ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهِ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ. الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ. لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِط لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللهِ ط ذٰلِکَ هُوَ الفَوْزُ الْعَظِیْمُ.
(یونس، 10: 62۔ 64)
’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔ (وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہے۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حُسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)، اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کی شان کو بیان فرمایا ہے کہ اولیاء اللہ کو ایمان اور تقویٰ میں رسوخ حاصل ہوتا ہے اور انھیں اللہ نے ایمان کی کامل دولت سے نواز رکھا ہوتا ہے۔ حقیقت میں جن کی زندگی تقویٰ و پرہیزگاری کے زیور سے آراستہ ہوتی ہے، وہی لوگ اللہ کے اولیاء ہیں۔ اللہ کے یہ نیک بندے جب اپنے ایمان، عمل اور تقویٰ کے باعث حضور الوہیت میں مرتبہ ولایت پر فائز ہوجاتے ہیں تو دنیا کی کامیابیاں بھی ان کے قدم چومتی ہیں اور آخرت کی کامیابیاں بھی ان کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔ گویا دنیا کی ساری کامیابیاں اور کامرانیاں ان کے دامن میں رکھ دی جاتی ہیں۔
اللہ رب العزت نے اپنے اولیاء کی مذکورہ شان کا ذکر کرنے کے بعد لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللهِ کے الفاظ کے ذریعے اپنے قانون کا اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ اٹل قانون ہے اور اس میں کوئی تبدیلی اور ردوبدل نہیں ہوسکتا کہ میرے اِن دوستوں پر دنیا اور آخرت میں کوئی حزن، ملال اور خوف طاری نہیں ہوتا بلکہ دنیا اور آخرت دونوں زندگیاں ان کے لیے خوشی، مسرت اور انبساط کا باعث ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مرتبۂ ولایت پر فائز ہوجانا، اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں شامل ہوجانا، دنیا و آخرت کے خوف و غم سے نجات پاجانا اور دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی اور کامرانیوں کا حقدار بن جانا ہی در حقیقت اصل اور سب سے بڑی کامیابی ہے۔
امتِ محمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام اولیاء اور مقربین میں سے ایک برگزیدہ ہستی حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی ہے۔ آپ گروهِ اولیاء کے امام اور سرتاج ہیں۔ امتِ مسلمہ میں صحابہ کرامl اور اہل بیت اطہارf کے بعد ولایت کے اعلیٰ رتبہ پر اللہ تعالیٰ نے سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کو متعین فرمایا۔ اول سے آخر تک دنیا کا کوئی ولی اس مقام پر نہیں، جس مقام پر اللہ رب العزت نے آپ کو بلندی اور سرفرازی سے بہرہ ور فرمایا ہے۔ اسی لیے سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے مرتبہ ولایت کی نسبت کہا گیا کہ
غوث اعظم درمیانِ اولیاء چوں محمد ﷺ درمیانِ انبیاء
یعنی سیدنا غوث الاعظمؓ کا مرتبہ اولیاء کے درمیان اسی طرح بلند و بالا ہے جس طرح انبیاء میں تاجدار کائنات ﷺ کا مرتبہ تمام بلند و بالا ہے۔ اس لیے کہ ہر ولی اپنی ولایت میں کسی نہ کسی پیغمبر کے نقشِ قدم پر ہوتا ہے اور حضور غوث الاعظمؓ مرتبۂ ولایت میں قدمِ مصطفی ﷺ پر ہیں۔
سیدنا غوث الاعظمؓ کی ولادت 470 ھجری ماہ رمضان المبارک میں ہوئی اور آپ کا وصال 561ھ ماہ ربیع الثانی میں ہوا۔ آپ حسنی حسینی سید ہیں۔ آپ کے والد گرامی کا سلسلہ نسب حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ اور والدہ ماجدہ کا سلسلہ نسب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ قدرت نے آپ کو نہ صرف حسیب بنایا تھا بلکہ نجیب الطرفین بھی بنایا اور والد اور والدہ دونوں اطراف سے نبی اکرم ﷺ کا اہلِ بیت ہونے کا شرف عطا فرمایا۔
کیا اسلام میں نسب کو فضیلت حاصل ہے؟
اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی کردوں کہ دین اسلام کی تعلیمات؛ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰـکُمْ (الحجرات، 49: 13) ’’بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو۔‘‘ اور حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشاد گرامی؛ فلیس لعربی علی عجمی فضل ولا لعجمی علی عربی ولا اسود علی ابیض ولا لابیض علی اسود فضل الا بالتقویٰ ’’کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر، کسی سیاہ کو سفید پر، کسی سفید کو سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں اور فضیلت کا دارو مدار صرف اور صرف تقویٰ پر ہے۔‘‘ اور اس جیسی دیگر تعلیمات سن کر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید اچھے نسب کی اسلام کے اندر مطلقاً کوئی فضیلت نہیں ہے۔یہ تصور غلط ہے۔ یاد رکھیں! اسلام میں نسب کی فضیلت حق ہے مگر اسلام میں نسب کی بناء پر فخر کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔۔۔ نسب کی بناء پر طبقاتی امتیاز پیدا کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔۔۔ نسب کی بناء پر خصوصی مراعات یافتہ طبقہ وجود میں لانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔۔۔ نسب کی بناء پر ایک کو اعلیٰ اور دوسرے کو ادنیٰ اور ایک دوسرے کو ذلیل و حقیر قرار دینے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے کئی مقامات پر اپنی فضیلت اور نسب کا بیان اپنی زبان مبارک سے کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
انا محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ان اللہ خلق الخلق فجعلنی فی خیرهم فرقة ثم جعلهم فرقتین فجعلنی فی خیرهم فرقة ثم جعلهم قبائل فجعلنی فی خیرهم قبیلة ثم جعلهم بیوتا فجعلنی فی خیرهم بیتا وخیرهم نسبا.
(ترمذی، الجامع الصحیح، 5: 543، کتاب الدعوات، رقم: 2353)
’’میں عبداللہ بن عبدالمطلب کا بیٹا محمد ( ﷺ ) ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین مخلوق (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس بہترین مخلوق کے دو حصے (عرب و عجم) کیے اور ان دونوں میں سے بہترین حصہ عرب میں مجھے پیدا کیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا۔‘‘
نیکی اور تقویٰ کی بناء پر انسان کو جو ذاتی شرف و فضیلت نصیب ہوتی ہے اسے ’’حسب‘‘ کہتے ہیں اور خاندانی فضیلت کی بناء پر انسان کو جو شرف حاصل ہوتا ہے اسے ’’نسب‘‘ کہتے ہیں۔ جو صاحبِ تقویٰ ہو اور نسب کے اعتبار سے بھی اعلیٰ ہو تو اسے ’’حسیب‘‘ اور ’’ نسیب‘‘ کہا جاتا ہے۔ کوئی شخص اگر اعلیٰ نسب کا ہو لیکن اس میں ایمان اور عملِ صالحہ موجود نہ ہو تو پھر یہ توممکن ہے کہ اعلیٰ نسب میں ہوکر بھی وہ اس نسب کا فائدہ نہ اٹھا سکے لیکن اس کے اعلیٰ نسب کی فضیلت پھر بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ اگر اعلیٰ نسب کی فضیلت کا حامل اپنی زندگی میں ایمان اور تقویٰ کو بھی شامل کرلے تو اسے حسب اورنسب دونوں کی فضیلتیں مل جائیں گی اور اس کے احوال ومقامات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
- ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں کچھ جنگی قیدی پیش کیے گئے، ان میں سے ایک عورت حاتم طائی کی اولاد میں سے تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو معلوم ہوا کہ حاتم طائی کی بیٹی بھی جنگی قیدیوں میں ہے تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا کہ بیٹی مجھے تیرے باپ کی سخاوت کا لحاظ آرہا ہے، اس لیے تجھے اس کی سخاوت کی وجہ سے آزاد کیا جاتا ہے۔ حاتم طائی کی بیٹی نے کہا کہ اگر میرے باپ کی سخاوت کی وجہ سے مجھے رہا کیا جارہا ہے تو میں خود بھی سخی ہوں، لہذا آپ ﷺ سے درخواست کرتی ہوں کہ میرے قبیلے کے سارے اسیروں کو بھی میرے ساتھ آزاد فرمادیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے حاتم طائی کی سخاوت کے لحاظ میں اس کی بیٹی اور اس کے ساتھ سارے جنگی قیدیوں کو آزاد کردیا۔
حاتم طائی کوئی صحابی یا برگزیدہ ولی نہ تھا بلکہ دورِ جاہلیت میں مرنے والا ایک انسان تھا اس کی وجۂ شہرت سخاوت تھی۔ حضور ﷺ نے اس کے نسب کا بھی لحاظ فرمایا اور یہ پورے نسب کا بھی نہیں بلکہ نسب کے ایک فرد کا لحاظ تھا اور یہ لحاظ اس فرد کی اس بات کا نہیں تھا کہ وہ ولی یا نبی تھا بلکہ صرف اس بات پر کہ وہ سخی تھا۔ معلوم ہوا کہ بسااوقات نسب کا اس قدر لحاظ ہوتا ہے۔
- سورۃ الکہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے اکٹھے سفر پر روانہ ہونے کا واقعہ ہے۔ اس سفر کے دوران حضرت خضر علیہ السلام نے بغیر اجرت کے یتیم بچوں کی گرتی ہوئی ایک دیوار کی تعمیر کردی۔ اس شفقت کا سبب اللہ رب العزت نے قرآن میں بیان کیا ہے کہ:
وَکَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا.
(الکهف، 18: 82)
’’اور ان کا باپ صالح (شخص) تھا۔‘‘
اِن یتیم بچوں کے نسب میں ساتویں یا دسویں پشت میں ایک ولی گزرا تھا۔ یہ بچے اس برگزیدہ شخص کی اولاد میں سے تھے تو اللہ رب العزت نے اس ولی کے نسب کا لحاظ فرماتے ہوئے حضرت خضر علیہ السلام کے دل میں ان بچوں کو نقصان سے بچانے کا حکم القاء فرمایا۔
دوسری طرف اگر انسان اعلیٰ نسب کا ہو کر بھی صاحبِ حسب نہیں ہوتا تو اعلیٰ نسب اور اس کی برکتوں کے ہوتے ہوئے بھی اسے برکتوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اس کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی ہے کہ وہ طوفان میں غرق ہوجاتا ہے۔ قرآن اس کے بارے کہتا ہے کہ
اِنَّـهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ.
(ھود، 11: 46)
’’کیوں کہ اس کے عمل اچھے نہ تھے ۔‘‘
اے نوح! یہ تیرے نسب میں سے نہیں ہے، اس لیے کہ اس نے تیرے نقش قدم پر چلنا چھوڑ دیا ہے۔ جو لوگ اپنے آباؤ اجدادکے نقشِ قدم پر چلنا چھوڑ دیتے ہیں، وہ اپنے اعمال کے سبب نسب کی فضیلتوں اور عظمتوں سے محروم ہوجاتے ہیں اور اگر نسب اعلیٰ ہو اور بندہ آباء و اجداد کے نقشِ قدم کی پیروی بھی کرے تو کروڑوں فضیلتیں اور برکتیں اس کی طرف آتی ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنی اہلِ بیتِ اطہار سے محبت کی تاکید کرنا اور ان سے محبت کو اپنی محبت قرار دینا بھی نسب کی فضیلت پر ایک بیّن دلیل ہے۔ پس معلوم ہوا کہ نسب کی فضیلت اپنی جگہ بڑی برگزیدہ ہے اور اگر اس کے ساتھ حسب کی فضیلت بھی شامل ہوجائے تو پھر احوال اور مقامات کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔
حضور غوث الاعظمؓ: مادر زاد ولی ہیں
سیدنا غوث الاعظمؓ نسب کی فضیلتوں کے اعتبار سے مالا مال تھے۔ باپ کی طرف سے حسنی سید اور ماں کی طرف سے حسینی ہیں۔ حسنیت اور حسینیت دونوں شانوں کو اللہ رب العزت نے ان میں جمع کیا اور پھر حسب میں بھی اعلیٰ ترین بنادیا۔ آپ کی پیدائش کے وقت ہی آپ کی روح کو مرتبۂ ولایت پر فائز کردیا گیا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ کئی اولیاء مادر زاد ولی ہوا کرتے ہیں اور ان کی روحیں عالمِ ارواح میں بھی عبادت و بندگی کی معراج پر ہوتی ہیں۔ یہ بات ہمیں اس لیے سمجھ نہیں آتی کہ ہم صرف اس عالمِ ناسوت، مادی دنیا سے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی زندگی کا آغاز پیدائش سے ہوتا ہے۔ نہیں، یہ تو انسان کی زندگی کے کئی زمانوں میں سے ایک معمولی سا زمانہ ہے۔ اس کی زندگی تو عالمِ ارواح میں کئی عرصہ قبل شروع ہوجاتی ہے۔ کئی ارواح عالمِ ارواح میں کثرتِ عبادت و تقویٰ کے باعث اللہ کے قرب میں اتنی بلند مرتبہ کی حامل ہوچکی ہوتی ہیں کہ انھیں عالمِ ارواح میں ہی اللہ کی ولایت اور معرفت نصیب ہوجاتی ہے۔ وہ ارواح جو وہاں عارف ہوچکی ہوں، جب دنیا میں پیدا آتی ہیں تو یہ مادر زاد ولی کہلاتے ہیں۔
حضور غوث الاعظمؓ نے اپنے بچپن میں جب مکتب و مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا تو اسی وقت سے اللہ رب العزت نے آپ کی آنکھوں سے تمام پردوں کو دور کردیا تھا اور آپ اپنے بچپن میں اللہ رب العزت کی طرف سے اپنی حفاظت کے لیے مقرر فرشتوں کا مشاہدہ فرمایا کرتے تھے۔ سفر میں جاتے تو فرشتے ادب کے ساتھ آپ کے آگے اور پیچھے چلتے۔ فرشتوں کا اللہ کے بندوں کی بارگاہ میں ادب کے ساتھ حاضرِ خدمت رہنا، یہ عجیب معاملات میں سے نہیں ہے، اس لیے کہ جہاں محفلِ ذکر ہوتی ہے، وہاں ادب کے ساتھ فرشتے موجود رہتے ہیں۔ فرشتوں کے نزول اور حاضر خدمت رہنے کا یہ سلسلہ صرف ان کی حیات میں ہی جاری نہیں رہتا بلکہ اُن کے وصال کے بعد بھی اُن کے مزارات پر فرشتوں اور اللہ کی رحمت کا نزول جاری و ساری رہتا ہے اور اہلِ نظر کو اِن کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے ایک عظیم ذخیرہ حدیث موجود ہے کہ بندہ اگر اللہ تعالیٰ کا ہوجائے تو اس کے چلتے پھرتے ہوئے راستے میں فرشتے دست بستہ کھڑے ہوکر اسے سلامِ ادب پیش کرتے ہیں۔ حضور غوث الاعظمؓ تو اولیاء کے سردار ہیں، ان کی بارگاہ میں تو بچپن ہی سے ہزاروں فرشتے موجود رہتے تھے۔
بغداد میں حصولِ تعلیم کے لیے جانے سے قبل ایک روز آپ نے ایک لاٹھی اٹھائی اور بیل کو ہانکتے ہوئے اپنی زمینوں کی طرف لے گئے کہ ہل چلائیں۔ جب آپ نے ہل چلانے کے لیے بیل کو ہانکا تو سیدنا غوث الاعظمؓ خود فرماتے ہیں کہ بیل رک گیا، اللہ نے اسے زبان عطا کی اور بیل کہنے لگا:
عبدالقادر لکڑی اٹھا کر مجھے نہ ہانک، اللہ نے تجھے کاشتکاری کے لیے پیدا نہیں کیا اور نہ مجھے ہانکنے کا حکم دیا۔ اس نے تجھے خلقِ خدا کی رشد و ہدایت کے لیے پیدا کیا ہے۔
یہ سارا ماجرا دیکھ اور سن کر آپ واپس گھر آگئے اور ایک خاص کیفیت میں گھر کی چھت پر چڑھ گئے۔ جب چھت پر کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے تمام پردے اٹھا دیئے اور آپ کو وہاں سے میدانِ عرفات کے اندر حاجیوں کا ہجوم نظر آیا۔ آپ یہ منظر دیکھ کر نیچے اترے اور اپنی والدہ کے سامنے سارا واقعہ بیان کردیا اور عرض کیا: اماں جان! میرا دل کہتا ہے کہ مجھے اس مقصد کی طرف روانہ ہونا چاہیے جس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا فرمایا۔ مجھے اجازت دیں تاکہ میں بغداد جاکر علماء کی خدمت میں بیٹھ کر علم و فکر حاصل کروں۔ آپ کی والدہ ماجدہ بھی کامل ولیہ اور والد بھی کامل ولی تھے اور ایسے لعل پھر ہمیشہ انہی گودوں میں پرورش پاتے ہیں کہ وہ مائیں جو بغیر وضو کبھی بچوں کو دودھ نہیں دیتیں اور خلافِ شرع باتوں سے بچوںکے کانوں کو کبھی مانوس نہیں ہونے دیتیں۔ یہ ان ہی گودوں کی تربیت ہوتی ہے کہ پھر جنید و بایزید جیسی شخصیات پیدا ہوتی ہیں۔
حصولِ تعلیم و تربیت کے لیے بغداد کا سفر
حضور غوث الاعظمؓ والدہ ماجدہ سے اجازت لے کر حصولِ علم کے لیے بغداد تشریف لے آئے۔ اس زمانے میں بغداد علم و حکمت کا ایک عظیم مرکز تھا۔ امام غزالیؒ اس وقت نظامیہ یونیورسٹی بغداد کے وائس چانسلر تھے اور وہاں بڑے بڑے اکابر علماء و مشائخ علم و حکمت کی روشنی بکھیر رہے تھے۔ علم و حکمت اور فلسفے کا دور دورہ تھا لیکن ان چیزوں کے باوجود اسلام پر زوال اور ابتلاء کا آغاز ہوچکا تھا۔ بغداد پہنچ کر آپ نے حصولِ علم کے ساتھ ساتھ تصوف و سلوک اور روحانیت کے منازل کے حصول کے لیے ریاضات اور مجاہدات کیے۔ کبھی تیس اور کبھی چالیس چالیس دن بغیر کھائے پیے گزر جاتے۔ جنگلوں میں کثرت کے ساتھ جاتے اور ریاضت و عبادت میں مصروفِ عمل ہوجاتے۔ آپ نے اس کثرت کے ساتھ ریاضت و مجاہدہ کیا کہ شہر بغداد کی ایک سمت میں ایک برج میں گیارہ برس عبادت اور ریاضت میں مصروف رہے۔ اس برج میں آپ کے گیارہ برس کے قیام کے سبب اس کا نام ہی برجِ عجمی پڑ گیا۔
آپ فرماتے ہیں کہ اسی زمانے میں جب ایک روز میں جنگلوں میں عبادت اور ریاضت میں مصروف تھا اور تصوف و سلوک کی منازل طے کررہا تھا کہ یکایک آسمان سے ایک نور چمکا اور ہر سو روشنی اور اجالا ہوگیا۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اس نور میں سے آواز آئی کہ عبدالقادر! میں تیرا رب ہوں، تو نے اس کثرت سے میری عبادت کی ہے کہ اب میں نے اپنی عبادت سے تجھے آزاد کردیا ہے۔ سیدنا غوث پاکؓ فرماتے ہیں کہ میرے ذہن میں اچانک ایک خیال آیا کہ آقا علیہ السلام سے بڑھ کر تو روحانی تکمیل کے مرحلے کسی نے طے نہیں کیے ہوں گے، آپ ﷺ ہی ساری ولایت، روحانیت اور مراتب کے تقسیم کنندہ ہیں مگر اس کے باوجود آقا دو جہاں ﷺ بھی عبادت سے آزاد نہ ہوئے بلکہ رات اس قدر قیام کرتے کہ آپ ﷺ کے مبارک قدموں پر ورم آجاتا اور اللہ آپ ﷺ کی محبت کی خاطر یہ فرماتا ہے:
طٰهٰ. مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی.
(طه، 20: 1-2)
’’طٰہٰ (اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑجائیں۔‘‘
اتنے اعمال کے باوجود اگر حضور نبی اکرم ﷺ سے عبادت اور شریعت کی پابندی ساقط نہ ہوسکی تو مجھ سے کس طرح ساقط ہوسکتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ یہ شیطان کا حملہ ہے۔ لہذا میں نے کہا: لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ اسی وقت شیطان انسانی صورت میں متشکل ہوکر میرے سامنے آگیا۔ شیطان کا حملہ ناکام ہوچکا تھا۔ وہ بدبخت کہنے لگا کہ میں نے اس حملے سے ہزاروں بندوں کو راهِ راست سے بھٹکادیا تھا، لیکن آپ اپنے علم اور عرفان کی پختگی کی وجہ سے بچ گئے۔ آپ نے شیطان کی بات سن کر فرمایا: عبدالقادر! اپنے علم و العرفان کے سبب سے نہیں بلکہ میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بچا ہوں۔
علماء اور اولیاء فرماتے ہیں کہ شیطان نامراد کا یہ حملہ پہلے حملے سے بھی بڑھ کر حملہ تھا۔
شریعت کے بغیر طریقت کا تصور باطل ہے
حضور غوث الاعظمؓ نے اس واقعہ کے ذریعے طریقت کی راہ کے مسافروں اور سلوک و معرفت کی منزلیں طے کرنے والوں کے لیے ہمیشہ کے لیے سبق دے دیا کہ طریقت، معرفت اور ولایت میں کوئی قدم اور مرتبہ ایسا نہیں آسکتا کہ جہاں پہنچ کر کسی ولی سے شریعت، عبادت اور اطاعت کی پابندی ساقط کردی جائے۔ وہ لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے معتقدین کے اذہان میں یہ بٹھاتے ہیں کہ ہم ولایت کے اس مقام پر ہیں کہ اب ہم سے شریعت ساقط ہوگئی، ان کا یہ دعویٰ جھوٹ ہے اور ایسا دعویٰ شیطان کے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا۔ ایسا شخص چاہے آگ میں چلتا دکھائی دے اور آگ اس کا قمیص نہ جلاسکے۔۔۔ پانی کے اندر تیرتا نظر آئے اور پانی اسے ڈبو نہ سکے۔۔۔ چاہے پھونک مارے اور بیماریاں رفع ہوجائیں۔۔۔ الغرض جتنے عجائبات اس کے ہاتھ سے دیکھیں، وہ ولی نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ تارکِ شریعت کبھی اللہ کا دوست نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر کوئی شریعتِ مصطفوی کا پابند ہے اور عبادت اور اطاعت کی راہ پر چلنے والا ہے تو پھر وہ ولی ہے۔
بعض لوگوں نے عوام کی جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ تصور وضع کردیا ہے کہ شریعت تو مولویوں کا کام ہے، طریقت والوں کے لیے شریعت کی کوئی پابندی نہیں۔ سن لیں! طریقت ہو یا معرفت و ولایت سب شریعتِ مصطفوی کے خادم ہیں۔ اگر شریعتِ مصطفوی ہے تو پھر طریقت، معرفت اور ولایت بھی معتبر ہے۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کی شریعت کی خلاف ورزی ہوگئی اور حضور ﷺ کی سنت کو ترک کر دیا گیا تو پھر طریقت رہی نہ معرفت و ولایت رہی۔ ایسا شخص فاسق و فاجر، جھوٹا، کذاب، دھوکہ دینے والا اور جادوگر تو ہوسکتا ہے مگر اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا۔ ولایت وہی معتبر ہے جومیرے آقا مصطفی ﷺ کے قدموں کے توسل سے آئے اور جس ولایت پر شریعت کا لبادہ موجود ہو۔ ولی وہ نہیں جو سنت کی خلاف ورزی کرے بلکہ ولی وہ ہے کہ وہ چاہے بھی تو اس کا قدم حضور ﷺ کی سنت کے خلاف اٹھ نہ سکے۔
مقامِ غوثیتِ مآب
سیدنا غوث الاعظمؓ ولایت کے ان مراتب پر فائز تھے جہاں ترکِ سنت کا تصور ناممکن تھا بلکہ اتباعِ سنت کا کمال بھی آپ کی شخصیت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ولایت میں وہ مرتبہ عطا کیا کہ اذن ہوا کہ آپ اپنی مجلسِ وعظ میں اعلان کردیں کہ:
قدمی هذه علی رقبة کل ولی اللہ.
میرا یہ قدم اس کائنات کے ہر ولی کی گردن کے اوپر موجود ہے۔
آپ نے مجلسِ وعظ کے اندر جب یہ اعلان فرمایا تو اس مجلس میں جتنے اولیاء تھے، سب نے سر جھکا لیے اور جو اولیاء ظاہراً اس مجلس میں موجود نہ تھے بلکہ زمین پر جہاں جہاں تھے، انہوں نے عالمِ کشف میں سیدنا غوث الاعظمؓ کا یہ اعلان سنا اور اپنی گردنیں جھکا کر آپ کے مرتبۂ ولایت کا اعتراف کرلیا۔ اس وقت خراساں کے پہاڑوں میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ مراقبے میں مگن تھے۔ جب شہر بغداد کی مجلس میں جناب غوثیت مآب نے یہ نعرہ بلند کیا تو حضرت اجمیرؒ نے اپنی جبینِ نیاز وہیں جھکادی اور کہا:
قدماک علی راسی وعینی.
اے آقائے ولایت! آپ کے دونوں قدم میری گردن پر ہی نہیں بلکہ میرے سر اور میری آنکھوں پر بھی ہیں۔
سیدنا غوث الاعظمؓ نے اپنی اس مجلس کے اندر حضرت اجمیرؒ کے یہ الفاظ بھی سن لیے اور فرمانے لگے: لوگو غیاث الدین کے بیٹے معین الدین نے ہمارے ادب میں اس حد تک گردن جھکادی کہ کوئی اس حد تک نہیں پہنچ سکا۔ اس کے سبب ہم پورے ہند کی ولایت اسے عطا کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ ہندالولی کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔
علمی مقام و مرتبہ
سیدنا غوث الاعظمؓ روزانہ نہیں بلکہ ہفتہ میں تین مرتبہ وعظ کرتے تھے۔ اس لیے کہ حضور ﷺ کی سنت کی روح یہ ہے کہ تلقین اس قدر کرو کہ سننے والے تنگ نہ آجائیں۔ ہم تو صبح و شام درس پر درس دیتے چلے جاتے ہیں اور اس وقت تک درس دیتے رہتے ہیں، جب تک سننے والے متنفر نہ ہوجائیں۔ دوسری طرف یہ لوگ ہیں کہ جن کے دم قدم سے دینِ مصطفوی کی بہاریں ہیں، یہ ہفتے میں صرف تین درس دیتے اور مجلس منعقد کرتے۔ آپ کی مجلسِ وعظ میں ستر ستر ہزار افراد حاضر ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی آواز میں وہ کرامت عطا کی تھی کہ جس طرح آپ کی آواز پہلی صف میں موجود حاضرین کو سنائی دیتی، اسی مجلس وعظ کی آخری صف میں بھی آپ کی آواز اسی طرح سنائی دیتی۔ جب آپ بیان کرتے تو لوگوں کے دلوں پر ایک ایسی کیفیت وارد ہوتی کہ لوگ عالمِ جذب میں اپنے گریبان چاک کردیتے، کپڑے پھاڑ لیتے، بے ہوش ہوجاتے اور بسا اوقات ایسا ہوتا کہ سیدنا غوث الاعظمؓ کی ایک مجلسِ وعظ میں اس قدر کیفیات ہوتیں کہ ستر ستر جنازے اٹھتے۔
شانِ استغناء
حضور غوث الاعظمؓ کے استغناء کا عالم یہ تھا کہ آپ اپنی پوری زندگی میں کبھی ایک دن کے لیے بھی وقت کے بادشاہوں کے دروازے پر نہ گئے۔ مجھے ان فقیروں کے فقر کی سمجھ نہیں آتی، ان دعویٰ داروں کے دعویٰ ولایت کی سمجھ نہیں آتی جو بات تو اللہ تعالیٰ کے خوف کی کرتے ہیں لیکن دنیا داروں کے دروازوں کے بھکاری بنتے ہیں، دامنِ مراد پھیلائے ان کے پاس جاتے ہیں اور دنیاداروں کے گدا ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے لو لگانے والا سوائے اللہ کے کسی اور در سے کچھ نہیں مانگتا۔ دروازوں پر بھکاریوں کی طرح جانے اور دنیا داروں کے دروازوں کا گداگر بن کر رہنا اور اپنی عزتِ نفس کو مجروح اور تباہ کردینا، یہ سب کچھ اللہ کی ولایت سے بہت دور ہے۔ جن لوگوںکا تعلقِ قلبی اس ذات کے ساتھ جڑ جاتا ہے، پھر وہ اس کے سوا کسی اور کا تصور بھی نہیں کرتے۔ وہ صرف اسی کے محتاج ہوتے ہیں بلکہ مصطفوی ہونے کے سبب ساری کائنات ان کی محتاج ہوجاتی ہے۔
حضور غوث الاعظمؓ عباسی خلافت کے دور میں کسی حاکم کے دربار میں نہ گئے بلکہ اگر کسی حاکم کو مخاطب کرنا ہوتا اور اسے اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلوانا یا اس کے ظلم پر اس کی گرفت کرنا ہوتی تو اسے خط لکھتے اور اس میں اسے اس طرح خطاب فرماتے کہ ’’اے خلیفۂ وقت! عبدالقادر تجھے یہ حکم دیتا ہے۔‘‘ آپ کا یہ طرزِ تخاطب اس لیے تھا کہ حقیقی بادشاہ آپ ہی تھے جنھیں اللہ نے لوگوں کے ظاہر اور باطن پر حکمرانی عطا کی تھی۔ خلیفہ المستنجد باللہ ابوالظفر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دینار کی تھیلیاں نذرانے کے طور پر آپ کی خدمت میں پیش کیں۔ آپ ہدیہ اور نذرانہ قبول فرماتے تھے، اس لیے کہ نذرانہ قبول فرمانا حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت ہے اور پیش کرنا صحابہ کی سنت ہے۔ حضور ﷺ تحائف رد نہیں کرتے تھے، دل شکنی نہیں کرتے تھے، کوئی دعوت دیتا تو قبول فرماتے تھے لیکن حضور غوث الاعظمؓ نے خلیفۂ وقت سے دیناروں کی بھری ہوئی تھیلیاں لینے سے انکار کردیا۔ اس نے اصرار کیا، آپ نے پھر انکار کردیا، اس کے زیادہ اصرار پر آپ نے دونوں تھیلیوں کو دائیں اور بائیں ہاتھ میں پکڑا اور ان تھیلیوں کو نچوڑا۔ دیناروں کی تھیلیوں سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ آپ نے اس وقت بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ظالم خلیفہ تجھے شرم نہیں آتی۔ غریب لوگوں کا خون چوس کر میرے پاس نذرانہ بناکر لایا ہے۔ خدا کی قسم مجھے آل رسول کا احترام نہ ہوتا تو تھیلیوں کو اتنا نچوڑتا کہ اس کا خون تیرے محلات تک پہنچ جاتا۔
محی الدین کے لقب کا عطا کیا جانا
اللہ رب العزت نے آپ کو محی الدین کے لقب سے سرفراز فرمایا۔ اس لیے کہ دین کو زندہ کرنا اور دین کی تجدید کرنا شانِ استغناء کے بغیر ممکن نہیں۔ جو لوگ در بدر بھکاری بنے پھرتے ہیں، وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کو رسوا کرتے ہیں، دین کو زندہ نہیں کرسکتے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جمعہ کے دن مسجد کی طرف جا رہا تھا کہ ایک ضعیف کمزور دبلا پتلا شخص راستے میں بیٹھا تھا، اس نے مجھے سلام کیا اور کہا: عبدالقادر! مجھے اٹھالے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھالیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی صحت بحال ہوگئی، چہرہ توانا ہوگیا اور تازگی واپس لوٹ آئی۔ اس نے پوچھا: مجھے پہچانا ہے؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو وہ کہنے لگا: عبدالقادر! میں تیرے نبی کا دین ہوں اورمیں اس دور میں مردہ ہورہا تھا۔ اللہ نے تیرے ذریعے مجھے تازہ زندگی عطا کردی ہے۔ تو محی الدین ہے۔ یعنی دینِ مصطفوی کو زندہ کرنے والا ہے۔
آپ کو اللہ رب العزت کی طرف سے ملنے والے اس لقب کے بعد جب آپ بغداد کی جامع مسجد پہنچے، جہاں ہزاروں کا اجتماع تھا تو ہر شخص کی زبان پر ’’یامحی الدین یا محی الدین‘‘ تھا۔ اللہ نے ہر شخص کے دل میں یہ القاء کردیا کہ آپ دینِ مصطفوی کو زندہ کرنے والے ہیں۔
حضور غوث الاعظمؓ نے اپنی زندگی میں ہی اسلام کو زندہ نہیں کیا بلکہ وصال کے بعد بھی آپ کا روحانی تصرف اتنا کامل تر رہا کہ جب تاتاریوں نے سلطنتِ اسلام کو تباہ و برباد کردیا تھا تو اس کے تباہ و برباد ہوجانے کے بعد اسلام کی شمع پھر سے سیدنا غوث الاعظمؓ کے روحانی فیضان سے ہی روشن ہوئی۔
حضور غوث الاعظمؓ کی شانِ محبوبیت
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اللهُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَیَهْدِیْٓ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ.
(الشوریٰ، 42: 13)
’’اللہ جسے (خود) چاہتا ہے اپنے حضور میں (قربِ خاص کے لیے) منتخب فرما لیتا ہے اور اپنی طرف (آنے کی) راہ دکھا دیتا ہے (ہر) اس شخص کو جو (اللہ کی طرف) قلبی رجوع کرتا ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے پہلے حصے میں اللہ کے محبوب اور چنیدہ لوگوں کا ذکر ہے کہ اللہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے منتخب فرمالیتا ہے اور دوسرے حصے میں فرمایا کہ مخلوق میں سے جو اس کی طرف آنے کی کوشش کرتا ہے، دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو وہ اس کے لیے دروازہ کھول دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ آجا! یہ راستہ میری طرف آتا ہے۔ یعنی مجھے حاصل کرنے کے لیے محنت کرنے والے، تیری محنت رائیگاں نہیں جائے گی، تو میرے پاس آنا چاہتا ہے تو یہ راستہ میری طرف آتا ہے۔ پس اللہ کے بندوں کے دو راستے ہوئے:
- راهِ جذب
- راهِ سلوک
ایک بندہ وہ ہے جسے صدق، اخلاص، زہد کی وہ دولت عطا ہوتی ہے کہ اللہ کی نگاہ اس بندے کو خود چن کر اپنی بارگاہ تک پہنچادیتی ہے۔ اس راہ کو راهِ جذب کہتے ہیں۔ اس جذب سے مراد مجذوبیت نہیں کہ ہوش و حواس ختم ہوجائیں بلکہ اس سے مراد قربِ الہٰی کا ایک راستہ ہے۔
ایک بندہ وہ ہے جو اس کی طرف جانے اور اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے محنت، ریاضت اور مجاہدہ کرتا ہے، اللہ اسے بھی اپنی طرف آنے کا راستہ بتلادیتا ہے۔ جو خود راستہ پوچھ کر آتا ہے، اس کی راہ کو راهِ سلوک کہتے ہیں۔
راهِ جذب اور راهِ سلوک کا فرق اس مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی بھی لوہے کے ٹکڑے کو مقناطیس بنانے کے دو طریقے ہیں:
1۔ لوہے کا ٹکڑا لے کر اس کو زور زور سے مقناطیس کے ساتھ رگڑنا شروع کردیں۔ مقناطیس کے ساتھ مسلسل رگڑتے رہیں، محنت کرتے رہیں تو رفتہ رفتہ اس رگڑ کی محنت سے اس لوہے کے ٹکڑے میں بھی مقناطیسی اثر پیدا ہوجاتا ہے۔ اب اگر اسے مقناطیس سے جدا کردیں تو پھر یہ بھی لوہے کے چھوٹے چھوٹے ذرات کو اپنی طاقت کے مطابق کھینچے گا۔ یہ راهِ سلوک کی مثال ہے کہ محنت و ریاضت سے کچھ اثر پیدا ہوگیا۔
2۔ مقناطیس بنانے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لوہے کے ٹکڑے کو مقناطیس کے ساتھ رگڑنے کے بجائے بڑی طاقت کے مقناطیس کے ساتھ اس لوہے کے ٹکڑے کو جوڑ دیں، رگڑنا نہیں بلکہ اسے صرف مقناطیس کے ساتھ ملانا ہے۔ اب اس لوہے کے آگے بھی لوہے کے جتنے ٹکڑے رکھیں گے، یہ لوہے کا ٹکڑا ان لوہے کے ٹکڑوں کو بھی کھینچ لے گا۔ اب اس میں طاقت رگڑ سے نہیں آئی بلکہ اس کی طاقت اس مقناطیس سے براہ راست آرہی ہے۔
پہلے طریقے میں مقناطیس کا اثر رگڑ کی محنت سے ہے جبکہ دوسرے طریقے میں مقناطیس سے مل جانے سے اثر پیدا ہوا۔ وہ لوگ جو محنت و مشقت کرتے ہیں، ان کے لیے فرمایا:
وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا.
(العنکبوت، 29: 69)
’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔‘‘
اور وہ لوگ جنھیں منتخب کرلیا جاتا ہے، ان کے لیے فرمایا:
اَللّٰهُ یَجْتَبِیْ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ.
ان لوگوں کو رگڑ کی محنت کی بھی حاجت نہیں ہوتی، انہیں ریاضت اور مشقت کے مرحلوں میں سے بھی نہیں گزارا جاتا، بس وہ اللہ کی نظر میں آجاتے ہیں اور اللہ انھیں خود اپنی بارگاہ کے ساتھ ملا دیتا ہے اور وہ انھیں اپنا وصال عطا کرتاہے۔ بارگاہ ربوبیت کا اثر ان کے جسم سے گزرتا ہے جو براهِ راست دنیا کو کھینچنے لگتا ہے۔
پس جو لوگ راهِ سلوک سے آتے ہیں انہیں مرید کہا جاتا ہے اور جو راهِ جذب سے آتے ہیں انہیں مراد کہا جاتا ہے۔۔۔ جو راهِ سلوک سے آتے ہیں وہ طالب کہلاتے ہیں اور جو راهِ جذب سے آتے ہیں انہیں مطلوب کہا جاتا ہے۔۔۔ جو راهِ سلوک سے آتے ہیں وہ محب ہوتے ہیں جو راهِ جذب سے آتے ہیں وہ محبوب گردانے جاتے ہیں۔۔۔ جو راهِ سلوک سے آتے ہیں وہ منتظِر رہتے ہیں اور جو راهِ جذب سے آتے ہیں وہ منتظَر کہلائے جاتے ہیں۔
عبد دیگر عبدہ چیزے دیگر
ایں سراپا انتظار او منتظَر
یعنی کچھ وہ ہیں جو صبح و شام اس کی طرف تکتے رہتے ہیں اور کچھ وہ ہیں کہ صبح و شام وہ ان کی طرف تکتا رہتا ہے کہ میرے بندے! تو زبان کھول تو سہی، تو خواہش کر تو سہی، میں لکھی ہوئی تقدیر کو مٹا ڈالوں گا، تو ہاتھ اٹھا تو سہی، میں لوح محفوظ پر ویسا ہی لکھ ڈالوں گا، جو تو مانگے گا۔ اس لیے کہ یہ سب کچھ میرے بندوں کے لیے ہے، میں تو ان چیزوں سے بے نیاز ہوں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ ج وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ.
(الرعد، 13: 39)
’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔‘‘
وہ ذات جو لکھا ہوا مٹادیتی ہے اور نہ لکھی ہوئی تقدیر کو لکھ دیتی ہے، اس ذات کا نام اللہ ہے۔ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ لکھی ہوئی تقدیر کو مٹا کیوں دیا اور نہ لکھی تقدیر کو لکھ کیوں دیا؟ کبھی ہم نے یہ سوچا کہ لکھی ہوئی تقدیریں اگر مٹائی نہیں جاسکتیں تو قرآن کیوں کہہ رہا ہے کہ اللہ چاہے تو لکھی ہوئی تقدیر کو مٹادیتا ہے۔
اگر ایسا نہ ہوسکتا ہو اور کہا جائے کہ یہ ہوسکتا ہے تو معاذ اللہ یہ بات درست نہ ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ وہ لکھی ہوئی تقدیروں کو مٹاتا کیوں ہے؟ اسے مٹانے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ کیا اسے پہلے معلوم نہ تھا۔ (معاذ اللہ استغفراللہ) کیا پہلے غلطی سے لکھا گیا اور بعد میں اصلاح کی ضرورت محسوس ہوئی؟ نہیں، بلکہ وہ ذات تو غلطی سے پاک ہے، ہر حاجت اور ضرورت سے پاک ہے، اسے نہ لکھی ہوئے کو مٹانے کی حاجت اور نہ لکھے ہوئے کو لکھنے کی حاجت ہے۔ وہ تو ہر حاجت سے بلند ہے لیکن قرآن کہتا ہے کہ وہ لکھے کو مٹاتا بھی ہے اور نہ لکھے کو لکھتا بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ بے نیاز ہے تو وہ یہ سب کس کی خاطر کرتا ہے؟
درحقیقت وہ اپنے اس بندے کی خاطر کرتاہے جس سے وہ محبت کرتا ہے کہ بندے مجھے تو لکھنے اور مٹانے کی حاجت نہیں۔ اگر تو لکھوانا چاہتا ہے تو بول ام الکتاب تو میرے پاس ہے، میں لکھنے والا ہوں، جو کہے گا، لکھ دوں گا۔ اسی طرح اگر تو مٹانا چاہتا ہے تو بول، ہاتھ اٹھا کر میری بارگاہ میں دعا کر، میں لکھی ہوئی تقدیر کو مٹادوں گا۔ پس یہ لوگ وہ ہیں جنھیں وہ اپنا محبوب بناتا ہے اور اپنی بارگاہ میں رتبہ محبوبیت عطاکرتا ہے۔
سیدنا غوث الاعظمؓ اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدہ بندوں میں سے ہیں جنہیں اولیاء کرام نے باصراحت لکھا کہ آپ رتبۂ محبوبیت پر فائز ہیں۔ یہ مقامِ محبوبیت وہ ہوتا ہے کہ جہاں بندہ اپنے رب سے لاڈ کرتا ہے۔ محبوبیت کو اس مثال سے سمجھیں کہ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے سے بے حد محبت کرے یا کوئی دوست اپنے دوست سے بے پناہ پیار کرے تو اس محبت و پیار میں وہ اس کے ناز و نخرے برداشت کرتا ہے، اس کا دل توڑنے کو دل نہیں چاہتا اور اس کی بات موڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ اس دنیا میں دنیاوی محبت کرنے والے توکہتے ہیں کہ محبوب تو مانگ! میں ساری کائنات تجھ پر لٹانے کو تیار ہوں۔ یہ ان کا حال ہے جو محبت میں بھی ناقص ہوتے ہیں جن کے پاس تھوڑا ہوتا ہے اور وہ رب جس کے پاس سب کچھ ہے اور جس کی محبت بھی کامل ہے، جب وہ محبت کرتا ہے اور اس سے اس کا محبوب مانگے تو کیا وہ اسے عطا نہ کرے گا۔
سیدنا غوث اعظمؓ رتبہ محبوبیت پر فائز تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر انھوں نے ارادے سے کچھ کہا تو رب نے وہ بھی پورا کیا اور اگر بغیر ارادے سے بھی کچھ کہا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ نے پورا کیا۔
پہلا حال تو یہ ہے کہ آپ نے جب بھی ارادتاً کسی مُردہ کو زندہ ہونے کا کہا تو رب نے اس مُردہ کو بھی زندہ کردیا۔ حضور غوث الاعظمؓ کی سوانح کی جملہ کتب میں ہے کہ آپؓ کی بارگاہ میں ایک عورت اپنے بچے کو تربیت کے لیے لے کر آئی کہ حضرت اس بچے کی تربیت فرمائیں۔ کچھ عرصے کے بعد عورت اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے آئی تو اس نے دیکھا کہ بچہ جو کی روکھی روٹی کھا رہا ہے اور کمزور ودبلا پتلا ہوگیا ہے اور چہرے پر زردی غالب ہے۔ ماں پریشان ہوگئی لیکن خاموش رہی۔ پھر سیدنا غوث الاعظمؓ کی خدمت میں زیارت کے لیے چلی گئی اور دیکھا کہ آپ مرغ کے ساتھ کھانا تناول فرمارہے ہیں۔ اس وقت اس کی مامتا رہ نہ سکی، زبان خاموش نہ رہی اور بول پڑی کہ حضور! یہ فرق دیکھ کر میں چپ نہیں رہ سکتی کہ بچہ آپ کے سپرد کرکے گئی تھی کہ اس کی تربیت کریں، میں توقع کرتی تھی کہ اسے آپ اپنا بیٹا اور اولاد سمجھ کر تربیت فرمائیں گے لیکن وہ جو کی سوکھی روٹی کھا کر اس کمزوری کے حال کو پہنچ چکا ہے اور آپ مرغ تناول فرمارہے ہیں۔
حضور غوث الاعظمؓ نے اس عورت کو وہیں بٹھا لیا اور کھانا کھاتے رہے۔ جب سالن ختم ہوا تو اس مرغ کی ہڈیاں ایک جگہ جمع کیں اور ہڈیوں کو حکم فرمایا:
قم باذن اللہ الذی یحییٰ العظام و هی رمیم.
اللہ کے اذن سے کھڑے ہوجاؤ، وہ جو ہڈیوں کو شکستہ ہونے کے بعد زندہ کردیتا ہے۔
آپ کے کہنے کی دیر تھی کہ مرغا زندہ ہوگیا۔ فرمانے لگے: اے خاتون! جب تیرا بچہ بھی اس مقام پر پہنچ جائے گا تو اسے بھی اجازت ہوگی کہ جو کھانا چاہے تناول کرے لیکن یہ تربیت کے مرحلے ہیں۔ ان مع العسر یسرا کے مصداق ان مشقتوں سے گزرے بغیر ان حالتوں کو نہیں پہنچا جاتا۔ ہم بھی اس مقام پر اس کے فضل سے ہی پہنچے ہیں لیکن ہم نے بھی یہ مشقتیں برداشت کی ہیں۔ 24 برس جنگلوں میں درختوں کے پتے کھائے۔۔۔ سالہا سال بھوک برداشت کی۔۔۔ گیارہ سال مراقبے کیے اور بھوک کی کثرت کی وجہ سے بارہا بے ہوش ہوگئے۔۔۔ ہزارہا تکالیف برداشت کیں۔۔۔ چالیس برس راتوںکو جاگے۔۔۔ راتوں کو کھڑے ہوکر قرآن مجید کی تلاوت کی۔۔۔ ان مشقتوں سے گزرے تو غوثیتِ عظمیٰ تک پہنچے۔ تیرا بچہ جب یہ مرحلے طے کرے گا تو وہ بھی یہاں تک آجائے گا۔
حضور غوث الاعظمؓ کا یہ تصرف ارادی سطح پر تھا کہ آپ جو ارادہ کرتے تو وہ کام اسی طرح ہوجاتا مگر آپ کی شانِ محبوبیت اس سے بھی بڑھ کر تھی کہ اگر بغیر ارادہ بھی زبان سے کوئی بات نکل جاتی تو اللہ تعالیٰ وہ بھی پورا کردیتا کیونکہ ارادہ نہ سہی لیکن زبان تومحبوب کی ہے۔
ایک دفعہ سیدنا غوث الاعظمؓ کی تقریر فرمارہے تھے کہ اس دوران ایک چیل اجتماع کے اوپر آئی اور چیخ و پکار کرنے لگی۔ اس سے ایک شور مچ گیا اور لوگ ادھر متوجہ ہونے لگے، کافی پریشانی ہوئی۔ دوران تقریر غیر ارادی طور پر، بے خیالی میں اور جلال کی کیفیت میں آپ کی زبان سے نکلا:
مالک قطع اللہ عنقک.
تجھے کیا ہے اللہ تیری گردن کو قلم کردے۔
جونہی آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تو چیل تڑپتی ہوئی زمین پر گر پڑی اور مرگئی۔ اجتماع ختم ہوگیا، آپ گھر تشریف لے جانے لگے تو گزرتے ہوئے دیکھا کہ چیل زمین پر مری پڑی ہے۔ لوگوں سے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے؟ عرض کی: حضرت آپ کی زبان سے دورانِ تقریر یہ الفاظ نکل گئے تھے کہ تجھے کیا ہے، تیرا سر قلم ہوجائے۔ فرمانے لگے: واللہ! ہمارا ارادہ یہ نہ تھا کہ اس پر موت وارد ہو۔ اسی وقت اسے ٹھوکر لگائی اور فرمایا: اڑ جا، تجھے ہم مارنا نہیں چاہتے۔ آپ کے قدم مبارک کے مَس ہونے کی دیر تھی کہ چیل اسی وقت زندہ ہوکر اڑ گئی۔
خدا کی ذات زندگی دینے والی بھی ہے اور موت وارد کرنے والی بھی ہے مگر اللہ کا بندہ جب رتبۂ محبوبیت پر فائز ہو تو اس کی زبان سے کسی کی موت کا لفظ نکل جائے تو اس بندہ پر موت کی کیفیت وارد ہوجاتی ہے اور اگر حیات کی دعا زبان سے نکل جائے تو خدا حیات عطا کردیتا ہے۔ اس لیے کہ مُردوں کو زندہ کرنا اور زندوںکو مارنا ہمارے لیے تو ناممکن ہوگا لیکن رب کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے اور وہ اپنے محبوبوں کی زبان سے نکلے ہوئے لفظ کی لاج رکھتا ہے۔ دیگر اولیاء جہاں اپنے کمال کا افشاء نہیں کرسکتے، وہاں رتبہ محبوبیت کا حامل ولی اپنا جو کمال چاہے، بیان کرے۔ رب کہتا ہے کہ محبوب جب تو ہمارا لاڈلا ٹھہرا تو اب جو کمال اور تصرف چاہے بیان کر، تیرے کمال کو سلب نہیں کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور غوث الاعظمؓ ببانگ دہل اپنے کمالات اور تصرفات کو بیان فرمارہے ہیں اور ہزاروں کے اجتماع میں فرمایا:
قدمی هٰذه علی رقبة کل ولی اللہ.
میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔
یہ رتبہ محبوبیت ہے کہ آپ کو نسبتِ عبدیت اور ولایتِ محمدی عطا ہوئی۔ اس لیے اپنی نسبت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
وَکُلُّ وَلِیٍّ لَه قَدَمٌ وَاِنّی عَلیٰ قَدَمِ النَّبِیِّ بَدْرِ الْکَمَالِ.
ہر ولی کسی نبی علیہ السلام کے قدم پر ہوتا ہے اور بے شک میں نبی ﷺ کے قدمِ اقدس پر ہوں جو آسمانِ کمال کے بدرِ کمال(یعنی مکمَّل چاند) ہیں۔
دعا ہے کہ ہم حضور غوث الاعظمؓ اور اولیاء کے مقام کو سمجھ سکیں اور ان کی محبت و عقیدت اور تعلیمات کی روشنی سے اپنے دلوں کو منور کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی راہ پر ثابت قدمی سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ