جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کا چھٹا کانووکیشن 12 اکتوبر 2022ء کو ایوانِ اقبال لاہور میں منعقد ہوا۔ کانووکیشن کی صدارت چیئرمین سپریم کونسل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کی۔ کانووکیشن میں جامعہ الازہر یونیورسٹی مصر کے سابق رئیس الجامعہ الشیخ الدکتور محترم ابراہیم صلاح الھدھد اور محترم الشیخ الدکتور احمد محمود حسن شریف (جامعۃ الازہر) نے خصوصی شرکت کی۔ منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، چیف جسٹس شرعی عدالت محترم ڈاکٹر سید انور شاہ، وائس چانسلر منہاج یونیورسٹی محترم ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد، محترم دیوان غلام محی الدین، محترم بیرسٹر عامر حسن، محترم ایم ایچ شاہین ایڈووکیٹ، محترم ناہید گل، محترم سیف اللہ، محترم عثمان احمد، محترم حاجی محمد امین القادری، ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم خرم نواز گنڈا پور، رئیس الجامعہ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن محترم ڈاکٹر محمد ممتاز الحسن باروی، پرنسپل گرلز کالج محترم محمد آفتاب احمد، ڈین آف اسلامک سٹڈیز محترم ڈاکٹر محمد اکرم رانا، ایچ او ڈی اسلامک سٹڈیز محترم ڈاکٹر شبیر احمد جامی، ایچ او ڈی عربیک سٹڈیز محترم ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی، محترم مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی، محترم پروفیسر محمد نواز ظفر، ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز محترم ڈاکٹر شفاقت علی بغدادی الازہری، جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن اور منہاج گرلز کالج کے اساتذہ کرام، سٹاف، طلبہ و طالبات، ماہرین تعلیم اور سیاسی و سماجی شخصیات نے کانووکیشن میں خصوصی شرکت کی۔
تلاوت قرآن مجید کی سعادت قاری سید خالد حمید کاظمی الازہری صاحب نے حاصل کی جبکہ ڈاکٹر سرور صدیق نے بارگاہِ رسات مآبa میں ہدیہ نعت پیش کیا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض پروفیسرعبدالقدوس درانی نے سر انجام دیے۔
- رئیس الجامعہ محترم ڈاکٹر محمد ممتاز الحسن باروی نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ امر ہمارے لئے باعثِ مسرت و افتخار ہے کہ آج ہمارے طلبہ و طالبات کی ایک نئی کھیپ تعلیم و تربیت کے سات سالہ مراحل طے کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ منہا ج القرآن سے کامیابی کی اسناد اور تمغے حاصل کر رہی ہے۔ یہ نوجوان طلبہ و طالبات دینی اور عصری علوم کی دولت سے بہرہ ور ہو کر عملی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ یہ گریجویٹس حصولِ تعلیم کے بعد اپنی تمام ترصلاحیتیں معاشرتی اصلاح، فروغِ علم، اشاعتِ دین، وطن عزیز پاکستان اور بنی نوعِ انسان کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر کے ملک وملت کا نام روشن کریں گے۔
جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کا نظامِ تعلیم جدید و قدیم علوم کے حسین امتزاج کے ساتھ سات سالہ دورانیے پر مشتمل ہے۔ جہاں طلبہ کو الشہادۃ العالمیہ کے ساتھ ساتھ علومِ عصریہ میں ریگولر انٹر میڈیٹ اور چھ مختلف ڈسپلنز میں بی ایس اور ایم فل تک اعلیٰ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر اسلام کی دعوت کو مؤثر انداز سے پہنچانے کے لیے جامعہ کے طلبہ میں عربی اور انگلش لینگویج میں بھی مہارت پیدا کرنے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ یہاں تیونس اور یمن کے عربی الاصل اساتذہ عربی زبان سکھا رہے ہیں۔ جامعہ کے اساتذہ میں 20 اساتذہ Ph.D اور12 اساتذہ مختلف عرب ممالک کی جامعات کے گریجوایٹ ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔
علاوہ ازیں جامعہ میں تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تعلیمات و افکار کے عین مطابق طلبہ و طالبات کی علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی تربیت کا سامان کیا جاتاہے۔ نیز ہم نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی جامعہ اپنے ہم عصر تمام اداروں سے منفرد و ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔
- الدکتور احمد محمود الشریف الازہری نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ میں سب سے پہلے مصدرِ علم و عرفاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طا ہر القاد ری کا نہا یت ہی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے اس کانووکیشن میںحا ضری کی دعوت دی۔ میں نہایت معزز و مکر م صاحبزادگا ن ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اور جملہ انتظامیہ کا شکر گزار ہوں جن کے سبب سے میں آپ کے سامنے موجود ہو ں۔
میں نے بیس سا لہ اپنے تدریسی تجربے کے دوران بہت سے طلبہ کو پڑھایا ہے جن میں روس سے لے کر ایشاء تک کے ممالک شامل ہیں۔ میں نے ان طلبہ میں متنوع جہت کی فکری و نظریاتی اور اعتقادی الجھنیں، رکاوٹیں اور مشکلات دیکھی ہیں جو بسا اوقات ان میں بگاڑ اور انتہا پسندی پیدا کرتی ہے اور بات تصادم تک چلی جاتی ہے۔ جبکہ میں نے منہاج القرآن میں آکر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے مرکز میں تمام طلبہ، اساتذہ، تمام فورمز کے اندر ایک فکری و نظریاتی اور علمی و تحقیقی نوعیت کی وحدتِ فکری اور یگانگت دیکھی ہے۔ ایک ہی مقصدیت کی طرف، ایک ہی منزل اور ایک ہی منہاج کی طرف واضح رہنمائی دیکھی ہے۔ یہ سارا کریڈٹ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو جاتا ہے اور یہی منہاج ہمیں قرآن سنت اور عقیدہ اہل سنت و جماعت میں بھی تاریخی تناظر میں دکھائی دیتا ہے۔
- الدکتور الشیخ ابراہیم صلاح الھدھد (سابق رئیس جا معۃ الازہر) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ وہی شخص کسی ادارے یا تحریک کے بارے میں اپنے آراء دے سکتا ہے جس نے دنیا بھر میں بہت سے ادارے اور یونیورسٹیوں کا دورہ کیا ہو اور بندہ عا جز اس یونیورسٹی کا وائس چانسلر رہا جسے قائم ہوئے 1080 سال ہوچکے ہیں اور جو اسلامی یونیورسٹیوں میں سب سے پرانی اور پہلی درسگاہ ہے۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے جس کے کا لجز اور شعبہ جات 85 ہیں جو کہ دینی اور دنیاوی دونوں قسم کی ایجوکیشن کا حسین امتزا ج ہے۔ اس میں 50 ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور 40ہزار سے زائد غیر ملکی طلبہ جو کہ106 ممالک سے آتے ہیں، زیرِ تعلیم ہیں۔ اب اگر اس مرکزِ علم سے باہر نکل کر جب ہم دنیا بھر میں دوسرے مراکز ِ علم اور یونیورسٹیوں کا دورہ کرتے ہیں تو ان کے نظام ہائے تدریس و تعلیم کو دیکھ کر مختلف افکار و خیالات ذہن میں آتے ہیں جو کہ کسی حد تک پریشان کن دکھائی دیتے ہیں لیکن جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن میں مجھے بہت سی نمایاں خوبیاں اور امتیازی اوصاف نظر آتے ہیں۔ جدتِ فکری نظر آتی ہے جو کہ درج ذیل پہلوؤں پر مشتمل ہے:
منفرد تعلیمی نظام ہے جو کہ نرسری سے لے کر پی ایچ ڈی تک ایک ہی سایہ میں مجتمع ہیں۔ شیخ الاسلام نے منہاج القرآن کے لفظ کا انتخاب بہت زیا دہ دور اندیشی اور ذکاوت اور ذہانت سے کیا ہے کیونکہ منہاج اس راستے کو کہتے ہیں جو ہمیں جنت تک پہنچائے اور وہ قرآن سے تمسک اختیار کر کے ہی ممکن ہے۔
منہا ج یونیورسٹی لاہور جو کہ ڈاکٹر حسین محی الدین کے زیرِ قیادت علمی سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے، اس میں مذاہبِ عالم کو پڑھانے کے لیے انہی مذاہب اور مکتبہ ہائے فکر کے اساتذہ تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں جو کہ الہامی اور غیر الہامی مذاہب کو پڑھا رہے ہیں اور ان میں ڈگریاں بھی تفویض کی جارہی ہیں اور یہ پورا کام لا اکرہ فی الدین اور لکم دینکم ولی دین کی عملی تفسیر ہے۔
- چیف جسٹس شرعی عدالت محترم ڈاکٹر سید انور شاہ نے کانووکیشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ منہاج القرآن کی قیادت تعلیم یافتہ، باکردار نوجوان محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کے ہاتھ میں ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی دین، انسانیت اور علم کے لیے خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔
- چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ آرام طلبی اور علم ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ نافع علم کے لیے خود کو وقف کرنا پڑتا ہے، علم کی وراثت سونے اور چاندی کی وراثت سے افضل ہے۔ ائمہ محدثین نے حصولِ علم کے لیے بہت تکلیفیں اٹھائیں، ان ہی کی قربانیوں کی وجہ سے ہم تک علم کا نور پہنچا۔
- منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کانووکیشن میں خصوصی شرکت کرنے پر جامعہ الازہر مصر کے اساتذہ اور دیگر مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کیا اور جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے پرنسپل، تمام لیکچررز اور سٹاف کو اعلیٰ کارکردگی پر مبارکباد دی۔
- شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے چھٹے کانووکیشن میں شریک مہمانانِ گرامی، اساتذہ اور طلبہ و طالبات و اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
علم کے سفر میں چار چیزیں پیش نظر رکھنی چاہئیں:
1۔ تعلیم العلم
2۔ تعلیم الادب
3۔ تعلیم الخلق
4۔ تعلیم التربیۃ
یعنی علم کے ساتھ ساتھ ادب بھی سیکھو، اچھی تربیت بھی حاصل کرو اور اخلاق سنوارنے پر بھی توجہ دو۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ تعلیم سے کامل ارتقاء نصیب ہو، بلکہ کامل ارتقا؛ تربیت سے عطا ہوتا ہے۔ عالم کا یہ کام نہیں کہ جذبات کی رو میں بہہ جائے، بلکہ عالم کا یہ فرض ہے کہ مخلوق کی حقیقی راہنمائی کرے اور انہیں تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچائے۔ صحیح علم وہی ہے جس کا مثبت اثر طبیعت اور مزاج پر ظاہر ہو۔ علمِ نافع انسان کو تقویٰ و طہارت کا پیکر بناتا ہے، حرام امور سے بچاتا ہے، سنت کا پیروکار بناتا ہے اور بداخلاقی اور تنگ نظری سے بچاتا ہے۔
افسوس آج ہمارے مکاتب فکر، مسالک اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں گھٹن، تنگ نظری اور انتہا پسندی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ حصولِ علم اور تربیت کے تقاضوں کو نظر انداز کرنا ہے۔ تعلیم و تربیت، ہدایت اور وسعتِ قلب لازم و ملزوم ہیں اور ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ قرآن مجید کی وہ آیات تعلیم و تربیت کے مقاصد و اہداف کو واضح کرتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے مقاصدِ نبوت کو بیان فرمایا ہے۔ ان فرائض میں تلاوتِ آیات کے بعد تزکیہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ تزکیہ، تربیت سے عبارت ہے۔ تزکیہ کو تعلیم سے پہلے ذکر کرنے کا مقصود یہ ہے کہ تزکیہ کے بغیر علم نافع نہیں ہوتا۔ وہی شخص کامیاب رہے گا جو زندگی کے آخری لمحے تک متعلم رہے۔ علم اس وقت نافع ہوتا ہے جب اس کے حصول اور اس کو منتقل کرنے میں درج ذیل تدرج (درجہ بندی) کا اہتمام کیا جائے:
1۔ پہلا درجہ سماع ہے۔ پوری عمر بغیر کسی جھجک کے اساتذہ سے اکتسابِ فیض کرتے رہیں۔
2۔ دوسرا درجہ کتب کا مطالعہ ہے۔ کتاب سے اپنا تعلق ایک دن کیلئے بھی منقطع نہ کریں۔
3۔ تیسرا درجہ فہم ہے۔ حاصل کردہ علم اور تصور کو اس طرح سمجھنا کہ ادراک سے علم اور علم سے ایک تصور اور فکر تشکیل پائے۔
4۔ چوتھا درجہ حفظ کا ہے۔ یہ حفظ؛ الفاظ و معانی اور ان دونوں کے باہمی ربط کو یاد کرنے پر مشتمل ہے۔
5۔ پانچواں درجہ استیعاب ہے یعنی تشکیل شدہ تصورات اور اس کی جزئیات کا کاملاً احاطہ کرنا۔
6۔ چھٹا درجہ علم کو تطبیق اور عمل میں ڈھالنے کا ہے۔ اس سے تطبیقی استعداد میں اضافی ہوتا ہے ۔
7۔ ساتواں درجہ علم کی حفاظت اور اس کو تروتازہ کرنا ہے۔
نقدو تنقید اور اختلاف کو ہمیشہ خوش طبعی کے ساتھ قبول کریں۔ کسی شخص کا قول و فعل حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ یہ حیثیت صرف اللہ کے رسولa کی ہے۔ اس کے علاوہ ہر ایک کے علم میں ارتقاء بھی ہے اور امکانِ خطا بھی۔ اگر اختلاف و تنقید کا برا منائیں گے اور اس کو شخصی حملہ سمجھیں گے تو ضد اور عناد میں آجائیں گے۔ اس سے تنگی آتی ہے اور وسعت ختم ہوجاتی ہے۔ علم کی ترقی بھی اختلاف کے ساتھ ہوتی ہے۔ خود اختلاف کریں تو ادب کے ساتھ کریں۔ دوسرا جس انداز میں چاہے اختلاف کرے، اس کا برا نہ منائیں۔ یاد رکھیں، اجماع حجتِ قاطعہ ہے مگر اختلاف رحمتِ واسعہ ہے۔
زندگی بھر حصولِ علم اور فروغ و اشاعتِ علم کے لیے ہمیشہ جدوجہد کریں۔ آرام طلبی اور تن آسانی کو حرام کرلیں۔ علم مشقت اور محنت سے آتا ہے۔ حصول و اشاعتِ علم کو منافعِ شخصیہ اور دنیاوی حرص و ہوس سے پاک رکھیں۔ حضرت کعبg فرماتے ہیں: علم حاصل کرنے کے بعد جب اسے بیچا جائے تو وہ عزت کی بجائے ذلت کا باعث بنتا ہے۔
حضرت کعب الاحبارg سے پوچھا گیا: علم کو حفظ کرنے کے بعد کون سی چیز دلوں سے علم کو نکال لیتی ہے؟ آپ نے فرمایا: طمع اور حاجت مندی۔ علم حاصل کرو اور اس پر عمل کرو۔ اس لیے حاصل نہ کرو کہ زیب و زینت اور جمال میں بہتری آئی۔
حاصل کردہ علم کا اثر زندگی میں ظاہر ہونا چاہیے۔ اس سے حسنِ اخلاق میں بہتری آئے اور حرام اور مکروہ کاموں سے اجتناب نصیب ہو۔ صحبتِ صالح اختیار کریں اور صحبتِ فاسد سے پرہیز کریں۔ تنگ نظری سے ہمیشہ بچیں اور وسعت پیدا کریں کیونکہ دین وسعت کا حکم دیتا ہے۔ توسط اور اعتدال؛ وسعت پیدا کرتا ہے۔ میں مثالی تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ و طالبات کو مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے روشن مستقبل کے لئے اللہ رب العزت کے حضور دعا گو ہوں۔
- کانووکیشن میں تعلیمی سال 2016ء تا 2022ء میں جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن لاہور سے الشہادۃ العالمیۃ کا امتحان پاس کرنے والے طلبہ و طالبات کو انعامات،میڈلز اور اسناد سے نوازا گیا۔ طلبہ و طالبات نے چیئرمین سپریم کونسل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز (MUL) محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، فضیلۃ الشیخ الدکتور ابراھیم صلاح الھدھد (سابق رئیس الجامعہ، جامعہ الازھر، مصر)، الشیخ احمد محمود حسن الشریف اور ڈاکٹر سید محمد انور (چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت) سے اپنے انعامات وصول کیے۔ طلبہ و طالبات میں فریدِ ملت ایوارڈ آف پرفارمنس، شیخ الاسلام ایکسیلینس ایوارڈ (Shaykh-ul-Islam Excellence Award) اور دیگر ایوارڈز تقسیم کیے گئے۔ چیئرمین سپریم کونسل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور صدر MQI محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مہمانانِ گرامی، جامعہ کے اساتذہ، مرکزی قائدین، سٹاف ممبران جامعہ اور اعلیٰ کارکردگی کے حامل منہاجینز کو بھی خصوصی شیلڈز عطا فرمائیں۔