبیب کی رضا اور منشا کے خلاف سرزد نہ ہوا۔ آپ تقویٰ اور پرہیزگاری کی معراج کو پہنچے تو مقام غوثیت عظمیٰ سے نواز دیا گیا۔ یقینا امامِ اولیاء و صالحین جناب غوث الاعظمؓ روز قیامت جید صحابہ کرام کی معیت میں انبیاء کرام اور رسولوں کی صف میں آقا دوجہاں کی امامت میں مقام شفاعت سے بہرہ ور ہوں گے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی تصنیف اقبال کا مرد مومن میں عبد کی تین اقسام رقم فرمائی ہیں:

1۔عبدِ آبق: وہ بندہ جو مالک و خالق کی بندگی سے بھاگ گیا اور صراط مستقیم سے بھٹک گیا۔

2۔ عبد رقیق: وہ بندے جو اللہ کی اطاعت اور محبت کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالے رکھتے ہیں اور اطاعت بجا لانے میں قطعی طور کوتاہی نہیں کرتے اور معصیت کا ارتکاب کرنے سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔

3۔ عبد ماذون: یہ وہ بندگانِ خدا ہیں جو اللہ کی عبادت اور اطاعت کرتے کرتے خود کو اس کی رضا میں گم کردیتے ہیں۔ ان کا اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا، بولنا اور سکوت اختیار کرنا حتی کہ ان کا جینا مرنا اور ہر فعل اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے ہوجاتا ہے۔

قارئین گرامی! حضور غوث الاعظمؓ بلاشبہ امام المومنین اور امام العباد الماذون ہیں اور اسی کے باعث آپؓ مقامِ حضوری اور ظہوری پر فائز ہوئے۔ ایسے عبدالماذون کے لیے حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

’’اے میرے مقرب بندے میں تیری آنکھ ہوں جس سے تو دیکھتا ہے، میں تیرے کان بن جاتا ہوں جس سے تو سنتا ہے، میں تیرے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے تو گرفت کرتا ہے، میں تیرے پائوں بن جاتا ہوں جن سے تو چلتا ہے، میں تیرا دل بن جاتا ہوں جس سے تو ارادہ کرتا ہے۔‘‘

(مومن کون ہے، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری)

اسی طرح عبدالماذون اللہ کی زمین پر اللہ کا کامل بندہ بن کر ظہور پذیر ہوتا ہے، جس کے لیے علامہ محمد اقبالؒ نے اس مرد مومن کو پیکرِ عشق، پیکرِ یقین، پیکرِ استغنا، مقصدِ کائنات، بندہ مولا صفات، طائر لاہوتی اور صاحبِ تقدیر کہا ہے۔ ایسے عبادالماذون کے امام شیخ عبدالقادر جیلانیؓ ہیں۔

ایسے مقام باقی باللہ پر فائز ہونے کے سبب آپ بیک وقت چالیس جگہوں پر افطاری میں موجود ہوتے۔ ایسے مرد مومن اور مرد ماذون کی زبان کی لاج رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ تقدیر بھی تبدیل فرمادیتا ہے۔

شانِ تکوینی

یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے عبدِ خاص اور عبدِ صالح عبدالقادر جیلانیؓ کو فیوضات الوہی سے نواز کر خاص کردیا ہوا تھا۔ بلاشبہ یہ فیضِ نبوتِ محمدی اور برکاتِ انبیاء کرام کا پَر توئی کرشمہ تھا کہ وہ روحانیت کے خاص مقام پر پہنچے۔ حضور غوث الاعظمؓ ایک مرتبہ بہت بڑے اجتماع سے خطاب فرمارہے تھے کہ اچانک آسمان پر ایک چیل نمودار ہوئی۔ زور زور سے اپنے پروں کو پھڑپھڑانے اور چیخنے لگی اور لوگوں کی توجہ اُدھر بٹ گئی اور آپؓ کا دھیان بھی اس طرف ہوگیا، اس عمل سے غیر ارادی طور پر آپ کی طبیعت مبارک پر بوجھ سا ہوا اور بے ساختگی سے یہ کلمہ نکل گیا: مالک قطع اللہ اسی وقت چیل کی گردن کٹ گئی اور چیل زمین پر گرگئی۔ خطاب کے بعد مردہ چیل پر سرکار غوث پاکؓ کی نظر پڑی اور پوچھا یہ کیسے گری ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: حضور! خطاب کے دوران آپ کے منہ سے یہ کلمات نکلے تھے تو یہ گر کر مرگئی ہے۔ آپ نے پائوں سے مردہ چیل کو ٹھوکر ماری اور فرمایا: تجھے مارنا میرا مقصود نہ تھا، زندہ ہوجا اور اڑ جا۔ یہ کہنے کی دیر تھی کہ چیل زندہ ہوکر اڑ گئی۔

خدا کی عزت کی قسم! یہ عمل رب کائنات کی طرف سے کُن فیکون بصیغہ کرامتِ غوث الاعظمؓ سرزد ہوا تھا اور یہ فیض و برکت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور فیض و برکت حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام تھا۔ ان دونوں انبیاء نے بھی پرندے زندہ کیے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مٹی کے پرندے بناکر اس میں روح پھونکنا قرآن (آل عمران، 3: 49)سے ثابت ہے۔

اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پرندوں کو ذبح کرکے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور خدا کے حکمِ کُن کے تحت (البقرہ، 2: 260) پرندوں کو زندہ کیا۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کا معجزہ تھا جس کا فیوضاتی ثمرہ حضور غوث اعظمؓ کو ملا۔

حضور غوثیت مآب شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کو پچیس برس کی ریاضت تنہائی اور عبادت تنہائی نے فنائیت رسالت مآب کے باعث مولا صفات بنادیا تھا اور اس عمل نے آپ کو خاص الخاص بندہ مومن بنا دیا تھا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی تصنیف مومن کون ہے میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت روز بہان بقلیؒ نے فرمایا: کامل مومن حق تعالیٰ کا اور عرش سے تحت الثریٰ تک اسی نور سے مشاہدہ کرتا ہے اور وہ رب کائنات کے نورِ الوہیت سے اور محمد مصطفی کریمa کے نورِ نبوت سے ایسا منور ہوجاتا ہے کہ اس نور کی نگاہ سے مولا کریم کا صفاتی جلوہ کرتا ہے۔ وہ رب کے سوا سب کچھ دیکھتا ہے حتی کہ تحت الثریٰ سے عرش تک رسائی ہوتی ہے۔

فضیلت مآب حضور غوث الاعظمؓ کا سینہ مبارک مشاہدۂ حق کے باعث علمِ قرآنی اور نورِ الہٰی کے ساتھ منور و روشن تھا۔ آپ ولایت کی معراج پر پہنچے تو نورِ عرفان سے آپ کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ قرآن فرماتا ہے:

اَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ.

(الزمر، 39: 22)

’’بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے۔‘‘

غوث الثقلین، قطب ربانی، شہبازِ لامکانی، عکسِ نورِ عرفانی جناب غوث الاعظمؓ کے قلب انور میں عشقِ مصطفیa اور عرفانِ الہٰی کے چراغ روشن تھے۔ جس سے لاکھوں چراغ قیامت تک روشن ہوتے رہیں گے۔