سلام اُس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اُس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اُس پرکہ اسرارِ محبت جس نے سکھلائے
سلام اُس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اُس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اُس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
سلام اُس پر کہ دشمن کو حیاتِ جاوداں دے دی
سلام اُس پر ابو سفیان کو جس نے اماں دے دی
سلام اُس پر کہ جس کا ذکر ہے سارے صحائف میں
سلام اُس پر ہوا مجروح جو بازارِ طائف میں
سلام اُس پر وطن کے لوگ جس کو تنگ کرتے تھے
سلام اُس پر کہ گھر والے بھی جس سے جنگ کرتے تھے
سلام اُس پر کہ جس کیگھر میں چاندی تھی، نہ سونا تھا
سلام اُس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
سلام اُس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا
سلام اُس پر جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا
سلام اُس پر جو امت کے لیے راتوں کو روتا تھا
سلام اُس پر جو فرشِ خاک پر جاڑے میں سوتا تھا
سلام اُس پر جو دنیا کے لیے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اُس پر کہ جس کی ذات فخرِ آدمیّت ہے
سلام اُس پر کہ جس نے جھولیاں بھردیں فقیروں کی
سلام اُس پر کہ مشکیں کھول دیں جس نے اسیروں کی
سلام اُس پر کہ جس کا نام لے کر اُس کے شیدائی
الٹ دیتے ہیں تخت ِ قیصریت، اوجِ دارائی
سلام اُس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں
سلام اُس ذات پر کہ جس کے یہ پریشاں حال دیوانے
سنا سکتے ہیں اب بھی خالد و حیدر کے افسانے
درود اُس پر کہ جس کا نام تسکینِ دل وجاں ہے
درود اُس پر کہ جس کے خُلق کی تفسیر قرآں ہے
درود اُس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
درود اُس پر کہ جس کے ذکر سے سیری نہیں ہوتی
درود اُس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اُس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں
درود اُس پر، جسے شمعِ شبستانِ ازل کہیے
درود اُس پر، ابد کی بزم کا جس کو کنول کہیے
درود اُس پر، بہارِ گلشن عالم جسے کہیے
درود اُس ذات پر فخرِ بنی آدم جسے کہیے
رسولِ مجتبیٰ کہیے، محمد مصطفی کہیے
وہ جس کو ہادیِ ’دَعْ مَاکَدِرْ، خُذْ مَا صَفَا‘ کہیے
ایمان بالرسالت اور محبتِ رسول کی تجدید
ماہر القادری (وفات: 1978ء)کا یہ کلام سادہ اسلوب میں گویا سیرت ِ رسول کا ایک بہترین خلاصہ ہے۔ ضرورت ہے کہ آج ہر طرح کے تعصب، بے روح مذہبیت، فنی اور رسمی قسم کے نظامِ تعلیم وتعلم اور ہر قسم کی متعصبانہ گروہ پرستی سے بلند ہوکرہماری مجلسوں، اداروں اور مسجدوں میں درود و سلام کی یہ صدا پھر اُسی انداز میں گونج اٹھے جس طرح وہ آج کے اس ماحول سے پہلے ہر طرف گونجتی تھی۔ آج کے مادّی اور الحادی ماحول میں ضرورت ہے کہ نوجوانانِ ملت کے دلوں میں رسول اللہ ﷺ سے سچے تعلق کی دبی ہوئی چنگاری کو ایک بار پھر سے شعلہ زن کر دیا جائے۔
اِس کے لیے ضرورری ہوگا کہ ذکر ودعا اور صلوٰۃ وسلام کے اعتبار سے، یومِ جمعہ کی خصوصی اہمیت کی بناپر اِس دن خاص طورپر اپنے گھروں اور مسجدوں میں منعقد تذکیر ی اور تربیتی مجالس کے دوران سنجیدہ و باادب انداز میں حمد ونعت پر مبنی کلام اور کثرتِ صلوٰۃ و سلام کا اہتمام کیا جائے۔ اِس طرح عام طورپر لوگوں کے درمیان رسول اللہ ﷺ کی محبت و اطاعت کے پاکیزہ اور فطری جذبات پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اِس قسم کے دعوتی اور تذکیری حلقے گویا ایمان بالرسالت کی تجدید کے ہم معنی ثابت ہوں گے۔
امید ہے کہ اِس سے دل کی ویران کھیتی ان سرسبز وشاداب ہوں اور اُن میں اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی محبت و حرارت پیدا ہو۔ یہ دین کا منشا اور ایمان کا اوّلین تقاضا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اہلِ ایمان کا سچا تعلق قائم ہو۔ آپ ﷺ کے ساتھ یہ زندہ تعلق دلوں میں ایمان کی روح پھونکنے کابہترین ذریعہ، آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ، آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین سے وابستگی اور موجودہ مادّی اور الحادی طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک تازہ دم فوج (سپاہِ تازہ)کی حیثیت رکھتا ہے:
سپاہِ تازہ بر انگیزم از ولایت عشق
کہ در حرم خطرے از بغاوتِ خرد است!
’’عقل کی بے باکی اور سرکشی کی بناپر حرم کو سخت خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ لہٰذا اِس طوفان سے مقابلہ کرنے کے لیے ہم مملکت ِعشق سے جنوں کی ایک تازہ دم فوج لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘
سچی محبت اور وقتی جذباتیت میں فرق
محبت ِ رسول ﷺ کے اس پاکیزہ جذبے کا اُس پُر شور ’’جذباتیت‘‘ سے کوئی تعلق نہیں جس کے بعض مظاہر ہمارے ہاں اکثر ’’حبِ رسول‘‘ کے نام پر خود آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین و پیغام کی بدنامی کا سبب بنتے جا رہے ہیں۔ حب ِ رسول ﷺ ایک انتہائی سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے۔
حب ِ رسول ﷺ وہی ہے جواپنے ذہنی اور قومی مفروضات کے بجاے خود رسول ﷺ کے بتائے ہوئے ارشادات کے مطابق ہو۔ اِس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں قرآن مجید کی سورہ التوبہ کی آیت 24، اور سورہ الاحزاب کی آیت 21 سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ ایمان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول ﷺ کی پسند وناپسنداور اُن کے اسوۂ حسنہ کو اپنی زندگی کا معیار بنائیں۔ وہ اُنھیں اپنے ماں باپ، مال و اولاد، تمام محبوب اشیااور تمام محبوب افراد و شخصیات سے زیادہ محبوب سمجھیں۔ وہ اُنھیں ہر دوسری محبت اور اپنے تمام مادّی، نفسانی اور دنیوی تقاضوں پر ترجیح دیں۔
اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی محبت کے درمیان اِس طرح کی قانونی تقسیم درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے جو چیز مطلوب ہے، وہ محبت ہے اور رسول ﷺ کی نسبت سے جو چیز مطلوب ہے، وہ محض آپ ﷺ کی اتباع ہے۔ محبت کے بغیر اتباع ممکن ہے اور نہ دین میں ایسے میکانکی اتباع کی کوئی اہمیت ہے جس میں محبت کا جذبہ کارفرما نہ ہو۔ اپنی اصل کے اعتبار سے، اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی محبت گویا ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔
اصل یہ ہے کہ ہم آپ کو ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ کے بجائے ’’محمد رسول اللہ‘‘ مانتے ہیں۔ اللہ رب العالمین سے آپ ﷺ کا یہی مخصوص تعلق اِس بات کا متقاضی ہے کہ ہم آپ ﷺ سے محبت کریں۔ اللہ سے محبت رب العالمین سے محبت ہے اور رب العالمین سے محبت کا یہ فطری تقاضا ہے کہ اُس کے پیغمبر ﷺ سے محبت کی جائے۔ رسول ﷺ سے یہ محبت کسی مجرد بنیاد پر نہیں ہوتی، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے اور اللہ تعالیٰ ہی کی وجہ سے قائم ہوتی ہے۔ حب ِرسول ﷺ، دراصل حب ِخداوندی ہی کا ایک فطری تقاضا ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباسk روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
أحِبُّوا اللّٰہَ لِمَا یَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِه، وأحِبُّوْني بِحُبِّ اللّٰہ، وَأحِبُّوا اَهْلَ بَیْتي لِحُبِّي.
(سنن، الترمذی: 3789)
’’اللہ تعالیٰ سے محبت کرو اُن نعمتوں کی وجہ سے جو اُس نے تمھیں عطا فرمائی ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے سبب مجھ سے محبت کرو، اور میرے اہل بیت سے میری خاطر محبت کرو۔‘‘
اِس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے حافظ ابن قیم (وفات: 751 ہجری) فرماتے ہیں:
وکلّ محبَّة وتعظیم للبشر، فإنّما تجوز تبعاً لمحبة اللّٰه وتعظیمه کمحبة رسوله وتعظیمه، فإنّها من تمام محبّة مرسله وتعظیمه، فإِن أمته یحبونه لحبّ اللّٰه له ویعظّمونه ویجلّونه لإجلال اللّٰه له، فهي محبَّة للّٰه من مُوجبات محبّة اللّٰه. وکذلک محبّة أهل العلم والإیمان ومحبة الصّحابة رضوان الله علیهم اجمعین وإجلالهم تابعٌ لمحبة اللّٰه ورسوله لھم. والمقصود أن النَّبِي ﷺ ألقی اللّٰه سبحانه وتعالٰی علیه منه المهابة والمحبة. ولکلّ مؤمن مخلص حظّ من ذلک.
(جلاء الأفھام في فضل الصلاة والسلام: 187)
’’انسان کی ہر محبت و تعظیم اللہ کی محبت و تعظیم کے تابع ہوگی۔ مثلاً: نبی ﷺ کی محبت اور تعظیم درحقیقت آپ ﷺ کو مبعوث کرنے والے پروردگار سے محبت کی بنا پر ہے۔ لہٰذا امت کے افراد جو آپ ﷺ سے محبت رکھتے، وہ اللہ ہی کی وجہ سے محبت رکھتے، اور آپ ﷺ کی جو قدر ومنزلت کرتے، وہ اللہ کی محبت اور اُس کی عظمت ہی کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اہلِ علم وایمان اور صحابہ سے محبت کا سبب بھی یہی ہے۔ یہ سب اللہ اور رسول ﷺ کی محبت کے تابع ہے۔ غرض، اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو اپنی عظمت و محبت کا ایک بڑا حصہ عنایت کیا ہے۔ نیز ہر سچے اور مخلص مومن کو بھی اِس میں سے ایک حصہ عطا فرمایا گیا ہے‘‘۔
اطاعتِ رسول کی اہمیت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ.
(النساء، 4: 64)
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ ‘‘
اِس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ براہِ راست معاملہ نہیں کرتا۔ وہ اپنی ہدایت نبیوں اور رسولوں کی وساطت سے عطا فرماتاہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اصل مقصود تو خدا کی اطاعت ہے، مگر اُس کا طریقہ صرف یہ ہے کہ اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی جائے۔
للہٰذا یہ اطاعت کوئی رسمی چیز نہیں ہے۔ قرآن کا مطالبہ ہے کہ یہ اتباع کے جذبے سے اور پورے اخلاص، پوری محبت اور انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ ہونی چاہیے۔ انسان کو خدا کی محبت اِسی اطاعت اور اِسی اتباع سے حاصل ہوتی ہے:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
(آل عمران، 3: 31)
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم الله سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب الله تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور الله نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے بار بار ’أطیعُوا اللّٰہَ وأطیعُوا الرسُولَ‘ (النساء 4: 59 ۔ النور 24: 54) کہہ کر اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کا ایک ساتھ حکم فرمایا اورسول ﷺ کی اطاعت کو خود اللہ کی اطاعت (النساء 4: 80) قراردیا ہے۔ اِسی طرح آپ ﷺ نے واضح طورپر فرمایا ہے:
مَن أطاعني فقد أطاع اللّٰہ، ومَن عصاني فقد عصی اللّٰہ.
’’جس نے میری اطاعت کی، اُس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی، اُن نے براہِ راست اللہ رب العالمین کی نافرمانی کا ارتکاب کیا‘‘۔
(البخاری: 7137)
چنانچہ خود اللہ کے پیغمبر ﷺ کی زبان سے اہلِ ایمان کو اِس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ اگر وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں تو اُنھیں اِس محبت ِ الٰہی کے حصول اوراِس دعوے کے ثبوت کے لیے دین کی پیروی اور رسول کے اتباع کا طریقہ لازماً اختیار کرنا ہوگا۔
(آل عمران، 3: 31)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
لایؤمن أحدُکم حتی یکون هواه تَبَعاً لِما جئتُ به.
’’ تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل الایمان نہیں ہوسکتا، جب تک اُس کی خواہشات میرے لائے ہوئے دین کے تابعِ فرمان نہ ہوجائیں‘‘۔
(الأربعین: 41)
ایمان اور محبتِ رسول کے مابین تعلق پر مبنی چند پیغمبرانہ ارشادات ملاحظہ فرمائیں:
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
لَا یُؤْمِنُ أحَدُکُمْ حَتَّی أکُونَ أحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَ وَالِدِهِ وَالنَّاسِ أجْمَعِین.
(صحیح، مسلم: 44)
’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اُس کے نزدیک اُس کی اولاد، اُس کے والد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
والذي نفسي بیده، لَا یُؤْمِنُ أحَدُکُمْ حَتَّی أکُونَ أحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَلَدِہِ وَوَالِدِہِ ومِنْ أھلِہ وَمالِہ وَالنَّاسِ أَجْمَعِین.
(صحیح البخاری :14-15 ۔ فتح الباری: 1: 82)
’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اُس کا یہ حال نہ ہوجائے کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے والدین، اُس کے آل و اولاد، اُس کے مال و منال، غرض تمام محبوب چیزوں اور تمام محبوب افراد سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘
3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
لا یجد أحدٌ حلاوۃَ الإیمان، حتیّ یُحِبَّ المرءُ لایحبُّہ إلا للّٰہ، وحتیّ أن یُقذَفَ في النارِ أحبُّ إلیہ مِنْ أن یَرجِعَ إلی الکفرِ بَعدَ إذ أنقذہ اللہُ، وحتیّ یکونَ اللّٰہُ ورسولُہ أحبُّ إلیہ ممّا سِواهما.
(صحیح البخاری: 1406 ۔ مسلم: 561)
’’کوئی شخص اُس وقت تک ایمان کی حلاوت سے بہرہ ور نہیں پا سکتا، جب تک وہ کسی شخص سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے کرے؛ اور ایمان کے بعد دوبارہ کفر کی طرف پھر جانے سے، آگ میں ڈال دیا جانا اُس کو محبوب ہو، مگر کفر میں جانا اُس کو پسند نہ ہو؛ اور جب تک دوسری تمام چیزوں کے مقابلے میں، اللہ اور رسول اُس کوزیادہ محبوب نہ ہو جائیں‘‘۔
4۔ عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ عمر بن خطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ، آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اِس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہ، حَتّٰی أکُوْنَ أحبَّ إلَیْکَ مِنْ نَفْسِک. فَقَالَ لَہُ عُمَرُ: فإنَّہ الآنَ، وَاللّٰہِ، لَأنتَ أحبُّ إليّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِي ﷺ : الآنَ یَا عُمَر!
(صحیح البخاری: 2526)
’’نہیں، قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے(تم اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے) یہاں تک کہ میں تمہیں اپنی جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ انھوں نے عرض کیا: اے خدا کے رسول، اللہ کی قسم، اب مجھے آپ اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: اے عمر، اب تمھاری محبت کامل ہوئی ہے۔‘‘
5۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ ﷺ سے کیسی محبت رکھتے تھے؟ انھوں نے فرمایا:
کان واللّٰہ، أحبَّ إِلَیْنا مِن أموالنا، وأولادِنا، وآبائنا، وأمّهاتِنا، ومِن الماءِ الباردِ علیٰ الظَّمَأ.
(المناھل، السیوطي: 957، الشفا، القاضي عیاض:497)
خدا کی قسم، آپ ہمارے مال و اولاد اور ہمارے ماں باپ سے زیادہ ہمیں محبوب اور حالتِ پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ مرغوب تھے۔
ذکرِ الہٰی اور ذکرِ رسول ﷺ
یہاں ذکر رسول ﷺ سے ہماری مراد تذکیر ودعوت کے دوران رسول ﷺ اور اصحاب ِ رسول ﷺ کی سیرت و اخلاق، آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا بیان اور رسول اللہ ﷺ پر درود وسلام کے حلقے ہیں۔ اپنی اصل کے اعتبار سے، ذکرِ رسول ﷺ اور ذکرِ الٰہی دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ ذکر الٰہی اگراِس لیے مطلوب ہے کہ اللہ ہمارا خالق و مالک اور منعم و کارساز ہے، تواتباعِ رسول ﷺ کے جذبے سے آپ ﷺ کی سیرت واخلاق کا ذکر و بیان اللہ سے آپ ﷺ کے اِسی مخصوص تعلق کی بنا پر مطلوب ہوگا۔ یہ صرف اللہ کا رسول ﷺ ہے جو ہمارے اور اللہ کے درمیان وسیلۂ ایمان و معرفت ہے۔ اب آپ ﷺ کی پیروی اور آپ ﷺ ہی کی سیرت کے ذریعے ایک شخص ایمان باللہ اور اُس کی حقیقی معرفت و محبت حاصل کرسکتا ہے۔
محبتِ رسول یا اتباعِ رسول...؟
اِس معاملے میں اتباع اور محبت کا سوال بھی محض ایک کلامی نوعیت کی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی محبت جب اپنی اصل مطلوب صورت میں پیدا ہوجائے تو پھر اِس کے بعد اِس قسم کا تکنیکی سوال درست نہیں کہ رسول ﷺ کی نسبت سے جوچیزمطلوب ہے، وہ ان کی محبت ہے یا صرف اتباع؟ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے سچی محبت اور تعلق کے بعد ان کی محبت اور اتباع میں فرق کرنا بے معنی ہوگا۔
محبت گہرے قلبی تعلق کا نام ہے اوراِس طرح کے سچے قلبی تعلق کے بعد کسی انسان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے محبوب کی نافرمانی کرے اور اُس کی پیروی کے معاملے میں سنجیدہ نہ ہو۔ چنانچہ مشہور قول ہے:
کُلّما ازْداد الحبُّ، زادتِ الطاعات.
’’محبت میں جس قدر اضافہ ہوگا، اطاعت میں اُسی قدر اضافہ ہوتا جائے گا۔‘‘
امام شافعی فرماتے ہیں:
لوکان حبُّک صادقاً، لأطعتَه
إنّ المُحبَّ لِمَنْ یُحبُّ مُطیع
’’اگر اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ سے تمھاری محبت سچی ہو توتم اُن کی اطاعت ضرورکروگے۔ اِس لیے کہ ایک محبت کرنے والاشخص اپنے محبوب کا فرماں بردار ہوا کرتاہے۔ ‘‘
تیسری صدی کے ایک مشہور عالم ابو سلیمان دارانی (وفات: 215ہجری) نے فرمایا کہ:
لمّا ادّعتِ القلوبُ محبّةَ اللّٰه تعالیٰ، أنزل اللّٰهُ لها مِحْنةً.
(مدارج السالکین، ابن القیم، 3: 22)
لوگوں نے جب محبت کا دعویٰ کیا تو اُن کے اِس دعوے کو جانچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ’آیت ِ محبت‘(آل عمران 3:31) کو ایک معیار کے طورپر نازل فرمادیا۔
آیت محبت: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ (آل عمران، 3: 31) ’’آپ ﷺ فرما دیں: اگر تم الله سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب الله تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘ کے حوالے سے یہ کہنا درست نہیں کہ رسول ﷺ کی صرف پیروی مطلوب ہے، محبت مطلوب نہیں۔ اِس آیت میں محبت کی تعریف یااُس کی تمام حدود بیان نہیں کی گئی ہیں، بلکہ یہاں محبت کا اصل تقا ضا بیان کیاگیا ہے۔ آیت میں انسان کی نسبت سے مطلوب فطری جذبات ِ محبت کی نفی ہرگز نہیں۔ ایسا سمجھنا انسان اور محبت دونوں کی تصغیر کے ہم معنی ہوگا۔
اِسی طرح آیۂ زیر بحث کایہ مطلب بھی نہیں کہ رسول ﷺ کی یہ اتباع، محبت سے خالی اور جذبات سے عاری ہو۔ آیت میں جس بات کی تاکید کی گئی ہے، وہ بے روح قسم کی کوئی جامد تقلید یاظاہردارانہ دین داری نہیں، بلکہ اتباعِ رسول ﷺ کا حقیقی ثبوت دے کررسول ﷺ سے اپنے دعواے محبت کی تصدیق کرناہے۔ اصل یہ ہے کہ جو اطاعت طوعاً ہو، وہی مطلوب ہے، کرہاً کی جانے والی اطاعت جس میں قلبی تعلق شامل نہ ہو، وہ اطاعت نہیں، بلکہ صرف بے روح ’مذہبیت‘ ہے جو خدا کے ہاں مقبول نہیں۔
دین اسلام میں ایسا ایمان باللہ اور ایمان بالرسول جس میں قلبی تعلق کارفرما نہ ہو، اکثر حالات میں محض ظاہرداری کے ہم معنی ہواکرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہمارا حقیقی تعلق اُس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، جب تک اِس کی بنیاد دو چیزوں پر نہ ہو... ایمان، اور اطاعت۔ اور اطاعت وہی ہے جوطوعاً ہو، نہ کہ کرہاً، یعنی قلبی تصدیق اور دل کی پوری رضا مندی کے ساتھ، جس میں جبرواِکراہ شامل نہ ہو۔ اِس روح سے خالی تصورِ اطاعت صرف ایک ایسا مبتدعانہ تصور ہوگا جو کتاب و سنت میں سرتا سر اجنبی ہے۔ (جاری ہے)